Friday, April 1, 2011

شکریہ

دیکھیں لکھنے تو جا رہی تھی سلسلہ، ساحل کے ساتھ، کی اگلی قسط۔ لیکن جتنی دیر میں نئی پوسٹ کے لئے صفحہ کھلتا میں نے سوچا اردو سیارہ دیکھ لوں۔ بس وہاں سے ایک بلاگ پہ گئ۔ اور جب اسکی آخری سطروں تک پہنچی تو لگا کہ میری انگلیوں میں دوران خون اتنا تیز ہو چکا ہے کہ اب میں آج کچھ اور نہیں لکھ سکتی۔ لیجئیے یہ چند لائنیں آپ کے لئے بھی حاضر ہیں۔

جب کسی معاشرے سے عورت کو غائب کردیا جاتا ہے تو زندگی بھی اپنی تمام تر خوبصورتی کے ساتھ آہستہ آہستہ تحلیل ہونا شروع ہوجاتی ہے جس کے نتیجے میں اس معاشرے کا تمدن بھی زندگی کے ساتھ ساتھ تحلیل ہوتا رہتا ہے اور آخر کار ایسی قوم دوسری قوموں کے لیے ” آفت ” بن جاتی ہے، عورت ہر معاشرے کی زندگی کی نبض ہے، جہاں عورت نہیں، وہاں معاشرہ  نہیں۔
یہ لائینز آپ نے پڑھیں۔ اسکے لکھنے والے مصنف مکی صاحب ہمارے مایہ ناز اردو بلاگر ہیں۔ انہوں نے اپنے بلاگ پہ تبصرے کا آپشن بند کر دیا ہے۔  اس لئے مجھے اپنے بلاگ پہ لکھنا پڑ رہا ہے۔ 
تو جناب مکی، آپ اس  کمزور اور خوفزدہ پاکستانی معاشرے  میں زندگی کی بچی کھچی علامتوں میں سے ایک ہیں۔ آپ کا بہت شکریہ۔ 

35 comments:

  1. عنیقہ میں بھی مکی کی یہ پوسٹ اور اس سے اگلی پچھلی پوسٹ پڑھ کر کچھ ایسا ہی سوچ رہا تھا!!!!!!!!!!
    میری طرف سے بھی مکی کا بہت بہت شکریہ اس مید کےساتھ کہ وہ اسی طرح لکھتے رہیں گے،
    تاکہ وہ تمام احمق جو مجھے عنیقہ کی دوسری پہچان سمجھتے ہیں جان سکیں کہ مرد صرف ان کے جیسے ہی نہیں ہوتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!

    ReplyDelete
  2. مختصر سی تحریر میں بہت سے متاثر کن نقاط سمو دیے انھوں نے۔ وہ "پراڈکٹ" والی بات تو خوب کہی۔ جیسے عورت کی عصمت کے نام نہاد محافظ اور مغرب کے نقاد عورت کو پراڈکٹ بنا دینے کا مجرم مغرب کو گردانتے ہیں کچھ اسی طور ان نقادوں نے بھی عورت کے تحفظ عزت کی آڑ میں عورت کو پراڈکٹ بنا ڈالا ہے۔ دراصل دو انتہائیں ہیں یہ۔۔ جو اپنی اپنی اپنی طرز کی تباہی لاتی ہیں۔ اعتدال کا راستہ اپنانا چاہیے اور عورت کی زندگی اور اس کے ذات سے متعلقہ فیصلوں کی مختار عورت ہی ہے اور ہونی چاہیے۔
    مجھے تو آخری سے پہلے والا پیراگراف بہت جاندار لگا جہاں انھوں نے مریضوں کے مرض کی نشاندہی کی ہے۔
    ہماری طرف سے بھی ستائش ادھر ہی وصول کرلیں جی۔

    ReplyDelete
  3. Rightly said... :)
    A man of quality is not threatened by a woman of equality.

    ReplyDelete
  4. عورت کے بغیر زندگی، دنیا اور دنیا کی ہر شے ادھوری ہے۔۔۔ اس میں کوئی شک نہیں۔۔۔

    عبداللہ۔۔۔ تمہیں کس نے کہا کہ لوگ تمہیں عنیقہ صاحبہ کی دوسری پہچان سمجھتے ہیں۔۔۔ ذاتی طور پر میری عنیقہ صاحبہ سے بہت سی باتوں پر اختلاف ہیں۔۔۔ لیکن یہ ماننے میں مجھے کوئی عار نہیں کہ عنیقہ صاحبہ ایک بہترین لکھاری ہیں۔۔۔ اور ان کا لکھنے اور کہنے کا اسٹائل بہت عمدہ اور منفرد ہے۔۔۔ جبکہ تم صرف تبصرے ہی کرتے ہو اور وہ بھی نہایت ہی فضول۔۔۔ تمہارے لکھنے کے انداز سے ہی پتا چل جاتا ہے کہ تم ایک کچے آلو ہو۔۔۔ جس کو صرف ایک اردو مارکہ کمپیوٹر پکڑا دیا گیا اور تم اس کا استعمال ہر دوسرے شخص پر بلاوجہ نکتہ چینی کر کے کر رہے ہو۔۔۔ تمہارا اور عنیقہ صاحبہ کا کیا مقابلہ کہ تمہیں اس کی پہچان سمجھا جا سکے۔۔۔

    ReplyDelete
  5. Yeah Abdullah apkay sub say baray beay hain ya sub say chotay :)

    ReplyDelete
  6. بہت خوبصورت تحریر ہے مکی صاحب کی، جس معاشرے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ تو پاکستان کے چند بڑے شہروں کو چھوڑ کر بقعیہ پورے پاکستان کا یہ ہی حال ہے جہاں عورت کو صرف اور صرف جسم سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان میں ایک جگہ ہے کافرستان جہاں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے ہیں شاید آپ لوگوں کو سن کے حیرت ہو وہاں ایک مقام ایسا بھی ہے جہاں ایک دیوار میں سوراخ کر دیا جاتا ہے لڑکیوں کو اس دیوار کے پیچھے کھڑا کیا جاتا ہے اور اس سوراخ میں سے لڑکی کا صرف ہاتھہ باہر نکالا جاتا ہے لڑکی کی رنگت کے حساب سے اسکی بولی لگتی ہے۔ یہ ہے غیرت کے نام پر خون بہا دینے والوں کا حال، یہ ہے پاکستان کا غیور، با شعور، غیرت مند پاکستانی۔

    ReplyDelete
  7. ميں نے مکی صاحب کی متعلقہ تحرير پر جو تبصرہ کيا ہے پيشگی معذرت کے ساتھ يہاں نقل کر رہا ہوں

    بڑی سطحی تحرير ہے ۔ اول تو يہ اتنا مختصر اور آسان موضوع نہيں ہے ۔ دوسرے اس ميں اخباری پروپيگنڈہ کا زيادہ ہاتھ ہے ۔ ساری دنيا کا درد اپنے سر لينے کی بجائے بہتر ہے کہ اس پر بات کی جائے جو کسی حد تک اپنے بس ميں ہو ۔ ميں خاندان کہوں تو بات ذاتی بن جائے گی ۔ بات شہر سے شروع کرتے ہيں ۔ آپ کراچی ميں رہتے ہيں اور ميں اسلام آباد ميں ۔ دونوں شہروں ميں روشن خيالوں کا چرچا ہے ۔ اسلام آباد ميں تو گاہے بگاہے فائيو سٹار ہوٹلوں ميں عورت کے يا انسانی حقوق کے حق مين ٹی پارٹی يا ڈنر ہوتا رہتا ہے ۔ ايک زمانہ تھا مجھے بھی بُلايا جاتا تھا ۔ ميں ميٹنگ اٹينڈ کر کے چُپکے سے کھسک جايا کرتا تھا تاکہ غيرملکی طاقتوں کا ديا ہوا حرام کا مال ميرے جسم کا ناسور نہ بنے ۔ وہ دن مجھے دعوت ملنے کا آخری دن تھا جب مجھے اظہارِ خيال پر مجبور کيا گيا ۔ ميں نے بغير نام لئے انسان کے خدمتگاروں کی عملی زندگی کے کچھ حقائق پيش کر ديئے پھر کہا "اگر ہم چاہتے ہيں کہ ہمارا شہر صاف ستھرا ہو تو پہلے ہميں اپنے گھر کے اندر اور اس کے سامنے پڑا کوڑا کرکٹ صاف کرنا ہو گا"۔ سامعين بُت بنے ميری تقرير سُنتے رہے اور اتنے دم بخود ہوئے کہ تقرير ختم ہونے کے چند لمحے بعد تک جُنبش نہ کر سکے
    درست کہ عورت کو معاشرے سے نکال ديا جائے تو معاشرہ ختم ہو جائے گا ۔
    ليکن اگر مرد کو معاشرے سے نکال ديا جائے تو کيا معاشرہ قائم رہے گا ؟
    ہو سکے تو مندرجہ ذيل آيات کا مطالعہ کر ليجئے ۔ سورت ۔ 6 ۔ الانعام ۔ آيت 98 ۔ سورت ۔ 8 ۔ الاعراف ۔ آيت 189 ۔ 190 ۔ سورت ۔ 30 ۔ الروم ۔ آيت 20 ۔ 21 ۔

