Thursday, December 31, 2009

تقلید اور جدیدیت

جیسا کہ کچھ لوگوں کے علم میں ہوگا کہ آجکل میرے زیر مطالعہ جو کتاب ہے اسکا نام ہے تاریخ فلاسفۃ الاسلام۔ یہ کتاب لکھے ہوئے دیباچے کے مطابق علامہ قفطی کی مشہور و معروف کتاب تاریخ الحکما ء کےبعد غالباً اس موضوع پہ کسی مسلمان مصنف کی پہلی وسیع کتاب ہے
اسکے مصنف ایک عرب عالم جناب لطفی جمعہ ہیں۔ اس کتاب میں جن مسلمان فلسفیوں کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ وہ بالترتیب اس طرح ہیں۔
کندی، فارابی، اب سینا،غزالی،ابن ماجہ،ابن طفیل،ابن رشد،اب خلدون، اخوان الصفا کے افراد،ابن الہیثم، محی الدین عربی، ابن مسکویہ۔  کتاب میں میری دلچسپی کا باعث ابن رشد کا تذکرہ ہے جس پہ مصنف نے بھی سب سے زیادہ توجہ کی ہے۔
جہاں امام غزالی تقلیدی عناصر کو استقامت دینے والے مفکر قرار پاتے ہیں وہاں ابن رشد حریت فکر کا نام ہیں۔ مفکرین کا کہنا ہے کہ جدید علوم اور سائنس پہ مسلمانوں کی گرفت  اسی وقت تک مضبوط رہی جب تک مسلمانوں میں حریت فکر موجود تھی اور جب اسکا خاتمہ ہوا اور مسلمان علماء نے تقلیدی عناصر کو پسند کرنا شروع کیا تو ان چیزوں پہ انکی گرفت بھی کمزور پڑتی چلی گئ اور بالآخر وہ تاریکی میں چلے گئے۔ کیونکہ اس بارے میں کوئ دو رائے نہیں کہ تحقیق، اور تقلید ساتھ نہیں چل سکتے۔
 ابن رشد ایک اندلسی مفکر تھے۔ انکا زمانہ امام غزالی کے سو سال بعد شروع ہوتا ہے۔ مصنف کی نظر میں ابن رشد میں تین ایسی خصوصیات پائ جاتی ہیں جو کسی اور مسلمان فلسفی میں نہیں۔اول یہ کہ وہ عرب کے سب سے بڑے فلسفی، اور فلاسفہء اسلام میں سب سے زیادہ مشہور ہیں۔ دوئم یہ کہ وہ عام طور پہ قرون وسطی کے جلیل القدر حکماء میں سے ہیں جو حریت فکر کے بانی ہیں۔اہل یوروپ کی نظر میں انکی خاص قدر و منزلت ہے۔ سوئم یہ کہ وہ اندلسی ہیں۔
جہاں غزالی نے فلسفے کے توڑ کے لئے کتاب' کتاب تہافہ' لکھی اور تقلیدی مذہب کو رائج کیا۔  وہاں ابن رشد نے سو سال بعد کتاب تہافہ کے رد میں تہافۃ التہافہ لکھی۔ کہا جاتا ہے کہ حاسدین نے خلیفہ کو اب رشد کے خلاف بھڑکایا اور اسکے نتیجے میں ایک لمبے عرصے تک انکی صلاحیتوں کے معترف خلیفہ نے انہیں ملحد قرار دیکرملک بدر کر دیا۔ اور انکی بیشتر کتابوں کو جلا ڈالا۔ اس ملک بدری کے دوران انہیں یہودیوں نے پناہ دی۔ اور انکی کتابوں کے عبرانی ترجمے کر کے یوروپ بھجوائے گئے۔ ایک سال بعد  خلیفہ کو اپنی زیادتی کا احساس ہوا اور اس نے انہیں واپس طلب کر لیا لیکن ہوا یوں کہ واپسی کے چند ہی مہینوں کے اندر خلیفہ اور ابن رشد دونوں ہی زندہ نہ رہے۔
اگرچہ کہ جدید زمانے میں یوروپ کی نشاۃ ثانیہ کا باعث کئ مغربی مفکرین کو بتایا جاتا ہے۔ اور کئ مسلمان علماء بھی ان مغربی مفکرین پہ لعن طعن کرتے رہتے ہیں۔ مگر تاریخ سے انصاف کرنے والے  مغربی یا مسلم دونوں مورخین اسکی وجہ ابن رشد کو قرار دیتے ہیں جس کی تعلیمات کے زیر اثر کلیسا کو ریاستی معاملات سے الگ کیا گیا۔
 اسلامی دنیا انکی تصنیفات اور اسکے اثرات سے محروم رہی۔ اسکی وجہ انکی بیشتر تصنیفات کو جلا دینا ہے جو عربی میں تھیں۔پہلے یہ کام خلیفہ ء وقت نے کیا انکی ملک بدری کے دوران اور بعد میں عیسائ فاتحین اندلس نے۔ خود یوروپ میں کلیسائ قوتیں ان سے ناراض تھیں۔ اور نتیجتاً ایک زمانے میں یوروپ کے بعض حصوں میں انکی کتب پڑھنے کی اجازت نہ تھی۔ بلکہ انہیں جلا بھی دیا گیا۔ لیکن ایک زمانہ وہ بھی آیا جب انکی کتابیں یوروپین تعلیمی اداروں میں نصاب کا حصہ بنیں۔
فی الوقت میں اس کتاب سے ایک اقتباس دیانا چاہونگی۔ یہاں یہ امر یا درہنا چاہئیے کہ ابن رشد کی پیدائش گیارہ سو چھبیس عیسوی کی ہے اور اندازاً انکا زمانہ ہم سے ایک ہزار سال قدیم ہے۔ لیکن خواتین سے متعلق انکا بیان حقیقت حال کی ترجمانی کرتا ہے۔۔'اسکے بعد ابن رشد نے ایک ایسی بات کہی ہے گویا اسکے نفس نے اسکے مرنے کے کے تقریباً نو سو برس بعد قاسم امین کے کانوں میں پھونکی۔ وہ کہتا ہے کہ ہماری اجتماعی حالت ہمیں ا س قابل نہیں رکھتی کہ ہم ان تمام فوائد کا استعمال کر سکیں جو ہمیں عورت کی ذات سے حاصل ہو سکتے ہیں۔ بظاہر وہ حمل اور پرورش اطفال کے لئے کارآمد معلوم ہوتی ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ جس غلامی کی حالت میں ہم نے عورتوں کو پالاپوسا ہے۔ اس سے انکی تمام اعلی قوتیں مضمحل ہو گئ ہیں اور اسکے عقلی اقتدار کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ اس لئے اس وقت ہم کو کوئ ایسی عورت نہیں ملتی جو اعلی فضائل اور اخلاق رکھنے والی ہو۔ انکی زندگی گھاس پات کی طرح ختم ہوجاتی ہے اس طرح وہ اپنے شوہروں پہ بار ثابت ہوتی ہیں۔ یہ امر تمدن کی سخت ترین تخریب اور انحطاط کا موجب ہوا ۔ کیونکہ عورتوں کی تعداد مردوں کی تعداد کے مضاعف ہے گویا وہ وہ دنیا کی مجموعی آبادی کا دو ثلث ہیں لیکن وہ باقی ثلث کے جسم پہ مثل طفیلی حیوان کے زندگی بسر کرتی ہیں صرف اس وجہ سے کہ وہ اپنی ضروری قوتوں کی تکمیل سے عاجز ہیں'۔
تو میرے محترم قارئین، اس ایک ہزار سالہ پرانے خیالات سے اندازہ ہوتا ہے کہ خواتین کی ابتر صورت حال کو مغرب میں پچھلی صدی میں  آزادیء حقوق نسواں کے نام سے کیش کرانے کے پیچھے چلنے والا تصوربھی کسی مسلمان مفکر سے ہی لیا گیا ہے۔ یہ الگ بات کہ پچھلے ایک ہزار سالہ  زمانے میں تقلیدی صفت نے ہم سے ہماری عقل کے تمام جوہر چھین کر مسلمان قوم کو اس عورت کی مانند بنا دیا ہے جیسی خوبیاں ابن رشد نے گنوائ ہیں۔  دوسروں پہ انحصار کرنے والی اور دوسروں کی طفیلی۔اور جس طرح ہم عورتوں کو انکی عقلی خوبیاں نہ استعمال کرنے کے عمل کو انکی خوبی اور معاشرے کے لئے سودمند سمجھتے ہیں اسی طرح ہم روائیت پسندی کے جال کو اپنے لئیے ایک تمغہ سمجھ کر اپنی جہالت پہ فخر کرتے پھرتے ہیں۔ اپنے اسلاف کے کارناموں کا تذکرہ تو کرتے ہیں مگر یہ جانے بغیر کہ ہمارے اور انکے درمیان نظریاتی اور عملی اختلاف کتنا زیادہ ہے۔ اگر وہ اس وقت ہمارے درمیان ہوتے تو یقین کامل ہے کہ ہم انہیں بھی دھتکار چکے ہوتے۔

