Friday, June 26, 2009

تیری رسوائیوں سے ڈرتا ہوں


چلئیے۔
آج کچھ ادھر ادھر چلتے ہیں۔ یہ آج سے کچھ سال ادھر کی بات ہے۔ میں سانگھڑ کے ایک مضافاتی گاءوں میں موجود ہوں۔ جہاں پہنچنے کے لئیے ہمیں پہلے فور وھیل ڈرائیو کرنی پڑی۔ اور پھر کشتی کے ذریعے ایک جھیل کو پار کیا اور ریت کے ٹیلوں پر سے پھسلتے چڑھتے ہم بالآخر ایک گاءوں کی اوطاق تک جا پہنچے۔ یہاں موجود پندرہ بیس گھر سب کے سب مٹی کے گارے اور گھاس پھونس کی مدد سے بنائے گئے تھے۔ قریب میں موجود ایک ہینڈ پمپ سے پانی لیا منہ ہاتھ دھو کر جب آنکھوں سے مٹی صاف ہوئ تو احساس ہوا کہ کچھ گھر بالکل نزدیک ہیں۔ ابھی کھانا آنے میں وقت تھا اس لئے میں اٹھی۔ اپنا بیک پیک اٹھایا اور ایک گھر کی طرف چل پڑی کہ خواتین سے ملاقات کرکے آجاءوں۔

ایک گھر میں داخل ہوئ تو مجھے دیکھتے ہی ایک عورت جلدی سے ایک سندھی رلی نکال کر لے آئ اور لپک کر اسے چارپائ پر بچھا دیا۔ میں اسے منع کرتی رہ گئ کہ مجھے کھری چارپائ پر بیٹھنے میں کوئ اعتراض نہیں لیکن اسے اردو آتی نہ تھی اس لئے اس نے میری بات پہ کوئ دھیان نہ دیا۔ کمرے میں ایک دیوار پہ پیر پگارا کی تصویر لگی ہوئ تھی۔ یہ ان کا علاقہ ہے اور علاقے کے لوگ انکے معتقد ہیں۔ تھوڑی دیر ہم ایکدوسرے کو دیکھتے رہے۔ پھر میں نے اپنی سندھی آزمائ جوکہ بولنے کے ضمن میں بمشکل پچاس الفاط پر مشتمل ہے۔ البتہ سمجھ خاصی آجاتی ہے۔ اس نے مجھے سندھی بولتے دیکھا تو حیران ہوئ۔ تم کہاں سے آئ ہو۔ میں نے جواب دیا۔ کراچی سے۔ وہ بالکل ٹھٹھک گئ۔ کیا پنجابی ہو۔میں ہنسی, اپنے حلئے پر نظر ڈالی ایک مثالی سکنہ کراچی۔نہیں تو سندھی ہوں۔ نہیں کراچی میں تو پنجابی رہتے ہیں۔ اس نے بھی ہنس کر جیسے میری بات ہنسی میں اڑائ۔ نہیں سب پنجابی نہیں ہوتے۔ میں نہیں ہوں ۔ اچھا تمہاری ذات کیا ہے؟ اس نے جیسے امتحان لیا۔سندھ میں ذات کی بڑی اہمیت ہے۔ اب میں پھر مسکرائ۔ میں پٹھان ہوں۔ سندھی تو پٹھان نہیں ہوتے اس نے بڑی معصومیت سے کہا۔ آگے کی گفتگو کا کیا تذکرہ کہ میں نے کیسے پچاس الفاظ سے اسکا دل موم کیا۔ لیکن یہ ضرور سوچا کہ پنجابی ہونے کے ذکر پہ وہ اس قدر تذبذب میں اور کھنچی ہوئ کیوں تھی۔

اس بات کو ایک وقت گذر گیا اب ایک نئے منظر میں ، میں بلوچستان کے شہر گوادر کے مضافاتی علاقے میں ہوں۔ یہ چھوٹا سا گھر ہمارا ذاتی ہے جسے بلوچیوں کے کھلے دل، اس علاقے کے سکون اور سمندر سے نزدیکی کی بناء پر بنایا گیا ہے۔ اطلاع ملی کہ اکبر بگتی مارا گیا۔ ابھی شام کا دھندلکا پھیلے زیادہ دیر نہ ہوئ تھی کہ پندرہ سولہ لوگ گھر کی باءونڈری وال پھاند کر گھس آئے۔ان سب کے ہاتھوں میں ڈنڈے تھے۔ ہم نے سوچا اب شامت آئ۔ ساری شیشے کی کھڑکیاں جائیں گی جو صرف سمندر کا نظارہ کرنے کے لیئے لگائ گئیں تھیں۔گھر کے بزرگ حضرت آگے بڑھے۔ کیا بات ہے؟تم لوگ پنجابی ہو اور یہاں سے فوج کے لئے مخبری کرتے ہو۔ تمہارے پاس مخبری کی مشینیں بھی ہیں۔ کوئ غرایا۔ نہیں ہم پنجابی نہیں ہیں۔ کراچی کے رہنے والے ہیں۔ اردو بولتے ہیں۔ اور اس گھر میں ایسی کوئ مشین نہیں ہے۔ چاہو تو تم میں سے دو تین لوگ جا کر پورے گھر کی تلاشی بھی لے سکتے ہیں۔ بزرگ حضرت نے پر امن پیش کش کی۔ ان میں سے تین آگے بڑھے۔ پورے گھر کی تلاشی ہوئ۔ اس دوران بزرگوار انہیں اپنے غیر پنجابی ہونے کے مزید ثبوت بتاتے رہے۔ اتنی دیر میں محلے کے ایک دو لوگ بھی آگئے انہوں نے بھی کہا کہ یہ پنجابی نہیں ہیں۔ بچت ہوئ، وہ جن ارادوں سے آئے تھے انہیں پورا کئے بغیر چلے گئے۔

