Monday, February 28, 2011

ہرجائ کا لوٹا

آج میں مشعل کو اسکول سے لینے کے لئے جب گھر سے نکلی تو روڈ کی حالت دیکھ کر سمجھ نہیں آیا کہ اتنی افراتفری کیوں ہے۔ جہاں صرف ایک منی بس چلتی ہے وہاں خالی منی بسز کی قطار لگی ہوئ ہے۔ ٹریفک بری طرح جام۔ خیر مجھے زیادہ دور نہیں جانا تھا، اس لئے بچت ہو گئ۔ واپسی میں  بھی صورت حال کچھ زیادہ مختلف نہیں تھی۔ گھر پہنچ کر پتہ چلا کہ پٹرول پمپس بند کر دئیے گئے ہیں۔ لوگ شدید احتجاج کی حالت میں ہیں کچھ علاقوں میں فائرنگ بھی ہوئ ہے۔
 چند گھنٹوں بعد اطلاع ملی کہ حکومت کی طرف سے 'دباءو' کے بعد پمپس دوبارہ کھل گئے ہیں۔ ٹریفک جام ختم ہوا۔ لیکن ابھی تک خبر گردش میں ہے کہ پیٹرول مصنوعات کی قیمتوں میں آج کسی بھی وقت تقریباً نو فی صد اضافے کا اعلان کر دیا جائے گا۔ اور پیٹرول پمپس نے یہ حرکت زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے لئے کی تھی۔
 پیٹرولیئم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ اس لئے دل دہلا دیتا ہے کہ اسکے بعد زندگی میں استعمال ہونے والی ہر چیز کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔ یعنی اندازاً کم از کم نو فیصد کا اضافہ صرف کار چلانے میں ہی نہیں بلکہ کاروبار حیات چلانے میں بھی۔
مہنگائ کا یہ طوفان کس طرف جا رہا ہے؟ کیا ہم اپنے سیاسی نظام سے یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ اس طوفان کے آگے بند باندھ سکے۔ ایسا لگتا تو نہیں۔
 ابھی تو ایکد وسرے کے آگے بند باندھ رہے ہیں۔ نواز شریف جو اصولوں کی سیاست کرنے میں خاصی 'شہرت' رکھتے ہیں۔ انہوں نے مڈ ٹرم الیکشن کے لئے راہ ہموار کرنی شروع کر دی ہیں۔ اسکے لئے انہیں کچھ اصولوں کی قربانی دینی پڑی۔ اور لوٹا کریسی کی تہمت اٹھانی پڑی۔ لیکن اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔ پیپلز پارٹی ہمیشہ  اپنے شہیدوں کی فہرست گنواتی ہے لیکن اسکے مقابلے میں اصولوں کی قربانی زیادہ بڑی قربانی ہے، شرافت کی شہادت زیادہ بڑی شہادت ہے۔ امید ہے پیپلز پارٹی اس وار کو سہہ نہیں پائے گی۔
 جمہوریت کا کیا ہوگا؟ یہ کہاں جائے گی، کس کو منہ دکھائے گی۔ اس کو چھوڑیں ابھی اس شعر کا مزہ لیں۔
وہ کہیں بھی گیا ، لوٹا تو میرے پاس آیا
بس یہی بات ہے اچھی میرے ہرجائ کی
ہرجائ کے پاس لوٹا ہو تو دل کو تسلی رہتی ہے۔ آخر میں کچھ تو ملے گا۔ لیکن ہرجائ کون ہے اور لوٹا کس کا ہے؟
جہاں تجزیہ نگار کہتے ہیں کہ عوام ملک کی دونوں بڑی پارٹیز سے مایوس ہو چکے ہیں وہاں در پردہ قوتوں نے نئ قیادت کے لئے نام سوچنا شروع کر دئیے ہیں۔
مخدوم شاہ محمود قریشی سابق وزیر خارجہ ایجنسیز کے متوقع امیدوار کہے جا رہے ہیں اور عمران خان ملک کے سب سے بڑے میڈیا گروپ جیو کے امیدوار۔ شاہ صاحب تو جا کر شہید بے نظیر بھٹو کے مزار پہ حاضری دے کر روحانی آشیر باد بھی لے آئے۔ عمران خان، کامران خان کے ساتھ مل بیٹھے۔ 
ایجنسیز اور میڈیا میں سے جیت کس کی ہوگی؟
یہ سوال عوام سے نہیں ہے۔ عوام تقدیر کی پابند ہے۔ میں یہ سوچتی ہوں کہ کل جب پیٹرول اسی روپے اور ڈیزل چھیاسی روپے ہوگا تو میں کیا ترک کر کے اپنے مالی خسارے پہ قابو پاءونگی۔

Sunday, February 27, 2011

ساحل کے ساتھ-۴

 گذشتہ سے پیوستہ

رات کو تین بجے میکینک صاحب کے پہنچنے پہ یہ تناءو کم ہوا کہ گاڑی کا کیا ہوگا۔ اگلے دن ناشتے کے بعد وہ دونوں تو گاڑی کے ساتھ مصروف ہو گئے دوپہر تک یہ اعلان ہوا کہ گاڑی کی شافٹ ٹوٹ گئ ہے۔ اب یا تو ویلڈ ہو گی یا نئ لگے گی۔ نئ گوادر میں نہیں مل سکتی۔ ویلڈ ہونے کے امکان بھی نہ ہونے کے برابر ہیں اتنی سہولت وہاں حاصل نہیں کہ شافٹ کو صحیح پیمائش کے ساتھ جوڑا جا سکے۔  لیکن بہر حال وہ جا رہے ہیں کسی کی بائیک پہ مزید معلومات لینے کے لئے۔
میں نے اس دوران گھریلو امور انجام دئیے۔ ناشتے کی تیاری، کچن اور گھر کی صفائ، دوپہر کے کھانے کی تیاری، مشعل کی پڑھائ، پھر دوپہر کا کھانا، دوبارہ کچن کی صفائ۔ کمپیوٹر پہ تصاویر لوڈ کیں، کیمرے کی بیٹری چارج پہ لگائ۔ اسکے بعد جب مشعل کے اور خود کے صاف ہونے کی باری آئ تو سوچا کہ ساحل کا چکر لگا کر ذرا اور اچھی طرح گندے  ہو جائیں۔ سو ہم دونوں ماں بیٹی نے سر پہ دھوپ سے بچنے کے لئے ٹوپا لگایا، ساحل پہ پھرنے کے لئے مناسب چپل پہنیں کہ ہمارا ارادہ کچھ ہائیکنگ کرنے کا بھی تھا۔ میں نے ایک بیگ میں کیمرہ، پینے کے پانی کی بوتل، کچھ بسکٹ،بینڈ ایڈ اور وائپیس لیئے اسے کندھے پہ لٹکایا اور ہم دونوں باہر نکل گئے۔
گھر کے ساتھ ایک پہاڑ ہے ۔ جسکے قدموں میں ساحل کی موجیں آکر کھیلتی ہیں، سر پٹختی ہیں اور پتھروں سے ٹکرا کر اپنے موتی توڑتی ہیں پہاڑ سے چھوٹی بڑی چٹانیں ٹوٹ کر پانی میں ایستادہ ہیں  انکے پاس لا تعداد گول گول ہر شکل اور ساخت کے پتھر موجود ہیں۔ پہاڑ کے ساتھ  جیٹی بننے کی وجہ سے ان پتھروں کا  ایک بڑا ذخیرہ اسکے نیچے دب گیا۔ شور مچاتی لہروں کے ان پتھروں  سے ٹکراءو اور شرارت کے درمیان ترقی کی دیوار آ گئ۔   ایک خوبصورت منظر  تمام ہوا اور ایک نئ امید کھڑی ہو گئ۔ کیا یہ دی جانے والی قیمت اپنی صحیح قدر حاصل کر پائے گی؟
سو ہم بھی خاک سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ تونے وہ گنج ہائے گراں ما کیا کئے۔ لیکن اندازہ کہتا ہے کہ کیا کیئے ہونگے۔ خاک میں مل کر نئ خاک تشکیل دی ہوگی۔ اور کیا۔
 مجھے بتایا گیا کہ جہاں سے جیٹی کے روڈ کی حد ختم ہو رہی ہے وہاں یہ اب بھی موجود ہے۔ زیر تعمیر روڈ سطح ساحل سے  خاصہ اونچا ہے۔ بڑے بڑے پتھروں کو  ٹرالر سے لا کر پہاڑ کے ساتھ بچھایا گیا ہے اور اس پہ مٹی کی تہہ جمائ گئ۔ ابھی یہ اس مرحلے سے گذر رہا ہے۔ نچلے حصے کو لو ٹائڈ کے وقت مقامی لوگ  بیت الخلاء کے طور پہ استعمال کرتے ہیں۔ ہائ ٹائڈ میں غلاظت سمندر میں چلی جاتی ہے۔ سمندر کا مد و جذر چاند سے ربط کوہی نہیں تلاش کرتا بلکہ اپنے ساحل کواجلا رکھنے کی کوشش بھی کرتا ہے۔
ہم دونوں اس روڈ پہ چلتے چلے گئے۔ مشعل کو یہ روڈ اچھا لگا کہ اس پہ وافر مقدار میں اڑانے کے لئے مٹی موجود تھی۔ پہاڑ کی نا ہموار اور مشکل سطحوں پہ کہیں کہیں نظر آنے والی نباتاتی حیات کی کھوج میں انکو سر کرلینے والی ضدی اور ہٹیل بکریاں جگالی کر رہی تھیں۔ شاید اسی لئے بکری ایک آسمانی برج کا علامتی نشان ہے۔ 


راستے میں ایک نیا تعمیر شدہ مزار نظر آیا۔ یہ میں نے پہلے یہاں نہیں دیکھا تھا روڈ کی تعمیر کے ساتھ مستقبل پہ نظر رکھنے والوں نے اسکے پھلنے پھولنے کے امکان بھی دیکھے ہونگے ۔ ایسے مزار بیک وقت مستقبل کے خوف اور  بہتر امید کا  ایک نشان ہوتے ہیں۔ ہم سے آگے دو بلوچی خواتین جا رہی تھیں جو اس مزار کی عمارت میں داخل ہو گئیں۔ یہ کاروبار، کبھی ماندہ نہیں جاتا۔ جب بادشاہ انصاف سے آگاہ نہ ہو تو نہ معلوم فقیر کی تربت پہ عوام کا رش رہنا کوئ قابل حیرانی بات نہیں۔ تقریباً چار پانچ سو گز چلنے کے بعد روڈ سمندر کے اندر مڑ گیا اور ہم پہاڑ کی طرف اتر گئے۔