    ReplyDelete
  8. افتخار اجمل صاحب، یہ تو کسی نے نہیں کہا کہ مرد کو ماعشرے سے نکال دیا جائے۔ اور اگر ایک مرد یہ سب لکھ رہا ہے تو یقینی طور پہ اس کا مطلب وہ نہیں جو نتیجہ آپ اخذ کر رہے ہیں۔
    لیکن جیسا کہ ہمارے یہاں روایت پسندوں کی اکثریت ایسے خیالات پیش کرتی ہے جہاں وہ مذہب کو استعمال کرتے ہوئے عورت کی حیثیت کو تقریباً جانور کے برابر ہی سمجھتے ہیں یعنی اگر عورت ایک کتے سے وفاداری سیکھے تو زیادہ بہتر عورت بن سکتی ہے۔
    جہاں دنیا بھر کی اخلاقی باتیں خواتین پہ لاگو ہوتی ہیں اور لاگو کرنے والا مرد کہتا ہے کہ ذرا میرے اوپر صحیح سے ہاتھ پھیرو، ذرا میرے مزاج کو صحیح سے سمجھو تو میں تمہارے لئے بہتر ثابت ہوجاءونگا۔ میری بتائ ہوئ حدوں کے اندر رہو نہیں تو میری غیرت لاوے کی طرح ابلنے لگے گی۔ اور اگر میں دنیا کا بد ترین شخص ہوں تو بھی مجھے برداشت کرو صبر کرو۔ کیونکہ آخرت میں اسکا اللہ کے یہاں بڑا اجر ہے۔
    گستاخی معاف، میرا مءوقف بالکل واضح ہے اور وہ یہ کہ جو مرد صرف خود کو انسان سمجھتے ہیں اور یہ توقع کرتے ہیں کہ انکے معاشرے کی عورت ایک جانور جیسی تابعداری اور وفاداری دکھائے۔ انکے معاشروں میں جانور جنم لیتے ہیں اور وہ معاشرے ہمارے معاشرے کی طرح آفت بن جاتے ہیں۔

    ReplyDelete
  9. بی بی ۔ ميرا عنديہ صرف يہ تھا کہ نہ عورت کے بغير معاشرہ قائم رہ سکتا ہے نہ مرد کے بغير ۔ جن آيات کا ميں نے حوالہ ديا وہ پڑھ ليتيں تو بات واضح ہو جاتی
    آپ نے روائت پسندوں کا ذکر کيا ہے ۔ ميں کبھی بھی ان کا حامی نہيں رہا ۔ انہوں نے اللہ کے دين کو بھُلا کر خود پسند روايات کو اپنا مذہب بنا رکھا ہے اور بدنام دين اسلام کو کرتے ہيں خواہ وہ داڑھی والے ہوں يا بغير داڑھی
    ميں ميں ايک سے زيادہ بار لکھ چکا ہوں کہ عورت کی تذليل کرنے والے يا تو بڑے مالدار وہ لوگ ہيں جو دوسروں کا مال ہڑپ کرنا اپنا حق سمجھتے ہيں يا پھر وہ غريب لوگ جو عورت کو صرف مزدوری کے بعد تفريح کا سامان سمجھتے ہيں
    حدود و قيود جو اللہ نے بنائی ہيں اُن پر مرد ہو يا عورت اگر اپنے آپ کو مسلمان سمجھے تو عمل لازم ہے
    يہ جو اطوار آپ نے خاوندوں کے لکھے ہيں نا ۔ ايسے لوگوں ميں کچھ خامی ہوتی ہے جسے وہ بے ڈھنگے طريقوں سے چھپانے کی کوشش کرتے ہيں ۔ اگر کسی کو متاءثر کرنا ہے تو اپنی تعليم اور اپنے عمل ميں خوبی پيدا کرنا چاہيئے نہ کہ حيوانيت ميں
    آخری بند جو آپ نے لکھا ہے وہ درست ہے ۔ ميں صرف اتنا اضافہ کروں گا کہ يہ بيماری صرف داڑھی والوں ميں نہيں بلکہ بظاہر جديد طرزِ زندگی بسر کرنے والوں ميں بھی ہے

    ReplyDelete
  10. عنیقہ سچ تو یہ ہے کہ ان احمقوں کی ایسی باتیں پڑھ کر پہلے تو مجھے ہنسی آتی کہ کہاں آپ جیسی عالم اور کہاں مجھ جیسا طالب علم!
    پھر مجھے فخر محسوس ہوتا کہ مجھے آپ سمجھا جارہا ہے!

    ویسے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ سارے احمق ایک درجے کے نہیں کچھ ان سے ایک درجہ کم بھی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!
    :)

    ReplyDelete
  11. کتنی مضحکہ خیز بات ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
    میری اتنی فضول باتوں کے باوجود لوگ جگہ جگہ میرا پیچھا کرتے ہیں،تاکہ کسی طرح میری باتوں کا توڑ کرسکیں،
    میری آئی ڈیز ہیک کی جاتی ہیں،
    میرے نام سے فضول اور گندے تبصرے کیئے جاتے ہیں تاکہ میرا امیج لوگوں کی نگاہ میں خراب کیا جائے!

    یہ لوگ کسقدر خوفزدہ اور اندر سے کمزور ہیں،
    آنے والی تبدیلی سے خوفزدہ،حالانکہ تبدیلی تو آکر رہتی ہے وہ بھی اپنی شرائط پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!
    :)

    ReplyDelete
  12. بات اصل مین اتنی ہے کہ مغربی میڈیا نے ایک شور مچایا ہوا ہے کہ پاکستانی اور مسلمان معاشرے میں عورت کی قدرو قیمت نہیں اور سارا تاریک خیالیوں کا گروپ بھیڑ چال چل رہا ہے اسی طرف ، حقیقت تو یہ ہے کہ عورت مرد سے زیادہ ہی طاقت ور ہے اس معاشرے میں، میری امی نے اپنے بچن کا ایک واقعہ سنایا تھا جہاں ایک عورت اپنے شوہر کو پانی والے پائپ سے مارا کرتی تھی اور بچے رویا کرتے تھے کہ ابو کو بچاو۔ اور ایسی بہت سی مثالیں آپ کو مل جائیں گی پاکستانی معاشرے میں عورت کے کردار کے بارے میں ۔ چونکہ پاکستانی میں جہالت خواندگی سے زیادہ ہے اسی لیے مغربی معاشعرے کی طرح اتنی زیادہ عورتیں دفاتر میں نظر نہیں آتیں ورنہ کیا گھروں میں کام کرنے والی عورتیں اپنے مردوں کے شانہ بشانہ گھر چلانے میں ہاتھ نہیں بتا رہیں ؟؟ یا ان کو عورت گنا ہی نہیں جاے گا۔۔۔ آپ کسی پنجاب کے گاوں میں جا کر دیکھیں عورتیں مردوں کے شانہ بشانہ کھیتوں میں کام کر رہی ہوتی ہیں ۔ بات صرف اتنی ہے کہ آپ لوگوں کو ایک سبق پڑھا دیا گیا ہے اور رٹو طوطے کی طرح آپ لوگوں کو وہ پڑھناہے اور رہی بات ایک دو کیسز کی جہاں عورت کے ساتھ ظلم ہوتا ہے تو وہ کوی بڑی بات نہیں مغربی معاشرے میں بھی اس قسم کے کیسز ہوتے ہین ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے ہمارے ہای سکول میں ایک دفعہ ایک اسمبلی تھی جس میں ایک عورت آی تھی اور اسنے اپنی بیٹی کی کہانی سنای تھی جسکو اسکے بواے فرینڈ نے مار دیا تھا اور کس طرح اسکا بواے فرینڈ اس پر ظلم کرتا تھا اور وہ یہ پریزنٹیشن مختلف سکولوں میں دیتی تھی اس حوالے سے ۔ اور یہ اس اکیلی عورت کا کیس نہیں تھا ایسے اور بھی بہت ہیں اور یہ لوگ اب تک ۲۰۱۱ تک اس بارے میں اویرنیس پھیلا رہے ہیں کہ عورت کو کیسے ٹریٹ کرنا ہے ۔

    یہ بات بلکل غلط ہے کہ مرد کو عورت کی قدر نہیں ہے یا وہ عورت کو سمجھتا نہیں ہے ۔

    ReplyDelete
  13. پاکستان میں اور بنگلہ دیش میں عورتیں حکومت کرتی رہی ہیں لیکن مغرب عورت سے اتنا ڈرتا ہے کہ آج تک عورت امریکہ کی صدر نہ بن سکی ۔ انہوں نے کالے کو ووٹ دینا گوارا کر لیا لیکن عورت کو کرسی نہیں دی ۔ اور پھر بات ہم پر کرتے ہیں۔

