Wednesday, December 8, 2010

بزرگ ہونا

پچھلے چند دن کچھ قریبی شادیوں کی مصروفیت میں گذرے۔ پھر کچھ دوستوں کی شادیاں بھی اس میں شامل ہو گئیں۔ اور یوں میں شادیوں کے ہاتھوں یرغمال ہو گئ۔ شادیوں کی اس بھاگ دوڑ سے ہٹ کر ایک نکاح کی تقریب دلچسپ رہی۔ 
کراچی میں اب یہ رواج ہو گیا ہے کہ نکاح کی تقریب ایک دو روز پہلے قریبی رشتے داروں کی موجودگی میں ہو جاتی ہے اور رخصتی بعد میں شادی ہال یا لان سے ہوتی ہے۔ فائدہ یہ کہ رخصتی کی تقریب میں کچھ دیر سویر ہو تو کوئ پریشانی نہیں ہوتی۔
یوں ایکدن ہم ایک نکاح کی تقریب میں بھی شامل تھے۔ نکاح کی یہ تقریب گھر پہ ہوئ اور تمام خواتین و حضرات ایک ہی جگہ موجود تھے۔
قاضی صاحب کے آنے کے بعد فارم بھرنے کا مرحلہ شروع ہوا۔ پہلے دولہا اور انکے گواہان کے نام پتے لکھے گئے پھر دولہن کی باری آئ۔ نام پوچھا گیا۔ جواب ملا رومیصہ احمد خان۔ قاضی صاحب نے کہا صرف دولہن کا نام بتائیں۔ جواب ملا کہ یہ صرف دولہن کا نام ہے۔ انہوں نے اسی سنجیدگی سے کہا یہ دولہن کا نام کیسے ہو سکتا ہے۔ میں صرف رومیصہ لکھ رہا ہوں۔ لیکن آپ صرف رومیصہ کیسے لکھ سکتے ہیں۔ دولہن کا پورا نام رومیصہ احمد خان ہے۔ دستاویزات میں یہی نام ہے۔ لیکن انہوں نے کہا کہ احمد خان تو والد صاحب کا نام ہوگا۔ جبکہ اس وقت صرف دولہن کا نام چاہئیے۔ پھر حاضرین محفل میں سے کسی نے مداخلت کی یہ والد صاحب کے نام کے ساتھ بھی ہے اور دولہن کے نام کے ساتھ بھی ہے۔ دولہن کا نام شناختی کارڈ میں یہی ہے۔ چلیں جناب، عوام کے بے حد اصرار پہ قاضی صاحب بہ مجبوری رومیصہ احمد خان لکھنے پہ تیار ہوئے۔
 اب  باقی گواہان اور وکیل کے نام اور پتے لکھے گئے اور مہر کی مقدار لکھ کر باقی فارم کے بارے میں قاضی صاحب نے کہا اسے چھوڑ دیں اس سارے پہ ایک کراس لگ جائے گا۔
یہ سن کر میرے کان کھڑے ہوئے۔ کیونکہ دولہن صاحبہ نے نکاح سے پہلے مجھ سے کہا تھا کہ میں نکاح کے وقت وہاں موجود رہوں اور نکاح کی جو شقیں ہیں انہیں بھرنے پہ اصرار کروں۔ میں نے دولہن سے کہا مگر میں  یہ کیسے کر سکتی ہوں۔ جانے دو یار، سب کا نکاح ایسے ہی ہوتا ہے۔
کہنے لگیں میں نہیں جانے دے سکتی۔ مجھے یاد ہے آپکے نکاح پہ کیا ہوا تھا۔
دراصل میرے نکاح پہ ، دودن پہلے میرے سسر صاحب نے نکاح فارم کی ایک کاپی کروائ اور کہا کہ وہ پینسل سے بھر کر یہ کاپی دیں گے اور اصل نکاح فارم اسی طرح بھرا جائے گا۔ جب وہ فارم واپس آیا تو ہم سب کو ایک خوشگوار حیرت ہوئ کہ انہوں نے فارم کی ایک ایک شق کو پر کیا تھا۔ اور شق نمبر اٹھارہ جسکے تحت طلاق کا حق بیوی کو تفویض کیا جاتا ہے اس میں ہاں لکھا تھا۔ اسکے بعد ایک اور شق جس میں پوچھا گیا تھا کہ کس صورت میں بیوی طلاق کی درخواست کر سکتی انہوں نے لکھا کہ اگر وہ اپنے شوہر کو نا پسند کرتی ہو۔
ہم میں سے  کسی کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ فارم اس طرح بھرا جائے گا اور ایک عمومی طریقہ یہی ہے کہ تمام شقوں پہ ایک کراس ڈال دیا جاتا ہے۔ خیر یہ میرے سسر صاحب کے کھلے دل کے ہونے کی ایک نشانی تھا۔   میرے گھر سے کسی نے ان سے یہ مطالبہ نہیں کیا تھا۔ یہ انکا مجھے سب سے پہلا تحفہ تھا۔