ان دونوں علاقوں کے درمیان ہزار کلو میٹر سے زیادہ فاصلہ ہے ان دونوں علاقوں کے رہن سہن اور ثقافت میں فرق ہے مگر ان دونوں علاقوں کے لوگ اپنے ملک کے ایک صوبے کے رہنے والوں سے نالاں کیوں ہیں۔

غالب تمہیں کہو کہ ملیگا جواب کیا
مانا کہ تم کہا کئے، اور وہ سنا کئے

ریفرنس؛

سانگھڑ

گوادر

19 comments:

  1. بہت اچھا کیا اپنے یہ آپ بیتی لکھ کر ۔ ہمارے چند بزرگ نومبر 1947ء میں ہجرت کر کے پاکستان پہنچے ہم تیں بہن بھائی اور خاندان کے مزید تین نابالغ 18 دسمبر 1947ءکو پاکستان میں داخل ہوئے ۔ 1952ء میں جب میں نویں جماعت میں تھا تو ایک لڑکے کے منہ سے پہلی بار "سالے پنجابی" کا لفظ سنا ۔ دوسرے ہمجماعت نے بتایا کہ "یہ بہاری ہے اس سے مت دوستی کرو" میں نے اس سے پوچھا "آپ لوگ کہاں سے ہیں؟" اس نے بتایا "کانپور سے"۔ اس کے بعد میں نے وسط 1963ء میں مشرقی پاکستان سے آئے ہوئے ایک ساتھی کے منہ سے سنا "وہ شالا پنجابی"۔ یہ دشمن کا وار تھا جو وہ بہت مہارت اور کامیابی کے ساتھ کر رہا تھا۔ مگر جنہیں ہم اپنا سمجھے اُنہوں نے اپنی بادشاہت قائم کرنے کے لئے سندھ میں پنجابی کو ایک مکمل گالی بنانے میں اہم کردار ادا کیا اور وہ تھے ڈوالفقار علی بھٹو جو اپنی سیاست چمکانے کیلئے سادہ لوح سندھیوں کے دماغ میں ناسور پیدا کر گئے ۔ اس کے بعد اس ملک دشمنوں کی مہم کا بیڑہ الطاف حسین نے اُٹھايا اور ابھی تک شد و مد سے اس پر عمل کر رہا ہے

    پھر 2001ء میں اس میں ايک نئی گالی جمع کی گئی "مُلا یا طالبان"۔ اور بڑی کامیابی سے اسے ترقی دی گئی ہے ۔

    پاکستان میں اوسط عمر 45 سال کے قریب ہے ۔ میں 70 سال کے قریب ہوں ۔ سو میں 25 بہاریں بونس کی دیکھ چکا ہوں ۔ آج کی جوان نسل اپنی خیر منائے ۔ اگر یح پنجابی ۔ مُلا ۔ طالبان اور دہشتگرد کا ورد نہ چھوڑا تو آج کی جوان نسل کو ہندو لالوں یا امریکی کاؤبوائیز کے تحت اچھوتوں سے بدتر زندگی گذارنے کیلئے تیار رہنا چاہیئے

    ReplyDelete
  2. بہت آسان علاج ہے اس کا
    پنجاب پر دو ایٹم بم گرا دیں
    تاکہ پنجابیوں کا ”بی ناس“ ہی ”مک“ جائے
    نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری

    ReplyDelete
  3. جعفر، آپ کے بزرگ جو بھی کہتے رہیں۔ کم سے کم میں آپ سے یہ توقع نہیں رکھتی کہ آپ اس قدر جذباتی ہو جائیں گے۔ اپنے ان بزرگ سے جن کے مشورے کے مطابق مجھے اس وقت بھنڈی کی سبزی بنانی چاہئیے۔ میراخیال ہے کہ آپ پاکستان کی موجودہ نسل بناءوٹی باتیں کرنے سے زیادہ عمل کی قوت پہ یقین رکھتی ہے۔ کیا آپ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں اپنے دلی تحفظات کو بیان کرنے کے بجائے، پیش آنیوالے واقعات کو شیئر کرنے کے بجائے، انہیں اپنے سینوں میں دبا کر ریاکاری کی محبت کی نمائش کرنی چاہئیے۔ آپ نے دیکھا میں نے جن لوگوں کی داستان بیان کی ہے وہ ہماری مہذب دنیا سے کوسوں دور ہیں۔ آپ دونوں حضرات اگر یہ سمجھتے ہیں کہ اس قسم کی باتوں سے آپ ان لوگوں کا اعتماد حاصل کریں گے تو آپ میں سے ایک نے تو اپنی عمر ضائع کی اور آپ باقی عمر اسی طرح مختلف لوگوں کو ایٹم بم سے اڑاتے رہیں گے۔
    میں بالکل مائنڈ نہیں کرونگی اگر آپ الطاف حسین کو گالیاں دیں یا مہاجروں کو اڑادیں۔ لیکن ان سب سے پہلے میں یہ ضرور کہونگی کہ اپنے دل کی باتیں شیئر کریں۔ اور دوسرے کی دل کی بات سنیں۔
    محبت کا عمل لفاظی سے نہیں اعتماد سے بنتا ہے۔

