Tuesday, March 13, 2012

کہنے دیں

نبیلہ نے صرف  سسٹم سے بغاوت نہیں کی اور نہ ہی صرف یہ کیا کہ محسن پہ تیزاب پھینک کراس کے چھکے اڑا دئیے۔ بلکہ اس  البیلی نار نے مجھے بھی میرے متوقع موضوع سے ہٹا دیا۔
کیا نبیلہ نے کوئ برا کام کیا؟
جناب، اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔ خربوزے نے خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑا۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ پہلے خربوزے نے کبھی یہ خیال ہی نہیں کیا تھا کہ دوسرا خربوزہ بھی اسے دیکھ کر رنگ پکڑے گا اور وہ بھی وہی والا جو اسکا ہے۔ خربوزے نے یہ خیال کیوں نہیں کیا۔ یہ ہم اور آپ کیا جانیں۔ ہم تو یہ جانتے ہیں کہ جو بکرے نے ماری ہے بکری کو سینگ تو بکری بھی مارے گی بکرے کو سینگ۔ 
یہ عجیب اتفاق ہے کہ اس قسم کے واقعات میں مرد مجرم شاید ہی گرفت میں آتے ہوں۔ لیکن نبیلہ دھر لی گئ۔ کوئ بات نہیں نبیلہ پہلی دفعہ ناتجربے کاری میں ایسا ہو ہی جاتا ہے۔ تم سے پہلے کسی عورت نے یہ کیا بھی تو نہیں تھا۔ اس لئے تمہاری معلومات بھی نہیں ہونگیں۔ آہستہ آہستہ تم بھی سیکھ جاءوگی کہ صحیح وار کہاں سے کرنا چاہئیے ایسے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔
 اور پھر جس نظام میں تم ہو وہاں تمہاری ہمت پہ داد دینے والے کم اور برا بھلا کہنے والے زیادہ ہونگے۔  مرد مجرموں کو خفت کے اس مرحلے سے نہیں گذرنا پڑتا۔ انکے لئے تو یہ ایک اعزاز ہوتا ہے کہ کسی ایسی عورت کا دماغ درست کر دیا جو ان  پہ توجہ نہیں دے رہی تھی۔
یہ تو میں تسلیم کرتی ہوں کہ اس ملک میں پنجاب کی مٹیار سے زیادہ با ہمت اور جراءت مند کوئ اور عورت نہیں۔ اس لئے ہیر اور سوہنی دونوں کردار یہیں تخلیق ہوئے۔
اندازہ ہے کہ نبیلہ اس وقت کسی تھانے میں چھترول کھا رہی ہوگی، خاندان والے اسے کوسنے دے رہے ہونگے۔  خاندان کی عزت خاک میں مل گئ ہوگی۔
 یقین ہے کہ اس میں دو چیزوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ ایک ٹیکنالوجی اور دوسرا معاشرے کی حد سے بڑھی ہوئ منافقت اور حقائق سے مسلسل فرار۔ یہ نہیں معلوم کہ  معاشرے کے تارو بود کی  حفاظت کرنے والے کس کو  عاق کریں گے۔
لیکن ہمیں یہ تو کہنے دیں کہ  رانجھن، رانجھن کردی، میں آپے رانجھن ہو گئ۔ جاننا صرف یہ ہے کہ جب ہیر ، رانجھا ہو گئ تو رانجھے پہ کیا گذری؟

29 comments:

  1. اندھیر نگری ہے جی، جب انصاف نہیں ملے گا تو کمزور یہی کریں گے، غیر انسانی سلوک ہمیشہ غیر انسانی ہی رہتا ہے، چاہے جس سے بھی اور جس بھی مقصد کیلیے سرزد ہوا ہو!

