Tuesday, March 27, 2012

دلدار کا وفادار

بس میں نے دال بگھار کر اپنا کچن کا کام ختم ہی کیا تھا کہ فون بجا۔ اٹھایا تو ایک ادیبہ دوست تھیں۔ سلام دعا کے فوراً بعد ہی کہنے لگیں ، 'آفس سے فون کر رہی ہوں یہ پوچھنا تھا کہ شرمین عبید کو ایوارڈ ملا اس بارے میں آپکا کیا خیال ہے؟'۔  مستقل قارئین کو تو معلوم ہی ہے کہ میرا اس بارے میں کیا خیال ہے۔
میں نے ان سے دریافت کیا کراچی میں لٹریچر فیسٹول ہوا کیا آپ اس میں گئ تھیں۔ کہنے لگیں ، مجھے دعوت نامہ تو نہیں ملا تھا لیکن کسی اور ذریعے سے خبر ملی ، میں نے کوشش کی لیکن وہ اس قدر کونے میں ہے کہ جا نہیں سکی۔ البتہ کانفرنس میں آئے چند غیر ملکی ادیبوں سے میری کہیں اور ملاقات ہوئ۔  ان میں سے ایک نے مجھ سے کہا کہ آخر اردو لکھنے والے اس روئیے کے خلاف احتجاج کیوں نہیں کرتے۔ آخر یہ کیسے ہوتا ہے کہ اتنا بڑا مجمع اکٹھا ہو اور اس میں اردو کو اور اسکے لکھنے والوں کو نظر انداز کیا جائے۔
لیکن میں آپ سے شرمین عبید کے متعلق پوچھ رہی ہوں۔ وہ اپنے موضوع کی طرف واپس پلٹیں۔ 
میں ایک ایسی فلم کے بارے میں کیا رائے دوں۔ جسکی تخلیقی زبان وہ ہے جو ملک کے دو فیصد سے بھی کم لوگ بولتے اور سمجھتے ہیں۔ جو بولتے اور سمجھتے ہیں انکی اکثریت مراعات یافتہ طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ وہ  یہ سب دیکھ کر' کیا جاہلیت ہے' کہہ کر اپنی دنیا میں گم  ہو جاتے ہیں۔  یہ وہ فلم ہے جو کسی نے اب تک پاکستان میں نہیں دیکھی۔ البتہ یہ کہ اسکا موضوع پاکستان کے ماحول سے لیا گیا ہے اور بنانے والی خاتون کی جائے پیدائش پاکستان ہے۔
کیا آپ نے فلم دیکھی ہے؟ میں نے ان سے پلٹ کر سوال کیا۔ جواب نفی میں ملا۔ میں سمجھ رہی تھی کہ آپکو کسی ذریعے سے مل گئ ہوگی۔ انہوں نے فرمایا۔ جی نہیں اسکے حقوق کسی غیر ملکی چینل کے پاس محفوظ ہونگے ایسے نہیں ملے گی۔ اخبار سے اطلاع ملی کہ موصوفہ اب اسے اردو میں ڈھالنے کا کام کریں گی۔ حالانکہ فلم کی پہلی ریلیز کے وقت اس میں اردو سب ٹائٹل دالے جا سکتے تھے۔
کیا یہ ہمارا المیہ نہیں کہ ہمارے جو لوگ علم کے وسائل تک زیادہ پہنچ رکھتے ہیں دنیا سے انکی واقفیت زیادہ ہوتی ہے وہ محض اپنے نام و نمود کے لئے عوامی زبان کے بجائے اس زبان کو ترجیح دیتے ہیں جو اس ملک کے لوگ نہیں سمجھ سکتے۔ اس لئے کہ انکی ترجیح بین الاقوامی منڈی ہوتی ہے اور اس ملک کی زمین نہیں۔
یہی وجہ ہے کہ محض ایک نظر ڈالنے سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ اردو صحافت اور اردو ادب، انگریزی صحافت اور انگریزی ادب ایک دوسرے سے کس قدر چاند اور سورج کی دوری پہ موجود ہیں۔
