Saturday, February 19, 2011

پھنس گئے بچّو

ادھر عرب دنیا میں حالات نہایت دلچسپ تبدیلیوں سے گذر رہے ہیں  اور محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔ ادھر ہمارے یہاں ریمنڈ ڈیوس کا مسئلہ امریکہ اور پاکستان دونوں کے لئے سانپ کے حلق میں اٹکی چھچھوندر بن گیا ہے، نہ اگلتے بنے نہ نگلتے بنے۔  یعنی کیا بنے بات، جہاں بات بنائے نہ بنے۔
یہ معاملہ اپنی بنیاد ہی میں بڑا عجیب ہے۔ ایک امریکی شخص لاہور کے مصروف علاقے میں دن دھاڑے دو افراد کو فائرنگ کر کے قتل کر دیتا ہے۔ تحقیقات سے یہ مشاہدات سامنے آئے کہ امریکی شخص کی گاڑی میں جدید اسلحہ تھا، اسکے علاوہ مختلف نقشے اور دیگر چیزیں تھیں جن سے اس اندازے کو تقویت ملتی ہے کہ موصوف کا تعلق امریکن انٹیلیجنس ایجنسیز ہے۔ 
لیکن کچھ باتیں جو عجیب لگتی ہیں کہ مارے جانے والے افراد کے پاس بھی اسلحہ موجود تھا۔ جو کہ لائیسنس یافتہ تھا۔ لیکن یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ دو نوجوان اسلحہ لیکر موٹر سائیکل پہ کیوں پھر رہے تھے جو امریکن کے ہاتھوں مارے گئے۔
حالات کہتے ہیں کہ مبینہ امریکی شخص جسکا نام ریمنڈ ڈیوس بتایا جاتا ہے اور اسکے اس نام پہ بھی شبہ ہے کہ اصلی نہیں ہے۔ کیونکہ انٹیلیجنس ایجنٹس کے اصلی نام شاید انہیں خود بھی یاد نہ رہتے ہوں۔ اس نے اپنی گاڑی سے ان نوجوانوں پہ اس طرح فائرنگ کی کہ وہ کھڑے ہوئے تھے اور زیادہ تر گولیاں پیچھے سے یا اطراف سے لگیں۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ لوگ آگے بالکل بے خبر کھڑے تھے تو ریمنڈ ڈیوس کو ایسی کون سی ضرورت پڑی کہ اس نے ان پہ اس طرح گولی چلا دی۔ وہ پاگل نہیں ہے۔ اگر وہ پاگل ہوتا تو قتل کے اس مقدمے میں سے اس کا نکلنا آسان ہوتا  پاگل مجرم کو پاگل خانے بھیجا جاتا ہے ۔
تو یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ اور اندازہ کہتا ہے کہ ان دو نوجوانوں کو چارے کے طور پہ ریمنڈ ڈیوس کے آگے ڈال دیا گیا۔ ڈالنے والوں کو اندازہ تھا کہ بات اسی طرح چلے گی جس طرح کے وہ ہمارے سامنے آئ یعنی وہ ماریں جائیں گے۔ یوں اس معاملے میں ایک اور قوت کی موجودگی سونگھی جا سکتی ہے۔
ریمنڈڈیوس کے ہاتھوں پیش آنے والا یہ واقعہ بادی النظر میں اچانک پیش آنے والا واقعہ نہیں لگتا۔
اس واقعے کے اثرات کیا ہوئے؟
یہ پتہ چلا کہ ریمنڈ ڈیوس کے پاس سے جی پی ایس چپس بر آمد ہوئے جنہیں فاٹا کے علاقے میں پتھری کہا جاتا ہے۔ یہ پتھری دراصل ڈرون حملوں کے ٹارگٹس متعین کرتی تھی۔ یوں ایک متوقع بات یہ ہوئ کہ ریمنڈ کے جیل میں پہنچنے کے بعد سے ڈرون حملے نہیں ہوئے۔
اس میں کوئ شک معلوم نہیں پڑتا کہ  ریمنڈ ڈیوس امریکن مفادات کے لئے پاکستان میں ایسے کام کر رہا تھا جو پاکستان کے مفاد میں نہیں جاتے۔ یوں ریمنڈ کو ایسے مقدمے میں ٹریپ کر لینا جس سے اس کا بچ نکلنا ممکن نظر نہیں آتا  اس سے کس کو ہمدردی ہو سکتی ہے۔ صیاد کبھی کبھی اپنے دام میں آجاتا ہے۔ اس عالم میں صیاد سے ہمدردی، اسکا ماضی اور حال دیکھ کر کی جاتی ہے۔
