Friday, December 11, 2009

باپو یا بابو

کچھ چیزیں دیکھنے اور سننے میں بہت معمولی اور غیر اہم لگتی ہیں لیکن یہ کسی انسان  یا معاشرے کی سوچ کے پیچھے چلنے والے عوامل کو ظاہر کرتی ہیں۔ ایسا ہی مجھے اس وقت محسوس ہوا جب ہمارے ایک ساتھی نے ایک صحافی کے مضمون کو اپنے بلاگ پہ جگہ دی اور اسکے ساتھ ایک ثانوی بحث نکل آئ کہ لفظ بابو کیا ہے۔
 ابتدا تو میرا مقصد ان صحافی موصوف کی جوش تحریر میں کی جانیوالی غلطی کی طرف توجہ دلانا تھا۔ انہوں نے فرمایا کہ انگریز ہندوستانی مسلمانوں کی تحقیر کرنے کے لئے لفظ بابو استعمال کرتے تھے جو کہ انگریزی لفظ ببون سے لیا گیا ہے اور جسکے معنی بےوقوف نقال بندر کے ہوتے ہیں۔
یہ میرے لئیے ایک بالکل نئ خبر تھی، جہاں میرے ماحول میں لوگ اپنے والد صاحب کو بابو کہتے ہوں، میرے والد صاحب اپنے بچوں کو پیار سے بابو کہہ کر بلاتے ہوں، بھارت کے صوبے بہار میں اکثر  مسلمان گھرانوں میں لوگوں کے ناموں کو بغیر بابو لگائے نہ بلایا جاتا ہو وہاں لفظ بابو کو تحقیر اور نفرت کا لفظ سمجھنا خاصہ مشکل تھا۔
یہی نہیں اردو ادب میں، پرانی انڈین اور پاکستانی فلموں مین،  اور اب بھی ہندوستانی گاءووں دیہاتوں میں پڑھے لکھے لوگوں کو بابو کے لفظ سے بلایا جاتا ہے جیسے  ڈاک بابو، ڈاکٹر بابو، کلکٹر بابو وغیرہ۔
بات آگے چلی تو ہمارے سینئیر بزرگ بلاگر اور اس بلاگ کے ساتھی دونوں ہم زبان ہو گئے کہ نہیں یہ تو استعمال ہی حقارت کے لئیے ہوتا ہے اور مزید پیچیدگی اس میں یہ پیش کی گئ کہ یہ اگر اس مطلب میں استعمال ہوتا بھی ہے تو اسکا ماخذ لفظ بابا تو ہو سکتا ہے مگر باپو نہیں، جو کہ ہندی کا لفظ ہے۔
 اسکے ساتھ ہی مجھے اس بات کا طعنہ دیا گیا کہ دراصل میں چیزوں کے صحیح حوالے دیکھنے سے گریز کرتی ہوں اور اپنی علامیت جتاتی ہوں۔ تو صاحبو، اب ہم یہ بھی
مشکل کہہ پائے کہ ہمیں انٹر نیٹ پہ تو اس لفظ کا یہ مطلب نہیں ملا۔ چونکہ ملک سے باہر ہیں اس لئیے اپنی لغات اور ڈکشنریز بھی استعمال نہیں کر سکتے۔
پاکستان پہنچنے کے بعد اگلی صبح جب میں سو کر اٹھی تو میں نے سب سے پہلے ڈکشنریز کو چیک کیا۔ میں سنی سنائ باتوں سے زیادہ کسی مستند کتاب میں لکھی ہوئ بات کو ترجیح دیتی ہوں۔
اب دیکھئیے میں نے صرف تین لغات کو دیکھا اور اسکے معنی مدرجہ ذیل نکلے۔
فیرزاللغات ؛ ماخذ ہندی، معنی شہزادہ، بالک بچہ، انگریزی پڑھا لکھا جنٹلمین، فیشن پرست نوجوان، کلرک منشی
لانگ مین ڈکشنری آف کنٹیمپریری انگلش؛ انڈین انگلش میں احترام کا ایک لفظ،برٹش انگلش میں کم درجے کا کوئ بھی سرکاری ملازم یا کلرک۔ یہاں انہوں نے انڈین یا مسلم لفظ استعمال نہیں کیا۔
ویبسٹرزانسائکلوپیڈک ان ابرجڈ ڈکشنری آف انگلش لینگوایج؛  باس، ایک ہندو ٹائٹل جو کہ سر یا مسٹر کے برابر ہے، ایک ہندو جنٹلمین، کوئ بھی مقامی انڈین باشندہ جو کہ تھوڑی بہت انگلش پڑھ لکھ سکتا ہو، ہندی میں باپ کے لئیے۔ یہاں یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ اردو کو ابتدا میں ہندی کے نام سے بھی بلایا جاتا تھا۔
