Friday, June 24, 2011

جلوے کا حلوہ

بدلتے وقت کے ساتھ الفاظ اپنے معنی بدل دیتے ہیں ۔ الفاظ ایکسٹرنل یو ایس بی ہوتے ہیں۔ یہ وہ انسانی عضو ہوتے ہیں  جو جسم کے ساتھ جسمانی طور پہ منسلک نہیں ہوتے۔ سو انسان کی ذہنی سوچ کے ساتھ یہ بھی بظاہر وہی ہوتے ہیں مگر معنوں میں وہ نہیں رہتے۔ مگر عطاءالحق قاسمی صاحب شاید اس سے واقف نہیں۔ اس لئے جب صدر زرداری نواز شریف کو مولوی  نواز شریف کہتے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ کیونکہ نواز شریف شراب نہیں پیتے، ڈانس نہیں کر سکتے اور خواتین کے ساتھ تعلقات نہیں بناتے اس لئے زرداری نے انہیں مولوی کہا ہوگا۔ عطاء صاحب الفاظوں سے پیچھے رہ گئے۔ در حقیقت عطاء الحق قاسمی صاحب، حرم کا مطلب بھی بھول گئے ہیں۔ حالانکہ یہ اب تک اپنے اصل معنوں کے ساتھ رائج ہے۔
ڈانس تو پپو سالا بھی نہیں کر سکتا ، لیکن وہ مولوی پپو سالا نہیں کہلاتا۔  شراب پینے والے کہتے ہیں کہ بات شراب نہ پینے میں نہیں  بلکہ پی کر نہ لڑکھڑانے میں ہے۔  اب کیا کیا جائے، وہ بن پئیے ہی  بد مست ہاتھی بنے ہوءے ہیں پی لیں تو خدا جانے کیا حشر ڈھا دیں۔ گمان ہے کہ اکثر لوگوں کو گناہ کرنے پہ عذاب ہوتا ہے اور کچھ کو نہ کرنے پہ۔ خواتین کے متعلق میں کچھ نہیں کہتی۔ ایک انگریز خاتون صحافی نے بہت کچھ کہا ہے مگر سب بکواس ہوگی۔ خواتین ایسی باتیں مردوں کی نفرت میں کہتی ہیں۔ خاص طور پہ گوری عورتیں تو پاکستانی مرد رہ نماءووں کی کم آمیزی کا بدلہ اسی طرح لیتی ہیں۔
صدر زرداری نے اپنے تازہ بیان سے قوم کو ایک نئے امتحان میں ڈال دیا ہے اور لگتا ہے کہ ہر ایک دو تصویریں لے کر بیٹھا ہوا ہے اور مقامات فرق معلوم کر رہا ہے۔ نواز شریف اور مولوی نواز شریف میں۔ حالانکہ آج کل نواز شریف اس حالت میں ہیں کہ مقامات آہ فغاں بآسانی معلوم کئے جا سکتے ہیں۔ مگر یہ تو ساری دنیا جانتی ہے کہ پاکستانی کوئ آسان کام نہیں کرتے۔ اگر قسمت کوئ آسان کام ہمارے اوپر ٹھونس ہی دے تو کوشش کرتے ہیں کہ  اسے پہلے مشکل بنادیا جائے پھر ہم اس سلسلے میں کچھ کریں۔ لوگ بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑاتے ہیں اور اس پہ فخر کرتے ہیں ہم گھوڑوں میں بحر ظلمات نکالتے ہیں ، اور پھر بھی کوئ نعرہ ہائے تحسین بلند نہ کرے تو اسے گھوڑا بلکہ گدھا بنا دیتے ہیں۔
خیر، تازہ ترین سوال یہ ہے کہ صدر زرداری نے مولوی نواز شریف کا لقب انہیں کیوں دیا؟
کیا اس لئے کہ ایک زمانے میں وہ بڑے ہو کر  وزیر اعظم نہیں امیر المومنین بننا چاہتے تھے۔