    ReplyDelete
  14. انکل ٹام، آپ پھر روایت پسندوں کی طرح پاکستانی بات کو مغرب میں لے گئے۔ بات کسی ایک واقعے کی نہیں ہو رہی ایک عمومی صورت حال کی ہے۔ ورنہ پسند کی شادیاں ہمارے معاشرے میں آج سے پاس سال پہلے بھی ہوتی تھیں۔ لیکن عمومی صرت یہی تھی کہ شادی میں خواتین سے انکی کرضی نہیں معلوم کی جاتی۔
    یہ کہنا کہ مغرب میں یہ ہوتا ہے۔ اس سے زیادہ لغو بات نہیں ہو سکتی۔ یہ جاننے کی کوشش کرنی چاہئیے کہ دنیا میں عمومی طور پہ خواین کو کم تر سمجھا جاتا ہے۔ مغرن اس وقت اس صورت میں ہم سے بہتر ہے کہ عورت کم از کم معاشی طور پہ بہتر حالت میں ہے اور وہ اگر چاہے تو بحیثیت انسان اپنی صلاحیتیں استعمال کر سکتی ہیں۔ ہمارے یہاں اس کا انسان ہونے کا حق ہی نہیں تسلیم کیا جاتا ہے اس لئے ہمارا شوہر اپنی عورت کی حدیں متعین کرتا ہے اور اپنی نہیں۔
    کیا وہاں پہ ایک بیمار عورت کے اس بنیادی انسانی جق کا فیصلہ مرد کرتا ہے کہ وہ ہسپتال جائے گی یا نہیں کیا وہاں آپ کو ایسی عورتوں کی کثیر تعداد ملتی ہے جنہیں اپنے گھر سے چار میل کے فاصلے سے اپنے گھر کا راستہ نہیں پتہ ہوتا؟ کیا وہاں پہ ایسی عورتیں ہوتی ہیں جنہیں انکے شوہر انکے والدین کے گھر پھینک جاتے ہوں مدر اسی شوہر سے انکے بچے ہر سال ہوتے ہوں؟ خواتین کا اگواء انکے ساتھ بے شمار قسم کی زیادتیاں جو ہمارے یہاں کسی ذرعیعے تک نہیں پہنچ پاتیں کیا انکے یہاں بھی خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کو رپورٹ نہیں کیا جاتا۔
    کیا وہاں پہ بھی خواتین کی تعلیم و تربیت پہ مردوں کی تعلیم کو ترجیح دی جاتی ہے، خواتین کے کھانے پہ مرد کے کھانے کو، خواتین کی تفریح پہ مرد کی تفریح کو، خواتین کے آرام پہ مرد کے آرام کو ترجیح دی جاتی ہے؟
    محترم یہاں کی رونگٹے کھڑے کر دینے والی صورتحال سے ابھی آپ واقف نہیں ، ابھی آپ روایت پسمدوں کی تصوراتی خوش کن تصویر سے دل بہلاتے ہیں۔
    ۃماری خواتین حکمراں، اپنے نظام کے مردوں کی قید میں رہیں، ان میں سے کسی ایک میں ہمت نہ تھی کہ اپنے ہی کمیونٹی کی خواتین کے لئے کوئ بہتر کام کر جاتیں۔ بے نظیر، کاروکاری کے خلاف بل نہیں لا سکیں۔ خواتین کے حقوق کے لئے کوئ اگر بل لایا تو وہ مشرف تھا۔
    آپ کا نظام، شدت سے مرد کے زیر سایہ ہے اگر مرد سمجھتے ہی کہ اس وقت کسی خاتون کو آگے لا کر واہ واہ وصول کر لی جائے تو وہ کر لیتے ہیں عملی طعر پہ اسکی کوئ حیثیت نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہی ملک میں آپکی واحد مسلم خاتون حکمراں کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے شوہر سے رٹتی تھیں۔
    اور اپنی زندگی کے اخیر میں وہ دونوں تقریباً ایک علیحدہ زندگی گذار رہے تھے لیکن بے نظیر اس سے طلاق نہیں لے سکتی تھیں۔
    عورت اپنی اصل طاقت کے ساتھ حکمرانی کرے تو اندرا گاندھی کو دیکھنا چاہئیے۔ پندرہ سال مسلسل انڈیا کی منتخب حکمراں رہیں۔
    امریک کو چھوڑیں، وہاں الیکشن میں اور بھی بہت سی چیزیں ہوتی ہیں۔ ہلیری کلنٹن محض اس لئے نہیں ہاریں کہ وہ ایک عورت تھیں۔ اسکی اور بھی وجوہات ہیں۔ ورنہ برطانیہ میں مارگریٹ تھیچر کیوں وزیر اعظم بنتیں۔
    مصر کی پانچ ہزار سالہ پرانی تاریخ میں قلو پطرہ ایک کامیاب حکمراں رہی۔ اور اسکی زندگی کی داستان بڑی دلچسپ رہی۔
    خیر، آپ اپنے اس غلط اثر سے باہر آجائیں کہ سوائے ہمارے کسی نے عورت کو حکمراں نہیں بنایا۔

    ReplyDelete
  15. جب ہم مشرق کو مغرب کے ساتھ کمپیر کرتے ہیں تو ہمیں دونوں رخ دیکھنے چاہیے۔ مغرب میں عورت کو دی گئی آزادی سے وہاں کے معاشرے اور خاندانی نظام میں کیا فساد آیا ہے، میں نہیں سمجھتا کہ اسکی تفصیل دینے کی مجھے ضرورت ہے ۔ آج مغر ب میں عورت کو بوائے فرینڈ تو ملتے ہیں خاوند نہیں۔ وہ چند دن اس کے ساتھ کھیلتے اور پھر ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیتے ہیں ۔ وہاں کا اجتماعی سسٹم جانوروں کی طرح آزاد ہوا تو اثرات فیملی سسٹم پر بھی آئے، آج انکے خاندانی نظام کی حالت محض ایک کتیا کے گرانے کی طرح ہے۔ جو بچے جنتی ہے ، تھوڑا کھلاتی پلاتی ہے اور پھر وہ اپنے راستے پر اور یہ اپنے راستے پر۔ آپ ظاہری چاندنی کے پیچھے انکی گھٹن اور ٹینشن کو بھی محسوس کریں ، جائیں وہاں کے اولڈ ہاؤس میں پڑی ہوئی عورت کے دکھ کو محسوس کریں، ، وہاں کی بغیر شادی کے بچے جننے والی لڑکی کو دیکھیں، اس سوسائٹی کے لوگوں کی اندرونی بےچینی کو محسوس کریں۔ مغرب میں عورت ایک کھلونا بن چکی ہے ۔ وہ عورت جو پہلے صرف اپنے خاوند کی خدمت کرتی تھی اور ایک گھر کی زینت تھی ، آج وہ بیسوں مردوں کو خوش کرنے اور انکے آفس کی زینت بننے پر مجبور ہے۔ وہاں ایک جوتی بھی اس وقت تک نہیں بکتی جب تک عورت کو اس کے ساتھ ننگا کرکے نہ کھڑا کردیا جائے، کیا صرف معاشی حالت کے ٹھیک ہونے کے عوض یہ سب کچھ ملنا عقل مندی ہے۔
    لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی
    ڈھونڈلی قوم نے فلاح کی راہ
    روش مغربی ہے مدنظر
    وضع مشرق کو جانتے ہیں گناہ
    یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین
    پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ
    .

    محترمہ آپ اپنے خیالات میں ہی تضاد کا شکار ہیں ، انکل نے مغریی صورتحال آپ کے سامنے رکھی آپ نے ہلکے انداز میں کہہ دیا کہ یہ لغو بات ہے ہمیں عموم کو دیکھنا ہے، ایک طرف آپ مغربی معاشرے کی برائیوں کو واضح نہیں ہونے دیتی اور صرف چندشوخ باتیں پیش کرتیں ہیں اور دوسری طرف مشرقی معاشرے میں موجود لوگوں کی صرف برائیوں کا تذکرہ کرتیں ہیں۔ یہ آپ کا انصاف ہے۔ ؟

    حقیقت میں مسئلہ نہ مشرقی معاشرے کا ہے نہ مغربی کا۔ مسئلہ قانون فطرت سے رو گردانی کا ہے۔ اللہ نے مخلوق کو پیدا کرکے اس کو اپنے منتخب رسولوں کے ذریعے جو نظام دیا ہے، جب تک اس کے مطابق نہیں چلا جائے گا تو ہر جگہ فساد آئے گا ، چاہے وہ مشرق ہو یا مغرب، مدینہ ہو یا واشنگٹن۔ ہم مسلمان ہیں ہمارے لیے مغرب مثال نہیں، ہمارے نبی اور صحابہ کی زندگی مثال ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ اگر دنیا میں کسی مذہب نے عورت کو حقوق دیے ہیں وہ صرف اسلام ہے۔ آپ سارے مذاہب اور قوموں کی تاریخ پڑھ لیں۔ ہمیں مغربی احساس کمتری سے نکلنا ہوگا اور اپنے آپ کو اپنے مذہب کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے دنیا کے سامنے ایک نمونے کے طور پر پیش کرنا ہوگا۔

    ReplyDelete
  16. یہ انکل ٹام جیسے لوگ جب یہ کہتے ہیں کہ یہ لندن میں رہتے ہیں اور پھر ان کی ایسی گفتگو تو یقین ہو جاتا ہے کہ کچھ لوگوں کا تعلیم یا معاشرے کی تبدیلی بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    اس ملک میں عورتوں کو ووٹ ڈالنے کا حق نہیں دیا جاتا،اور جہاں ووٹ ڈالنے کا حق مل جاتاہے وہاں بھی شوہر کی مرضی کے مطابق نہ ڈالیں تو طلاقیں تک ہوجاتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!
    :(