    ReplyDelete
  2. بڑا اچھا کیا جی نبیلہ بی بی نے۔ لڑکوں کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیے

    ReplyDelete
  3. برابری کا دور ہے جی۔۔۔۔۔ کچھ عجیب نہیں کہ مرد بھی عورتوں کے ہاتھوں اغوا ہونا شروع ہوجائیں۔۔۔۔
    ہاہاہاہاہا

    ReplyDelete
    Replies
    1. ہاں اسکا امکان خارج از قیاس نہیں لیکن کیا یہ ہوگا کہ عورت ایک ہندو مرد کو اغواء کر کے زبردستی اسے مسلمان کر کے اس سے شادی کر لے اور تمام مسلمان مرد اسکے تحفظ پہ کمربستہ ہوجائیں۔
      کیا ایسا ممکن ہے؟

      Delete
    2. فی الوقت تو ہندو لڑکیاں اپنی رضا و رغبت سے مسلمان ہوکر مسلمان مردوں سے شادی کر رہی ہیں۔۔۔۔
      تب تک آپ بھہ لبرلز کے یوٹوپیا سے باہر آجائیں

      Delete
    3. جی ہاں اسلام کے اصل فوائد صرف خوش شکل، شادی کے لائق ہندءووں لڑکیوں پہ کھلے ہیں۔ اور بد شکل زائد عمر کی عورتیں اور ہندو مرد اس سے محروم رہے ہیں۔
      آپ کس یوٹوپیا میں رہے ہیں اسے کیا نام دیا جائے۔

      Delete
    4. آپ تو صرف یہ بتائیں کہ کیا مسلمان عورت ایسا کرے گی تو پاکستانی مسلمان مرد اسے تحفظ دے گا۔
      :)

      Delete
  4. یہ آپ سے کس نے کہہ دیا کہ نبیلہ اس کھیل میں پہلی عورت ہے؟
    عورت کی سفاقی مرد سے بہت آگے ہے!!! اگرچہ تعداد کم ہے۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. یہ ایک عجب اتفاق ہے کہ دنیا کا پہلا قتل قابیل نامی مرد نے کیا۔ اس طرح سے یہ کہا جا سکتا ہے ایک انسان کو قتل کرنے کا خیال قابیل نے ہی دوسرے انسانوں کو دیا۔
      پیغمبروں کو آرے کے آگے رکھ کر کس نے چیرا، ، کس نے لوگوں کو غلام بنانے کے لئے جنگیں کیں کس نے لوگوں کو مجبور کیا کہ وہ کسی کی خدائ کو قائم رکھنے کے لئے اپنے بچوں کو قتل کریں۔
      کس نے اپنی ہوس پوری کرنے کے لئے سو بچوں کو مار ڈالا۔
      آہ لفظ سفاکیت سے وابستہ جتنی کہانیاں آئیں گی انکی ابتداء ہی نہیں ایک مجموعی اکثریت مردوں کے نام نکلے گی۔
      بدلہ لینے کے کھیل میں نبیلہ پہلی عورت نہیں۔ لیکن کسی مرد پہ تیزاب پھینکنے والی وہ پہلی عورت ہے۔ یہ انداز بھی تو اس نے مردوں سے سیکھا۔

      Delete
    2. اجی یوں دیکحے تو وہ عورت ہی تھی جس نے کسی مرد سئ سیکھے بغیر کی مرد کو خارج جنت کروایا تھا !!۔

