Sunday, April 3, 2011

ساحل کے ساتھ-۱۰

گذشتہ سے پیوستہ

یہ ایک ڈائیوو کی ائیر کنڈیشنڈ اور باہر سے خاصی بہتر نظر آنے والی بس تھی مگر اندر داخل ہوتے ہی ایک شدید گھٹن کا احساس ہوا۔ کوئ ایک خاتون نظر نہ آرہی تھی۔ سیٹ تک پہنچنے کے لئے جو قدم بڑھائے تو معلوم ہوا کہ درمیانی راستے سے لیکر بس کے پچھلے حصے میں سامان ٹھنسا پڑا ہے۔ حالانکہ بس کے نچلے حصے میں جگہ تھی  لیکن معلوم ہوا کہ وہاں گنجائش ختم ہو گئ ہے۔آخر گوادر میں ایسا کیا ملتا ہے۔
گھٹن کے احساس کی وجہ بس میں کپڑوں کی زیادہ موجودگی تھی۔ کھڑکیوں پہ پڑے لال رنگ کے مصنوعی ریشم کے موٹے پردے جن پہ اسی کپڑے کی چوڑی چوڑی جھالریں لٹک رہی تھیں۔ بس کی چھت پہ بھی یہی کپڑا منڈھا ہوا تھا۔ کھڑکیوں کے درمیانی وقفے پہ مصنوعی لال بڑے بڑے پھولوں کے گچھے آویزاں۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد خوب گھیر داربلوچی کپڑوں میں ملبوس انکے سربڑے بڑے پگڑسے سجے۔
سامان پہ سے چھلانگ لگنے کی مہارت دکھاتے ہوئے، میں نے بیٹھتے ہی اپنی کھڑکیوں کے پردوں کو جہاں تک ممکن تھا سمیٹ دیا۔ باہر گھپ اندہیرا تھا مگر پھر بھی نجانے کیوں ایک تسلی سی ہو گئ۔ میں باہرمحسوس ہونے والی  وسعت کو بس میں شامل سمجھ رہی تھی۔
مجھے اپنا ترکی کا سفر یاد آیا۔ پندرہ دن میں ہم نے چھ شہر دیکھے۔ رات بھر ایسی ہی بسوں میں سفر کرتے تھے اور دن میں تفریح۔ لکن ان بسوں میں اندر سامان کے نام پہ صرف بیک پیک ہوتا تھا۔ ایک مناسب ہوائ سفر کی اکانومی کلاس کا مزہ۔ دوران سفر چائے یا جوس اور بسکٹس یا مونگ پھلیاں تواضع میں شامل ہوتیں۔ ان بسوں کی سب سے بڑی خوبی وقت کی پابندی تھی۔ ترکی کا سیاحوں کا پسندیدہ مقام ہونے میں ان چھوٹی چھوٹی باتوں کا بڑا حصہ ہے۔
بس چل پڑی تو لوگوں نے شور مچانا شروع کیا۔ فلم لگاءو، اوئے فلم لگاءو۔ فلم کا شاید انتظام نہ تھا اس لئے موسیقی مہیا کی گئ۔ اور اس کا آغاز بلوچی موسیقی سے ہوا۔
ہم، ہمراہ لائے کھانے سے فارغ ہوئے۔ مشعل سو گئ انکے ابا  بھی آنکھیں موند کر پڑ گئے۔ میں ان بد قسمتوں میں سے ہوں جن کا دوران سفر سونا محال ہوتا ہے۔ اور جب منی اتنے زور وشور سے بد نام ہو رہی ہو تو کون کافر سو سکتا ہے۔ یوں بلوچی گانوں کے بعد انڈین گانوں کی باری آئ۔ بس میں سب جیسے نشے میں دھت تھے۔