    ReplyDelete
  17. دمنام صاحب، تو کیا مذہب نے اس چیز کی تلقین کی ہے کہ عورت معاشی خودمختاری حاص نہ کر سکے عورت اپنی زندگی کے بارے میں خود فیصلہ کرنے کی مختار نہ ہو سکے۔ تو پھر یہ عورت کا وراثت میں حصہ اور مہر کی رقم یہ سب تو ڈھکوسلہ ہو گیا ایک عورت کو جب یہ نہیں معلوم کہ اسے اپنے حصے کی رقم کیسے خرچ کرنی ہے تو ان سب باتوں کا کیا فائدہ۔
    مجھے نہیں معلوم کہ آپ جیسے عقلمند، کس دلدی کے اوپر ہر وقت مغرب کو سامنے لا کر کھڑا کرتے رہتے ہیں جبکہ آپ کو یہ نہیں معلوم کہ خود آپ کا مذہب آپ سے کیا چاہتا ہے۔ اب آپ کی باتوں پہ دھیان دیا جائے تو لڑکیوں کے اسکول اڑانا بالکل صحیح انہیں تعلیم کی کیا ضرورت، بہشتی زیور کافی ہے ناں۔ ان کی نا گفتہ با صحت کی بات کرنے کی کیا ضرورت، ایک عورت مر جائے تو مرد دوسری عورت سے شادی کر سکتا ہے تیسری چوتھی بلکہ ایک ساتھ چار کر سکتا ہے۔ بیمار عورت کس کام کی۔ عورت کا کام بچے پیدا کرنا ہے اگر وہ ایسا کرنے سے قدرتی طور پیہ معذور ہے تو یہ اسکی معذوری ہے اس پہ مرد صبر نہیں کر سکتا۔ اگر ایک عورت کا شوہر مر جائے تو چاہے وہ دوسری شاید نہ کرنا چاہے لیکن اسے کرنی پڑے گی ورنہ وہ کہاں سے کھائے گی اسکے بچوں کی دیکھ بھآل کیسے ہوگی۔ اگر اسکا شوہر چار پانچ بچیاں چھوڑ کر مرا ہ تو ان بچیوں کی چاہے وہ شادی کے لائق بھی نہ ہوں کسی نہ کسی سے شادی کر دینی چاہئیے، کیونکہ نہ انکی ماں میں سکت ہوگی اور نہ ہی آپ جیسے خیالات رکھنے والے معاشرے میں اس بات کی گنجائش ہوگی کہ وہ انپہں پنپنے کا موقع دے کیونکہ دراصل عورت کو تو صرف شادی کرنے اور بچوں کی پیدائیش کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔
    دراصل آپکی سوچ کی بنیاد مغرب کے مرد کی بنیادی سوچ سے الگ نہیں ہے ۔ یہ ایک ہی سوچ کے دو رخ ہیں۔ جہاں ایک طرف مرد اپنے اوپر کوئ ذمہ داری نہیں لینا چاہتا وہاں دوسری طرف آپ لوگ عورت کو انسان ہی نہیں تسلیم کرنا چاہتے اور خدا کے روپ کسی کو معمولی اختیار دینے کے بھی قائل نہیں۔
    آپکا اپنا طرز عمل کسی انتہا سے کم نہیں۔
    یعنی آپکو یہ بات بری نہیں لگتی کہ، جب عورت بیمار ہو تو وہ اپنے گھر کے مردوں کی طرف دیکھے کہ آیا وہ اس کا علاج کرانے میں دلچسپہ رکھتے ہیں یا نہیں، مردوں کے لئے بازار حسن وائم رہنے میں تو آپکو کوئ تکلیف نہ ہو لیکن اگر کوئ لڑکی یہ کہہ دے کہ وہ پسند کی شادی کرنا چاہتی ہے تو آپ کانپنے لگ جائیں۔
    یہ سب بے کار کی باتیں چھوڑ کر کام کی بات کریں۔
    یہ بات کیجئیے کہ پاکستانی خواتین کی شعوری ترقی کے لئے کیا کرنا چاہئیے، پاکستانی ماءووں کی صجت اور تندرستی کے لئے کیا کرنا چاہئیے، پاکستانی عورتوں کی معاشی خود کفالت کے لئے کیا کرنا چاہئیے۔ پاکستانی عورتوں کو یہ احساس دلانے کے لئے کہ وہ ایک دم جیتی جاگتی انسان ہیں اور ہر انسان اشرف المخلوقات ہے اسکے لئے کیا کرنا چاہئیے؟

    ReplyDelete
  18. مسئلہ یہ ہے عنیقہ کہ کیونکہ میں طاقت ور ہوں اس لیئے مجھ سے کمزوروں کے حقوق کی بات مت کرو!!!!
    چاہے وہ کمزورعورت ہو یا اس ملک میں بستی اقلیت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    اگر یہ سب فرعون خود کو کمزور کی جگہ رکھ کر سوچیں تو ان کے دماغ بھی کھلیں گے اور آنکھیں بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    http://www.voanews.com/urdu/news/pakistan-hindu-minorities-01apr11-119044679.html

    زرا اس پر موجود تبصرے پڑھیئے،

    ReplyDelete
  19. میرے ایک عزیر کی بہن کی شادی امریکہ مقیم پاکستانی فیملی میں ہوئی ہے، بد قسمتی سے کچھہ سالوں بعد ہی طلاق ہوگئی اس دوران اسے امریکی شہریت مل چکی تھی، اب صورت حال یہ ہے کے وہ لڑکی اپنی بیٹی کے ساتھہ تنہا امریکہ میں مقیم ہے اسکے شوہر نے بیٹی لینے کے لئیے کیس کر دیا ہے جو کے امریکہ کی عدالت میں زیر سماعت ہے۔ اتنا سب کچھہ ہونے کے بعد بھی وہ پاکستان آنے کے لئیے تیار نہیں ہے اس کا کہنا ہے کے جو حقوق اور جو سہولیات مجھے بہ حثیت امریکی شہری یہاں حاصل ہیں انکا میں پاکستان میں تصور بھی نہیں کرسکتی، یہاں گورنمنٹ نے مجھے گھر دیا ہے روزگار دیا ہے میری بچی کی تعلیم کے و تربیت کے اخراجات کے لئیے میرے سابقہ شوہر کو پابند کیا ہے، گورنمنٹ نے ہی وکیل دیا ہوا ہے جو میرا کیس لڑ رہا ہے، نہ کوئی دھمکی نا کوئی اغواء غرض یہ کے مجھے کوئی پریشانی نہیں ہے یہاں میں بہت سکون سے ہوں۔ اب زرا تصور کریں یہ ہی طلاق پاکستان میں ہوئی ہوتی تو کیا سلوک کیا جاتا اس لڑکی کے ساتھہ ؟۔ بچی زبردستی اٹھا کے لے جاتا اسکا پاب، دس بیس سال تک عدالت میں کیس چلتا رہتا، گھر وکیل نان نفقہ اور دیگر اخراجات ملنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہونا تھا۔ بد چلنی کے الزامات لگائے جاتے اس بیچاری کا گھر سے نکلنا تک محال کردیا جاتا۔ یہ ہے فرق اسلام کے قلعے میں دئیے گئے شہری حقوق میں اور امریکی شہری کے حقوق میں۔

    ReplyDelete
  20. جناب عبداللہ صاحب میں اصل میں پلا بڑھا ہی مغرب میں ہوں، اور تعلیم بھی یہیں سے حاصل کر رہا ہوں۔ معاشرے کی تبدیلی تو میرے اندر پاکستان جا کر آے گی ۔

    اور رہی ووٹ ڈالنے کی بات تو ایسا آپکے علاقے میں ہی ہوتا ہو گا کہ جیئے الطاف کے نعرے لگانے والے جو عورتوں کو اپنے جلسوں کے لیے زبردستی لے جاتے ہیں گھروں سے ان سے ہی ایسی امید رکھی جا سکتی ہے ۔ ورنہ ہمارے ہاں عورتوں کو نا صرف ووٹ ڈالنے کی اجازت ہے بلکہ انکو اپنی مرضی کے سیاست دان کو ووٹ ڈالنے کی اجازت ہے ۔

    عنیقہ آنٹی میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ یہ چند ایک جگہوں پر جہالت کی وجہ سے ہے یہ صرف عورت کو انسان نہ سمجھنا براے عورت کو انسان نہ سمجھنے کی وجہ سے نہیں ہے ۔ ورنہ جہاں ضرورت ہے وہاں عورتین گھروں میں کام کر کے خود معاشی خود مختاری حاصل کر رہی ہیں ، بس فرق صرف اتنا ہے کہ یہ چھوٹے درجے پر ہے جسکو بی بی سی نہیں دیکھ سکتا ۔

    آپ جن چیزوں کو طرف اشارہ کر رہی ہیں انکو کوی بھی اچھا نہیں سمجھتا ، لیکن انکا روٹ کاز وہ نہیں ہے جو آپ بتا رہی ہیں صرف عورت کے حقوق کا شور مچانے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ جہاں جہالت ہے وہاں تعلیم لیجانی پڑے گی اور جہاں غربت ہے وہاں سے غربت ختم کرنی ہو گی پھر یہ مسائل حل ہوں گے ۔

    میں ایک انگریزی بلاگ پڑھتا ہوں ایک گوری کا جسکا شوہر کراچی کا دیسی ہے اور امریکہ جا کر پی ایچ ڈی کی انکے گھر میں انکی بہن کو کیمرہ باہر لیجانے کی اجازت نہیں تھی ، اب عام طور پر لوگ سمجھیں گے کہ یہ صرف اس وجہ سے ہے کہ وہ عورت ہے لیکن اگر آپ اسکا نفسیاتی جائزہ لیں تو غربت کی وجہ سے لوگوں کے اندر کچھ چیزیں پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہیں جن میں سے یہ بھی ایک ہے ۔

