Friday, April 29, 2011

روایت ہے کہ

ٹی وی چینلز کی سرفنگ کرتے ہوئے میرا ہاتھ ایک چینل کے لئے رک گیا۔ یہاں پہ اینکر پرسن مختاراں مائ کے ساتھ موجود تھے ۔ وہی مختاراں مائ جو اجتماعی زنا کا شکار ہوئ، جس کا مقدمہ تقریباً نو سال چلا اور بالآخر سوائے ایک ملزم کے باقی سب با عزت بری ہو گئے۔
اینکر پرسن نے اپنی بات کے آغاز میں اپنی مثال دی کہ وہ خود کتنا چیف جسٹس افتخار چوہدری کے خلاف تھے انہوں نے کتنے ہی پروگراموں میں انکے خلاف بات کی لیکن جب وہ عدالت سے انصاف مانگنے گئے تو انہیں انصاف ملا۔ اس لئے مختاراں مائ کے سلسلے میں یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ اسکے ساتھ انصاف نہیں ہوا۔
لیجئیے جناب، میں اپنی مثال دوں کہ میں نے پاکستان میں اعلی سطح تک کی تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کی، کامیاب ہوئ اور اس طرح یہ بات غلط ثابت ہوتی ہے کہ پاکستان میں تعلیم کے سلسلے میں خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ یہ سب پروپیگینڈہ ہے۔
جس وقت میں یہ سب کہونگی، میرے سامنے گوادر کے ساحل کے ساتھ رہنے والی نازنین، پاکستان کی لاکھوں عورتوں کا جلوس لے کر دھرنا مار کر بیٹھ جائے گی اور کہے گی کتنی جھوٹی ہو تم اور خود غرض۔ صرف اپنی دنیا میں رہتی ہو۔ میں کراچی سے سینکڑوں میل دور رہنے والی نیم خواندہ لڑکی سے ڈر جاتی ہوں۔
اس معاملے میں, جس میں لقمان مبشر خاصی وسعت قلب رکھتے ہیں میرا دل اتنا سا ہے۔ لقمان مبشر اپنے دیگر مہمانوں کے ساتھ مصروف بہ عمل جو اپنی زبان اور علم کے مظاہرے سے ہی لگ رہے تھے کہ کیا اپروچ رکھتے ہیں۔ ان میں سے ایک صاحب کا اصرار اس بات پہ رہا کہ اس کا تو میڈیکل ہی آٹھ دن بعد ہوا۔ اگر اس کا میڈیکل آٹھ دن بعد ہوا تو یہ کس کی کوتاہی تھی، یہ سوال کرنے والا ان سے کوئ نہ تھا۔ زنا بالجبر کے کیسز میں  بر وقت میڈیکل کی سب سے زیادہ اہمیت ہوتی ہے۔
یہ سب این جی اوز کا کھیل ہے مظفر گڑھ میں اتنی بڑی تعداد میں این جی اوز کھل گئ ہیں۔ ان سے یہ سوال نہیں کیا گیا کہ اتنی بڑی تعداد میں این جی اوز کراچی میں کیوں نہیں ہیں۔ اس قسم کے جرائم شہروں سے زیادہ پاکستان کے پسماندہ علاقوں میں کیوں  ہوتے ہیں، یہ بھی نہیں معلوم۔ تین روایت پسند مرد، کئ روائیتیں۔
اگلے دن میں پھر اسی کام میں مصروف ثناء بُچہ کو پکڑ لیتی ہوں۔ یہاں کچھ کام کی گفتگو جاری ہے۔ کیا اسکی وجہ یہ ہے  کہ ثناء بُچہ نے اپنا ہوم ورک محنت سے کیا اور کچھ کام کے لوگوں سے کام کی بات نکلوانے میں کامیاب ہو گئیں یا  یہ کہ اینکر پرسن ایک خاتون ہیں پاکستان کی ایک ماڈرن خاتون ، کسے معلوم؟
اس گفتگو سے ایک عام آدمی کو پتہ چلتا ہے کہ در حقیقت ہمارے یہاں جرم ہونے کے بعد تحقیقی پہلے مرحلے یعنی ایف آئ آر سے لیکر شواہد جمع کرنے تک کا کام نا اہل لوگوں کے پاس ہے۔
عدالتیں شواہد پہ کام کرتی ہیں انہیں مادی ثبوت چاہئیے ہوتے ہیں۔ اور کسی مجرم کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے پولیس کے محکمے کو شواہد اکٹھا کرنے ہوتے ہیں۔ اور استغاثہ انہیں ثبوت کی شکل میں پیش کرتا ہے۔ اگر شواہد اور ثبوت موجود نہیں ہیں تو آپ پہ جو گذرا اسکی کوئ اوقات نہیں چاہے اسکی وجہ سے آپ کی زندگی ختم ہو جائے۔
یہ کوئ پہلا کیس نہیں جسے ثبوت اور شواہد کے ناکافی ہونے کی بناء پہ اس نتیجے کا سامنا کرنا پڑا ہو یہاں نامی گرامی دہشتگردوں سے لے کر، غبن کرنے والے، کرپشن میں شامل افسران اور طبقہ ء اشرافیہ سے لے کر مافیاز کے  کرتا دھرتا تک یہی طریقے آزماتے ہیں۔ ایف آئ آر کو ہی اس طرح درج کیا جاتا ہے کہ انصاف کم سے کم ہو پائے۔ اور با اثر شخص یا تو بچ نکلے یا پھر اسے کم سے کم نقصان پہنچے۔
یہ سب کوئ راز کی بات نہیں، ان سے ہمارا سابقہ پڑتا ہی رہتا ہے۔ ہم میں سے ہر شخص اپنی زندگی میں اس حیرانی سے گذرتا ہے کہ فلاں شخص کیسے قانونی سزا سے بچ گیا۔
دوسری طرف ہم جب اس مقدمے کی نوعیت دیکھتے ہیں تو یہ زنا بالجبر کے گرد گھومتا ہے۔ زنا بالجبر طاقت کے مظاہرے سے منسلک جرم ہے۔ پاکستانی معاشرہ ایک پدر سری معاشرہ ہے۔ اسکے بڑے حصے میں خواتین کسی مرد کی جاگیر کا حصہ ہیں۔ اگر دو مردوں کے درمیان طاقت کا کھیل چل پڑے تو اسکی سزا ان مردوں سے تعلق رکھنے والی خواتین کے حصے میں زیادہ آ تی ہے۔ یوں ونی ، کارو کاری سے لیکر پنچایت اس بات کا اختیار رکھتی ہے کہ کسی عورت کو ایسی سزا بھی دے ڈالے۔ کسی مرد سے تعلق رکھنے والی خواتین کی یہ بے حرمتی سب سے بڑی ذلت سمجھی جاتی ہے، نتیجتاً جو اسے کرے گا وہ زیادہ طاقتور ٹہرے گا۔