 اس مضمون کی تیاری میں مددگار ذرائع درج ذیل ہیں۔
کتاب۔' تاریخ فلاسفۃ الاسلام'۔ مصنف لطفی جمعہ، ترجمہ ڈاکٹر میر ولی محمد، نفیس اکیڈیمی، اردو بازار کراچی۔





 

28 comments:

  1. آجاکر تان وہیں ٹوٹی کے مغرب نے سب کچھ اسلامی تہذیب و مفکرین سے سیکھا۔ پر مسلمانوں نے انسے کیا سبق سیکھا جنہوں نے ہم سے سبق سیکھا؟ ہاہاہاہا

    ReplyDelete
  2. بہت خُوب آپ کو جواز مل گیا اپنے اعتقاد کا

    ویسے تھوڑا مزید مطالعہ کیجئے ۔ مسلمان دانشوروں کے ہاتھوں ترقی کا اصل دور گیارہویں سے تیرہویں صدی ہے

    ReplyDelete
  3. افتخار اجمل صاحب، آپکو اپنے بند خول سے باہر آنے کی ضرورت نہیں۔ نہ ہی میں آپکے لئیے یہ سب تحریر فرماتی ہوں۔ آپ اپنی معلومات اور فکر کی جن بلندیون پہ ہیں وہیں رہیئیے۔ اور اپنے ہمنواءووں کے ساتھ دل بہلائیے۔ مجھ سے بات کرنے کے لئیے آپکو بہتر زبان میں بات کرنی پڑے گی۔اور بہتر ذریعہ ء معلومات کے ساتھ۔۔
    میری بالکل خواہش نہیں کہ میں آپکے ساتھ یا کسی بھی ایسے شخص کے ساتھ جو محض علم میں مقابلے کی روش پہ آمادہ ہو دلیل بازی کروں۔
    آخری بات یہ یاد رکھیں کہ نہ یہ بحث آج عنیقہ اور اجمل صاحب نے پیدا کی ہے اور نہ یہ محض اس دور کا مسئلہ ہے۔ جیسا کہ اس مضمون میں دی گئ معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں دو واضح سوچ آج سے ہزار سال پہلے بھی موجود تھیں تو اس طرح کی طنزیہ گفتگو آپکی بات میں کوئ بھی وزن پیدا کرنے سے قاصر ہے۔
    میرے اور آپکے درمیان میں جو ذہنی بعد ہے اسکی وجہ سے کسی بھی تعمیری گفگتو کی گنجائش کم ہی نکلتی ہے۔

    ReplyDelete
  4. آپ کی نوازش کا شکریہ
    لگی رہیئے

    ReplyDelete
  5. بہت شکریہ !

    اس حاصلِ مطالعہ کے لئے۔ مزید کا انظار رہے گا۔

    خوش رہیے۔

    ReplyDelete
  6. آپ کو اور بيٹی کو آپکے اہل خانہ کو نيا سال مبارک

    ReplyDelete
  7. ابن رشد کی زندگی پر ایک عربی فلم المصیر یا انگریزی نام ڈسٹنی کے نام سے 1997 میں مصر میں بنای گیی ۔ بنانے والے مصر کے مشہور ہدایتکار یوسف شاہین تھے ۔ اگر آپ دلچسپی رکھتی ہیں تو نیٹ پر اس فلم کے انگریزی نام سے ڈھونڈ کر ڈاونلوڈ کر سکتی ہیں - وی ایل سی پللیر پر چلے گی اور ہاں اس کی ڈاونلوڈ میں شامل ایک فایل جس کی ایکسٹینشن ایس آر ٹی ہے ضرور ڈاونلوڈ کریں تاکی انگریزی میں ٹایٹل بھی دیکھ سکیں
    اس کے ساتھ شہزادی ولادہ کی زندگی کے حالات کا مطالعہ بھی دلچسپ ہے جو اندلس کی سیفو کے نام سے بھی جانی جاتی ہے اور اس شاعری آج بھی عرب ممالک کے نصاب میں شامل ہے ۔ مسلمانوں میں بہرحال وہ تاریخ کا ایک متنازعہ کردار ہے

    ReplyDelete
  8. بےحد شکریہ اسماء۔ آپکو بھی آنیوالا سال مبارک ہو۔ اور خدا اس سال سے بندھی آپکی امیدیں پوری کرے۔ اپنی بچیوں کو پیار دیجئیے گا اور شوہر صاحب ----------------کے ساتھ جو دل چاہے سلوک کریں۔

    ReplyDelete
  9. anika sahiba ajmal sahab nay aisi koi baat nahi ki jis par aap itna ghussa hui hyn or rudely reply kia hy aap ko un se sorry kehna chahiye.