اس لئے کہ وہ ہمارے مقدس مقامات پہ اتنا عرصہ گذار چکے ہیں اور وہاں انکے اتنے قلبی تعلقات ہیں کہ انہیں اب مولوی نہ کہا جائے تو اس ناہنجار قوم پہ ہتک عزت کا دعوی کر دینا چاہئیے۔
اس لئے کہ  وہ رائے ونڈ جیسے مقدس مقام کے پہلو میں اپنے فارم ہاءوس میں رہتے ہیں۔ اس فارم ہاءوس کو کچھ بد طینت بادشاہ کا محل کہتے ہیں  جبکہ وہ نہییں جانتے کہ فارم ہاءوس پہ تو ٹیکس بھی واجب نہیں ہوتا۔ اور مولوی صاحب کو بالآخر جنت میں جانا ہے تو دنیا میں کیا وہ جنت کا مزہ چکھ نہیں سکتے۔ جبکہ کسی سُرخے شاعر نے یہ مسئلہ بھی کھڑا کر رکھا ہے کہ
آپکو جنت اور مجھے دوزخ عطا ہوگی
بس اتنی سی بات پہ کیا محشر بپا ہوگی
ایسے عقل کے اندھوں کے لئے تو محشر دنیا میں ہی بپا ہونی چاہئیے۔ یہ ہے نئے مولوی صاحبان کا ایجینڈا بمعہ ایک ڈنڈا۔
 اچھا تو کیا اس لئے کہ وہ مرد مومن مرد حق  مولوی ضیاءالحق کی ان سائینسی کوششوں کا کامیاب نتیجہ ہیں جس میں وہ ایک ماں اور ٹیسٹ ٹیوب کے بغیر ایک نظریاتی اولاد پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے۔انکی اس دانش سے حیران ہو کر بعض ان دیکھی قوتوں کو انکا جہاز فضا میں پھاڑنا پڑا۔ ناکام لوگ ، کامیاب لوگوں کے ساتھ یہی سلوک روا رکھتے ہیں۔
کیا اس لئے کہ وہ اپنے آقائے سیاست کے فلسفے اور باقیات کو کمال صبر اور جراءت سے سنبھالے ہوئے ہیں۔ اور انکی وفاداری کا ثبوت یہ ہے کہ وہ پاکستان کی سالمیت تو کیا خود پاکستان کو کسی خاطر میں نہیں لاتے۔
میں ان پیش کئے گئے نظریوں سے کسی طور مطمئن نہیں۔ بھلا یہ بھی کوئ باتیں ہیں جن پہ کسی کو مولوی کہہ دیا جائے۔ میں تو آج تک مولوی، حلوے وغیرہ سے شغف رکھنے والے اس بے ضرر شخص کو سمجھتی رہی جس سے اگر کوئ خار کھاتا ہے تو وہ بچے جو قرآن ناظرہ کی تعلیم حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ اماں مولوی صاحب کو حلوہ بنا کر بھیجتی ہیں اور مولوی صاحب ڈنڈے یا پائپ سے بھی پٹائ لگا دیں تو اماں جان فرط عقیدت سے انکے دست و بازو کو دیکھتی ہیں۔ کیا محنت کی ہے میرے بچے پہ۔ ماں صدقے ، ماں واری۔ اور مزید حلوہ نذر کرتی ہیں۔ مولوی صاحب  اپنی سادگی کے باعث حلوے اور عقیدت سے بہلے رہتے تھے۔ ادھر بچے کے سینے میں انتقام کا ایک الاءو روشن رہتا ہے اور حلوے کی محبت۔ یہ روائیتی مولوی صاحب تھے اور یہی روائیتی مولوی صاحب بنانے کا طریقہ۔
مگر اب لگتا ہے امتداد زمانہ سے مولوی کے معنی تبدیل ہو گئے ہیں۔