ایک اورعام صورت یہ ہو سکتی ہے کہ  چونکہ مردوں کی اکثریت کا ذہنی رخ اس طرح متعین کیا جاتا ہے کہ وہ کسی عورت کو اپنے سامنے کوئ چیز نہیں سمجھتے، اس لئے جب کبھی انکی طاقت کسی عورت کے سامنے کم پڑتی نظر آئے تو وہ یہ جرم کرکے اس کا دماغ صحیح کریں۔
روانڈہ، بوسنیا، ویتنام کی جنگوں میں اور دور کیوں جائیں تقسیم ہندوستان اور تقسیم پاکستان  عمل کے دوران طاقت کے اس شو آف کا کئ لاکھ خواتین شکار ہوئ۔ جنگوں میں عورتوں کو یہ اذیت بھی اٹھانی پڑتی ہے۔ ان کا تھا کھیل خاک میں ہم کو ملا دیا۔
اس لئے ہمیں یہ دیکھ کر حیران نہیں ہونا چاہئیے کہ زنا بالجبر کے واقعات میں ایک اکثریت بالخصوص مردوں کی کیوں خاموش رہتی ہے جبکہ یہ وہی مرد ہوتے ہیں جو عورتوں کے متعلق اپنے انتہا پسند جذبات  کو اپنی غیرت سمجھتے ہیں۔
عدالتیں بھی اسی نظام کے پروردہ مردوں پہ مشتمل ہیں۔ تو اگر ایک طبقہ یہ مطالبہ کرتا ہے کہ خواتین ججز کو ایسے  مقدمات میں شامل رکھا جائے، پولیس  اور عدالتی نظام کی اس تربیت کا انتظام کیا جائے کہ وہ انصاف کے حصول کے لئیے اپنے آپکو ذہنی طور پہ توازن میں رکھ سکیں، وہ کیا غلط کہتا ہے۔ دور دراز کے علاقوں میں تو ایسے جرائم کو پولیس اسٹیشن میں رپورٹ کرنے کے قابل تک نہیں سمجھا جاتا۔
دنیا کے کتنے ہی آزاد معاشرے سے تعلق رکھنے والی عورت کیوں نہ ہو اسکے لئے اس سے زیادہ تکلیف دہ اور ذلت آمیز چیز کوئ اور نہیں ہو سکتی۔
پاکستان میں ہر آٹھ گھنٹے میں اجتماعی زیادتی کا ایک واقعہ ہوتا ہے۔  ہونے والے واقعات میں سے تقریباً ستر فی صد رپورٹ نہیں ہوتے۔ شکار ہونے والی لڑکیوں میں سے تینتالیس فی صد کی عمر سولہ سال سے کم ہوتی ہے۔ یہ وہ عمر ہے جس میں کسی لڑکی کو جو ہمارے معاشرے سے تعلق رکھتی ہو بآسانی ہراساں کیا جا سکتا ہے اور انہیں خاموش رہنے پہ مجبور کیا جا سکتا ہے۔
پاکستان  میں رجسٹر کیسز میں سے دو تہائ پنجاب سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کا محض یہ مطلب نہیں لیا جا سکتا کہ وہاں یہ جرائم زیادہ ہوتے ہیں۔ کیونکہ یہ ہم کہہ چکے ہیں کہ ستر فی صد واقعات رپورٹ نہیں ہوتے۔ اس کا ایک اور مطلب بھی نکالا جا سکتا ہے کہ پنجاب میں  ایسے جرائم کو رجسٹر کرانے کی شرح زیادہ ہے۔
پاکستان اس حساب سے دنیا کا واحد ملک نہیں ہے۔ ہمارا پڑوسی ملک انڈیا اس میں ہم سے آگے ہے۔ دارالحکومت دہلی میں خواتین سورج ڈوبنے کے بعد گھر سے نہیں نکل سکتیں۔ گلیوں میں  ہوس کے مارے گینگسٹرز کا راج ہوتا ہے۔ وہ بھی پدر سری معاشرہ رکھتے ہیں، وہ بھی فیوڈل سوچ سے آزاد نہیں ہو سکے، انکے یہاں بھی انتہا پسندی اپنے عروج پہ ہے۔ لیکن ہندو مذہب کے بنیادی عقائد کے مطابق عورت کو مرد کی شانتی کے لئے پیدا کیا گیا ہے۔ مرد دیوتا ہے عورت  داسی۔ 
 ان میں اور ہم میں نظریاتی فرق ہے جس کی بناء پہ ایک طبقہ کہتا ہے کہ ہم نے یہ ملک حاصل کیا۔ اگر یہ درست ہے تو کیا اس فرق کو ہمارے روئیے میں نہیں نظر آنا چاہئیے۔
ایسا کیوں ہے کہ  دہشت گردی کی جنگ میں مصروف عافیہ صدیقی کے ساتھ ہونے والے جنسی ہراسمنٹ کی تو مذمت کی جائے، اس کی مظلومیت کے تو واسطے دئیے جائیں۔ اسکے بچوں کی تو فکر ہو۔ لیکن اپنے ملک میں، اپنی سرحدوں کے اندر رہتے ہوئے اپنے ہی ملک کی ہم مذہب، ہم زبان  عام گھریلو عورتوں کے تحفظ کی خاطر مناسب قانون سازی کے لئے آواز نہ بلند کی جائے۔ یہ بھی تو قوم کی بیٹیاں ہیں، انکے بچے بھی تو بچے ہوتے ہیں۔ اور کون جانے ان میں سے کس میں واقعی قوم کی عظیم بیٹی بن دکھانے کا حقیقی جذبہ موجود ہو۔ مگر اس سلسلے میں ایک مجرمانہ خاموشی اختیار کی جاتی ہے تاکہ ان لوگوں تک کوئ این جی او پہنچے اور پھر یہ کہیں کہ یہ سب تو این جی اوز کا کھیل ہے۔
کوئ معاشرہ اگر اپنے تمام طبقات کے لئے انصاف نہیں چاہے گا تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ پنپ سکے، ، خوش حال ہو، مستحکم ہو۔ اسکے ساتھ انصاف کیا جائے۔ نہیں، ایسا ممکن نہیں۔  

