Wednesday, June 15, 2011

ایک لیڈی ڈاکٹر کی ڈائری

احمد فراز نے کہا تھا کہ کیوں مانگ رہے ہو کسی بارش کی دعائیں، تم اپنے شکستہ در و دیوار تو دیکھو۔
جس طرح بارش کا پانی مکان میں موجود ہر کمزوری کو عیاں کر دیتا ہے اور چھپانے کو کچھ باقی نہیں بچتا۔ اسی طرح پچھلے سال سیلاب نے ہماری معاشرتی اور معاشی ہر کمزوری کو سامنے لا کھڑا کیا۔ اسی میں سے ایک دیہی خواتین کی حالت زار ہے۔
دیہی خواتین جنہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ انکی اپنی عمر کتنی ہے، وہ کتنے بچے پیدا کر چکی ہیں، ابھی کتنے اور پیدا ہونگے،  اگر حاملہ ہیں تو کتنا عرصہ گذر چکا ہے، اکثر اوقات اپنے بچوں کی تعداد سے بھی نا واقف ہوتی ہیں، نہیں جانتیں کہ انکے بچوں کی عمر کتنی ہے، انہیں اور انکے بچوں کو اگلے وقت کھانا ملے گا یا نہیں۔ سارا سارا دن انکے بچے جانوروں کے بچوں کی طرح کس کس گلی کی مٹی میں رلتے ہیں۔ یہ سب وہ نہیں جانتی، اور اس لئے وہ پاکستان کی قابل فخر روائیتی خواتین ہیں۔
اگر شہر کی کوئ عورت خواتین کے مسائل پہ بات کرنا چاہتی ہے تو یقیناً مغربیت پھیلانا چاہتی ہے۔ مغرب کی آزادی ء نسواں کی تحریک سے متائثر ہوگی اس لئے کہ افسردہ ترین بات یہ ہے کہ مغرب کے ذریعے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں کون سی کمزوری کس سطح تک ہے۔ کیونکہ نہ ہم اپنے معاشرے سے آگاہ ہونا چاہتے ہیں۔ کوئ زبردستی ہمیں یہ سب سنا دے تو  نہ ہم انہیں تسلیم کرنا چاہتے ہیں ، نہ انہیں اپنے معاشرے کے لئے برا سمجھتے ہیں، نہ ان میں تبدیلی کے خواہشمند ہیں۔ 
سو میرے جیسی عام عورت جو نہ کسی این جی او سے تعلق رکھتی ہے نہ طبقہ ء اشرافیہ سے، اسے بھی یہ  کہنے سے بھی گریز نہیں کرتے کہ خود تو ایک بچہ پیدا کرتی ہے باقی ملک کی عورتوں کے لئے چاہتی ہے کہ ایک بھی بچہ نہ پیدا کرے، مردوں سے نفرت کرتی ہے۔ جبکہ وہ اس بات سے ناواقف ہوں کہ میرا ایک بچہ کیوں ہے۔ اب ان ذہنوں کا کیا کیا جائے؟ یہ بات بھی حیران کن ہے کہ جیسے ہی ایک خاتون، خواتین کو پیش آنے والے مسائل کا تذکرہ کرتی ہے ایک خاص طبقے کے مرد اس سے یہ معنی کیسے اخذ کر لیتے ہیں کہ اس خاتون کو مردوں سے نفرت ہے۔
یہ سب تبصرے ان  عام مردوں کے ہوتے ہیں جو غیرت مند ہوتے ہیں اسے بے حس پڑھا جائے۔
جو با شعور ہوتے ہیں اسے با سرور پڑھا جائے۔
جو روایت پسند ہوتے ہیں اسے اذیت پسند پڑھا جائے۔
جو مذہب پرست ہوتے ہیں اسے مذہب کش پڑھا جائے۔
جو معاشرے کا استحکام چاہتے ہیں اسے انکی انا کا استحکام پڑھا جائے۔
مگر یہ سب پڑھنے سے پہلے ایک  لیڈی ڈاکٹر کی ڈائری کے چند اوراق ضرور پڑھئیے جو انہوں نے سیلاب زدہ علاقے میں لوگوں کو طبی امداد فراہم کرتے ہوئے لکھے۔
ڈاکٹر نگہت شاہ کی اس تحریر کا ترجمہ ڈاکٹر آصف فرخی نے کیا ہے۔ عنوان اس کا ہے خیر پور ریلیف کیمپ۔ شائع ہوا ہے دنیا زاد کے مجموعے، 'جل دھارا' میں۔ پبلشر ہیں  اسکے شہر زاد۔
یہ اسکین شدہ صفحات ہیں۔ بہتر طور پہ دیکھنے کے لئے ان صفحات کو کلک کریں۔


