Tuesday, February 22, 2011

ساحل کے ساتھ-۳


شام کے سوا چھ بج رہے تھے جب ہم پسنی سے کوئ بیس کلو میٹر کے فاصلے پہ شادی کور کی چیک پوسٹ پہ پہنچے۔  ٹرک ایل طرف رکا تو تھوڑے ہچکولے کھا کر گاڑی بھی رک گئ۔  ٹرک ڈرائیور نے معلومات درج کروائیں۔ ہماری گاڑی کی حالت تو سب پہ ظاہر تھی۔  تقریباً دو گھنٹے  ٹرک کے ساتھ رینگتے ہوئے ہم نے سوچا کہ ٹرک والوں سے بات کی جائے ہو سکتا ہے وہ ہمیں گوادر تک لے جانے پہ راضی ہو جائیں۔ وہ بھی تو گوادر جا رہے ہیں۔ بس یہ کہ انہیں پسنی میں زیادہ دیر کے لئے نہ رکنا ہو۔ 
سو وہ گاڑی سے اتر کر ان سے باتیں کرنے لگے۔ مجھے اس وقت ڈوبتے سورج کا منظر بے حد اچھا لگا اور میں نے سب بھول کر سوچا کہ اگر فلش آف کر کے لوں تو شاید بالکل ایسا ہی آجائے جیسا نظر آ رہا ہے۔ پہلی تصویر لی۔ اتنی دیر میں وہ واپس آ کر بیٹھے۔ گاڑی کے چلنے تک میں نے ایک اور تصویر لی۔ اور جب گاڑی اسٹارٹ ہو کر چلی ہی تھی کہ پیچھے سے سیٹیوں کی آواز آنے لگی۔
ٹرک اور گاڑی ایک دھچکے سے رکے۔ ایک سپاہی ہماری طرف تیزی سے دوڑتا ہوا آیا۔ آپکی گاڑی سے تصویر لی گئ ہے۔ جی میں گڑ بڑا گئ۔ دیکھے بغیر بھی جان سکتی ہوں کہ پڑوسی مجھے کن نظروں سے گھور رہے ہونگے۔
خیر، میں نے سپاہی محترم سے کہا کہ میں سورج کی تصویر بنا رہی تھی چاہیں تو آپ دیکھ سکتے ہیں۔ اسکے ساتھ ہی میں نے کیمرہ انکی طرف بڑھا دیا۔ اس نے کیمرہ نہیں لیا۔ بس میرے چہرے پہ ایک لحظہ نظر جمائے رہا۔ پھر کہنے لگا کسی یونیفارم والے کی تصویر تو نہیں لی۔ جی نہیں۔ ٹھیک ہے پھر آپ جا سکتے ہیں۔ 'دیکھا آپ سے کہا بھی تھا کہ چیک پوسٹ کی تصویر نہیں لینی ہے۔  شریف آدمی تھا چھوڑ دیا۔ ورنہ خوب درگت بناتے ہیں'۔ 'میں نے چیک پوسٹ کی لی بھی کہاں تھی۔ اسے میری معصومیت کے اعتماد پہ یقین تھا اس لئے چھوڑ دیا'۔ سچ پوچھیں تو کیمرہ بچ جانے پہ میں نے بھی دل میں شکر ادا کیا۔