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس میں کہیں بھی وہ معنی نہیں اور نہ ہی وہ پس منظر جو صاحب تحریر نے دینے کی کوشش کی۔ اسی باب میں جب میں نے لفظ ببون کو دیکھا تو صرف ویبسٹر والی ڈکشنری میں مجھے اسکے ایک معنی یہ بھی ملے کہ  خام اور کم ذہانت کا انگریز یا کوئ بہت سادہ شخص۔ یہاں پر بھی ہندوستانی ہونے کی تخصیص نہیں کجا کہ بے عزت کرنے کی۔
یہی نہیں اب بھی پاکستان میں وہ لوگ جنہیں اردو اسپیکنگ کہا جاتا ہے انکے یہاں اس قسم کے محاورے ملیں گے جس میں کسی کو کہتے ہیں کہ وہ بڑا بابو بنا پھرتا ہے۔ اس جملے سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ بہت بھنے ٹھنے رہتے ہیں۔
جہاں ان دونوں صاحبان کو یہ امر ماننے میں عار رہا کہ یہ بے عزتی کا لفظ نہیں اور نہ ہی ببون سے نکلا ہے۔وہاں انکا یہ اصرار رہا کہ یہ باپو سے نہیں بن سکتا بابا سے بنا ہوگا۔ اسکی وجہ شاید یہ ہے کہ ان میں سے ایک صاحب کا  ثقافتی تعلق پنجاب سے اور دوسرے کا ثقافتی  تعلق سندھ سے ہے اور ان دونوں زبانوں میں باپ کے لئیے لفظ بابا بھی استعمال ہوتا ہے اسکی دوسری وجہ جو مجھے سمجھ میں آتی ہے وہ بیشتر لوگوں کا یہ سمجھنا کہ لفظ بابا عربی سے آیا ہے۔  اسکی تیسری وجہ دییگر اقوام کے رہن سہن اور زبان سے نا واقفیت ہے۔
ان سب وجوہات سے ہٹ کر اس بات پہ اصرار کہ یہ لفظ باپو سے نہیں بابو سے بنا ہے اس طبقہ ء فکر کی نشاندہی بھی کرتا ہے جو ہمہ وقت اس چیز سے انکار کی حالت میں رہتے ہیں کہ ایک ہزار سال سے زائد عرصے برصغیر کی دیگر اقوام کے ساتھ رہنے کی وجہ سے مسلمانوں کی طرز رہائش، بود و باش اور زبان پہ انکا اثر ہے۔  یہ یاد رہے کہ برصغیر میں آنیوالے یہ مسلمان کسی ایک علاقے سے نہیں آئے تھے بلکہ ان میں ترک، عرب اور وسط ایشیا کے مسلمان بھی شامل ہیں اور ان میں سے ہر ایک جدا طرز زندگی رکھتا تھا۔
خیر جناب، فیروز اللغات کے مطابق یہ لفظ  بابا بھی اردو میں فارسی اور ہندی سے آیا ہے۔
اب جب کہ انگریزی اور اردو کی مستند لغات میں سے یہ الفاظ کے معنی ، میں نے دیکھ لئیے ہیں اور آپ میں سے کوئ بھی انہیں جا کر دیکھ سکتا ہے تو میں یہ بتانا ضروری سمجھتی ہوں کہ میرا مقصد انگریزوں کی حمایت نہیں بلکہ محض ہر وقت دوسروں کو اپنی حالت زار کا باعث سمجھنا اور اس نکتے کو ثابت کرنے کے لئیے غلط ترین بات بھی کرنے سے نہ چوکنا اسکی طرف آپکی توجہ دلانا ہے۔
تاریخ دنیا میں دوسرے لوگوں اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کی جو کوششیں رہیں ہیں یا انکے جو بھی اثرات رہے ہیں انہیں انکے مسلمان نہ ہونے کی وجہ سے خارج نہیں کیا جا سکتا۔ اس دنیا کی جو بھی حالت آج ہے یا علم اور جہالت کے جس بھی مرحلے پہ ہم ہیں۔ اس میں مسلمانوں کے علاوہ دیگر اقوام کا بھی حصہ ہے۔ ہم بہ حیثیت مسلمان آج جس طرح دنیا اور اپنی زندگی برتتے ہیں اس میں دوسروں کی طرز فکر کا اثر بھی ہے اور اسے تسلیم کئے بغیر نہ ہم اپنی غلطیوں کو جانچ سکتے ہیں اور نہ آگے کی سمت درست قدم رکھ سکتے ہیں۔
میرے ان ساتھی کی اس پوسٹ کے کچھ اور اہم نکات ہیں جن پہ آنیوالی تحریروں میں بات کرنا چاہونگی ان میں سر فہرست
کیا خلافت مسلمانی طرز حکومت ہے اور اسی میں ہماری بقا ہے
کیا سائنس اسلام سے متصادم اور قدرت کی راہ میں مزاحم ہے۔
کیا  دنیا بھر کی قوتیں صرف اسلام کو ختم کرنے کے درپے ہیں یا اس میں مسلمانوں کا  کئ صدیوں پہ مشتمل ایک طویل علمی اور تحقیقی جمود ہے۔

