Friday, April 6, 2012

ایک نوحہ

پورے ایک سال گذرنے کے بعد مجھے داءود انجینیئرنگ کالج کراچی سے خط ملا کہ وہ جو آپ نے سال بھر پہلے ہمارے اشتہار کے سلسلے میں درخواست بھیجی تھی لیکچرر شپ کے لئے، اسکے انٹرویو ہو رہے ہیں آپ آجائیے۔
مقررہ تاریخ پہ صبح ساڑھے آٹھ بجے ہم وہاں موجود تھے۔ گھنٹہ بھر انتظار کے بعد اطلاع ملی کہ ابھی تھوڑی دیر میں ایک تحریری امتحان ہو گا۔ ممتحن آجائیں تو آپکو بلاتے ہیں۔ اسکے دو گھنٹے بعد پتہ چلا کہ ٹیسٹ کا ارداہ موقوف ہو گیا ہے۔ اب صرف انٹرویو ہونگے۔ انٹرویو بورڈ کے سارے ارکان آجائیں تو انٹرویو کا سلسلہ شروع ہوگا۔
 سہانی صبح ڈھل چکی نجانے کب تم آءوگے۔
دن کے دو بجے ہم سب امیدوار دھوپ سے بھرے لان میں بیٹھے، آتی ہوئ کھانوں کی ان قابوں کو دیکھ رہے تھے جو اس کمرے میں جارہی تھیں جہاں انٹرویو ہونا تھا۔ دن کو تین بجے پہلا امیدوار اندر طلب ہوا۔ پون گھنٹے بعد وہ باہر نکلا پندرہ منٹ کے بعد دوسرا امیدوار طلب ہوا۔ ہم وہاں پہ کوئ پندرہ لوگ موجود تھے۔
میں نے ایک آسان سا حساب کیا کہ شام کو پانچ چھ بجے تک کیا صورت حال ہوگی۔  میری توقع کے مطابق شام کو پانچ بجے دو امیدواروں کے انٹرویو کے بعد ہمیں اطلاع دی گئ کہ آج انٹرویو ختم کئے جاتے ہیں  اسکی نئ تاریخ سےآپ کو جلد آگاہ کیا جائے گا۔
تین سال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے بعد وہ نئ مبارک تاریخ آئ۔ ایک دفعہ پھر امیدوار وہاں موجود ، اس دفعہ پہلے سے کم۔ کچھ اس دوران دوسرے کاموں میں مصروف ہو گئے ہونگے۔ یہ کوئ محبوب کی زلف تو نہ تھی کہ اسی کو سر کرنے میں گذار دیتے۔
 ایک دفعہ پھر یہ پیغام کہ ابھی ایک تحریری ٹیسٹ ہوگا۔  لیکن اس دفعہ ریکارڈ توڑنے یا  رکھنے کے لئے ہمیں ڈھائ گھنٹے کے بعد  ٹیسٹ کے لئے بلا ہی لیا گیا۔ ٹیسٹ لینے والے نے پوچھا آپ سب کے پاس کاغذ اور قلم ہے۔ سب کے پاس قلم تھے لیکن ایسا کوئ معتبر کاغذ نہ تھا جس پہ ٹیسٹ دیا جا سکے۔ ہم سب بےوقوفوں کو کالج کی اس غربت کا اندازہ ہی نہ تھا۔ ہم نے اپنے آپ تف بھیجی اور شرمندگی سے سرجھکا دئیے۔ انہوں نےطنزیہ مسکراہٹ سے ہمیں ذلیل کرتے ہوئے کہا اچھا انتظار  کریں آپکو کاغذ فراہم کیا جاتا ہے۔ ایک گھنٹے کے انتظار کے بعد ہم سب کو ایک ایک کاغذ دیا گیا۔ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔
اب آگے ہنسنا منع ہے کیونکہ اسکے بعد ان صاحب نے کہا ایسا ہے کہ میں  کچھ سوالات املا کرا دیتا ہوں وہ آپ اپنے پاس لکھ لیجئیے۔ پھر انہوں نے چار سوال املا کرائے۔ فی البدیہہ املا کرائے جانے والے سوالات میں غلطیاں تھیں جن کی نشاندہی پہ متعلقہ صاحب نے انتہائ بڑکپن کا ثبوت دیتے ہوئے انہیں تبدیل کر دیا۔ ایسی بڑائ کی تعریف کرنا بے جا نہیں۔
آدھ گھنٹے بعد ہم سے کاغذ ، معاف کیجئیے گا ٹیسٹ پیپر لینے کے بعد ہمیں باہر کا راستہ دکھا دیا گیا۔ بعد کے واقعات سے یہ بد گمانی پیدا ہوتی ہے کہ ان ٹیسٹ پیپرز کو ہمارے نکلتے ہی کوڑے دان میں ڈال دیا ہوگا۔ کمزور اور حقیر لوگ بد گمانیوں کا جلد شکار ہوتے ہیں۔