لاکھ کوشش کی مگر نکل کر ہی رہے،،گھر سےیوسف، خلد سے آدم ، تیری محفل سے ہم

راستے میں ایک جگہ ہمارے محسنین چائے پینے کے لئے رکے اور بالآخر  رات کو گیارہ بجے گوادر سے بیس بائیس میل دورآباد ہماری منزل، مضافاتی آبادی کے باہر ٹرک رک گیا۔  ڈرائیور نے اتر کر آگے جانے والے راستے کا معائینہ کیا اور پھر معذرت کرلی۔ اندر آبادی میں  نہیں جا سکتے۔ روڈ مکمل نہیں بنا ہوا اور ٹرک کے پھنس جانے کا اندیشہ ہے ورنہ ہم ضرور آپکو گھر تک پہنچا کر گوادر جاتا۔
 ہم تو راستے بھر ویسے ہی انکے احسان پہ حیران ہوتے  چلے آرہے تھے۔ اس ویرانے میں سوا دو سو کلومیٹر تک ایک لوڈڈ رینج روور کو کھینچ کر لے جانے کا  احسان اگر دنیا میں کوئ کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے تو وہ شاید ایک بلوچ کا حوصلہ ہی ہو سکتا ہے۔ اس ٹرک میں موجود تینوں افراد بلوچ تھے۔  بلوچ اپنی مہمانداری کے لئے مشہور ہیں اور اپنی وسعت قلب کے لئے بھی۔ پھر آخر ایسا کیوں کہ اس صوبے کے اندر ان لوگوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جائے جو بلوچ نہیں لیکن جو وہاں انکے ساتھ حیات کی سختیوں میں شریک ہونے کے لئے موجود ہیں؟
روڈ کے کنارے کھڑے کھڑے، تھوڑی دیر میں ایک گاڑی نظر آئ۔  سوار بلوچ نے کہا میں آگے ایک کام سے جا رہا ہوں اگر آپ دس منٹ انتظار کر لیں تو واپسی میں میری گاڑی میں جا سکتے ہیں۔ سامان تو ہم پہلے ہی سیٹ کر چکے تھے۔ جتنی دیر ہم وہاں اس کا انتظار کرتے رہے۔ جو بھی گاڑی وہاں سے گذری اس نے ہماری خیریت دریافت کی۔ حسب وعدہ وہ شخص آگیا۔ سردی اتنی نہیں تھی جتنی ہوا تیز چل رہی تھی۔ ضروری سامان  ساتھ لیا اور اس میں بیٹھ گئے۔ گھر وہاں سے  ڈیڑھ دو کلو میٹر سے زیادہ دور نہیں تھا۔
 گھر پہنچ گئے۔ شاید ایک سال کے بعد کھلا تھا۔ ہر چیز پہ  مٹی کی موٹی تہہ جمی تھی۔
مشعل بھی اٹھ چکی تھی۔ اسے جھاڑو دینا اور ڈسٹنگ کرنا بے حد پسند ہے۔ مستقبل میں وہ ماسی بن کر قوم کی خدمت کرنے میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں۔ ہر جگہ اتنی مٹی جمع دیکھ کر انکے دل کی کلی کھل گئ۔ اور اس وقت جبکہ ہم پلان بنا رہے تھے کہ رات کے اس وقت، اتنی تھکی ہوئ حالت میں ہم کیا کیا کر سکتے ہیں وہ بار بار یاد دہانی کرا رہی تھیں کہ وہ اب بڑی اور سمجھدار ہو چکی ہیں اور ہمارے شانہ بشانہ کام کرنے کو تیار ہیں۔ والدین کو اندازہ ہو سکتا ہے کہ  ایک چار سالہ بچے کی ان رضاکارانہ خدمات کو کتنی سختی سے ٹھکرانا پڑتا ہے۔ یوں کام گھٹنے کے بجائے اور بڑھ جاتا ہے۔ 
بہرحال بیڈ روم کی صفائ، صاحب نے سنبھالی، کچن کی میں نے تاکہ کھانا گرم کر کے پیٹ پوجا کی جائے۔  حیات میں شریک ہونا  شاید اسی کو کہتے ہیں۔ مشعل دونوں جگہوں کے درمیان دوڑتی رہیں تاکہ جہاں موقع ملے وہ گھس جائیں اور بزور قوت اپنا حق صفائ حاصل کریں۔ ہماری قسمت کی کمزوری کہ انہیں کہیں سے ایک گندہ کپڑا اور ٹوٹی ہوئ جھاڑو بھی مل گئ تھی۔
صبح کے لئے پروگرام یہ بنا کہ کراچی میکینک کو فون کر کے پہلی بس سے یہاں آنے کو کہا جائے۔ کیونکہ گوادر میں کوئ اچھا مکینک  ملنا ممکن نہیں۔ پھر گاڑی کو گھر کے گیراج تک لانے کا بندو بست ہو۔ پھرگھر کی اچھی طرح صفائ کی جائے۔
اس واضح منصوبے کے بعد ہم نے اپنے اوپر سے دن بھر کی گرد جھاڑی اور ہر اندیشے سے بے نیاز ہو کر بستر پہ پڑ گئے۔ گھر سے چار پانچ گز کی دوری پہ سمندر کی لہریں، ساحل سے راز ونیاز میں مشغول تھیں۔ کہتے ہیں
رات بھر کوئ نہ سوئے تو سنےشور فغاں
چاند کو درد سناتا ہے سمندر اپنا
لیکن ایک لمبے دن کے بعد رات کے ایک بجے تھکن نے ہر جذبہ ء  تجسس کو بھی سلا دیا  تھا یہ ممکن نہ تھا کہ کسی کا درد سننے کے لئے ہم جاگتے رہیں۔ سو اسے لوری سمجھ کر گہرری نیند کے مزے لئے۔


صبح گاڑی گھر تک کیسے پہنچی؟ اس کے لئے وہاں زیرتعمیر جیٹی کا شکریہ کہ اسکی وجہ سے ایک ٹریکٹر مل گیا جو مقامی بلوچوں کی مدد سے اسے کھینچ کر گھر تک لے آیا۔


اب میکینک کا انتظار تھا۔ جو اسی رات تین بجے  آنے والی بس سے پہنچ رہا تھا۔ یہ اس کا گوادر کا پہلا سفر تھا۔ اور وہ خاصہ پُر جوش تھا۔ یوں جیسے کراچی میں کسی ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرنے والے کو تھائ لینڈ جانے کا پیغام ملے۔

جاری ہے

3 comments:

  1. گاڑی سپرگرل کے حوالے کردیتیں۔ کیا پتا وہ کچھ دریافت کر ہی لیتیں۔
    اور گوادر کیا مکمل طور پر محفوظ ہے؟ وہاں بلوچستان کے دوسرے حصوں کی طرح امن و امان کا مسئلہ نہیں ہے کیا؟

    ReplyDelete
  2. عثمان، امن و امان یہ تو ابھی آپکو آگے پتہ چلے گا کہ وہاں اسکی صورت حال کیا ہے۔ البتہ، گوادر یا بلوچستان کے ساحلی علاقے بلوچستان کے اوپر کے علاقے سے اپنے روئے میں الگ ہیں۔

    ReplyDelete
  3. چلیں خیر۔۔۔ خیر خیریت سے پہنچ تو گئے گوادر۔۔۔ یہ واٹر مارکنگ تصویروں میں ایک سائیڈ پر کرنی تھی۔۔۔ عین درمیان میں سینک گوادر لکھ کر زیادتی کی۔۔۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