Wednesday, July 18, 2012

سوشل میڈیا: چیلوں کا میلہ

تصور کریں کہ ایک شخص جو کہ اس ملک کے کسی مضافاتی علاقے میں رہا ہو جہاں زندگی کی اشد ضرورت کی اشیاء بھی نایاب ہوں۔ جس نے کبھی کسی فائیو اسٹار ہوٹل کی شکل نہ دیکھی ہو، کبھی سگریٹ پیتی عورت سے بہ نفس نفیس ملاقات نہ کی ہو، کبھی ایک عورت کو ایک مرد سے معانقہ کرتے نہ دیکھا ہو بلکہ کسی عورت کا گھر سے باہر نکلنا ہی شدت سے برا سمجھتا ہو۔ اسے آپ اچانک ایسی تقریب میں پہنچا دیں جہاں اسکی دنیا کی یہ ساری قباحتیں موجود ہوں، جن کا اس نے زندگی میں تصور تک نہ کیا ہو۔
  مزے کی بات یہ ہے کہ تقریب کا نام تو سوشل میڈیا میلہ ہو جو پاکستان کے حوالے سے ہو۔ لیکن اس میں صرف وہ لوگ چھائے ہوں۔  جو اس ملک کے عام آدمی کی زبان نہیں بولتے۔ اسکے مسائل سے صرف اتنی دلچسپی رکھتے ہیں کہ اسے کسی اور جگہ استعمال کر کے اپنی دولت اور شہرت میں اضافہ کیا جا سکے۔ کیا یہ بے حسی، سفاکی اور خود غرضی کا دوسرا نام نہیں۔
سوشل میڈیا میلہ کے نام سے یہ تقریب کراچی میں  منعقد ہوئ۔ جس میں ایک اطلاع کے مطابق شہر کے اشرافیہ اور امریکی سفارتخانے کے عہدے داروں نے شرکت کی۔ میں اس میں نہیں گئ مجھے اس طبقے کے رنگ ڈھنگ معلوم ہیں۔ میں یہ بھی جانتی ہوں کہ عام طور پہ یہ تقریبات اشرافیہ کے بیرون ملک  عہدے داروں سے تعلقات کو بڑھانے کے لئے منعقد ہوتی ہیں۔ اس میں تالیاں بجانے کا کام میں کیوں کروں؟ اس لئے اس ترغیب کے باوجود کہ اس میں اردو زبان کے حوالے سے بھی کوئ سیشن رکھاجائے گا میں نہیں گئ۔ 
مجھے اس چیز سے، اس منافقت سے بڑی تکلیف ہوتی ہے کہ جس سوشل میڈیا کو تبدیلی کا اہم ذریعہ سمجھا جا رہا ہے اسکے کرتا دھرتا انگریزی کے علاوہ کسی زبان کو اہمیت دینے کو تیار نہیں۔ پاکستان میں سوشل میڈیا کیوں کوئ موئثر کردار ادا کرنے سے قاصر ہے اس لئے کہ یہ سوشل نہیں ہے۔ ایک گیند مخصوص حلقوں میں گھومتی رہتی ہے۔ اللہ اللہ خیر صلا۔
حالانکہ ہمارے یہ کرتا دھرتا اتنے وسائل رکھتے ہیں کہ چاہتے تو گوگل کو اردو سپورٹ کے لئے مجبور کروالیتے آخیر گوگل فارسی، عربی حتی کہ تیلگو زبان تک کو سپورٹ کرتا ہے۔ 
یہی نہیں یہ سارے کرتا دھرتا در حقیقت دل سے یہ چاہتے ہی نہیں کہ ایک عام آدمی کو درپیش مسائل حل ہو جائیں یا وہ اسکے حل میں اپنا حصہ ڈال سکیں حالانکہ ان میں سے ہر ایک اتنی اہلیت اور وسائل رکھتا ہے کہ یہاں تبدیلی کا سیلاب آجائے۔ لیکن ایسی تبدیلی کا کیا فائدہ کہ ان میں اور عام آدمی میں برسوں کی محنت سے ٹہرایا ہوا فرق کم ہو جائے۔
 یہ اشرافیہ جن میں ہمارے دانشور بھی شامل ہیں، فکشن لکھنے والے بھی شامل ہیں اور اپنے لکھے پہ دنیا سے انعامات لینے والے بھی شامل ہیں، دستاویزی فلمیں بنانے والے بھی شامل ہیں، این جی اوز سے تعلق رکھنے والے بھی شامل ہیں۔