پتھروں کا زیادہ بڑا ذخیرہ تو زیر تعمیر روڈ میں دب چکا ہے۔ مگر اب بھی کچھ یہاں باقی ہے۔ ان پتھروں میں سے وہ پتھر زیادہ دلچسپ ہیں جن پہ رکاذ موجود ہیں۔ ایسے بہت سے رکاذی پتھر میں نے یہاں اس وقت جمع کئیے جب مشعل دنیا میں نہیں آئ تھی۔ یہ اب بھی میرے خزانے میں شامل ہیں۔
یہ رکاز زیادہ تر سیپیوں کے ہیں۔ یہاں پہاڑ زیادہ تر مٹی کے ہیں۔ اس پہاڑ کے اوپری حصے سے مٹی کے جو ٹکڑے گرتے ہیں وہ سمندر کے پانی سے پہلے نرم ہوجاتے ہیں۔ ان پہ اگر کوئ سمندری سیپی چپکی رہ جائے تو وقت کے ساتھ سیپی کے باقیات جھڑ جاتے ہیں اور اسکے نشان باقی رہ جاتے ہیں۔



دنیا کی تاریخ میں ان رکاذات کا بڑا حصہ ہے۔ اس وقت دنیا کے سب سے بڑے نا پید ہو جانے والے جانور ڈائینا سور بھی اپنے رکاذات کی مدد سے دریافت کئے گئے ہیں۔ ان سے جہاں ہمیں یہ اندازہوتا ہے کہ دنیا میں حیات اندازاً کتنی پرانی ہے اور اس حیات میں سے کتنے ایسے ہیں جو اب نہیں یا کتنے ایسے ہیں جو اب بالکل بدل گئے ہیں ارتقاء کی وجہ سے۔ وہیں یہی رکاذ، کہیں زمین کی تہوں میں تیل کی دولت بھر دیتے ہیں، پتھروں میں ہیرے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ لاکھوں سال پرانی خاک یا زمین کی تہوں میں سے اسے ڈھونڈھ نکالنا  ایک علم بھی ہے اور انسان کے شوق پیہم کا ثبوت بھی۔
مجھے معلوم تھا مشعل کو یہ جگہ پسند آئے گی۔ ایسا ہی ہوا۔ کم از کم مشعل کو یہ پتہ چل گیا کہ رکاذ یا فوسلز کیا ہوتے ہیں۔ ہم دونوں نے مل کر سیپیاں اور رکاذی پتھر جمع کئیے۔ ان میں سے کچھ لوگوں کو تحفے میں دینے کے لئے۔ ایک خوبصورت چھوٹا سا رکاذی پتھر مشعل کی اسکول ٹیچر کے لئے۔ اپنے سی شلیز کے ذخیرے میں سے مشعل نے کسی کو کچھ بھی دینے سے صاف انکار کر دیا۔  'اس وقت میں اچھی بچی نہیں ہوں، میں کچھ شیئر نہیں کر سکتی'۔
جس طرح ایک انسان ہمہ وقت ہر ایک کے لئے اچھا نہیں ہو سکتا اسی طرح ایک انسان ہر وقت  اچھا بھی نہیں ہو سکتا۔ البتہ اسے تیار رہنا چاہئیے کہ وہ یہ جملہ سنے گا کہ وہ اچھا نہیں ہے۔ مشعل نے اسکی تیاری کر لی۔ بچے ظالمانہ حد تک صاف گو کیوں ہوتے ہیں؟
یہیں سے مجھے ایک دلچسپ چیز، مرجان کا ایک ٹوٹا ہوا ٹکڑا ملا۔ پاکستان کے ساحلوں میں بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہاں سمندر میں مرجان کی چٹانیں نہیں ہیں۔ لیکن پتھروں کے اس ڈھیر میں، میں نے اسے پا لیا۔ ہمم ، تو ایسا نہیں ہے کہ بالکل نہیں ہے۔ موجود ہیں لیکن یہ کہ مرجان، سمندر کے پانی کی حرارت اور آلودگی سے بہت متائثر ہوتے یں۔





یہ جگہ مراقبے کے لئے بھی بڑی اچھی ہے۔ سمندر کی آواز کو بعض اوقات مراقبے کی مشقوں میں استعمال کیا جاتا ہے  توجہ کے ارتکاز کے لئے۔ سمندر میں ایک وسعت اور اسرار ہوتا ہے اور اسکی آوازمیں ایک ردھم،  ولولہ اور امید۔ اسکی لہروں میں وہ طاقت ہوتی ہے کہ سخت چٹانوں کو ریزہ کر دیتی ہیں۔ لیکن اس میں وہ طلسم بھی ہوتا ہے جو اسی ریزے کو بیش قیمت موتی میں  تبدیل کر ڈالتا ہے۔



ہمارے علاوہ یہاں کوئ اور نہ تھا۔  ایک بھرپور وقت گذار کر ہم لوٹے۔ کچے روڈ پہ ٹرکس پتھر اور مٹی لے کررواں۔ اکّا دکّا لوگ نئے بننے والے بند کے کنارے پہ کھڑے منظر میں مگن۔ اجنبی ہونے کے ناطے  ایک اشتیاق بھرے تجسس سے دیکھتے ہیں اور بس۔ ہم پلٹے اور آبادی کے قریب پہنچ کر روڈ کے ڈھلان سے اترنے لگے۔ ایک پر سکون مچھیروں کی آبادی ہمارے سامنے پھیلی ہوئ تھی جس کے کنارے وہ گھر تھا جہاں اس وقت ہماری رہائیش تھی۔ میری نظریں اس تمام منظر سے گذرتی ہوئیں اس گھر کی پچھلی دیواروں پہ رک گئیں۔ اس پہ کوئلے سے بڑے بڑے حروف میں پنجابیوں کے متعلق گالی نما تضحیک آمیز جملہ لکھا ہوا تھا۔ یہ میں نے پہلے یہاں کبھی لکھا ہوا نہیں دیکھا تھا۔ کبھی گوادر کی کسی دیوار پہ نہیں۔ اس پہ کسی پنجابی قاری کو سیخ پا ہونے کی ضرورت نہیں ۔ بلوچستان اور سندھ کے اندرونی علاقوں میں ہر غیر مقامی کو پنجابی سمجھا جاتا ہے۔ ورنہ اس مکان کے مکین اور نہ مالک کوئ بھی پنجابی نہیں۔
 اس دیوار پہ یہ لکھا دیکھ کر شاید تھوڑی سی دیر کو میرے اندر تشویش کی ایک لہر اٹھی۔ لیکن پچھلے دو دنوں کی یادداشت نے اسے فوراً دھودیا۔
میں اسے اپنے کمیرے میں محفوظ کرنا چاہتی تھی مگر معلوم ہوا کہ بیٹری بے جان ہے اسے چارجنگ کی ضرورت ے۔ بیٹری عمر رسیدگی کے مراحل طے کر رہی ہے۔ اوربہت کم مدت کے لئے چارج ہوتی ہے۔ اسے تو ، ایک دفعہ پھر چارج کر لونگی اس کا طریقہ مجھے آتا ہے۔ لیکن قوموں کو کس طرح چارج کیا جاتا ہے، یہ جاننا ابھی باقی ہے۔ اس دیواری نوشتہ پہ بی ایس او اور بی ایل اے بھی لکھا تھا۔
یہ بی ایس او اور بی ایل اے کیا ہیں؟

جاری ہے 

Thursday, February 24, 2011

خواتین اور بلاگنگ

مصر میں تبدیلی کا سہرا جن لوگوں کے سر جاتا ہے ان میں خواتین بلاگرز بھی شامل ہیں۔ بلاگستان کے ایک طبقے کی زبان میں وہ خواتین  نان کمیٹڈ ہیں جو اپنی گھر میں رہتے ہوئے کسی بھی ایسی چیز سے تعلق رکھنا چاہیں جو ان میں کسی بھی سطح کا شعور پیدا کرنے کے قابل ہو مثلاً بلاگنگ جیسی مفت شے۔ وہ خواتین جو  شادی شدہ ہیں انہیں  چاہئیے کہ ڈائجسٹ پڑھیں یا اسٹار پلس کے ٹی وی پروگرام  مثلاً ساس بھی کبھی بہو تھی دیکھ کر زندگی کے باقی دن پورے کریں۔  لیکن خواتین اگر خدا انہیں ہمت دے تو بلاگنگ نہ کریں جناب۔ یہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔
مزید دلچسپ ٹرینڈز بھی ہمارے یہاں ہی دیکھے جا سکتے ہیں۔ مثلاً ہمارے یہاں احترام کے لائق کون خواتین ہوتی ہیں؟ جی نہیں وہ خواتین نہیں جو کسی علمی مرتبے پہ یا کسی مقام پہ اپنی صلاحیت کی بناء پہ پہنچی ہوں نہ ہی وہ جو اپنی صلاحیتوں سے اپنے ارد گرد کے لوگوں کی زندگی میں آسانی پیدا کرنا چاہ رہی ہوں یا دوسروں میں تحرک ہی پیدا کر دیں، نہیں وہ بھی نہیں جو کسی دباءو کا شکار اور کمزور شخص کی آواز بن جائیں اور وہ بھی نہیں جو صرف یہ کام انجام دینے لگیں کہ ایک جگہ کا کار آمد علم دوسری جگہ پہنچانے لگ جائیں۔
ہمارے یہاں کسی خاتون کو اگر احترام حاصل کرنا ہے تو ایک بالکل آسان سا نسخہ ہے حجاب پہننا شروع کر دے۔ اور ابھی اندازہ ہوا کہ سب سے کم سطح پہ یہ کہ اپنا نام ہی حجاب رکھ لے۔ بس اسکے بعد ان خاتون کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ جو کچھ کریں گے دوسرے کریں گے۔ احترام اور ستائیش  اس طرح نکل کر بہے گا کہ اس میں دھل کرعام مٹی بھی زم زم کی گیلی ریت بن جائے گی۔

 میں ان تمام ملکوں میں چلنے والی تحریکوں کی تصاویر دیکھتی ہوں جہاں مردوں کے دوش بدوش عورتیں کھڑی نعرہ زن ہیں۔ سوچتی ہوں مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ان احتجاج کرنے والی عورتوں کو ہمارے یہ مرد کس فہرست میں رکھتے ہونگے قابل احترام یا نا قابل احترام۔ اس نیچے والی تصویر میں یقیناً وہ خواتین قابل احترام ہونگیں جنہوں نے اسکارف پہنا ہوا ہے اور جس خاتون نے نہیں پہنا ہوا وہ ناقابل احترام۔