اے شمع ، تیری عمر طبیعی ہے ایک رات
ہنس کر گذار یا اسے رو کر گذار دے
یہ سائکل جاری تھا۔ کچھ بلوچی اور کچھ انڈیئن گانے ہر دو کے درمیان، منی کی بدنامی کا سریلا، بھڑکیلا اور رسیلا بیان۔ بلوچی اور انڈیئن، دونوں ہی گانے عشق مجازی کے شیرے میں ڈوبے ہوئے۔ لیکن دونوں میں ایک فرق تھا۔ بلوچی گانوں میں گانے والی ایک بھی عورت نہ تھی۔ جبکہ انڈیئن گانے عورت اور مرد دونوں کی آوازوں میں تھے۔ یہ فرق شاید غیرت کے فرق کی وجہ سے تھا۔
تقریباً پون گھنٹے کے بعد بس  پہلی رینجرز کی چوکی پہ رکی۔  کنڈیکٹر نے نعرہ مارا سب اپنے بیگز لے کر نیچے اتر جاءو۔ بس میں سے ایکسرے مشین نظر آرہی تھی۔ میں نے سوچا اتنے سامان سے لدی گاڑی میں سے ہر ایک شخص اپنا سامان چیک کرائے گا تو کم ازکم دو گھنٹے یہیں خرچ ہو جائیں گے۔ پھر مشعل کے بابا کو دو ہینڈ کیری اور ایک بڑا بیگ چیک کروانا ہو گا بڑا مسئلہ ہو جائے گا۔  بے چارے سامان ہی ڈھوتے رہیں گے۔
لیکن لگا کسی نے کنڈیکٹر کی بات نہیں سنی۔ دو تین دفعہ اس نے اور کہا۔ سب یونہی گل محمد بنے پڑے رہے۔ زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد۔ پھر رینجرز کا ایک آدمی اندر آیا، ایک ٹارچ کی بے قابو روشنی ادھر ادھر پھینکی۔ بیگ چیک کراءو اوئے سب۔ چھ سات لوگوں  رضاکارانہ طور پہ اٹھے۔ ان میں ہمارے صاحب بھی شامل تھے۔ ہمارے سامنے جو دس بارہ لوگ بیٹھے تھے وہ اپنے جثّے سے ایجنسیز کے لوگ رہے تھے وہ اسی طرح پڑے رہے۔ سب نے اپنے ساتھ ایک ایک بیگ لیا۔ دس منٹ میں سب واپس آگئے۔ مردم پورے۔ بس دوبارہ چل پڑی۔ کیا ایکسرے مشین سے گذارا تھا۔ نہیں ، ایسا کچھ نہیں ہوا۔
پاکستان زندہ باد۔
گوادر ساحلی شہر ہونے کی بناء پہ اسمگلروں کا پسندیدہ مقام ہے۔ اٹھارویں صدی میں سمندری سچے موتیوں کے قزاق تھے۔ اور اکیسویں صدی میں اسمگلرز۔ جب تک کوسٹل ہائ وے نہی بنی تھی۔ کراچی تک پہنچنا آسان نہ تھا۔ ایران سے سرحد ملی ہوئ ہے۔  ویزے کی ضرورت نہیں۔  یوں گوادر ڈسٹرکٹ میں ایران کی مصنوعات چھائ ہوئ تھیں۔ چاہے وہ چائے پینے کے معمولی کپ ہوں، کھانے کا تیل ہو یا گاڑیوں کا تیل۔ بہت سارے گوادریوں کی شادیاں بھی ایران میں ہوئ ہیں۔  
پٹرولیئم مصنوعات ایران سے اسمگل ہو کر آتی تھیں اب بھی آتی ہیں البتہ دیگر ضروریات زندگی میں اب پاکستانی اشیاء آ گئ ہیں۔ گوادر میں تین چار سال پہلے ایک سپر مارکیٹ بھی کھل گئ ہے۔
دو ہزار تین میں جب میں گوادر پہنچی تو گوادر میں پٹرول کی قیمت کراچی کے مقابلے میں تقریبا آدھی تھی۔ پہلے یہ اسمگل شدہ تیل ٹرالرز کے ذرہعے پہنچایا جاتا تھا، پھر ہائ وے بننے کے بعد گوادر سے پٹرول اسمگل ہو کر بسوں وغیرہ کے ذریعے کراچی آتا رہا۔
لیکن ہوا یہ کہ کراچی پہنچانے کے لئے عام طور پہ انہی بسوں کے خفیہ خانوں میں پٹرول موجود ہوتا تھا۔  جب کئ دفعہ ایسا ہوا کہ پٹرول کی ٹنکیاں زیادہ گرمی کی وجہ سے پھٹ گئیں  اور ائیر کنڈیشنڈ بس ہونے کی وجہ سے پوری پوری بسوں کو آگ لگ گئ۔ تو پٹرول کی اسمگلنگ میں کمی آئ۔ پھر یہ کہ ایران اور پاکستان مین پٹرول کی قیمتوں میں قابل منافع فرق نہیں رہا۔ لیکن ابھی بھی ڈیزل کی اسمگلنگ جاری ہے۔  ایرانی مصنوعات کا معیار بھی گھٹیا ہوتا ہے۔ گاڑی میں مسائل پیدا کرتا ہے۔
گوادر کے مقامی لوگوں کا کاروبار یا تو مچھلیوں سے متعلق ہے یا اسمگلنگ سے متعلق۔  مشرف دور میں گوادر میں ریئل اسٹیٹ کا کاروبار عروج پہ تھا۔ سنتے ہیں کہ باہر سے لوگ بوریوں میں پیسے بھر کر لاتے تھے۔ زمین خریدنے کے لئے۔ جس جگہ میں نے مٹی کے بنے ہوئے چند مکانات دیکھے تھے۔ محض دوتین سالوں میں وہاں ایسے گھر کھڑے ہو گئے جو کراچی میں ڈیفینس کے علاقے میں نظر آتے ہیں۔ اعلی برانڈ کی کاریں حتی کہ عام لوگوں کے پاس سیٹیلائیٹ فون ہوا کرتے تھے۔ لوگوں کی بہتات کی وجہ سے پرل کانٹی نینٹل نے ایک خوبصورت عمارت بھی اپنے ہوٹل کے لئے بنائ۔ لیکن حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے۔ اب وہاں سناٹا ہے۔ بلبل نے آشیاں چمن سے اٹھا لیا،اسکی بلا سے بوم بسے یا ہُما رہے۔

