Friday, January 15, 2010

ایک دستر خوان ،چند پڑھے لکھے لوگ اور منافقت

نیئینڈرتھل انسانوں سے ملتی جلتی ایک مخلوق تھی جو انسانوں سے پہلے اس زمین پہ پائ جاتی تھی۔ اور اس وقت انکا تذکرہ صرف اس لئیے کیا ہے کہ انکی ایک خوبی تھی اور وہ یہ کہ وہ گوشت خور ہوا کرتے تھے۔ اب آپ کندھے اچکا کر کہیں گے کہ تو کیا ہوا۔ ہم بھی گوشت خور ہیں۔ لیکن فی زمانہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو گوشت خور نہیں ہوتے۔ اب بھی آپ کہدیں گے تو وہ ہندو ہوتے ہونگے ہم تو الحمد للہ مسلمان ہیں۔
مگر کہانی یہاں سے شروع ہوتی ہے کہ وہ ہندو نہیں ہوتے۔ کبھی کبھی مسلمان بھی ہوتے ہیں یا کسی اور مذہب سے تعلق رکھنے والے بھی۔  اب ویسے تو انسان ہمہ خور مخلوق ہے یعنی سب ہی  کچھ کھا لیتا ہے جس میں چیونٹے، سانپ، بچھو کے علاوہ جوتے اور ڈنڈے بھی شامل ہیں۔ اور کچھ تو اسنیکس کے طور پہ وقتاً فوقتاًگالیاں کھانا بھی پسند کرتے ہیں۔ لیکن کچھ ایسے بھی عجیب الدماغ بھی ہیں جو آپ اپنی جبلت کا امتحان لیتے ہیں اور گوشت کھانے سے انکاری ہو جاتے ہیں۔ اور اپنے آپکو ویجیٹیریئن کہنے لگتے ہیں۔  تو یہ تحریر ایسے ہی ناہنجاروں کے خلاف ہے۔
کچھ علم دوست لوگوں کے مجمعے میں، دسترخوان پہ جب ہم ایک نئے ویجیٹیریئن دوست کے ساتھ کھانا کھانے بیٹھے تو انہوں نے سبزی خوروں میں اپنی نو داخلیت کے جذبے سے تر بتر ہو کر  ماتھے پہ بل ڈال کر حقارت سے کہا آپکو معلوم ہے کہ یہ گوشت جو آپ کھا رہی ہیں یہ اس جانور کا ہے جو کسی کا بیٹا ہوگا اور کسی کا باپ۔ میں نے انکی ٹماٹر کی بھجیا کو دیکھا اور پوچھا اور اس ٹماٹر کے متعلق آپکا کیا خیال ہے۔ اسکی کتنی رشتے داریاں ہونگیں۔ آپکو معلوم ہونا چاہئیے کہ اسکی رشتے دارِیاں، میں نے اپنی پلیٹ کر طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، اس مرغی سے کہیں زیادہ ہونگیں۔ جواب ملا سبزیوں میں شعور نہیں ہوتا اور جانوروں میں شعور  ہوتا ہے۔
  اب میں نے محسوس کیا کہ گفگتگو کو کھینچ تان کر فرائڈ کی طرف لیجایا جا رہا ہے۔ تاکہ اپنے  علم نفسیات کا سکہ جمایا جا سکے اس لئیے فوراً وار کیا۔ 'جی ہاں سبزیوں میں شعور نہیں ہوتا اور انڈے میں کون سا شعور ہوتا ہے جو آپ اسے نہیں کھاتے'۔ 'اس میں اپنی نسل آگے بڑھانے کا شعور ہوتا ہے'۔ 'تو آپکا خیال ہے کہ یہ شعور سبزیوں میں نہیں ہوتا'۔ انکی پلیٹ میں موجود سبزیوں نے میرے حق میں گرمی جذبات سے باہر نکلنے کی کوشش کی لیکن بظاہر یہ لگا کہ انہوں نے اپنا کانٹا زور سے اس میں مارا تھا۔
 '
آپکو پتہ ہے جتنے زیادہ جانور آپ کھائیں گے اتنے زیادہ پیدا کرنے پڑیں گے اور جانور جتنے زیادہ ہوں اتنا ہی انکا فضلہ زیادہ ہوگا اور جتنا انکا فضلہ زیادہ ہوگا۔ اتنا ہی گرین ہاءوس افیکٹ زیادہ ہوگا اور اس گرین ہائوس افیکٹ کے زیادہ ہونے سے گرمی زیادہ ہوگی اور اس سے ہمارے گلیشیئر زیادہ تیزی سے پگھلیں گے ۔ کچھ معلوم بھی ہے آپکو  یہ گوشت کھا کر آپ دنیا کی تباہی کا کس قدر زیادہ باعث بنتی ہیں۔ دوزخ بنا رہی ہیں اپ اسے دوزخ۔