اسماء محفوظ ایک بلاگر جو مصر میں تبدیلی کے بہاءو کو تیز تر کرنے میں شامل رہی۔ وہ اپنے گھر سے کمیٹڈ ہے یا نان کمیٹڈ، گھر اور گھریلو رشتوں کو اہمیت دینے والی ہے یا خود غرض۔  ہمارے یہاں ابھی پیٹ بھرے خیالات کا بہاءو اس طرح ہے۔

انکے دوست نے اپنی گھریلو مصروفیات کی وجہ سے بلاگنگ اور نیٹ سرفنگ سے معذرت کی ہے اس تحریر کے تبصروں میں لوگوں نے انکے اس اقدام کو ان لوگوں نے بہت سراہا جو گھر اور گھر میں بسنے والے لوگوں کی اہمیت سے واقف ہیں اور ان لوگوں نے اس فعل کو غیر اہم اور دقیانوس قرار دیا جو دوسروں کو کچھ نہیں سمجھتے انکے لئے انکا اپنا آپ ہی سب کچھ ہوتا ہے

چلیں جناب، اگر آپ گھر اور گھر میں بسنے والوں کی اہمیت سے واقف ہیں تو فوراً بلاگنگ جییسے قبیح فعل سے جان چھڑائیں ورنہ آپ ان لوگوں میں شامل ہونگے جو دوسروں کو کچھ نہیں سمجھتے اور آپکا اپنا آپ ہی آپ کے لئے اہمیت رکھتا ہے۔ یہ تبصرہ لکھنے والے اور اس پہ واہ واہ کرنے والے اس سے مستثنی ہیں۔ اگر انہوں نے  بلاگنگ چھوڑ دی اور دوسروں نے واہ واہ کرنا  تو بلاگنگ کی دنیا کو راہ راست پہ کون رکھے گا۔

Tuesday, February 22, 2011

ساحل کے ساتھ-۳


شام کے سوا چھ بج رہے تھے جب ہم پسنی سے کوئ بیس کلو میٹر کے فاصلے پہ شادی کور کی چیک پوسٹ پہ پہنچے۔  ٹرک ایل طرف رکا تو تھوڑے ہچکولے کھا کر گاڑی بھی رک گئ۔  ٹرک ڈرائیور نے معلومات درج کروائیں۔ ہماری گاڑی کی حالت تو سب پہ ظاہر تھی۔  تقریباً دو گھنٹے  ٹرک کے ساتھ رینگتے ہوئے ہم نے سوچا کہ ٹرک والوں سے بات کی جائے ہو سکتا ہے وہ ہمیں گوادر تک لے جانے پہ راضی ہو جائیں۔ وہ بھی تو گوادر جا رہے ہیں۔ بس یہ کہ انہیں پسنی میں زیادہ دیر کے لئے نہ رکنا ہو۔ 
سو وہ گاڑی سے اتر کر ان سے باتیں کرنے لگے۔ مجھے اس وقت ڈوبتے سورج کا منظر بے حد اچھا لگا اور میں نے سب بھول کر سوچا کہ اگر فلش آف کر کے لوں تو شاید بالکل ایسا ہی آجائے جیسا نظر آ رہا ہے۔ پہلی تصویر لی۔ اتنی دیر میں وہ واپس آ کر بیٹھے۔ گاڑی کے چلنے تک میں نے ایک اور تصویر لی۔ اور جب گاڑی اسٹارٹ ہو کر چلی ہی تھی کہ پیچھے سے سیٹیوں کی آواز آنے لگی۔
ٹرک اور گاڑی ایک دھچکے سے رکے۔ ایک سپاہی ہماری طرف تیزی سے دوڑتا ہوا آیا۔ آپکی گاڑی سے تصویر لی گئ ہے۔ جی میں گڑ بڑا گئ۔ دیکھے بغیر بھی جان سکتی ہوں کہ پڑوسی مجھے کن نظروں سے گھور رہے ہونگے۔
خیر، میں نے سپاہی محترم سے کہا کہ میں سورج کی تصویر بنا رہی تھی چاہیں تو آپ دیکھ سکتے ہیں۔ اسکے ساتھ ہی میں نے کیمرہ انکی طرف بڑھا دیا۔ اس نے کیمرہ نہیں لیا۔ بس میرے چہرے پہ ایک لحظہ نظر جمائے رہا۔ پھر کہنے لگا کسی یونیفارم والے کی تصویر تو نہیں لی۔ جی نہیں۔ ٹھیک ہے پھر آپ جا سکتے ہیں۔ 'دیکھا آپ سے کہا بھی تھا کہ چیک پوسٹ کی تصویر نہیں لینی ہے۔  شریف آدمی تھا چھوڑ دیا۔ ورنہ خوب درگت بناتے ہیں'۔ 'میں نے چیک پوسٹ کی لی بھی کہاں تھی۔ اسے میری معصومیت کے اعتماد پہ یقین تھا اس لئے چھوڑ دیا'۔ سچ پوچھیں تو کیمرہ بچ جانے پہ میں نے بھی دل میں شکر ادا کیا۔

لاکھ کوشش کی مگر نکل کر ہی رہے،،گھر سےیوسف، خلد سے آدم ، تیری محفل سے ہم

راستے میں ایک جگہ ہمارے محسنین چائے پینے کے لئے رکے اور بالآخر  رات کو گیارہ بجے گوادر سے بیس بائیس میل دورآباد ہماری منزل، مضافاتی آبادی کے باہر ٹرک رک گیا۔  ڈرائیور نے اتر کر آگے جانے والے راستے کا معائینہ کیا اور پھر معذرت کرلی۔ اندر آبادی میں  نہیں جا سکتے۔ روڈ مکمل نہیں بنا ہوا اور ٹرک کے پھنس جانے کا اندیشہ ہے ورنہ ہم ضرور آپکو گھر تک پہنچا کر گوادر جاتا۔
 ہم تو راستے بھر ویسے ہی انکے احسان پہ حیران ہوتے  چلے آرہے تھے۔ اس ویرانے میں سوا دو سو کلومیٹر تک ایک لوڈڈ رینج روور کو کھینچ کر لے جانے کا  احسان اگر دنیا میں کوئ کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے تو وہ شاید ایک بلوچ کا حوصلہ ہی ہو سکتا ہے۔ اس ٹرک میں موجود تینوں افراد بلوچ تھے۔  بلوچ اپنی مہمانداری کے لئے مشہور ہیں اور اپنی وسعت قلب کے لئے بھی۔ پھر آخر ایسا کیوں کہ اس صوبے کے اندر ان لوگوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جائے جو بلوچ نہیں لیکن جو وہاں انکے ساتھ حیات کی سختیوں میں شریک ہونے کے لئے موجود ہیں؟
روڈ کے کنارے کھڑے کھڑے، تھوڑی دیر میں ایک گاڑی نظر آئ۔  سوار بلوچ نے کہا میں آگے ایک کام سے جا رہا ہوں اگر آپ دس منٹ انتظار کر لیں تو واپسی میں میری گاڑی میں جا سکتے ہیں۔ سامان تو ہم پہلے ہی سیٹ کر چکے تھے۔ جتنی دیر ہم وہاں اس کا انتظار کرتے رہے۔ جو بھی گاڑی وہاں سے گذری اس نے ہماری خیریت دریافت کی۔ حسب وعدہ وہ شخص آگیا۔ سردی اتنی نہیں تھی جتنی ہوا تیز چل رہی تھی۔ ضروری سامان  ساتھ لیا اور اس میں بیٹھ گئے۔ گھر وہاں سے  ڈیڑھ دو کلو میٹر سے زیادہ دور نہیں تھا۔
 گھر پہنچ گئے۔ شاید ایک سال کے بعد کھلا تھا۔ ہر چیز پہ  مٹی کی موٹی تہہ جمی تھی۔
مشعل بھی اٹھ چکی تھی۔ اسے جھاڑو دینا اور ڈسٹنگ کرنا بے حد پسند ہے۔ مستقبل میں وہ ماسی بن کر قوم کی خدمت کرنے میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں۔ ہر جگہ اتنی مٹی جمع دیکھ کر انکے دل کی کلی کھل گئ۔ اور اس وقت جبکہ ہم پلان بنا رہے تھے کہ رات کے اس وقت، اتنی تھکی ہوئ حالت میں ہم کیا کیا کر سکتے ہیں وہ بار بار یاد دہانی کرا رہی تھیں کہ وہ اب بڑی اور سمجھدار ہو چکی ہیں اور ہمارے شانہ بشانہ کام کرنے کو تیار ہیں۔ والدین کو اندازہ ہو سکتا ہے کہ  ایک چار سالہ بچے کی ان رضاکارانہ خدمات کو کتنی سختی سے ٹھکرانا پڑتا ہے۔ یوں کام گھٹنے کے بجائے اور بڑھ جاتا ہے۔ 
بہرحال بیڈ روم کی صفائ، صاحب نے سنبھالی، کچن کی میں نے تاکہ کھانا گرم کر کے پیٹ پوجا کی جائے۔  حیات میں شریک ہونا  شاید اسی کو کہتے ہیں۔ مشعل دونوں جگہوں کے درمیان دوڑتی رہیں تاکہ جہاں موقع ملے وہ گھس جائیں اور بزور قوت اپنا حق صفائ حاصل کریں۔ ہماری قسمت کی کمزوری کہ انہیں کہیں سے ایک گندہ کپڑا اور ٹوٹی ہوئ جھاڑو بھی مل گئ تھی۔
صبح کے لئے پروگرام یہ بنا کہ کراچی میکینک کو فون کر کے پہلی بس سے یہاں آنے کو کہا جائے۔ کیونکہ گوادر میں کوئ اچھا مکینک  ملنا ممکن نہیں۔ پھر گاڑی کو گھر کے گیراج تک لانے کا بندو بست ہو۔ پھرگھر کی اچھی طرح صفائ کی جائے۔
اس واضح منصوبے کے بعد ہم نے اپنے اوپر سے دن بھر کی گرد جھاڑی اور ہر اندیشے سے بے نیاز ہو کر بستر پہ پڑ گئے۔ گھر سے چار پانچ گز کی دوری پہ سمندر کی لہریں، ساحل سے راز ونیاز میں مشغول تھیں۔ کہتے ہیں
رات بھر کوئ نہ سوئے تو سنےشور فغاں
چاند کو درد سناتا ہے سمندر اپنا
لیکن ایک لمبے دن کے بعد رات کے ایک بجے تھکن نے ہر جذبہ ء  تجسس کو بھی سلا دیا  تھا یہ ممکن نہ تھا کہ کسی کا درد سننے کے لئے ہم جاگتے رہیں۔ سو اسے لوری سمجھ کر گہرری نیند کے مزے لئے۔