 کراچی میں چالیس ڈگری کی گرمی میں ایک دفعہ پھر ہم بنجر لان میں بیٹھے انٹرویو کی پکار کا انتظار کر رہے تھے۔ ایک دفعہ پھر کھانے کی قابیں اندر جا رہی تھی۔ اس دفعہ یہ ہانڈیاں تھیں۔ منتظمین کو ہانڈیوں سے فراغت پانے میں شام کے چار بج گئے۔ 
میں اٹھی اور کلرک کے پاس گئ۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ میں اپنے گھر فون کر کے اطلاع کر دوں کے میں دیر سے آءونگی، میں اپنا موبائل فون گھر بھول آئ ہوں۔ ہاں ہاں کیوں نہیں۔ وہ مجھے سازش کر کے اس کمرے میں لے گیا جہاں بورڈ کے ارکان انٹرویو لینے کے بہانے موجود پاکستان کا مطلب کیا، ھذا من فضل ربی بتا رہے تھے۔ کلرک ذہنیت ایسی ہی ہوتی ہے خود سامنے آکر کچھ نہیں کرتے بس سازشیں کرتے ہیں یا سازش کرنے والے کا ساتھ دیتے ہیں۔
کمرے میں اس وقت تک مرغن کھانوں کی خوش بو بھری ہوئ تھی۔ ایسا نہیں کہ میرا دل جلانے کے لئے اس خوشبو کو وہاں قید کر کے رکھا گیا تھا۔ وجہ یہ تھِی کہ ایئر کنڈیشنڈ چلنے کی وجہ سے یہ خوشبو باہر نہیں جا سکتی تھی۔ کمرہ ایک دم جنت نظیر محسوس ہو رہا تھا۔  یہ صرف اس منحوس ایئر کنڈیشنڈ کی وجہ سے تھا ورنہ نہ وہاں حوریں تھیں اور نہ شہد کی نہریں۔ اس خوشبو سے مجھے اپنے پیٹ میں ہونے والی گُڑ گُڑ کی آواز آئ۔ یہ اس پانی کی تھی جو میں کئ گھنٹے سے چالیس ڈگری کی گرمی کی شدت کو لان کے ایک سوکھے درخت کے نیچے بیٹھ کر کم کرنے کے لئے پی رہی تھی۔ مجھے نہیں معلوم کہ پانی کیوں پیٹ میں گڑ گڑ کرتا ہے اور کھانا نہیں کرتا۔
میری حیرانی دیکھئیے، وہاں میرے وہ بلند باتیں کرنے والے سینیئر اساتذہ بھی موجود تھے جن سے میں نے پڑھا تھا۔  خوش گپیاں چل رہی تھیں۔بروٹس  یو ٹو۔ میں نے اپنی حیرانی کو چھپانے کے لئے منہ پھیر لیا۔  یہ وہ لوگ ہیں جو باہر کی دنیا میں اس کرپشن کا رونا روتے ہیں جو یہاں فرشتے عالم بالا سے آکر کرتے ہیں۔ ان دس لوگوں میں سے کوئ ایک شخص ایسا نہیں تھا جسے احساس ہو کہ وہ وہاں کس کام کے لئے موجود ہیں۔
شام کو ساڑھے پانچ بجے کلرک نے باہر آکر اعلان کیا کہ انٹرویو ملتوی کر دئے گئے ہیں نئ تاریخ کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔ میرے اس دن کا اختتام سن اسٹروک پہ ہوا۔ وہ رات میں نے بخار اور الٹیوں میں گذاری۔
 سات سال، سات سال سے زائد عرصہ گذر گیا۔ اسکی نئ تاریخ کا اعلان نہیں ہوا۔ کیا داءود انجینیئرنگ کالج میں ان سات سالوں میں کوئ کیمسٹری کا ٹیچر پڑھا نہیں رہا۔ کیا واقعی؟
خیر جناب، داءود انجینیئرنگ کالج تو بے حد خراب ریپوٹیشن رکھنے والا کالج ہے۔ آئیے کراچی شہر کی سب سے مایہ ناز انجینیئرنگ یونیورسٹی کی طرف۔ جہاں ہمارے شہر سے انٹر میں پاس ہونے والے طالب علموں کی کریم داخلہ لیتی ہے۔ جن کا چناءو بہترین رزلٹ اور داخلہ ٹیسٹ میں بہترین کارکردگی کے بعد ممکن  ہوتا ہے۔ کیا سوچتا ہوا گا ایک طالب علم کس قدر شاندار دنیا میں قدم رکھنے والا ہے وہ۔ 