      Delete
  5. ویسے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا کلیجہ چبانے والی بھی عورت ہی تھی، سپین کے مسلمانوں کو برباد کرنے والی ملکہ ازابیلا بھی عورت ہی تھی، عورتوں کو قتل کرکے انکے خون سے نہانے کا عمل بھی کسی مرد نے آج تک نی کیا۔ ۔ ۔ مطلب سفاکی صرف مرد ہی کی وراثت نہیں ہیں، عورتوں کے سفاکانہ واقعات بھی بے شمار ہیں ۔ باقی جہاں تک ان سفاکانہ اقدام کے بعد قانونی گرفت کی بات ہے وہ مشرق و مغرب میں ایک جیسی ہے ، وہاں بھی مرد اپنی پاور سے اکثر قانونی اداروں کو سکپ کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اس میں کس خاص مکتبہ فکر یا طبقہ کے افراد کا قصور نہیں بلکہ انصاف اور قانون کے اداروں کی کمزوری ہے۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. تاریخ پڑھیں بنیاد پرست صاحب۔ مرد اپنی جنگوں میں کھوپڑیوں کے مینار بناتے رہے۔ دشمن کی کھوپڑی کو کاسہ ء جام بنانا ایک روایات رہی ہے۔ حتی کہ قدیم زمانے میں ایک قبیلے کے افراد اپنے سوا کسی دوسرے قبیلے کے شخص کو انسان تصور نہیں کرتے، چنانچہ جب ایک قبیلہ دوسرے پہ حمل آور ہوتا تو ہارنے والے کو خون بھی پیا جاتا تھا۔ اسکے خون سے ٹوسٹ کرتے تھے اپنی فتح کی محافل کا۔ جیسے آج شراب سے ٹوسٹ کرتے ہیں۔
      جنگ میں دشمن کے اعضاء کھانا عہد قدیم سے جنگی روایات میں شامل رہا ہے۔
      میرے پاس تو فیجی ملک کا لکڑی کے وہ روائیتی برتن موجود ہیں جس میں انسان کا بھیجا توڑ کر کھایا جاتا تھا۔
      انسانی تہذیب کی تاریخ اسلام سے نہیں شروع ہوتی یہ اس سے پہلےہزاروں سال سے موجود ہے۔

      اگر عتبہ کی بیوی نے ایسا کیا تو یہ اس زمانے کی روایات کے عین مطابق کیا۔
      آپ ملکہ ء ازابیلا کی بات کر رہے ہیں۔ چنگیز خان، جارج بش اور ملا عمر کے بارے میں کیا خیال ہے؟ دنیا میں جتنیہ جنگیں لڑی گئیں اور لڑی جارہی ہیں یہ سب کی سب مردانہ ہمت اور حوصلے پہ لڑی جاتی ہیں۔ جنگ میں ہر چیز روا ہوتی ہے۔ سامنے کی مثال ڈرون حملے دیکھ لیں کیا یہ کوئ خاتون کر رہی ہیں۔ صرف ایک خاتون نے اس جنگ میں سرگرمی سے حصہ لینے کی کوشش کی اور چھیاسی سال کی سزا پائ۔
      افریقہ سے غلام بنائے جانے والے انسانوں پہ کس نے ستم ڈھآئے۔ کون آسٹریلیئن اور امریکن ریڈ انڈیئنز کے لئے قہر بن گیا۔
      تاریخی حقائق آپکی بات کے حق میں نہیں جاتے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ عورتیں بڑی فرشتہ صفت ہوتی ہیں لیکن یہ ضرور کہتے ہیں اب تک تاریخ کے صفحات پہ جو کچھ لکھا گیا ہے اور جو کہ تمام کا تمام مردوں نے ہی لکھا ہے۔ اس میں عورتوں کی سفاکیت کی داستانیں شاذو نادر ہی ملیں گی۔ جو سفاکیت وہ کرتی ہیں عموماً وہ کوئ مرد پہلے انجام دے چکا ہوتا ہےل۔
      آپ مسلمانوں کی تاریخ کے علاوہ، ایک عمومی تاریخ اور سوشیالوجی بھی پڑھیں۔

      Delete
  6. میں تو کہتا ہوں جی کہ سارے مردوں کو لائن میں کھڑے کر کے گولیاں مار دینا چاہیے۔۔۔ عورت چونکہ قدرت کا حسین شاہکار ہے اس لیے کوئی اچنبھا نہیں کہ وہی دنیا کے سارے نظام بخوبی چلا لے۔۔۔ اور ویسے بھی کب تک مرد عورتوں کے ہاتھوں پستے رہیں گے۔۔۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. جو تنظیم دو صنفوں کے حوالے کی گئ ہے وہ ایک صنف کیسے چلا سکتی ہے۔ جب تک یہ دونوں ایک دوسرے کے شریک نہیں بنیں گے کوئ معاشرہ مستحکم نہیں ہو سکتا۔