صبح گاڑی گھر تک کیسے پہنچی؟ اس کے لئے وہاں زیرتعمیر جیٹی کا شکریہ کہ اسکی وجہ سے ایک ٹریکٹر مل گیا جو مقامی بلوچوں کی مدد سے اسے کھینچ کر گھر تک لے آیا۔


اب میکینک کا انتظار تھا۔ جو اسی رات تین بجے  آنے والی بس سے پہنچ رہا تھا۔ یہ اس کا گوادر کا پہلا سفر تھا۔ اور وہ خاصہ پُر جوش تھا۔ یوں جیسے کراچی میں کسی ملٹی نیشنل کمپنی میں کام کرنے والے کو تھائ لینڈ جانے کا پیغام ملے۔

جاری ہے

Saturday, February 19, 2011

پھنس گئے بچّو

ادھر عرب دنیا میں حالات نہایت دلچسپ تبدیلیوں سے گذر رہے ہیں  اور محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی۔ ادھر ہمارے یہاں ریمنڈ ڈیوس کا مسئلہ امریکہ اور پاکستان دونوں کے لئے سانپ کے حلق میں اٹکی چھچھوندر بن گیا ہے، نہ اگلتے بنے نہ نگلتے بنے۔  یعنی کیا بنے بات، جہاں بات بنائے نہ بنے۔
یہ معاملہ اپنی بنیاد ہی میں بڑا عجیب ہے۔ ایک امریکی شخص لاہور کے مصروف علاقے میں دن دھاڑے دو افراد کو فائرنگ کر کے قتل کر دیتا ہے۔ تحقیقات سے یہ مشاہدات سامنے آئے کہ امریکی شخص کی گاڑی میں جدید اسلحہ تھا، اسکے علاوہ مختلف نقشے اور دیگر چیزیں تھیں جن سے اس اندازے کو تقویت ملتی ہے کہ موصوف کا تعلق امریکن انٹیلیجنس ایجنسیز ہے۔ 
لیکن کچھ باتیں جو عجیب لگتی ہیں کہ مارے جانے والے افراد کے پاس بھی اسلحہ موجود تھا۔ جو کہ لائیسنس یافتہ تھا۔ لیکن یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ دو نوجوان اسلحہ لیکر موٹر سائیکل پہ کیوں پھر رہے تھے جو امریکن کے ہاتھوں مارے گئے۔
حالات کہتے ہیں کہ مبینہ امریکی شخص جسکا نام ریمنڈ ڈیوس بتایا جاتا ہے اور اسکے اس نام پہ بھی شبہ ہے کہ اصلی نہیں ہے۔ کیونکہ انٹیلیجنس ایجنٹس کے اصلی نام شاید انہیں خود بھی یاد نہ رہتے ہوں۔ اس نے اپنی گاڑی سے ان نوجوانوں پہ اس طرح فائرنگ کی کہ وہ کھڑے ہوئے تھے اور زیادہ تر گولیاں پیچھے سے یا اطراف سے لگیں۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ لوگ آگے بالکل بے خبر کھڑے تھے تو ریمنڈ ڈیوس کو ایسی کون سی ضرورت پڑی کہ اس نے ان پہ اس طرح گولی چلا دی۔ وہ پاگل نہیں ہے۔ اگر وہ پاگل ہوتا تو قتل کے اس مقدمے میں سے اس کا نکلنا آسان ہوتا  پاگل مجرم کو پاگل خانے بھیجا جاتا ہے ۔
تو یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ اور اندازہ کہتا ہے کہ ان دو نوجوانوں کو چارے کے طور پہ ریمنڈ ڈیوس کے آگے ڈال دیا گیا۔ ڈالنے والوں کو اندازہ تھا کہ بات اسی طرح چلے گی جس طرح کے وہ ہمارے سامنے آئ یعنی وہ ماریں جائیں گے۔ یوں اس معاملے میں ایک اور قوت کی موجودگی سونگھی جا سکتی ہے۔
ریمنڈڈیوس کے ہاتھوں پیش آنے والا یہ واقعہ بادی النظر میں اچانک پیش آنے والا واقعہ نہیں لگتا۔
اس واقعے کے اثرات کیا ہوئے؟
یہ پتہ چلا کہ ریمنڈ ڈیوس کے پاس سے جی پی ایس چپس بر آمد ہوئے جنہیں فاٹا کے علاقے میں پتھری کہا جاتا ہے۔ یہ پتھری دراصل ڈرون حملوں کے ٹارگٹس متعین کرتی تھی۔ یوں ایک متوقع بات یہ ہوئ کہ ریمنڈ کے جیل میں پہنچنے کے بعد سے ڈرون حملے نہیں ہوئے۔
اس میں کوئ شک معلوم نہیں پڑتا کہ  ریمنڈ ڈیوس امریکن مفادات کے لئے پاکستان میں ایسے کام کر رہا تھا جو پاکستان کے مفاد میں نہیں جاتے۔ یوں ریمنڈ کو ایسے مقدمے میں ٹریپ کر لینا جس سے اس کا بچ نکلنا ممکن نظر نہیں آتا  اس سے کس کو ہمدردی ہو سکتی ہے۔ صیاد کبھی کبھی اپنے دام میں آجاتا ہے۔ اس عالم میں صیاد سے ہمدردی، اسکا ماضی اور حال دیکھ کر کی جاتی ہے۔
اب عالم یہ ہے کہ امریکن حکومت اسے اپنا ایجنٹ قبول نہیں کر سکتی اور اسے اس طرح بے یار و مددگار چھوڑا بھی نہیں جا سکتا۔  میرا ذاتی مشورہ تو انہیں یہی ہے کہ جس طرح جنرل ضیاءالحق کو مروانے کے لئے ایک امریکی سفارت کار کی قربانی دی گئ۔ امریکہ اگر دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنا چاہتا ہے تو اسے ایک دفعہ پھر اپنے ایجنٹ کی قربانی دینی پڑے گی بلکہ امریکن نیک نامی اسی میں ہے کہ وہ ریمنڈ ڈیوس پہ پاکستانی عدالت میں مقدمہ چلنے دے اور عدالتی فیصلہ کا انتظار کرے اور جو بھی فیصلہ سامنے آئے اسے کھلے دل سے تسلیم کرے۔  چاہے وہ اسے پھانسی دینے کا ہو۔ امریکہ اس معاملے میں جتنا دباءو ڈالے گا اتنا ہی یہ اس کے لئے نقصاندہ ہو گا خاص طور پہ پاکستانی عوام میں امریکن تائثر کے لئے۔
میں لوگوں سے پوچھتی ہوں آخر امریکہ ایسا کیوں نہیں کرتا۔ آخر وہ ریمنڈ ڈیوس کو بچانے کے لئے ہر جائز اور ناجائز طریقہ کیوں استعمال کرنا چاہتا ہے۔ جان کیری صاحب پاکستان پہنچتے ہیں۔ مقتولین کے ورثاء کو خون بہا دینے کی باتیں ہو رہی ہیں ہلیری کلنٹن ناراض ہیں کہ پاکستان کو اینٹی امریکہ جذبات کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئیے۔
جواب ملتا ہے کہ یہ امریکہ کے لئے انتہائ شرمندگی کی بات ہوگی کہ اسکی انٹیلیجنس کا شخص اور وہ اسے بچا نہ سکے۔ اس طرح تو انکی انٹیلیجنس کی دہشت اور رعب بالکل ختم ہو جائے گا۔
لیکن لگتا ہے کہ امریکنز نے اردو کا یہ محاورہ نہیں سنا کہ وہ دن گئے جب خلیل خاں فاختہ اڑایا کرتے تھے۔ آجکل امریکنز  کا عالم یہ ہے کہ اپنے کان پہ بیٹھی مکھی نہیں اڑا سکتے۔ آخر اب لوگ ان کے دباءو میں کیوں آئیں۔
دوسری طرف وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان انکا اہم اتحادی ہے۔ اسکو آنکھیں دکھانے کا وقت اب گذر چکا ہے۔
یہی بات، پاکستانی حکومت کو بھی سمجھنی چاہئیے۔ دہششت گردی کی اس جنگ میں ہمیں امریکہ کی ضرورت اتنی نہیں جتنی ضرورت امریکہ کو ہماری ہے۔
خیر،اب اگر پاکستان ریمنڈ ڈیوس کو عدالت کے حوالے کر کے آرام سے ہے توامریکہ زیادہ سے زیادہ کیا کر سکتا ہے۔
آپکا کیا خیال ہے؟
کیا امریکہ، ریمنڈ ڈیوس کو خود ہی مروادے گا تاکہ پاکستانی مزید نہ جان سکیں؟
ریمنڈ ڈیوس کو اگرعدالت پھانسی کی سزا دیتی ہے تو کیا امریکہ اسے قبول کر لے گا؟
کیا اس وجہ سے امریکہ اور پاکستان کے درمیان جنگ چھڑ سکتی ہے؟
کیا دنیا بھر میں پیش آنے والے واقعات کے تسلسل میں امریکہ ریمنڈ ڈیوس کے مسئلے پہ پاکستان سے جنگ کر سکتا ہے؟
یہ خفیہ قوت کون ہو سکتی ہے جس نے ریمنڈ ڈیوس کے لئے ان دو نوجوانوں کا بند و بست کیا؟
-
-
-
کہہ سکے کون کہ یہ جلوہ گری کس کی ہے
پردہ چھوڑا ہے وہ اس نے کہ اٹھائے نہ بنے