 حوالہ؛

18 comments:

  1. جی میں آپ کی بات کی تائید کرتا ہوں۔ ہمارے یہاں یعنی ہندوستان کے اتر پردیش صوبہ میں بھی یہ لفظ اس مراسلے میں بیان کردہ معانی میں ہی استعمال کیا جاتا ہے۔

    بسا اوقات تحقیر کے لئے بھی اس کا استعمال کرتے ہوئے دیکھا ہے پر وہ تحقیر سے زیادہ طنز کہا جا سکتا ہے۔ جیسے کلرک لفظ ثانوی درجے کی نوکری اور رشوت خوری کے باعث بدنام ہو گیا ہے۔

    بابو لفظ کا درجہ بتانے کے لئے بالی ووڈ فلم "راجہ بابو" کا حوالہ دینا شاید کسی کام آجائے۔

    ReplyDelete
  2. پاکستان بننے سے پہلے کی کوئی ڈکشنری ڈھونڈیئے بی بی ۔

    معمولی سا اشارہ آپ کے لکھے میں بھی ملتا ہے

    برٹش انگلش میں کم درجے کا کوئ بھی سرکاری ملازم یا کلرک۔

    ReplyDelete
  3. عنیقہ آپ نے بہت اچھی بحث چھیڑی ہے۔ اس بات سے قطعا صرف نظر کرتے ہوئے کے اس مقدمے میں کس فریق کا موقف درست ہے۔ میں یہاں یہ بیان کرنا چاہونگا کہ قیام پاکستان کے بعد ہندوستان اور پاکستان دونوں نے اپنے اپنے خود ساختہ نظریات کے تحت جھوٹے حوالے گھڑے اور قصے کہانیوں سے قوموں کی تحقیر اور وقار کو منسلک کرنے کی کوششیں کیں۔ یہ کوششیں خاص طور پر خام تعلیم یافتہ کم عمر نوجوان طبقے پر اثردار رہی ہیں۔ تاہم ہم توقع کرتے ہیں کہ جب وہ بچے بڑے ہوجائیں تو حقائق کو کہانیوں سے الگ کرسکیں مگر بہت سے بچے بڑے ہوکر بھی ان قصوں کو حقیقت سمجھتے ہیں۔

    اگر کوئی ان قصوں کو غلط ٹہراتا ہے تو یہ بچے ضد کرنے لگتے ہیں کیونکہ ان قصوں کے غلط ثابت ہونے سے ان کے نظریات کی دیواریں ڈھے جاتی ہیں۔

    آپ لوگ قیام پاکستان سے قبل کے اکابرین کے خطوط و نثر ملاحظہ فرمائیں آپ کو کہیں لفظ بابو سے تحقیر کا کوئی شائبہ نظر نہیں آئے گا۔