    ReplyDelete
  10. Anonymous is right,you should do respect to ajmal sahab

    ReplyDelete
  11. بہت شکريہ عنيقہ؛ شوہر کے ساتھ تو اگلے سال ميں وہ سلوک کروں گي جيسا روايتي پاکستاني خواتين کرتي ہيں يہ مرد اسي سلوک سے خوش ہوتے ہيں بس اگلے سال کا يہی لائحہ عمل ہے ؛ عبداللہ کا چونکہ کوئی بلاگ نہيں اس بلاگ پر آتا ہے لہذا ميری طرف سے عبداللہ کو بھی نيا سال مبارک

    ReplyDelete
  12. ریاض شاہد صاحب، آپکا شکریہ ان معلومات کو شیئر کرنے کا میں ان دونوں چیزوں سے لا علم تھی۔ میں یقیناً دیکھنا اور پڑھنا چاہونگی۔
    گمنام ساحب یا صاحبان، میں اس تمام نتیجے پہ گذشتہ چھ مہینے گذارنے کے بعد پہنچی ہوں۔ اس تمام عرصے کے دوران انکا رویہ اسی قسم کا رہا ہے۔ جہاں انہیں متن سے دلچسپی نہیں ہوتی بلکہ اپنے ذہن میں موجود میری شخصی وابستگیوں سے دلچسپی ہوتی ہے۔عزت اوراحترام مخصوص لوگوں کی نہیں ہوتی تمام لوگ اسکے حقدار ہوتے ہیں۔
    اگر کوئ کسی کو پسند نہیں کرتا تو وہ اسکے ساتھ گفتگو میں شامل نہ ہو۔ لیکن یہ نہیں ہونا چاہئیے کہ وہ ہر وقت اس سے غلط رویہ اختیار کریں۔
    اسماء، میرا خیال ہے عبداللہ کو آپکا پیغام مل جائیگا۔

    ReplyDelete
  13. اسماء نئے سال کی مبارکباد دینے کا شکریہ!
    آپکواور آپکی فیملی کو بھی نیا سال مبارک ہو میری دعا ہے کہ آپ اپنے شوہر اور بچیوں کے ساتھ سدا خوش رہیں اور ہر انے والا دن آپکے سینس آف ہیومر میں مزیداضافہ کرے آمین :)
    انیقہ آپکے اور آپکی فیملی کے لیئے بھی نئے سال کی نیک خواہشات اور یہ دعا کہ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ! :)

    ReplyDelete
  14. انیقہ ذیادتی کا ثمر مزید ذیادتی ہی ہوتا ہے!
    جو زیادٹی مسلمان قوم نے اپنی عورتوں کے ساتھ کی وہی ذیادتی دیگر اقوام نے مسلمانوں کے ساتھ کی،
    محسوس یہ ہوتا کہ مسلمان مرد عورتوں کی صلاحیتوں سے خوفزدہ رہے ہیں یا پھر ان کے ان حقوق سے جو اللہ نے انہیں عطا کیئے ہیں اسی لیئے انہیں بے زبان بھیر بکری بنا کر رکھنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں اور اس ذہنیت کی ابتداء اس دور سے ہوئی جب مسلمانوں میں علمی اور اخلاقی انحطاط پیدا ہونا شروع ہوا!

    ReplyDelete
  15. بی بی!

    ہم اچھے بھلے سال نو کی فراغت سے لطف انوز ہورے تھے کہ آپ کی اس تحریر نے سواد خراب کر دیا۔

    آپ کی اس بات سے تو سو فیصد اتفاق ہے۔ کہ ہمیں اپنے اعمال درست کرنے چاہئیں۔ مگر مضمون سے شدید اختلاف ہے۔ آپ نے اپنا استدلال درست ثابت کرنے کے لئیے ابن رشد
    Averroes
    کی مبینہ فکرکو بنیاد بنیایا ہے۔ ایک اخباری کالم نویس پروفیسر محی الدین کی پاکستان میں ہر سُو پھیلی دہشت گردی کے تناظر میں گزشتہ جولائی میں لکھے گئے ایک کالم میں سرِراہ ابن رشد کے بارے میں ادہوری، ناقص بلکہ بہت حد تک غلط معلومات سے مثلا آپ کا یہ تاثر دینا کہ ابن رشد پہ مشکل وقت میں ابن رشد کی ہمدردی میں یہودیوں نے اُسے پناہ دی، یہ درست نہیں۔ آپ نے ابن رشد کی فکر اور فلسفے کے بارے میں واجبی معلومات سے اپنے معروف استدلال کو توانا کرنے کی بے سُود کوشش کی ہے۔

    گزارش یہ ہے کہ آپ مسلم اسپین ۔ اندلس، خلافت قرطبہ ، مسلم اسپین میں مسلمانوں کا نطامِ عدل ۔ اندلسی مسلمانوں کی اعلٰی اخلاقی اقدار اور تہزیب و تمدن اورخطے میں تب کی نصرانی قوموں کا طرزِ زندگی۔ خلافت قرطبہ میں غیر مسلم شیہریوں خاصکر نصرانی اور یہودیوں کے ساتھ مساوی اور عادلانہ سلوک، اور غیر مسلموں کا اپنی عورتوں سے تفاخرانہ گھٹیا رویہ و سلوک اور اُن کا رہن سہن ۔ موجودہ اسپین اور خطے میں اس دور میں قائم عیسائی ریاستوں کی مسابقت، مسلم اسپین اور اس دور کا ایک مفصل جائزہ ۔ ابن رشد اور ہم عصر مفکروں کی نظریاتی کشمکش اور اُسکی وجوہات اور اسطرح کے لاتعداد عوامل کو گہرائی سے جانچے بغیر کسی ایک کتاب کے ترجمے سے من پسند نتیجہ اخذ کرنا اوربغیر کسی تحقیق کے اُسے آگے پھیلانا، علمی لحاظ سے علم کے دعویداروں کو کسی طور مناسب نہیں۔

    پچھلی صدی میں یوروپ میں عورتوں کے حقوق کی تحریک اور ابن رشد کے دور میں آٹھ سو سال سے زائد کا عرصہ ہے۔ گاہے گاہے حقوق نسواں کے لئیے جد و جہد کرنے والوں کا ابن رشد کی فلاسفی سے دور سے بھی واسطہ نہیں۔

    ابن رشد کا فلسفہ یوروپ کی تعمیر نو میں ابن رشد کے فلسفے کا سراغ تو ملتا ہے۔ مگر یوروپ میں مذھب اور ریاست کی علحیدگی کی جڑیں ابن رشد سے بھی بہت صدیاں پہلے کی ہیں۔ جس کے پیچھے خود کہتولک چرچ اور بالخصوص یہود کا ہاتھ ہے۔

    آپکی اور پروفیسر محی الدین کی معلومات کے لئیے عرض ہے۔،
    ۔ابن رشد کو ملک بدر نہیں کیا گیا تھا بلکہ خلافتِ قرطبہ کی عملداری میں واقع قرطبہ شہر کے نواح میں واقع قصبے لُوسینا
    Lucena
    میں کچھ وقت کے لئیے محدود کر دیا گیا۔
    ۔ابن رشد کو نصرانیوں یا یہودیوں نے پناہ نہیں دی تھی۔
    ۔ابن رشد علی الترتیب فلسفہ، فقہ، قانون، ریاضی، علم الافلاک، علم طبعیات (فزکس) کا ماہر اورماہرطبیب اور شاعر تھا۔
    ابن رشد ارسطو سے شدید متاثر تھا اور اسکے بعد کے تمام دانشور حکماء بشمول امام غزالی اور بو علی سینا پہ اُس نے شدید تنقید کی ہے۔ ابن رشد کی تمام تنصیفات اپنی رائے، وضاحت، تنقید، اور معاملات کی اپنے نقطعہ نظر سے تشریح سے بھری پڑی ہیں۔ ابن رشد نے ارسطو کی فکر کو اپنی فکر کا مآخز بنایا ہے۔ اور ارسطو کے بعد فلسفے میں مختلف فکر رکھنے والوں کو غلط اور ارسطو کی فکرو فلسفے کو ہی ناگزیر طور پہ اصلی فکر قرار دیا ہے