 اس وقت یہ آنیوالے زمانوں کی گرمی ہماری گفتار میں آچلی تھی۔  صاف لگ رہا تھا کہ ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی انہیں گرین ہاءوس ایفیکٹ نامی اصطلاح پتہ چلی ہے۔ گلیشییئر جب پگھلے گا تب پگھلے گا۔ اس وقت انکا دماغ پگھلانا زیادہ ضروری محسوس ہوا۔ اس لئیے  سچے مجاہد کی طرح معاشرے کو اس بدعت سے پاک کرنے کے لئیے میں نے اپنا چمچ ایک طرف رکھا۔ انکی پلیٹ میں موجود سبزیوں سے آنکھیں  چار کیں اور ان سے کہا بالکل یہی منطق ان سبزیوں پہ بھی آتی ہے۔ آپ یہ سبزیاں خلاء میں تو نہیں اگائیں گے۔ جتنی زیادہ سبزیاں اگیں گی اتنا زیادہ گرین ہاءوس افیکٹ ہوگا۔ ابکی انہوں نےفوراً طعنہ مارا۔ کچھ مطالعہ بھی کرتی ہیں۔ سائنس کے متعلق کچھ پتہ بھی ہے۔ مزید مطالعہ کریں۔ پودوں سے آکسیجن پیدا ہوتی ہے۔
دل تو چاہا کہیں کہ بھاڑ میں جائیں آپ اور آپکی سائنس۔ یہ تک تو پتہ نہیں کہ پودے رات کے وقت کاربن ڈائ آکسائیڈ پیدا کرتے ہیں۔۔ اسی وقت طنطناتی ہوئ اٹھی، اپنا لیپ ٹاپ کھولا اور گوگل سرچ پہ کی ورڈز ڈالے۔ متعلقہ ویب سائٹ کھولی اور لیپ ٹاپ جا کر انکے سامنے رکھ دیا۔ پڑھ لیجئیے۔
 ایک چھچھلتی نظر اس پہ ڈالی اور گویا ہوئے، ہو سکتا ہے آپکی بات درست ہو۔ مگر آپ نے کبھی غور کیا۔ اتنے انسانوں کا پیٹ بھرنے کے لئیے کتنے جانوروں کو کس کسمپرسی کی حالت میں رکھا جاتا ہے۔ لیجئیے، فرائڈ سے بات ماحولیاتی آلودگی اور اب جانوروں کے حقوق تک آ پہنچی۔ میں نے فی الفور تجزیہ کیا۔ جیسے انسانوں کے تو کچھ حقوق ہی نہیں ہیں۔ لیکن خدا کا شکر ادا کیا کہ ایسے شیطانوں سے نبٹنے کے لئیے کیسا زر خیز دماغ دیا ہے۔ لپک کر کہا، اور زیادہ سبزیاں اگانے کے لئیے جو جینیاتی تبدیلیاں کی جاتی ہیں، جسکے نتیجے میں کم سے کم وقت، کم سے کم زمین اور کم سے کم پانی استعمال کر کے انکی کاشت کیجاتی ے، انکی قدرتی عمر پوری ہونے سے قبل ہی انہیں ختم کر دیا جاتا ہے اسکے متعلق کیا ارشادہے آپکا۔ اس دفعہ انہوں نے تلملاتے ہوئے اپنا منہ کھولا ہی تھا کہ ایک ڈکار کی آوز آئ۔ ساتھ ہی کسی نے کہا الحمد للہ۔
 ہم دونوں نے پہلے حیرانی سےایکدوسرے کو دیکھا اور پھر اس آواز کیطرف۔ وہ صاحب رومال سے اپنا منہ صاف کر رہے۔ ہم دونوں کی نظریں ایکدفعہ پھر ملیں۔ اس دفعہ ہم دونوں کے چہرے پہ ان تیسرے حضرت کے لئے حقارت تھی۔ دسترخوان پہ ڈکار لینا کس قدر آداب محفل کے خلاف ہے، بلکہ بد تہذیبی ہے۔
یہاں سے ایک نئ اہم بحث شروع ہونے والی تھی، کیا علم تہذیب بھی سکھاتا ہے۔ مگر ہم دونوں اسے ان تیسرے حضرت کی غیر موجودگی میں کرنا چاہتے تھے۔ وجہ تو آپ سمجھتے ہیں۔

نوٹ؛ اس قصے کے تمام واقعات فرضی نہیں ہیں۔ البتہ، کسی قسم کی مطابقت محض اتفاق ہوگا۔

15 comments:

  1. مقصدی طنز لکھنا تو کوئی آپ سے سیکھے۔ بہت خوب!

