Tuesday, August 9, 2011

کرشماتی درخت، آپ کے پاس

میرے بچپن میں ہمارے سامنے والے گھر میں کئی درخت لگے ہوئے تھے۔ ان میں سے ایک درخت کی شاخیں سہرے کی لڑیوں کی طرح جھکی رہتی تھیں۔ اس پہ پھلواری کا موسم آتا تو درخت سفید پھولوں سے لد جاتا یہ پھول آہستہ آہستہ لمبی پھلیوں میں تبدیل ہوجاتے۔ میری ان میں دلچسپی یہیں تک تھی۔
یہ پھلیاں ، اس گھر کے رہنے والے بڑے شوق سے پکاتے اور کھاتے تھے۔ مجھے نجانے کیوں بالکل پسند نہ تھیں۔ میرے گھر میں شاید ہی کبھی پکائ گئ ہوں۔ انہیں نہ کھانے کا مجھے کبھی بھی افسوس نہیں رہا۔ لیکن ابھی کل ہی ایک دوست نے ایک ای میل بھیجی جس میں اس درخت کے بارے میں حیران کن معلومات تھیں۔ شہزاد بسرا کا لکھا ہوا یہ مضمون جس درخت کے بارے میں ہے اسے پاکستان میں سونجنا یا سہانجنا کہتے ہیں۔
چونکہ یہ معلومات میرے علم میں پہلے نہ تھیں اور خدا کا شکر ہے کہ مذہب کی طرح سائینس پہ کسی کی اجارہ داری نہیں نہ کسی گروہ کا یہ زور کہ ایک طبقے کے علاوہ کسی کو یہ باتیں سمجھ نہیں آ سکتیں۔ اس لئے میں نے مزید معلومات کے لئے انٹر نیٹ کا سہارا لیا۔
یہ درخت کرشماتی درخت کہلاتا ہے۔ کرشمہ اسکے خواص میں ہے ۔ یہ جنوبی ایشیا اور مشرق بعید کے ممالک میں عام پایا جاتا ہے جبکہ افریقہ کے کچھ ممالک میں بھی ملتا ہے۔
اسکی شہرت کا تاریخی پس منظر سینیگال سے شروع ہوتا ہے جہاں قحط کے زمانے میں چرچ کی طرف سے اسے متعارف کرایا گیا۔ یہاں یہ بات شاید کچھ عجیب لگے کہ ہمارے دینی مدارس اور مساجد تو اس قسم کی کسی سرگرمی میں حصہ نہیں لیتے۔ لیکن دلچسپی کی بات یہ ہے کہ مغرب میں سائینس کے اندر پادریوں کا حصہ بھی شامل ہے۔ انسانوں میں جینیاتی وراثت کا نظریہ پیش کرنے والا سائینسداں گریگر مینڈل، ایک پادری تھا۔ اس پہ آپ غور کریں ، میں آگے چلتی ہوں۔
سونجنا کے درخت کا ہر حصہ اپنی اہمیت رکھتا ہے۔ ہر حصے کو غذا کو طور پہ استعمال کیا جا سکتا ہے اور اسکی کاشت بھی بآسانی سخت حالات میں ہو سکتی ہے۔  اس طرح دنیا میں خشک سالی سے پیدا ہونے والی غذائ کمی کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک بہترین انتخاب ہے۔ اسکے غذائ خواص کے بارے میںسینہ بہ سینہ چلی آنے والی اکثر باتیں درست ثابت ہوئیں۔ آجکی دنیا میں اس درخت کے اوپر خاص توجہ دی جا رہی ہے۔
سب سے پہلے ہم اسکے غذائ خواص دیکھ لیتے ہیں۔