    ReplyDelete
  21. میں نے کب کہا ہے کہ مذہب نے یہ تلقین کی ہے۔ کیا معاشی خودمختاری صرف وہی ہے جو کہ مغرب نے بتائی۔ آپ کو میرا مغرب کو بیچ میں لانا برا لگتا ہے تو آپ مغرب کی مثالیں کیوں دیتیں ہیں۔ اسلام کے بارے میں تو آپ کو معلوم نہیں کہ اس نے عورت کو معاشرے میں کیا عزت، حقوق دیے ہیں آپ کا اسلام کے بارے میں علم بس اس تک معدود ہے کہ اس نے اسے وراثت میں حصہ دے دیا ہے اور حق مہر مقرر کردیا ہے۔اگر آپ کے سند ھ میں یاآپ کے قبیلے میں عورت کے ساتھ وہ کچھ ہورہا ہے جس کی لسٹ آپ ابھی تک دہرا چکی ہیں تو یہ آپ کے اپنے علاقے کے لوگوں کی کمی ہے ۔ سارے معاشرے اور سارے مذہب پر اپنے اس تجربے یا ویو پوائنٹ کو امپوز نہ کریں۔
    پاکستانی معاشرہ پیور اسلامی معاشرہ نہیں ہے لیکن پھر بھی ابھی تک اس کی روایات ، اقدار جن علاقوں میں زندہ ہے ، وہاں عورت ماں، بہن ، بیٹی، بیوی ، نانی ، دادی جیسے ہر رشتہ ، ہر روپ میں مقدس اور محترم ہے۔ اس کی عزت ، اسکی عصمت وحفاظت میں ہی خاندان کی حفاظت سمجھی جاتی ہے۔ جہاں تک عورت کی آزادی کے متعلق اسلامی تعلیم کا تعلق ہے۔ وہ بالکل واضح ہے ۔ مذہب نے صرف عورت کے لیے ہی نہیں معاشرے کے ہر فرد کے لیے قوائد و ضوابط اور حدود مقرر کیں ہیں۔ اسلام نے پرانی تہذیبوں کے مقابلے میں جو حقوق عورت کو دیے اسکو بیان کرنا شروع کروں تو پوری ایک کتاب بن جائے گی ۔ اسلام نے تو عورت کو اس وقت حقوق دیے جب اسکی حیثیت اس وقت کے ہر معاشرے میں ایک حیوان سے بھی بدتر تھی۔ ایک دودھ دینے والی گائے عورت سے بہتر سمجھی جاتی تھی۔ آپ نے عورت کی تعلیم کی مخالفت پر طنز ماری کہ یہاں تو لڑکیوں کے سکول اڑانا بھی صحیح ہوگا۔ میں اسی کے متعلق ہی ادنی سی مثال پیش کرتا ہوں۔ یہ اسلامی تعلیم ہی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے صرف تیس سال بعد حضرت عائشہ اتنی بڑی سکالر بنیں کہ آج احادیث کی کتابوں میں سب سے ذیادہ ریفرینسز حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آدھی زندگی جو کہ گھریلو زندگی ہے ، وہ ساری امی عائشہ کے ذریعے ہم تک پہنچی ہے۔ آپ بغیر اسلامک اتھینٹک سورسز کا مطالعہ کیے بغیر محض ایک طبقہ کے ذاتی فعل و عل کو اسلام اور سارے مسلم معاشرے پر امپوز نہ کریں۔اسلام نے عورت کی تعلیم سے نہیں روکا ، بلکہ کچھ حدود مقرر کیں ہیں۔ حقیقت میں اسلام میں افراط و تفریط نہیں ہے بلکہ توازن اور پابندی ہے۔ ہماری شریعت میں جامعیت ہے، یہاں صرف ایک فعل کے پورے ہونے کو نہیں دیکھا جاتا بلکہ اس کے لیے وسائل، ضرورت، اثرات کو بھی دیکھا جاتا ہے۔ اس وقت دنیا میں اسلامی ممالک ہیں اسلامی حکومت نہیں۔ ایک پیور اسلامی حکومت عورت کے لیے ایسے اداروں کا بندوبست کرسکتی ہے جس میں اس کی عزت، اسکی دینی و ایمانی حالت کو نقصان بھی نہ پہنچے اور اسکی تعلیم سے متعلقہ شعبے کو مکمل سپورٹ بھی ہو۔ مثال کے طور پر عورتوں کے لیے علیحدہ باپردہ میڈیکل کالجز اور ہسپتال ’عورتوں کا عورتوں کے ہاتھوں علاج کی ایک سہولت میسر کرسکتے ہیں ۔اس طرح ہر شعبہ میں انکو حدود وقیود کے ساتھ انجکٹ کیا جاسکتا ہے۔
    آپ نے عورتوں کی شادی کے متعلق بات کی ، مجھے سمجھ نہیں آئی آپ کو اعتراض کس پر ہے۔ کیا آپ کو عورتوں کے مقابلے میں مردوں کی چار شادیوں پر اعتراض ہے کہ اسلام نے انہیں یہ حق کیوں دیا ؟

    ReplyDelete
  22. آپ نے فرمایا
    "دراصل آپکی سوچ کی بنیاد مغرب کے مرد کی بنیادی سوچ سے الگ نہیں ہے ۔ یہ ایک ہی سوچ کے دو رخ ہیں۔ جہاں ایک طرف مرد اپنے اوپر کوئ ذمہ داری نہیں لینا چاہتا وہاں دوسری طرف آپ لوگ عورت کو انسان ہی نہیں تسلیم کرنا چاہتے اور خدا کے روپ کسی کو معمولی اختیار دینے کے بھی قائل نہیں۔ یعنی آپکو یہ بات بری نہیں لگتی کہ، جب عورت بیمار ہو تو وہ اپنے گھر کے مردوں کی طرف دیکھے کہ آیا وہ اس کا علاج کرانے میں دلچسپہ رکھتے ہیں یا نہیں، مردوں کے لئے بازار حسن وائم رہنے میں تو آپکو کوئ تکلیف نہ ہو لیکن اگر کوئ لڑکی یہ کہہ دے کہ وہ پسند کی شادی کرنا چاہتی ہے تو آپ کانپنے لگ جائیں۔"

    محترمہ آپ نے میری اور میرے خاندان کی ذاتی زندگی کے متعلق اپنے طور پر اندازہ لگا لیا ۔حقیقت میں آپ کا اپنے قبیلے اور خاندان کو دیکھ کر ایک ذہن بن چکا ہے آپ اسے ہی سب پر تھونپتی جارہی ہیں اور اپنی ہی ایک لاجک جو آپ کے ذہن میں بیٹھ چکی ہے ’کے گرد چکر کھا رہیں ہیں ۔ مجھے آپ کی تکلیف کا احساس ہے ۔
    الحمداللہ ہمارے ہاں ایسا کوئی ظلم نہیں ہورہاکہ ہم آپ کے سندھ کے کسی جاہل قبیلے کی طرح عورت کو انسان ہی نہ سمجھیں ۔ ہمارے ہاں عورت کو بہت سے شعبوں میں مردوں سے ذیادہ حقوق حاصل ہیں ۔ ہمارے ہاں عورت کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھا جاتا ہے۔ عورت بجائے اسکے کہ بیماری میں ملازمت کرے اور اکیلی ہسپتالوں کے چکر کاٹتی پھرے، اس کو بھائی ، خاوند ، باپ کی شکل میں خادم میسر ہیں جو خود اسکی ساری ضرورتوں اور علاج کا بندوبست کرتے ہیں۔ باقی جہا ں تک عورت کی پسند کی شادی کی بات ہے ، اس میں مغرب کی طرح عورت کو آزاد نہیں کیا جاتا کہ بازار جائے اور اپنے لیے ایک عدد خاوند پسند کر آئے بلکہ اسکے والدین اسکی پسند کے ساتھ ساتھ تمام دوسرے حالات کو بھی مدنظر رکھتے ہیں جو کہ اس کے لیے بعد میں تکلیف کا باعث بن سکتے ہیں۔
    آسان الفاظ میں ایک اسلامک یا معذب مشرقی معاشرے میں عورت کو کسی بھی شعبہ زندگی میں اسکو پسند و ناپسند کا حق اور اختیار دیا گیا ہے۔ آپ کو جس شعبے میں اسلام کی طرف سے عورت کو دیے گئے حق و اختیار کے بارے میں اعتراض ہو یا علم نہ ہو تو میں وضاحت سے بتا سکتا ہوں۔

    ReplyDelete
  23. انکل ٹام، ابھی وقت کم ہے لیکن صرف یہ لکھنا ہے کہ میں کراچی میں پیدا ہوئ ہوں اور ہمیشہ یہین رہی ہوں اس لئے آپکی تصحیح کر دوںکہ ایم کیو ایم کے جلسوں مِں خواتین کو زبردستی نہیں لے جایا جاتا۔ جس محلے میں رہتی تھی وہاں سے خواتین کے جوق در جوق جایا کرتے تھے۔ میں آج تک کبھی انکے جلسوں میں شرکت نہیں کر سکی۔ مگر مجھ سے کبھی کسی نے زبردستی نہیں کی۔ میں اور ایم کیو ایم عمر میں زیادہ فرق نہیں رکھتے۔
    آج بھی مجھے انکی جو چیزیں متائثر کرتی ہیں وہ انکے جلسوں کا نظم و ضبط اور وہاں کاتین کے ساتھ بہتر سلوک ہے۔ دراصل ایم کیو ایم پاکستان کی وہ واحد سیاسی جماعت ہے جس نے جلسوں میں خواتین کی شرکت کو ترجیح دی۔ اسکی دیکھا دیکھی دیگر سیاسی جماعتوں نے اپنے خواتین ونگز بنائے اور خواتین کو آگے لانے کی نقل کی جو کہ ایک مثبت جذبہ ہے۔
    کچھ چیزیں تسلیم کر لیں تو بہت سارے مسائل کو حل کرنے میں آسانی ہو جاتی ہے۔ اور ان میں سے ایک چیز ایم کیو ایم۔ آپ ان پہ تنقید کریں رگڑا لگائیں مگر وہ نہ کہیں جو نہیں ہے۔ جیسے میں یہ نہیں کہتی کہ نواز شریف نشے میں دھت رہتے ہیں۔
    آپکی ان سے نفرت یا ناپسندیدگی اپنی جگہ مگر جب آپ واقف حالات نہیں تو اپنی غلط باتوں پہ اتنا اصرار کیوں کرتے ہیں۔