آج ایک عام بیس سالہ نوجوان جب نسیم حجازی کے ناول پڑھ کر مذہبی جذبے سے سرشار ہو رہا ہوتا ہے تو عین اسی وقت ایک انگریزی جاننے والا اسی عمر کا نوجوان محمد حنیف کے اے کیس آف ایکسپلوڈنگ مینگوز پڑھ کر ہماری سیاسی اور ثقافتی زبوں حالی کی وجوہات کو جان رہا ہوتا ہے۔ کم از کم اس میںمخالف بات کو سننے کا حوصلہ تو پیدا ہوتا ہے۔
 اردو اخبار جنگ کا اتوار کا میگزین پڑھ کر جب ایک عام پاکستانی عورت، روائیتی فرماں بردار بیوی، بیٹی، بہن  اور بہو بننے کے طریقے سیکھ رہی ہوتی ہے تو انگریزی اخبار کے اتوار کے میگزین کو پڑھنے والی عورت یہ جان رہی ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی مونٹیسوری کی تعلیم میں کیسے مدد کر سکتی ہے، کوئ خاتون اپنے معذور بچوں کی کیا مدد کر سکتی ہے،  اپنے آپ کو چھاتی کے کینسر سے کیسے بچا سکتی ہے، اپنی روزانہ کی زندگی میں کارآمد مشغلے کیسے اختیار کر سکتی ہے اگر وہ پیشہ ور خاتون ہے تو کیسے ملازمت کے دوران جنسی ہراسمنٹ سے بچ سکتی ہے، یہ جان سکتی ہے کہ اسکے ملک میں دیگر پڑھی لکھی خواتین کیا کر رہی ہیں وغیرہ وغیرہ۔
یہی نہیں اگر کسی بھی کتاب فروخت کرنے والی جگہہ کا جائزہ لیں تو وہاں اردو میں سب سے زیادہ مذہبی کتابیں ملیں گی۔ جب کہ انگریزی کتابوں میں دنیا کے ہر موضوع پہ ہر طرح کی کتابیں نظر آئیں گی۔
کیا یہ طبقہ یہ سوچتا ہے کہ کیوں عمیرہ احمد ایک اکثریت کو پسند ہے اور کیوں محمد حنیف کو پاکستان میں ایک محدود  طبقے کے علاوہ کوئ نہیں جانتا۔ جب محمد حنیف لکھتے وقت یہ سوچتے ہونگے کہ کس طرح انکے لکھے کو بین الاقوامی سطح پہ دیکھا جائے گا اس وقت عمیرہ احمد کیا یہ سوچتی ہوگی۔ عمیرہ احمد اس وقت اردو کی معروف لکھاری ہیں اور وطن میں لوگوں کی ایک کثیر تعداد ان سے واقف ہے۔ عمیرہ احمد نے اپنا سفر خواتین اردو ڈائجسٹ سے شروع کیا اور محمد حنیف نے امریکہ کے پبلشنگ ادارے سے۔ عمیرہ احمد کو پاکستان میں توجہ ملی اور محمد حنیف عالمی سطح پہ مداح حاصل کرنا چاہتے ہونگے۔ ایک نے عوامی رجحان کو دیکھتے ہوئے لکھا دوسرے نے  تیسری دنیا سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے دلچسپ حقائق کو اس دنیا کے سامنے پیش کیا جہاں لوگ اس ملک کے بارے میں متجسس رہتے ہیں کہ یہاں پہ دہشت گردی کیسے پھل پھول رہی ہے۔ صرف تجسس، ایک جاہل معاشرے کو اسکی جاہلیت کا طعنہ دینے کا تجسس۔
ادھر پاکستانی بلاگنگ کی دنیا دیکھیں۔ اردو سے کہیں زیادہ بلاگز انگریزی میں ہیں۔ انگریزی بلاگنگ میں پیسے ملنے کے امکانات زیادہ ہیں، شہرت کے امکانات زیادہ ہیں۔ آپ ایک بین الاقوامی دنیا میں موجود ہوتے ہیں۔ زیادہ تبصرے، زیادہ ویوز۔ مگر اس سے پاکستان میں عوامی تبدیلی کیا پیدا ہو سکتی ہے؟ 