سو کچھ کا کہنا ہے کہ بچپن میں مولوی صاحب کے ڈنڈے کو زرداری صاحب اب تک نہیں بھولے۔ اور اس کا تعلق کچھ کچھ اڈیپس کمپلیکس سے ملتا ہے۔ فرائڈ کو کیونکہ مولوی صاحب میسر نہیں تھے اس لئے وہ اسکا کوئ مناسب سا نام نہ رکھ پایا۔ مولوی صاحب کا ڈنڈا، طالب علم کی پیٹھ اور اماں جان کا حلوہ وہ بھی مولوی صاحب کے لئے۔ اس مثلث کے کیا اتنے سنگین نتائج نکل سکتے ہیں۔ اس پہ تو ایک فلم بن سکتی ہے۔
کوئ کہہ رہا تھا کہ مولوی اب ایک شخص نہیں کیفیت کا نام ہے. یہ کچھ خاص لوگوں پہ جن میں خاص جینیاتی ریسپٹر ہوتے ہیں کسی بھی وقت طاری ہو سکتی ہے۔ اس وقت آپکو پتہ چلتا ہے کہ ایسے ویسے لوگ کیسے کیسے ہو گئے۔ یہ عجیب اثر ہے کہ اس کیفیت میں  لوگ ہر قسم کی غیر اسلامی حرکات اور سکنات کے لئے اپنے آپکو آمادہ پاتے ہیں۔  لیکن منہ سے اسلام اسلام ہی نکلتا ہے۔
کچھ اور لوگوں کا خیال ہے کہ مرد مومن اپنے کامیاب تجربے کے بعد اسکے سائینسی رازوں سے کسی مرد ناداں کو مطلع کر گئے تھے۔ وہی والے جنکے متعلق اقبال بہت عرصہ پہلے با خبر کر چکے تھے کہ مرد ناداں پہ کلام نرم و نازک بے اثر۔ لیکن اس وقت بھی ہماری انٹیلیجنس ایجنسیز کے یہی لچھن تھے۔  اقبال نےخفگی میں کہا بھی کہ تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن۔ انٹیلیجنس والوں نے اسے پیش سے پڑھکر سازشوں کے جال بننا شروع کر دئیے۔ اور اپنے پرائے ہر ایک کے لئے بُن ڈالے۔ آجکل اپنے والے ادھیڑنے کی کوششوں میں ہیں۔ سو اسکے بعد  عام لوگوں میں مولوی کیفیت کو ابھارنا اور پھیلانا  نیت اور فتور نیت کے ساتھ جڑ گیا۔ جب جب نیت میں فتور آئے کوئ شخص تب تب مولوی بن جاتا ہے۔ 
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ فوج کے خلاف محاذ آرائ کی وجہ سے انہیں یہ عظیم لقب ملا۔ اگرچہ کہ ہمیں اب تشویش ہو چلی ہے کہ ایک تو طالبان کے لئے نرم گرم جذبہ رکھنے پہ ہی نواز شریف کو لوگوں کے طعنے سننے پڑ رہے تھے اور حالت یہ تھی کہ جب سے تونے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے۔ وہاں نواز شریف نے یقیناً کسی بد خواہ کے کہنے پہ فوج سے اڑنگا لے لیا۔ اگر انہوں نے کبھی دھوبی کے کتے کی زندگی دیکھی ہوتی تو اس  مرحلہء سودوزیاں پہ انہیں سمجھنے کی آسانی بہم ہوتی ہے۔  یہ فارم ہاءوس میں رہنے کا نقصان ہے۔