      Delete
  7. قابیل نے عورت کیلئے ہی قتل کیا تھا۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. عورت کے حصول کے لئے، صحیح بیان یوں ہونا چاہئیے۔ اور بالکل دسرت بات یہ ہوگی کہ قابیل نے اس وقت کی مذہبی روایات سے بغاوت کرنا چاہیاور اسکے لئے اس نے بنیادی وجہ ایک عورت کو بنایا۔ اگر وہ عورت کے لئے نہ قتل کرتا تو زمین کے لئے کرتا، جانور کے لئے کرتا۔ بغاوت اور تجربہ کرنے کا عمل دو اہم موٹیویٹرز معلوم ہوتے ہیں۔

      Delete
  8. مرد کے ظلم سب کو دکھ گئے، کیونکہ مرد تو مرد ہے۔ پیدا ہی ذلیل ہونے کے لیے ہوا ہے۔ وہ جو ظلم عورت پر کرتا ہے، وہ سب کو نظر آ جاتے ہیں۔ کہ صنف ںازک کی تذلیل صرف دوسری عورت کو ہی نہیں کسی مرد کو بھی پسند نہیں۔ لیکن مرد کا کیا، اس تشدد کا کیا جو روزانہ اس پر خفیہ طور پر کیا جاتا ہے اور کسی کو دکھتا ہی نہیں۔ میں اس ظلم کی بات کر رہا ہوں جو شاید ظلم کے زمرے میں آتا ہی نہیں۔ یعنی گھر کے اندر کا ظلم، چاردیواری کے اندر کا ظلم۔ وہ ظلم جو ماں، بیوی، بہنیں اور بیٹیاں ہر لمحہ مرد پر کرتی ہیں۔ وہ ظلم جو جسمانی لحاظ سے نا سہی، لیکن نفسیاتی طور پر مرد کو مار دیتا ہے۔ وہ ظلم جو خواتین کا خود پیدا کردہ ہے لیکن جس کا الزام اور سزا بھی مرد کے حصے میں ہی آتی ہے۔ یہ وہی ظلم ہے، جو مرد کو کہیں کا بھی رہنے نہیں دیتا۔ سارا دن باہر سے کھجل خوار ہو کر آئے اور گھر آ کر گھر کی خواتین کےآپسی معاملات کی وجہ سے ذلیل ہونے کا ظلم۔ کیا یہ ظلم کسی مرد کو سکون کی سانس لینے دیتا ہے؟ کیا یہ تلوار جو مستقل طور پر مرد کے سر پر لٹکی ہوئی ہے، یہ ظلم نہیں۔ عورت تو ایک بار ہی مرد کے ہاتھوں پٹ کر اتنے خیر خواہ بنا لیتی ہے کہ مرد کی دوبارہ ہمت ہی نہیں ہوتی ظلم کا نام لینے کی بھی۔ لیکن اپنی انا کی تسکین کے لیے عورت جو مرد پر مستقل طور پر ظلم و تشدد کر رہی ہے، اس کو کس ذمرے میں ڈالیں جناب؟

    ReplyDelete
    Replies
    1. اس سلسلے میں مجھے آپ سے ہمدردی ہے۔ لیکن جب خواتین کو بچوں کی پیدائِش کے علاوہ کوئ کام نہ ہو نہ زندگی میں کوئ مقصد تو وقت گذارنے کے لئے اور چوکس رہنے کے لئے وہ کیا کریں۔
      جس طرح بچوں کو مصروف نہ رکھا جائے تو وہ آفت اور شیطانی میں مصروف رہتے ہیں۔ یہی حال ان خواتین کا ہے۔ اگر انہیں بھی زندگی کے اصل مسائل میں الجھایا جائے تو مرد کی مشکل آسان ہو سکتی ہے۔ مقصد دیجئیے کوئ ایسا مقصد جو انکی توانائ اور فرسٹریشن کے اخراج کا ذریعہ بنے۔