8 comments:

  1. بقول ندیم ایف پراچہ جس طرح مغرب میں ایک طبقہ موجود ہے جو اسلامو فوبیا میں مبتلا ہے ، اسی طرح مسلمانوں میں اس سے کہیں بڑا طبقہ موجود ہے جو ویسڑو فوبیا (حسدا لمغرب) کا شکار ہے۔ عورت بیزار ویسڑو فوب ملاطبقہ اپنی زندگیاں انشااللہ اسی طرح اپنے سطحی جذبات کے ناکام تحفط ، اور غیروں سے حسد کرتے گذارے گا۔ ملا طبقہ سے نمٹنے کے لئے لمبی چوڑی سوچ بچار اور محنت کی ضرورت ہی نہیں ، معاشرے میں محض چند پڑھی لکھی کامیاب خواتین کا وجود ہی انکا ترا نکالنے کےلئے کافی ہے۔ لہذا یہ ہفتہ بلکہ مہینہ خواتین بھلے جاری رکھیں لیکن اس کے ساتھ وہی پرانا مشورہ کہ ایکیڈیمیا میں واپس آئیں۔ ڈاکٹر نگہت شاہ صاحبہ کو اللہ جزا دے ان دونوں ہی مشوروں پر عمل پیرا ہیں جن کا آپ سے ذکر کیا تھا۔ لہذا ڈاکٹر ناز صاحبہ کو چاہیے کہ ڈاکٹر شاہ صاحبہ کی پیروی کریں اور محض ملا طبقہ کی دھلائی کرنے میں وقت ضائع کرنے کی بجائے اپنی صلاحیتوں اور شخصیت سے انصاف کریں۔

    ReplyDelete
  2. Infant mortality rate
    کے حوالے سے پاکستان کے یہ فگرز تو بہت تشویشناک ہیں۔
    ڈاکٹر صاحبہ کا بیان مدنظر رکھا جائے تو پاکستان کی اتنی بری پوزیشن سمجھ آتی ہے۔
    آپ نے تو شائد ترجمے کے کچھ صفحات شائع کیے ہیں۔ مکمل تحریر کہاں مل سکتی ہے؟

    ReplyDelete
  3. جنہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ انکی اپنی عمر کتنی ہے، وہ کتنے بچے پیدا کر چکی ہیں، ابھی کتنے اور پیدا ہونگے، اگر حاملہ ہیں تو کتنا عرصہ گذر چکا ہے، اکثر اوقات اپنے بچوں کی تعداد سے بھی نا واقف ہوتی ہیں، نہیں جانتیں کہ انکے بچوں کی عمر کتنی ہے، انہیں اور انکے بچوں کو اگلے وقت کھانا ملے گا یا نہیں۔ سارا سارا دن انکے بچے جانوروں کے بچوں کی طرح کس کس گلی کی مٹی میں رلتے ہیں۔ یہ سب وہ نہیں جانتی، اور اس لئے وہ
    پاکستان کی قابل فخر روائیتی خواتین ہیں۔

    یہ بھی لیڈی ڈاکٹر صاحبہ کی ڈائری میں لکھا ہے؟ یا لیڈی ڈاکٹر صاحبہ کی ڈائری سے آپکے بھاگ جاگ اٹھیں ہیں اور آپ اپنی ساری احساس محرومی اور کمتری کو بالا و ارفع ثابت کرنے کے لئیے اتنے زہریلے کمنٹمنٹس کرنے پہ اسلئیے اتر ائیں ہیں کہ آپ کو ایک لیڈی ڈاکٹر کی مبینہ ڈائری میں اپنی کچلی ہوئی انا پہ مرہم رکھنے کے لئیے دوسری خواتین جن کے درد کا آپ صبح شام چرچا کرتی ہیں۔ انھیں تحضیک کا نشانہ بنانے کا نادر موقع ہاتھ آیا ہے۔