جیسی نیت ویسا پھل۔
 نتیجے میں ایک طبقے سے سلمان تاثیر پیدا ہوتے ہیں اور دوسرے سے جو اکثریت میں ہے ممتاز قادری اور اس پہ پھول برسانے والے پیدا ہوتے ہیں۔ جب سلمان تاثیر مارے جاتے ہیں تو انکا طبقہ حیران رہ جاتا ہے کہ یہ کیسے ہو گیا۔ وہ اس بات پہ دہشت زدہ ہوتا ہے کہ اس ملک میں عدم برداشت کس قدر بڑھ گئ ہے۔ لیکن وہ اس حقیقت کو جاننے سے دور رہتا ہے کہ اس معاشرتی روئیے میں انکا اپنا رویہ شامل ہے۔
میں اگر اس تلخ حقیقت کو اس طرح بیان کروں تو شاید کچھ لوگوں کو شدید لگے گا۔ لیکن یہ کہ ہمارے اس طبقے کی کیفیت اس شخص سے مختلف نہیں جو اپنے زخم کو کرید کرید کر ہرا رکھتا ہے کیونکہ اسے اس زخم کو سہلانے اور اسکی وجہ سے لوگوں کی توجہ حاصل کرنے میں، مزہ آتا ہے۔ یہاں تو شہرت بھی ملتی ہے۔ لیکن دھیان رہنا چاہئے کہ ایک زخم کو کرید کر ہمیشہ ہرا رکھا جائے تو وہ ناسور بن جاتا ہے۔
اس ملک میں تبدیلی کا عمل اس وقت تک شروع نہیں ہو سکتا جب تک کہ تبدیلی کی خواہش کا اظہار کرنے والے اپنی زبان وہ نہیں کر لیتے جو عوام کی زبان ہے۔ یہ حقیقت تو اب برطانیہ جیسے ملک نے بھی سمجھ لی ہے اور اپنی پہلی اردو ویب سائیٹ بھی بنا لی۔ 
 یہ بات اتنی مضحکہ خیز لگتی ہے کہ آپ جنہیں تبدیلی سے روشناس کرانا چاہتے ہیں۔ انکے متعلق آپ ہر ایرے غیرے نتھو خیرے سے اسکی زبان میں بات کرتے ہیں لیکن ان سے انکی زبان میں بات نہیں کرتے۔ انکے مسائل کے حل کے لئے ہر ٹام اینڈ جیری سے مشورہ لیتے ہیں لیکن مسائل کے یہ حل کبھی انکے سامنے نہیں رکھتے اور نہ ہی اسکے لئے خود کوشش کرتے ہیں۔
خیر، میں آجکل ایک کتا پال رہی ہوں  وہ بھی بیلجیئن شیفرڈ جیسا۔ یہ کتا بے حد ذہین اور وفادار جانور ہوتا ہے۔ لیکن اگر اسے انسانوں کے ساتھ گھلنے ملنے کا موقع نہ ملے اور کوئ اس سے محبت کا اظہار کرتے ہوئے روزانہ کچھ وقت اسکے ساتھ نہ گذارے تو یہ حد سے زیادہ خونخوار بن جاتا ہے۔ اور معمولی باتوں پہ حملہ کرنے کو تیار رہتا ہے۔  یہی نہیں اسے اندازہ ہو جائے کہ مالک مجھے قابو نہیں کر سکتا تو وہ مالک پہ قابو پا لیتا ہے۔ مجھے اسے اپنا مطیع بنانےاور اسکی صلاحیتوں کواپنے حق میں رکھنے کے لئے، اسے نہ صرف احساس تحفظ دینا ہو گا بلکہ اسے یقین دلانا ہوگا کہ میں اس سے محبت کرتی ہوں اور اسکی زبان سمجھتی ہوں۔ کہتے ہیں بیلجیئن شیفرڈ احسان فراموشی نہیں کرتا۔
اس لئے میں تو چلی اسکی زبان سمجھنے اور اسے اپنی سمجھانے۔