    ReplyDelete
  4. دل کی باتیں۔۔۔۔۔
    سنیں پھر۔۔۔
    پاکستان میں تھا تو میرے والد کے سب سے گہرے دوستوں میں اردو سپیکنگ زیادہ تھے۔ ہمارے ان سے تعلقات ایسے تھے کہ اپنے سگوں سے بھی نہیں تھے۔ اب بھی ایسا ہی ہے۔ اب ان کی دوسری نسل ہم سے اچھی پنجابی بولتی ہے اور ہم ان سے اردو بولتے ہیں۔ کبھی کوئی تعصب، کوئی نفرت کوئی بےگانگی کا احساس نہیں ہوا۔
    پاکستان سے آئے ہوئے سات برس سے زیادہ ہونے کو ہیں۔ یہاں بھی میرے دوستوں میں پختون بھی ہیں، بلوچی بھی اور اردو سپیکنگ لوگوں سے تو مجھے خاص انس ہے۔
    میں جذباتی صرف اس وجہ سے ہوا کہ اگر حکمران طبقہ (جو پچھلے کئی سو سالوں سے ہماری گردنوں پر سوار ہے) زیادتی کرتا ہے تو اس پر عام پنجابی کو گالی کیوں دی جاتی ہے اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟
    یہی طبقہ آپس میں‌شادیاں‌بھی کرتا ہے، اس میں کوئی ذات پات، قوم نہیں‌دیکھتا تو ہم عام لوگ کیا ان کی” دھر“ ہیں کہ ان کی سیاست کا ایندھن بن کر ایک دوسرے کو گالی دیتے ہیں۔۔۔ میرے لئے پاکستانی تو کیا تمام انسان برابر ہیں۔۔۔ میں سب کو اچھا سمجھتا ہوں اور انسان ہونے کے ناطے ان سے پیار کرتا ہوں۔ بلا تفریق ملک و مذہب۔۔۔ اور چاہتا ہوں کہ میرے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک کیا جائے۔۔۔

    ReplyDelete
  5. عمر ضائع کی،واقعی:)
    یہ جو حکمراں طبقہ ہے اسے ووٹ کون دیتا ہے اور اقتدار میں کون لاتا ہے ؟تو وہ بھی برابر کا قصوروار ہوا یا نہیں؟

    ReplyDelete
  6. میں یہاں اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات پیش کروں گا۔ یہ جو آپ نے سندھ اور بلوچستان کے واقعات لکھے میں بھی آپ کو اپنا ایک واقعہ سرحد سے متعلق پیش کئے دیتا ہوں۔ میں ۱۹۹۷ میں اپنے ایک پشتون دوست فضل الرحیم جدون کے ساتھ اسکے گائوں واقع گدون امازئی ضلع صوابی گیا۔ ہم تین دوست نوابشاہ سندھ سے گئے تھے۔ وہاں کے لوگ بہت مہمان نواز تھے لیکن جو بات مجھے عجیب لگی ہر دوسرا فرد فضل الرحیم سے یہ پوچھتا تھا کیا یہ پنجابی ہیں۔ میرے معلوم کرنے پر ضصل الرحیم نے بتایا کہ یہاں کیونکہ انڈسٹریل اسٹیٹ ہے۔ اور ایک بڑی تعداد میں لوگ پنجاب سے روزگار کے لئے آتے ہیں۔ اسلئے ہر اردو بولنے والا یا یوں کہیے جو پشتو نہ جانتا ہو پنجابی جانا جاتا ہے۔ لیکن یہ سوالات کہیں بھی ہم سے نفرت کا اظہار نہیں تھے۔
    جہاں تک بات پنجاب کو برا کہنے کی ہے۔ تو میں نے اپنی زندگی کا اب تک کا بیشتر حصہ نوابشاہ سندھ میں گزارا ہے۔ اور اردو بولنے والا ہونے کہ وجہ سے اکثر تعصب کا نشانہ بھی بنا لیکن میں مناسب سندھی بول لیتا ہوں اور تقریبا سارا سندھ گھوم چکا ہوں گائوں شہر تقریبا ہر ضلع۔ میں یہ بات دعوٰی سے کہ سکتا ہوں کہ سندھی قوم پرست ہوں،بلوچ ، مہاجر یا سرائیکی یا کوئی اور یہ نہ اپنی قوم سے مخلص ہیں نہ پاکستان سے۔ یہ لوگ صرف مفادات کے لئے عوام کو لڑواتے ہیں۔ میں کیوں کہ اندرون سندھ پلا بڑھا ہوں اور قوم پرستوں سے بھی واسطہ رہا ہے۔ میری تعلیم بھی قائد عوام یونیورسٹی نوابشاہ کی ہے۔ میرے وہ دوست جو دوران تعلیم پنجاب اور پاکستان کو گالیاں دیتے تھے آج پنجاب میں جاب کر رہے ہیں۔
    جہاں تک بات حکمرانوں یا قوم پرست سیاستدانوں کی ہے تو یہ بات سو فیصد درست ہے۔ میں اس بات کا عینی شاہد ہوں کہ یہ لوگ آپس میں شادیاں تک کرتے ہیں لیکن عوام کو زبان کی بنیاد پر لڑاتے ہیں۔
    پاکستان کی بنیاد صرف اسلام ہے۔ اور وہ ہی ہم کو متحد رکھ سکتا ہے۔ ورنہ تو اگر قوم زبان سے ہے تو پھر ہم بے شمار قومیں ہیں۔
    جہاں تک بات صوبوں کے درمیان مناسب وسائل کی تقسیم کی ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کے اس میں بے قاعدگیاں ہیں۔ لیکن اوپر کی سطح پر سب حکمران مل جاتے ہیں۔ اور عوام میں آکر بد گمانیاں پھیلاتے ہیں۔ چاہے وہ بلوچستان کے سیاستدان ہوں ، سندھ کے ہوں یا سرحد کے۔
    آپ موجودہ گورنمٹ کو دیکھ لیں یا اس سے پہلی کی کسی گورنمٹ کو ۔ میں بلوچستان کی بات نہیں کرتا لیکن سندھ بشمول کراچی اور سرحد کے سیاستدان ہمیشہ مرکز میں اہم وزارتوں پر رہتے ہیں لیکن جب حکومت میں ہوتے ہیں۔ تو کچھ نہیں کرتے اور بعد میں زہر پھیلاتے پھرتے ہیں۔ پاکستان کا عام شہری چاہے وہ کوئی بھی زبان بولے وہ پس رہا ہے اور محروم ہے۔ خواص قابض ہیں۔ اور لڑائو اور حکومت کرو کی پالیسی پر عمل پیرا۔
    اللہ کی رسی کو مضبوتی سے تھا مو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔ القرآن
    جس نے عصبیت کی وہ ہم میں سے نہیں۔ حدیث کا مفہوم۔
    واللہ اعلم بالصواب۔