      Delete
    2. محترمہ، ہمدری، وہ کس بلا کا نام ہے۔ اور آپ سے مانگی کس نے۔
      جیسے آپ ہر ظلم کی وجہ مرد کو بتاتی ہیں، ویسے ہیں ہم مرد، ہر فساد کی جڑ آنٹی معاف کیجیے گا، عورت کو سمجھتے ہیں۔ بات اتنی سی ہے۔ سمجھ لیں تو اچھا ہے، نا سمجھیں تو بھی کیا فرق پڑ جائے گا۔

      Delete
  9. یہ مرد اور عورت کے صنفی فرق کی جنگ کیوں چھڑ گئی بھئی؟ میرے خیال میں تو نبیلہ کا عمل صرف اور صرف بدلہ لینے کا عمل دیکھائی دیتا ہے، ویسے بھی ہم کو نہیں معلوم کہ محسن نے اسکے ساتھ ایسا کیا عمل کیا تھا جسکا ردعمل اتنا بھیانک نکلا، کیونکہ مرد جب تیزاب پھینکتا ہے، تو یا تو اپنی بےعزتی کا بدلہ لینے یا پھر عورت کو اسکی کی بےوفائی کی سزا دینے کو، میرے تو سمجھ میں یہی آرہا ہے کہ نبیلہ نے بھی شائد اسی مقصد کیلے یہ عمل کیا ہوگا، کیونکہ اسکو یقین ہوگا کہ اسے انصاف تو ملے گا نہیں الٹا مزید بےعزتی اور جان کو خطرہ لاحق ہوجائے گا، لہذا اس نے وہ کیا جسے شاعر کہتا ہے کہ : ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے۔
    مگر پھر بھی یہ ایک غیر انسانی عمل ہے، اور اس کی میں بھرپور مذمت کرتا ہوں، چاہے کوئی بھی کرے، مرد یا عورت، انصاف کا بول بالا ہونا چاہیے نہ کہ ظلم کا بدلہ ظلم سے!

    ReplyDelete
    Replies
    1. ایک دفعہ آپ نے پھر درست بات کہی۔ لیکن ایسے واقعات ایک معاشرے کے کُل روئِے کے تجزئیے کے لئے بڑے کارآمد ہوتے ہیں۔

      Delete
  10. یہ پاکستانی پڑھ لکھ جائیں تب بھی ملک کی ترقی میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتے ، خاص طور پر یہ روشن خیالی سوچ کی جہالت تو کچھ بھی نہیں کر سکتی ۔ روشن خیالی سوچ ملک کو بدلنے سے زیادہ ہندوں کی طرح باقیوں کو اچھوت سمجھا کرتی ہے ۔

    عینقہ آنٹی آپ کو پہلے بھی سمجھا چکا کہ کم سے کم آپ تو پڑھی لکھی ہیں ، آپ ہی کچھ مسئلہ کی بنیاد کو سمجھ لیا کریں ۔ اگر کوئی سندھ کارڈ کھیل رہا ہے اور کوئی بلوچی کارڈ کھیل رہا ہے کوئی بی بی کارڈ کھیل را ہے تو آپ خواتین کا کارڈ کھیلنا شروع کر دیں ، لگتا ہے پاکستان میں کارڈ کافی سستے ہو گئے ہیں ۔

    مرد شروع ہو گئے کہ عورتیں خون میں نہا لیں عورتیں شروع ہو گئیں کہ مردوں نے کھوپڑیوں کے منار بنا لیا ۔۔

    لیکن آپ میں سے کسی ایک نے بھی یہ نہیں سوچا کہ ایسا کیوں ہوا ، اور اسکا سدباب کیا ہے ۔۔

    کسی نے بھی لڑکی کے گھر والوں پر بحث نہیں کی کہ وہ اپنی بیٹی کا خیال رکھتے اسکی ضروروتوں کا خیال رکھتے اسکی ٹرانسپورٹیشن کا خیال رکھتے ۔۔