18 comments:

  1. ہمیشہ کی طرح جاندار تحریر ہے، مگر آخر میں آپ نے مخصوص طبقے کو کتے سے ملانے کے بجائے اکثریت کو کتے کے مشابہ قرار دے دیا جوکہ آپ کی جانبداری کا ثبوت ہے، ویسے بھی صبح و شام اردو کی مالا جپنے والے طبقے کی اردو کے سلسلے میں تہی دامنی کا ثبوت اس بات سے بھی ملتا ہے کہ وہ "sexual harassment" کا درست ترجمہ بھی نہیں لکھ سکے جوکہ "جنسی طور پر ہراساں" کئے جانا ہوتا ھے۔
    امید ہے کہ برا نہیں مانیں گی، کہ ہم بھی آپ کی خرافات کو اکثر برا مانے بغیر ہی نظرانداز کئے جاتے ہیں۔ مگر شرمین عبید اور انکے طبقے کے متعلق آپ سے متفق ہوں۔ ساتھ ساتھ ہر جگہ مذہبی طبقہ کو گھسیٹنے کے خلاف ہوں!
    وسلام

    ReplyDelete
    Replies
    1. کس جانبداری کا ثبوت؟
      ایک جانور کو بھی تربیت دینے کے لئے اسکی زبان سمجھنی پڑتی ہے اور اسے سمجھانی پڑتی ہے تو انسان اس سے بڑھکر ہے۔ اگر انسان کی تربیت نہ ہو تو وہ جانور سے زیادہ خطرناک ثابت ہوتا ہے۔
      اردو میں اصطلاحوں کے مستند ترجمے نہیں ہیں۔ میرے خیال میں دونوں ہی درست ہونگے۔ میں اپنے والے کو ترجیح اس لئے دونگی کہ یہ اسم کا ترجمہ با انداز اسم کیا گیا ہے۔ جبکہ آپ کے ترجمے میں اسم ، فعل کی شکل اختیار کر رہا ہے۔
      ممیں نے کبھی بھی اپنے آپکو اردو لسان کا ماہر نہیں کہا۔ اگر ہم دوسروں کو اردو استعمال کرنے پہ زور دے رہے ہیں تو اسکا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ انہیں نستعلیق یا لکھنوی اردو استعمال کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ پاکستان میں اب جو اردو بولی جاتی ہے وہ پنجاب کے زیر اثر بولی جاتی ہے۔ اسے بھی اہل زبان برداشت کرتے ہیں بلکہ وہ پھل پھول بھی رہی ہے۔
      چونکہ میں اپنی کسی بات کو خرافات نہیں سمجھتی۔ اس لئے آپکا نظر انداز کرنا اس زمرے میں شامل سمجھتے ہیں کہ اس سے آپکو دلچسپی نہیں ہوتی۔
      اگر آپ نے اس جملے کا مطلب یہ لیا ہے کہ مذہبی کتابوں کی بھرمار ہوتی ہے تو اس میں مذہب کو گھسیٹنے والی کیا بات ہے۔ معاشرے کو چلانے کے لئے دیگر چیزوں کی بھی ازحد ضرورت ہے اسکی طرف توجہ نہیں ہوتی۔ آپکے پاس اسکا جواب کیا ہے کہ انگریزی میں کیسے ٘موضوعات کا تنوع موجود ہے۔

      Delete
    2. اچھا یہ لکھنا تو بھول گئ کہ مخصوص طبقے کو کتے سے کیسے ملایا جا سکتا ہے۔ کتا احسان فراموش نہیں ہوتا، ایک دفعہ جس زمین کو مارک کر لے اس پہ کسی اور کو قدم نہیں رکھنے دیتا ، جن سے وفاداری کا رشتہ استوار کرے انکی حفاظت میں ہر وقت چست رہتا ہے۔ سب سے بڑھکر خود غرض نہیں ہوتا۔

      Delete
  2. جانبداری سے مراد یہ ہے کہ آپ کو بھی عوام سے ہمدردی نہیں بلکہ آپ بھی شرمین عبید کے طبقے کا حصہ ہیں، ورنہ عوام کو کتے کی طرح تربیت دینے کے بجائے آپ کو شرمین عبید کے طبقے کی دشمنوں سے کتوں جیسی وفاداری واضح دکھ جاتی، کہ کسطرح انہیں تربیت دے کر دشمن انہیں اپنے مفادات کے لیے استعمال کر رہا ہے۔

    اردو زبان میں تعلیم حاصل کرنے اور اردو کی ترقی و ترویج کے حق میں ہونے کے باوجود میں اس بات کا قائل ہوں کہ اردو میں اتنی استطاعت نہیں ہے کہ وہ انگریزی کا مقابلہ کرسکے، لہذا بہتر یہ ہوگا کہ اردو کو انگریزی سے ٹکرانے کے بجائے، ہم کو دونوں زبانوں میں مہارت حاصل کرنی چاہیے۔ نہ کہ کسی ایک کی دم پکڑ کر دوسری کی نفی کرنے لگ جائیں۔