45 comments:

  1. خالص اسلامی معاشرہ اسے قسم کے جرائم پر قابو پاسکتا ہے اگر آپ خفا نہ ہوں تو سابقہ طالبان حکومت جو کہ افغانستان میں کچھ عرصہ کے لیے قائم ہوئی تھی اس قسم کے جرائم نہ ہونے کے برابرتھے۔عورت دنیا میں سب سےزیادہ مظلوم مخلوق ہے کاش ہم اس کے ساتھ نرمی کا برتاو کرسکیں۔

    ReplyDelete
  2. عورت کے معاملے میں ہندو نظریے اور اسلامی نظریے میں کوئی فرق نہیں ہے

    ReplyDelete
  3. [۔۔۔۔۔یہ اقتباس برونن کرن کی کتاب “ان ٹو دی مرر ” سے لیا گیا ہے . برونن کرن ،اسلام آباد میں قیام پذیر مواصلاتی مشیر ہیں. انہوں نے پاکستان اور افغانستان میں اے ایف پی کی نامہ نگار کے طور پر ٢٠٠٢ سے ٢٠٠٤ تک کام کیا تھا. ساتھ ہی ساتھ افغانستان میں اقوام متحدہ کی ترجمان کے طور پر اپنی ذمہ داریاں نبھائیں. انہوں نے مختاراں مائی کی مبینہ زیادتی پر ایک چشم کشا کتاب “ان ٹو دی مرر ” لکھی. یہ کتاب پاکستان میں قبائلی روایات اور طرز زندگی پر روشنی ڈالتی ہے اور کہانی کے دونوں اطراف کی تفاصیل معلوم کر کے گاؤں کی عورت سے اجتماعی زیادتی کے پیچھے چھپے حقائق دریافت کرنے کی کوشش کرتی ہے.۔۔۔۔۔]

    ReplyDelete
  4. اس میں کسی بھی قسم کی دو رائے نہیں کہ انصاف ہونا چاہیے اور نا ہی آپکو زنا با الجبر کی وکالت کرتا ہوا ملے گا انتہا پسندوں کے یہاں تو ہر گز نہیں لیکن انصاف ایک بہت بڑا کام ہے ایک انتہائی بڑی ذمہ داری ..اورمیں سمجھتا ہوں کہ اس کام کو میڈیا اور این جی اوز کے تو ہر گز سپرد نہیں کرنا چاہیے

    ReplyDelete
  5. جہاں انصاف اُتھ جاتا ہے وہ معاشرے تباہ ہوجاتےہیں اور قومیں ناپید ۔

    ReplyDelete
  6. محتمہ اس ميں چيف جسٹس صاحب کا کوئی قصور نہيں ہے ۔ اُنہيں قانون کے مطابق فيصلہ کرنا ہوتا ہے ۔ اور قانون وہ نہيں بناتے حکومت بناتی ہے
    اگر وقت ملے تو ميری مندرجہ ذيل تحرير بمع اس ميں ديئے گئے حوالوں کے پڑھ ليجئے شايد کچھ صورتِ حال واضح ہو جائے
    http://www.theajmals.com/blog/2010/12/26

    ReplyDelete
  7. پھر شروع ہوگئیں آپ ؟
    آپ کو پاکستان ہی میں کیڑے نظر آتے ہیں۔ جانتی نہیں کہ امریکہ میں ایک سیکنڈ میں چالیس کروڑ پینتیس لاکھ چودہ ہزار چار سو چونتیس خواتین ذیادتی کا شکار ہوجاتی ہیں ، یا یہ کہ آدھ سیکنڈ میں برطانیہ میں اُنیس کروڑ دو لاکھ باون ہزار آٹھ سو بیالیس خواتین قتل کردی جاتی ہیں ، اور یہ کہ فرانس میں سوا سیکنڈ میں پانچ برس سے کم عمر کی بیس لاکھ انیس ہزار خواتین ماں بن جاتی ہیں۔ لہذا پاکستانی خواتین کو گولی کرائیں اور فرانسیسی خواتین پر لکھا کریں۔
    بقول اُردو صحافت کے اکثر و بیشتر مجاہدین کے یہ واقعہ تو سرے سے وقوع پذیر ہی نہیں ہوا تھا۔ اور وہ آپ کے ممدوح حقوق نسواں کے چیمپئن فوجی انکل جن کو آپ صاف بچا گئیں۔ مختار مائی کی کہانی تو فوجی بادشاہ کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتی۔ اپنے امریکہ دورے پر ارشاد فرمایا تھا کہ پاکستان میں یہ کہاوت ہے کہ جو امریکہ کینیڈا ، یورپ کا ویزہ چاہتا ہے وہ ریپ کروا لے۔ فوجی انکل تو یہ بیان داغ کر نکل لئے ، پاک لوگ اپنے منہ چھپاتے رہے۔ موصوف اس سے قبل ڈاکٹر شازیہ خالد کے مجرم کی بھی روحانی وکالت فرماتے رہے ہیں: ' میں قسم کھاتا ہوں کہ کیپٹن حماد مشوم بچہ ہے ، اس نے ککھ نہیں کیا' ۔
    باقی مختار مائی اور عافیہ ماسی کا موازنہ ممکن نہیں۔ مائی کو امریکہ نے سر پر چڑھایا ، پاک لوگ اس کے خلاف ہوگئے۔ ماسی کو امریکہ نے تھلے لگایا ، پاک لوگ اس پر فدا ہوگئے۔ ایشو امریکہ ہوا نا کہ ماسی اور مائی؟

    ReplyDelete
  8. شاذل ،طالبان کی حکومت، جی ہاں جس معاشرے میں ستر سال کے بوڑھے شخص کو چوتھی ، پانچویں یا چھٹی بیوی کے طور پہ بارہ سال کی بچی نکاح میں دینے کا جبر قائم کر دیا جائے وہاں یہ جرم قانونی اور معاشرتی سرپرستی میں ہوتا ہے اور اسے زنا نہیں کہتے۔
    افتخار اجمل صاحب، اس پوری تحریر میں، میں نے کسی ایک جگہ کہا کہ چیف جسٹس کی کوتاہی اس میں شامل ہے۔ اس نا انصافی میں پورا نظام شامل ہے۔ اس میں نظام کا ارادہ بھی موجود ہے اور نظام کی بنیادی کمزوریاں بھی۔ اور اب وقت ہے کہ ان کمزوریوں کو دور کیا جائے اس سے پہلے کہ ہم بھی انڈیا کے دارالحکومت سے مقابلے پہ آجائیں۔
    عثمان، جی ہاں فوجی انکل نے جس دن نیویارک میں بیٹھ کر یہ بیان دیا۔ اس دن مجھے بھی بڑا غصہ آیا تھا۔ پر جناب ہے تو ہمارے ہی معاشرے کا بندہ۔ ایسے ہی باتوں سے پتہ چلے گا۔
    مکی صاحب،
    :)
    اس پہ بعد میں بات ہوگی۔

    ReplyDelete
  9. Dr. Aniq Naz!
    What was the age of Hazrat Ayesha R.A at the age of Nikkah and Rukhsti???
    What is the age of a Female to be adult(Balooghat)?
    What do u Think that A girl should be married just 15 years before expected menu-pause??
    or
    The girl should be left on the risk of being raped or indulged in the social and religious chrime of Zana???
    Have u answers???