    ReplyDelete
  24. جناب مخلص صاحب، مجھے تو یہ بھی نہیں معلوم کہ آپکا قبیلہ یا خاندان یا آپ کود کون ہیں۔ لفظ آپ سے میری مراد آپکے نظریات ہیں آپ یا آپکا خاندان نہیں۔
    جب بھی آپ کسی بحث میں حصہ لیتے ہیں وہں آپکو آُ سے ہی مخاطب کایا جائے گا میں اردو میںکسی ایسے لفظ سے واقف نہیں جو آپ کی جگہ اس طرح استعمال ہو کہ میں اپنے سامنے موجود شخص سے بات کروں لیکن در اصل اس سے نہ کروں۔
    در حقیقت اگر آپکی اس منطق کو سامنے رکھوں تو آپ نے جو کچھ بھی لکھا کیا وہ میرے لئے اور میرے خاندان کے لئے لکھا۔ معذرت کے ساتھ میں تو یہ سمجھ رہی تھی کہ آپ چند نکات پہ بات کر رہے ہیں، اور شچونکہ آپ مجھ سے اور میرے خاندان سے واقف نہیں اس لئے انکے متعلق بات کرنا آپ کے لئے ممکن نہیں ۔
    مجھے خواتین کے خادموں سے کوئ دلچسپی نہیں۔ کادم کی سب سے زیادہ ضرورت،م معذوروں کو ہوتی ہے۔ وہ انسان جو اپنے چار ہاتھ پاءووں اور اپنی تمام جسمانی صلاحیتیں رکھتا ہے اسے خادم کی ضرورت نہیں اس چیز کی ضرورت ہے کہ اسے یہ ہاتھ پاءووں چلانے کی آزادی ملے۔ خادم تو جانوروں کے بھی ہوتے نہیں۔ لوگ اپنے جانوروں کی حفاظت کرتے ہیں اور انہیں کھلاتے پلاتے ہیں۔ مناسب سمجھتے ہیں تو علاج کراتے ہیں ورنہ گھر سے باہر ناکال دیتے ہیں مگر یہ حیوان اننسان نہیں کہلاتے۔
    شکریہ آپ نے تبصروں میں حصہ لیا۔

    ReplyDelete
  25. انکل ٹام ،
    جناب عبداللہ صاحب میں اصل میں پلا بڑھا ہی مغرب میں ہوں، اور تعلیم بھی یہیں سے حاصل کر رہا ہوں۔ معاشرے کی تبدیلی تو میرے اندر پاکستان جا کر آے گی
    لیجیئے میری کہی بات کی خود ہی تصدیق کرڈالی کہ کچھ لوگوں کا نہ تو تعلیم اور نہ ہی معاشرہ کچھ بگاڑ پاتا ہے

    اور رہی ووٹ ڈالنے کی بات تو ایسا آپکے علاقے میں ہی ہوتا ہو گا کہ جیئے الطاف کے نعرے لگانے والے جو عورتوں کو اپنے جلسوں کے لیے زبردستی لے جاتے ہیں گھروں سے ان سے ہی ایسی امید رکھی جا سکتی ہے ۔ ورنہ ہمارے ہاں عورتوں کو نا صرف ووٹ ڈالنے کی اجازت ہے بلکہ انکو اپنی مرضی کے سیاست داں کو ووٹ ڈالنے کی اجازت ہے

    یہ ہمارے یہاں یقینا آپنے اپنے موجودہ مغربی ملک کو کہا ہوگا آبائی ملک کو نہیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

    اور یہ مغرب میں پیدا ہوکرپلنے بڑھنے کے بعد بھی ایم کیو ایم کے اور کراچی کے بارے میں اتنے وثوق سے باتیں کرنا خاصا احماقانہ سا لگتا ہے

    آپ کو جان کر شائد شرمندگی ہو حالانکہ جس کی مجھے آپسے امید کم ہی ہے کہ ایسا ہی ایک واقعہ شیخ رشید نے اپنے حلقے کے حوالے سے ٹی وی چینل پر سنایا اور یہ بھی بتایا کہ میں جرگہ لے کر اس کے شوہر کے پاس بھی گیا اسےسمجھانے مگر وہ اپنی بات پراڑا رہا کہ میری بے عزتی ہوئی ہے میں اب اس عورت کو اب نہیں رکھوں گا،
    ایسے لاتعداد واقعات ہیں،
    پھرابھی میڈیا کی آزادی کے دور میں صوبہ سرحد کے ایک علاقے میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں ایک عورت نے بھی ووٹ نہیں ڈالا،کیوں کہ ان کے مردوں نے اجازت نہیں دی،
    کج بحثی سے کہیں بہتر ہے کہ جو کہا جارہا ہو اس پر دھیان دو ،
    یہ نام بدل بدل کر ایک ہی جیسی بکواس پڑھ پڑھ کر آنکھیں دکھ گئی ہیں ہماری،
    عنیقہ نے جو کچھ لکھا ہے وہ ایسا سچ ہے جو تم جیسوں کو ہضم نہیں ہوتا،مگر سچ سچ ہے!
    عنیقہ آپ نے ان کی سائیکی کو جتنی اچھی طرح سمجھ کر جواب دیا ہے
    واقعی ان جاہلوں کے نزدیک عورت اور بھڑ بکری میں کوئی فرق نہین اور ایسے یہاں سے ایکسپورٹ ہوئے جاہل آپکو مغرب میں بھی وافر مقدار مین مل جائیں گے!!!!!!!!!!

    ReplyDelete
  26. دنیا بھر میں مذہب اسلام کے بارے میں جاری مکالمت میں مسلم خواتین کا کردار ایک متنازعہ موضوع تصور کیا جاتا ہے۔

    جہاں کچھ ناقدین مسلم خواتین پر ہونے والے تشدد اور جبر کا ذمہ دار مذہب کو ٹھہراتے ہیں وہیں دیگر مفکرین مسلمان معاشروں میں خواتین کی زبوں حالی کی وجہ مقامی ثقافت‘ روایات اور قبائلی رسم و رواج کو قرار دیتے ہیں۔

    تاہم گذشتہ چند دہائیوں سے مسلمان مرد اور عورتیں مغربی دنیا کو یہ باور کروانے کی کوشش میں ہیں کہ اسلام بھی خواتین کے حقوق اور آزادی کا داعی ہے اور یہ کہ بیشتر اوقات یہ معاشی اور سماجی رویے ہیں جو کہ اسلام کے ساتھ منسلک کر دیے جاتے ہیں۔ کیا جدیدیت اسلام سے متصادم ہے؟ کیا اسلام میں عورتوں کے حقوق کو جدید دنیا کے ساتھ ہم آہنگ نہیں کیا جا سکتا؟

    اسلام میں خواتین کے حقوق:

    جرمن تنظیم Friedrich Ebert Foundation یا FES نے حقوق نسواں کی علمبردار مسلمان خواتین کی ایک بین الا قوامی کانفرنس کا اہتمام کولون شہر میں کیا۔ دو روزہ کانفرنس میں شریک مختلف ممالک کی مسلمان خواتین کا یہ کہنا تھا کہ پدر شاہی نظام کے اندر ہونے والی قرآنی تشریحات صرف مردوں کے مفادات کو تحفظ فراہم کرتی ہیں۔ ان خواتین نے مردانہ معاشروں میں قرآن کی تشریحات پر کڑے سوالات بھی کیے۔

    کانفرنس کے شرکاء کا خیر مقدم کرتے ہوئے FES کے نمائندے ڈاکٹر Johannes Kandel نے کہا:’’ ہم نے ایک ایسے فورم کا آغاز کیا جس میں حسّاس معاملات پر بحث کی جاتی ہے۔ ہم نےان خواتین کو موقع دیا ہے جن کے خیالات کو اکثر مذہبی دستاویزات کی مردانہ تفسیر کے تحت نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ بہت سے مسلم ممالک میں قوانین اور پالیسیاں بھی پدر شاہی نظام کے تحت رائج ہیں اور خواتین کو ان کے حقوق نہیں دیے جاتے۔ اس بارے میں خیالات کا تبادلہ کرنے کے لئے ہمارا یہ تجربہ کامیاب رہا اور پچھلے سال پوری دنیا سے مسلمان خواتین نے اِس فورم میں شرکت کی ۔اس سال بھی پوری دنیا سے مسلمان خواتین یہاں موجود ہیں۔‘‘

    اسلامی قوانین اور خواتین

    افریقہ‘ ایشیا اور یورپ میں رہنے والے مسلمانوں کے سماجی حالات ایک دوسرے سے مختلف ہیں اور ان خطّوں میں رائج اسلامی قوانین میں بھی فرق پایا جاتا ہے۔ کئی مسلمان ممالک میں شریعت کے نام پر خواتین کو کم تر شہری حقوق دیے جاتے ہیں اور اُن کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ تاہم حقوق نسواں کی حامی مسلم خواتین کا یہ موقف ہے کہ اللہ کی نگاہ میں مرد اور عورت برابر ہیں اور مذہب اسلام میں خواتین کا کردار بہت اہم ہے۔

    مسلم دنیا کی خاتون سکالر ڈاکٹر آمنہ ودود پچھلے تیس سال سے اسلام میں خواتین کی اہمیت پر کام کر رہی ہیں۔آمنہ اس وقت منظر عام پر آئیں جب انہوں نے دو ہزار پانچ میں نیو یارک میں جمعے کی نماز کی امامت کروائی۔

    Bildunterschrift: Großansicht des Bildes mit der Bildunterschrift: معروف اسکالر ڈاکٹر آمنہ ودود کولون منعقدہ کانفرنس میں مشریک تھیں
    ‌اس واقعے کے خلاف پوری اسلامی دنیا میں شدید رد عمل دیکھنے میں آیا۔ وہ ورجینیا کومن ویلتھ یونیورسٹی میں اسلامیات کی استاد بھی ہیں۔ کولون منعقدہ فورم میں ڈاکٹرودود کے لیکچر کا موضوع اسلام میں تانیثیت اور عورتوں کی اہمیت تھا۔