    مذہب کو ہر جگہ گھسیٹنا، اس مراسلے کے پر نہیں، بلکہ آپ کے اجماعی رجحان کے حوالے سے کہا تھا۔ یہ درست ہے کہ معاشرے کو چلانے کے لیے مذہب کافی نہیں بلکہ دیگر عوامل بھی ضروری ہوتے ہیں، مگر میرا یہ کہنا ہے کہ اسکے لیے ہم کو بین الاقوامی زبان سیکھنے کی ضرورت ہے، نہ کہ ہر شے کو اردو میں ڈھالنے کی۔

    ReplyDelete
  3. میں اس وقت ہر شے کو اردو میں ڈھالنے کی بات نہیں کر رہی ہون۔ اگر آپ نے میری اس تحریر سے یہ مطلب لیا ہے کہ کیمسٹری کو اردو میں پڑھانا چاہئیے تو یہ تائثر غلط ہوگا بلکہ آپکے ذہن میں کسی پہلے سے موجود خیال کے سلسلے میں ہوگا۔
    جیسا کہ میں نے آپکے سامنے دو واضح مثالیں صحافت اور ادب کی رکھی ہیں تو اس سلسلے میں آپکا یہ خیال درست نہیں ہے۔
    اس لئے وہ تمام کوشششیں جو تبدیلی کے نام پہ کی جاتی ہیں انہیں ضرور بالضرور اردو میں ہونا چاہئیں۔
    کوئ زبان اس وقت تہی داماں رہتی ہے جب تک اسے استعمال نہ کیا جائے۔ جب وہ استعمال میں آتی ہے تو یہ تہی دامنی ختنم ہوجاتی ہے۔ اسکی ایک مثال فارسی اور ترکی ہے۔ جدید ایران اور ترکی میں یہی زبانیں رائج ہیں اور بالکل آرام سے استعمال ہو رہی ہیں۔
    سوچیں اگر ہمارے رہنما، عوام سے انگریزی میں خطاب فرمانے لگ جائیں تو کیا وہ اپنے الیکشن کی مہم چلا سکتے ہیں۔
    میرے اجتماعی رجحان کو اس وقت موضوع بحث بنانا کیا آپکے اس رجحان کو ظاہر نہیں کرتا کہ آپ پسند کرتے ہیں کہ مذہب کو زیر بحث لایا جائے۔

    ReplyDelete
  4. بے شک مذہب ہم دونوں کا پسندیدہ موضوع ہے، مگر فرق صرف اتنا ہے کہ آپ منفی جبکہ میں مثبت انداز میں مذہب پر تنقید کیا کرتا ہوں۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. آئینسٹائین نے ایسے ہی مواقع کے لئے نطریہ اضافیت پیش کیا۔ میرا خیال ہے کہ آپ مذہب پہ تنقید نہیں کر سکتے اور نہ کرتے ہیں۔ تنقید ہمیشہ منفی ہی لگتی ہے۔ اور اگر وہ کسی کے مقاصد کی راہ میں رکاوٹ ہو تو ایک دم خرافات لگتی ہے۔

      Delete
    2. دوسرا یہ کہ مذہب میرا پسندیدہ موضوع نہیں ہے۔ میرے پسندیدہ موضوعات میں سائینس اور غالب شامل ہیں۔ چونکہ اکثریت کا پسندیدہ موضوع مذہب ہے اس لئے مجھے اس پہ اظہار خیال کرنا پڑتا ہے۔ جو اتفاق سے اکثریت سے میل نہیں کھاتا اس لئے سلسلہ کچھ لمبا کھچ جاتا ہے۔

      Delete
  5. اور ہاں میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ
    وہ تمام کوشششیں جو تبدیلی کے نام پہ کی جاتی ہیں انہیں ضرور بالضرور اردو میں ہونا چاہئیں۔

    ReplyDelete
  6. اقتباس
    میں ایک ایسی فلم کے بارے میں کیا رائے دوں۔ جسکی تخلیقی زبان وہ ہے جو ملک کے دو فیصد سے بھی کم لوگ بولتے اور سمجھتے ہیں۔