    فلسفے میں ابن رشد نے ابن رشد کے اپنے الفاظ میں " دھرا سچ" نامی تیھوری پیش کی تھی جس کے تحت فلسفہ اورمذھب دونوں ہی اپنی اپنی جگہ سچے ہیں۔ ابن رشد کے نزدیک اُس وقت بہت زیادہ مشکل پیش آتی ہے جب فلسفے پہ بات کرنے کے لئیے محدود علم و عقل کے لوگوں سے فلسفے پہ بحث کی جائے ابن رشد کے نزدیک ایسے لوگ فلسفے کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔ اس پیچیدہ مسئلے کو حل کرنے کے لئیے وہ افراد کو تین درجوں میں تقسیم کرتا ہے۔ نمبر ایک فلسفی۔ فلسفی جو کسی بات کو ثابت کرنے کے لئیے حتمی ثبوت کی تلاش کرتے ہیں۔
    نمبر دو دانشور۔ دانشور جو تلاش اور ثابت کئیے گئے حقائق کو مان کر ان پہ عمل کرتے ہیں۔ تیسرے نمبر پہ وہ جو صرف اور صرف ابلاغ، کسی قسم کی بھی تبلیغ اور تصورات کو مانتے اور سمجھ سکتے ہیں۔ ابن رشد قرآن کریم کے بارے میں کہتا ہے کہ عقل مندوں کے لئیے قرآن کریم میں بہت سی علامتیں مخفی ہیں جنہیں عام لوگ سمجھنے سے قاصر ہیں اور کلامِ پاک پہ صرف لفظی معنوں میں غور کرتے اور پڑھتے ہیں۔ اسلئیے اہلِ فہم کی قرآنِ کریم سے سمجھ کی گئیں باتوں کو عام لوگوں سے تبادلہ خیال کرنے سے فسادِ خلق خدا کا خدشہ ہو سکتا ہے۔
    قرآن کریم کے بارے میں مندرجہ بالا نقطہ نظراور دوہرے سچ نامی تھیوری کی وجہ سے ابن رشد کو خلافتِ قرطبہ میں اُس کے منصب سے الگ کیا گیا اور کچھ وقت کے لئیے اُسے قرطبہ کے نواح لُوسینا نامی قصبے میں محددو کر دیا گیا۔ جس پہ پروفیسر محی الدین اور بعد ازاں آپ نے ابن رشد کی ملک بدری کی عمارت کھڑی کی۔

    ReplyDelete
  16. ایک خاص بات جو ابن رشد کے بارے میں محققین کو چونکا دیتی ہے اور یہاں اس خاص بات کا ذکر دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ ابن رشد کی عربی میں لکھی گئیں اکثراور مشہور تنصیفات کا کہیں بھی پتہ نہیں چلتا ۔ ابن رشد کی موجودہ اکثر تنصیفات جنھیں آج ہم جانتے ہیں۔ یہ تنصیفات یہودی عالم یعقوب اناطولی کے دعوے کے مطابق یہودی عالم یعقوب انا طولی نے ابن رشد کی موت کے دو سال سن بار سو عیسوی کے لگ بھگ عبرانی زبان میں ترجمہ کیں اور کچھ کتابوں کا مآخذ بھی لاطینی زبان کے تراجم ہیں۔ اور یہ وہ نکتہ ہے جو بہت سے اعتراضات کو جنم دیتا ہے۔


    پروفیسر محی الدین کے گزشتہ جولائی رونامہ انصاف کے جس کالم میں ابن رشد کا ذکر کیا ہے وہ سراسر اختلافی اور غلط اور ناقص معلومات پہ مبنی ہے۔ پروفیسر موصوف اور پاکستان میں ایک جانا پہچانا طبقہ گاہے گاہے کبھی سیکولر کے نام سے کبھی کسی اور بہانے سے پاکستان کی اسلامی شناخت کو رگیدتے رہتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں ہندوؤں سے علحیدگی کی وجہ سے مراعات سے تو پیار ہے مگر جس وجہ یعنی اسلام اوراہل اسلام کی وجہ سے علیحدگی ہوئی اُس وجہ یعنی اسلام اوراہل اسلام سے بیزارگی ہے۔ یہ اسلام کو بہ حیثت شناخت اور نتیجے میں ملنے والی مراعات تو چاہتے ہیں ایسے لوگ اسلام بہ حیثیت دین نہیں چاہتے۔ اسے اسلام میں منافقت کہا گیا ہے۔ ان میں اتنی اخلاقی جرائت نہیں ہوتی کہ اسلام سے اپنا بغض اعلانیہ بیان کر سکیں تو ایسے میں آنے بہانے سے اپنے من گھڑت مفروضوں کے ذریعے اسلام سے اپنا بغض نکالتے رہتے ہیں ۔

    حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے سے حقائق بدلا نہیں کرتے۔

    جاوید گوندل ، بآرسیلونا ۔ اسپین

    ReplyDelete
  17. نئے سال کي ابتداء پر کيوں کب کے مرے ابن رشد کو اڈيکيں مار رہے ہيں آپ لوگ بيچارا قبر ميں التياں پالتياں مار رہا ہو گا اتنی خشک گفتگو سن کر