    ReplyDelete
  4. انگریزی کا لفظ vulgur آج سے کوئی سو سال پہلے تک عام کے معنوں میں استعمال ہوتا تھا۔ آج اس کا ترجمہ اردو میں کیا جائے تو فحش بنے گا۔ ہر زبان میں وقت کے ساتھ ساتھ نہ صرف نئے الفاظ آتے ہیں بلکہ پرانے الفاظ کے معانی بھی بدل جاتے ہیں۔ چناچہ مجھے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ بابو احترام کے لیے، پڑھے لکھے شخص کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اردو کا بابو اور پنجابی کا باؤ ایک چیز کے دو نام ہیں۔ میں نے آج تک نہ کبھی اسے تحقیر کے لیے استعمال ہوتے دیکھا اور نہ ہی اس معانی میں استعمال کیا چناچہ میں تو یہی کہوں گا کہ یہ احترام کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ بالفرض اگر کوئی اسے تحقیر کے لیے استعمال کرتا بھی تھا، جو کہ میرے ابا جی کی پیدائش سے بھی پہلے کی بات ہے، وہ سارے اللہ میاں کو پیارے ہوگئے اور ساتھ وہ معانی بھی قبروں میں لے گئے۔ آج کی زبان جو ایک زندگہ حقیقت ہے میں بابو کا مطلب وہی ہے جو میں آپ اور سارے اہل زبان سمجھ رہے ہیں۔ اب اگر گڑے مردے اکھاڑنے شروع کردئیے جائیں تو یہ اپنے اپنے نکتہ نظر کی بات ہے۔

    ReplyDelete
  5. ملا دو پیازہ، اکبر کے نو رتنوں میں سے ایک تھے۔ ایکدن دربار پہنچنے میں خاصی دیر ہو گئ۔ بادشاہ ناراض ہوا کہ اتنی دیر میں کیوں آئے۔ جواب دیا حضور بچے کو بہلا رہا تحا۔ بادشاہ اور بگڑا کہ بچے کو بہلانا کیا مشکل کام ہے۔ لو تم بچہ بنو اور ہم تمہیں بہلاتے ہیں۔ اگلے ہی لمحے ملا دوپیازہ ایڑیاں رگڑ رہے تھے کہ مجھے اونٹ چاہئیے۔ بادشاہ نے تالی بجائ۔ اونٹ پیش کیا جائے۔ اونٹ آگیا۔ اب انہوں نے پھر مچلنا شروع کیا، مجھے ایک پتیلی چاہئے شاہی حکم ہوا۔ پتیلی حاضر کی جائے۔ پتیلی آئ۔ اب ملا دوپیازہ نے پھر دھاڑیں مار مار کے رونا شروع کیا۔ اونٹ کو پتیلی میں بٹھایا جائے۔
    تو بالک ہٹ تو سنی تھی۔لیکن اجمل صاحب اب آپکی اس ضد کا کیا جائے۔ میں شاید یہی کہنا چاہ رہی ہوں کہ تہذیبی ورثے میں جو چیز چلتی ہے اسکی جڑیں خاصی پرانی ہوتی ہیں۔ آج میری ماں اٹھاون سال کی ہو رہی ہیں ۔ وہ اپنے والد صاحب کو بابو کہتی ہیں۔ اب سوچیں ذرا کہ یہ ان سے کتنی نسل پہلے استعمال ہوتا ہوگا جو انہوں نے سیکھا۔ میرے والد صاحب اگر حیات ہوتے تو انکی عمر اس وقت پینسٹھ سال کے لگ بھگ ہوتی۔ انکے یہاں سب بچوں کو بابو ہی کہا جاتا تھا۔
    ابن سعید صاحب، اپ نے بجا فرمایا کہ اسے طنز کے طور پہ بھی کبھی کبھی استعمال کیا جاتا ہے۔ خاص طور پہ جب کوئ بڑا بن تھن کر پھرے اور چھوٹے موٹے کاموں کو کرنا حقیر جانے۔ تو کہتے ہیں کہ وہ تو بڑے بابو صاحب ہیں وہ کہاں یہ کریں گے۔ وغیرہ وغیرہ۔
    عام طور پہ ڈکشنریز کے نئیے ایڈیشن میں پرانے الفاظ کو باہر نہیں کیا جاتا بلکہ نئے الفاظ شامل کئے جاتے ہیں اور پرانے الفاظوں کے نئے استعمال کو بھی شامل کیا جاتا ہے۔ میں نے جن لغات کے حوالے دئیے ہیں انکے علاوہ بھی میں نے آکسفورڈ وغیرہ کی ڈکشنریز دیکھیں۔ مگر افسوس کہ کہیں بھی انکے وہ معنی نہیں دئیے ہوئے۔
    نعمان، آپکا مشورہ درست ہے میں بھی یہی کہہ رہی ہوں کہ اس زمانے کا لٹریچر اٹھا کر دیکھیں، کیونکہ کسی دور کا ادب اس زمانے کی بو دوباش، زبان اور تمدن کو بہتر ظاہر کرتا ہے۔
    دوست آپکا مئوقف بھی اپنی جگہ صحیح ہے۔