    ReplyDelete
  7. ہاں یہ ہوئ نہ بات۔ ان واقعات کے کرداروں میں سے کوئ آپ کو زاتی طور پر نہیں جانتا۔ اس لئے ناراض نہ ہوں۔ یہ بالخصوص آپ کے لئے نہیں ہے۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالا میرے محلے میں تین چار گھر میرے اطراف میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے تھے۔ حتی کہ میرے اپنے گھر کا ایک حصہ کرائے پہ اٹھا ہوا تھا جس میں میری اماں صرف پنجاب کے لوگوں کو رکھنا پسند کرتی تھیں۔ وہ بھی فیصل آباد کے۔ میرے اپنے خاندان میں پنجابیوں میں شادیاں ہوئ ہیں۔۔
    میری تعلیم خصوصاً پی ایچ ڈی کے دوران بھانت بھانت کے لوگوں سے ملاقات ہوئ۔ جس میں پاکستانی، غیر پاکستانی، مسلم، غیر مسلم، اور پاکستان کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔ مجھے یہ محسوس ہوتا تھا کہ یہ ہمارے پنجابی دوستوں کا حس مزاح بڑا اچھا ہوتا ہے۔ اب سب لوگ ادھر ادھر ہو گئے۔ لیکن آج بھی ہم ہر تھوڑے عرصے ایکدوسرے جیسے ریمائنڈر بھیجتے ہیں۔۔ ہم اب بھی اپنی شرارتِں اور ایکدوسرے کو یاد کرتے ہیں۔
    لیکن ان تمام چیزوں سے ہٹ کر ہم نے اپنا نظام کسطرح ترتیب دیا ہے اس کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ کیا آپ کو یہ بات پتہ ہے کہ جس وقت بنگلہ دیش نہیں بنا تھا۔ مشرقی پاکستان کے لوگوں کو فوج میں بھرتی کرنے سے حتی الامکان گریز کیا جاتا تھا۔ کہا یہ جاتا تھا کہ کیونکہ ان کے قد چھوٹے ہوتے ہیں اس لئے وہ ملک کی حفاظت کے فرائض انجام نہیں دے سکتے۔ دوسری بات وہاں کے لوگوں کے متعلق کہی جاتی تھی وہ یہ کہ وہ ہندءووں جیسی زندگی گذارتے ہیں۔ کیونکہ ان کی ثقافت میں رقص اور موسیقی کو بڑی اہمیت حاصل تھی۔اس لئے مغربی پاکستان والون کا خیال تھا کہ وہ زیادہ اچھے مسلمان اور پاکستانی ہین۔ خود میرے ساتھ یہ ہوا کہ ریسرچ کے دوران پنجاب یونیورسٹی کے ایک صاحب آئے ہوئے تھے۔ رمضان شروع ہوا۔ اگلے دن انہون نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کا روزہ ہے۔ میں نے کہا۔تمام مسلامنوں کی طرح مجھ پہ فرض ہے اور فی الحال میں بیمار بھی نہیں کوئ چھوٹ نہیں۔ تو روزہ کیسے چھوڑ سکتی ہوں۔ انہیں بڑی حیرانی ہوئ۔ کہنے لگے کراچی میں تو خاصے لوگ روزہ رکھتے ہیں۔ میں ایسا نہیں سمجھتا تھا۔
    یہ لوگوں کے بارے میں ہمارے عام سے خیالات ہوتے ہیں۔ ان میں شاید ایکدوسرے سے نا واقفیت ایک بڑا سبب ہوتی ہے اور دوسری آپس میں گفتگو کی کمی۔
    دوسری طرف میں سمجھتی ہوں کہ معاشرے میں بے چینی نا انصافی سے پھیلتی ہے۔ یہی بنگلہ دیش بننے کی وجہ تھی۔ معاشرے کے مختلف طبقات کے درمیان ہم آہنگی وسائل کی منصفانہ تقسیم سے بھی وابستہ ہے۔ اور اس تعلیم سے بھی جو ہمارے اندر حقوق اور فرائض کا احساس پیدا کرے۔
    ایک طرف تو ہم دوسروں کو متعصب کہہ کر ذلیل کرتے ہیں دوسر طرف جب کہتے ہیں کہ پہلی دفعہ میں نے یہ لفظ ایک بہاری سے سنا تو کیا یہ تعصب نہیں ہوتا۔ اس بہاری نے بھی پہلی دفعہ کچھ کہیں اور سے سنا ہوگا۔
    اب مہاجروں کو لیجئیے۔ بھٹو صاحب کے آنے کے بعد تمام تعلیمی اداروں اور حکومتی اداروں میں کوٹہ سسٹم متعارف کرایا گیا۔ جس کے تحت سندھ کے دیہی علاقوں کے لئے یہ رعایت رکھی گئ کہ وہ کم نمروں کے باوجود پروفیشنل اداروں میں داخلے کے اہل قرار پائے۔ اور صلاحیت نہ رکھنے کے باوجود انہیں نوکریاں مل جاتیں۔ اشہری اور دیہی کی یہ تفریق جان بوجھ کر رکھی گئ اکیونک ان علاقوں میں اکثریت اردو بولنے والوں کی تھی۔ یہاں جو سندھی رہتے تھے ان کے پاس بھی دیہی علاقوں کا ڈومیسائل ہوتا تھا۔ بظاہر انہوں نے اپنی قوم کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کی ۔ لیکن کوئ بھی دور اندیش شخص اندازہ کر سکتا ہے کہ اس سے انہوں نے اپنی قوم میں ترقی کا جذبہ، آگے بڑھنے کی لگن یا اس سے ملتے جلتے تمام عناصر کو ختم کردیا۔ کوٹہ سسٹم کو متعارف کرانے کے چالیس سال بعد بھی دیہی سندھ کی حالت میں کوئ خاص فرق نہیں آیا۔ کیونکہ اس سے فائدہ تو دراصل وڈیروں اور جاگیرداروں کے نکمے بچوں نے لیا۔ عام ہاری اس وقت بھی انسان نہ تھا۔ اور اس وقت بھی نہیں ہے۔
    اسی تناظر میں دیکھیں، سندھ کےشہری علاقوں کی اس وقت کی حالت کو دیکھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ ایم کیو ایم کیوں وجود میں آئ۔
    اب دوبارہ کہون کہ یہ پنجابیوں کا مذاق اڑانے یا انہیں طیش میں لانے کے لئے نہیں ہے۔
    بلوچستان سے مہاجروں اور الطاف حسین کا کوئ تعلق نہیں۔ لیکن وہاں لوگ ایسا کیوں سوچتے ہیں۔ یہاں میں آپ کو یہ بتاءوں کہ بگتی کے مرنے کے اگلے دن گوادر اور منسکہ علاقوں میں جتنے پنجابی رہتے تھے انہوں نے فوراً واپسی کی راہ لی۔نتیجتاً علاقے کے زیادہ تر حجام پنجاب سے آئے ہوئے تھے تو حجاموں کا کرائسس پیدا ہوگیا۔ راج مزدور مستری، کھانا بناے والے، تندور والے ان تمام پیشوں سے بلوچیوں کو کوئ دلچسپی نہیں۔ اسکے نتیجے میں جو مکان تعمیر ہو رہے تھے۔ انکی تعمیر کئ مہینوں کے لئے رک گئ۔اب سوال پھر وہی کہ پنجابی نہیں، پنجاب کو استحصال کی علامت اگر بنایا گیا ہے تو کیوں؟