اب عالم یہ ہے کہ امریکن حکومت اسے اپنا ایجنٹ قبول نہیں کر سکتی اور اسے اس طرح بے یار و مددگار چھوڑا بھی نہیں جا سکتا۔  میرا ذاتی مشورہ تو انہیں یہی ہے کہ جس طرح جنرل ضیاءالحق کو مروانے کے لئے ایک امریکی سفارت کار کی قربانی دی گئ۔ امریکہ اگر دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنا چاہتا ہے تو اسے ایک دفعہ پھر اپنے ایجنٹ کی قربانی دینی پڑے گی بلکہ امریکن نیک نامی اسی میں ہے کہ وہ ریمنڈ ڈیوس پہ پاکستانی عدالت میں مقدمہ چلنے دے اور عدالتی فیصلہ کا انتظار کرے اور جو بھی فیصلہ سامنے آئے اسے کھلے دل سے تسلیم کرے۔  چاہے وہ اسے پھانسی دینے کا ہو۔ امریکہ اس معاملے میں جتنا دباءو ڈالے گا اتنا ہی یہ اس کے لئے نقصاندہ ہو گا خاص طور پہ پاکستانی عوام میں امریکن تائثر کے لئے۔
میں لوگوں سے پوچھتی ہوں آخر امریکہ ایسا کیوں نہیں کرتا۔ آخر وہ ریمنڈ ڈیوس کو بچانے کے لئے ہر جائز اور ناجائز طریقہ کیوں استعمال کرنا چاہتا ہے۔ جان کیری صاحب پاکستان پہنچتے ہیں۔ مقتولین کے ورثاء کو خون بہا دینے کی باتیں ہو رہی ہیں ہلیری کلنٹن ناراض ہیں کہ پاکستان کو اینٹی امریکہ جذبات کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئیے۔
جواب ملتا ہے کہ یہ امریکہ کے لئے انتہائ شرمندگی کی بات ہوگی کہ اسکی انٹیلیجنس کا شخص اور وہ اسے بچا نہ سکے۔ اس طرح تو انکی انٹیلیجنس کی دہشت اور رعب بالکل ختم ہو جائے گا۔
لیکن لگتا ہے کہ امریکنز نے اردو کا یہ محاورہ نہیں سنا کہ وہ دن گئے جب خلیل خاں فاختہ اڑایا کرتے تھے۔ آجکل امریکنز  کا عالم یہ ہے کہ اپنے کان پہ بیٹھی مکھی نہیں اڑا سکتے۔ آخر اب لوگ ان کے دباءو میں کیوں آئیں۔
دوسری طرف وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان انکا اہم اتحادی ہے۔ اسکو آنکھیں دکھانے کا وقت اب گذر چکا ہے۔
یہی بات، پاکستانی حکومت کو بھی سمجھنی چاہئیے۔ دہششت گردی کی اس جنگ میں ہمیں امریکہ کی ضرورت اتنی نہیں جتنی ضرورت امریکہ کو ہماری ہے۔
خیر،اب اگر پاکستان ریمنڈ ڈیوس کو عدالت کے حوالے کر کے آرام سے ہے توامریکہ زیادہ سے زیادہ کیا کر سکتا ہے۔
آپکا کیا خیال ہے؟
کیا امریکہ، ریمنڈ ڈیوس کو خود ہی مروادے گا تاکہ پاکستانی مزید نہ جان سکیں؟
ریمنڈ ڈیوس کو اگرعدالت پھانسی کی سزا دیتی ہے تو کیا امریکہ اسے قبول کر لے گا؟
کیا اس وجہ سے امریکہ اور پاکستان کے درمیان جنگ چھڑ سکتی ہے؟
کیا دنیا بھر میں پیش آنے والے واقعات کے تسلسل میں امریکہ ریمنڈ ڈیوس کے مسئلے پہ پاکستان سے جنگ کر سکتا ہے؟
یہ خفیہ قوت کون ہو سکتی ہے جس نے ریمنڈ ڈیوس کے لئے ان دو نوجوانوں کا بند و بست کیا؟
-
-
-
کہہ سکے کون کہ یہ جلوہ گری کس کی ہے
پردہ چھوڑا ہے وہ اس نے کہ اٹھائے نہ بنے