اخبار میں اشتہار آیا کہ انہیں ایک اسسٹنٹ پروفیسر چاہئیے۔ ماسٹرز ہونے کی صورت میں چار سال کا تدریسی تجربہ، پی ایچ ڈی ہونے کی صورت میں کوئ تجربہ درکار نہیں۔ میں نے بھی اپلائ کر دیا۔ پی ایچ ڈی ہوں، ڈیڑھ سال کا تدریسی تجربہ بھی ہے۔ اور بین الاقوامی جرنلز میں چھپے ہوئے  مقالے بھی۔ ایک مضبوط پس منظر، میں نے بےوقوفی سے سوچا۔
چند ماہ بعد خط ملا کہ اس سلسلے میں تحریری امتحان ہوگا۔ تاریخ مقررہ پہ گئے۔ کمرہ ء امتحان میں امیدواروں کی بڑی تعداد موجود تھی۔ ان میں سے تین چار لوگ پی ایچ ڈی بھی تھے لیکن ان میں سے کسی کے پاس تدریسی تجربہ نہیں تھا۔ میں نے سوچا  اب بھی میرا پلہ بھاری ہے۔ ٹیسٹ کے لئے چھپے ہوئے پرچے ملے۔ اسے حل کیا۔ ٹیسٹ بھی اچھا ہوا تھا۔
میں خوش خوش واپس آگئ۔ کافی مہینے گذر گئے کوئ اطلاع نہیں۔ این ای ڈی سے تعلق رکھنے والے ایک سینیئر استاد سے معلوم کیا تو کہنے لگے کہ اپائینٹمنٹس تو کب کے ہو گئے۔ میرا دل ٹوٹا، انہیں انٹرویو کے لئے تو بلانا چاہئیے تھا۔ آخر انہوں نے امیدواروں کی شارٹ لسٹنگ تو کی ہوگی۔ محض تحریری امتحان کے بعد ہی تو اپائنٹ نہیں کر لیا ہوگا۔ 
پھر ذرا اور خبر لی تو معلوم ہوا کہ کراچی یونیورسٹی میں تدریس کے دوران ایک خاتون کو لیگ  تھیں میری جن کی نالائقیوں کا انکے طالب علم ہمیشہ رونا روتے نظر آتے۔ ان کا اپائینٹمنٹ ہو گیا ہے۔ یہ خاتون ایم فل تھیں یعنی نان پی ایچ ڈی۔ انکے پاس کوئ بین الاقوامی پبلی کیشن نہیں تھی۔ ایسا کیسے ہو گیا میں نے ان سینیئر ساتھی سے، جو اب مرحوم ہو چکے ہیں پوچھا۔ کہنے لگے میں نے معلوم کیا تھا۔ پتہ چلا کہ ہم پی ایچ ڈی کو رکھ کر کیا کریں گے۔ ہمارے کیمسٹری ڈپارٹمنٹ کی ہیڈ ماسٹرز ہیں اور ایک اتنے زیادہ پڑھے لکھے شخص کو رکھ لیں تو ایک مصیبت ہو گی۔ ہمیں ڈپارٹمنٹ چلانا ہے۔ بھئ ہمیں تو اسٹوڈنٹس کو ہلکی پھلکی کیمسٹری پڑھوانی ہے یہاں کوئ تحقیقی کام تھوڑی کروانا ہے۔
ایچ ای سی کس ملک کی یونیورسٹیز کے لئے قوانین وضع کرتی ہے یہ نہیں معلوم۔
داءود انجیئرنگ کالج تو ویسے بھی سیاسی جماعتوں کا اکھاڑہ ہے کسی گنتی میں نہیں۔ لیکن این ای ڈی انجینیئرنگ یونیورسٹی کراچی بھی ایچ ای سی کی اس فہرست میں شامل نہیں جو ملک کی دس بہترین یونیورسٹیز ہیں۔ 
کیا یہ مکافات عمل ہے؟
کیا یہ  میری بد دعا ہے؟
یہ ان میں سے کوئ چیز نہیں۔ لیکن ہمارے تعلیمی ادروں کے کرتا دھرتاءوں کے منہ پہ ایک طمانچہ ہے جو لکھ کر دیا گیا ہے۔ کیا اسکی شدت کسی کو محسوس ہو گی۔ جی نہیں، کسی کو نہیں ہوگی کیونکہ یہ سارے کرتا دھرتا جانتے ہیں کہ کسی میں ہمت نہیں کہ ان سے سوال کر سکے۔ کون کرے گا ان سے سوال وہ جو خود مفاد پرستی کی لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہیں۔ ایک ننگا دوسرے ننگے سے کیا پوچھے گا۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی اپنی سطح پہ ہر ادارے کو کرپشن کے لحاظ سے پاکستان بنایا ہوا ہے۔ جو حشر پاکستان کا ہے وہی ان اداروں کا۔ 
میں تو صرف یہ سوچ رہی ہوں کہ مجھے این ای ڈی انجینیئرنگ یونیورسٹی سے ہمدردی کرنی چاہئیے یا انکے لئے دعا کرنی چاہئیے۔