    ReplyDelete
  8. تو اس کا مطلب ہے کہ اگر کبھی کراچی میں کرائے پر گھر کی ضرورت پڑی تو فیصل آبادی ہونے کے ناطے سیدھا آپ سے رابطہ کروں۔۔۔
    :grin:

    ReplyDelete
  9. محترمہ یہ آپ کو کس نے بٹایا ہے کہ مشرقی پاکستان کے لوگوں کو فوج میں جان بوجھ کر بھرتی نہیں کیا جاتا تھا ؟ حقیقت یہ ہے کہ مشرقی پاکستان کے لوگوں کے لئے رعائتیں تھیں ۔ مثال کے طور پر مغربی پاکستان سے ایم بی بی ایس کے مقابلے پر مشرقی پاکستان سے ایل ایس ایم ایف بھرتی کیا جاتا تھا جو کہ دسویں کے بعد تین سال کا کورس تھا ۔ بنگالیوں استحصال بیوروکریٹش جن میں زیادہ تر اردو سپیکنگ تھے ، بہاریوں نے کیا جو وہاں جا کر آباد ہوئے تھے اور ہندوؤں نے کیا ۔ فوج جس میں زیادہ پنجابی تھے اس نے بھی استحصال کیا لیکن مارشل لاء لگنے کے بعد ۔ استحصال کرنے والوں کا سرغنہ سکندر مرزا تھا جس کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا

    تاریخ کا مطالع کشادہ دلی سے کیجئے ۔ میں نے تو بقول آپ کے ساری عمر ظالع کر دی اس لئے کہ میرے اپنے ساتھ بیتے واقعات کو آپ افسانے سمجھتی ہیں ۔ اس بات کا خیال رکھیئے کہ انسان جو ہوتا ہے وہی ہوتا ہے کسی دوسرے کی رائے نہیں ہوتا