11 comments:

  1. میرا گمان ہے کہ مقتولین پاکستانی خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار تھے جو ریمنڈ ڈیوس کے معمولات کی سن گن لینے کے لئے اس کے گرد منڈلا رہے تھے۔ ریمنڈ ڈیوس کو شک گزرا یا خطرہ محسوس ہوا اور اس نے فائر کھول ڈالا۔ اگر معاملہ اسی طرح ہے تو پھر ریمنڈ ڈیوس کو آڑے ہاتھوں لینا پاکستانی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کے وقار کا مسئلہ ہے۔
    قرین القیاس یہی معلوم ہوتا ہے کہ معاملے کو عدالت میں چلنے دیا جائے گا۔ ملزم کو سزا کم سے کم ہوگی۔ اور پھر پس پردہ کوئی ڈیل کرکے اسے امریکہ روانہ کردیا جائے گا۔
    جہاں تک اس مفروضے کا تعلق ہے کہ آیا کوئی قوت ریمنڈ ڈیوس کے مسئلہ پر پاکستان میں کوئی تبدیلی لانا چاہتی ہے تو اس سے ذیادہ سے ذیادہ حکومت تبدیل ہوسکتی ہے۔ انقلاب وغیرہ پاکستان میں ممکن نہیں۔رہا مشرق وسطیٰ کا انقلاب تو وہ اس وقت تک دُور رَس نہیں ہوسکے گا جب تک یہ اپنے گھر یعنی مملکت سعودی عرب تک نہ پہنچ جائے۔

    ReplyDelete
  2. آپ نے بہت اچھا تجزیہ کیا ہے۔
    ریمنڈ ڈیوس امریکہ کے لیے کڑوی گولی بن گیا ہے، نگلنا بھی مشکل اور تھو کرنا بھی بھاری۔ امریکہ کو اس معاملے میں صبر ہی کرنا پڑے گا۔
    میرے خیال میں یہ خفیہ قوت پاکستانی ایجنٹ ہی ہو سکتے ہیں، باقی تو کسی کو اس معاملے میں فائدہ نہیں۔

    ReplyDelete
  3. اس معاملہ کا ایک حیرت انگیز پہلو عالمی برادری کی خاموشی بھی ہے۔ اس سے قبل بارہا یہ دیکھا گیا کہ امریکا کی دیکھا دیکھی دیگر ممالک نے بھی ڈو مور کا مطالبہ کیا، تاہم اس معاملہ پر کوئی امریکی یا پاکستانی موقف کے بارے میں اظہار رائے نہیں کررہا۔

    سنا ہے امریکا چین کے ذریعے پاکستان پر دباؤ ڈلوانے کی کوشش کر رہا ہے۔ لیکن میرے خیال میں اب یہ کوشش میں کار گر ثابت نہ ہوگی۔ معاملہ اب حکومت کے ہاتھ سے نکل کر عدالت میں جا چکا ہے۔ اور حکومت جناب ڈیوس کو سات توپوں کی سلامی دے کر رخصت کرنے کی امریکی خواہش پوری کردیتی ہے تو اس کا مطلب عدلیہ کے ساتھ ایک اور محاذ کھولنا ہوگا۔

    اس کے علاوہ ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری کے بعد ڈرون حملوں اور عبادتگاہوں پر حملے اچانک بند ہوجانے والی باتیں بھی غور طلب ہیں۔