لوگ ایک دفعہ پھر اسمگلنگ کی طرف متوجہ ہوئے۔ مہینے میں ایک لانچ تین چار چکر لگا لے تو چار پانچ لاکھ روپے بن جاتے ہیں۔ جس بس میں ہم جا رہے تھے اسکے متعلق بھی اطلاع تھی کہ اس میں ڈیزل جا رہا ہے۔ ڈیزل کے علاوہ، شراب کی بھی اسمگلنگ ہوتی ہے۔ یہاں سر عام پینا کوئ برائ نہیں۔
رات کو ڈھائ بجے ارمارہ پہنچے۔ بس کے بیشتر لوگ حوائج سے فارغ ہونے کے لئے اتر گئے۔ میں بھی اتر گئ۔  ایک  دفعہ پھر ایک لڑکا دوڑتا ہوا آیا۔ لیڈیز ادھر ہے۔ میں اسکے ساتھ گئ۔ ہوٹل کے پچھواڑے میں ایک کمرہ جس میں کوئ کھڑکی نہ تھی صرف ایک دروازہ تھا۔ اور فرش پہ چٹائیاں پڑی تھیں۔ یہ کیا ہے۔ کھانے کا کمرہ عورتوں کے لئے۔ میں نے اس سے کہا کہ لیڈیز کا واش روم کہاں ہے۔ وہ میری بات  پہ کچھ حیران سے ہو گیا۔ سمجھ میں نہیں آیا کہ اسے واش روم کے ہونے پہ تعجب تھا یا لیڈیز کے واش روم کے ہونے پہ تعجب تھا۔
 میں اسے حیرانگی میں چھوڑ کر واپس ہونے لگی تو تاحد نظر پھیلے ہوئے اندھیرے اور ویرانے میں مجھے ایک بہت عجیب سا احساس ہوا۔ جہاں روشنی کی حد ختم ہو رہی تھی اور اندھیرے کا راج شروع ہو رہا تھا وہاں  ایک کے بعد ایک ، دور تک گٹھریاں سی رکھی ہوئ تھیں۔ لیکن غور سے دیکھنے کے بعد میں نے اپنا سر جھٹکا یہ گٹھریاں نہیں ایکدم زندہ سلامت انسان تھے۔ ہر غیرت سے بھرپور انسان بھی  چند حیاتیاتی عوامل سے جان نہیں چھڑا سکتا۔  مجھے قدرت اللہ شہاب کی کتاب شہاب نامہ میں ان کا سکھوں کے متعلق بیان یاد آگیا۔
بس میں واپس آکر مجھے خیال آیا کہ مشعل کو اٹھا کر اسے بھی فارغ کرا لینا چاہئیے۔ مبادا رستے میں انہیں ضرورت محسوس ہو تو بس رکوانے میں بڑی مشکل ہو جائے گی۔ انکے جوتے تلاش کرنے کے لئے سیٹ کے نیچے ہاتھ مارا تو ایک عجیب سا پھل میرے ہاتھ میں آگیا۔ سخت اور روئیں دار۔ یہ کیا ہو سکتا ہے۔ میں نے اسے روشنی میں نکال کر دیکھا۔ یہ کیوی فروٹ تھا۔ ایران میں پیدا ہوتا ہے اور کراچی میں سو روپے سے زائد صرف ایک پھل ملتا ہے۔ اس کا سائز ایک مرغی کے انڈے کے برابر ہوتا ہے۔ اب جو میں نے روشنی لے کر نیچے جھانکا تو متعدد سیٹوں کے نیچے اسکے کریٹ موجود تھے۔
سب لوگ واپس آئے۔ مردم پورے کا نعرہ بلند ہوا اور بس روانہ۔
اگلی چوکی صبح چار بجے کے وقت ملی۔ جیسے ہی بس رکی۔ رینجرز کے ایک صاحب اندر داخل ہوئے۔ ڈرائیور سے کہنے لگے کتنے ہزار لٹر ڈیزل جا رہا ہے۔ سر جی جتنے میں یہ بس چل جائے۔ میں بس کے ڈیزل کی بات نہیں کر رہا انکی کر رہا ہوں جو تم چوری سے  لے کر جاتے ہو۔ اس نے ٹھیٹھ پنجابی لہجے میں کہا۔ 'نہیں جناب اور تو کوئ ڈیزل نہیں ہے'۔ 'سب پتہ ہے مجھے'۔ ڈرائیور خاموش ہو گیا۔   پھر وہ اسی طنطنے میں آگے بڑھا۔ ایک آواز آئ۔ میں میجر ہوں اور یہ دس نوجوان میرے ساتھ ہیں۔ ایک ہاتھ بڑھا اس میں ایک کارڈ تھا۔ دیکھنے والے نے اسے ایک نظر دیکھا۔ سلیوٹ مارا۔ آگے آکر سب کے چہروں پہ ایک لائٹ ڈالی اور بس سے اتر گیا۔ 
اسکے بعد ایک اور چوکی،  اب ہم حب کی حدود میں داخل ہوگئے تھے۔ لوگوں نے فجر کی نکلتی ہوئ نماز پڑھی۔ کیونکہ روشنی پھیل چکی تھی۔ اسکے آدھ گھنٹے بعد ٹھیک آٹھ بجے ہم کراچی کے مضافات میں واقع یوسف گوٹھ کے بسوں کے اڈے پہ موجود تھے۔ اس سفر میں ہمیں گیارہ گھنٹے لگے جس کے متعلق دعوی بس پر لکھا تھا کہ سات گھنٹے لے گا۔
کہتے ہیں پیچھے پلٹ کر نہیں دیکھنا چاہئیے پتھر کے ہو جاتے ہیں۔ مگر ایسا کوہ قاف میں ہی ہوتا ہے۔ شادمند دل پلٹ کر پیچھے ضرور دیکھتا ہے یہ کہنے کو کہ