    ReplyDelete
  6. کہاں سے شروع ہوئی یہ بحث؟
    اس پوسٹ کو لنک تو دیں
    تا کہ ہمیں بھی تو ساری کہانی کا پتا چلے

    ReplyDelete
  7. بی بی!
    بہت ممکن ہے آپ کی بات درست ہو، مگر ابو شامل صاحب نے غالباََ َ آکسفورڈ اردو انگریزی ڈکشنری کا حوالہ دیا ہے ۔ اسلئیے ضروری ہے کہ مذکورہ ڈکشنری کا بھی مطالعہ کر لیا جائے۔ ویسے انگریزوں کے خبثِ باطن کو سمجھنے کے لئیے کسی خاص قسم کے لفظ یا الفاظ پہ عبور ہو خاص ضروری نہیں اور نہ انگریزوں کے بارے میں کسی خاص موضوع ہ عبور ہونا ضروری ہے۔ اس خبثِ باطن کی مثالیں برٹش انڈیا میں جگہ بہ جگہ ملتی ہیں۔نیز وہ لوگ جنہیں انگریزوں سے پالا پڑا ہے یا انگلستان میں رہ رہے ہیں۔ وہ بہتر طریقے سے اس بارے بیان کر سکتے ہیں کہ انگریز کس قدر انھیں تعظیم و احترام دیتے ہیں ؟۔
    آپ کا علم سے واسطہ ہے اور درس وتدریس بھی کر چکی ہیں۔ آپ یہ بات بہتر طور پہ سمجھ سکتی ہیں کہ کسی بھی تحریر ،بات اور بیان میں اسکے اصل مقصد پہ نظر رکھنی چاہئیے۔

    ذیل میں لفظ بابو کے کچھ مطالب ہیں۔

    بابُو [با + بُو] (سنسکرت)
    _______________________________
    بپتا بابُو
    سنسکرت میں اصل لفظ 'بپتا' ہے اردو زبان میں اس سے ماخوذ 'بابو' مستعمل ہے ہندی میں بھی بابو ہی مستعمل ہے 1814ء میں "مثنوی ایجاد رنگین" میں مستعمل ملتا ہے۔

    اسم نکرہ ( مذکر - واحد )
    جمع غیر ندائی: بابُوؤں [با + بُو + اوں (و مجہول)]
    1. انگریزی پڑھا ہوا شخص بالعموم کسی دفتر کا کلرک، منشی، اہلکار۔
     یہ پرورش کوئی کم ہے ان کی جنھیں برا کہہ رہے ہیں گاندھی
    ہمیں پڑھایا پڑھا کے بابو بنا دیا ہم کو ہاتھرس میں ( 1942ء، سنگ و خشت، 223 )
    2. صاحب، جناب، مسٹر، میاں، مولانا وغیرہ کی طرح ایک تعظیمی لفظ یا قابل تعظیم شخص۔
     قاضی جی بگڑے تو ان سے یوں کہا
    کیوں خفا ہوتا ہے اے بابو بھلا ( 1814ء، مثنوی ایجاد رنگین، 70 )
    3. گول مٹول پیارا سا بچہ (لاڈ میں عموماً ہر چھوٹے بچے کے لیے مستعمل)
    (پلیٹس)
    4. باپ (بالعموم جی کے ساتھ)۔
    "چھوٹی بچی ..... پیروں سے چمٹ گئی اور بولی اماں بابو جی کب آئیں گے۔" ( 1936ء، پریم چند، پریم چالیسی، 138:1 )
    انگریزی ترجمہ
    prince, noble, man of family or distinction; a title of respect (as) sir, Mr.; young master; father; a term or endearment applied to children; a clerk or writer in an office

