Tuesday, June 9, 2009

لاگ اور لگاءو

تھائ لینڈ میں میری دلچسپی تھائ کھانوں کی وجہ سےیا ان کے شاہی نظام حکومت کی وجہ سے رہی تھی۔ بادشاہوں سے ہمارا لگاءو شاید اس وجہ سے بھی ہوتا ہے کہ ہم برصغیر پاک و ہند کے رہنے والے جنہیں اب لوگ جنوبی ایشیائ کہنے لگے ہیں۔ بچپن میں جب کہانیاں سنتے ہیں تو وہ اکثر اس طرح شروع ہوتی ہیں کہ ایک تھا بادشاہ۔ ہمارا تمہارا خدا بادشاہ۔ جیسے جیسے شعور کی منازل طے کیں تو اس بات کو ہضم کرنے میں بڑا ٹائم لگا کہ کہانی بادشاہ کے بغیر بھی شروع ہو سکتی ہے۔

ہاں تو جب میں نے تھائ ائر لائن کی پرواز نمبر فلاں فلاں پہ قدم رکھا تو سب سے پہلے ان کی ائر ہوسٹس اور انکی یونیفارم پہ فدا ہوئ۔ پھر ان کی سروس پہ۔ تھائ لینڈ کے شہر پھوکٹ پہنچنے کے بعد اندازہ ہوا کہ تھائ کسقدر صفائ پسند اور معمولی چیزوں میں سے بھی تزئین کی جدت نکالنے والے لوگ ہیں ۔ یہاں کی روزانہ بارش خوبصورت آرکڈ کے پھولوں کے لئیے بہت سازگار ہے جن کے گملے ہر جگہ ٹنگے ہوئے نظر آتے ہیں۔اتنی بارش کے باوجودشہر اانتہائ صاف ۔دھلی دھلائ سڑکیں، ہر طرف سبزہ اور ہاتھیوں کے ہر طرح کے مجسموں کے ساتھ زندہ ہاتھی چہل قدمی کرتے نظر آجاتے ہیں۔ سمندر سے گھرا، سیاحوں کو خوش آمدید کہتا یہ شہر مجھے بےحد پسند آیا۔

لیکن جس چیز سے تکلیف ہوئ۔ وہ ان کی اپنی زبان تھائ سے محبت ہے۔ کسی سپر اسٹور میں چلے جائیں یا مقامی جمعہ بازاروں میں ہر چیز پر تھائ لکھی ہوتی ہے۔ اپنی ضرورت کی چیز چھٹی حس کو استعمال کر کے، چیز کی شکل صورت دیکھ کر، یا کہیں کہیں انگریزی میں لکھے چند الفاظ کی مدد سے ہی خریدی جا سکتی ہے۔ اور پھر بھی شک رہتا ہے کہ یہ وہی ہے جو ہمیں چاہئیے تھا۔تھائیوں کو فخر ہے کہ وہ کبھی کسی کے غلام نہیں رہے۔ اس لئے وہ بغیر انگریزی استعمال کئے ہم سے زیادہ تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔

اس سفر کے دوران ایک دفعہ ہم ایک ریسٹورنٹ میں کھانے کے لئے بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے مینو پہ کافی تفصیلی غور وخوض کے بعد پائن ایپل رائس آڈر کئے۔ تھائ لینڈ میں ، میں تھائ کھانوں سے اتنا لظف اندوز نہ ہو سکی کیونکہ اب آپ کو حلال اور حرام بھی دیکھنا پڑ جاتا ہے حلال کھانے آسانی کے ساتھ بوٹنگ کے دوران مل سکتے ہیں کیونکہ سمندر سے منسلکہ کاروبار پہ مسلمان چھائے ہوئے ہیں۔
خیر، سب لوگوں کا کھانا آگیا۔ مگرمیرے چاول غیر حاضر۔جب سب اپنا ایک تہائ کھانا کھا چکے تو ویٹر میرے پاس آیا ۔ اسکی ٹوٹی پھوٹی تھائ آمیز انگریزی سے میں نے اندازہ لگایا کہ وہ کہ رہا کہ فرائیڈ رائس نہیں ہیں۔ میں نے اس سے کہا کہ میں نے پائن ایپل رائس منگوائے تھے فرائیڈ رائس نہیں۔ اس نے پھر کچھ کہنے کی کوشش کی اور اب کی بار مجھے صرف پائن ایپل کے کچھ سمجھ نہ آیا۔ اور میں نےاندازے سے اسے او کے کہہ دیا۔ اب پھر انتظار کی گھڑیاں شروع ہوئیں۔ سب لوگ اپنے کھانے کے اختتام پہ پہنچنے والے تھے اور میں سوچ ہی رہی تھی کہ اپنا آڈر کینسل کروادوں کہ وہ ویٹر ایک بڑی سی ٹرے میں ایک پائن ایپل لے آیا اور لا کر بڑے سلیقے سے میرے سامنے رکھدی۔ میں بالکل حیران ہوگئ تو گویا اتنے انتطار کی کلفت اٹھانے کے بعد مجھے یہ انناس کھانے کو ملے گا۔ اور یہ موصوف شاید مجھ سے فرما رہے تھے کہ چاول تو ہیں نہیں پائن ایپل البتہ موجود ہے۔ میں نے جھنجھلا کر کہا یہ کیا ہے، مجھے کھانا چاہئے۔ اب پھر ایک عجیب سی زبان، جس سے میں نے یہ معنی اخذ کئے کہ آپ نے یہی تو منگوایا تھا۔ میرے ساتھی نے کہا۔ اب آپ اسے اپنےہوٹل لے چلیں اور رستے میں کچھ اور کھا لیجئیے گا۔ 'کیا مطلب میں اس ریسٹورنٹ میں یہ انناس خریدنے آئ تھی اتنا مہنگا انناس۔ میں اسے کہیں نہیں لے جا رہی '۔ پھر میں نے اس ویٹر سے کہاں براہ مہربانی اےسے لے جائیں مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ اب وہ کچھ گومگوں حالت میں کھڑا تھا۔ یہ سارا منظر ہمارا تھائ ڈرائیور ذرا فاصلے سے دیکھ رہا تھا۔ وہ میرے پاس آیا کہ کیا ہوا ہے۔ قصہ مختصر اس کی انگریزی بھی اتنی اچھی نہ تھی لیکن اس ویٹر سے بہتر تھی۔