Friday, February 18, 2011

ساحل کے ساتھ-۲

کوسٹل ہائ وے پہ کچھ دور چلنے کے بعد پہلی رینجرز کی چوکی پڑی۔ یہاں گاڑی کا نمبر, اپنا نام اور منزل مقصود  درج کروانا پڑتا ہے۔  گاڑی رکی ہوئ تھی اور قریب کھڑے سپاہی سے مشعل نے تعلقات بنانے کی کوشش کی۔ وہ بھی نزدیک آگیا پھر مجھ سے کہنے لگا میری بھی اتنی بڑی ایک بیٹی ہے۔  پوچھا کہاں سے تعلق ہے جواب ملا راولپنڈی سے۔ 
یہاں مجھے نصیحت کر دی گئ تھی کہ کسی بھی ایسی سیکیوریٹی کی جگہ یا اس سے تعلق رکھنے والے شخص کی تصویر بالکل نہیں بنانا۔ سو میں مشعل اور سپاہی کی باتیں سنتی رہی۔ وہ شاید اپنی پنڈی میں رہنے والی بیٹی سے باتیں کر رہا تھا۔
ہمیں دن کے کھانے کے لئے ارماڑہ پہ رکنا تھا۔ امیدتھی کہ دوپہر ڈیڑھ دو بجے تک پہنچ جائیں گے۔ راستے میں کنڈ ملیر کے خوبصورت ساحل کو چھونے کے لئیے رکے۔

پھر یہ کہ راستے میں جو پٹھان کے ہوٹل ملتے ہیں ان میں یا تو بیت الخلاء نہیں ہوتا یا قابل استعمال نہیں ہوتا۔
اس سلسلے میں خواتین کے حیاتیاتی نظام کے متعلق وہی نظریات ہیں جو مریخ کے رہائیشیوں کے زہرہ کے رہنے والوں کے متعلق ہونگے۔
انگریزی شاعر، بائرن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ نوالہ حلق میں ڈالنے، چبانے اور حلق سے اتارنے کو اس قدر غیر نفیس فعل سمجھتا تھا کہ کسی عورت کو کچھ بھی کھاتے دیکھ نہ سکتا تھا۔ جو کھاتے نہ دیکھ سکتا ہو وہ یہی سوچتا ہو گا کہ بیت الخلاء کی خواتین کو کیا ضرورت۔
لیکن چونکہ قدرت ان نظریات پہ یقین نہیں رکھتی تو ہم سب نے ان سے فراغت کے لئے بھی راستے کے ٹیلے چنے۔
ارماڑہ کے ساحل پہ پچھلے ایک سال میں ایک پٹھان کا ہوٹل بن گیا ہے جو عام طور پہ پاکستان میں ہائ ویز کے کنارے ہوتے ہیں۔ میں نے گاڑی سے کھانے کا سامان اور پانی لیا، مشعل ہاتھ پکڑا اور اندر کی طرف چلی۔ ایک بارہ تیرہ سالہ پٹھان بچہ دوڑتا ہوا آیا۔ اور ایک طرف اشارہ کر کے کہنے لگا۔ لیڈیز ادھر اے۔ میں نے اسے دیکھا، پھر  اپنے ہاتھ میں کھانے کے سامان کو اور پھر پیچھے گاڑی کو بند کرنے والے صاحب کو۔ نہیں ہم سب یہاں میز پہ کھائیں گے۔ میں نے ہوٹل کے مرکزی ہال کی طرف اشارہ کیا۔ جہاں کرسیاں اور میزیں  بھی موجود تھیں اور فرشی دسترخوان بھی بچھا ہوا تھا۔
جتنی دیر میں صاحب ہاتھ دھو کر فارغ ہوتے میں نے ہوٹل کے اطراف کا جائزہ لیا۔ سامنے ایک چھوٹی سی کمرہ نما جگہ پہ لکھا تھا چپل منہ ہے۔ میں نے اسے ڈی کوڈ کرنے کی کوشش کی یہ کیسا محاورہ ہے۔ کس کا منہ چپل ہے۔ پھر اس میں جھانک کر دیکھا۔ یہ ایک وضو خانہ تھا اور لکھنے والے نے شاید چپل  پہن کر اندر جانا منع ہے لکھنے کی کوشش کی تھی۔


ارماڑہ، گوادر اور کراچی کے  تقریباً وسط میں ہے۔  یہاں سے پسنی تقریباً دو گھنٹے اور وہاں سے گوادر ڈیڑھ گھنٹے۔ یوں تین بجے جب ہم گاڑی میں سوار ہوئے تو تقریباً ساڑھے تین گھنٹے کا سفر باقی تھا۔
گاڑی سو میل کی رفتار سے سیدھے ہموار روڈ پہ دوڑے جا رہی تھی۔ گاڑی چلانے والے صاحب جیسے ٹرانس کی حالت میں بیٹھے تھے یا مراقبہ کر رہے تھے۔ میں اگرمخاطب کرتی تو صاف لگتا کہ  کسی دور دراز کے خلائ سیارے سے جواب آ رہا ہے۔ ہونٹوں پہ وہی مسکراہٹ جو گوتم بدھ کو نروان کے بعد حاصل ہوئ اور انہیں شاید اپنی پیدائیش پہ۔  

دلچسپ بات یہ ہے کہ انڈیا نے ۱۹۷۴ میں جو پہلا ایٹمی دھماکا کیا تھا وہ بھی اسمائیلنگ بدّھا کہلاتا ہے۔ معلوم نہیں بدھا اس دھماکے پہ عالم برزخ میں مسکرائے یا تلملائے۔  یا مغل اعظم کا یہ گانا دیکھتے رہے کہ تمہاری دنیا سے جا رہے ہیں اٹھو ہمارا سلام لے لو۔


لیکن اس ساری تپسیا میں کہیں سے اپسرا مانیکا آ گئیں۔ رشی کا دھیان توڑنے کے واسطے۔  اور آواز آئ۔ اوہ یار۔ کیا ہوا؟  گاڑی سائیڈ پہ کرنے دیں۔ شاید شافٹ ٹوٹ گئ ہے یا کلچ پلیٹ۔ گاڑی ایک سآئیڈ میں ہو گئ۔ گیئر فری ہو گیا ہے اور اب گاڑی نہیں چل سکتی۔ ہم کراچی سے تقریبا سوا چار سو کلو میٹر کے فاصلے پہ گوادر سے تقریباً سوا دو سو کلومیٹر دور تھے۔ قسمت کی خوبی دیکھئیے، ٹوٹی کہاں کمند۔
اس وقت مجھے اندازہ ہوا کہ میں خاصی رجائیت پسند ہوں۔ سر پہ ہاتھ مارنے کے بجائے مجھے خیال آیا کہ شکر ہے کنڈ ملیر کے علاقے میں یہ نہیں ہوا ورنہ پہاڑی پیچ و خم  اور ڈھلانوں میں پھنس جاتے اوربڑا برا ہوتا۔ ابھی تو گوادر تک میدانی علاقہ ہے۔
اب جو آپشنزتھے ان میں سے ایک یہ کہ گاڑی کو  ٹو کرنے والا مل جائے تو کراچی تک کھینچ کر لے جائ جائے ۔ یہ نا ممکن تھا پچھلا سارا رستہ پہاڑی چڑہائیوں اترائیوں کا تھا اور یہ فاصلہ نہ صرف زیادہ بلکہ رسکی بھی تھا ۔  سوا چار سو کلو میٹرکا فاصلہ کوئ کھینچنے پہ راضی نہیں ہو گا۔  گوادر تک بھی کوئ کیسے ٹو کر سکتا ہے۔ گاڑی اتنی بڑی ہے۔ اسے کوئ ٹرک ہی کھینچ سکتا ہے۔
 ویرانے میں گفتگو شروع ہوئ۔ اچھا ایک بات تو طے ہے۔ ہمیں کراچی واپس جانا ہے تاکہ آپ اور مشعل کم از کم آرام سے ہو جائیں۔ گاڑی کو یہی چھوڑنا پڑے گا۔ وہاں سے میکینک لے کر واپس آتے ہیں۔
کراچی واپس کیسے جائیں گے۔ گوادر سے چلنے والی بس رات  نو بجے سے پہلے نہیں نکلے گی اور یہاں  بارہ بجے تک پہنچے گی۔
اس وقت شام کے چار بج رہے ہیں۔ اس ویرانے میں کسی گاڑی سے لفٹ لینی پڑے گی۔ لیکن اس سے پہلے تمام قیمتی اور ضروری سامان دو بیگز میں کر لیا جائے۔ باقی سب گاڑی میں چھوڑنا پڑے گا۔
 ہم نئ صورت حال کے لئے تیار ہونے لگے۔ مشعل کو بڑا صدمہ ہوگا وہ اس وقت سو رہی تھی۔ میں نے سوچا۔ آجکل گوادر میں کاروباری سرگرمیاں ایک دم ماند پڑ گئ ہیں اس لئے روڈ پہ کافی دیر بعد کوئ گاڑی نظر آتی تھی۔ پتہ نہیں اب کیسے کوئ گاڑی کراچی کے لئے ملے گی۔
سامان کو دوبارہ ترتیب کر کے فارغ ہوئے تھے کہ قریب سے آٹے کی بوریوں سے لدا ایک مقامی طرز کا ٹرک گذرا۔ ڈرائیور نے ہاتھ ہلا کر خیریت دریافت کی۔ یہ تو خود اتنا لدا ہوا ہے یہ ہمیں کیا گودار تک کھینچ کر لے جائے گا۔ میں نے سوچا۔ اور مزید سوچا۔ اگر ہم گوادر پہنچ جائیں تو گاڑی ایک محفوط مقام پہ ہوگی اور ہم تناءو سے آزاد۔ مگر کیسے؟
 توقع کے بر خلاف ٹرک آگے جا کر رک گیا۔ تین افراد باہر آئے۔ صورت حال جان کر انہوں نے پسنی تک ٹو کرنے کی پیش کش کر دی۔ پسنی میں رینجرز کی چوکی ہے وہاں چھوڑیں گے تو گاڑی زیادہ محفوظ رہے گی۔ اور ہم وہاں سے کراچی کے لئے روانہ ہو جائیں گے۔ ایک امید باندھ کر گاڑی  کو ٹرک کے ساتھ رشتہ ء ضرورت  کی ڈور سے باندھ دیا گیا۔ ہوا اتنی تیز تھی کے گاڑی کا بونٹ اڑا جا رہا تھا۔ بہر حال ٹرک کے پیچھے بہت سوں کی تصوراتی مثالی مسلمان خاتون کی طرح گاڑی چل پڑی۔