    مترادفات
    صاحِب خَوانْدَہ مِسْٹَر

    مرکبات
    بابُو اِنْگْلِش، بابُو گَری

    [با + بُو] بابُو بزبانِ پنجابی باُو[با+ؤ]
    سرکاری اسکولوں کانسبتاؑ پڑھا لکھا فرد
    سرکاری دفاتر میں کلرک یا منشی
    جدید یا مغربی رہن سہن اور مغربی لباس پہننے والے کے لئیے قدرے تعظیمی تخاطب مثلاؑ باوُ جی تہاڈا کی حال اے۔
    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    بابُو اِنْگْلِش [با + بُو + اِنْگ (ن مغنونہ) + لِش]

    سنسکرت سے ماخوذ اسم 'بابو' کے ساتھ انگریزی اسم 'انگلش' لگانے سے مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ ہندوستان میں انگریزوں کی آمد کے فوراً بعد سے ہی اردو میں مستعمل ہے لیکن تحریری طور پر 1936ء میں "خطبات عبدالحق" میں مستعمل ملتا ہے۔

    اسم نکرہ ( مؤنث - واحد )
    1. ہندوستانیوں کی انگریزی، (اہل زبان کے نزدیک) غیر معیاری انگریزی۔
    "ہندوستانی ----- انگریزی ----- بابو انگلش کے نام سے بدنام ہے۔" ( 1936ء، خطبات عبدالحق، 76 )
    _____________________________________




    بابُو گَری [با + بُو + گَری]

    _____________________________________
    سنسکرت سے ماخوذ اسم 'بابو' کے ساتھ فارسی زبان میں لاحقۂ فاعلی 'گار' سے مشتق 'گری' بطور لاحقۂ کیفیت لگنے سے 'بابوگری' مرکب بنا۔ اردو میں بطور اسم مستعمل ہے۔ تحریری طور پر 1973ء میں 'اوراق' لاہور میں مستعمل ملتا ہے۔

    اسم کیفیت ( مؤنث - واحد )
    1. محرری، کلرکی۔
    "سوداگری، صنعتی نظام کے ساتھ کلرکی بابو گری لازم و ملزوم تھے۔" ( 1973ء، 'اوراق' لاہور، مارچ، اپریل، 292 )

    _____________________________________

    ReplyDelete
  8. گواہوں کے بیانات، وکلاء کے مباحثے اور دونوں فریقوں کے دلائل سننے کے بعد عدالت کس نتیجے پر پہنچی ہے؟

    ReplyDelete
  9. دلائل جاری رکھے جائے!۔
    :)

    ReplyDelete
  10. وہ ایک دفعہ کہیں پڑھا تھا کہ ہلاکو نے جب بغداد پر حملہ کیا تو وہاں کے اہل علم اس بات پر مناظرے کررہے تھے کہ انگوٹھے کے ناخن پر کتنے فرشتے بیٹھ سکتے ہیں۔۔