اوپر دئیے گئے چارٹ میں اسکے غذائ خواص کے بارے میں دعوے دیکھے جا سکتے ہیں۔
دودھ کے مقابلے میں سترہ گنا زیادہ کیلشیئم موجود ہے لیکن تحقیق کہتی ہے کہ پتوں اور تنے میں پایا جانے والا کیلشیئم، کیلشیئم آگزیلیٹ کی شکل میں ہوتا ہے اورانسانی جسم میں جذب ہونے کے قابل نہیں ہوتا۔ یہ بات ابھی نامعلوم ہے کہ بیان کردہ کیلشیئم میں یہ کیلشیئم شامل ہے یا نہیں۔
اسکے علاوہ دہی کے مقابلے میں نو گنا زیادہ پروٹین ہوتا ہے۔ جانوروں کو جب غذا کے طور پہ استعمال کرایا گیا تو انکے وزن میں بتیس فی صد اضافہ دیکھا گیا جبکہ دودھ میں تینتالیس سے پینسٹھ فی صد اضافہ سامنے آیا۔
گاجر کے مقابلے میں چار گنا زیادہ وٹامن اے پایا جاتا ہے۔
کیلے کے مقابلے میں پندرہ گنا زیادہ پوٹاشیئم پایا جاتا ہے۔
پالک کے مقابلے میں انیس گنا زیادہ فولاد پایا جاتا ہے۔



 اسکے تازہ پتوں کو پالک کی طرح استعمال کیا جا سکتا ہے، پکایا جا سکتا ہے اور خشک کر کے سفوف بنا کر بھی رکھا جا سکتا ہے۔  یعنی سلاد سے لیکر سالن تک بنایا جا سکتا ہے جبکہ سفوف بعض جگہوں پہ سوپ بنانے میں استعمال ہوتا ہے۔ اسکی پھلیاں بھی پکائ جاتی ہیں حتی کہ جڑوں کو بھی غذا کے طور پہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ البتہ جڑوں میں ایک زہریلا الکلائیڈ اسپائروچن پایا جاتا ہے۔ لیکن اسکی مقدار خاصی کم ہوتی ہے اس کے برے اثرات جڑوں کو بہت زیادہ مقدار میں استعمال کرنے سے ہی سامنے آ سکتے ہیں۔
بچوں کو دودھ پلانے والی مائیں اگر اسے اپنی غذا میں شامل رکھیں تو دودھ کی کمی نہیں ہونے پاتی اور وہ صحت بخش ہوتا ہے۔ اس کے لئے انہیں تین بڑے کھانے کے چمچے اسکے پتوں کا سفوف لینا ہوگا۔
دن بھر میں اسکے پتوں کا پچاس گرام سفوف پورے دن کی غذائ ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کافی ہے۔ اس طرح جسم میں غذا کے مختلف اجزاء کی کمی نہیں ہو پاتی۔ جس کے لئے گوشت یا پھل جیسی قیمتی اشیائے خوراک استعمال کرنے کی ضرورت نہیں رہتی اور ایک غریب شخص اپنی غذائ ضروریات بآسانی پورا کر سکتا ہے۔
بیجوں سے تیل حاصل کیا جاتا ہے جبکہ تیل نکالنے کے بعد جو بیجوں کی کھلی یا کیک بچ جاتا ہے اسے پانی صاف کرنے کے کام لایا جا سکتا ہے۔
 اسکی انتہائ دلچسپ خوبی اسکی پانی صاف کرنے کی صلاحیت ہے جس سے پاکستان سمیت جنوبی ایشیاء کے دیگر ممالک کے اکثر لوگ ناواقف ہیں۔
پانی صاف کرنے کے لئے بیجوں کو خشک کر کے اسکے چھلکوں کو ہلکا ہلکا کوٹ کر الگ کر لیا جاتا ہے، حاصل ہونے والے سفید مغز کو کوٹ کر اسکا سفوف تیار کیا جاتا ہے۔ اس سفوف کے پچاس گرام سے ایک لٹر پانی صاف کیا جا سکتا ہے۔ پانی صاف کرنے کے لئے سفوف کو پانی میں اچھی طرح ہلائیں اور پھر تھوڑی دیر کے لئے چھوڑ دیں۔ بس پانی صاف۔
پانی صاف کرنے کی ویڈیو حاضر ہے۔