یہ سب لوگ، اسی عام آدمی کی وجہ سے اپنی زندگیوں میں رنگینی حاصل کرتے ہیں۔ اگر انہیں ہم اپنی زندگی کے دکھ نہ سنائیں تو یہ کون سا فکشن لکھیں گے۔ اگر ہم اپنے مسائل کو حل کرنے کی قوت حاصل کر پائیں تو یہ انہیں دور کرنے کے لئے کہاں سے غیر ملکی امداد حاصل کریں گے۔ ہم اور ہماری تکلیفیں انکے لئے خوش قسمتی کے دروازے کھول دیتی ہیں لیکن اس کے باوجود جب یہ ہمارے سامنے کبھی اتفاقاً آکر کھڑے ہوتے ہیں تو یہ کیوں اس بات کی علامت بنے رہتے ہیں کہ یہ ہم میں سے نہیں۔ البتہ یہ ہمارے مسائل کے حل کے لئے کوشاں ضرور ہیں۔ کتنے عظیم لوگ ہیں جو ہم بے چاروں کو شعور دینا چاہتے ہیں، ہمیں ایک آسان زندگی دینا چاہتے ہیں، ہمیں بنیادی انسانی حقوق دلوانا چاہتے ہیں لیکن ان کا ہم سے کوئ تعلق نہیں ہے۔ وہ جو کچھ بھی کر رہے ہیں یہ ان کا ہم پہ اور اس معاشرے پہ احسان ہے۔
ایسی تقریبات میں جان بوجھ کر پیدا کیا جانے والا طبقاتی فرق مجھے انتہائ مکروہ لگتا ہے۔ مجھے ذاتی طور پہ نہ بغیر آستین کے کپڑوں سےخار ہے۔ اگر میرا رنگ خوب سفید ہوتا تو شاید میں بھی کبھی کبھار پہن لیتی۔ نہ ہی مجھے خواتین کا سگریٹ پینا عجیب لگتا ہے دیہاتی عورتیں بھی پیتی ہیں، حتی کہ میں ان عورتوں اور مردوں کو بھی نظر انداز کر دیتی ہوں جو ایکدوسرے کو خوش آمدید کہنے کے لئے معانقہ کرتے ہیں۔ یہاں دیہاتوں میں عورت اور مرد مصافحہ کرتے ہیں۔
لیکن مجھے اس چیز پہ حیرت ہوتی ہے کہ اسی معاشرے میں جہاں ایک انتہا یہ ہوتی ہے کہ عورت دس گز کے برقعے میں بھی باہر نہیں نکل سکتی وہاں دوسری انتہا یہ ہوتی ہے کہ خواتین سگریٹ ہاتھ میں دبائے، کھلے ڈلے کپڑے پہنے کسی مرد سے گلے مل رہی ہوتی ہیں۔ خواتین کے اس انداز پہ بھی مجھے اعتراض نہیں۔ ایک شخص اپنے لئے جو چاہے پسند کرے۔ اپنی ذاتی زندگی جیسے چاہے گذارے۔  لیکن طرہ یہ ہوتا ہے کہ یہ خواتین اس ملک کی پسی ہوئ خواتین کے حقوق کی بات کرتی ہیں۔ ایک عام آدمی لازماً یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ ہماری عورت جب دس گز کے برقعے سے باہر نکلے گی تو یہ عورت بن جائے گی۔ یہ عورت جو اسکے نزدیک بے حیاء عورت ہے۔ اس سے انکے کاز کو کوئ فائدہ نہیں پہنچتا۔ سوائے اسکے کہ انکا یہ لباس طبقاتی فرق کو قائم رکھنے میں معاون ہوتا ہے وہ کسی بھی مثبت مقصد کے لئے ایک رول ماڈل نہیں بنتیں۔ ایک ایسا رول ماڈل جسے دیکھ کر ایک کمزور عورت یہ سوچے کہ اگر میں کوشش کروں تو ایسی عورت بن سکتی ہوں، ایسی زبردست صلاحیتوں والی عورت۔ البتہ یہ کہ وہ اپنے سر کا اسکارف اور کس کے باندھ لیتی ہے۔