دوسری طرف وہ لوگ جو  طالبان اور فوج کو ایک ہی سکے کے دو رخ سمجھتے رہے اور بیک وقت ان دونوں کی زلف کے اسیر ہیں اور اس وجہ سے نواز شریف کو بھی عزیز رکھتے تھے۔ اب  انکے لئے مرحلہ ء سخت ہے کسے عزیز رکھیں کس کو مستعفی چاہیں۔  
لیکن بات وہیں آکر رک جاتی ہے کہ یہ تمغہ  نواز شریف کو کیوں دیا گیا ہے۔ نورجہاں یا معین اختر کو کیوں نہیں دیا گیا۔
کچھ اور کھوجی، اسکے تانے بانے پنجابی طالبان کی پنجاب حکومت کے ساتھ خوشگوار تعلقات میں دیکھتے ہیں۔ یہ بری بات ہے۔ حاسدی ہی ایسا کر سکتے ہیں و من شرّ حاسد اذا حسد۔ جذبہ ء مفاہمت کو عام کرنے والے لوگوں کو یہ بات کرنا زیبا نہیں۔
کچھ اور لوگ اسکی وجہ مفتی رانا ثناءاللہ کو گردانتے ہیں۔ یعنی طویلے کی بلا بندر کے سر۔ اس پہ رانا ثناء اللہ  صاحب کے عقیدت مند مجھ سے ناراض نہ ہو جائیں میں نے انہیں قطعاً بندر نہیں کہا۔ یہ محاورہ بنانے والے کی نیت کی خرابی ہے۔ وہ ہر مسکین کو بندر سمجھانا چاہتا ہے۔
یہ لوگ کہتے ہیں کہ ایک ایسا مفتی جو لوگوں کے واجب القتل ہونے پہ فتوی دینے کو تیار رہتا ہو۔ اور قتل ہو بھی جاتا ہو تو اس کا گرو تو مولوی ہی کہلائے گا۔ زرداری صاحب، سلمان تاثیر کا غم کھائے بیٹھے تھے اور ابھی رانا ثناء اللہ  کے فتوے اور سلمان تاثیر کے قتل کے مابین گتھیاں سلجھ بھی نہ پائں کہ رانا ثناء اللہ نے اس دفعہ بابر اعون کو بھی واجب القتل قرار دے دیا۔ بابر اعوان صاحب کا نہیں معلوم کس کھوہ میں بیٹھے ہیں البتہ رانا ثناء اللہ سنا ہے مونچھوں کی اصلی گھی سے مالش کراتے ہیں۔ مونچھیں ہوں تو رانا ثناء اللہ جیسی ہوں ورنہ نہ ہوں۔
دیکھا آپ نے حلوہ کھانے والے مولوی صاحب، خدا غارت کرے زمانے کی بد چلنی وغیرہ کو کہ  قتل وغیرہ سے بھی پہچانے جانے لگے ہیں۔ حلوے سے اٹھنے والے مولوی صاحب کا خمیر اب خدائ جلوے کے برابر ہو چکا ہے۔ جسکے بارے میں خدا کہتا ہے کہ تاب نہ لا سکو گے ہمارے جلوے کی۔
عطاء الحق قاسمی صاحب، نے آخر میں صدر زرداری کی اس تقریر کو غیر صدارتی قرار دیا ہے۔ میں اس سے اتفاق کرتی ہوں۔ صدر زرداری کو اسکا حل ، حلوے میں نکالنا چاہئیے تھا جلوے میں نہیں۔ ہو سکتا ہے مولوی صاحب کی یادداشت کام کرنے لگ جاتی۔ لیکن ایسا ہوتا تو عطاء الحق قاسمی جیسا سینیئر قلم کار اور مجھ جیسا نو آموز لکھنے والا  کس چیز کے متعلق لکھتے۔  انہی کے دم سے ہیں آباد یہ قلم کے مے خانے۔ یہ مصرعہ ابھی تخلیق کیا ہے۔ میں اسکا دوسرا مصرعہ جوڑتی ہوں۔ آپ حلوہ  سوچئیے اور قسمت میں ہو تو جلوہ۔