    ReplyDelete
  11. ابو شامل جی ہان اس بات کو ابحی میں نے ہی کچھ عرصے پہلے اب شام کے یہاں کسی تبصرے میں دہرایا تھا۔ میرا مقصد صرف یہ ثابت کرنا ہے کہ یہ بلکہ اسی طرح کی اور چیزیں بغیر کسی تحقیق کے لوگوں بالخصوص ان لوگوں اور نوجوانوں کو جو ایسی تحریریں پڑھنے کے بعد انکے صحیح اور غلط ہونے کا فیصلہ نہیں کر پاتے اور نہ ہی انکو حقاءق کے صحیح یا غلط ہونے سے دلچسپی ہوتی۔ بلکہ وہ اپنے موقف ، اپنے نظرئیے کو سپورٹ کرنے والی ہر صحیح اور غلط چیز کو اختیار کر لیتے ہیں۔ اس سے زبانی چلنے والی تاریخ بگڑ جاتی ہے اور اس سے وہ توانائیاں جو کہ کسی تعمیری کام میں خرچ ہونی چاہئیں ، نفرت کے بڑحانے میں لگی رہتی ہیں۔
    یہ تو ایک بہت چھوٹی سی چیز ہے۔
    میں نے اسے آکسفورڈ ڈکشنری میں بھی دیکھا ہے اور اس میں بھی کہیں یہ نہیں لکھا کہ یہ ببون سے نکلا ہے۔اب جبکہ جاوید صاحب نے خاصی محنت کر کے یہ سارے دلاءل اکھٹے کئے ہیں تو جناب عالی آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس سارے قصے میں یہ لفظ نہ ببون سے نکلتا ثابت ہوتا ہے اور نہ بابا سے۔ خدا جانے کتنے عرصے سے یہ اس زمین پہ بولا جاتا رہا ہے جس کے ہم رہنے والے ہیں۔
    انگریزوں نے اس خطے پہ کل ملا کے دو سو سال حکومت کی۔ اردو کو آگے بڑھانے میں انکا بھی کردار رہا ہے جس سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ سرسید کے دور میں جب اردو کو آسان بنانے کی تحریک شروع ہوئ تو اس سے پہلے انگریز فورٹ ویلیئم کالج میں اسکی بنیاد رکھ چکے تھے۔ وہ اپنی آمد کے ساتھ اپنی ٹیکنالوجی بالخصوص آلات حربی اور اپنا تمدن بھی لائے تھے۔ سو انکی زبان کا اثر اردو پہ آنا ہی تھا۔ جیسا کہ آپ اس وقت اردو کی کوئ بھی لغت اٹھا کر دیکھیں اس میں بے شمار الفاظ انگریزی کے ملیں گے۔
    انگریزوں نے جس وقت برصغیر پہ قبضہ کیا۔ یہاں پہ حالات خاصے ابتر تھے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ انگریزوں نے ان حالات کی خرابی میں حصہ لیا اپنے مفاد کے لئیے۔ لیکن درحقیقت یہاں کے حکمرانوں نے بھی اس وقت جیسا کہ ہمارا اب تک چلن رہا ہے اپنی ہستیوں کے لئے زیادہ کام کیا۔
    شعیب صفدر صاحب۔ آپ اسے دیوانی عدالت کا کیس بنانا چاہ رہے ہیں۔ جبکہ میرا خیال ہے کہ عدالت برخواست ہو چکی ہے۔ کیوں راشد کامران صاحب۔
    لیکن ان کمنٹس کے اوپر کوئ تلوار تیز کرنا چاہے تو بندی منتظر ہے۔

    ReplyDelete
  12. تمام تاثرات اور حوالاجات پڑھنے کے بعد میں تو جی بطور قاری اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ بابو بڑوں کے لیے تکریم اور چھوٹوں سے پیار کے اظہار کے لیے بولا جاتا ۃے۔ اب گر خاندان کی بڑی بوڑھیوں نے ڈارون کے نظریات پڑھ رکھے ہیں اور اس حوالے سے ہمیں برسوں سے محض بابو کے نام سے ہی جانتی ہیں تو کیا کہہ سکتے ہیں۔۔

    باقی تو جی اللہ تعالی کی نظر میں افضل وہ ۃے جو تقوی میں افضل ۃے دنیا اسے بابو کہتی ۃے، مسٹر کہتی ۃے کالا یا گورا یا ببون اس سے کچھ فرق نہیں پڑنے والا۔

    ReplyDelete
  13. میرے خیال سے تو اپ نے درست نتیجہ نکالا راشد کامران بابو۔
    :)

    ReplyDelete
  14. میں تو پہلے ہی اپنے بلاگ پر تبصرے میں کہ چکا تھا تھا کہ اس موضوع پر مزید کوئی گفتگو نہیں کروں گا۔ جو دلائل اور حوالے دینے تھے دے دیے اور جو باتیں تسلیم و رد کرنا تھیں کر لیں۔ مزید بات پھیلانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس تحریر میں دلچسپی صرف آپ کے مستقبل کے موضوعات کے حوالے سے ہے جس کا ذکر آپ نے تحریر کے آخر میں کیا ہے۔ میں منتظر رہوں گا کہ ان موضوعات پر آپ کے قلم سے نکلی تحاریر پڑھوں۔