لیکن دولہا والوں سے اس چیز کا مطالبہ کرنا ذرا مشکل لگتا ہے۔ عمومی حالت یہ ہے کہ انکا پلّہ بھاری ہوتا ہے۔ خیر جب نکاح فارم بھرا جا چکا تو دولہن کی والدہ نے دستخط ہونے سے پہلے کہا کہ وہ اسے دیکھنا چاہتی ہیں اور فارم قاضی صاحب سے لے کر میرے ہاتھ میں دے دیا۔ میں تھوڑی دیر پہلے ہونے والی گفتگو سے یہ اشارہ سمجھ گئ کہ مجھے کیا کہنا ہے۔ ایک نظر اس فارم پہ ڈالی اور کہا کہ میں یہ درخواست کرنا چاہتی ہوں کہ چاہے سارے فارم پہ آپ کراس ڈال دیں لیکن شق نمبر اٹھارہ میں ہاں لکھ دیں۔ ایک دم محفل میں سنّاٹا  ہو گیا اور پھر بھنبھناہٹ۔ 
یہ شق نمبر اٹھارہ کیا ہے؟ میں نے پڑھ کر سنایا۔ کیا بیوی کو طلاق کا حق تفویض کردیا گیا ہے؟ باراتیوں میں سے ایک صاحب نے کہا یہ تو غیر شرعی ہے۔ اسکی کوئ اہمیت نہیں۔ یہاں ہمارے خاندان کی جتنی خواتین بیٹھی ہیں۔ انہوں نے سبکے نام گنوائے ان سے پوچھیں کسی کے نکاح میں ایسا نہیں کیا گیا۔ سب ہنسی خوشی رہ رہی ہیں۔
اس پہ میں نے ان سے کہا کہ چونکہ یہ فارم اور اسکی شقیں حکومت پاکستان کی منظورہ شدہ ہیں اور کسی بھی قانونی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہیں اس لئے انکا بھرنا ضروری ہے۔ اس وقت ہم اسکے شرعی اور غیر شرعی پہلو میں نہیں پڑ رہے۔ حکومت پاکستان نے اگر یہ رکھا ہے تو اسکا مطالبہ کیا جا سکتا ہے۔ ایک دفعہ پھر سب خاموش۔ 
پھر دوسرے باریش صاحب جو دولہا کے بھائ تھے بولے۔ یہ حق تو خلع کے برابر ہوتا ہے اور اسے غیر شرعی کہنا درست نہیں۔ میں تو نہیں سمجھتا کہ اسے ہاں کہہ دینے سے کوئ فرق پڑتا ہے۔ پھر ہنس کر کہنے لگے کہ آج ہی اخبار میں اسکے بارے میں ایک مضمون پڑھا  کہ تمام شقوں کو بھرنا چاہئیے۔ مگر ان رشتے دار نے پھر مداخلت کی، باقی تو کسی کا بھی نہیں ہوا۔ آخر وہ بھی تو رہ رہے ہیں۔ میں نے ان سے کہا فکر نہ کریں۔ پھر اپنے شوہر صاحب کی طرف اشارہ کیا۔ میرے نکاح کے فارم میں بھی یہ شق بھری گئ ، ہاں کے ساتھ۔ اتنا عرصہ ہو گیا ہماری شادی کو اور ہم خدا کا شکر ہے باہمی ہم آہنگی کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ 
آخرطے ہوا کہ معاملہ دولہا پہ چھوڑ دیا جائے۔ دولہا نے کہا، مجھے تو کوئ اعتراض نہیں۔
 یوں ایجاب و قبول کا سلسلہ شروع ہوا۔ دعا ہے کہ دونوں اسی طرح ہم آہنگی اور سمجھ داری سے زندگی گذاریں۔
میں اپنے گھر واپس آتے ہوئے سوچ رہی تھی کہ یہ میرے سسر صاحب کی وسعت قلبی اور سمجھداری تھی جس نے آج مجھے اتنا حوصلہ دیا کہ میں نے ایک اور لڑکی کو یہ حق لینے میں مدد کی۔
معاشرے کے بگاڑ اور سنوار میں بزرگوں کے روئیے،  فیصلے اور دور اندیشی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ وہ آنے والی نسل کو مضبوطی سے کھڑے ہونے کے قابل بناسکتے ہیں اور وہی انہیں کمزور کر کے بھٹکنے کے لئے چھوڑسکتے ہیں۔ آج میرے سسر صاحب  کو اس دنیا کو چھوڑےتین مہینے ہو رہے ہیں۔  دعا ہے کہ خدا ہمیں کردار اور عمل کی مضبوطی دے  تاکہ ہم انکے انسانی قدروں کے مضبوط بنانے کے عمل کو جاری رکھیں۔