19 comments:

  1. صدر صاحب اکثر چھوڑتے رہتے ہیں۔
    کبھی ایکٹرز کی اصطلاح گڑھی اور کبھی کچھ ۔
    جب انہیں کسی سے تکلیف ہوتی ہے تو وہ گردن ٹیڑھی کرکے دھواں چھوڑتے ہیں۔
    اس وقت نواز شریف ایسے لیڈر ہیں جو ملک میں اچھا تاثر رکھتے ہیں اور جن کی بات پر اعتبار کیا جاسکتاہ ے کہ وہ ملک کو اندھیروں سے نکال سکتے ہیں۔
    عمران ایک اچھے سیاستدان ہیں لیکن چونکہ وہ کوستے ہی دکھائی دیتے ہیں اور امریکہ کی بھی واٹ لگاتے ہیں اس لیے وہ فقط اپنی سیٹ ہی بچاسکتے ہیں۔
    الطاف بھائی پہلے کراچی کو امن دیں پھر ملک کے دوسرے حصوں میں اپنا ووٹ بینک بنائیں۔
    ویسے مولوی کہلانا کوئی باعث شرم نہیں بلکہ باعث فخر ہے لیکن یہ بات روشن خیال کیا جانیں ۔

    ReplyDelete
  2. امریکن نواز شریف کو بنیاد پرست کہتے ہیں اور وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ نواز شریف مولویوں کے زیادہ قریب ہے اس لئے یہ ہمارے ایجنڈے کو آگے نہیں بڑھا سکتا۔۔۔۔جب ایسی باتیں کچھ بڑوں کی آپس میں ہوں گی تو کبی نہ کبھی زبان پر بھی آ ہی جاتیں ہیں

    ReplyDelete
  3. نواز شریف کو مولوی نواز شریف بنانے میں عطاءالحق قاسمی کا بڑا ہاتھ ہے۔ جن دنوں نواز شریف سعودی عرب میں تھے ان دنوں کے عطاءالحق قاسمی صاحب کے کالم اُٹھا کے دیکھ لیں کالموں میں آپ کو ایسا تاثر ملے گا کہ جیسے دُنیا میں صرف نواز شریف کی فیملی ہی وہ واحد فیملی ہی جو اسلام پر عمل کرتی ہے ۔ کالم صاف ظاہر کرتے تھے کہ رقم لیکر لکھے جارہے ہیں ۔

    ReplyDelete
  4. جی مولوی نواز شریف کے سر پہ نقلی بال اور پیٹ میں داڑھئ ھے ۔

    ReplyDelete
  5. شاذل صاحب، کون سا مولوی کہلانے میں فخر ہے۔ قرآن ناظرہ پڑھا کر حلواہ کھانے والا یا مذہب کے نام پہ فتور پیدا کرنے والا۔
    نواز شریف اگر ایک بہتر رہ نما ہیں تو کیا آپ انکی رہنمائ میں چلنے والے رانا ثناء اللہ کے فتووں کو بھی پسند فرماتے ہیں؟
    آپ اگر انکی بات پہ اعتبار رکھتے ہیں تو ملک میں موجود ایک بڑی تعداد انکی کسی بات کا کوئ اعتبار نہیں رکھتی۔ شاید آپ بھول گئے کہ ایک زمانے مِن نواز شریف اس بات سے انکاری رہے کہ وہ مشرف حکومت سے کسی ڈیل کے نتیجے میں سعودی عرب تشریف لے گئے تھے۔ پھر اسے تسلیم کرتے ہی بنی تو کہنے لگے معاہدہ صرف پانچ سال کے لئے تھا۔ اور آخیر میں اس قصے کو گول کرنا پڑا کہ اس میں بدنامی بہت تھی۔
    ہمم، لیکن میں خود بھول جاتی ہوں آپ اسی عوام سے تعلق رکھتے ہیں جنکے متعلق کہا جاتا ہے کہ انکی یادداشت کمزور ہوتی ہے۔ الطاف حسین کا قصہ بیچ میں لائے بغیر، نواز شریف کا دفاع کر کے دکھائیں تو مانیں۔
    یہاں اس پوسٹ میں تو الطاف حسین کا کوئ پروپیگینڈہ نہیں، پھر آپ نے یہ کمزور سہارا کیوں لیا؟ بات میں مضبوطی ہو تو انسان کو اپنے اوپر بھروسہ کرنا چاہئیے۔

    ReplyDelete
  6. آجکل نواز شریف ہر ایک کے نشانے پر ہے کیونکہ سب کو اپنا مستقبل تاریک دکھائی دے رہا ہے
    ویسے دل سے بتاتیں کہ کیا کراچی جیسا امن ہر جگہ چاہئے