    تبصرہ
    یہ فلم ساٹھ فیصد سے زائد اردو زبان میں ہی ہے۔ تمام متاثرین کے انٹرویوز اردو میں ہیں اور ایچ بی او نے بھی ڈبنگ کے بغیر انگریزی سب ٹائٹل کے ساتھ نشر کی تھی۔ اس کو اردو میں ڈھالنے کا کام کرنا بذات خود ایک مضحکہ خیز بات ہے۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. اسکو اردو میں ڈھالنے کی بات شرمین عبید نے خود کی ہے۔ انکا یہ بیان ڈان اخبار میں آیا ہے۔ جس میں انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ریلیز کرنے سے قبل وہ اسے اردو میں ڈب کریں گی اسکے لئے فنڈ کا انتظام ہو رہا ہے۔
      یہی نہیں ، ایوارڈ ملنے کے دن سے آج تک ہم ڈان میں یہی پڑھتے رہے کہ فلم انگریزی زبان میں ہے۔ حوالے کے لئے آپ ان تاریخون کا کوئ بھی اخبار اٹھا کر دیکھ سکتے ہیں۔
      پاکستان کے ایچ بی او پہ تو یہ فلم نشر نہیں ہوئ۔ ہمارے پاس اب تک جو بھی معلومات ہیں وہ اخبار کی ہیں۔

      Delete
    2. ہوسکتا ہے وکی پیڈیا والی اردو میں ڈھالنا ہو ورنہ تمام اصل معلومات یعنی متاثرین کا بیان، ڈاکٹر صاحب اور متاثرین کے مکالمے اور ملزمان کی صفائیاں اردو میں ہی ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب آسان سی انگریزی بولتے ہیں اور پس پردہ انگریزی آواز کبھی کبھی سنائی دے جاتی ہے۔ ایک سادہ سی متاثر کن فلم کا جتنا فسانہ بنا ہے اس کے بعد اردو میں پیش کرنے کے بعد بھی جھگڑا اسی بات پر ہوگا کہ ڈاکٹر کا سرجری کے لیے عورتوں کو ہاتھ لگانا حلال تھا کہ حرام۔

      Delete
    3. پاکستان میں چونکہ اب تک کسی نے یہ فلم دیکھی ہی نہیں۔ اس لئے جو بھی افسانہ بنا وہ دراصل آسکر کی وجہ سے بنا۔
      ہاں اس بات سے میں متفق ہوں کہ جن موضوعات کو ہمارے یہاں کے ادیب انگریزی میں اٹھا لیتے ہیں انہیں اردو میں ہاتھ نہیں لگا سکتے۔
      ہمم، انگریزی میں ہاتھ لگاتے وقت یہ تو آسانی رہتی ہے۔
      :)
      تو کیا اردو میں نسیم حجازی صاحب ہی حلال طریقے سے یہ کام انجام دے سکیں گے۔

      Delete
  7. جو موضوع شرمین چنوئے کی فلم کا تھا اسی سے ملتے جلتے موضوع پر اردو میں بھی دستاویزی کام ہوچکا ہے۔ جیو کے ایک پروگرام میں ایک ایسی ہی ڈاکومینٹری دیکھی تھی۔ سب کچھ پاکستانی تھا ، اور اردو میں تھا۔ کتنوں نے گھاس ڈالی ؟
    شرمین چنوئے نے وہی کام معیاری انداز میں کیا۔ ناظرین کا حلقہ وسیع تھا جس میں ہر طرح کے ذہن کے حامل لوگ تھے ، تو بس قابل فہم پذیرائی بھی ملی۔

    محمد حنیف کو میں نے اب تک نہیں پڑھا۔ لیکن گمان ہے کہ موضوع جو بھی ہو اردو میں بھی معیاری یا غیر معیاری انداز میں زیر قلم رہا ہوگا اور اسی طرح نظر انداز ہوتا رہا ہوگا جیسا کہ ہمارے ہاں ایسے معاملات میں دستور ہے۔ موصوف نے معیاری لکھا ، اور انگریزی میں لکھا ، قارئین کا حلقہ وسیع ہوا جس میں ان کے کام کو سراہنے والا طبقہ معقول تعداد میں موجود تھا۔ پذیرائی سامنے ہے۔
    یعنی مذکورہ بالا افراد کی نیتوں کو مثبت ، منفی صفوں میں تقسیم کئے بغیر ، ان کے کام کو اور بھی کئی پہلوؤں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ کیا خیال ہے ؟