    ReplyDelete
  18. جاوید صاحب، سب سے پہلے تو میں یہ عرض کرونگی کہ آپ اپنے تئیں یہ فیصلہ کر لیں کہ آپ مجھ سے علمی اور تحقیقی سطح پہ بات کرنا چاہتے ہیں یا گلی محلے کی فارغ خواتین کی طرح کمر پہ ہاتھ رکھ کر لڑنا چاہتے ہیں۔ کیونکہ دوسری صورت میں یہ ساری بحث یہیں ختم ہوجاتی ہے۔
    لیکن میں اس سلسلے میں آپکو سوچنے کا ایک موقع اور دونگی۔ کیونکہ اس طرح کی باتیں کر کے کہ 'خاتون آپ جانتی ہی کیا ہیں' آپ کے دل کو سکون ملنے کے علاوہ کچھ اور نہیں ہوتا۔جبکہ میری دلچسپی ایکدوسرے کی ذات پہ بات کرنے کی بجائے گفتگو کے موضوع پہ زیادہ ہوتی ہے۔ اس وقت موضوع بحث یہ نہیں ہے کہ عنیقہ ناز کیا جانتی ہیں۔ کیوںکہ عنیقہ ناز نے جہاں سے جو کچھ جانا ہے وہ آپکے سامنے حاضر کر دیا ہے آپ بھی نو سو سال پہلے کے قرطبہ میں رہ کر اور ابن رشد اور یعقوب اناطولی سے مل کر نہیں آرہے ہیں۔
    اس وقت آپکے پاس اور میرے پاس جتنا علم ہے کتابوں کا ہے۔ یقینی طور پہ میں نے الیکٹران کو بھی نہیں دیکھا اور نہ ہی ٹی بی کے جراثیم کو دیکھا اور نہ ایڈز کے وائرس سے ملاقات ہوئ اور نہ ہی کوپن ہیگن میں ہونے والی ماحولیاتی کانفرنس میں شرکت کی اور نہ ہی کراچی میں ہونے والے دھماکے کے وقت میں موجود تھی۔ یہ سب معلومات میرے اور آپکے پاس یا کسی بھی اور شخص کے پاس لکھے ہوئے حروف کے ذریعے ہی آتی ہیں۔
    جلا وطنی کی بات میں اپنی علامیت میں یا مرے چیہیتے محی الدین صاحب اپنی ڈائریکٹ ڈائلنگ میں نہیں کہہ رہے۔ بلکہ یہ مختلف ذرائع سے حاصل کی ہوئ معلومات ہیں۔ اور اس کتاب میں بھی یہ دونون معلومات دی گئ ہیں۔ جلا وطنی والے کو زیادہ بیان کیا گیا ہے۔ اس لئیے میں بھی اسی کو لیا ۔
    یہ کتاب تاریخ فلاسفۃ السلام جن صاحب نے ترجمہ کی ہے وہ حیدر آباد دکن کی جامعہ عثمانیہ سے تعلق رکھتے ہیں اور اپنے مضمون میں پی ایچ ڈی ہیں ۔ مجھے بھی اتنی عقل ہے کہ کس کتاب کو مستند اور قابل پڑھ سمجھنا چاہئیے اور کسے نہیں۔ یہ کتاب عنیقہ ناز کی ذاتی فرمائش پہ عرب عالم نے نہیں لکھی۔
    اس تین سترہ صفحوں کی کتاب میں مصنف نے ننانوے صفحے ابن رشد کو دئیے ہیں۔ یہ ساری کہانی جو آپ نے تحریر فرمائ اس میں خاصی تفصیل سے بیان کی گئ ہے۔ لیکن کیا آپ یہ توقع رکھتے ہیں یا چاہتے ہیں کہ میں ان ننانوے صفحات کو لکھ دیتی ۔ سائنس کی کتاب میں سے اگر میں پانی بنانے کا طریقہ بتانا چاہ رہی ہوں تو کیا میں میں پیریڈک ٹیبل میں موجود سارے عناصر کے کیمیائ خّاص بتانے لگ جاءونگی۔ یا صرف پانی بتانے کے طریقے والے صفحات ڈسکس کرونگی۔ اور ایسا کرنے پہ آپ کہیں گے کہ آپنے اپنے پسندیدہ حصے کو بیان کیا۔
    اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت
    دامن کو زرا دیکھ زرا بند قبا دیکھ
    فرانس کے ارنسٹ رینان نے ڈیڑھ سو سال پہلے اس فلسفی پہ ایک کتاب ایویروزز کے نام سے لکھی جو کہ ابن رشد کے انگریزی نام سے لی گیا ہے۔ اس میں اس فلسفی کو زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا ہے۔ اس کتاب کو خاصہ مستند مانا جاتا ہے۔ تو اسکے مطابق ابن رشد کی عربی کتابیں اسکوریال میں موجود ہیں۔ آپکے علم میں ہوگا کہ ماہرین جب یہ اندازہ کرلیتے ہیں کہ یہ غالب کا شعر ہے کہ نہیں تو کیا انہیں اس بات کا اندازہ کرنے میں مشکل آتی ہوگی کہ کونسی تحریر ابن رشد کی یا کسی اور کی ہے کہ نہیں۔بیشتر مسلمان حکماء کی کتابیں عربی زبان میں موجود نہیں ہیں اور انکے صرف تراجم موجود ہیں لیکن انہیں انکا تسلیم کیا جاتا ہے۔
    اسی طرح بیشتر لاطینی کتابیں مسلمانوں نے عربی میں ترجمہ کیں پھر وہ کسی اور زبان میں ترجمہ ہوئیں۔ اور آخر میں صرف تراجم بچ گئے۔ ورنہ کیا یہ حیرانی کی بات نہیں کہ اس وقت لوگ ارسطو کو اسکی تحریروں سے کیسے جانتے ہیں۔
    مجھے امیدہے کہ اپنے جوش میں تقریر کرنے سے پہلے آپ طریقہ ء بحث کے بنیادی اصولوں کو سامنے رکھیں گے۔
    یہ بات میں پہلے بھی کئ دفعہ کہہ چکی ہوں کہ آپ یا کوئ اور اپنے آپکو اسلام کا زیادہ مخلص ظاہر کرنے کے سلسلے میں کسی دوسرے کے عقائد کے متعلق تبصرے کرنے سے پرہیز کیا کریں۔
    حقائق صرف وہ نہیں ہوتے جوآپ جانتے ہیں۔ علم کے ذرائع تک صرف آپکی پہنچ نہیں۔ اور علم کے ذرائع اتنے محدود نہیں۔
    اسماء، میں نے تو خشک تحریر سے آپکو بچانے کی کوشش کی تھی لیکن سمجھا یہ گیا کہ یہ کافی نہیں۔ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔

    ReplyDelete
  19. بی بی!

    مجھے افسوس ہے کہ آپ نے انجانے میں میری کسی بات سے میری علمیت یا علمی رعب کے معانی نکالے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ میں ابھی تک علم صحرا کی صحرا نودری کر رہا ہوں اور ہنوز علم کے اس بے کراں سمندر کے اسی کنارے کھڑا ہوں۔ اللہ جانتا ہے میں نے اپنی علمیت یا قابلیت کا کبھی دعواہ نہیں کیا نہ ہی میں نے آپکے علم کو چیلنج کیا ہے ، پھر پتہ نہیں آپ کیوں مجھ سے خفا ہور رہی ہیں۔ بہت ممکن ہے میرا اندازِ بیان آپ کو کھدرا محسوس ہوا ہو۔ دراصل علم کشیدگی میں میرا واسطہ اسطرح کے ماحول اور لوگوں سے متواتر رہا ہے جس میں علمی نکات کی وضاحت میں پیشہ ورانہ طور پہ آپ جناب کئیے بغیر کھری ، صاف اور بعض اوقات کھدری بات کی جاتی ہے۔ جسکی بنیاد محض علمی استدلال ہوتا ہے ۔ چونکہ بدقسمتی سے پاکستان میں ایسا ماحول یا علمی شفافیت کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا ۔ شاید اس لئیے بھی آپ کو میری بات میں بعض اوقات کھدرا پن محسوس ہوتا ہوگا ۔ ورنہ ایسی کوئی بات نہیں میں آپ کی تہہ دل سے عزت کرتا ہوں ۔ اسکے باوجود اگر آپ کو میری کوئی بات ناگوار گزری ہے تو مجھے اس کا دلی افسوس ہے۔