اب جبکہ آپ یہ طریقہ سیکھ چکے ہیں تو آپ کے ذمے دو ذمہ داریاں آتی ہیں۔ اول یہ کہ خود یہ درخت اپنے گھر میں یا باہر لگائیں اور گائوں دیہاتوں میں اسکے درخت لگانے کے لئے لوگوں کو ترغیب دیں۔ دوسرا یہ کہ پینے کا صاف پانی ہمارے ملک کے بنیادی مسائل میں سے ایک ہے۔ اسکے لئے اس ویڈیو کے بیان کئے گئے طریقے سے اپنے اردگرد کے لوگوں کو آگاہ کریں۔
 مجھے تو پانی ابال کر پینا خاصہ جھنجھٹ لگتا ہے لیکن کیا کریں اکیسویں صدی کے پاکستان میں اگر انسان طبقہ ء اشرافیہ سے تعلق نہیں رکھتا تو منرل واٹر پینے کے بجائے پانی ابالتا ہے غریب شخص ابال بھی نہیں سکتا۔ اور ہر سال لاکھوں لوگ پیٹ کے امراض کا شکار ہوتے ہیں۔ اگر انہیں ان بیجوں کا سفوف بنانا سکھا دیا جائے تو کم از کم اس مشکل سے تو انہیں نکالا جا سکتا ہے۔ پتوں کا محفوظ شدہ سفوف خوراک کی تنگی کے زمانے میں استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔
اس درخت کو اگانےکے دو آسان طریقے ہیں پہلا اسکے بیج کے ذریعے اور دوسرا اسکی قلموں کے ذریعے۔ درخت میں پہلے سال پھول آجاتے ہیں دوسرے سال اسکی فصل زیادہ اچھی ہوتی ہے۔ اگر اسے بڑھتا چھوڑ دیں تو یہ دس میٹر تک بلند درخت کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اسکی کانٹ چھانٹ کرکے اسے ایک دو میٹر تک اونچا رکھتے ہیں۔ تاکہ سائز اتنا رہے جہاں تک ہاتھ جا سکے۔
سونجنا کے مختلف حصوں کے مختلف طبی اور سائینسی فوائد ہیں جنکی تفصیلات میں ہم اس وقت نہیں جارہے۔ آپ دئیے گئے لنکس پہ دیکھ سکتے ہیں۔
پیسے کمانے والوں نے اس سے بھی فاِئدہ اٹھانے کا سوچ لیا۔ اسکے پتوں کا سفوف کیپسول کی شکل میں بھی دستیاب ہے۔ اسکی مارکیٹنگ کے لئے نیٹ پہ مختلف ویب سائیٹس موجود ہیں۔ قدرت نے ہمارے اس علاقے کو اس درخت کا مسکن چنا ہے تو ہمیں اسکی قدر کرنی چاہئیے۔
Moringa oleifera silviculture 
Spirochin
Alkaloid
Breast feeding
Senegal
Calcium oxalate
لنکس؛
۔

13 comments:

  1. خدا کا شکر ہے کہ مذہب کی طرح سائینس پہ کسی کی اجارہ داری نہیں نہ کسی گروہ کا یہ زور کہ ایک طبقے کے علاوہ کسی کو یہ باتیں سمجھ نہیں آ سکتیں۔؟؟

    نفسیات کے علم کی ایک خاص اصطلاح کے مطابق لوگ اچھی بات کو اس وقت رد کردیتے ہیں۔ جب صاحب بیاں سننے والوں کو بے جا طور پہ تنقید بنائے۔

    جیسا کہ آپ نے اپنے اس مضمون کو قاری کے سجمھنے سے پہلے ہی اسے رد کرنے کا بندوبست کردیا ہے۔

    مذہب اور سوہانجنے کی معلومات کا آپس میں کیا تعلق کہ مذھب کو مننے والوں پہ آتش فشانی کی جائے؟

    بچپن میں آپکے گھر کے سامنے لگیں سوہانجنے کے درخت پہ لگی پھلیاں آپ کو ذاتی طور پہ ناپسند تھیں۔ اچانک آپ کو سوہانجنے کی کرشماتی افادیت کا پتہ چلا اور آپ نے اسپہ ایک مضمون لکھنا مناسب سمجھا۔ کہیں مذھب کے بارے میں بھی ایسا ہی تو نہیں کہ ابھی آپ کو اس بارے علم آپکی ذاتی پسند اور ناپسند کے گرد گھوم رہا ہو؟