    تین سال ہونے کو آئے آپ کو اردو بلاگنگ کرتے ہوئے ...، وہی پچاس افراد ، وہی ان کے ٹاکنگ پوائنٹس ، وہی مخصوص تکرار۔ اب اس میں انگریزی بلاگنگ کا کیا قصور؟ وہاں ، بلاگرز ہی نہیں ، قارئین کا بھی تنوع ہے۔ قسم قسم کے موضوعات پر گفت و شنید جذب کرنے کی گنجائش ہے۔عروج سامنے ہے۔

    دیکھئے ، مادری زبان کے حق میں دلائل اپنی جگہ ، لیکن کیمسڑی کو کیمیاء کہہ دینے کی سعی لاحاصل کی طرح یہاں بھی معاملات اتنے یک طرفہ اور سادہ نہیں۔ دور حاضر میں پاکستانیوں کا وہ بیشتر حصہ جس نے سکول کالج کا منہ دیکھا ہے ، یا کمپیوٹر کی سکرین کے پار بیٹھا ہے ، انگریزی سے شدھ بدھ رکھتا ہے۔ جو ان مسائل پر سنجیدہ ہیں وہ انگریزی بھی ہضم کر جائیں گے ، جنہوں نے نہیں ماننا ان پر سرگوشیاں بھی بے اثر ہیں۔ پھر پچاس فیصد پاکستان تو ویسے ہی ناخواندہ ہے۔ علاقائی زبانوں کا مسئلہ الگ۔ ربڑ کو جدھر مرضی کھینچتے رہیں ، واپس ادھر ہی پلٹتا ہے۔

    آخر میں کچھ گذارشات...
    کراچی میں رہ کر بیلجئین شیفرڈ پالنا دیسی النسل کتوں کے ساتھ ذیادتی ہے۔
    کتاب اگر انگریزی میں ہے تو ربط کا بہترین ماخذ ایمازان ڈاٹ کام ہے۔ اگر اردو میں ہے تو محض سرخ رنگ پر اکتفا کریں۔
    محترمہ شرمین چنوئے کو ملامت کرنے کے بعد ان کا نام ٹیگ بھی کیا کریں۔ آخر ان کو ملامت کرکے آپ نے نو دریافت مداحوں سے دعائے خیر سمیٹی ہے۔ اتنا ادھار تو بنتا ہے۔
    :) :)

    ReplyDelete
  8. عبدالرؤف

    Pakistan Among World's Worst Violators of Religious Freedoms
    http://www.worthynews.com/11361-pakistan-among-worlds-worst-violators-of-religious-freedoms

    ReplyDelete
  9. عبدالرؤفMar 27, 2012 05:14 AM
    بے شک مذہب ہم دونوں کا پسندیدہ موضوع ہے، مگر فرق صرف اتنا ہے کہ آپ منفی جبکہ میں مثبت انداز میں مذہب پر تنقید کیا کرتا ہوں۔

    Zara is main say masbat nikaal kar dekhau;

    In Pakistan, Hindus Say Woman’s Conversion to Islam Was Coerced
    http://www.nytimes.com/2012/03/26/world/asia/pakistani-hindus-say-womans-conversion-to-islam-was-coerced.html?_r=1&pagewanted=all

    ReplyDelete
    Replies
    1. Dear Anonymous, For your kind information, I am not a typical "Mullah" therefore I don't understand that what type of positive you are expecting from me about this case? As case is already in court and we all will know sooner or later about the results.

      As per my understanding in Pakistani culture its wrong for any girl/women (regardless of her religion) to maintain any type of secret relationship with any man. So Ms. Faryal (Aka Kumari)and Mr. Shah both are wrong in this. Also those Muslim leaders are so wrongful who supported their such irreligious and anti-cultural act.

      As they were needed to consult with the court, as their support for such actions has opened a door for those Muslims who are already in such relationships which are not-allowed in their religion. and in future every one will make them as a point of reference for their own purpose to avoid religious and cultural boundings.

      Being a Pakistani Muslim Man I believe that our religious and cultural boundings are good for ourselves and if some one consider them against their freedom then he/she should be allowed to challenge them in open court and then both parties should be given fair chances to provide their arguments freely. and at the end of case both parties should follow courts decisions. and no one should be allowed to practice extremism. and practicing religion at our own choice is not extremism.