 اسٹیئرنگ سختی سے پکڑے، گاڑی اور ٹرک کے درمیان تنی رسی پہ آنکھیں جمائے صاحب سے میں نے ایک ماہر ٹی وی اینکر کی طرح پوچھا، کہاں آپ سو میل کی رفتار سے اڑے جا رہے تھے اور ا ب آپکو زیادہ سے زیادہ چالیس کی رفتار سے رینگنا پڑ رہا ہے۔ خرگوش سے کچھوے کی اس کایا کلپ پہ آپ کیسا محسوس کر رہے ہیں ؟ اس ظالمانہ سوال پہ انہوں نے ایک نگاہ صحیح انداز ، یعنی مار سوٹئ ایہہ والے انداز سے دیکھا اور منہ پھیر لیا۔
یوسف اسکو کہوں، اور کچھ نہ کہے، خیر ہوئ
گر بگڑ بیٹھےتو میں لائق تعزیر بھی تھا

جاری ہے۔

Wednesday, February 16, 2011

وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا

فصل قضایا، اقامت عدل، بسط امن، رفع نزاع کے لئیے متعدد ولاۃ حکام کی ضرورت تھی۔ اسکے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے متعدد صحابہ کو مختلف مقامات کا حاکم و والی مقرر فرما دیا۔ ان ولاۃ یا گورنروں کا تقرر ملک کی وسعت اور ضروریات کے لحاظ سے ہوتا تھا۔ رسول اللہ کے زمانے میں عرب کے جو حصے اسلام کے زیر سایہ تھے اسکے پانچ حصے تھے اور ان میں سے ہر ایک حصہ کے لئیے علیحدہ گورنر تھے 
عموماً جب کسی مہاجر کو کہیں کا عامل مقرر کرتے تو اسکی کے ساتھ ایک انصاری کا بھی تقرر فرماتے۔
ان فرائض کو ادا کرنے کے لئے سب سے زیادہ تبحر علمی، وسعت نظر اور اجتہاد کی تھی۔ اس بناء پر آپ ان لوگوں کے تبحر علمی  اور طرز عمل کا امتحان لیتے تھے۔ چنانچہ جب حضرت معاذ رضی اللہ عنہ   کو روانہ فرمایا تو پہلے انکی اجتہادی قابلیت کے متعلق اطمینان فرمایا ترمذی میں ہے کہ
رسول اللہ نے جب معاذ بن حبل کو یمن کی طرف بھیجا تو فرمایا کس چیز سے مقدمات کا فیصلہ کروگے۔ انہوں نے کہا قرآن مجید سے۔ آپ نے فرمایا اگر اس میں وہ فیصلہ تم کو نہ ملے ۔ انہوں نے کہا کہ احادیث سے پھر آپ نے فرمایا کہ احادیث میں بھی اس کے متعلق ہدایت نہ ملے تو انہوں نے کہا میں اپنی رائے سے اجتہاد کروں گا ۔ اس پہ آپ فرمایا اس خدا کا شکر ہے جس رسول کے رسول کو اس چیز کی توفیق دی جس  کو خود اس کا رسول محبوب رکھتا ہے۔
 لیکن اہل عرب کے دلوں کو مسخر کرنے کے لِئے ان تمام چیزوں سے زیادہ رفق و ملاطفت نرمی اور خوش خوئ کی ضرورت تھی۔ جنکی آمیزش سیاست اور حکومت کے اقتدار کے ساتھ تقریباً نا ممکن ہو جاتی ہے۔اس لئے رسول اللہ گورنروں کو بار بار اس طرف متوجہ فرماتے۔ چنانچہ جب معاذ بن جبل کو ایک صحابی کے ساتھ یمن کی گورنری پرروانہ فرمایا تو پہلے دونوں کو عام طور سے وصیت فرمائ
آسانی پیدا کرنا، دشواری نہ پیدا کرنا، لوگوں کو بشارت دینا ان کو وحشت زدہ نہ کرنا،باہم اتفاق رکھنا اور اختلاف نہ کرنا۔ 
اس پہ بھی تسکین نہ ہوئ تو معاذ بن جبل جب رکاب میں پیر ڈال چکے تو ان سے خاص طور پہ یہ الفاظ فرمائے۔
لوگوں کے ساتھ خوش خلقی کے ساتھ برتاءو کرنا۔
 یہ رسول اللہ کی تعلیم کا نتیجہ تھا کہ اخیر زمانے میں جب صحابہ عمال حکومت کے مظالم دیکھتے تو ان کو سخت تعجب ہوتا اور وہ رسول اللہ کی تلقینات کے ذریعے انکو روکتے تھے چنانچہ ایک بار ہشام بن حکیم بن حزام نے دیکھا کہ شام کے کچھ نبطی دھوپ میں کھڑے ہیں انہوں نے اسکی وجہ پوچھی۔ لوگوں نے کہا جزیہ وصول کرنے کے لئے ان پہ یہ سختی کی جا رہی ہے انہون نے یہ سن کر کہا 
میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا کہ خدا ان لوگوں کو سزا دے گا جو لوگوں کو دنیا میں عذاب دیتے تھے۔

 کشف الدجی بجمالہ
 بدر الدجی بکمالہ
حسنت جمیع خصالہ
صلو الیہ وآلہ

حوالہ
یہ تحریر مندرجہ ذیل حوالے کی مدد سے تیار کی گئ ہے۔
سیرۃ النبی، مصنف؛ علامہ شبلی نعمانی، جلد دوم، صفحہ ۴۵۔

Tuesday, February 15, 2011

ساحل کے ساتھ


پانچ دن بعد جب ہم لوٹے تو حالات وہی تھے۔  یعنی  مبارک صاحب اسی طرح صدر  بنے رہنے پہ مصر، انکے دل میں وہم تھا کہ گذر ہی جائے گی میرے بغیر بھی لیکن، بہت اداس ، بہت بے قرار گذرے گی جبکہ عوام نے رولا پایا ہوا تھا، جا جا میں تو سے نہیں بولوں۔


امریکہ اسی طرح ریمنڈ ڈیوس پہ تاءو دکھا نے میں مصروف، پاکستانی حکومت اسی طرح ٹال مٹول سے کام چلا کر ہر ایک فریق یعنی امریکہ 'عوام' اور خواص کو مطمئن رکھنا چاہ رہی تھی۔  لوگ اسی طرح 'انقلاب دور است' کو خوش آمدید کہنے کی دھنیں تیار کر رہے تھے تاکہ وقت ضرورت اس جھنجھٹ میں نہ پڑنا پڑے اور کچھ تو تیاری پہلے سے ہو۔ مختصراً سورج اسی طرح مشرق سے نکل رہا تھا اور مغرب میں گم ہو رہا تھا جیسے سالہا سال سے کرتا چلا آیا ہے۔
لیکن، ہم ایک اور دلچسپ سفر سے ہو کر گذر آئے۔
ایک روسی ادیب کا کہنا ہے کہ تمام خوشحال خاندانوں کی کہانیاں ایک جیسی ہوتی ہیں اور غریب خاندانوں کی الگ الگ۔  سی طرح تمام ترقی یافتہ جگہوں کے سفر کی کہانیاں ایک جیسی ہوتی ہیں اور پسماندہ  جگہوں کا جب بھی قصد کریں الگ داستانیں بنتی ہیں۔ خاص طور پہ ایسی جگہیں جو معاشی اور اسکے ساتھ آنے والی معاشرتی تبدیلیوں سے گذر رہی ہوں۔ 
  سو ایک دفعہ پھر پاکستان کے شورش زدہ اور سب سے پسماندہ صوبے بلوچستان کا رخ کیا، ہماری منزل گوادر کا ایک مضافاتی علاقہ تھا۔ بیٹی صاحبہ بھی ساتھ تھیں۔ صبح سویرے ہم نکلے تو موسم بڑا سہانا تھا۔ کراچی میں اسے موسم بہار کہنا چاہئیے۔ بادل آسماں پہ دفعہ ایک سو چوالیس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے من وتو کا فرق مٹائے ہوئے ایک دوسرے میں گھلے ملے جا رہے تھے۔  کراچی شہر کے صنعتی ماحول کی حدوں سے باہر نکلے تو ہوا میں ایک تازگی اور الہڑ پن تھا۔
گاڑی سے گوادر جانے کے لئے صرف ایک راستہ ہے، کوسٹل ہائ وے۔ یوں اس روڈ پہ چلتے ہوئے گوادر کراچی سے تقریباً ساڑھے چھ سو کلو میٹر کے فاصلے پہ ہے۔ شروع کے تقریباً سو کلو میٹر آر سی دی ہائ وے پہ سفر کرنا پڑتا ہے پھر وندر سے آگے جا کر کوسٹل ہائ وے شروع ہو جاتی ہے۔ راستے میں جو اہم بستیاں آتی ہیں ان میں اُرماڑہ اور پسنی کی نیول بیسز شامل ہیں۔
 میں پہلے بھی کئ دفعہ یہاں جا چکی ہوں لیکن اس دفعہ  بلوچستان کے  مخدوش حالات کو  ذاتی طور پہ جاننے کے لئے میں  نے سفر میں شامل ہونے کا ارادہ کیا۔ مشعل کے اسکول سے ایک ہفتے کی چھٹی لی۔ اس مہم پہ انہیں جو کچھ سیکھنے کو ملتا وہ اسکول کی چار دیواری میں کبھی نہیں مل سکتا۔  آغاز سفر میںوہ خود بھی بے حد بے چین تھیں اور ہر دس منٹ کے بعد پوچھتیں کہ کیا بیچ  یعنی ساحل آگیا؟  کیا آنے والا ہے؟ کیا میں اب اپنا سوئمنگ کاسٹیوم پہن سکتی ہوں؟ کیا ہم وہاں پہ سی شیلز جمع کریں گے؟ کیا وہاں پہ مرمیڈ ہوگی؟ کیا میں ایک چاکلیٹ کھا سکتی ہوں؟ پھر ایک  جگہ بیٹھے بیٹھے غنودگی طاری ہوتی۔ یوں ایک فل اسٹاپ لگتا اورجاگنے پہ وہی  سوال ایک نئ ترتیب میں آجاتے۔
اُرماڑہ سے پہلے ہنگول کا علاقہ آتا ہے۔ یہاں پاکستان کا سب سے بڑا نیشنل پارک ہے اور ہنگول دریا بھی گذرتا ہے۔ اس پہ گذرنے والے پل کے ساتھ پچھلے دو سالوں میں ایک ریسٹ ہاءوس بنا دیا گیا ہے۔ پل پہ سے گذرتے ہوئے ہم نے سوچا کہ واپسی کے سفر میں ایک رات اس ریسٹ ہاءوس میں گذاریں گے  تصویریں بنائیں گے، کچھ فاصلے پہ   دریا کے ساتھ  پہاڑوں میں واقع ایک قدیم مندر کو دیکھ کر آئیں گے جہاں ہر سال موسم بہار میں ہندو بڑی تعداد میں مذہبی رسومات کی ادائیگی کے لئے آتے ہیں۔ یہ ہنگلاج کا مندر یا نانی مندر کہلاتا ہے۔