    ReplyDelete
  10. کیا سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد، مختاراں مائی کی کہانی کا اختتام ہوگیا، یا صرف ایک باب بند ہوا ہے؟
    مختاراں مائی نہ صرف اپنا مقدمہ لڑتی رہی، اس نے عورتوں کی فلاح کے لیے تنظیم قائم کی۔اس کو ایوارڈ ملے، بین الاقوامی سطح پر شہرت حاصل ہوئی، اپنے گاؤں میں عزت بڑھی۔ اس کی ہمت سے اور خواتین کا بھی حوصلہ بڑھا۔مختاراں نے کئی عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹائے۔ کبھی انسداد دہشت گردی عدالت نے چودہ میں سے چھ ملزمان کو موت کی سزا سنائی اور آٹھ کو بری کر دیا۔ کبھی لاہور ہائی کورٹ کے ملتان بینچ نے ان چھ میں سے پانچ کو بری کر دیا، تو کبھی وفاقی شرعی عدالت نے لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو معطل کیا۔ کبھی ملزمان کو گرفتار کر لیا جاتا، تو کبھی رہا۔

    مختاراں مائی کا کہنا ھے میں تھک چکی ہوں ان عدالتوں سے۔ دس سال ہوگئے ہیں ذلیل ہوتے ہوتے۔ اب سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے تو اب کون سی عدالت رہتی ہے۔ اب صرف اللہ کی عدالت ہے۔ میں اس پر امید کرتی ہوں۔ مجھے اللہ انصاف دے گا۔‘
    مختار مائی کیس کا فیصلہ پاکستان کے پولیس کے تفتیشی اور انصاف کی فراہمی کے نظام کی کمزوری کی عکاسی کرتا ہے کہ نو سال بعد ایک فیصلہ ہوا ہے اور ان کے ملزمان کو چھوڑ دیا گیا ہے۔

    ReplyDelete
  11. کاشیف نوازApril 30, 2011 at 12:51 PM

    ےعدالتوں میں صنفی تعصب ختم کرو۔

    ReplyDelete
  12. جس تحرير کا حوالا اُوپر تيسے نمبر پر تبصرہ ميں ديا گيا ہے وہ لکھاری کی زبان ميں آج شائع ہوئی ہے اور يہاں موجود ہے
    http://thenews.jang.com.pk/TodaysPrintDetail.aspx?ID=44406&Cat=9

    ReplyDelete
  13. ایف ایم صاحب، حضرت عائشہ کی عمر کیا تھی؟ رسول اللہ نے کتنی شادیاں کیں اور کیوں کی انکا پس منظر کیا تھا٫ قرآن شادیوں کے بارے میں کیا کہتا ہے کفو کسے کہتے ہیں؟ سنگین سوالات اس سے کہیں زیادہ ہو سکتے ہیں اگر ہم ڈیڑھ ہزار سال پہلے کہ عرب قبائلی نظام سے جڑے رہیں اور اسلام جو دین کتاب کی صورت پیش کرتا ہے اسے نظر میں نہ لائیں۔
    آج ہم غلام اور کنیز بھی نہیں رکھتے بلکہ اسے برا سمجھتے ہیں۔ آج کے معاشرے میں ہر کام کرنے والا اپنے کام کے اوقات اور تنخواہ رکھتا ہے اور بہتر تنخواہ منے پہ کسی بھی وقت چھوڑ کر جا سکتا ہے۔
    دنیا کچھ زیادہ آگے نہیں جا چکی۔ پھر خواتین کے حوالے سے یہ دقیانوسیت کیوں ؟
    اب میں آپ سے سوال کرتی ہوں کہ کیا آپ بحیثیت باپ اپنی بارہ سال کی بیٹی کی شادی ایک ستر سال کے شخص سے کرنے کے لئے تیار ہیں اس وجہ سے کہ کہیں وہ زنا میں مبتلا نہ ہوجائے۔
    میں بحیثیت ایک عورت اور ماں اس چیز کے لئے تیار نہیں۔ میں ہی نہیں کراچی میں نوے فی صد خواتین یہ نہیں کریں گی۔ دس فی صد میں وہ خواتین شامل ہیں جو یہاں گوٹھوں میں رہتی ہیں یا قبائلی علاقوں سے آئ ہیں اور یہ بھی نہیں جانتیں کہ ایک دفعہ گھر سے نکل جائیں تو گھر اکیلے واپس کیسے پہنچیں۔
    یہ نوے فی صد عورتیں اپنی لڑکیوں کی شادیاں بارہ سال میں کرنے کے بجائے نظام سے لڑنا پسند کریں گی۔ یہ بھی ان لوگوں کی صف میں کھڑی ہونگیں جو نظام کے کرتا دھرتاءوں سے قانون سازی کرنے کو کہے گا اور وہ اپنی بچیوں کے لئے ان قوانین کا سختی سے نفاذ کرنے والوں کا ساتھ دیں گی۔
    ان لوگوں سے ہٹ کر وہ لوگ جو حقوق نسواں یا دجال کا حربہ قسم کے عنوانات لکھتے ہیں وہ خود بھی اپنی اولادوں پہ یہ شاید نہ کریں۔
    اگر زنا کے جرائم سے اس طرح بچا جا سکتا تو دو سال تین سال کی بچیاں اس ظلم کا شکار کیوں ہوتی ہیں؟ انکی شادیاں کیسے کی جائیں؟ ایک شادی شدہ عورت اس ظلم کے بھینٹ کیوں چڑھتی ہے؟ اس کا کیا کیا جائے؟ صرف زنا نہیں اجتماعی زنا کس بیمار ذہن کی عکاسی کرتا ہے؟ پسماندہ علاقوں میں جہاں رسوم و رواج کی سختی سے پابندی کی جاتی ہے وہاں سب سے قتل و غارت گری اس نام پہ کیوں ہوتی ہے؟ کراچی میں بھی اگر شک کی بنیاد پہ کسی عورت کا قتل ہوتا ہے تو متائثرین کا بنیادی تعلق پاکستان کے کسی دیہی علاقے سے ہی نکلتا ہے؟ ایسا کیوں ہے؟ کیا دیہی عورت زیادہ راہ سے بھٹکی ہوئ ہے؟ کیا زنا کے خوف سے لوگ عورتوں کو جنم دینا چھوڑ دیں؟ پھر الٹرا ساءونڈ کے ذریعے لڑکیوں کے جنین ضائع کرنے والے صحیح کرتے ہیں۔
    شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ چھپانے سے بلی بھاگ نہیں جاتی۔

    ReplyDelete
  14. دو نمبر مولویApril 30, 2011 at 6:28 PM

    ایکسکیوز می میڈم! اس سارے تماشے میں یہ شان دار الفاظ کس نے استعمال کیے ہیں کہ نوجوان لڑکی کی شادی بڈھے بابے سے کرانا اچھا کام، عین عبادت اور مفت کا ثواب ہے؟
    کوئی حوالہ شوالہ ملے گا تاکہ میں بھی جا کر اسے دو چار گالیوں سے نواز سکوں؟

    ReplyDelete
  15. دو نمبر مولوی صاحب، ایف ایم صاحب کا ایک نمبر تبصرہ پڑھیں۔

    ReplyDelete
  16. چينلز کی بات کی تو نالائق ليگ کو بھی سن ليجيئے
    http://youtu.be/dGaHUSDaXY4

    ReplyDelete
  17. دو نمبر مولویApril 30, 2011 at 11:22 PM

    لیکن محترمہ، اس تبصرے میں تو بروقت نکاح کرانے کا ذکر ہے۔ یہ بات کہاں ہے کہ نوجوان لڑکی کی شادی بڈھے بابے سے کرا دی جائے؟ کیا سارے نوجوان لڑکے مر گئے؟ لڑکوں کو بھی تو برائیوں سے بچانا ہے۔