      Delete
  10. تو سارا چکر گھاس کا ہے۔ یہی تو ہم کہہ رہے ہیں۔
    چونکہ ہم شرمین عبید کی اس فلم سے پہلے ہی پاکستان کے اس مسئلے سے آگاہ ہیں اس لئے اس میں جیو کی اس ڈاکومینٹری کا بھی حصہ ہوگا۔
    در حقیقت، چونکہ اب تک یہ فلم پاکستان میں نہیں آئ۔ اس لئے ہم سب جو کچھ اس مسئلے کے بارے میں جانتے ہیں اس میں ہمارے میڈیا اور اخبارات کا خاصہ حصہ ہوگا۔ اس لئے آپ نے یہ نتیجہ کیسے اخذ کیا کہ اسے گھاس نہیں ڈالی گئ۔
    تبدیلی ایک دم سے نہیں آتی۔ اور جب آتی ہے تو اس میں ایک بڑا حصہ ان کوششوں کا ہوتا ہے جنہیں کبھی گھاس نہیں ڈالی گئ ہوتی۔
    اگر آپکو ہمارے یہاں کے معیار تعلیم کا پتہ ہوتا تو یہ جان لیتے کہ اسکول اور کالج تو الگ یونیورسٹی میں پڑھنے والے بھی انگریزی کی سرسری سی سمجھ رکھتے ہیں۔
    میں یہ نہیں کہتی کہ کیمیاء کو اردو میں پرھائیں لیکن عوامی سطح پہ اگر کوئ تبدیلی چاہتا ہے تو عوامی شعور کو بیدار کرنے کے لئے عوام کی زبان استعمال کرنی چاہئیے۔ میں نے تو آپکو دو مثالیں دے دیں۔ عمیرہ احمد اور محمد حنیف کی۔ دونوں پاکستانی ہیں، ایک کو عام پاکستانی جانتا ہے دوسرے کو نہیں۔ اب اگر ان میں سے ایک ادیب پاکستانی ماحول کی خامیاں، برائیاں بین الاقوامی میڈیا کے سامنے بہتر طور پہ پیش کر کرے داد سمیٹ لیتا ہے تو کیا اس سے ایک عام پاکستانی کو خوش ہونا چاہئیے؟
    انکے اس روئیے سے جو وہ عوام کی طرف اختیار کرتے ہیں اس سے عوام کو ہی نہیں خود انہیں بھی مسائل ہوتے ہیں۔
    مثلاً پاکستانی انگریزی صحافت اور ادب میں جو لکھا جاتا ہے وہ اردو ادب اور صحافت والے نہیں لکھ سکتے، لکھنے کی ہمت نہیں رکھتے انہیں عوامی رد عمل سے ڈر لگتا ہے۔ کیونکہ انکے لکھے ہوئے مواد کی عوام تک رسائ آسان ہوتی ہے۔ اس طرح سے عوامی سطح پہ مخالف بات سننے کا حوصلہ دن بہ دن کم ہوتا جا رہا ہے۔ اس صورت حال کا سامنا انگریزی لکھنے پڑھنے والوں کو اس شدت سے نہیں کرنا پڑتا۔
    مگر جب وقت کا سائکل چطلتا پہے تو اسکی لپیٹ میں ہر شخص آئے گا۔ ہر وہ شخص جو پاکستان میں رہتا ہے۔
    تو ایسا کیوں نہیں ہوتا کہ عوامی سطح پہ برداشت پیدا کرنے کے لئے دو طبقوں کے درمیان اس فاصلے کو کم کرنے کی کوششیں کی جائیں۔ اور اسکی سب سے زیادہ ذمہ داری ان پہ عائد ہوتی ہے جو اپنے آپکو زیادہ با شعور سمجھتے ہیں۔
    پاکستانی نسل کے کتے کون سے ہیں مجھے نہیں معلوم، مجھے تو شیفرڈ پسند ہیں انکی ذہانت کی خوبی کی وجہ سے۔
    نئے مداح، تو کسی اگلی پوسٹ پہ ساتھ چھوڑ جائیں گے۔ میں تو ہمیشہ یہ مصرعہ دوہراتی ہوں کہ سکندر جب گیا دنیا سے دونوں ہاتھ خالی تھے۔
    بلاگسپاٹ پہ ٹیگز کی تعداد متعین ہے اس سے زیادہ نہیں ڈالے جا سکتے۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