    ویسے یہ ممکنات میں سے ایک پہلو ہو سکتا ہے۔

    ReplyDelete
  2. گمنام صاحب، مذہب اور اسکے ماننے والوں میں خاصہ فرق ہوتا ہے۔ جیسے مسلمان اور اسلام میں فرق ہے۔ یہ بھی خدا کا شکر ہے کہ میں اسلام کو صرف مسلمان کے توسط سے نہیں جانتی ورنہ مرتد ہو جاتی۔
    میں اسلام کو جانتی ہوں اس لئے اسکے ماننے والوں کی حرکتیں زیادہ کھلتی ہیں۔ نہ جاننے کا ایک ہی دکھ ہے اور جاننے کت ہزار دکھ۔

    ReplyDelete
  3. اور ہاں اتنے طویل مضمون میں آپکو یہی بات قابل تذکرہ لگی۔ آپ کے پاس انتخاب تھا کہ آپ اسے نظر انداز کر کے آگے بڑھتے لیکن آپ نے یہ منتخب نہیں کیا۔ اسکا مطلب آپ یا آپکا متوقع قاری بھی زندگی میں دیگر جگہ بھی اسی قسم کا انتخاب کریں گے۔ یہ تو آپکے حق انتخاب کا ایک ٹیسٹ ہے۔ اسے نفسیات کی زبان میں کیا کہتے ہیں مجھے نہیں معلوم۔ لیکن یہ ٹھوکر ڈالنے والا پتھر ڈال کر قاری کو جانچنا میرا حق ہے۔ قاری اسے رد کرے گا تو مجھے کیا نقصان ہوگا۔ یہ قاری اور اسکے معاشرے کے فائدے کی بات ہے اس سے مجھے ذرہ برابر بھی فائدہ یا نقصان نہیں۔ اب کیا مجھے اسکی پرواہ کرنی چاہئیے۔

    ReplyDelete
  4. ميں اپنی کئی تحاریر میں اس سوانجلے کا ذکر کرچکا هوں
    لیکن میں اس کے ذائقے کی حد تک هی بات لکھتا رها هوں که اس کے ذائقے کو هی جانتا هوں
    یه دیکھیں میں نے تلونڈی ڈاٹ نیٹ پر تلونڈی کی ہسٹری میں لکھا تھا

    کمہاروں کے قبرستان میں سوانجلے کے درخت ہوا کرتے تھے

    حالانکہ لوگ اس سوانجلے کو پودے کی عمر میں ہی توڑ لیتے ہیں کہ اس کی جڑ

    جس کو سوانجلے کی مولی کہتے ہیں

    اس کا اچار ڈالا جاتا ہے



    ہمارےگھر میں سوانجلے کی مولی کو کاٹ کر تیل میں تڑک کراس پر نمک مرچ لگا کر روٹی سے کھایا جاتا تھا

    ReplyDelete
  5. بہت مفید معلومات ہیں، جہاں تک مجھے یاد ہے ہمارے دیہات میں سوہانجنے کا اچار بنا کرتا تھا، شاید ابھی یہ رواج کم ہو گیا ہے۔ لیکن بڑے بزرگ اور سیانے ان چیزوں سے واقف تھے۔

    باد مخالف سا نا گھبرا اے عقاب
    یہ چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے

    :) :) :)

    :::::::بہت بہت شکریہ::::::::

    ReplyDelete
  6. اے لو..
    ناں دورہ کینیڈا کا اس موضوع سے کیا تعلق ہے جی؟
    بالکل بھی مزا نئیں آیا..
    نیکسٹ پوسٹ پلیز!

    ReplyDelete
  7. عثمان، میں نے کب یہ کہاتھا کہ کینیڈا میں رہ کر صرف کینیڈا کے بارے میں لکھونگی۔
    میرے پلان میں تو کینیڈا میں رہ کر سر سید کے بارے میں لکھنا تھا مگر اب تک اس کا موقع نہیں ملا۔

    ReplyDelete
  8. خاور صاحب، میں اسکے ذائقے کے بارے میں پڑھ رہی تھی کہ مشروم کے ذائقے سے قریب ہوتا ہے۔ یہ صرف پڑھی ہوئ بات ہے۔ جو لوگ اسے کھاتے ہیں وہ اسکے ذائقے کی بڑی تعریف کرتے ہیں۔ میں تو اسے اب اپنے گھر کے باہر لگانے کا سوچ چکی ہوں۔
    راشد صاحب آپکا شکریہ۔