سیر کی، خوب پھرے، پھول چنے، شاد رہے
باغباں جاتے ہیں ہم، گلشن تیرا آباد رہے
مشعل اٹھ چکی تھی۔ اس نے زندگی میں پہلی دفعہ دیکھا کہ دور دور تک رنگ برنگی خالی بسوں کی لائینیں لگی ہوئ ہیں۔  کہنے لگی۔ ماما کیا ہم یہاں سے صرف ایک بس لے سکتے ہیں وہ پنک والی، وہ مجھے پسند آرہی ہے۔ نہیں میرے بچے یہ کھلونے نہیں ہیں۔ ماما نے ایک روکھا سا جواب دیا۔
اڈے پہ ٹیکسیوں اور رکشوں کی بھر مار تھی۔ اور اترتے ہی وہ نقشہ بنا کہ، اٹھا جو مینا بدست ساقی، رہی نہ پھر تاب ضبط باقی، تمام  مے کش  پکار اٹھے، یہاں سے پہلے، یہاں سے پہلے۔
ہم نے اپنی جیب ٹٹولی اور  ایک زمانہ ء قدیم کی کالی پیلی ٹیکسی نما کھٹارے میں اپنا سامان رکھنا شروع کیا۔ اور مشعل گنگنانے لگی، منّی  ڈارلنگ تیرے لئے۔ ہائیں میں نے اسے  دیکھا ، یہ تو رات بھر سوتی رہی تھی۔