    کسی نے لڑکے کے گھر والوں کے بارے نی سوچا کہ اُنہوں نے اسکی کمپنی کی طرف توجہ نہ دی ۔۔

    کسی نے اس لڑکے کے بیغیرت دوستوں کے بارے نی سوچا جنکو وہ چسکے لے لے کر کہانیاں سناتا تھا

    کسی نے لڑکی کی سہیلیوں کے بارے نی سوچا جو سب جانتے ہوئے بھی کچھ مثبت نہیں کرتی تھیں ۔۔

    معاشرے میں اگر کہیں کوئی خرابی رونما ہوتی ہے تو صرف ایک شخص اسکا ذمہ دار نہیں ہوتا سب ہوتے ہیں ۔۔ لیکن آپ لوگ تو کارڈز کھیلیں یہاں بیٹھ کر ۔۔ جب ہار جیت کا فیصلہ ہو تو بتائیے گا کون سب سے زیادہ کما کر گیا ۔

    اللہ حافظ ۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. ٹام انکل، تو آپکا خیال ہے کہ خواتین کی ٹرانسپورٹیشن کا خیال رکھا جائے۔ اور عورتیں اپنے ہمراہ گارڈز لے کر نکلا کریں۔ آپکی یہ تجویز اسی صورت میں کچھ قابل استعمال ہے جبکہ خواےین کو تیزاب سے بچانا مقصود ہو۔ اس طرح سے حکومت پہ زور دیا جائے کہ ایک اسکواڈ خواتین کے تحفظ کا بھی بنا دیں۔ یا پھر دوسری صورت یہ ہے خواتین کی پیدائش انہی گھروں میں ہوا کرے جہاں پہلے سے زیادہ تعداد میں مرد موجود ہوں۔ تاکہ وہ انکا تحفظ کر سکیں۔ یا پھر وہ مالدار گھرانوں میں پیدا ہوں تاکہ انکی حفاظت کے لئے گارڈز رکھے جا سکیں۔
      کیا آپکے خیال میں یہ صرف لڑکے کے گھروالوں اور دوستوں کا قصور ہے۔ فرض کریں کہ یہ پوسٹ ایک ایسے واقعے کے متعلق ہوتی جس میں ایک خاتون پہ تیزاب پھینکا گیا ہوتا تو اوروں کی چھوڑیں آپ خود بھی اسکا تکلف نہیں فرماتے کہ اسکی مذمت کرتے۔
      آپ خود خواتین کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں یہ آپکے انداز تخاطب سے ظاہر ہے۔
      اور اس سارے قصے میں لڑکی کی سہیلیاں کہاں سے آگئیں؟
      اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ سب اسکے ذمے دار ہیں تو آپکی بولتی مخصوص اوقات کے علاوہ کیوں بند رہتی ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ ویسے تو آ]پ کو آلکسی ہوتی ہو لیکن ایسے آپ نے یہ پوری تقریر لکھ ڈالی۔ اس تحریر کا بنیادی مقصد ہی آپ جیسے لوگوں کی ذہنی رو کو سامنے لانا ہے۔

      Delete
    2. ہر بات کی تان روشن خیالی پہ توڑنے والے میرے محترم ٹام انکل، ذرا یہ بتائے گا کہ روایت پسند یا مذہب پسند سوچ نے ان واقعات کے سد باب کے لئے کہاں کہاں گھوڑے دوڑا دئیے ہیں۔ عجیب اتفاق ہے کہ یہ واقعات سب سے زیادہ اس صوبے میں ہو رہے ہیں جہاں مذہب کا نام سب سے زیادہ لیا جاتا ہے۔
      جس رفتار سے یہاں روشن خیالی کو برا بھلا کہا جاتا ہے یہ واقعات تو پیش ہی نہیں آنے چاہئیے تھے۔ لیکن پھر بھی لوگ آپکے خلاف سازش کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