    ReplyDelete
  9. سہانجنا يا سوانجنا ان پھليوں کے درخت يا پھليوں کو کہا جاتا ہے ۔ يہ پھلياں کئی بيماريوں کے علاج کے طور پر مفيد ہيں اور ويسے بھی ايک صحتمند غذا ہيں ۔ ميں جس سرکاری رہائش گاہ ميں جنوری 1968ء سے مئی 1976ء تک رہا اس کے پائيں باغ ميں کچھ پھلدار درختوں کے ساتھ ايک درخت سہانجنا کا بھی تھا ۔ اس کی پھليوں کو حاصل کرنے کيلئے بہت لوگ تقاضہ کرتے تھے اور ہم اُنہيں ديتے رہتے ۔ يہاں تک کہ ہم خود صرف ايک بار ہی پکا سکے ۔ کھانے ميں بہت مذيدار نہيں ہوتيں مگر اس کے اثرات کی وجہ سے اسے کھايا جاتا ہے
    کمال تو يہ ہے کہ جس طرح ہند و پاکستان کی مووی فلموں يا اُردو کے ناولوں ميں " ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے ۔ پھر اچانک ديدہ ور پےدا ہو جاتا ہے" اسی طرح جو بات آپ پر منکشف ہو جائے وہ اہم ہو جاتی ہے ۔ ہند و پاکستان کے نہ صرف ديہات بلکہ شہروں ميں بھی اسے پہچاننے والے بہت پائے جاتے ہيں مگر آپ کو [سائنسی] ای ميل ملنے اور [سائنسی} انٹرنيٹ پر تلاش کرنے سے معلومات حاصل ہوئيں اس لئے مصدقہ سمجھی گئيں ۔ آپ کے ہمسائے چونکہ مسلمان تھے اور آپ کے خيال ميں مسلمان سائنس سے نابلد اور مذہب پر قابض ہوتے ہيں اس لئے اُن سے آپ نے پوچھنا گوارہ نہ کيا تھا کہ وہ لوگ ايسا غير سائنسی يا غير کينيڈائی يا غير امريکی درخت کيوں لگائے ہوئے ہيں اور اس کی پھلياں کيوں کھاتے ہيں
    اسی لئے ميں ايک سے زائد بار آپ کو مشورہ دے چکا ہوں کہ مطالعہ کيا کيجئے ۔ مختلف کتب کا ہی نہيں بلکہ زمينی حقائق کا بھی
    ايک بات تو آپ کی تحارير پڑھنے سے واضح ہوتی ہے وہ ہے آپ کی دين اسلام اور مسلمانوں سے بيزاری ۔ آپ مسلمانوں کے ہاں پيدا ہو گئيں اس ميں آپ کو کوئی عمل دخل نہيں

    ReplyDelete
  10. افتخار اجمل صاحب، میری تحاریر پڑھ کر آپ پہ کچھ واضح نہیں ہوا۔ آپ پہ یہ بنیادی بات واضح نہیں ہوئ کہ میں آپ جیسے مسلمانوں سے بہت بے زار ہوں جو کسی لا یعنی بات کو بھی اس تذکرے کے بغیر آگے نہیں جانے دیتے کہ آپ مسلمان ہیں اور دوسرا نہیں۔
    آپکو اسلام کو نئے سرے سے پڑھنے کی ضرورت ہے اس لئے نہیں کہ آپکیء معلومات اسلام کے لئے بہتر ہوں بلکہ اس لئے کہ آپ انسانی سطح پہ زندگی گذارنے کے آداب سیکھ پائیں جو اسلام کا بنیادی مقصد ہے۔
    اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد جو آپ سے بےزار ہوتی ہے اور جس کا مطلب آپ اپنے تئیں یہ نکالتے ہیں کہ وہ اسلام سے بےزار ہے وہ درست ہو۔ اگرچہ مجھے یقین ہے کہ یہ کرنا آپکے لئے ممکن نہیں۔
    اگر یہ معلومات اتنی ہی عام تھیں تو ایسا کیوں ہوا کہ سیلاب کے دنوں میں سیلاب سے متائثرہ علاقوں میں لوگوں کو اس بات کا خیال نہیں آیا کہ وہ اسکے ذریعے پانی صاف کر سکتے ہیں۔ حتی کہ آپکو بھی یہ خیال نہیں آیا کہ آپ اس پہ کوئ تحریر لکھ دیتے۔
    مجھے میل اس درخت کے طبارے میں نہیں بلکہ اسکے خواص کے بارے میں ملی۔
    سدا بہار کا پودا عام پاکستان میں پایا جاتا ہے جائیے پتہ چلائیے کہ اسکی کون سی اہم خوبی اسے سائینسی لحاظ سے اہم بناتی ہے۔
    اشیاء کو انکے صحیح رخ پہ جاننا بہت ضروری ہے ورنہ جس طرح آپ] میری تحاریر سے غلط سلط نتائج نکالتے ہیں اسی طرح زندگی کی باقی چیزوں سے بھی غیر درست نتائج اخذ کرتے رہیں گے اور انکی بنیاد پہ لوگوں کو جانچتے رہیں گے۔
    اب آپ جا کر ایک مثبت کام کریں کہ آپکے ارد گرد اگر اسکا کوئ درخت ہے تو اس سے خود پانی صاف کر کے دیکھیں اور دوسرے لوگوں کو کر کے دکھائیں۔