    ReplyDelete
  10. ان بزرگوارکے تبصرے سے ہر غیر جانبدار شخص یہ سمجھ سکتا ہے کہ انہیں بہاری اور بنگالیوں سے سخت نفرت ہے اور ان کی سابقہ پوسٹس اردو بولنے والوں سے نفرت کا اظہار ہیں،وجہ؟
    یہ تینوں ان کی پنجابی اسٹیبلشمنٹ کی بدمعاشیوں کو چیلنج کرتے رہے ہیں،حضرت کو تاریخ سے کچھ واقفیعت نہیں یا جان بوجھ کر گمراہ کن پروپگینڈہ کرتے ہیں،آج بھی جا کر بنگالیوں سے پوچھیں کہ ان کا استحصال کس نے کیا اور کون ان کے حقوق غصب کرتا رہا؟پنجابی یااردو اسپیکنگ اگر سب پنجاب نہ کہیں تو جو چور کی سزا وہ میری سزا،ایک خاص جسامت فوج میں رکھی گئی تاکہ صرف پنجابی یا پٹھان آسکیں کوئی اکادکا مشرف جیسا اردو اسپیکنگ یا بنگالی شروع شروع کا ہو تو ہو ورنہ کس کی اکثریت فوج میں رکھی گئی یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے،اور بنگلہ دیش بنتے ہی کس طرح کا سلوک بنگالی فوجیوں کے ساتھ ہوا کہ وہ مجبورا“ یہ ملک چھوڑ گئے یہ ہے تاریخ جسے مسخ کرنے کی یہ حضرت اور ان جیسے کرتے رہے ہیں،
    ایوب خان کے دور سے ہی بیوروکریسی سے اردو بولنے والوں کا انخلاء شروع ہو چکا تھا اور بھٹو صاحب کے دور میں اس کی انتہاء ہو گئی،چناچہ یہ الزام بھی انکا غلط ہے،
    ان بزرگوار کو میرا بھی یہی مخلصانہ مشورہ ہے کہ تاریخ کا مطالعہ کشادہ دلی سے کریں اور خود بھی اپنی کہی اس بات کو یاد رکھیں کہ انسان جو ہوتا ہے وہی ہوتا ہے،کسی دوسرے کی رائے نہیں ہوتا،مزید یہ کہ ہر شخص کو اپنی رائے رکھنے کا حق ہے آپ زبردستی اسے اپنی رائے بدلنے پر مجبور نہیں کرسکتے،اگر ہر انگلی ایک ہی طرف اٹھ رہی ہو تو انگلیاں توڑنے اور مروڑنے کے بجائے اپنی اصلاح کرنا زیادہ مفید اور عقلمندانہ عمل ہے،

    ReplyDelete
  11. دلچسپ بات یہ ہے کہ ہر وہ شخص جس نے ان سے طاقت اور اقتدار چھیننا چاہا اسے ملک دشمن، غدار اور دہشت گرد کے تمغوں سے نوازا گیا،ثبوت اوپر کے تبصروں میں موجود ہے :)

    ReplyDelete
  12. حسن جمیل سید صاحب سیاست دانوں کو گالیاں بھی دیتے ہیں اور پھر انہیں منتخب بھی کرتے ہیں یہ منافقت نہیں ہے کیا،اگر یہ لوگ برے ہیں تو ان کو منتخب کرنے والے ان سے زیادہ برے ہیں کیوں اپنے اندر سے اچھی قیادت کو باہر نکال کر نہیں لاتے،

    ReplyDelete
  13. بقیہ تحریر سے قطع نظر ایک بات واضح کرتا چلوں کہ سندھیوں میں پٹھان ہوتے ہیں۔ یہ اپنے نام سے پہلے آغا اور آخر میں پٹھان لگاتے ہیں۔ جیسے "آغا محمد علی پٹھان"۔ شکار پور شہر میں تو ان کی خاصی آبادی ہے اور مضافات میں چند بڑے گاؤں بھی ہیں۔

    ReplyDelete
  14. فہد بھیا باقی تحریر پر بھی ارشا کیجے نا۔۔ ہم منتظ رہیں۔۔

    ReplyDelete
  15. در اصل ہم سب لوگ کسی نہ کسی حد تک اسٹیریو ٹائپڈ خیالات سے ہی گذارا چلاتے ہیں اور خود اپنی سمجھ بوجھ کو زحمت دینے سے گریز ہی کرتے ہیں۔ مثلاً "پنجابی بے وفا ہوتے ہیں" یا "سندھی قوم پرست ہوتے ہیں"۔ یا "پٹھان عقل سے پیدل ہوتے ہیں" ۔

    یہ اور اس طرح کے اور بہت سے اسٹیریو ٹائپس جو اوائل عمری سے ہی ہمارے بزرگ ہمارے سینوں میں منتقل کرتے ہیں اور ہم اُنہیں حرفِ آخر سمجھ لیتے ہیں بلکہ اس سے کچھ آگے بڑھ کر ہم کبھی یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ یہ باتیں کُلی نہیں تو جزوی طور پر ہی غلط ہوسکتی ہیں۔

    باوجود اس کے کہ میں کراچی میں مقیم ہوں اور اردو زبان بولنے والے گھرانے سے تعلق رکھتا ہوں میرے عزیز ترین دوستوں میں سے ایک پنجابی ہے اور دوسرا پٹھان۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ ہم اپنی عقل کے پیمانے سے زیادہ سُنی سُنائی باتوں پر یقین رکھتے ہیں اور پھر ہمیں وہی کچھ نظر آتا ہے جو ہم دیکھنا چاہتے ہیں۔