ختم شد


11 comments:

  1. مطلب کہ پانچ دن کے سفر پر دس اقساط!
    اگلا کیا پروگرام ہے؟ سفرنامہ کینیڈا؟
    ہمم .. دیکھتے ہیں۔

    ReplyDelete
  2. یعنی میجر بس میں جا رہا تھا اسنے چیکنگ رکوا دی ؟؟ کیا میں صحیح سمجھا ؟

    ReplyDelete
  3. بہت اچھے بلکہ بہت ہی اچھے
    بلوچستان کے متعلق کم ہی لکھا جاتا ہے
    حالانکہ زیادہ لکھا جانا چاہئے
    اپ کی یہ تھریر ایک یاد گار قسم کی تحریر ہے
    مجھے بڑی پسند آئی

    ReplyDelete
  4. عمدہ تحریر ۔ مجھے بھی تمام اقساط پسند آئیں

    ReplyDelete
  5. انکل ٹام آپ صحیح نہیں سمجھے۔ اگر اس بس میں اسمگلنگ کا ڈیزل جا رہا تھا تو یہ گوادر کے ساکل سے لے کر تا بہ خاک کراچی، لوگوں کے علم میں ہوگا۔ اسے میجر صاحب سے میرے خیال سے تو کوئ فرق نہیں پڑتا۔ راستے میں جتنی بھی چوکیاں پڑیں ان میں سے کسی پہ بھی سامان کی چیکنگ نہیں ہوئ۔ میجر صاحب نے اپنا تعارف ایک ہی چوکی پہ کرایا تھا۔ یہ نہیں معلوم کہ انہی اپنا تعارف، اپنے جوانوں کا تعارف اور کارڈ دکھانے کی ضرورت کیوں پیش آئ۔

    ReplyDelete
  6. ختم شُد کا یہی مطلب ہے نا کہ یہ آخری قسط تھی :)

    ReplyDelete
  7. عمدہ تحریر ۔

    اڑے ادھر بلوچستان میں پنجاب کا سارا کرنل ،میجر سیکورٹی فورسز اور خفیہ ادارے اسمگلنگ اور لاپتہ افراد ،مسخ شدہ لاشیں ملنے میں ملوث ھے

    جے ازاد بلوچستان۔۔

    ReplyDelete
  8. اڑے ادھر بلوچستان میں پنجاب کا سارا کرنل ،میجر سیکورٹی فورسز اور خفیہ ادارے اسمگلنگ اور لاپتہ افراد ،مسخ شدہ لاشیں ملنے میں ملوث ھے
    بلوچوں کو مارنے سے ان کی تحریک آزادی کو کمزور نہیں کیا جاسکتا ہے ’بلکہ ظلم کے خلاف اب وہ لوگ بھی میدان میں نکل رہے ہیں جوکبھی قومی آزادی کی تحریک سے منسلک بھی نہیں رہے ہیں حتی کہ خواتین اور بلوچ بچے آج ہمارے شانہ بشانہ کھڑے ہیں‘۔


    جے ازاد بلوچستان۔۔

    ReplyDelete
  9. مکی صاحب،
    :)
    آجکل آپ بڑے دھماکے دار موضوعات لے رہے ہیں۔ تبصروں کا آپشن بند ہے۔ ورنہ بھٹو صاحب کی برسی بھی کسی کو یاد نہیں رہتی

    ReplyDelete
  10. شکریہ :)

    تبصرے بند نہیں ہیں، ورڈ پریس، یاہو، گوگل اور ٹویٹر کے کھاتوں سے لاگ ان ہوکر تبصرے کیے جاسکتے ہیں، مزید برآں رجسٹر ہوکر بھی تبصرے کیے جاسکتے ہیں، فرصت ملنے پر مزید سوشل سروسز شامل کردوں گا..

    ReplyDelete
  11. السلام علیکم
    بہت اھی تحریر ہے

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