اسکے علاوہ دریا میں مگر مچھ ہیں جو روزانہ دریا کنارے دھوپ کھانے کے لئے صبح سے لیٹ جاتے ہیں انکا دیدار بھی کریں گے۔
کوسٹل ہائ وے سمندری ساحل کے ساتھ ساتھ ہے سو کہیں کہیں سمندر بالکل صاف نظر آتا ہے اور کہیں کہیں پہاڑوں کی اوٹ لے لیتا  ہے۔ اس راستے کا سب سے خوبصورت حصہ کُنڈ ملیر کے آس پاس آتا ہے جو اُرماڑہ سے پہلے ہے۔ یہاں کاریگران قدرت نے پہاڑوں کو تراش کر ایلس کا ونڈر لینڈ بنایا ہوا ہے۔ مشعل نے ان پہاڑوں کو دیکھ کر کہا۔' یہ تو کوئین کا ہاءوس ہے ماما'۔ فوٹو گرافرز کے لئے یہاں بڑے شاندار مناظر ہیں۔ اسکے علاوہ فیشن شوٹس کے لئے پہاڑ ایک بہترین پس منظر کا کام انجام دے سکتے ہیں۔ ایک ماڈل میں نے بھی استعمال کی تھی اور اچھی تصویریں ملی تھیں  لیکن وہ تصویریں کہیں کھو گئیں۔ یہ نئ تصاویر حاضر ہیں۔


کنڈ ملیر کے قریب
 
کنڈ ملیر
کنڈ ملیر کے قریب
گاڑی کے اندر سے لی گئ ایک تصویر
پہاڑ جیسا کہ آپ نے تصویروں میں دیکھا، برہنگی کی حد تک بنجر ہیں۔  ہریالی سے ڈھکے ہوئے پہاڑ تو اپنے لباس کی زینت کی وجہ سے خوب صورت لگتے ہیں لیکن یہ بنجر پہاڑ وہ خوبصورتی رکھتے ہیں جس کے لئے شاید آرٹسٹ نیوڈ پینٹنگز بناتے ہیں۔
اس پہ مجھے یاد آیا کہ ہمارے ٹی وی کے مشہور میزبان اور لکھاری انور مقصود صاحب کے بارے میں سنتے ہیں کہ وہ بھی مصوری سے شغف فرماتے ہیں اور  انکی تصاویر کی بڑی مانگ ہے۔  یہ بھی کہیں پڑھا کہ ایک دفعہ جناب ضیا ءالحق صاحب نے ان سے انکی پینٹنگز کے بارے میں دریافت کیا۔ انہوں جواب دیا کہ میری پینٹنگز آپ دیکھ نہیں پائیں گے۔ مزید استفسار پہ کہا کہ میری ماڈلز بہت غریب ہوتی ہیں۔ اتنی غریب کہ انکے پاس پہننے کو کپڑے بھی نہیں ہوتے۔
کیا بلوچستان اتنا ہی غریب ہے یا پسماندہ؟

Sunday, February 13, 2011

کافکا کی ایک کہانی

فرانز کافکا میرا پسندیدہ ادیب ہے۔ کیوں پسند ہے؟ اس کا کوئ واضح جواب میرے پاس نہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے مجھے چیکو فلیور کی آئس کریم پسند ہے۔ مگر نہیں پتہ کہ کیوں پسند ہے۔ یا بالکل ایسے ہی جیسے میں لوگوں کی مسکرانے کی ادا کو سب سے پہلے محسوس کرتی ہوں معلوم نہیں کیوں۔ 
محمد عاصم بٹ کا کہنا ہے کہ انہیں کافکا اس وقت بھی پسند تھا جب انہوں نے اسے پڑھا نہیں تھا۔ شاید میں بھی کچھ ایسا ہی کہنا چاہوں۔ محمد عاصم بٹ  کون ہیں؟ انہوں نے کافکا کی کہانیوں کا اردو ترجمہ کیا ہے ۔ کہانیوں کے اس مجموعے کو جنگ پبلشرز نے شائع کیا ہے۔ نام ہے اسکا کافکا کہانیاں۔
 کافکا اٹھارہ سو تراسی میں پراگ، جرمنی میں پیدا ہوا اور انیس سو چوبیس کو ویانا کے نزدیک ایک سینی ٹوریم میں اس کا انتقال ہو گیا۔ اس نے اپنی کافی تحاریر کو تلف کر دیا۔ مرنے سے پیشتر اس نے اپنے دوست سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ اسکی تمام تحاریر کو چاہے وہ مکمل ہوں یا نا مکمل جلا دیا جائے۔ مگر دوست نے اس خواہش کو رد کر دیا اور اسے جو بھی تحریر ملی اسے چھپوا دیا۔ صرف اکتالیس سال عمر پانے والے اس ادیب نے ادب کی دنیا میں انمٹ نشان چھوڑے ہیں۔ 
کافکا کی ایک تحریر آپکے لئے اسکین کی ہے۔ اس تحریر کے انتخاب کی پہلی وجہ اسکا مناسب سائز میں ہونا ہے یعنی محض تین صفحات۔ باقی وجوہات آپ کھنگالئیے۔



Saturday, February 5, 2011

تخیّل کی تجّلی

ایک بلاگ پہ پڑھا کہ انقلاب کو فیس بک اور ٹیوٹر کی ضرورت نہیں ہوتی۔
بنیادی تبدیلی  کے لئے لوگوں کا تبدیلی کی خواہش رکھنا ضروری ہے۔ پھر یہ احساس رکھنا بھی ضروری ہے کہ نظام میں کہاں خرابی ہے اور اسے تبدیل کرنا ہے۔ کس طریقے سے تبدیل کرنا ہے وہ کسی نصاب کا محتاج نہیں، یہ ایک ارتقائ عمل ہوتا ہے۔
 کسی بھی نظام کے لوگوں یا آسان الفاظ میں عوام کو اس چیز کی آگہی ضروری ہے کہ وہ اگر تبدیلی کی خواہش رکھتے ہیں تو انکے اس احساس میں کتنے لوگ انکے ساتھ شامل ہیں۔ یہ انہیں مہمیز کرتا ہے اور اجتماعی احساس کو بڑھاتا ہے یہاں میں دانستہ اجتماعی شعور کا لفظ استعمال نہیں کرنا چاہتی۔  یہ علم آج کے زمانے میں ہم آج کے ذرائع تبادلہ ء خیال سے ہی حاصل کر سکتے ہیں۔
  یوں ایک عمل،  ان ذرائع کو استعمال کئے بغیر جتنا وقت لے سکتا ہےغیر مرئ موجوں پہ چل کے وقت سے جیت سکتا ہے اور حیران کن طور پہ بہت کم وقت میں بپا ہو سکتا ہے۔ اس لئے آج کے زمانے میں ہم سنتے ہیں کہ فلاں ملک میں نیٹ یا ٹوئٹر پہ پابندی لگا دی گئ۔ خود ہمارے ملک میں یہ ہو چکا ہے۔
شاعر انقلاب، جوش ملیح آبادی، کے زمانے میں یہ سب کچھ نہ تھا۔ حکومت  لکھنے والوں کے قلم سے ڈرا کرتی تھی۔ اسکی زد پہ ترقی پسند تحریک سے تعلق رکھنے والے شاعر جوش بھی تھے۔ ایک ایسے ہی موقع پہ جب پولیس انکے گھر کی تلاشی لے چکی تھی۔ انکے قلم سے اس نظم نے وجود لیا۔ نظم کا نام ہے تلاشی۔

جس سے امیدوں میں بجلی، آگ ارمانوں میں ہے
اے حکومت، کیا وہ شے ان میز کے خانوں میں ہے
بند پانی میں سفینے کھے رہی ہے کس لئے
تو مرے گھر کی تلاشی لے رہی ہے کس لئے
گھر میں درویشوں کے کیا رکھا ہے بد نہاد
آ مرے دل کی تلاشی لے کہ بر آئے مراد
جس کے اندر دہشتیں پر ہول طوفانوں کی ہیں
لرزہ افگن آندھیاں تیرہ بیابانوں کی ہیں
جس کے اندر ناگ ہیں اے دشمن ہندوستان
شیر جس میں ہونکتے ہیں، کوندتی ہیں بجلیاں
چھوٹتی ہیں جس سے نبضیں افسر و ارژنگ کی
جس میں ہے گونجی ہوئ آواز طبل جنگ کی
جس کے اندر آگ ہے، دنیا پہ چھا جائے وہ آگ
نار دوزخ کو پسینہ آجائے وہ آگ
موت جس میں دیکھتی ہے منہ اس آئینے کو دیکھ
 مرے گھر کو دیکھتی کیا ہے میرے سینے کو دیکھ

ہائے شاعر کے تخیل کی  تجلّیاں اور بجلیاں۔


  اسکے ساتھ ہی چند دنوں کے لئے اجازت۔ کیونکہ اب کچھ دنوں تک اس بستی کے اک کوچے میں رہیں گے جو کراچی سے دور ایک افتادہ مقام پہ بغیر انٹر نیٹ کے بسا ہوا ہے۔ اپنے ساتھ اردو لغت، دیوان غالب، اور چند نا مکمل پڑھی ہوئ کتابیں لے جا رہی ہوں۔ ارادے تو بڑے باندھے ہیں دیکھیں کتنے تکمیل کو پہنچتے ہیں۔ خدا حافظ۔