      Delete
  11. از احمر

    وطن عزیز اس وقت جس قسم کے مسایل سے دوچار ہے وہ کسی بھی معاشرہ اور ریاست کا تقریبا آخری مرحلہ ہے، آکاس بیل کی طرح پروان چڑہتے ہوے مسایل تمام اداروں کو عملا ختم کر کے اب ہمارے گھر، فرد اور قدروں کی طرف رواں دواں ہیں- بدن پر تیل مل کر اور لنگوٹی باندھ کر رات گیے لوٹنے والے اب اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ انہیں کوی چلتی بس مل جاے تو سو ، دوسو کو ایک ہی بار لوٹ کر گھر کر راہ لی جاے، اب گھر لوٹنے کے لیے آنے والے، محض گھر ہی نہیں لوٹتے، گھر والوں سے کھانا بھی پکواتے ہیں اور عزت بھی لوٹتے ہیں-
    مسایل اور قانون یا انصاف کے اطلاق کی نسبت اب انگریز فوج کی عملداری اور بہادر شاہ ظفر کی حکومت کے جیسی ہو چکی ہے-
    بارہ سر اور ہزار پاوں رکھنے والا یہ مسایل کا اژدہا کچھ اس قسم کا بن چکا ہے کہ ہر گذرتا دن اس اژدہے کو زیادہ سے زیادہ خوفناک بنا رہا ہے-مجھے ڈر ہے کہ بطور آخری معرکہ جب مجبور ہو کر کوی بخت زمان لڑای پر آمادہ ہو بھی گا تب تک اس میں وہ طاقت پیدا ہوچکی ہو گی کہ ہم اس کا ایک سر کاٹیں گے تو دو سر اگ آییں گے۔
    ہر چند کے تیزاب پھینکنے کے واقعات کو ختم کر کرنے کی لیے حال ہی میں سخت قوانین بناے گیے ہیں، گو کہ بہت دیر میں اس طرف توجہ دی گی، بہرحال اس کا خیر مقدم کرنا چاہیے-
    پہلے تو مندرجہ ذیل ربط پر ایک نظر ڈال لیجیے کہ یہ بھی تیزاب پھینکنے سے متعلق ہے اور خیر سے مسلم اور پڑوسی ملک ہے، یہاں آپ قانون کی عملداری اور اس میں ریاست کا حصہ اور ساتھ ہی جج کے فیصلہ کی ایک نی جہت کا مطالعہ کریں گے، جو کم از کم علاوالدین خلجی کے بعد میری نظر سے نہیں گذری-
    http://www.bbc.co.uk/urdu/world/2011/07/110731_iran_pardoned_si.shtml
    سوال یہ ہے کہ کیا قوانین بنانے یا سخت سے سخت کرنے سے معاشرہ کے مسایل حل ہو سکتے ہیں؟
    یہ ان معاشروں میں تو ممکن ہیں جو کہ اپنے مسایل کو سمجھتے ہیں اور اس انہیں ختم کرنے کے لیے کمر بستہ ہوجاتے ہی جیسا کہ آپ مندرجہ ذیل ربط پر دیکھ سکتےہیں-
    http://urduonline.blogspot.com/2011/10/blog-post_29.html
    http://urduonline.blogspot.com/2012/03/blog-post_07.html

    لیکن، موجودہ پاکستان میں فی الحال کسی بھی نوعیت کے قوانین، مسلہ حل نہیں کر سکتے اور اس کی گواہی یہ ربط دے گا-
    http://www.youtube.com/watch?v=b22lnXWy9kM
    مجھے ایک اعلان سنای دے رہا ہے "خلقت خدا کی، ملک بادشاہ کا، حکم کمپنی کا"
    کیا آپ سب کو بھی یہ آواز آ رہی ہے؟

    ReplyDelete
  12. از احمر
    ایک تبصرہ کیا ہے کہیں دیے گیے ربط کی وجہ سے سپیم میں نہ چلا جاے ایک نظر دیکھ لیجیے گا