    ہماری یہی خوبی اُن لوگوں کے بہت کام آتی ہے جو ہمیں باہم لڑا کر حکومت کرنا چاہتے ہیں۔ بلکہ اس طرح ہم اُن کا یہ کام آسان کردیتے ہیں۔ یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ جو لوگ نسلی اور لسانی امتیاز پیدا کرکے حکومت بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں وہ اپنے متعلقین کو جائز نا جائز فائدے پہنچاتے ہیں۔ اور ہم میں سے لوگ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ یہ پنجابی وزیرِ اعظم ہے تو پنجاب کو ہی بھرے گا اور سندھی ہے تو پھر سندھی لوگ ہی اس سے فیض اُٹھا سکیں گے ۔

    آج بھی جو لوگ نئے صوبے بنانے کی بات کرتے ہیں اُن کا مقصد لسانی تقسیم کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا، اور اُس کے پیچھے بھی یہ لوگ نہ جانے کیا کیا عزائم رکھتے ہیں۔ افسوس کی با ت تو یہ ہے کہ "ہمیں اُس قائد کی تلاش بھی نہیں ہے جو ہمیں بطور پاکستانی لے کر چلے بلکہ ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ جو شخص ہماری قوم کا ہی نہیں تو اُس سے کیا خیر خواہی کی اُمید رکھی جائے"

    ReplyDelete
  16. بھئی آپ کی صوبوں والی بات سے مجھے اختلاف ہے اس وقت صوبوں کی جو تقسیم ہے وہ لسانی بنیادوں پہ ہے۔ اگر مزید صوبے بنادئیے جائیں، انتظامی معاملات کی بنیاد پہ تو شاید لسانی عنصر کم ہو جائے۔
    اکہتر کی تقسیم میں جماعت اسلامی کے رضاکاروں نے بڑی جنگ لڑی۔ انکے پبلشنگ سیکٹر سے آپ کو ایسی کتابیں مل جائیں گی جو مشرقی پاکستان میں فوج کے شانہ بشانہ مکتی باہنی کے خلاف لڑی گئ۔ اس میں وہاں پر رہائش پذیر بہاریوں نے حصہ لیا۔ اور جنگ کے ختم ہونے کے بعد بھی انہوں نے اس تقسیم سے انکاری ہو کر وہاں کیمپوں میں رہنے پر ترجیح دی۔ تو اس بات کی صحت میں اختلاف ہے کہ بہاریوں نے تعصب کو پھیلایا۔ اس بات کے ڈانڈے جا کر انیس سو اڑتالیس کے قائد اعظم کے اس ہنگامی دورے سے بھی ملتے ہیں جو انہوں نے مشرقی پاکستان کا کیا۔ اور انہوں نے اعلان کیا کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہو گی۔ اس بات پہ پچھلے ساٹھ سالوں میں کتنا عمل ہوا یہ ہم سب دیمھ سکتے ہیں۔ بنگلہ زبان ایک ترقی یافتہ زبان تھی دیکھا جائے تو مشرقی پاکستان کی آبادی مغربی پاکستان سے زیادہ تھی۔۔ وہ اپنی زبان میں اپنا کاروبار حیات بخوبی چلا رہے تھے۔ پھر میں نہیں سمجھ سکتی کہ انہوں نے یہ فیصلہ کیوں کیا۔ اس کے بعد جب بھٹو صاحب آئے تو انہوں نے سندھی کو صوبے کی سراکاری زبان قرار دیا۔ اس چیز پہ ہنگامے بھی ہوئے اور بہت لوگ مارے گئے۔ دراصل ہم آج بھی یہ بات نہیں سمجھتے کہ مادری زبان کی بے حد اہمیت ہوتی ہے۔ دنیا بھر میں اس حقیقت کو رفتہ رفتہ تسلیم کیا جا رہا ہے کہ ابتدائ تعلیم مادری زبان میں ہونی چاہئیے اس سے سیکھنے کا عمل آسان ہوتا ہے اور اس کی جڑیں مظبوط ہوتی ہیں۔
    اس سے ہٹ کہ حمود الرحمن رپورٹ میں بہت سارے حقائق ایسے بیان کئے گئے ہیں جو بھوپال صاحب کے تجزئے سے میل نہیں کھاتے یہ رپورٹ ایک لمبے عرصے تک شائع ہونے سے روکنے والوں کا کوئ تعلق بہاریوں یا اردو اسپیکنگ سے نہیں تھا۔
    عبداللہ، آپ کی بات صحیح ہے کہ ووٹ دیکر تو ہم ہی لاتے ہیں۔ لیکن کراچی کی حد تک یہ مذاق میں دیکھتی ہوں کہ جو لوگ بڑھ بڑھ کر باتیں بناتے ہیں وہ ووٹ ڈالنے نہیں جاتے۔ جب کہ دیہی علاقوں میں لوگ اپنے سرکار کے خرچے پہ اور انکی پسند پہ ووٹ ڈالنے جاتے ہیں اور جوق در جوق ڈالتے ہیں۔ نتیجے میں ہمیں ایسے حکمران ملتے ہیں جو ہمارے ان لوگوں نے منتخب کئے ہوتے ہیں۔ جو خود سے فیصلہ کرنے کا آختیار نہیں رکھتے ہیں۔ یہ ہماری ناکام جمہوریت کی ایک مثال ہے۔ باقی شہروں کی حد تک ہم میں سے جو لوگ ووٹ ڈالتے ہیں اور اپنی پسند کی پارٹیوں کو سپورٹ کرتے ہیں انہیں اپنے فعل کی ذمہ داری بھی اٹھانی چاہئے۔
    میں سندھی پٹھانوں کی حقیقت سے نا واقف ہوں۔ ہو سکتا ہے یہی معاملہ ان خاتون کے ساتھ بھی ہو۔ وہاں جا کر اتنا ضرور پتہ چلا کہ سندھ میں ایک زمانے میں فوج کے لوگوں کو بہت زمینیں ملی تھیں۔ اس وجہ سے کافی گاءوں ایسے ملیں گے جو غیرسندھیوں کے نام پر ہیں۔ وہاں پہ موجود لوگوں نے کچھ پنجاب سے تعلق رکھنے والی جگہوں کے نام بھی بتائے تھے جو میرے ذہن سے محو ہو گئے ہیں۔ لیکن کوئ چاہے تو معلوم بھی کئے جا سکتے ہیں۔
    جعفر، چشم ما روشن دل ماشاد۔