Friday, February 4, 2011

ایک شادی

دیکھئیے عشاق پاتے ہیں بتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے
یہ ہے وہ افواہ جو ہر سال جنوری کے آغاز پہ ہم سنتے ہیں۔ اور عشاق پہ نظر گاڑ کر ایسے بیٹھ جاتے ہیں جیسے عشاق بتوں پہ۔ اس لئے نہیں کہ دیکھیئے عشاق پاتے ہیں بتوں سے کیا فیض بلکہ اس لئے کہ برہمن کا کہا بالکل غلط ثابت ہو جائے۔ اور ہم پھر جپھیاں ڈال کر کہیں، چیٹر، یو آر آ چیٹر۔
لیکن افسوس یہ سب شیطانی ارمان دل کے دل میں ہی رہ گئے اور عشاق نے سجا دکھا کر کھبا دے مارا۔ یہ تو آپ جان چکے ہونگے کہ ہمارے محبوب صدر نے ایک دفعہ پھر عشق کے گھوڑے پہ سواری کی ، اسے قابو کیا اور سرخ رو ہوئے  اور یہ سب اس طرح کیا کہ دائیں ہاتھ سے انگوٹھی پہنانے کی خبر بائیں ہاتھ کو نہ ہوئ۔ لوگوں کو کچھ اندازہ اس وقت ہوا جب ہماری خاتون اول کی سیکیوریٹی کے لئے صدر صاحب نے صدر اوبامہ سے درخواست کی۔
اک برہمن نے اسکی پیشنگوئ کئ ماہ پہلے کر دی تھی۔   ہمارے شیطانی چرخے کو لگتا ہے کہ یہ برہمن اس قسم کی پیشنگوئیاں، واقعہ پیش آنے کے بعد اور عوام الناس کے کانوں میں پڑنے سے پہلے کرتا ہے تاکہ تیل اور تیل کی دھار دیکھنے میں آسانی رہے۔ اگر تیل کی دھار  نظر میں رکھیں تو اپنا تیل کم نکلتا ہے۔
ہمیں کیا کسی بھی مسلمان  پاکستانی کو انکی دوسری شادی پہ کوئ اعتراض نہیں۔ایک پاکستانی مسلمان کا کہنا ہے کہ انہوں نے شرعی کام تو کیا۔ ایک اور کا کہنا ہے کہ اگر وہ بے نظیر کی زندگی میں ہی یہ ہمت کر ڈالتے تو بھی یہ شرعی ہی ہوتا۔ اس سے میرا مقصد، یہ کہنا نہیں کہ یہ شادی نہیں ہو سکتی۔ یہ شادی ہو چکی ہے اورپہلے سے مصروف تجزیہ نگاروں  کو جو تحریر اسکوئر، مصر اور لاہور سے ریمنڈ ڈیوس کے ریمانڈ کی خبروں میں سے خبریں نکال رہے تھے، پتہ چلا کہ انکی آنکھوں کے سامنے سے ہاتھی نکل گیا اور خبر نہ ہوئ۔


خیر، اہل پاکستان کے لئے یہ ایک خوشخبری ہے جو مدت بعد ملی۔ بالآخر زرداری صاحب نے امریکہ کا داماد بن کر دکھا دیا۔ خاتون اول،  سیاسیات میں برطانیہ سے پی ایچ ڈی کر چکی ہیں۔ امریکہ میں بطور فزیشن کام کرتی ہیں۔  امریکن شہریت کی حامل یہ خاتون، بحیرہ ء روم کے ساحلوں پہ واقع کسی ملک سے تعلق رکھتی ہیں لوگوں کا کہنا ہے کہ بحیرہ ء روم کا یہ علاقہ کراچی کے جیل روڈ پہ واقع ہے۔ یوروپ اور امریکہ میں جائدادوں کی مالک ہیں۔ خوش شکل ہیں اور لگتا ہے کہ خوش امید بھی۔ لوگ سوچ رہے ہیں کہ یہ شادی سیاست کی وجہ سے ہوئ ہے یا محبت یا دولت کی وجہ سے۔
اب اندازے لگانے والے اندازے لگاتے رہیں۔ کچھ لوگوں کو اس بات کا افسوس ہے کہ شادی دبئ میں ہونے کی وجہ سے اس موقع پہ ہونے والے صدقے کے بکرے اور دیگر جانور و طیور بھی اسی ملک میں گئے جو پہلے سے اتنا امیر ہے۔ اب کم از کم   زرداری صاحب کو شادی کا باقاعدہ اعلان کر کے دعوت ولیمہ دینی چاہئیے۔ کہ اہل وطن بھی پلاءو کی خوشبو سونگھ سکیں۔ بم کے بجائے بھنگڑے کی بات کر سکیں اور نوحوں کے بجائے جئے بنڑے گا سکیں۔ 
آخر آصف علی زرداری کی دوسری شادی میں ہمیں اتنی دلچسپی کیوں ہو گئ۔ بات یہ ہے کہ نیٹ پہ سرچ کرتے ہوئے جب ہم ایک لنک پہ پہنچے تو یہ ہمیں تنویر زمانی کے فیس بک پیج پہ لے گیا اور وہاں ہمیں یہ پتہ چلا کہ زمانی بیگم پیپلز پارٹی کے لئے آب حیات بن کر آئ ہیں۔ کارکنوں کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر زمانی کی شکل میں ایک بار پھر پارٹی کو قدرت نے بے نظیر سے نوازا ہے اور وہ دن دور نہیں جب تنویر زمانی ملک کی وزیر اعظم ہونگیں۔
 
پھر ان لوگوں کا کیا ہوگا جنہوں نے بلاول ہمارا وزیر اعظم کے نعرے لگانے کی پریکٹس بھی کر لی تھی۔ نہیں ، نہیں یہ نہیں ہو سکتا۔ آپ بتائیے فرزند زمین ہمارے شہزادے  بلاول زرداری بھٹو کے مقابلے میں دختر رُوم یہ مقابلہ جیت سکتی ہیں؟

-
-
-

شاعر کہتا ہے کہ 
بتائیں ہم کہ مرنے کے بعد کیا ہوگا
پلاءو کھائیں گے احباب، فاتحہ ہوگا
اس کے پہلے مصرعے میں تصحیح کی گنجائش ہے۔ جو چاہے کرے۔ لیکن نجانے کیوں مجھے اس وقت یہ شعر یاد آ رہا ہے کہ
غزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی
دیوانہ مر گیا آخر کو ویرانے پہ کیا گذری

Tuesday, February 1, 2011

فرنچ بیچ پہ پاکستانی

سمندر ہمیشہ یکساں حالت میں نہیں رہتا۔ کبھی اسکا پانی ساحل پہ دور تک پھیل جاتا ہے اور کبھی اس طرح سمٹتا ہے کہ اسکے اندر موجود چٹانیں اور ان پہ موجود سمندری مخلوقات ظاہرہو جاتی ہیں۔ یہ عمل دن میں دو بار ہوتا ہے اور اسے سمندر کا مد و جذر  کہتے ہیں۔
جب سمندر جذر کی حالت میں ہو یعنی پانی سمٹ کر پیچھے چلا جائے تو تحقیق دانوں کو بہت کچھ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔  چٹانوں کے کونے کھدروں میں ٹہرا پانی ان میں پھنسی چھوٹی چھوٹی مچھلیاں اور سمندری گھونگھے اور سیپ، سمندری پودے۔
ایک ایسے ہی وقت ہمارا گروپ سمندر کی ان چٹانوں سے سمندری پودوں کو ادھیڑنے میں مصروف تھا تاکہ ان پہ تحقیق کر کے انسانوں کے لئے کار آمد مرکبات نکالے جا سکیں۔
کچھ لوگ کام میں اور کچھ آرام کی حالت میں تھے۔ جب ہمارا آرام کا وقت آیا تو ہم ساحل کے ساتھ ریت کے محل بنانے اور ایک دوسرے کے ساتھ چھیڑ خانیوں میں مصروف ہو گئے۔ کسی نے  ساحل کے ایک طرف انگلی اٹھا کر کہا وہ اس طرف فرنچ بیچ ہے۔ وہاں عام لوگوں کا جانا منع ہے۔ وہاں بڑی اچھی ہٹس ہیں اور بڑا اچھا ویو۔ میں نے اس طرف دیکھا اور پھر اپنے کام میں مصروف ہو گئ۔
عام آدمی کو اپنے کام سے کام رکھنا چاہئیے اسی میں اسکی بقاء ہے۔
جب دنیا میں بہت اچھے سمندری ویوز دیکھ چکے جن میں گوادر کا سحر انگیز سمندری ویو بھی شامل ہے تو ابھی گذشتہ دنوں پیغام ملا کہ آپ چاہیں تو فرنچ بیچ پہ ایک پورا دن بلکہ رات بھی گذار سکتی ہیں۔
رات کی تجویز کو تو بچوں کی زیادہ تعداد کی وجہ سے نظر انداز کر دیا۔ البتہ دن گذارنے کے لئے وہاں روانہ ہوئے۔ فرنچ بیچ ساحل کے اس حصے کا نام ہے جو اس قطار میں شامل ہے جہاں ہاکس بے اور پیرا ڈائز پوائینٹ  موجود ہیں۔
یہاں ایک گاءوں ہے جس کی زمین پہ یہ ہٹس شہر کی اشرافیہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ خوبصورت ہٹس کے ساتھ بہت سارے پام، ناریل، اور کھجور کے درخت موجود ہیں۔ ساحل کی خوبی یہ ہے کہ سمندر کی ریت اور چٹانیں  ساتھ ساتھ موجود ہیں۔ کراچی کے سی ویو پہ صرف ریت ہے۔ پھر یہ کہ وہ کافی عوامی جگہ ہے۔ جبکہ یہاں بغیر کسی مداخلت کے خاندان کے ساتھ دن گذارنے کی سہولت موجود تھی۔
یہاں کے ساحل کی ایک خوبی اور بھی ہے، کراچی کے باقی ساحلوں سے غروب آفتاب کا نظارہ کیا جا سکتا ہے طلوع آفتاب کا نہیں۔ جبکہ اس ساحل سے طلوع آفتاب کا منظر دکھائ دیتا ہے غروب کا نہیں۔
:)
شاید اسی لئے اشرافیہ کے لئے مخصوص کیا گیا ہے۔ تمام دن، ادھر ادھر گھومتے کچھ تصاویر اکٹھی کیں۔ آپ کے لئے بھی حاضر ہیں۔

بچوں کا جمع کیا ہوا ہرمٹ کریبز کا خزانہ



ساحل کی گیلی ریت فنکاری کے نمونے دکھانے کے لئے اچھی جگہ اور بچوں کے لئے ایک قدرتی سلیٹ
خوبصورت ناریل کے درخت

ائے محتسب نہ پھینک ارے محتسب نہ پھینک، ظالم، شراب ہے ارے ظالم شراب ہے 

ہاتھ دھو لیں کھانے کا وقت ہوا چاہتا ہے

 توانائ بچائیے، کباب اور شیر مال ایک ساتھ گرم کریں






ایک سالگرہ بھی منائ گئ
 کتوں نے بھی موقع سے فائدہ اٹھایا اور تصویری سیشن میں ادائیں دکھائیں۔ یوں معلوم ہوا کہ کتے میں بھی عصری آگہی موجود ہے۔