    بی بی! آپکے اس مضمون میں آپ نے بہت سے باتیں گُڈ مڈ کر دی ہیں جنہیں درست پس منظر میں بیان کرنے کے لئیے کئی اوراق سیاہ کرنے پڑیں اور ایک بلاگ اسکا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اسلئیے نہائت اختصار سے بیان کیا ہے۔ میں آیک بار پھر اپنی پچھلی رائے میں دہرائے الفاظ کو نیچے نقل کر رہا ہوں
    " ایک خاص بات جو ابن رشد کے بارے میں محققین کو چونکا دیتی ہے اور یہاں اس خاص بات کا ذکر دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ ابن رشد کی عربی میں لکھی گئیں اکثراور مشہور تنصیفات کا کہیں بھی پتہ نہیں چلتا ۔ ابن رشد کی موجودہ اکثر تنصیفات جنھیں آج ہم جانتے ہیں۔ یہ تنصیفات یہودی عالم یعقوب اناطولی کے دعوے کے مطابق یہودی عالم یعقوب انا طولی نے ابن رشد کی موت کے دو سال سن بار سو عیسوی کے لگ بھگ عبرانی زبان میں ترجمہ کیں اور کچھ کتابوں کا مآخذ بھی لاطینی زبان کے تراجم ہیں۔ اور یہ وہ نکتہ ہے جو بہت سے اعتراضات کو جنم دیتا ہے۔"

    بی بی! یہ حقیقت ہے کہ ابن رشد کے اکثر اور مشہور تصنیفات اس کے مرنے کے دو سال بعد ایک یہودی عالم اور متراجم یعقوب انا طولی نے عربی سے عبرانی میں ترجمہ کرنا شروع کیں اور اصل کتابوں کی بجائے عبرانی متراجم کو ابن رشد کی اصل کی نقل کا دعواہ کیا ۔ ابن رشد کی عربی کی بہت سے کتابیں بھی عبرانی سے دو بارہ عربی میں ترجمہ کی گئیں۔ اور باقیوں کا مآخذ بھی یعقوب اناطولی کے تراجم کے علاوہ لاطینی تراجم ہے۔ ابن رشد نے بہت متنوع موضوعات پہ تقریبا بائیس کے لگ بھگ کتابیں عربی میں لکھی ہیں ۔ کیا یہ حیران کُن بات نہیں کہ ان میں اکثر کا مآخذ یعقوب اناطولی نامی یہودی عالم اور باقیوں ماندہ ترجموں کا مآخذ لاطینی زبان ہے۔ جبکہ تب خلافت قرطبہ قائم دائم تھی اور ابن رشد کے مرتے وقت اُس سے خلیفہ اور خلافت کو اختلاف بھی نہیں تھا۔ جبکہ ابن رشد کی موت کے بعد ابن رشد کا ناموراور ہونہار شاگرد ابو الیحیٰی ابن طملس نے اپنے استاد کی جگہ پہ پانچویں خلیفہ الناصر کے ذاتی معالج کا عہدہ سنبھالا جبکہ ابولحیٰی خود بھی ایک مانا ہوا فلاسفر تھا جس نے ارسطو کے بارے میں ایک کتاب بھی لکھی۔ اور ابن رشد کے بہت سے سابقہ شاگرد بھی اچھے عہدوں پہ قرطبہ میں موجود تھے کسی کا کوئی خاص حوالہ یہودی عالم یعقوب اناطولی کے عبرانی تراجم کے بارے میں نہیں ملتا۔

    اپنے پچھلے تبصرے میں میں نے روزنامہ اوصاف کو سہوا روزنامہ انصاف لکھ دیا ہے اسے انصاف کی بجائے اوصاف پڑھا جائے

    ReplyDelete
  20. ابن رشد کے شاگرد ابو الیحیٰی ابن طملس اور المرابطی خلیفہ کے طبیب کے بارے میں ایک دلچسپ بات جو لکھنے سے رہ گئی وہ یہ ہے کہ ابن رشد کے ناموراور ہونہار شاگرد ابو الیحیٰی ابن طملس کی ارسطو کے بارے لکھی گئی تصنیف میڈرڈ میں واقع مناستییریو ۔دے۔ اسکوریال
    Monasterio del Escorial
    کے کُتب خانے میں عربی زبان میں محفوظ ہے۔

    ReplyDelete
  21. جاوید صاحب،
    آپ نے اپنے پہلے تبصرے میں کہا کہ آپ نےاپنی واجبی معلومات سے اپنے معروف استدلال کوجواز دینے کی بے سود کوشش کی ہے۔ اس وقت نجانے کیوں یہ کاپی پیسٹ نہیں ہو رہا۔ اس لئیے میں اسے نقل کرنے سے معذور ہوں۔ لیکن کیا یہ جملہ کھدری گفتگو میں آتا ہے یا دوسروں کی ذات کو دوران گفتگو گھسیٹنے کا طریقہ ہے۔ اگر میں بالکل اسی انداز میں آپ سے بات کروں تو آپکو بھی پسند نہیں آئیگا۔ اور جب ہم دوسروں کی معلومات کو واجبی قرار دیتے ہیں تو اس سے کیا نتیجہ نکالنا چاہئیے۔
    جی میں بھی تحقیق سے وابستہ رہی ہوں اور ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ کسی دوسرے شخص کو پینل پہ بیٹھ کر آپ واجبی علم رکھنا والا کہہ دیں۔
    بہرحال، کچھ چیزیں جو سب کے ذہن میں رہنی چاہئیں وہ درج ذیل ہیں۔
    یہ بالک ضروری نہیہں کہ اگر میں ایک مختصر پوسٹ میں کسی چیز کے بارے میں لکھنا چاہ رہی ہوں تو کسی کو یہ توقع رکھنا کہ میں اس میں اپنے علم کے دریا بہادوں اور جتنی بھی معلومات اس ضمن میں مجھے حاصل ہیں انہیں نکتہ بہ نکتہ تحریر کرتی چلی جاءووں۔ یہ ممکن نہیں اور نہ موزوں۔ علم کے راستے کھلے ہوئے ہیں جکن لوگوں کو مزید کی دلچسپی ہوگی وہ خود اپنے طور پہ بھی چیزیں تلاش کریں گے۔ یہاں میرا مقصد اپنی معلومات ظاہر کرنا نہیں اور نہ ہی کوئ معلوماتی مضمون لکھنا ہے۔ یہان میرا مقصد ہمیشہ قاری کو اس طرف لیجانا ہے جہاں وہ خود سے تلاش اور کھوج کی سمت میں روانہ ہو۔ اسی لئیے مزید ھوالے دئیے جاتے ہیں۔ جو چیزیں یہاں لکھی جاتی ہیں وہ مجھ سے پہلے بے شمار محققین، اور ماہرین کی نظر سے گذر چکی ہوتی ہیں۔ میں انہیں لکھنے والی پہلی نہیں۔ نقطہ ء فرق یہ ہے کہ آپ اپنے میلانات کی وجہ سے ایک خاص خیال کی طرف ہو جاتے ہیں اور دوسرا شخص کسی اور طرف ہو جاتا ہے۔ ہر شخص کے میلانات کی مختلف وجوہات ہوتی ہیں جنکا تزکرہ اس وقت کرنا بے محل ہے۔
    آپ نے ابن رشد کی تصنیفات کے بارے میں اتنا کچھ لکھا۔ جبکہ ہم یہ کہہ چکے کہ فاتحین اندلس نے مسلمانوں کی بیشتر کتابوں کو جلا ڈالا تھا۔ اس میں یقیناً ابن رشد کے شاگردوں کی کتابیں بھی شامل ہونگیں تو اگر آپکے استدلال کو صحیح تسلیم کیا جائے تو پھر یہ بات نہیں سمجھ آتی کہ استاد کی کتابیں تو ختم ہو گئیں لیکن شاگردوں کی کتابیں کیسے دستبرد سے بچ گئیں۔
    یہ کتاب تاریخ فلاسفۃ الاسلام خاصی دلچسپ کتاب ہے اور یقیناً میں اپنے قارئین کو اسکے کچھ حصوں میں اپنے ساتھ شامل کرنا چاہونگی۔اور یہ حصے یقیناً وہی ہونگے جو مجھے متائثر کریں گے۔ یہ وہ نہیں ہونگے جو آپکو یا کسی اور کو متاثر کریں۔ ایسے حصے اور موضوعات نکالنے کے لئیے آپکو یا کسی اور کو یہ کتاب خود پڑھنا پڑھے گی۔
    میں اسکے فلسفے کے دقیق مسائل میں اپنے قارئین کو نہیں الجھانا چاہتی۔ سر دست یہ کہنا تھا کہ خواتین کی حالت زار کے بارے میں عنیقہ ناز پہلی دفعہ نہیں لکھ رہیں اور نہ ہی فی الوقت وہ یوروپ کی آزادی نسواں کی تحریک کا حصہ ہیں۔ اس چیز یا کمی کو ہر وہ شخص جو سوچنے سمجھنے کی اور اپنے مسائل کے حل کے بارے میں جاننا چاہتا ہے وہ بھی بالکل ایسا ہی سوچ سکتا ہے۔
    جیسے میں اس چیز پہ یقین نہیں رکھتی کہ نیوٹن وہ پہلا شخص تھا جس نے کشش ثقل دریافت کی۔ اس سے پہلے بھی کئ لوگوں نے اسے محسوس کیا ہوگا مگر وہ اسے لوگوں کے سامنے بیان کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے تھے۔
    اسلامی دنیا میں فی الوقت خواتین کی بہتری کے لئیے اٹھئ جانیوالی آوازیں یوروپ کی تحریک سے متائثر نہیں۔ جو لوگ ایسا کہتے ہیں وہ درحقیقت مسلمانوں کو عقلی طور پہ کمزور ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہ جیسے صرف یوروپ میں ہی لوگ اس بارے میں سوچنے کی اہلیت رکھتے ہیں اور مسلمان تو عقل سے محروم ہیں وہ کہاں سوچ سکتے ہیں۔
    خود ہمارے مفکرین نے اس امر پہ کئ صدیوں پہلے سوچنا شروع کیا تھا اور ابن رشد وہ اکیلے مفکر نہیں ہیں۔