اس جگہ پہ آ کر ہمیں اپنی سرحد متعین کرنی پڑے گی۔ کیا ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس ملک کی عورتیں تعلیم حاصل کریں، معاشی استحکام حاصل کریں، اپنی زندگی پہ اپنا اختیار حاصل کریں، اپنے فیصلے خود کرنے کی قوت حاصل کریں۔ صحت حاصل کریں، بچے کتنے پیدا کریں گی یہ حق حاصل کریں، یا ہم یہ چاہتے ہیں کہ وہ سگریٹ۔ پیئیں، شراب پیئیں، کم کپڑے پہنیں، مردوں کے برابر اس طرح ہوں کہ انکے گال چومیں یا گلے لگیں۔
اسی طرح کیا ہم یہ چاہتے ہیں کہ اس ملک میں معیاری اور بنیادی تعلیم سب کا حق ہو یا ہم یہ چاہتے ہیں کہ چونکہ ہم بہتر معاشی حالت رکھتے ہیں اس لئے ہمارے بچے تو معیاری تعلیم حاصل کر لیں لیکن جو نہیں کر سکتے ہیں ہم انکا مذاق اڑائیں۔ حالانکہ انکا نہ کر پانا اس فرسودہ نظام کی وجہ سے ہے جسکی وجہ سے ہم مضبوط اور وہ کمزور ہیں۔ ہم خود ہی اس ملک میں کئ طرح کے تعلیمی طبقات بنائیں۔ کسی کواردو میڈیئم گورنمنٹ کے ناکارہ اسکول دیں کسی کو انگلش میڈیئم اعلی اسکول عنایت کریں۔ اور پھر اردو میڈیئم کو حقارت سے دیکھیں اور ان سے دور خود صرف اس لئے اڑے اڑے پھریں کہ انگلش بول سکتے ہیں لکھ سکتے ہیں چاہے اسکے علاوہ ککھ نہ جانتے ہوں۔
اسی طرح بحیثیئت ایک لبرل پاکستانی کیا ہم اس ملک میں اس بات کی آزادی کے خواہشمند ہیں کہ ہم میں سے ہر ایک اپنے مذہب پہ آزادی سے عمل کر سکے، بلا تفریق، مذہب، جنس، زبان، اور نسل کے ہم میں سے ہر ایک کو تعلیم کا اور صحت کا حق حاصل ہو، ہم میں سے ہر ایک کے  پاس با عزت روزگار ہو، ملک کا قانون ہر ایک شہری کو برابر کی نظر سے دیکھے اور اس کے فیصلوں پہ عمل در آمد ہو، ہر شہری کی جان ، مال اور عزت محفوظ ہو۔ ہم دنیا میں دہشت گرد ملک کے طور پہ نہ پہچانے جائیں، ہمارے لوگ خود کو بموں سے نہ اڑائیں ہم بات بے بات جان لینے اور جان دینے پہ نہ تیار رہیں۔ ہمارے یہاں درجنوں لوگ روزانہ بے گناہ تاریک راہوں میں نہ جان گنوائیں۔ ہماری عورتوں کے ساتھ اجتماعی زیادتی نہ ہو۔ ایک عورت کو باہر نکلنے ، چلنے پھرنے زندگی برتنے کی آزادی ہو۔ یا ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمیں بس شراب پینے کی آزادی ہو۔
ہمارے اس طبقے کو جو انگریزی بولتا ہے سمجھتا ہے اور انگریزی میں اظہار کرنا پسند کرتا ہے اورمزید یہ کہ اپنے آپکو دانشور سمجھتا ہے، سمجھتا ہے کہ مسائل کی وجوہات اور صحیح حل اسے معلوم ہیں۔ اسے یہ بھی تو طے کرنا چاہئیے کہ آخر انکا کاز درحقیقت ہے کیا۔ 
اب وقت آگیا ہے کہ ہمارے ملک میں تبدیلی کا ڈھول پیٹنے والے سوچیں کہ دراصل وہ  کیا چاہتے ہیں؟ 
بہرحال انکے چاہنے سے الگ، سوشل میڈیا کسی کے اشاروں پہ نہیں چل سکتا۔ یہ عام آدمی سے چلتا ہے اور اگر کوئ اسے اپنے اشاروں پہ چلانا چاہتا ہے تو اسے عوامی بننا پڑے گا۔ یہی دیوار کا لکھا ہے۔
 