    ReplyDelete
  18. دو نمبر مولوی صاحب لگتا ہے آپ تبصرے تسلسل سے نہیں پڑھ رہے۔ پہلے شاذل کا تبصرہ ہے۔ جواب میں ، میرا تبصرہ ہے اس پہ ایف ایم صاحب کا حضرت عائشہ کی مثال ہے کہ کیا مجھے معلوم ہے کہ حضرت عائشہ کا نکاح کس عمر میں ہوا تھا۔
    حضرت عائشہ کے بارے میں مختلف روائیتیں ہیں۔ جن میں سے کچھ میں ان کی عمر شادی کے وقت دس سال سے کم بتائ جاتی ہے۔
    ورنہ ایف ایم صاحب حضرت عائشہ کے بجائے حضرت فاطمہ کی بھی مثال دے سکتے تھے۔ رسول اللہ نے اور بھی شادیاں کی تھیں ان میں سے حضرت عائشہ کا حوالہ بغیر کسی خاص مقصد کے تو نہیں ہو سکتا۔

    ReplyDelete
  19. اس سارے گروپ کا ایک ہی مسئلہ ہے،
    ان کی کم عقلی۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!
    :)
    جب تک
    ا،ب ، ت ،ث ،کر کے بات نہ سمجھاؤ انہیں سمجھ ہی نہیں آتی
    پھر ،خ،ت ،م سے گفتگو شروع کردیتے ہیں۔۔۔!
    ؛)

    ReplyDelete
  20. دو نمبر مولویMay 1, 2011 at 2:28 PM

    آنٹی جی مجھے تو لگتا ہی نہیں یقین ہے کہ یہ ایف ایم آپ خود ہی ہیں۔ اس سے کئی فائدے ہونے ہیں۔ ایک تو یہ کہ تبصرے میں اضافہ۔ دوم یہ کہ اسی بہانے اپنی احساس محرومی اور گندی ذہنیت کے مطابق دین پر کچھ کیچڑ اچھالنے کا موقع۔۔۔۔۔۔
    :D

    ReplyDelete
  21. ترکی کی بھی سن ليجيئے؛

    Domestic violence rings alarm bells in Turkey

    "Activists say violence against women in the EU-candidate country has reached an alarming level and point the finger at the judicial authorities and the ruling Islamist-rooted Justice and Development Party, or AKP."

    http://www.hurriyetdailynews.com/n.php?n=domestic-violence-rings-alarm-bells-in-turkey-2011-04-28

    جہاں مذہبی پارٹياں آجائيں مہاں ايسی ہی دودھ اور شہد کی نہريں بہتی ہيں-

    ReplyDelete
  22. دو نمبر مولوہ صاحب، جی ہاں اپکے پر مغز تبصرے کے لئے مجھے یہ کرنا پڑا۔
    یہ آپ ہر دفعہ نام بدل کر ایک ہی زبان میں ایک جیسے تبصرے کیوں کرتے ہیں۔ ایک ہی نام سے ایک جیسے تبصرے کریں تو اس سے آپکی پوزیشن مستحکم ہونے کا امکان ہے۔
    ایسے دو نمبر خیالات ، زبان اور طریقے دو نمبر لوگوں کے لئے چھوڑ رکھے ہیں۔
    کہاں تو آپکو یہ نظر نہیں آرہا تھآ کہ کس نے ایسا تبصرہ کیا ہے اور کہاں آپ نے ایف ایم کے وجود سے انکار کر دیا۔
    ہمم، تو ایف ایم صاحب یہ کیا ہوا۔ آپکے ساتھی تو آپکو تسلیم نہیں کر رہے اور نہ آپکی دلیل کو۔ اس پہ اب آپ ہی کچھ روشنی ڈال سکتے ہیں کہیں آپ یہ نہ کہہ دیجئیے گا کہ یہ دو نمبر مولوی کا کردار آپ نے تخلیق کیا ہے۔

    ReplyDelete
  23. دو نمبر مولویMay 1, 2011 at 7:37 PM

    اوئے میرے نام سے تبصرہ کس نے کیا؟ اسی لیے تو میں اس بلاگ پر اپنا اصل نام استعمال کرنے سے گھبراتا ہوں۔

    ReplyDelete
  24. عثمان تحریر فرماتے ہیں "
    جانتی نہیں کہ امریکہ میں ایک سیکنڈ میں چالیس کروڑ پینتیس لاکھ چودہ ہزار چار سو چونتیس خواتین ذیادتی کا شکار ہوجاتی ہیں ، یا یہ کہ آدھ سیکنڈ میں برطانیہ میں اُنیس کروڑ دو لاکھ باون ہزار آٹھ سو بیالیس خواتین قتل کردی جاتی ہیں ، اور یہ کہ فرانس میں سوا سیکنڈ میں پانچ برس سے کم عمر کی بیس لاکھ انیس ہزار خواتین ماں بن جاتی ہیں۔

    عثمان صاحب . بڑے ہی پکے مومن لگتے ہیں ، اتنا بڑا جھوٹ اتنی ڈھٹائی سے کسی کو نہیں بولتے سنا . بھائی اتنی تو ان ملکوں کی کل آبادی بھی نہیں .

    ReplyDelete
  25. "اگر ہم ڈیڑھ ہزار سال پہلے کہ عرب قبائلی نظام سے جڑے رہیں"
    یہی وہ اصول ہے جو کل گمراہی کی جڑ ہے۔
    شکریہ

    ReplyDelete
  26. ایسا کیوں ہے کہ ڈاکڑ شازیہ کا کیس دبادیا جائے؟
    بدقسمتی سے جس ماشرتی منافقت کی آپ بات کررہی ہیں وہ آپ بدرجہ اتم پائی جاتی ہے

    ReplyDelete
  27. حمادالرحمن صاحب، میرا کیال ہے کہ عثمان نے یہ جان بوجھ کر یہ اعدادو شمار بڑھائیں۔ اور یہ ان لوگوں پہ طنز ہے جو جب بغی وطن عزیز میں ان جرائم کی بات کی جائے مغرب سے کچھ ایسے ہی خوفناک ڈیٹا لا کر شور مچانا شروع کر دیتے ہیں کہ یہ ان مغربی ممالک میں یہ جرائم اتنے ہوتے ہیں اور لوگ ہمارے ملک کے بارے میں بولتے ہیں۔
    کاشف نصیر صاحب، آپ بڑی بے نیازی سے چیزیں پڑھتے ہیں۔ میں نے ڈاکٹر شاذیہ کا کیس دبایا ہے یا آپکے اس معاشرے میں جو مردانہ تعصب کے ساتھ چلتا ہے۔ جہاں ایک خاتون ، اگر مردوں کو اس بات پہ ٹوکیں کہ آپ کواتین کی بکارت پہ اتنی دلچسپی کیوں لیتے ہیں تو جواباً انکے علامہ فرماءیں گے کہ آپ دراصل مردوں کے بارے میں چٹپٹی مخصوص گفتگو سننا چاہتی ہیں اس لئے یہ کہہ رہی ہیں۔
    آپ جیسے جیالے اور معاشرے کے اخلاق پہ نظر رکھنے والے صرف اس بلاگ کو کیوں نشانہ بناتے ہیں۔ مردانہ بلاگز کی بد اخلاقیوں پہ کیوں توجہ نہیں فرماتے۔ اس لئے کہ آپ ایک مرد ہیں۔
    میں مختاراں مائ سمیت پاکستان کی ہر عورت کے تحفظ کی بات کرتی ہوں، چاہے وہ ڈاکٹر شاذیہ ہو یا کسی ہاری خاندان سے تعلق رکھنے والی عورت۔ قانون کی پکڑ ایسی ہونی چاہئیے کہ زنا بالجبر کے مجرموں کو قابل عبرت بنا دیا جائے۔