    ReplyDelete
  15. ابو شال، آپ نے تو کہہ دیا تھا مگر ایسی کوئ بات میں نے نہیں کہی تھی۔ کیونکہ اس ساری گفتگو کو جو اس پس منظر میں ہوئ تھی میں ناکافی اور تشنہ سمجھتی تھی۔ نہ ہی کوئ بات آپ سے تسلیم یا رد کروانا تھی کہ اصل بات اس لفظ سے وابستہ حقیقیت تھی۔ میرا خیال ہے بات اب سمٹ گئ ہے ، اور کوئ اس الجھن میں نہیں کہ اصل بات کیا ہے۔

    ReplyDelete
  16. اور ہاں، ان تحریروں کے لئیے آپکو تھوڑا سا انتطار تو اٹھانا ہی ہوگا۔ فی الحال موڈ نہیں ہو رہا۔

    ReplyDelete
  17. “کیا دنیا بھر کی قوتیں صرف اسلام کو ختم کرنے کے درپے ہیں یا اس میں مسلمانوں کا کئ صدیوں پہ مشتمل ایک طویل علمی اور تحقیقی جمود ہے۔”

    بی بی!
    دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ مختلف مذاہب اور تہذیبوں کی آپس میں ہمیشہ چیپقلش رہی ہے۔ اس میں اس لحاظ سے اسلام، اسلامی یا غیر مذاہب یا غیر اسلامی کو بھی اشتناء نہیں۔ نیز شاید آئیندہ بھی تاریخ اپنے آپ کو بارہا دہرائے گی۔ اس پہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ اپنے گھر میں ہمیشہ مناسب اخلاقی ، مادی، اور اسلام کی درخشان روایات کے مطابق انصاف و عدل ، علم و تحقیق اور دیانتداری و وسائل کی مساویانہ تقسیم کی ضرورت ہے۔

    جہاں تک مسلمانوں کا کئ صدیوں پہ مشتمل ایک طویل علمی اور تحقیقی جمود کا تعلق ہے تو میری رائے میں پچھلی کچھ صدیوں سے دنیا کی امامت اور علم و تحقیق میں ہمارا کوئی خاص کردار نہیں رہا ہے۔ جسے ہم بہ حیثیت مسلمان فخر سے بیان کر سکتے ہوں۔ خواہ اسکی وجوہات کچھ بھی رہی ہوں۔ ان وجوہات پہ تو بحث کی جاسکتی ہے مگر انکی حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

    میری رائے میں دو سقوط مسلمانوں پہ بہت بھاری گزرے ہیں۔ سقوطِ بغداد اور سقوطِ قرطبہ۔ یہ دونوں سقوط وہ نقطہ آغاز ہیں جہاں سے نہ صرف ہمارے علمی و تحقیقی جمود کا آغاز ہوا بلکہ اکا دُکا ادوار اور چند ایک مثالیں چھوڑ کر، بہ حیثیت مجموعی سیاسی طور پہ اور بہ حیثیت انفرادی و اجتماعی ہم اخلاقی زبوں حالی کا شکار ہوئے اور بہ حیثیت مسلمان ہمارا قومی کردار قابلِ فخر قرار نہیں دیا جاسکتا۔

    ReplyDelete
  18. "میرا خیال ہے بات اب سمٹ گئ ہے ، اور کوئ اس الجھن میں نہیں کہ اصل بات کیا ہے۔"
    فریقین کے دلائل تو سمٹ گئے ہیں، اب جس نے جو سمجھنا ہے سمجھ لے۔ اگر آپ یہ سمجھتی ہیں کہ انگریزوں کا استعمال کردہ لفظ بابو کچھ اور تھا تو سمجھتی رہیے۔ اس سے یہ حقیقت نہیں مٹ سکتی کہ انگریز یہ لفظ مقامی کلرکوں کے لیے تحقیرا استعمال کرتے تھے۔ اس کے میں حوالہ جات بھی دے چکا ہوں۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