14 comments:

  1. اردو بلاگنگ پچکاں پیشتر اس سے کہ مظلوم طبقہ ہی پچک جائے۔

    ReplyDelete
  2. کم از کم سوشل میڈیا کی حد تک طبقہ اشرافیہ ایک حد سے ذیادہ قابض نہیں ہوسکتا۔ آخر کو اس کی لگامیں افرد کے ہاتھوں ہی میں ہیں۔ ہمارے ہاں یہ مسئلہ انگریزی اردو کے فرق کی وجہ سے ذیادہ گھمبیر ہے۔ ورنہ جن ممالک میں یہ جھنجھٹ نہیں وہاں دونوں طبقات متوازی چل رہے ہیں۔

    ایک سائیڈ ایشو جس پر میں رائے دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ کہ وزن کو معیار بنا کر اگر یہ کہا جائے کہ فلاں کپڑے مجھ پر سوٹ کریں گے یا نہیں تو قابل فہم اور قابل قبول ہے۔ لیکن ایک فطری اثاثہ یعنی رنگت کو بنیاد نہیں بنانا چاہیے تھا۔ کم از کم ایک لبرل انٹلیکچوئل کے لئے یہ قطعی قابل قبول نہیں۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. میں نے یہ تو نہیں کہا کہ چونکہ میری رنگت ایکدم سفید نہیں تو میں خوب صورت نہیں۔
      :)
      یہ ایک دم بات برائے بات ہی ہے۔ میرا خیال ہے کہ سلیو لیس پہننے کی خواہش شاید مجھ میں اس وقت زیادہ ہوتی جب ایسا ہوتا۔ کیونکہ ایسا سوچتے وقت میں ایک دم ایک عام عورت کی مانند سوچ رہی تھی۔
      ہمارے ملک میں بھی اس طبقے کو سیدھی راہ پہ آنا پڑے گا اور انگریزی اردو طبقاتی فرق کو ختم کرنے کے لئے تعلیمی نظام میں تبدیلیاں لانی پڑیں گی۔

      Delete
  3. بہت زبردست تحریر، لفظ لفظ سے اتفاق ہے۔

    ReplyDelete
  4. اس پورے وقوعہ کی داستان فہد کہر کے بلاگ پر بڑھی تھی اور ایک تبصرہ یہاں۔ میرے دو سوال ہیں
    اول۔ اگر طبقہ اشرافیہ سوشل میڈیا ہائی جیک کررہا ہے تو متبادل اجتماعات کے سلسلے میں کیا کوششیں کی گئی ہیں؟
    دوم۔ کیا اپر مڈل، اعلی تعلیم یافتہ لوگ بھی اب طبقہ اشرافیہ مانے جاتے ہیں ؟