15 comments:

  1. Sue on them. According to employment law this is crime. At least u can get an interview with geo or express:). Keep trying never loose hope.

    ReplyDelete
  2. افسوس کہ مفاد پرستی اور لوٹ کھسوٹ ہمارے معاشرے کے ہر طبقے میں سرایت کر چکی ہے۔ امید ہے کہ آپ کے لکھے کا کچھ نہ کچھ مثبت اثر ضرور برامد ہو گا۔

    آصف

    ReplyDelete
  3. وہاں میرے وہ بلند باتیں کرنے والے سینیئر اساتذہ بھی موجود تھے جن سے میں نے پڑھا تھا۔ خوش گپیاں چل رہی تھیں۔بروٹس یو ٹو۔ میں نے اپنی حیرانی کو چھپانے کے لئے منہ پھیر لیا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو باہر کی دنیا میں اس کرپشن کا رونا روتے ہیں جو یہاں فرشتے عالم بالا سے آکر کرتے ہیں۔ ان دس لوگوں میں سے کوئ ایک شخص ایسا نہیں تھا جسے احساس ہو کہ وہ وہاں کس کام کے لئے موجود ہیں ..

    ReplyDelete
  4. Samajh nahi aata k kiya likho.
    Gham tu kam karne se raha.
    Magar Aap ke gham me shareek ho gayanho