    ReplyDelete
  17. عنیقہ صاحبہ،

    مجھے آپ کی تقریباً تمام باتوں سے اتفاق ہے ، میں نے لکھاتھا کہ " آج بھی جو لوگ نئے صوبے بنانے کی بات کرتے ہیں اُن کا مقصد لسانی تقسیم کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا، اور اُس کے پیچھے بھی یہ لوگ نہ جانے کیا کیا عزائم رکھتے ہیں۔" لیکن اگر انتظامی بنیاد پر صوبے بنائے جاتے ہیں تو یہ تو پھر سب سے اچھا حل ہے بلکہ اُس سے بھی کچھ آگے بڑھ کر اگر یہ چاروں صوبے ہی ختم کردئے جائیں اور صوبائی اسمبلیوں کی ذمہ داریاں قومی اسمبلی اور بلدیاتی نظام کو تفویض کردی جائیں تو بہت سے لسانی اور صوبائی جھگڑے نمٹ جائیں ، ساتھ میں کچھ وزرا کی تعداد میں کمی آئے تو شاید وہ پیسہ جو ان لوگوں کے سامانِ تعیش پر خرچ ہو رہا ہے ،عوام کے ہی کام آجائے اور قومی اسمبلی والے بھی کچھ کام کرکے اپنی روزی حلال کر سکیں۔

    اردو اور بنگالی زبان کے حوالے سے آپ کی بات سے اتفاق ہے کہ مشرقیِ پاکستان والوں کو اس بات کا حق ملنا چاہیے تھا کہ وہ اپنے معاملات اپنی زبان میں چلا سکیں۔ پھر اُن کے ساتھ جس طرح کا سلوک روا رکھا گیا اس کا نتیجہ یہی نکلنا چاہیے تھا جو ہوا یہ الگ بات کے یہاں بھی ہماری کوتاہ بینی کا فائدہ دشمن نے ہی اُٹھایا۔ مختار مسعود کی "ریزے" اس حوالے سے بہت اچھی کتاب ہے کہ انہوں نے اپنے افسانوں میں سقوطِ ڈھاکہ کا منظر نامہ پیش کیا ہے ، عین ممکن ہے کہ وہ بھی کسی حد تک جانبدار ہو گئے ہوں لیکن پھر بھی حالات کی ابتری کا کافی حد تک اندازہ ہوتا ہے اس کتاب کو پڑھ کر۔

    آپ کی تحریریں اچھی لگتی ہیں کہ آپ روایتی سوچ سےکچھ مختلف لکھتی ہیں۔

    خوش رہیے۔

    ReplyDelete
  18. احمد آپ کا شکریہ۔ میرے علم میں نہ تھا کہ مختار مسعود نے افسانے بھی لکھے ہیں۔

    ReplyDelete
  19. محمد احمد صاحب ہمارے بزرگوں نے تو ہمیں کبھی ایسی لغویات نہیں سکھائیں،محلے میں ہر زبان بولنے والے جب بھی رہتے تھے اور آج بھی رہتے ہیں اور باہمی بھائی چارہ ایسا ہے کہ اللہ نظر بد سے بچائے،پھر خاندان بھی منی پاکستان ہی سمجھ لیں اور وہ سب بھی وہی کہتے ہیں جو ہم اردو بولنے والے کہا کرتے ہیں آخر کراچی والے جو ہوئے،جن مسائل کا ہمیں سامنا ہے ان ہی مسائل کا انہین بھی سامنا ہے تو وہ ہمارے ہم زبان نہ ہوں گے تو اور کیا ہوں گے ہیں چند لوگ کراچی میں بھی ایسے ہیں جو کھاتے کراچی کا ہیں اور بجاتے دوسروں کا ہیں خیر اللہ کا شکر ہے کہ ایسے لوگ تعداد میں کم ہی ہیں،
    رہی انیقہ صاحبہ کی بات تو ان سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی کیونکہ،
    مینے یہ جانا کہ یہ بھی میرے دل میں ہے :)
    ویسے انیقہ آپ فکر نہ کریں کراچی کے وہ لوگ جو یہ سوچا کرتے تھے کہ ان کے ووٹ ڈالنے یا نہ ڈالنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا اب اپنی سوچ میں تبدیلی لا رہے ہیں بس ایسی ہی مثبت تبدیلی پورے پاکستان میں آجائے اور ہم انہیں منتخب کریں جو ہمارے مسائل کو سمجھتے ہوں اور انہیں حل کرنے کی نیت بھی رکھتے ہوں تو انشاء اللہ اس ملک کی اور اس میں رہنے والوں کی تقدیر ضرور سنورے گی

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