    باقی یہ سوچنا کہ لبرل ہونے کا تعلق آنسائی تمباکو نوشی ، الباس المختصر ، مشروب ٘مغرب اور بولی یا سمجھی جانے والی زبان سے ہے تو شاید سب کچھ ہی غلط ہوگیا ہے یا شاید سوشل میڈیا سے پہلے پروگریسو سوچ ہی جاگیرداروں کی نئی نسل نے ہائی جیک کرلی ہے۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. آپکے سوالات تو تحقیق کا ایک باب چاہتے ہیں۔
      طبقہ ء اشرافیہ سوشل میڈیا ہائ جیک کرنے کی کوشش کر سکتا ہے وہ بھی انکے سامنے جن سے انہیں فنڈز یا دیگر فوائد حاصل ہونے کی توقع ہو۔ اس میں مکمل کامیابی انکی دسترس سے باہر ہے۔
      عمومی طور پہ یہ اجتماعات جب منعقد ہوتے ہیں تو ان کا مقصد عام طور پہ اس طبقے کی نئ نسل کے لئے نئ مصروفیات تلاش کرنا ہی نظر آتا ہے۔ باہر سے جو فنڈرز آتے ہیں انہیں انکے ذریعے کام کرنا آسان لگتا ہے یا وہ سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ انکے مقاصد کو زیادہ بہتر طور پہ حاصل کر پائیں گے۔
      اجتماعات کا انعقاد بہت ضروری نہیں ہے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ اردو کے سلسلے ہی میں جتنا سوشل میڈیا اس سلسلے میں ایکٹو ہوچکا ہے اسے اجتماعات کی ضرورت نہیں پڑی۔ یہی سوشل میڈیا کی خوب صورتی معلوم ہوتی ہے۔
      لیکن جب کبھی ایسے اجتماعات اب تک منعقد ہوئے ہیں اسی طبقے کی طرف سے ہوئے ہیں اور اسی طرح ہوئے ہیں۔ خیر سوشل میڈیا سے الگ ابھی کچھ عرصے پہلے لٹریچر فیسٹیول ہوا اسکی نوعیت بھی کچھ ایسی ہی رہی۔ حالانکہ اس میں کوئ امریکی سفارت کار موجود نہیں تھے۔
      بظاہر یہ کہ انکے پاس اس طرح کے اجتماعات کرنے کے وسائل ہیں، وہ جانتے ہیں کہ لائم لائٹ میں آنے کے لئے اس طرح کی انویسٹمنٹ ضروری ہیں، لائم لائیٹ میں آنے کا مقصد محض دل پشوری نہیں ہوتا۔
      اپر مڈل کلاس کے اعلی تعلیم یافتہ لوگ کیا طبقہ ء اشرافیہ مانے جاتے ہیں؟
      یہ سوال بھی میرے لئے تو پیچیدہ ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ اپر مڈل کلاس طبقہ ء اشرافیہ سے تعلق میں فخر محسوس کرتی ہے۔ اور خواب دیکھتی ہے کہ ایکدن وہ اس طبقے میں اس طرح گھل مل جائے گی کہ اسے بھی وہی عزت حاصل ہوگی جو طبقہ ء اشرافیہ کو ہے۔ یا شاید کہ طبقہ ء اشرافیہ کے طفیل اسے بھی کچھ نہ کچھ مرتبہ مل جائے گا۔ یعنی تعلق ایک بوجھ نہیں بلکہ شارٹ کٹ ہوتا ہے۔ ادھر طبقہ ء اشرافیہ اپر مڈل کلاس سے تعلق کو ایسے ہی سمجھتا ہے کہ عوام سے تعلق پال لیا ہے۔ اس لئے یہ ایک سمبیوٹک تعلق بن جاتا ہے۔ کوئ بھی طبقہ مکمل آئیسولیشن میں نہیں رہ سکتا۔
      لبرلزم، پاکستان میں بڑی عجیب صورت رکھتا ہے۔ اسکی وجہ شاید یہ ہو کہ لوگ بنیادی طور پہ سوائے اسلامزم کے اور کسی ازم سے زیادہ واقف نہیں۔ یوں اسلمزم پہ یقین رکھنے والا بھی لبرلزم کو انہیں معنوں میں لیتا ہے جن معنوں کو آپ نے یہاں بیان کیا ہے۔ بلکہ وہ لوگ جو لبرل ہونے کا دعوی کرتے ہیں انکی اکثریت بس یہی کچھ کرتی نظر آتی ہے۔ یایہ کہ حاوی طبقہ لبرلزم کا اپنی سرگرمیوں کے لئے پردے کے طور پہ استعمال کرتا ہے۔ اور حقیقی لبرلزم سے وہ خود بھی نا آشنا ہے۔ جاگیرداروں کی نئ نسل یہی پروگریسو سوچ لے سکتی ہے کیونکہ اس سے زیادہ کی وہ ہمت نہیں نہیں کر سکتی۔