    ReplyDelete
  5. درج بالا تبصرہ پریویو کی جگہ پبلش کلک کا نتیجہ ہے ۔ ۔ اس تبصرہ کو درج بالا تبصرہ سے ملا کر پڑھیں ۔ ۔ ۔ اس دور میں اخلاقیات کی باتیں صرف کرنے کیلئے ہوتی ہیں ۔ ۔ ۔ عمل کیلئے نہیں ۔ ۔ ۔ چوھدری شجاعت نے کہا ہے کہ اسمبلی ممبرز حلف اُٹھاتے ہی جھوٹ بولتے ہیں اور آپ جانتی ہیں کہ اسمبلی ممبرز کی ایک بڑی تعداد پابند نماز ہے ۔ ۔ ۔ اگر آپ کا کالج میں تقرر ہوجاتا تو آپ بھی اُن دس کے ساتھ گیارویں ہوتیں، کہ ماحول کا یہی تقاضا ہے ۔ بہر حال استثنیٰ سے مُجھے انکار نہیں ہے ۔ ۔ اب اجازت دیں آپکا بُہت شُکریہ ۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. میں تو سسٹم سے باہر ہوں۔ دراصل سسٹم اتنا زیرک ہے کہ اسے ابتداء میں ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ کون اسکے ساتھ بہتر طور پہ چل پائے گا۔ جو سسٹم میں رہ کر بھی نہیں چل پاتا وہ عام طور پہ ڈپریشن کی دوائیں کھاتا ہے اور کبھی ایسی پوزیشن پہ نہیں پہنچ پاتا کہ کسی سیلیکشن بورڈ یا کسی بھی ایسی جگہ کا ممبر بنے جہاں اسے فیصلہ کرنے کا اختیار ہو۔
      نماز روزے اور دیگر مذہبی رسومات کی پابندی کسی اخلاق کی ضامن نہیں۔ جنکی زیادہ ہو انہیں زیادہ شبے میں رکھنا چاہئیے۔
      آپکو اجازت ہے، آپکا بے حد شکریہ۔

      Delete
  6. حیراں ہوں دل کو روں کہ پیٹوں جگر کو میں
    اس تدریس مرحوم کا نوحہ خوب ہے، پروفیشنلزم کا فقدان، تعلیم و تدریس سے لے کر ایوان و مقننہ تک ہر جگہ نظر آتا ہے۔ایچ ای سی کی مشرف دور کی اسکالرشپس کا بہرحال بڑا چرچا رہا اور اسکے حاصل کرنے والے جن میں سے کچھ کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں نہایت قابل افراد تھے جنہوں نے بیرونی ممالک کی یونیورسٹیز سے پی ایچ ڈی مکمل کیا اور کچھ واپس بھی آے۔اس سے اداروں پر اعتماد کا کچھ رجحان بڑا تھا جو آپ کی تحریر پڑھنے کے بعد ڈانوں ڈول ہوتا دکھائ دیتا ہے۔

    این ای ڈی یونیورسٹی کے بارے میں سن کر واقعی افسوس ہوا۔ ہماری ایک قریبی رشتہ دار وہاں ابھی اسکالرشپ پر بیرون ملک پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے بعد اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے پر فائز ہوی ہیں۔ نہایت قابل خاتون ہیں اور ٹیکسٹائل کے شعبے میں انکی کئی عدد بین القوامی پبلیکیشنز بھی ہیں۔ آپ کا تجربہ لیکن اس سلسلے میں خاصامختلف لگتا ہے۔ ایک معتبر تعلیمی ادارے میں اس قسم کی دہری پالیسی اور ہائرنگ کی غیر پیشہ وارانہ روش پر تاسف کا ہی اظہار کیا جاسکتا ہے۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. ہاں جی یہ اسکالر شپس بھی زیادہ تر اندھے کی ریوڑیاں ثابت ہوتی ہیں۔ دکھاوے کے لئے کچھ حقداروں کو مل جاتی ہیں۔ ورنہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس سینے میں بڑے راز جمع ہے۔ لیکن ابھی نہیں۔

      Delete
  7. send this article for newspaper publication as this forum is proabably not suitable for this kind as there are many others peoples who suffer same issue

    ReplyDelete
  8. آپ تو ماشاء اللہ کافی پڑھی لکھی ہیں بھئی، پاکستان میں انسان کی بنیادی ضرورتوں کا جس طرح استحصال ہوتا ہے، اسکا تو جتنا بھی رونا رویا جاے کم ہی لگتا ہے، برحال آپ کے غم میں ہم بھی شریک ہیں، اگرچہ ملک سے باہر رہ کر ملک کے غم میں گھل رہے ہیں، آپ کو بھی مخلاصانہ مشورہ ہے کہ سرکاری نوکری کی فکر چھوڑ کر اپنا کوچنگ سینٹر کھول لیں، گلی گلی میں کھلی پان کی دوکان اور کلینکس کے بعد یہ سب سے منافع بخش کاروبار ہے۔