    ReplyDelete
  28. ہاہاہا.......
    میرے خیال سے اب آپ کو واقعی پانچ برس سے کم عمرکی بیس لاکھ انیس ہزار فرانسیسی ماؤں کے المیے پر لکھنا چاہیے جن کا تذکرہ میں نے اوپر کیا ہے۔

    ReplyDelete
  29. عثمان، ہاں سوچ رہی ہوں سرچ کروں۔ اس سے بلاگ کی ہٹس میں ریکارڈ اضافہ متوقع ہوگا۔
    مجھے یہ جان کر افسوس ہوا کہ ہٹس کے اعتبار سے میرا بلاگ پاکستان کا نمبر چار بلاگ ہے۔
    لگتا ہے اب یہی طریقہ آزمانا پڑے گا ہٹس اگر زیادہ نہ ہوئیں تو قیامت کے دن خدا کو کیا منہ دکھاءونگی۔

    ReplyDelete
  30. دو نمبر مولویMay 2, 2011 at 4:30 PM

    اگر ایف ایم صاحب واپس آئیں تو ایک تو ڈاکٹر جواد خان کا آج کا مضمون پڑھ لیں کیونکہ مجھے شک ہونے لگا ہے کہ آپ دونوں (میڈم عنیقہ اور ایف ایم) کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی نکاح کے وقت عمر کے متعلق کوئی غلط فہمی ہے۔
    http://jawwad-khan.co.cc/2011/05/%D8%B1%D9%88%D8%B4%D9%86-%D8%AE%DB%8C%D8%A7%D9%84-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D9%BE%D8%B3%D9%86%D8%AF%DB%8C%D8%AF%DB%81-%DA%AF%DA%BE%D9%86%D8%A7%D8%A4%D9%86%DB%8C%D8%AA/

    اس کے علاوہ یہ وضاحت بھی کر دیں کہ جو مطلب عنیقہ میڈم نے ان کے تبصرے کا اخذ کیا ہے، وہ درست ہے یا نہیں۔

    باقی جہاں تک مجھے سمجھ آ رہی ہے، اس کے مطابق تو آپ دونوں کے دوران کوئی کمیونیکیشن گیپ ہے۔ نہ ایف ایم آپ کی بات کو پوری طرح سمجھا ہے نہ آپ اس کی بات کو۔
    کئی بار میرے ساتھ ایسا بھی ہوا ہے کہ لمبی چوڑی بحث کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ اصل میں دونوں کے موقف میں کوئی خاص وفرق نہیں تھا۔ چنانچہ اپنے تجربے کی روشنی میں گزارش کروں گا کہ ٹھنڈے دماغ سے دوسروں کی بات سنا کریں اور اپنی مرضی کے مطلب اخذ کرتے وقت احتیاط کیا کریں۔ شکریہ۔
    اس سے زیادہ فی الحال کچھ نہیں کہہ سکتا جب تک ایف ایم کی طرف سے وضاحت نہیں آ جاتی۔

    ReplyDelete
  31. دو نمبر مولویMay 2, 2011 at 4:35 PM

    ایک سوال رہ گیا۔ افغانستان میں جب طالبان کی حکومت تھی، تب طالبان کے زبردستی کم عمر لڑکیوں کے بوڑھے بابوں سے نکاح کروانے کی بات، آپ نے کس ذریعے سے سنی؟ اور اس ذریعے کے مطابق اس نوعیت کے کتنے واقعات پیش آ چکے ہیں؟

    ReplyDelete
  32. فی الحال تو سارے گدھ اورکوے، راجہ گدھ کی سربراہی میں مختاراں مائی کی لٹی ہوئی عزت کی لاش نوچنے چچوڑنے میں لگے ہوئے ہیں،بزرگ گدھ بھی اپنا حصہ ڈالنے پہنچ گئے ہیں!!!

    http://jafar-haledil.blogspot.com/2011/05/blog-post.html?utm_source=feedburner&utm_medium=feed&utm_campaign=Feed%3A+blogspot%2ForzPg+%28%D8%AD%D8%A7%D9%84%D9%90+%D8%AF%D9%84%29

    ReplyDelete
  33. دو نمبر مولوی صاحب، آپ نے میرے تبصرے دھیان سے نہیں پڑھے۔ میں نے لکھا ہے کہ بعض روایات میں حضرت عائشہ کی عمر دس سال سے کم بتائ جاتی ہے۔ آپ لوگ اپنے شک کے جذبے میں چیزوں کو انکے صحیح معنوں مِن نہیں پڑھتے اور فورا نصیحت کا طومار باندھ دیتے ہیں ۔ آپ جواد صاحب کے بلاگ پہ سر دھنیں۔ ایف ایم صاحب کو ضرور وہاں جانا چاہئیے۔ وہ انکے لئے صحیح مقام ہے۔ مجھے منافقین کی ہر تحریر پڑھنے میں کوئ دلچسپی نہیں۔
    مجھے کہاں سے پتہ چلا کہ وہاں ایسے ہوتا ہے۔ میں اسی کرہ ء ارض پہ رہتی ہوں انسانوں کے درمیان۔ جنت الفردوس سے بیٹھ کر نہیں لکھتی۔ جب وہاں سے لکھونگی تو بالکل ایسا ہی لکھونگی جیسا کہ آپ یا 'ڈاکٹر' جواد اینڈ کمپنی لکھتے ہیں۔
    عبداللہ، میں نے عرصہ ء دراز سے جعفر کے بلاگ پہ جانا چھوڑ دیا ہے۔مومن نما منافقین کی ہر تحریر سے مجھے کوئ دلچسپی نہیں۔ غلاظت کی جگہوں پہ حاضری ضروری نہیں۔ اس پورے گروہ کے پاس ٹیپ کے چند مصرعوں کے علاوہ کچھ نہیں۔ وہ سب جان چکے ہیں اور یاد ہو گئے ہیں۔ اگر یہ نہ لکھیں تو انہی کی طرف سے ہم یہ سب اتنی ہی مہارت سے لکھ سکتے ہیں۔

    ReplyDelete
  34. مجھے کہاں سے پتہ چلا کہ وہاں ایسے ہوتا ہے۔ میں اسی کرہ ء ارض پہ رہتی ہوں انسانوں کے درمیان۔ جنت الفردوس سے بیٹھ کر نہیں لکھتی۔ جب وہاں سے لکھونگی تو بالکل ایسا ہی لکھونگی جیسا کہ آپ یا 'ڈاکٹر' جواد اینڈ کمپنی لکھتے ہیں۔
    __________________________________________________
    بہت خوب !!!
    مجھے جنت الفردوس میں پہنچا دیا.... :)