    ReplyDelete
  7. شاذل صاحب، آپ نجانے کس دنیا میں رہتے ہیں۔ کراچی کوئ چیچو کی ملیاں نہیں۔ آپکو معلوم ہے یہاں کی آبادی پونے دو کروڑ ہے۔ کیا پاکستان کے کسی اور شہر کی آبادی اتنی ہے۔ پاکستان کی کل آبادی کا دس فی صد سے زیادہ حصہ اس شہر میں رہتا ہے۔ ایک ایسا شہر، جہاں ہر زبان کے بولنے والے اور ہر مذہب کے ماننے والے رہتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ کراچی میں مولوی صاحب کے چاہنے والے اتنے نہیں رہتے جتنے پنجاب میں پائے جاتے ہیں۔ اگر آپکے شہر کی آبادی اور تنوع ایسا ہوتا تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن ایسا ہو ہی نہیں پاتا۔ دریا میں سمندر جیسی وسعت نہیں پیدا ہو سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی کو امن کا طعنہ دینے والوں کا کوئ نہ کوئ رشتے دار یہاں سے دانہ پانی لے رہا ہوتا ہے۔
    آپ جا کر دنیا کے بڑے بڑے کاسموپولیٹن شہروں میں جرائم کی شرح پڑھیں اور پھر انکا مقابلہ کراچی سے کریں۔ مقابلے کے لئے چزوں کا ایک جیسا ہونا ضروری ہوتا ہے۔
    آپ نے میرے کسی سوال کا جواب کیوں نہیں دیا۔ اور ایک کمزور، بودی اور غیر متعلقہ بات برائے بات کر ڈالی۔

    ReplyDelete
  8. اور ہاں نواز شریف سے پنجاب میں ہی لوگوں کو مستقبل تاریک نظر آرہا ہو تو ہو۔ انکی سیاست کا عالم یہ ہے کہ جب سندھ آئے تو یہاں کے ان قوم پرست جماعتوں کے ساتھ بیٹھ کر جلسے کئے جنہیں پورے سندھ میں کوئ گھاس نہیں ڈالتا۔ جنہیں سندھ سے الیکشن میں کوئ کامیابی نصیب نہیں ہوتی۔ آپ سمجھتے ہیں پاکستان صرف صوبہ ء پنجاب کا نام ہے۔ آپ کو اس سمجھ سے باہر آنے کے لئے پنجاب سے باہر نکلنا بہت ضروری ہے۔

    ReplyDelete
  9. عنیقہ صاحبہ میرے خیال میں آپکو گھر میں کافی فارغ ٹائم ملتا ہے جو اسیے موضوعات پر بھی اسانی سے لکھ لیتی ہیں۔ہم تو ایک پوسٹ لکھتے ہیں تو بس دو یا تین دن تو لگتے ہی ہیں۔

    بال بچے دار عورت اور اتنا فارغ ٹایم ۔۔۔۔یقین نہیں آرہا

    ReplyDelete
  10. درویش خراسانی صاحب، اپنے آپ سے یا اپنے ارد گرد کی خواتین سے مقابلہ کریں گے تو ایسی ہی یقین کی چھوٹی چھوٹی عمارتیں کھڑی ہونگیں۔ آپ اگر معیار ہوتے تو حالات خاصے مختلف ہوتے۔ دنیا میں لکھنے والوں نے بڑے بڑے کام کئے ہیں انکی تاریخ بھی پڑھیں۔ میں تو صرف بلاگنگ کرتی ہوں، تو آپکو حیرانی ہے۔ دنیا مجھ سے زیادہ حیران کن لوگوں سے بھری ہے۔ انکے متعلق بھی جانیئیے۔ آپکو خاصہ تحرک ملے گا۔

    ReplyDelete
  11. شاذل صاحب، کس کے فرار یا بائیکاٹ کی بات ہو رہی ہے۔ فرار تو اس وقت آپ حاصل کر رہے ہیں گرو نواز شریف پہ، حالانکہ آپ انہیں پاکستان کا بہتر رہ نما سمجھتے ہیں۔ مگر یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ وہ ایسے کیو نکر ثابت ہو سکتے ہیں۔
    اور اگر آپ میرا بائکاٹ کرنا چاہتے ہیں تو شوق سے کیجئیے۔ آپ ایک آزاد قاری ہیں۔ بائکاٹ کرنے والوں کی وجہ سے میں نے اپنی بلاگنگ روکی نہیں۔