    ڈاکٹر ودود کہتی ہیں: ’’ قرآن شروع ہوتا ہے اقراء سےجس کا مطلب ہے پڑھ۔ اقراء انسانوں کے لیے ایک عظیم تبدیلی لے کر آیا۔ اسلام نے اس مخصوص وقت کی ایک تحریک کے طور پر جنم لیا جو ایک خاص زمان و مکان کے لئے تھی۔ اسلام کا یہی پیغام وقت کے ساتھ پھلا پھولا لیکن اس کا بنیادی پیغام اور اصل تحریک وقت کے ساتھ مسخ ہوتی چلی گئی۔ انسانی خوف اور کمزوری کی ناگزیرمزاحمت میں پدر شاہی نظام کو تقویت ملی اور یوں اس معاملے میں بھی اسلام کے حقیقی معنی کو تبدیل کر دیا گیا۔‘

    ReplyDelete
  27. خواتین اور مذہبی دستاویزات:

    مسلم دنیا میں جاری اس ترقی پسند تحریک کا مقصد یہ ہے کہ خواتین اور صنفی معاملات پر مذہبی دستاویزات خصوصاً قرآن کو بنیاد بنا کر بحث مباحثہ کیا جائے۔ اس بحث میں ایسے رویوں اور رسم و رواج کو بھی شامل کیا گیا ہے جن کا ذکر قرآن میں موجود ہے۔ تا ہم یہ خواتین سمجھتی ہیں کہ مذہبی دستاویزات کے نئے تراجم اورتفاسیر کے سامنے آنے سے اسلامی دنیا میں خواتین کے حوالے سے ترقی پسند قوانین تشکیل دیے جا سکتے ہیں جس کے بعد شاید مسلمان خواتین کے حالات میں بہتری آسکے۔

    شریعت اور اصلاحات:

    ارشاد مانجی بھی اسلامی قوانین میں اصلاحات کی بات کرتی ہیں۔ وہ برسلز میں قائم European Foundation for Democracy میں سینیر اسکالر ہیں۔ اُن کی کتاب آج اسلام میں مسائل: دیانتداری اور تبدیلی کے لئے ایک پیغام تیس ملکوں میں شائع ہو چکی ہے۔

    Bildunterschrift: Großansicht des Bildes mit der Bildunterschrift: ارشاد مانجی اور عالیہ ہوگبن ایک مباحثے میں شرکت کرتے ہوئے
    ان کے تجزیے کے مطابق مسلم دنیا میں خواتین کو محکوم سمجھنے یا قرآن کی ان معنوں میں تشریح کرنے کی وجہ قبل از اسلام پائی جانے والی روایات ہیں جو کہ آج تک کسی نہ کسی شکل میں رائج ہیں۔

    ’’انسانوں کو پیدائشی طور پر برابر سمجھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تہذیبیں اور ثقافتیں بھی یکساں ہوتی ہیں۔ تہذیب انسانوں بلکہ اکثر مردوں ہی کی وضع کی ہوئی چیز ہے۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ ثقافت کوئی مقدس چیز نہیں اور ثقافت کے جابرانہ اور غیر انسانی پہلوؤں کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ مثلاً عزت اور آبرو کے حوالے سے قبل از اسلام کئی غیر انسانی روایات موجود تھیں جو کہ آج بھی اسلام کومنفی طور پر متاثر کر رہی ہیں۔ اِس کی قیمت لیکن عورت ادا کر رہی ہے۔‘‘

    آج کے جدید دور میں جہاں اسلام کو قبائلی یا نیم قبائلی سماج کا مذہب سمجھنے والوں کی کمی نہیں ہے وہاں خود مسلمان ملکوں میں ایسے افراد بھی کم نہیں جو اسلام کے بنیادی اصولوں سے انحراف کیے بغیر اسلام کو جدید علوم اور جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی کاوشوں میں مصروف ہیں۔

    ایسے افراد ایک جانب مغربی مفکرین اور اسلام کے بارے میں ذرائع ابلاغ کے طے شدہ دلائل کو تبدیل کرنے کا کام کر رہے ہیں اور دوسری جانب خود اپنے ممالک میں راسخ العقیدہ اور رجعت پسندقوتوں سے بھی نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اِنہی میں شامل ہیں آمنہ ودود اور ارشاد مانجی جیسی خواتین بھی جو اِس تصور کو غلط ثابت کرنے کی جدو جہد میں مصروف ہیں کہ اسلام صرف عورتوں کو پابند رکھنے کا نام ہے۔

    عالیہ ہوگبن کے ساتھ خصوصی انٹرویو:

    عالیہ ہوگبن کینییڈین کونسل آف مسلم وومن کی سر براہ ہیں۔ یہ تنظیم پچھلے پچیس سال سے کینیڈا میں مقیم مسلمان خواتین کے حقوق کے لیے کام کر رہی ہے۔

    ReplyDelete
  28. http://www.dw-world.de/popups/popup_single_mediaplayer/0,,3424886_type_audio_struct_11991_contentId_3424930,00.html

    ReplyDelete
  29. محترمہ آپ نے اپنی پچھلی پوسٹ میں میری ذاتیات پر بات کی ہے میں اور میری فیملی کیسے سوچتی ہے وہ تو میرے خیالات سے ظاہر تھا لیکن پھر بھی آپ نے میری سوچ کو معاشرے کے اس فرد کے ساتھ ملا دیا جو کہ اس معاملے میں آپ کی سوچ اور نظریہ کی عکاسی کرتا ہے۔

    آپ نے فرمایا "خادم تو معذروں اور جانوروں کے ہوتے ہیں"۔
    ویسے آپ کو اس بات پر داد دینی چاہیے ۔ مجھے اس بات کا علم نہیں تھا ۔میں آ پ کا شکر گزار ہوں آپ نے اتنی ا ہم دلیل بتائی ہے۔!!!۔
    عجیب بات ہے آپ لوگوں کو نہ مرد کا مخدوم ہونا منظور ہے اور نہ خادم ہونا ۔آپ کو نہ خود غرض اور حاکم مرد کی ضرورت ہے اور نہ بیماری ، پریشانی ، تکلیف میں عورت کے ساتھ چلنے والا مسیحا کی۔ کوئی بیٹا اپنی ماں کی خدمت کرکے دعائیں لے، کوئی بھائی اپنی بہن کی اور کوئی خاوند اپنی بیوی کی تکلیفوں میں اس کے ساتھ چلے ، اس کا دکھ بانٹے، تو آپ اس کے لیے جانوروں کی مثالیں دینے لگ جاتیں ہیں۔

    آپ کی خواہش کے مطابق مغر ب کے طرز پر چلتے ہوئے عورت کو بس ایک گدھی کی طرح جنگل میں چھوڑ دیا جائے۔ جہاں چاہے چرے، پھرے، سوئے ، مرے۔ نہ کوئی اسے اچھی حالت میں پوچھنے والا ہو نہ بری حالت میں۔

    آپ مذہب بیزار ، احساس کمتری کا شکار ، نام نہاد روشن خیالوں کا طبقے کا کام بس مغرب کی پوجا کرنا اور یہ بے بنیاد باتیں اور شوخ نعرے لگا نا ہے۔ یہی بے بنیاد باتیں اور نعرے ہی آپ لوگوں کی دلیلیں ہیں۔جس نظام کو آپ لوگ آئیڈیل سمجھتے ہوں اس نے عورت کو کیا دیا اسکی ہلکی سی جھلک اس لنک پر دی گئی ہے۔
    http://www.voanews.com/urdu/news/a-25-2009-05-26-voa13.html

    ReplyDelete
  30. فکرِ پاکستان: آپ نے بلکل ٹھیک کہا ، ان خاتون کا کوی مستقبل پاکستان میں نہ ہوتا ، کیونکہ پاکستان کے قوانین بنانے والے روشن خیال عورت کو خود مختار نہیں دیکھ سکتے ۔

    عنیقہ آنٹی: آپ ایک اعلیٰ سوسائٹی والے علاقے میں رہتی ہیں اسی لیے آپکے ہاں خواتین کو زبردستی نہیں نکالا جاتا ورنہ آفیہ کے لیے جب ریلی نکالی گئی تھی تو ہر گھر سے ایک خاتون کا ہونا ضروری قرار پایا تھا۔ بہت سی بڑی بیوں کو اپنے بڑھاپے میں بھی جانا پڑا تھا کیونکہ وہ اپنی جوان بیٹیوں کو ایم کیو ایم کے لوگوں میں نہیں بھییج سکتی تھیں ۔

    عبداللہ صاحب: میں آپکی بات سے مکمل طور پر اتفاق کرتا ہوں کہ کچھ لوگوں کا نہ تو تعلیم کچھ بگاڑ سکتی ہے نہ ہی معاشرہ اور اسکی زبردست مثال آپ اور آپکے ایم کیو ایم کے لوگ ہیں جن میں سے میں چند ایک کو زاتی طور پر جانتا ہوں۔ میں نے آپکو بتایا کہ میں پلا بڑھا پاکستان میں نہیں آپ یہ بات بھول رہے ہیں کہ انسان کے نظریات اسکے معاشرے اور ارد گرد کے ماحول اور حاصل ہونے والی تعلیم سے بنتے ہیں ۔ اگر آپ میرے نظریات پر حملہ کر رہے ہیں تو آپ بلواسطہ طور پر ان زرایع پر تنقید کر رہے ہیں جو میرے نظریات کے زمہ دار ہیں ۔ میرے وہ نظریات جو مغربی معاشرے سے تضاد رکھتے ہیں وہ خالص اسلامی تعلیمات پر مبنی ہوتے ہیں ، پاکستانی کلچرازم کو میں کچرے میں پھینکتا ہوں۔ اسی لیے میرے ایسے نظریات کے خلاف بلا دلیل لفاظی نہ تو میرے نظریات کو تبدیل کر سکتی ہے نہ ہی مجھے شکوک و شہبات میں مبتلا کر سکتی ہے