    ReplyDelete
  11. عنیقہ ناز ، علم میں اضافے کا بہت شکریہ میں اپنے ارد گرد اس کو ڈھونڈھے کی کوشش کروں گا .
    (نا چاہتے ہوۓ بھی لکه رہا ہوں اور معذرت کے ساتھ کہ آپ کے اصلی مضمون سے زیادہ اک حوالے پر لکھ رہا ہوں )
    جہاں تک آپ کے مذہب کا حولہ ہے کہ اس پر مخصوص طبقے کے اجارہ داری تو میں آپ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں افسوس کے ساتھ ہمارے دین کو کچھ لوگوں نے مولوی کی میراث بنا دیا ہے جو یاں تو پڑوسی ملک سے لیا گیا ہے یاں پھر ہماری اپنی کام چوری ہے کہ پکا پکایا مل جائے اور خود جدوجہد نا کرنی پڑے یاں پھر مرتد ہونے کا ڈر ... ورنہ جیسے سائنسی تحقیق کے لئے انٹرنیٹ ہے ویسے مذہب کے حوالے سے آسان کتب میسر ہیں بس ذرا خریدنے اور پڑھنے کی تکلیف ہے.

    ReplyDelete
  12. اجمل صاحب ، دین سے بیزاری کے ذمدار بھی ممبر پر بیٹھے ہوۓ لوگ ہی ہیں ... مثال حاضر ہے ، چند برس پہلے میں فرض سمجھ کر اپنے نو عمر بیٹے کو جمعے کے لئے لے جاتا تھا ، پر وہاں یاں تو وہ کافر وہ کافر کی گردان ملتی یاں پھر طالبانی اسلام اور اس جہاد کی تبلیغ جس کو سارا ملک بگھت رہا ہے . ایک مسجد سے دوسری ، تیسری ... اب آپ ہی بتائے ننھے ذھن کو میں کیسے بچاتا ؟ آخر گھر ہی بیٹھ گیا اور یار دوستوں نے دین سے بیزاری کا نام دے دیا ...قصور وار کون ہے ؟

    عنیقہ، آپ سے معذرت میں نے آپ کے غیر مذہبی کالم پر مذہبی بات چیت کے ہے . جو اصول میں نے اپنی تحریر کے لیے چنا وہ آپ کے بلاگ پر قائم نا کر سکا!

    http://bayrabtgiyan.wordpress.com

    ReplyDelete
  13. ہم سوانجنے کا نام بچپن سے سنتے آئے ہیں اور ہمارے گھر میں موسم میں ایک دفعہ تو ضرور پکتا ہے۔ عام طور پر ہم اس کے پھولوں یا کلیوں کو گوشت کے ساتھ پکاتے ہیں اور مجھے خاص طور پر بہت پسند ہے۔
    میری دادی اماں اکثر اس کے فوائد کے بارے میں ذکر کرتی ہیں، جن میں خصوصا خواتین اور ماؤں کیلئے اس کی افادیت اہم ہے۔
    معلومات کیلئے شکریہ۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