44 comments:

  1. You said [اس پہ میں نے ان سے کہا کہ چونکہ یہ فارم اور اسکی شقیں حکومت پاکستان کی منظورہ شدہ ہیں اور کسی بھی قانونی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہیں اس لئے انکا بھرنا ضروری ہے۔ اس وقت ہم اسکے شرعی اور غیر شرعی پہلو میں نہیں پڑ رہے۔ حکومت پاکستان نے اگر یہ رکھا ہے تو اسکا مطالبہ کیا جا سکتا ہے۔ ایک دفعہ پھر سب خاموش۔]

    why you forget this "Hakoomat e Pakistan" in case of Aasia Bibi????? Blasphemy Law is also a "LAW" Why not u respect it?
    This Nikah Nama was also written by Fundos why u were supporting it???? Just to grind ur own axe????? U are hypocrite...

    ReplyDelete
  2. خدا بزرگووبرتر آپ دونوں پر رحمت نازل کرے

    ReplyDelete
  3. یہ بات بہت ہی زیادہ قابل غور ہے کہ معاشرے کے بگاڑ اور سنوار میں بزرگوں کے روئیے، فیصلے اور دور اندیشی بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے۔ بزرگوں کے روئیے اور فیصلے گھروں اور خاندانوں کے سکون یا خرابی امن، دونوں میں بہت گہرا رول ادا کرتے ہیں۔

    ReplyDelete
  4. Hi even in our tradition mostly woman going to suffer alot, in muslim way or society both way for girl just not much.. I couldnt found answer, in western society where i am staying, alot of respect for woman in wedding.. Wish we learn... God bless

    ReplyDelete
  5. ہمم تو آپ بزرگ بن گئی ہیں؟ آپ سے توقع کرتے ہیں کہ آپ اپنے سسر رحمتہ علیہ کی طرح "وسیع قلب" بنیں گی۔ کہ ایک معاشرے میں صرف میاں بیوی کی ہم آہنگی ہی پورا معاشرہ نہیں ہوتی جس پہ شرعی وسیع قلبی کا مظاہرہ کیا جائے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ دوسرے لوگوں ۔ ملنے جلنے والوں۔ اور قارئین کے جذبات کا بھی ایک تعلق "وسیع قلبی" سے بنتا ہے۔ لہٰذاہ امید کی جاتی ہے کہ تلوار نکالنے سے قبل آپ شاندار قسم کی " وسیع قلبی کامظاہرہ کریں گی۔ نہ کہ کھٹ سے قاری کی گردن اڑانے کی کریں گی۔ :)