      Delete
  5. پاکستان میں ماڈرن ازم ہی کو لبرل ازم کے معنوں میں لیا جاتا ہے۔ درحقیقت پاکستان میں کوئی لبرل طبقہ وجود نہیں رکھتا۔ محض کچھ افراد ہوسکتے ہیں۔

    ReplyDelete
  6. "ہیں۔ خواتین کے اس انداز پہ بھی مجھے اعتراض نہیں۔ ایک شخص اپنے لئے جو چاہے پسند کرے۔ اپنی ذاتی زندگی جیسے چاہے گذارے۔ لیکن طرہ یہ ہوتا ہے کہ یہ خواتین اس ملک کی پسی ہوئ خواتین کے حقوق کی بات کرتی ہیں۔ "

    yeah kiya baat hui? aakhar ko yeah khawateen bhi dosri khawateen ku azadi dilana chahti hain is main konsa asool mutasar huta hai?

    ReplyDelete
    Replies
    1. یہ طے کرنا پہلے ضروری ہے کہ ہماری خواتین کے بنیادی مسائل کیا ہیں، ہمارے معاشرے کی بنیادی ساخت کیا ہے اور ہم ان خواتین کے لئے کیا چاہتے ہیں۔ اسکے بعد دوسرا قدم یہ ہوگا کہ جب ہم اس معاشرے میں خواتین کے لئے نئے کردار متعین کرنے کی بات کرتے ہیں تو انہیں کوئ سمت تو دکھائیں گے یا نہیں۔ یہ سمت دکھانے والا اپنے آپکو کس طرح پیش کرتا ہے اسکی ایک پسماندہ معاشرے میں بڑی اہمیت ہے۔ دعوت دینے والا اگر اپنے آپکو سادگی سے پیش کرنے کی قربانی نہیں دے سکتا تو پھر وہ اس کاز کے لئے کام کرنے کا مستحق نہیں۔ ایک مثال بھٹو کی دیکھتے ہیں۔ ذولفقار علی بھٹو اپنی ذاتی زندگی میں خاصہ نفیس شخص تھا۔ لیکن مردوں کو شلوار قمیض جیسا لباس دینے والا لیڈر بھی وہی تھا۔

      Delete
  7. aaj tabiyat zara nasaaz lagti hai..

    ReplyDelete
  8. " اگر طبقہ اشرافیہ سوشل میڈیا ہائی جیک کررہا ہے تو متبادل اجتماعات کے سلسلے میں کیا کوششیں کی گئی ہیں؟
    "

    wu nahin karna..siraf iteraaz karna hai ya bomb maarnay hain

    ReplyDelete
  9. یہ جاگیرداروں یا ان کی نئی نسل کا لبرل افراد سے کیا تعلق؟

    ReplyDelete
    Replies
    1. کوئ تعلق نہیں ہے۔ جاگیردار کسیے لبرل ہو سکتا ہے۔ لیکن جیسا کہ ہم بار بار ایک بات کہہ رہے ہیں اور وہ یہ کہ جس طرح اسلام کا ڈھنڈھورا پیٹنے والے کچھ علاتیں اپنا لیتے ہیں جیسے دارھی، ٹخنوں سے اونچی شلوار، عربی لہجہ، برقعہ اسی طرح لبرلزم کا شور اٹھآنے والے بھی کچھ علامتوں کو اپنا لیتے ہیں۔ جاگیرداروں کی نئ نسل اپنی کمزوریوں اور مفاد پرستی کو لبرلزم کے پردے سے ڈھک لیتی ہے۔

      Delete
    2. "جس طرح اسلام کا ڈھنڈھورا پیٹنے والے کچھ علاتیں اپنا لیتے ہیں جیسے دارھی، ٹخنوں سے اونچی شلوار، عربی لہجہ، برقعہ"

      امید کرتا ہوں آپ تمام داڑھی رکھنے والوں، ٹخنوں سے اونچی شلوار، عربی لہجہ، برقعہ والیوں کو "ظاہر میں کچھ اور اور باطن میں کچھ اور" نہیں سمجھتی ہوں گی۔

      Delete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