    ReplyDelete
  2. آخری پيرا ميں جو بات لکھی ہے ٹيچنگ کے دوران ُ ہميں` اسميں بہت مزا آتا تھا جو ٹيچر سٹاف روم ميں نہ ہو سب ملکر اسکی بد خوہياں کرتے تھے کافی عرصہ ہو گيا مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے ادھر يورپ ميں نہيں ملتا اسکے ُہماري` صحت پر کيسے اثرات پڑ رہے ہيں کيا بتائيں ، ويسے ايک غيبت فورم بھی ہونا چاہيے اردو فورم کی طرح ، آپ نے نوٹ کيا ہے صرف سبزياں کھانے والے کا چہرہ تروتازہ نظر آتا ہے اب غور کرنے کے ليے اپنے اس کوليگ کے چہرے پر نظريں نہ جما ليجيے گا ايويں ہی بے چارہ نيا نيا سبزی خور بنا ہے واپسی نہ ہو جائے

    ReplyDelete
  3. میں اسے تعریف سمجھ کر شکریہ ادا کر رہی ہیں۔ ابو سعید۔
    :)
    اسماء، تو پھر دیر کس بات کی ہے۔ 'ب' سے بسم اللہ اور 'ش' سے شروع۔ پہلا لفظ الف ہے اور آپکا نام الف سے شروع ہوتا ہے۔ اس لئیے پہلی باری آپکی۔
    :)
    ویسے میں بھی کچھ عرصے پہلے سال بھر کے لئیے ویجیٹیریئن ہو گئ تھی۔ لیکن اسے نبھانا بڑا مشکل ہوتا ہے۔ عوام کی بے حد تشویش پہ پھر گوشت خوری میں شامل ہو گئ۔ آپکا کہنا صحیح ہے۔ لیکن بات بڑھانے کو کہہ رہی ہوں کہ چہرے کی تروتازگی کا غذا کے علاوہ اور چیزوں سے بھی تعلق ہوتا ہے۔ جیسے کراچی کی سڑی گرمیوں میں بھری دوپہر میں باہر نہ پھرنا۔ اچھا موضوع ہے۔ ترو تازہ کیسے رہا جائے۔

    ReplyDelete
  4. بہت خوب۔ ایک چھوٹی سی تصحیح نیندراٹال انسان کے ساتھ ساتھ رہتے رہے اور پھر یکایک غائب ہوگئے۔ ہمارے ایک جاننے والوں نے ایک تھیوری پیش کی تھی اس کے متعلق لیکن اس پر پھر کبھی۔

    ReplyDelete
  5. قصہ ہیر وارث شاہ پنجابی لوک داستان کا مشہور اور پرمغز قصہ ہے ۔ آپ کے ویجیٹیرین صاحب کے جیسے لوگوں کے متعلق ان کا یہ قول صادق آتا ہے کہ جب رانجھے کی بھابی اسے یہ طعنہ دیتی ہے
    کریں آکڑاں کھاء کے دُدھ چاول، ایہہ رج کے کھان دیاں مستیاں نیں
    ترجمہ ۔ یعنی اس طرح کی نامعقول اور عجیب باتیں انہیں سوجھتی ہیں جنہیں پیٹ بھر کر کھانے کو سب نعمتیں آسانی سے میسر آجاتی ہیں ۔
    آپ ذرا ان صاحب کو کسی ٹریکنگ ٹرپ پر ہمارے ساتھ بھیج دیں ان شااللہ چار پانچ دن کے بعد سب کچھ کھانے بھی لگیں گے اور ڈکار لے کر خلال بھی کریں گے۔