    ووٹ ڈالنے والی بات پر میں یہ کہوں گا کہ یہ میں دونوں معاشروں کی بات کر رہا ہوں ، مجھے اپنے بچپن کا ایک واقعہ یاد ہے جب ہمارے محلے میں ایک صاحب کاونسلر کے الیکشن کے لیے کھڑے ہوے تھے ، تو انکی بہن سب کے گھر جا کر خواتین کو ووٹ ڈالنے پر راضی کر رہی تھیں ، کسی کو زبردستی نہیں لیجایا گیا ۔ اور ایم کیو ایم کے اور کراچی کے بارے میں باتیں ایسے وثوق سے اس وجہ سے کرتا ہوں کیونکہ میرے بہت سے دوست کراچی سے تعلق رکھتے ہیں اور ان میں کچھ ایسے بھی ہیں جنکا تعلق بھی ایم کیو ایم سے رہ چکا ہے ۔

    شیخ رشید کا واقعے کی میں کبھی بھی حمایت نہیں کرتا اس شخص کا رویہ غلط تھا اور شیخ رشید کا بھی شیخ رشید کو چاہیے تھا کہ اپنے زرایع کو استعمال کر کے اس خاتون کو قانونی طور پر اسکا حق دلواتا ۔ یہ نہ تو مرد کا قصور ہے نہ معاشرے کا یہ آپکے قرآن اور حدیث کو چھوڑ کر بناے ہوے جاہلانا قانون کاور اور اس پر عمل درآمد کروانے کے نظام کا قصور ہے ۔ مجھے بتائیں ایم کیو ایم اس قسم کے معاملات میں کیا تبدیلی لائی ہے کراچی میں ؟؟؟

    اور جناب سرحد کے علاقے میں ووٹ والی بات پر تو میں آپ پر یقین نہیں کرتا جب تک آپ دلیل نہ دیں ، آپ دلیل دیں میں تحقیق کروں گا ، میرے بہت سے دوستوں کا تعلق سرحد سے بھی ہے ۔ اگر بلفرض مان بھی لیا جاے کہ عورتوں نے ووٹ نہیں ڈالا کیونکہ مردوں نے اجازت دی تو یہ رویہ بلکل غلط ہے میں اسکی سپورٹ نہیں کرتا۔

    باقی میرے نزدیک عورت کا رتبہ کیا ہے اسکے بارے میں آپ بلا جانے جو تبصرہ کر رہے ہیں یہ آپکے ضدی ، ہٹ دھرم ہونے کی زبردست دلیل ہے ۔ اور نہ ہی مجھے آپ جیسے لوگوں سے عورت کے بارے میں اپنے نظریے پر سرٹیفیکیٹ کی ضرورت ہے ۔

    اور آپنے جس مضمون کا اقتباس پیش کیا ہے اس میں ارشاد مانجی کا تبصرہ ہے جسنے آپکی طرح اپنی افریقی کلچر کو جو بہت سی جگہوں میں اسلام سے متصادم ہے کو اسلام سے ملا کر اسلام کے خلاف کتاب لکھی ہے اور خود یہ عورت بھی ہم جنس پرست ہے ، آپ جیسوں سے ایسے لوگوں کی پیروی کرنے کی ہی امید رکھی جا سکتی ہے ۔ اور ڈاکٹر امنہ ودود سے کہیں کہ لاہور کے منٹو پارک میں عورتوں کو جمع کی نماز پڑھائین تاکہ لوگ انارکلی میں آنکھیں ٹھںڈی کرنے کی بجاے منٹو پارک جایا کریں ۔

    مزید ہمیں اسلام کو کفار سے سمجھنے کی ضرورت نہین ۔

    ReplyDelete
  31. عبداللہ صاحب ۔آپ نے بہت اچھی بات کی ہے۔آپ اہسا کریں اس آمنہ ودود کی طرح آپ بھی اپنی ایک مسجد بنا کر اس میں کسی عورت کو امام مقرر کردیں۔اس کے پیچھے جمعہ بھی پڑھا کریں اور اپنے خاندان کا نکاح اور نماز جنازہ بھی اسی سے پڑھالیا کریں۔

    ReplyDelete
  32. پیارے بھتیجے، آپ ابھی چونکہ بہت چھوٹے ہیں اس لئے بین السطور نہیں پڑھ پاتے۔ اور چونکہ آپ کی پرورش بھی پاکستان میں نہیں ہوئ اور نہ پیدائیش، آپکے بقول، میں اس پہ یقین نہیں رکھتی۔ تو آپکو یہ اندازہ لگانے میں سخت ناکامی ہوئ کہ میں سوساءیٹی کے اعلی طبقے سے تعلق رکھتی ہوں۔
    آپ پاکستان کے اعلی طبقے سے واقف نہیں اور بات کرنے چلے ہیں کراچی شہر کی۔ جائیے جھنجھنا کھیلئیے۔
    مخلص اور انکل ٹام، یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جب کبھی پاکستانی خواتین کا تذکرہ آتا ہے مردوں کا ایک خاص طبقہ فوراً مغرب اور اسکی ثقافت کو اپنی مدد کے لئے کیوں بلاتا ہے۔ جس تحریر پہ آپ لوگوں نے اپنے دل کے جلے پھوڑے کیا اس ین کہیں یہ لکھا تھآ کہ مغرب کی عورت ایک آئیڈیئل حیثیت والی عورت ہے۔ مگر آپ لوگ کے پاس اس ایک ڈفلی کے علاوہ کوئ ڈفلی نہیں۔
    اسی طرح جب کبھی پاکستان میں دہشت گردی کے شکار ہونے والے ، اپنے ہی ہم وطنوں کے ہاتھوں شکار ہونے والے خود کش حملوں میں مارے جانے والے بے گناہوں کا تذکرہ ہوتا ہے فوراً مغربی ماعشے کی سفاکیت کی داستانوں کے حوالے شروع ہو جاتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ انکی کسی اچھی چیز کو تسلیم کرنے میں تو روح فنا ہوتی ہے مگر اپنی اندوہناک حالات سے منہ چھپانے کے لئے ھر ان خبیثوں کا پردہ استعمال کیا جاتا ہے۔ یعنی چت بھی اپنی پٹ بھی اپنی۔
    اپنی سفاکیوں کو کب تک اس پردے میں چھپاتے رہیں گے۔ یہ بڑا اہم سوال ہے۔ ہے اسکا کوئ جواب آپ جیسے ننھے ننھے ذہنوں کے پاس۔

    ReplyDelete
  33. یہ ننھے ذہن تو اس خبر کو بھی مغرب کی سازش ہی قرار دیں گے،
    پناہ بخدا آدم خور لاہور میں
    http://en.news.maktoob.com/20090000671888/Pakistanarrestscannibalsuspects_recoversflesh/Article.htm

    ReplyDelete
  34. محترمہ جب آپ کے’ عورت کی اس بے لگام آزادی کے حقوق کے نعرے کی پیدائش ہی مغرب میں ہوئی اور اس پر عمل بھی سب سے پہلے وہاں کیا گیا تو پھر ہمارے ’ مغرب میں اس بے لگام آزادی کے نتیجے میں آنے والی تباہی کے تذکرے پر آپ کو غصہ کیوں آرہا ہے، جبکہ آپ نے خود بھی اوپر مغرب کی ان باتوں کی مثالیں دیں ہیں جو کہ آپ کے بقول ہمارے معاشرے میں نہیں ہیں۔ عورت کو اس طرح کی آزادی ہمارے نبی یا صحابہ نے تو دی نہیں کہ ہم یہاں انکی مثالیں دے کر تعریف کی ہے ۔
    ثابت ہوا کہ آپ کی ان گمراہ فلاسفیوں کو نہ آپ کا مذہب سپورٹ کرتا ہے اور نہ عالمی انسانی حقوق کے چیمپئن۔ وہ لوگ عورت کو یہ فطرت کے خلاف اور بے لگام آزادی دےکر پیشمان ہیں اور آپ کو دعوت فکر دے رہے ہیں۔اعتبرو يااولي الابصار

    دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو
    میری سنو، جو گوشِ نصیحت نیوش ہے

    دوسری بات آپ کن خودکش حملوں کی بات کررہی ہیں ؟
    جو پاکستان میں ہورہے ہیں ؟
    محترمہ مجھے ہمارے کسی ایک مستند عالم کی تحریر دکھائیں جس میں انہوں نے ان خود کش حملے کرنے والوں کا دفاع کیا ہو۔ اگر کسی مجہول بندے نے آپ کے سامنے خودکش حملوں کے مقابلے میں مغربی سفاکیت کی بات کی ہے تو اسے ہم پر نہ تھونپیں۔ ہمارا موقف واضح ہے ۔ ہم نے جس سفاکیت پر پردے ڈالے ہیں ذرا آپ اس کو ثبوت کے ساتھ کھولیں تو پتا چلے۔ ہاں ایک بات یاد رکھ لیں ہم پاکستانی نا م نہاد روشن خیالوں، بے عقل دانش وروں، لا مذہبوں کی طرح مغرب کی پڑھائی گئی پٹی نہیں پڑھتے۔ جس کو حق سمجھتے ہیں اس کو بیان کرتے ہیں۔

    ReplyDelete
  35. http://makki.urducoder.com/?p=2581

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