    ReplyDelete
  35. :)
    ڈاکٹر جواد احمد خاں صاحب،
    مجھ حقیر، گنہگار کی کہاں قدرت کہ کسی کو وہاں پہنچا سکوں۔ یہ سب آپ جیسے مومن لوگوں کے ذاتی انتخابات، کمالات و مقامات ہیں۔ یا کم از کم آپ لوگ تائثر تو ایسا ہی دیتے ہیں جیسے جنت الفردوس یا سدر ۃ المنتہی سے بیان جاری کیا گیا ہو۔

    ReplyDelete
  36. مجھے یہ جان کر افسوس ہوا کہ ہٹس کے اعتبار سے میرا بلاگ پاکستان کا نمبر چار بلاگ ہے۔
    لگتا ہے اب یہی طریقہ آزمانا پڑے گا ہٹس اگر زیادہ نہ ہوئیں تو قیامت کے دن خدا کو کیا منہ دکھاءونگی۔
    ______________________________________________

    ماشاءاللہ ۔۔۔میری طرف سے بہت بہت مبارکباد
    زیادہ مبارکباد آپکی اعداد و شمار جمع کرنے کی حیران کن صلاحیت پر۔
    لیکن مجھے حیرانگی نہیں ہوئی ۔جس طرح آپنے ہر آٹھ گھنٹے میں ایک پاکستانی عورت کا زنا باالجبر کرایا ہے کچھ عجب نہیں کہ انہی ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے اپنے بلاگ کو چوتھے نمبر پر لے آئیں۔ تبھی یہ دعویٰ زنابالجبر والے دعویٰ کی طرح محسوس ہو رہا ہے بلکہ کچھ یار لوگ اسے اعداد و شمار کا زنا باالجبر بھی کہہ سکتے ہیں۔
    کمال ہے کہ آپ بھی قیامت پر یقین رکھتی ہیں۔ یہ تو قیامت سے پہلے قیامت ہے۔

    ReplyDelete
  37. ڈاکٹر جواد احمد خان صاحب، دل سے نہیں لگائیں یہ میرے اعداد و شمار نہیں مجھے ان سب چیزوں سے دلچسپی نہیں کہ میرے بلاگ کی کیا رینکنگ ہے۔ یہ تو انٹر نیٹ پہ ایک دن گھومتے گھومتے یہ خبر میری نظر سے گذری۔ کسی نے بلاگز کا تجزیہ کیا ہوا تھا۔ واللہ مجھے خود بھی اس پہ یقین نہیں ہے۔ مجھے تو یہ تک یاد نہیں کہ یہ تجزیہ میں نے پڑھا کہاں تھا۔ آپ نے اپنی جان گھلا ڈالی۔ معذرت۔

    ReplyDelete
  38. I didnt Know that This will lead to This way.
    For those who have suspicion about my Identity can reach me at http://www.facebook.com/mrfayyaz
    http://www.lafunga.wordpress.com
    Aniqa, Why are you always having the views which are far away from realities.
    Religion/Islam does not always meet the logics or our logics are not upto the level to understand Islam in true prospect.
    We have to believe and follow the islam whether we understand or not.
    Women has still not accepted being half in importance than Males.
    They even dont easily accept the right of a male to marry 4 women at a Time.

    And now Let me Clear my views about the current Discussion.
    Sorry for poor english. Kuch samajh na aay tau Puch lijiay ga.

    ReplyDelete
  39. Mein aik kamzor aqeeda ka musalman ho sakta hun. mein zayda baa amal b nahi. mujhay zayda shaoor b nahi.
    Per Dr. Israr Ahmad tau mujh say aap say zayda ilm rakhtay
    yeh Video Dekhiay
    https://www.facebook.com/video/video.php?v=159485884113038&oid=178704008830493&comments

    http://www.kalam.tv/ur/video/72141/index.html

    ReplyDelete
  40. aur rahi baat mere Comment Ke.
    Allah ka Rasool (PBUH) ney 11/12 shadiyan ke.ta k woh Apnay ummatiyoon k liay Misaal bana sakain.
    K hum Bewaoon sey b Bayah karain..
    Kanwari Larkiyoon sey b.. etc
    Aur rahi Baat Hazrat Ayesha R.A. ki misaal dainay ki. tau mein ney batana chaha k Baloghat k sath he beti bayah deni chaheay...
    Na Baalagh ko bayahna kis ney kaha? aap tau foran ja pohcnhi choti bachyoon ki taraf..
    ager 17 saal ki larki b na balagh ho tau mat bayahoo..
    aur ager 12,13,14 saal ki baligh ho jaey tau bayah do...
    baloghat just secondary sex characters nahi hein.. aqal o shaoor b hey...
    aur aaj kal ki genration hum sey zayada aqal o shaoor rakhti hey..
    aap ki beti jis age mein hey us mein aap us jitni zaheen nahi houn gi..

    ReplyDelete
  41. Aur jab Shadi Jaldi ho gi.
    Shadi karna asaan ho ga.
    tau kanwaray logon ki tadaaad mein kami hoti jaey gi.
    Jo chiz halaal tareekay sey muyassar ho tau usay haraam tareekay say muyassir karnay ki zaroorat kam sey kam hoti jaey gi.
    Aur Janab aap apni soch ko Islaam aur Hamari Soch ko Kufr mat smjha karain..
    Aaap Chemistry per tau hamain jhutla sakti ho kiyun k Chemistry ka ilm rakhti ho.
    Ya tau mazhab ka Ilm haasil karo.
    ya us mein sey keeray nikaalnay bund karo..
    k
    Arab k kabayli nizam sey islaam ko mat jorain...
    Arab mein Islam ko misaaal banaya gya k baaki b aisa he rawayya rakhain. Islam Qabaylioon sey nahi aay arab k. Albatta Arab k Qabaylioon ko Islam ney bohat kuch dia k woh Baddoo dunia k afzal logon mein Shumar honay lagay..
    Hazrat Fatima R.A. ki misaal b aap ney Khud he day do.

    ReplyDelete
  42. اٹھارہ کروڑ آبادی والے ملک پاکستان میں روزانہ سینکڑوں یا ہزاروں جرائم ہوتے ہیں۔ اس کا بہت کم حصہ اخبارات تک پہنچ پاتا ہے۔ چلیں جو کچھ اخبارات تک پہنچ پاتا ہے اسی کا حساب لگا لیجئے۔ اردو کے معروف اخبارات کے جرم و سزا کے صفحات پر زنا کی خبریں تلاش کیجئے۔ دو تین تو آرام سے مل جائیں گی۔ پاکستان کے دو مختلف علاقوں کے اخبارات کے جرم و سزا کے صفحات سے اعداد و شمار اکھٹا کیجئے آپ بڑی آسانی سے مطلوبہ ہدف تک پہنچ جائیں گے کہ پاکستان میں روزانہ کم از کم تین زنا بالجبر ہوتے ہیں .. یعنی اوسطاً ہر آٹھ گھنٹوں میں ایک۔
    معمولی سی ذہنی مشق اس نتیجہ پر پہنچا سکتی ہے جس کا تذکرہ اُستانی محترم نے کیا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ نتیجہ اخذ کرنے کے لئے شجر ممنوعہ یعنی عقل استعمال کرنا لازمی ہے جو مذہب پرستوں کے ہاں حرام ہے۔ اس لئے مجھے قطعی حیرانی نہیں کہ مذہب پرستوں کو حیرانی ہے کہ پاکستان میں ہر آٹھ گھنٹوں میں ایک زنا ہوتا ہے۔ ان لوگوں پر تو آنکھوں دیکھا خود کش دھماکہ اور اُس میں مرنے والے درجنوں اثر نہیں کرتے .. زنا بالجبر تو بڑی دور کی بات ہے۔
    قصہ مختصر یہ کہ مذہب پرستوں نے اپنی حماقت پرستی کا سابقہ ریکارڈ برقرار رکھا۔
    تالیاں!