    ReplyDelete
  12. ہمم، شاذل صاحب، تو آپ بیمار ایم کیو ایم ہیں۔ ابھی اخبار پڑھ کر اندازہ ہوا۔ آجک گوناگوں مصروفیات کی باعث ٹی وی نہیِن دیکھ پا رہی۔
    اچھا یہ تو بتائیے کہ مولوی صاحب کے چاہنے والے کیوں ایم کیو ایم کے بیمار ہوتے ہیں۔ کراچی کی حد تک سمجھ آتا ہے کہ جماعت اسلامی کی شہنشاہیت چھین لی انہوں نے ۔ یہ اہل پنجاب اپنی نفرت میں کیوں اتنے بڑھے ہوئے ہیں۔ اسکی وجہ نمعلوم حالانکہ یہی اہل پنجاب مولوی صاحب کے ہر ظلم پہ لب سی لیتے ہیں، آنکھیں بند کر لیتے ہیں، کانوں میں سیسہ ڈال لیتے ہیں۔ یہ راز آپ مرد مون کی حیثیت سے کھول سکتے ہیں یا نہیں۔
    دوسری اہم بات یہ ہے کہ چونکہ یہ پوسٹ نواز شریف اور زرداری کے متعلق تھی لیکن آپ اس میں روائیتی مولوی اہل پنجاب کی طرح ایم کیو ایم کو گھسیٹ لائے ۔ سو اس لئے آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ کیا نواز شریف کے اصل حریف ایم کیو ایم ہے۔ یا یہ نری عصبیت ہے اور اسکے علاوہ کچھ نہیں؟
    کیا آُ ایک متعصب مولوی پنجابی ہیں یا ایک قوم پرست ، امید پرست پاکستانی ہیں؟ آپ اپنے آپکو کس طبقے میں رکھنا پسند کرتے ہیں۔

    ReplyDelete
  13. ویسے آپکی بیشتر تحاریر کی طرح میں اس تحریر پر بھی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن ایک دو باتیں کہنا چاہتا ہوں۔
    پہلی بات تو یہ کہ اپنا مقدمہ تو شازل کو خود لڑنا چاہیے لیکن اطلاعاً عرض ہے کہ شازل ڈیرہ اسماعیل خان یعنی خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھتے ہیں اور پنجابی نہیں ہیں۔
    دوسری بات یہ کہ میری ناقص رائے میں زرداری صاحب کا نواز شریف کو مولوی کہنا پاکستانی نہیں امریکی کانوں کیلئے تھا۔ ایسے ہی جیسے مشرف صاحب امریکنوں کو ایم ایم اے کا بھوت دکھاتے رہے تھے۔
    اب شاید زرداری صاحب کو یہ اندازہ کرنے میں غلطی ہوئی ہو کہ بیشتر پاکستانی اسکو نواز شریف کی خوبی ہی سمجھیں گے۔ انکی ۱۱ فیصد مقبولیت کے مقابلے میں نواز شریف کی ۶۳ فیصد مقبولیت اب شاید کچھ اور زیادہ ہو جائے۔
    میرے خیال میں نواز شریف کا اصل کارنامہ مسلم لیگ کو ڈرائنگ رور سے نکال کر عوامی بنانا اور اسمیں بائیں بازو کی سیاست کو متعارف کرانا ہے۔ پاکستانی سول اور فوجی اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر کوئی معمولی بات نہیں اور اسکے مضمرات کو اچھی طرح جانتے ہوئے ایسا کرنا تو اور بھی بہادری کی بات ہے۔

    ReplyDelete
  14. فیصل صاحب، میرا تو خیال ہے کہ نواز شریف بائیں بازو کی سیاست کر ہی نہیں سکتے۔ وہ دائیں بازو کے اثر سے باہر نہیں نکل سکتے۔ دلچسپ سوال یہ ہے کہ نواز شریف جو کہ خود فوج کی پیداوار ہیں اس وقت فوج کے خلاف کیوں بول رہے ہیں۔ میری ذاتی رائے میں تو وہ فوج کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔
    شدت پسند عناصر سمجھتے ہیں کہ فوج اگر تقسیم ہو گئ تو یہ انکی بڑی کامیابی ہوگی۔ اس کامیابی کا یقین نواز شریف کو بھی ہے۔ وہ فوج کے خلاف کچھ سوچ کر ہی بول رہے ہیں۔ ورنہ چند مہینے پہلے تک انکے بھائ آرمی چیف سے رات کے اندھیرے میں جا کر ملتے رہے ہیں۔ پھر اچانک کایا کلپ کیسے۔ نواز شریف کو بدلے میں وہ نہیں مل رہا جو وہ چاہتے ہیں اور انکی خواہش ہے کہ شدت پسند عناصر پہ ہاتھ ہولا رکھا جائے۔ جو کہ اس سیٹ اپ میں ممکن نہیں نظر آرہا۔
    جی ہاں فوج کے خلاف آواز اٹھانا بہت بہادری کا کام ہے اسے کنٹرول مِن بھی لانا چاہئیے لیکن کس قیمت پہ۔ گوریلا ہٹا کر دیوانہ ہاتھی لے آئیں۔ مسائل کے کچھ درمیانی حل بھی ہوتے ہیں۔ اسی میں سب کی بقاء ہے۔