    ReplyDelete
  9. کوئی بھی یونیورسٹی ، یونیورسٹی کہلانے کی حقدار تب ہی ہے جب وہاں کچھ تحقیق ہو رہی ہو۔ بصورت دیگر اسے سکول کالج ہی تصور کیجیے۔ اس نقطہ سے دیکھا جائے تو ربط میں دی گئی سائٹ پر موجود یہ صفحہ بڑی دلچسپ معلومات کا حامل ہے۔ جس میں تمام جامعات کو تحقیق اور تدریس میں الگ الگ نمبر دیے گئے ہیں۔ اس میں تحقیقی پیداوار کا کالم سب سے دلچسپ اور معنی خیز ہے۔ تحقیق میں ہر جامعہ کو کل چالیس پوائنٹس میں سے نمبر دیے گئے ہیں۔ ایک لمحے کو فرض کرتے ہیں کہ ایچ ای سی کا یہ سروے حقیقی صورتحال پیش کرتا ہے۔ تو اس کالم کی رو سے :
    عمومی زمرے میں قائد اعظم یونیوسٹی اسلام آباد پاکستان میں تحقیق کے لحاظ سے سب سے بہترین یونیورسٹی ہے۔ جو بتیس پوائنٹس کے ساتھ اول نمبر پر ہے۔
    پھر ہے زرعی تحقیق کے شعبہ میں فیصل آباد کی زرعی یونیورسٹی جو تیس تحقیقی پوائنٹس کے ساتھ پاکستان کی دوسری بہترین یونیورسٹی قرار پاتی ہے۔
    آئی ٹی اور کمپیوٹر سائنس جس کا پاکستان میں کافی رولا سننے میں آتا ہے ، اس شعبہ میں تحقیق کے اعتبار سے صرف اسلام آباد کا ایک تعلیمی ادارہ ہی یونیورسٹی کہلائے جانے کے لائق ہے۔ باقی سب پیدل ہیں۔

    مجھے یہ بیان کرتے ہوئے انتہائی لطف آ رہا ہے کہ لاہور کا سب سے پوپٹ تعلیمی ادارہ لمز اپنے شعبہ میں کراچی کے معروف ترین تعلیمی ادارے آئی بی اے کراچی سے بہت بہت بہتر ہے۔ یعنی بزنس کے شعبہ میں لمز چوبیس تحقیقی پوائنٹس کے ساتھ پاکستان کا بہترین بزنس انسٹی ٹیوٹ ہے۔ اور آئی بی کراچی ؟ ... ہاں جی ، اہل کراچی دل تھام کر اپنے پوپٹ کے نمبر سنیں: صرف آٹھ !!
    :)
    اسی پر مزید تفصیل یہ ہے کہ لمز کی طرف سے شائع کردہ ریسرچ پیپرز کی تعداد پینسٹھ ہے۔ جبکہ آئی بی اے کوئی ریسرچ پیپر شائع نہیں کروا سکی۔ تحقیقی سائٹیشن کے مقابلے میں لمز پچاس اور آئی بی اے صفر۔

    پاکستان کے سب بڑے شہر کراچی کی بہترین یونیورسٹی آغا خان یونیورسٹی ہے۔ یہ میڈیکل یونیورسٹی اپنے شعبہ میں تحقیق کے اعتبار سے صرف اٹھارہ نمبر حاصل کر سکی ہے۔ جبکہ لاہور میں اسی شعبہ میں تعلیم دینے والا ادارہ لاہور یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنس تحقیق کے اعتبار سے پچیس نمبر حاصل کرتا ہے۔ لیکن یہاں اگر مزید تفصیل پر کلک کر کے دیکھا جائے تو اعدادو شمار ٹھیک نہیں بیٹھتے اور آغا خان کافی آگے معلوم ہوتی ہے۔