    اور شایع ہو جاے تو یہ تبصرہ حذف کر دیجیے گا
    شکریہ

    ReplyDelete
  13. تاریخِ انسانی میں اگر برائی ہی ڈھونڈ کے مردوں کے ذمے لگانی ہے تو حق بنتا ہے کہ صرف ایک رُخ دکھانے کی بجائے دوسرے رُخ پر بھی کچھ روشنی ڈالی جانی چاہیئے۔ آپ یہاں ان تمام مردوں کا بھی ذکر خیر فرما دیتیں جنہوں نے معاشرتی اخلاقیات سے لے کر سائنس اور دیگر شعبوں میں بے پناہ خدمات سر انجام دیں اور ہمارے معاشروں کو اپنی تعلیمات سے سُدھارنے کی بے انتہا کوششیں کیں، جن میں انبیاء سے لے کر سائنسدان اور دیگر شامل ہیں۔

    ReplyDelete
  14. اسلام علیکم
    ہمیں خبر نہ تھی کہ یہاں صنفی جنگ چل رہی ہے- وہ تو آج انکل ٹام کی پوسٹ ''معاشرے کے تیزابی مسائل اور انکا حل پڑہی تو پتا چلا-
    اب انکل ٹام نے جو بھِی یہاں بولا ہےہمیں تو اسکے ایک ایک لفظ سے اتفاق ہے الحمدللہ- اس نے تو جیسے میرے دل کی بات کہ دی -اس لڑکے کے تو پیٹ میں داڑھی ہے جیسے، ماشاءللہ اتنی کم عمری میں اتنی عقل کی باتیں کر رہا ہے

    عنیقہ بہن مسئلہ یہ ہے کہ عورت فطرتاً رحم دل واقع ہوتی ہے اور یہی اسکی خاصیت ہے- محبت اور رحم دلی عورت کی زات کا حصہ ہے، حتی کہ اللہ کی محبت بھی ماں کی محبت کی مثال سے واضح کی گئ ہے یعنی ۷۰ ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے وہ اپنے بندوں سے-تو جب ایک عورت خوں خوار بن جائے ظالم بن جائے ، تو یہ خوش ہونے کا نہیں بلکہ خوف زدہ ہونے کا مقام ہے- آپ نے انسان کو چاند رات میں بھیڑیا بننے والی فلم تو دیکھی ہو گی- تو بس یہی کیفیت اس خبر پر ہماری عورتوں کی ہونی چاہئے کہ اب ہمارے بچوں کی خیر نہیں- اب ہم رات کو اپنے بچے کے اٹھ کربار بار رونے پر غصے میں آ کر اسکو دے پٹخیں گی یا تیل کی کڑھائ میں ڈال دیں گی یا اسکا گلا گھوںٹ دیں گی، خدا نا خواستہ-
    تیزاب چاہے مرد ڈالے یا عورت ،ہے تو ظلم مگر مجھے عورت کو شاباشی نہیں دینی اس غلط کام پر بلکہ اپنی عورت ذات کو مرد کی نقالی کرنے سے روکنا ہے۔ میں عورت کو اپنی فطرت مسخ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی- یہ عورت کی کم عقلی ہے کہ وہ جب بھی مرد سے مقابلہ کرتی ہے تو مرد بن جاتی ہے حالانکہ اسکو عورت رپتے ہوئے یہ حقوق کی جنگ جیتنی چاہئے -
    اسلام میں دشمن اگر آپکی لاشوں کا مثلہ کرے تو آپ پھر بھِ انکی لاشوں کا مثلہ نہیں کر سکتے، وہ ڈائرکٹ عورتوں اور بچوں کو نشانہ بنائے تو آپ ایسا نہیں کر سکتے- ہم انتقام میں اندھے نہیں ہو سکتے، پھر ہم مظلوم کی صف سے نکل کر ظالم بن جاتے ہیں- اوراللہ کے دربار میں ظالم کی بجائے مظلوم رہنے میں ہی ٰعافیت ہے-

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