    ReplyDelete
  15. فیصل صاحب، مجھے اتنی تفصیلات شاذل کے بارے میں نہیں معلوم۔ لیکن آپکی اس معلومات کے بعد مزید یہ کہ ہمیشہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ شدت پسندی کے معاملے میں اہل پنجاب اور اہل سرحد ایکدوسرے کا ہاتھ پکڑ کر چلتے ہیں۔

    ReplyDelete
  16. دعا کریں کہ سندھ بھی ہمارا ہاتھ پکڑ لے

    ReplyDelete
  17. اب آپکو اندازہ ہو گیا ہو گا کہ میں کیوں آپکی زیادہ تر تحاریر پر تبصرہ نہیں کرتا
    (-;
    ہم لوگوں کو مختلف خانوں میں فٹ کرنے لگ جاتے ہیں۔ سٹیریو ٹائپنگ کرنے اور کیے جانے سے بچنے کی کوشش میں ممکنہ حد تک کوشش کرتا ہوں۔
    فوج کو تقسیم میاں صاحب نہیں کر رہے فوج کی اپنی
    پالیسیساں کر رہی ہیں۔ مشرف کے دور میں کئی چھوٹی چھوٹی بغاوتیں ہوئیں اور جی ایچ کیو پر حملے میں ان فوجیوں کا نام سامنے آیا جنھیں مشرف نے فارغ کیا تھا۔ ایک کرنل صاحب کو تو میں جانتا ہوں کہ مشرف دور میں پابند سلاسل رہے۔ ڈیرہ سے انکا تعلق ہے۔ اور بھی کئی ہیں کہ جنھوں نے گولی چلانے سے انکار کیا اور اسکی سزا بھی بھگتی۔
    میاں صاحب یقیناً فوج کی ہی پیداوار ہیں لیکن وہ تو بھٹو صاحب بھی تھے کہ ایوب کو ڈیڈی کہتے تھے۔ انکے والد بھی غالباً برطانوی سٹیبلشمنٹ کا حصہ ہی تھے۔ اس سے تو کوئی اختلاف نہیں کہ فوج خاصی "پیداواری" رہی ہے اور اس سلسلے میں بہت سے نام لیے جا سکتے ہیں۔ سندھی بھائی تو زیادہ بہتر بتا سکتے ہیں۔
    افسوس کہ آپکے سوال کا جواب میرے پاس نہیں۔ مجھے شدت پسندی کا مطلب ہی نہیں آتا جہ جائیکہ یہ علم ہو کہ پنجاب اور سرحد کو لوگ اسمیں کیوں ساتھ ساتھ ہیں۔ ہاں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ طالبان میرے گھر سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر رہتے ہیں اور ڈیرہ اسماعیل خان کی خیبر پختونخواہ میں وہی حالت ہے جو جنوبی پنجاب کی شمالی پنجاب کے مقابلے میں ہیں۔ شاید لوگ سرائیکی کی مٹھاس کا غلط فائدہ اٹھاتے ہیں۔

    ReplyDelete
  18. ویسے فوج کی تقسیم پر ہی بات کرنے کی سزا تو صحافی سلیم شہزاد کو بھی ملی۔ علم مکمل نہیں لیکن کئی لوگ تو یہی کہہ رہے ہیں۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