    ReplyDelete
  22. محترمہ عنیقہ صاحبہ
    اگر اپنے بلاگ پر کاپی پیسٹ کرنے میں مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو گوگل کروم نامی ویب براوزر استعمال کریں۔ مجھے فایر فاکس میں آپ کے بلاگ پر یہ مسئلہ درپیش آتا ہے مگر گوگل کروم یہ کام کر دیتا ہے

    ReplyDelete
  23. ریاض شاہد صاحب، میں آج آپکو ہی یاد کر رہی تھی۔ اسکی وجہ ایک تو وہ فلم کہاں سے ڈاءون لوڈ ہوگی اسکا لنک مجھے کوشش کے باوجود نہیں مل پایا اور وہ شہزادی صاحبہ کا لنک بھی اگر طآپ دے سکیں تو نوازش ہوگی۔ مشورے کا بےحد شکریہ۔
    جاوید صاحب، ابھی ہنڈیا بھونتے بھونتے مجھے ایک خیال اور آیا کہ ابن رشد نے چھتیس برس کی عمر میں تالیف کا سلسلہ شروع کیا اور اس طرح انہوں نے تقریباً چھتیس برس اس کام میں گذارے ۔ رینان نے کتب خانہ اسکوریال کی ایک عربی فہرست میں اسکے اٹہتر رسائل اور فلسفہ او رطب، فقہ اور علوم کلام پر مختلف کتابوں کا تذکرہ ہے۔ جن میں سے ابن ابی اصبیعہ نے پچاس کی تصریح کی ہے۔
    خلیفہ نے انکی کتابیں جلاوطنی کے زمانے میں جلائ تھیں۔ وہ خط جسکے ذریعے ہر خاص و عام کو انکے ملحد ہونے کی وجوہات سے آگاہ کیا گیا تھا اسکا ترجمہ بھی اس کتاب میں موجود ہے اور انکی جلاطنی کے اسبا پہ بھی خاصی تفصیلی گفتگو ہے۔ لیکن فی الحال میں اتنی تفصیل میں جانا نہیں چاہتی۔
    البتہ اس خط میں لوگوں کو وارننگ دی گئ ہے کہ جنکے پاس بھی انکی کتب موجود ہین وہ انہیں جلا دے ورنہ جس کے پاس سے برآمد ہوگی اسے جلا دیا جائیگا۔
    ابن رشد کی اس وقت موجود عربی کتابون کا مآخذ ڈاکوءووں کو بتایا جاتا ہے۔
    بعض عربی کتابیں فلورنس کے کتب خانہ فتنشی میں بھی موجود ہیں۔ ابن رشد کی عربی کتابیں بہت کمیاب ہیں۔ سرزمین غرناطہ میں مسیحی فتوحات کے بعد اسی ہزار کتابیں نذر آتش کی گئیں جن میں ابن رشد کی کتابیں بھی شامل ہیں۔
    یہاں میں یہ بتانا ضروری سمجھتی ہوں کہ غزالی اور ابن سینا پہ تنقید ابن طفیل نے بھی کی ہے جن کا زمانہ ابن رشد سے پہلے کا ہے۔ ابن رشد نے ان سے بھی اکتساب علم کیا تھا۔

    ReplyDelete
  24. بی بی!
    اللہ آپ کو خوش رکھے۔
    اب سمجھا ہوں آپ کی ناراضی کا سبب کیا ہے۔ اچھا ہوا آپ نے آگاہ کر دیا ہے۔ آپ کو غالبا میرے ان الفاظ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ نے ابن رشد کی فکر اور فلسفے کے بارے میں واجبی معلومات سے اپنے معروف استدلال کو توانا کرنے کی بے سُود کوشش کی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سے رنج پہنچا ہے۔

    بی بی!
    یہاں آپ کے "معروف استدلال" سے مراد آپ کا سیکولرازم کے بارے معروف موقف ہے، اور "توانا کرنے" سے مراد پروفیسر موصوف کا وہ کالم ہے جس میں موصوف نے سیکولازم سے بھی دو قدم آگے بڑھتے ہوئے ۔ پاکستان میں ریاست کے فنکشنل ہونے میں سودی بینکاری نظام کو بھی ایک لحاظ سے ضوروری قرار دیا ہے۔