    ReplyDelete
  4. عتیقہ صاحبہ۔۔۔ میرا ایک دوست کہتا ہے کہ آئی ایس آئی، وطن پرستی کے سامنے کچھ بےگناہوں کے خون بہانے سے بھی گریزاں نہیں ہوتی۔۔۔ جہاں انہیں لگتا ہے کہ کچھ جانیں جانے سے ملک کے مفاد میں کچھ ہو سکتا ہے تو وہ کچھ بھی کرنے سے گریزاں نہیں ہوتے۔۔۔
    اب آپ خود ہی دیکھ لیں کہ تین بندوں کی شہادت نے امریکہ کو کیسا دھچکا دیا ہے۔۔۔ اور امریکہ منتوں اور ترلوں پر آ گیا ہے۔۔۔

    ReplyDelete
  5. کمال کا تجریہ کیا ہے آپنے :) میرا ایک مشورہ ہے ۔۔۔۔ خیر چھوڑیں پھر کبھی سہی

    ReplyDelete
  6. آپ نے ايک اہم موضوع کے ساتھ گراں قدر سوالات اُٹھائے ہيں ۔ پہلے ميں واضح کر دوں کے جہاں تک مجھے علم ہے ہماری آئی ايس آئی والے اپنی جان کی قربانی تو دے سکتے ہيں مگر کسی ساتھی ۔ ماتحت يا دوسرے پاکستانی کی قربانی دينا گوارہ نہيں کرتے ۔ يہ کام امريکی ايف بی آئی اور سی آئی اے عام کرتی ہے
    ريمنڈ ڈيوس نے جو کاروائی کی اس کی بنياد
    ماضی ميں پاکستانی حکمرانوں کا رويہ ہے ۔ پرويز مشرف نے امريکيوں کو ملک کے اندر کھُل کھيلنے کی اجازت دے رکھی تھی اور موجودہ حکمرانوں نے اس چھُوٹ ميں اضافہ کيا
    ريمنڈ ڈيوس احساسِ جُرم کا شکار ہوا ۔ اس نے سوچا کہ جہاں سے وہ ہو کر آيا ہے ان جوانوں نے ديکھ ليا ہے اور اب وہ اس کا پيچھا کر رہے ہيں ۔ جبکہ وہ دونوں اپنے کام سے جا رہے تھے ۔ لاہور ميں موٹر سائيکل سواروں کا يہ طريقہ عام ہے کہ وہ آگے نکلنے کی کوشش ميں کاروں کے آگے پيچھے داہنے بائيں جہاں سے جگہ ملے نکلنے کی کوشس کرتے ہيں اور ان کی اکثريت ہر قريبی کار کے اندر جھانک کر گذرتی ہے

    آجکل ذاتی دفاع کيلئے بہت لوگوں نے اسلحہ لائسنس کے ساتھ لے رکھا ہے جو جب وہ گھر سے باہر نکلتے ہيں تو ان کی کمر کے ساتھ بندھا ہوتا ہے ۔ مقتولين کی بيگناہی اس سے ثابت ہوتی ہے کہ دونوں کے پستولوں کی چيمبر ميں گولی نہ تھی اور ايک کے ميگزين ميں بھی گولی نہ تھی

    ReplyDelete
  7. ضیاالحسن صاحب ، آپ کا مشورہ کیا ہو سکتا ہے وہ آپکے بلاگ کی تازہ تحریر سے عیاں ہے۔ آپ نے تو اپنا مشورہ پھر کبھی پہ ڈال دیا۔ میں آپکو ابھی دیتی ہوں۔ لوگوں کے متعلق جانے بغیر اتنی بڑی تقاریر مت لکھا کریں۔ دوئم یہ کہ ایک انجمن برائے در شاباش روشن خیال بنا لیں۔ بہت سے لوگ اسکے منتظر ہیں۔ بلکہ فیس بک پہ ایک صفحہ اسی نام سے بنا لیں۔ اچھا وقت گذرے گا۔ وہاں آپکے ہم خیالوں کے علاوہ کوئ اور ہوگا بھی نہیں۔ آپ درے رسید کرتے رہیں گےاور راوی چین ہی چین لکھے گا۔
    افتخار اجمل صاحب، یہ بات تو اور عجیب لگتی ہے کہ بغیر گولی کا اسلحہ ساتھ لے کر پھر رہے ہیں۔ اور سیکرٹ ایجنٹ اگر کسی شک میں مبتلا ہے تو بجائے اسکے کہ انکا خاتمہ کسی مناسب مقام پہ کرے وہیں درجنوں لوگوں کے سامنے، بھرے دن کی روشنی میں انکے اوپر گولی چلا دیتا ہے وہ بھی ایک دو نہیں، کئ۔