    اب تک کے لئے اتنا ہی کہ اس فہرست سے واضح ہونے والے گورکھ دھندے کو مزید سمجھنے کی کوشش میں ہوں۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. آپ نے تو شاگرد ہونے کا حق ادا کر دیا۔
      :)
      ہم اس سلسلے میں مزید تحاریر لکھنا چاہتے ہیں۔ اسی فہرست میں دیکھیں کہ سندھ کی کوئ یونیورسٹی دس بہترین یونیورسٹیز میں شامل نہیں ہے۔ اس میں کوئ تعصب نہیں ہے بلکہ جیسا کہ ہم پوائینٹس پہ نظر کرتے ہیں سندھ کی یونیورسٹیز کو اس چیز کی فکر ہی نہیں ہے کہ انہیں اپنے اداروں کو بہتر بنانے کے لئے کیا کرنا چاہئیے اور آیا یہ کہ انہیں اپنے ادارے کی کارکردگی کو بہتر بھی بنانا ہے۔
      اس لحاظ سے تعلیمی کارکردگی میں پنجاب کی یونیورسٹیز کہیں بہتر حالت میں ہیں۔ سو تعلیمی کرپشن سندھ میں پنجاب کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
      اب تک کے لئے اتنا ہی۔

      Delete
  10. ایچ ای سی کی سائٹ پر معلومات ذیادہ تفصیل میں نہیں۔ بس ٹیبل بنا کر کام نبٹایا گیا ہے۔ ضروری ہے کہ پوری رپورٹ اور سروے کی تفصیل کا مطالعہ کیا جائے نیز جامعات کی سالانہ ترقیاتی رپورٹ کا مطالعہ بھی ضروری ہے۔ اس اہم موضوع پر مزید تحاریر آپ پر واجب تو ہیں ہی ، ہو سکے تو مذکورہ لنکس بھی ڈھونڈ کر لگائیے۔ میں ورق گردانی میں دلچسپی رکھتا ہوں۔

    آپ خود ہی اس موضوع پر مدت بعد آتی ہیں۔ میں تو کہتا ہوں کہ بلاگ پر دو خصوصی زمرے بنا لیں : ایک تعلیمی زمرہ اور دوسرا جناب ڈوگی کا۔
    :)

    ReplyDelete
  11. پڑھ کر بہت افسوس ہوا :(

    ReplyDelete
  12. کراچی کے تعلیمی ادروں پر تنقید کرنے سے پہلے اہل کراچی کو یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے ...

    جہاں کھاد ڈالو گے وہیں پہ پھول اگیں گے .. بنجر زمین میں تو کانٹے ہی نکلیں گے ....

    کراچی کے تعلیمی اداروں کے ساتھ اپنے بھی برا کرتے ہیں اور غیر بھی ... یعنی صوبائی حکمران بھی اور وفاقی بھی ....

    NED university ابھی تو گروم ہونا شروع ہوئی ہے .. اپنے قیام کے بعد سے ایک دھائی پہلے تک NED میں صرف ٤ یا ٥ فکلٹیز ہوتی تھیں .. وہ تو الله بھلا کرے موجودہ VC کا کے کچھ شعبہ جات بڑھے ہیں ...

    لیکن ابھی بھی پرانے اساتذہ کا قبضہ ہے جو نہ تو خود تحقیق کرتے ہیں اور نہ کرنے دیتے ہیں ....

    یہ بات تو عام مشاہدہ کی ہے کے سینئر اساتذہ اپنے عزیزوں اور گھر والوں کو جاب دلوا دیتے ہیں ....

    لہذا عنیقہ کے ساتھ جو ہوا وہ نیا نہیں ہے ....

    ہمیں یہ مان لینا چاہیے کے تعلیم کا مرکز کراچی سے لاہور شفٹ ہو گیا ہے ...

    اپر سے وفاق اپنے اداروں اور جامعات کے کیمپس سندھ میں نہیں کھولتا ....

    وفاق کے زیر انتظام جامعات میں انتظامیہ اور اساتذہ میں تو چھوڑیں طلبہ میں میں بھی سندھ اور خاص طور پہ کراچی والے ڈھونڈنے سے نہیں ملتے ... اردو یونیورسٹی کو اسلام آباد منتقل کرنے کی کوشش بھی کی گئی ...

    لا محالہ اس صورتحال کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کے کراچی یونیورسٹی جو پاکستان کی بڑی یونیورسٹی ہے اسے بجٹ کم ملتا ہے بلکہ بعض صورتوں میں تو سب سے کم ملتا ہے (جب میں نے اعداد و شمار دیکھے تب کا یہی حال تھا )

    یہ تبصرہ بلاگ پہ نہیں بلکہ تبصروں پہ کیا گیا ہے :)

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