ان دونوں نے اس موضوع پر تھائ میں تبادلہء خیال کیا کہ ان خاتون کو یعنی مجھے کیا مسئلہ ہے۔ اس تفصیلی گفت و شنید کے بعد ویٹر آگے بڑھا اور اس نے اس انناس کو ہاتھ لگایا۔ انناس کا اوپری حصہ ہٹا اندر اس کے خا لی حصے میں پائن ایپل فرائیڈ رائس بھرے ہوئے تھے۔ اور ان پہ چھ جمبو جھینگے رکھے ہوئے تھے۔میرا منہ کھلا اور پھر بند ہوگیا۔ ویٹر اپنے حصے کی معذرت وصول کرنے کے بعد مسکراتا سینے پہ ہاتھ رکھے رخصت ہو گیا۔ چاول بے حد مزیدار تھے۔ لیکن میں اس دن، سارا دن ان کی مہارت کی داد دیتی رہی اور شرمندہ ہوتی رہی۔ کتنی مہارت سے انناس جیسے مشکل پھل کو کاٹا تھا کہ ذرا نہ پتہ چل رہا تھا کہ یہ کٹا ہوا انناس ہے۔ غالب نےصحیح کہا ہے،

لاگ ہو تو اس کو ہم سمجھیں لگاءو
جب کچھ بھی نہ ہو تو دھوکا کھائیں کیا

ریفرنس؛

پھوکٹ، تھائ لینڈ

4 comments:

  1. ایک ٹائپنگ کی غلطی کی نشاندہی

    ئ + ی ۔ ئی

    جیسے تھائی ، تہائی

    ReplyDelete
  2. عمار بھئ ایسی غلطیاں بے شمار ،ملیں گی۔ اب سے دو مہینے پہلے تک میں اردو ٹائپنگ صرف اپنے افسانوں کے لئے کیا کرتی تھی اور وہ بھی ان پیج میں۔ پچھلے دو مہینوں میں خاصی پریکٹس ہوئ ہے۔ لیکن یہ کی بورڈ جو میں نے کرلپ کا استعمال کیا ہے اس کے ساتھ مجھے مسائل ہیں۔ اپنے محدود وقت کی وجہ سے اس پر توجہ نہیں دے پا رہی ہوں۔ امید ہے کچھ عرصے اسے برداشت کریں گے۔

    ReplyDelete
  3. عمار، ویسے میرے پاس یہ بالکل صحیح آرہا ہے ہو سکتا ہے کہ آپ کے ساتھ کچھ مسئلہ ہو۔ کیونکہ میں دیکھتی ہوں کہ جب میں دوسرے بلاگ کے اردو ایڈیٹر استعمال کرتی ہوں تو کچھ حرفوں کی ترتیب صحیح نہیں آتی ہے۔ جیسے حلوے والی ح میرے پاس لوئر کیس میں آتی ہے جبکہ اردو ایڈیٹر میں یہ اپر کیس میں آتی ہے۔

    ReplyDelete
  4. ہمارے ہاں تو دکاندار کسٹمر کو ایسے ٹریٹ کرتا ہے جیسے اچھوت ہو
    پیسے دے کر ذلیل ہونے والی بات ہے
    باہر کے لوگوں کو کاروبار کرنے کی عقل و سمجھ ہے
    آپ کرلپ کی بجائے فونیٹک کی بورڈ استعمال کریں تو خاصی آسانی رہے گی
    بہت فرق نہیں لیکن اردو بلاگز پر موجود کی بورڈ لے آوٹ سے ملتا جلتا ہے تو ٹائپنگ کی غلطیاں کم ہوتی ہیں

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