    ReplyDelete
  4. گمنام صاحب یا صاحبہ، اس وقت تو یہ آپکی انا پہ چوٹ لگ رپہ پے۔ ایک ڈاکٹر فیلڈ میں جو دیکھ کر آ رہی ہے اسے پڑھنے کی زحمت آپ نے کی نہیں۔ یہ لکھنے کی ذحمت آپ نے کر لی۔
    حقائق کو پڑھنے کی تکلیف برداشت نہیں ہوئ اور اپنے کمنٹس سے تکلیف پیدا کرنے کی کوشش آپ نے کر لی۔
    احساس کمتری و احساس محرومی تو مجھے آپکے تبصرے سے بھی ٹپکتے نظر آرہے ہیں۔ محرومی ڈاکٹر نگہت شاہ کی تحریر کو نہ پڑھنا۔ کمتری کہ آپ سب جان لیں تو بھی کچھ نہیں کر سکتے۔
    عثمان، یہ اس کتاب میں چھپنے والی مکمل تحریر ہے۔
    مزید کے لئے ڈاکٹر شیر شاہ کے سیلاب زدہ علاقوں میں بی بی سی نے ایک دستاویزی فلم بنائ تھی۔ اس کا لنک دیکھتی ہوں اگر مل جائے تو۔

    ReplyDelete
  5. آپ لکھے کوپڑھنے کی بات کررہی ہیں ،
    وہ جو سیلاب کے دنوں میں میڈیا دن رات دکھاتا رہا،
    وہ یہی کچھ تو تھا مگر ہائے رے ہماری بے حسی کہ ہم ایسی چیزیں دیکھ کر بھی نہیں دیکھتے!!!!
    اور جو سچ دکھائے وہ غیر ملکیوں کا ایجینٹ اور اسلام اورپاکستان کا دشمن!

    Abdullah

    ReplyDelete
  6. For "Anonymous said"
    http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?4777-%D9%BE%D8%B4%D8%AA%D9%88-%DA%A9%D8%A7-%D8%A7%D9%88%D9%84%DB%8C%D9%86-%D8%A7%D9%81%D8%B3%D8%A7%D9%86%DB%81-%D8%A8%DB%8C%D9%88%DB%81-%D9%84%DA%91%DA%A9%DB%8C-%D8%A7%D8%B2-%D8%B1%D8%A7%D8%AD%D8%AA-%D8%B2%D8%A7%D8%AE%DB%8C%D9%84%DB%8C%DB%94-%D8%AA%D8%B1%D8%AC%D9%85%DB%81-%D9%81%D8%B6%D9%84-%D8%B1%D8%A8%DB%8C-%D8%B1%D8%A7%DB%81%DB%8C&s=ee7fe42ec398023c35163037ff744dfd

    ReplyDelete
  7. For "Anonymous said"
    http://www.express.com.pk/images/NP_KHI/20110616/Sub_Images/1101264845-1.gif

    ReplyDelete
  8. جمیل خان،
    یہ پشتو کہانی کا ترجمہ جو آپ نے لکھا ہے اس میں صرف ایک بات سے مجھے اختلاف ہے،
    کہ محفل پر لکھا گیا ہے کہ ایسے واقعات پہلے ہوتے تھے اب نہیں ہوتے،
    اور یہ بات قطعا غلط ہے کیونکہ آج بھی سرحد کے گاؤں دیہاتوں میں ایسا ہی ہوتا بلکہ بہت سے شہری گھرانوں میں بھی اس طرح کے مظالم عام ہیں،
    اور کچھ رد و بدل کےساتھ اندرون سندھ ،پنجاب و بلوچستان یہی پریکٹسسیز جاری و ساری ہیں!!!!!!

    Abdullah

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