    ReplyDelete
  43. ایف ایم صاحب، آپ نے بلوغت کی بات کی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ آپ نے حیاتیات پڑھی ہے یا نہیں۔ بلوغت نو اور دس سال کی عمر میں بھی حاصل ہو جاتی ہے۔ خواتین میں ایک اوسط عمر تیرہ چودہ سال ہے سترہ سال نہیں۔ یوں بلوغت کے بعد بھی انسانی جسم پرورش کے عمل سے گذرتا رہتا ہے۔ اور اگر ہم اسے حیاتیات کی سطح پہ دیکھیں تو در حقیقت ایک عورت کے جسم کو یہ پختگی اٹھارہ انیس سال میں حاص ہوتی ہے کہ وہ ایک صحت مند ماں بننے کے عمل میں داخل ہو سکے۔
    دوسری بات یہ ہے کہ یہاں آپ صرف حیاتیات کی بات کر رہے ہیں اور اس شعور کی بات نہیں کر رہے جو انسانی تعلقات مین وسعت اور اعتماد پیدا کرتا ہے۔
    تیسری بات یہ ہے کہ آپ نے اپنے طور پہ یہ سوچ لیا ہے کہ زنا کا شکار صرف کنواری خواتین ہوتی ہیں اور انہیں انجام دینے والے صرف کنوارے لڑکے ہیں۔ میسر ڈیٹا اور اخبار میں آنے والے واقعات اس چیز کا انکار کرتے ہیں۔ کیا آپ نے نواز شریف کا تذکرہ کم بارکر کی کتاب میں نہیں پڑھا۔ جس میں وہ غیر ملکی صحافی خاتون کو پاکستان میں بوائے فرینڈز دلا رہے تھے۔ وہ صاحبان غیر شادی شدہ نہیں تھے۔
    میر خیال ہے کہ یہ سب حقائق کیمسٹری کے پیچیدہ قوانین نہیں ہم سب لوگوں کی آنکھوں کے سامنے پیش ہونے والے روز کے واقعات ہیں جنہیں جھٹلانا کسی حساس شخص کے بس کی بات نہیں۔

    ReplyDelete
  44. ایف ایم صاحب، آپ نے ذہانت کی بات کرتے ہوئے دو چیزوں کے درمیان فرق نہیں رکھا وہ ہے علم کا جمع کر لینا یا حاصل ہو جانا اور علم کو استعمال کرنا۔ یہ دو مکتلف چیزیں ہیں ان میں سے صرف ایک ذہانت سے تعلق رکھتی ہے۔ میری بیٹی اب جس عمر میں ہے وہ مجھ سے زیادہ علم رکھتی ہے اور یہ بالکل ممکن ہے کہ وہ مجھ سے زیادہ ذہین نہ ہو۔
    بالکل یہی بات موجودہ نسل کے بارے میں کہی جا سکتی ہے۔ ذہانت کسی دور دراز کے شخص میں اس سے زیادہ ہو سکتی ہے جو ہمیشہ شہر میں رہا ہو اور مستند اداروں سے تعلیم پائ ہو۔ اگر کسی شخص میں اپنے حاصل کردہ علم کی مدد سے اپنے ماحول کو، اس کائینات کو اور اس میں چلنے والے قوانین کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہوتی تو وہ عالم تو ہو سکتا ہے مگر ذہین نہی۔ سورج کو سامنے دیکھ کر وہ یہ تو بتا سکتا ہے کہ اس وقت دن ہے۔ لیکن اگر سورج گہن کی وجہ سے اندھیرا ہو تو وہ اسے دن نہیں رات کہے گا۔
    وہ یہ تو کہہ سکتا ہے کہ بالغ ہونے کے فوراً بعد شادی ہو جانی چاہئیے مگر وہ یہ بتانے سے قاصر ہو گا کہ اگر شادی صرف ہارمونز کے ایکٹو ہونے سے تعلق رکھتی ہے تو پاگلوں کے ہارمونز بھی ایکٹو ہوتے ہیں وہ بھی ماں اور باپ بن سکتے ہیں مگر کسی عاقل بالغ شخص کیا شادی ایک پاگل سے نہیں کی جا سکتی۔
    مجھے ذاتی طور پہ ذہین اور محنتی لوگوں سے مل کر خوشی ہوتی ہے۔ لیکن ہوتا یوں ہے کہ ایک لمبا عرصہ گذر جاتا ہے کہ کسی ایسے سے ملاقات ہی نہیں ہو پاتی۔
    موجودہ نسل میں ہو سکتا ہے کہ علم زیادہ ہو، وہ مجھ سے بہتر کمپیوٹر چلا لیتے ہوں لیکن جب بات دلائل کی آتی ہے تو وہ میرے سامنے ڈاکٹَراسرار احمد کو لا کر بٹھا دیتے ہیں۔
    وہ فوراً فتوی جاری کر دیتے ہیں کہ میں شیعہ ہوں، میں قادیانی ہوں یا یہ کہ میں روشن خیال ہوں۔ بہت ذہین لوگ آنٹی وغیرہ سے کام چلاتے ہیں۔ حد سے زیادہ ذہین لوگ میری ڈگری کا وظیفہ پڑھتے ہیں۔

    کیا مجھے ان سے متائث ہونا چاہئیے؟ کای مجھے انکے ان دلائل پہ فوراً اپنے عقائد کو درست کرنا چاہئیے؟ کیا مجھے یہ سوچ کر خاموش ہو جانا چاہئیے کہ میرے سامنے اس ملک کی ذہین نسل بیٹھی ہے؟

    ReplyDelete
  45. کم بارکر کی کتاب لائبریری کو آرڈر کردی ہے جی .. پڑھ کر دیکھتا ہوں کیا کیا لکھا ہے۔ سسپنس پیدا ہوگیا ہے۔ ایمازان ڈاٹ کام پر ریویو اور کتاب کی کچھ جھلکیاں تو دلچسپ معلوم ہو رہی ہیں۔
    آپ پڑھ چکی ہیں ؟ اگر نہیں تو کچھ دلچسپ اقتباسات آپ سے بھی بلاگی صورت میں شئیر کردوں گا۔

    اب جتنے دن یہ کتاب پڑھوں گا .. ایک دوسری اہم کتاب جو زیر مطالعہ ہے کا حرج ہوگا۔
    یہ قصور کس کا ہے جی ؟

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