    ReplyDelete
  6. خرم صاحب، ایک چھوٹی سی وضاحت ان قارئین کے لئیے جو نیئنڈر ا تھل سے واقف نہیں کہ اسکے تلفظ میں تھ اور ٹ دونوں مستعمل ہیں۔ جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے یہ ارتقاء کی زنجیر مین انسانوں سے پہلے آءے یعنی تقریباً پانچ لاکھ سال پہلے۔ انکے وجود کے باقیات تیس ہزار سال پہلے تک ملتے ہیں جب جدید انسان یعنی ہم مارکیٹ میں آچکے تھے۔ حتی کہ یہ انسانوں کے ساتھ آباد بھی تھے۔ کہا جاتا ہے کہ بقا کی جنگ میں جدید انسان زیادہ مضبوط ہونے کی وجہ سے انہیں شکست دے گئے۔ اس کی بہت ساری وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔ جو ظاہر ہے اس وقت ہمارا موضوع گفتگو نہ تھا۔ لیکن آپ اگر اس پہ کچھ تحریر کریں تو بہت اچھا ہوگا۔
    ریاض شاہد صاحب، آپکی بات صحیح ہے۔ ویسے بھی غریب تو زیادہ تر ویجیٹیریئن ہوتے ہیں۔ وہ چیزیں جو امراء اپنا اسٹائل بناتے ہیں۔ غریب اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کرتے ہیں۔ صاحبان کو تو آپکے ساتھ بھیج دیا جائے اور صاحباءووں کا کیا ہوگا۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے ایک سیلیکٹو ایٹر کو ایمرجنسی میں انڈا گھٹالا بنا کر دیا ہے۔ کیونکہ وہ گوشت نہیں کھاتیں۔

    ReplyDelete
  7. اس تحریر میں وہ تمام وجوہات موجود ہیں جن کی وجہ سے میں آپ کا پرستار ہوا تھا
    بہت ہی عمدہ
    شاندار۔۔۔

    ReplyDelete
  8. ٹیگز / لیبلز کو ایک دوسرے سے علیحدہ کرنے کے لئے انگریزی کا کامہ استعمال کیجے اس طرح دوستوں کو موضوعات کے اعتبار سے آپ کی تحاریر تلاش کرنے میں آسانی رہے گی۔

    ReplyDelete
  9. جعفر ایوارڈی، یہ آپ نے تھا کے صیغہ کیوں استعمال کیا ہے۔
    بہت شکریہ۔
    ابو احمد، تو یہ اردو کا کامہ کام نہیں کرتا۔ یہ تو آپ نے مزید محنت طلب بات بتا دی۔
    :(

    ReplyDelete
  10. اف اللہ!

    اب تو لگتا ہے کسی بیٹے کا نام بھی اپنے والد صاحب کے نام پر رکھنا ہوگا۔

    ReplyDelete
  11. ابن سعید، ہائے اللہ ہم تو آپکی بات سمجھ نہ پائے۔

    ReplyDelete
  12. ویسی تحریر جس کی آپ سے توقع رہتی ہے۔ بہت زبردست۔
    ٹیگز کے حوالے سے محمد احمد نے آپ کی اچھی توجہ دلائی ہے۔ بدقسمتی سے بلاگر اور ورڈپریس دونوں بلاگنگ پلیٹ فارمز پر اردو کا کومہ ٹیگ سیپریٹر نہیں سمجھا جاتا ہے اس لیے ہمیں ٹیگز کے لیے انگریزی کا کومہ لگانا پڑتا ہے۔ اس کا خیال رکھیں ورنہ اردو کومے کے حامل 10 ٹیگز بھی ایک ہی ٹیگ شمار ہو جاتے ہیں۔
    سبزی خوری کے حوالے سے مجھے گاندھی جی کی سوانح حیات یاد آ گئی جس میں انہوں نے طالبعلمی کے زمانے میں پڑ جانے والی گوشت کی لت اور پھر سبزی خوری کی جانب اپنی واپسی اور پھر اس پر قائم رہنے کے حوالے سے اپنے واقعات لکھے ہیں۔

    ReplyDelete
  13. بہت شاندار تحریر ہے۔

    ReplyDelete
  14. ابو شامل، میں نے یہ سوانح حیات نہیں پڑھی۔ کیا ہی اچھا ہو کہ آپ ان واقعات کو ایک پوسٹ میں لکھ ڈالیں۔
    بہت شکریہ ساجد۔

    ReplyDelete
  15. اوپر دوسرے تبصرہ نگاروں سے متفق ہوں۔ انتہائی شاندار تحریر ہے!
    میرا اندازہ درست ہی نکلا۔ غیر سیاسی موضاعات کی تحاریر میں آپ کی تخلیقی صلاحیتیں اور شخصیت عروج پر ہوتی ہے۔
    جبکہ سیاسی موضاعات پر آپ سب کچھ جذبات کے آگے سرنڈر کردیتی ہیں۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