    یہاں ایک بات کی وضاحت کر دوں کہ ہم پاکستان بھر میں پھیلی بلکہ دنیا بھر میں عام لوگوں کے خلاف دہشت گردی کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔ اور میری رائے میں کوئی بھی صالح مسلمان ایسی ننگی دہشت گردی کو اچھا نہیں سمجھتا۔ اور پاکستان کی تقریبا سری مسلمان آبادی اس دہشت گردی کی مذمت کرتی ہے۔ مگر پاکستان میں ایک ایسا طبقہ اپنا وجود رکھتا ہے، جو پکاستان میں پچھلے باسٹھ سالوں میں خاصا توانا ہو چکا ہے اور پاکستان کی پالیسیز۔ وسائل اور کسی حد تک میڈیا پہ قابض ہے۔ جو کوئی موقع خالی نہیں جانے دیتا جس میں وہ اسلام کو کسی نہ کسی بہانے سے نشانہ بنا سکتے ہوں۔ آپ پروفیسر موصوف کا کالم تحنڈے غور سے پڑھیں، ایک مسلمان ہونے کے ناطے جو ہم پہ فرائض بننتے ہیں جن کا اسلام ہم سے تقاضہ کرتا ہے ۔ اس نظر سے دیکھیں تو پرو فیسر موصوف کا کالم میں دہشت گردی کی مذمت کے بہانے پاکستان جیسی مملکت کے لئیے ایسی ایسی تجاویز اور باتیں ملیں گی کہ سر پیٹ لینے کو دل چاہتا ہے۔ اور میں دعوے سے کہتا ہوں کہ پاکستان میں کوئی بھی سلیم فطرت مسلمان سودی بنکاری کو اور اسطرح کی دوسری باتوں کو درست نہیں سمجھتا مگر پروفیسر صاحب اسے ایک فنکشنل ریاست کے لئیے ناگزیر کہہ کر پاکستان کے واضح اکثریت کے جزبات کا مذاق اڑاتے نظر آتے ہیں۔ جہاں تک انکے کالم میں ابن رشد کا تذکرہ ہے وہ درست نہیں۔ تاثر یہ پیدا ہوتا ہے کہ غالبا ابن رشد نامی مسلمان دانشور سیکولرز کا امام تھا اور یہ ہی وہی واحد اور بنیادی وجہ ہے جس لئیے یوروپ نے اسکی تعلیمات سے فائدہ اٹھا کر مادی ترقی کی معراج پالی اور پاکستان کو بھی اسی رستے آگے بڑھنا چاہئیے۔ وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ حقیقت یوں نہیں ۔

    ابن رشد ایک مشہور اور قابل مسلمان مفکر ہو گزرا ہے۔ اس کے فلسفے سے اختلاف اور بحث کی جاسکتی ہے۔ مگر ابن رشد وہ نہیں جو پروفیسر موصوف نے اُسے پیش کیا ہے۔ اورابن رشد کی تعلیمات ان باتوں اور تجاویز سے قطعی طور پہ میل نہیں کھاتیں جو پروفیسر صاحب نے اپنے کالم میں فنکشنل ریاست کے لئیے بیان کی ہیں۔ علمی لحاظ سے بھی یہ درست نہیں کہ اپنی خواہشات، مفروضات اور تصورات کی بنیاد کسی ایسے عالم کی تعلیمات پہ کھڑی کی جائے ۔ جس سے اس عالم کا دور سے بھی واسطہ نہ ہو۔

    اب چونکہ اس کالم کا لنک آپ نے ابن رشد پہ بات کرتے ہوئے اسی استدلال کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنے بلاگ میں ربط کیا ہے تو اس حوالے سے آپ کو مندرجہ بالا الفاظ لکھے تھے کہ واجبی سے مراد نہایت قلیل معلومات۔ یعنی نہ ہونے کے برابر معلومات سے پروفیسر موصوف کے غلط ستدلال پہ مبنی کالم کا لنک دینا درست نہیں کیونکہ اس سے آپ کے اس آپ کے معروف سیکولر استدلال کو تو چند قارئین کی حد تک مدد ملے گی مگر اس کی عمارت واجبی معلومات پہ کھڑا ہونے کی وجہ سے درست نہیں ہوگی۔اور ابنِ رشد جو آپ کے بلاگ کا موضوع ہے اس پہ ناحق الزام آئے گا۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

    بی بی!

    میں مندرجہ بالا الفاظ لکھ چکا تھا جب آپ کا آخری تبصرہ نظر سے گزرا ۔

    ایک بات کی وضاحت کر دوں مجھے ذاتی طور پہ کسی مسلمان مفکر یا دانشور سے بحث نہیں ۔ تنقید و بحث و مباحثہ علم کی اگہی کے لئیے ضروری ہے۔ مسلمان مفکر بلکہ مسلمان فقہی اور امام رحمتہ اللہ علیہ بھی ہم عصر ہوئے تو انہوں نے اپس میں مختلف مسائل پہ مختلف رائے دی۔ آگے چل کر جس پہ فقہ کی بنیاد کھڑی ہے ۔ مگر انھوں نے بھی ایک دوسرے کا کامل احترام کیا ۔ بلکہ ایک دوسرے سے اکتساب علم بھی کیا۔
    یہ سب ضروری ہے تانکہ تحقیق کا عمل متواتر جاری رہے۔ اس میں اگر مسلمان مفکروں نے کسی دوسرے کی منطق کو رد کیا ہے یا تنقید کی ہے تو اُن کے پیش نظر ہمیشہ علمی استدلال رہا جو کہ آپ بہتر جانتی ہیں کی مزید جاننے کے لئیے نہائت ضروری ہے۔

    لہٰذاہ۔ ابن رشد ہو یا بو علی سینا ہر کسی نے مسلمانوں کے لئیے اپنے اپنے دور میں اور اپنے بعد کے کئی ادوار کے لئیے اپنی بہترین خدمات اور تصنیفات چھوڑی ہیں جن پہ ہمیں فخر ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ سلسلہ آگے چلتا رہنا چاہئیے تانکہ مسلمان اقوام کے مسائل بہتر طریقے سے حل ہو سکیں اور مسلمان اپنا کھویا ہوا وقار دوبارہ پاسکیں۔

    ReplyDelete
  25. ابن رشد کی نہائت مشہور کتابیں جن میں فلسفہ منطق وغیرہ پہ سیر حاصل بات کی کئی ہے اور جو صدیوں سے مختلف زبانوں میں پڑھی پڑھائی جاتی ہیں اور انکے تراجم مختلف زبانوں میں کئیے گے ہیں اور مشہور ہیں۔ وہ غالبا بائیس کے لگ بھگ ہیں ۔ اسمیں رسائل یا عام موضوعات پہ غیر معروف یا شاعری پہ یا ضائع ہو چکیں وغیرہ وغیرہ کتب شامل نہیں۔

    ReplyDelete
  26. محترمہ انیقہ صاحبہ
    تمام لنکس آپ کے یاہو ای میل پتے پر بھیج دیے گئے ہیں

    ReplyDelete
  27. شکریہ جاوید صاحب۔
    شکریہ ریاض شاہد صاحب۔ باقی کا شکریہ ان لنکس کو دیکھنے کے بعد۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