    ReplyDelete
  8. یہ مسئلہ واقعی میں بہت گھمبیرصورت حال اختیارکرگیاہےاورمیں افتخاربھائی کی باتوں سےمتفق ہوں۔ واقعی میں ہماری انٹلیجنس کایہ طریقہ کارنہیں ہےکہ کسی کوآگےکرکوئی فائدہ اٹھایاجائے۔باقی ریمنڈڈاس کوچاہیےکہ ایک مثال ہےکھسیانی بلی کھمبانوچےوالی بات ہےکیونکہ اب سب کچھ انشاء اللہ ہماری عدالتیں کریں گی اوراللہ تعالی سےامیدہےکہ وہ بالکل انصاف پرمبنی فیصلہ کریں گی۔

    ReplyDelete
  9. عنیقہ دوانگل کے دماغ والوں سے بحث فضول ہوتی ہے!
    :)
    خیر اس خبر کو
    http://ejang.jang.com.pk/2-20-2011/Karachi/pic.asp?picname=3631.gif

    اس کالم کے ساتھ ملا کر پڑھیئے

    http://ejang.jang.com.pk/2-20-2011/Karachi/pic.asp?picname=08_04.gif

    عبداللہ

    ReplyDelete
  10. آپ نے تحرير کيا ہے "يہ بات تو اور عجیب لگتی ہے کہ بغیر گولی کا اسلحہ ساتھ لے کر پھر رہے ہیں۔ اور سیکرٹ ایجنٹ اگر کسی شک میں مبتلا ہے تو بجائے اسکے کہ انکا خاتمہ کسی مناسب مقام پہ کرے وہیں درجنوں لوگوں کے سامنے، بھرے دن کی روشنی میں انکے اوپر گولی چلا دیتا ہے وہ بھی ایک دو نہیں، کئ"

    محترمہ ۔ پستول يا بندوق ميں جو چيز ڈال کر چلائی جاتی ہے وہ کارتوس ہوتا ہے ۔ جب بندوق يا پستول چلتا ہے تو کارتوس کے خول سے گولی الگ ہو کر سفر کرتی ہے اور ہدف کی طرف جاتی ہے
    مقتولين کے پاس کارتوس تھے ايک کے پستول کی ميگزين ميں اور دوسرے کی بيلٹ ميں ۔ جس کی ميگزين ميں کارتوس تھے اُس کی بيلٹ ميں بھی ہو سکتے ہيں

    جہاں تک ريمنڈ ڈيوس کے بھرے بازار ميں موٹر سائيکل سواروں کو نشانہ بنانے کا تعلق ہے ۔ کيا آپ کا خيال ہے کہ ريمنڈ ڈيوس اُن سے کہتا "بچُو ۔ ذرا شہر سے باہر نکلو ۔ ميں تنہاری خبر لوں" ؟
    اندھيروں اور اُجاڑ علاقوں میں وارداتيں صرف مووی فلموں ميں ہوتی ہيں

    ReplyDelete
  11. افتخار اجمل صاحب، میں نے ایک عام بات کی ہے ٹیکنیکل نہیں۔ ایک عام بات میں لفظ کارتوس نہیں گولی استعمال ہوتا ہے۔
    سیکرٹ ایجنٹ کا مطلب ہی یہی ہے کہ وہ جو بھی کام کرے سیکریٹکی کرے یعنی رازدارانہ طریقے سے کرے کہ کسی کو شبہ ہو بھی تو یقین نہ ہو۔ فلموں میں تو بڑھکیں ماری جاتی ہے رازداری کہاں ہوتی ہے۔
    تو یہ کیسا ٹاپ سیکریٹ ایجنٹ ہے حو بھرے بازار میں لوگوں کو نشانہ بنا بیٹھتا ہے۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