    ReplyDelete
  6. truth exposed,
    بھائ جان، تو اس پوسٹ میں آپ آسیہ بی بی کا بکھیڑا ڈالیں گے۔ یہاں ہم نئ زندگی کی شروعات کی بات کر رہے ہیں وہاں آپ کسی کو موت کی نیند سلانے کے لئے بے قرار ہیں۔ اس بیمار ذہنیت کے لئے کیا جواب ہو سکتا ہے۔ کیا موت اور زندگی کے درمیان فرق آپکو معلوم ہے۔ یقیناً نہیں معلوم ہوگا۔
    توہین رسالت کا قانون، معاشرے میں من مانی قائم کرنے کے لئے بنایا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ اسکے زیادہ تر مقدمات ان علاقوں سے آتے ہیں جہاں من مانی کرنے کا رواج ہے۔ جہاں بنیادی انسانی حقوق کا کوئ تصور نہیں ۔ جہاں انسان دو طرح کے ہوتے ہیں ایک اعلی انسان اور دوسرے کیڑے مکوڑے انسان۔ اعلی انسان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے اشرف ہونے کے حق کو ہر طرح سے استعمال کرے باہے اسکے لئے ریاستی قوانین کو بگاڑنا پڑے یا مذہبی قوانین بنانا پڑیں۔
    اب اس موضوع پہ اس پوسٹ پہ میں کوئ جواب نہیں دینا چاہتی۔ میں بیمار لوگوں سے مخاطب ہونے میں کوئ دلچسپی نہیں رکھتی۔
    جاوید گوندل صاحب، وہ تمام لوگ جو معاشرتی نا انصافیوں کے ساجھے دار ہیں انکے لئے کیا وسعت قلبی۔ ظلم کے خلاف خاموش رہنا ظلم کرنے کے برابر ہے۔ آپ آج اگر معتدل زبان بولیں تو میں بھی معتدل ہوں۔ لیکن نہیں آپ میری عام باتوں پہ جو تبصرے فرماتے ہیں وہ بھاشانی کی برفی نہیں ہوتی۔
    میرے سسر صاحب، لوگوں کی حق تلفی کبھی نہیں کرتے تھے۔ انہیں وہ بھی دیتے تھے جسکی انہیں خبر نہیں ہوتی تھی۔ وہ لوگوں کو آسانیاں دینے کے قائل تھے۔ لیکن کسی بے اصول شخص کو انہوں نے اسکے پیٹھ پیچھے نہیں جب بھی کہا اسکے منہ پہ ہی کہا۔ اور اپنے جذبات وہ کبھی چھپا کر رکھنے کے قائل نہیں تھے۔ یہ عادت بھی میں نے ان سے لی۔

    ReplyDelete
  7. بڑی بات ہے بھئی۔ ورنہ میں تو اچھے بھلے پڑھے لکھے گھرانوں میں دیکھ چکا ہوں کہ حق مہر محض بتیس روپے لکھوایا جاتا ہے۔ دلیل یہ دی جاتی ہے کہ کوئی "سنت" ہے۔
    اور وہ جو میں نے آپ سے چنگی سی بی بی والی درخواست کی تھی۔ آپ نے اس پہ کان دھرے کہ نہیں۔ ارے بھئی نکاح نامے پر دلہن صاحبہ کی تمام شرائط پیشگی قبول ہوں گی۔ دیکھے میں بار بار کہہ رہا ہوں کہ مجھ ایسا منڈا آسانی سے نہیں ملتا۔ اور آپ ہیں کہ وہاں کسی لڑکی کا بھلا ہی نہیں چاہتی۔

    ReplyDelete
  8. قاضی صاحب کو بلانے کی کیا ضرورت تھی، نکاح ہی تو تھا آپ نے خود پڑھا دیا ہوتا، او ہو سورۃ بقرہ اور سورۃ عمران کی چار آیتیں! کوئی بات نہیں اس کے بغیر کام چل جاتا، ایجاب و قبول اور دو گواہ ٹن ٹن ٹن ٹن۔

    سو دلہا میاں اپنے حق سے دست بردار ہوگئے، لو جی آپا جی پہلے مجھے صرف بھائی صاحب کی مظلومیت کی فکر کھاتی تھی اب بیچارہ ایک اور مظلوم پیدا ہوگیا، اللہ رحم کرے اس پر بھی۔

    ویسے میں اپنی ہونے والی بیوی کو ایسی کوئی سہولت نہیں دینے والا کیوں کہ ایوب خان کے قانون کے مطابق یہ میری ذاتی سوابدید ہے۔ میں ہی کیا ایسی لغو سہولت جسے آپ حق کہ رہی ہیں اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ و علیہ وسلم نے بھی عورتوں کو نہیں دی تو میں کیوں دوں؟ اور ہاں دلہے چاہے روشن خیالئے ہو یا بنیاد پرست اپنی بیویوں کو ایسی سہولت ہرگز نہیں دینے کہ:mrgreen:

    اور جن درویش صاحب نے یہ کہا کہ یہ خلع کہ برابر ہے انکو درشاباش کہ یہ شق طلاق بائن کے زمرے میں آتی ہے نہ کہ خلع کہ۔ خلع تو اس تنسیخ نکاح کو کہتے ہیں جو امیرالمومنین (حاکم شرعی) یا انکا نمائندہ قاضی خاتون کی درخواست مناسب معلوم ہونے پر کرتا ہے۔

    احناف کے نزدیک طلاق کی تین شکلیں ہیں یعنی طلاق رجعی، طلاق بائن اور طلاق مغلظہ اس کے علاوہ طلاق احسن (قرآنی طلاق) اور طلاق بدعتہ (عمر فاروق رضی اللہ تعالی کا اجتہادی طلاق) کا تصور بھی فقہ کے یہاں موجود ہے۔ البتہ قرآن کریم نے صرف ایک ہی طلاق کا ذکر کیا ہے جس کے ہوتے ہوئے باقی ہر طرح کی طلاقیں غیر ضروری معلوم ہوتی ہیں۔ احناف کے یہاں نکاح اور طلاق کے اصول بڑے سخت اور حساس ہیں جبکہ اہل حدیث اور سلفی حضرات اس معاملے میں بڑی گنجائش نکالیتے ہیں۔ مسئلہ صرف تین اور ایک طلاق کا ہی نہیں بلکہ نیت اور ارادے کا بھی ہے۔ جیسے ہم حنفی اس بات کے قائل ہیں کہ اگر مرد نے خنجر کی نوک پر بھی طلاق دی تو طلاق ہوگئی یا اگر قاضی نے لڑکے کی طرف سے نکاح کے غلط دعوے کو قبول کرلیا تو گویا نکاح ہوگیا اور خاتون موصوف پر حلال ہوگئیں۔ ہاں مسلئے کا حل ایک ہی ہے یعنی قرآن کی طرف رجوع یعنی تین مہینے طلاق!

    ReplyDelete
    Replies
    1. جزاک اللہ۔ آپ نے ثابت کر دیا ہے ایک بار پھر سے کہ اسلام میں جتنا گڑبڑ اور جتنی مشکل ہے، وہ سب "علماء" کی پیدا کردہ ہے۔ کیا آپ کی بیان کردہ تشریح کے مطابق اسلام دین فطرت ہے؟

      Delete
  9. @Mam Aneeqa....great logic.
    u know why i read this blog????? I come here to do some brain exercises, how to control my anger when I see *sane* people showing insanity.....
    Plus I smelled the rat in ur post in very beginning where u showed the Qazi sahib being sooo stupid... I haven't seen such a stupid Maulvi in my life, how u discover them?????? I think they just the creation of ur mind....

    ReplyDelete
  10. ۔ اس بیمار ذہنیت کے لئے کیا جواب ہو سکتا ہے۔ کیا موت اور زندگی کے درمیان فرق آپکو معلوم ہے۔ یقیناً نہیں معلوم ہوگا۔

    اووووووووووف
    یہ عالم غرور و تکبر کا دیکھا نا جائے

    ReplyDelete
  11. یہ پوسٹ اس بات کا ثبوت ہے کبھی کبھی اعتدال میں رہ کر بات کرنے سے کوئی آسمان نہیں ٹوٹ پڑتا.....ویسے محترمہ برادر جمشید زبیری المعروف ٹروتھہ ايکسپوذڈ نے بڑے صحیح موقع پر آپکی دوغلی سوچ کی نشاندھی کی ہے. اور برائے مہربانی تصیح فرما لیجیۓ معاملہ زندگی اور موت کا نہیں معاملہ الله کے محبوب نبی کی عزت ، عظمت اور حرمت کا ہے جسے بدقسمتی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک کھیل بنایا جا رہا ہے.

    ReplyDelete
  12. آپ خوش نصیب ہیں کہ آپ کے سسر بزرگ تھے، بوڑھے نہیں۔

    ReplyDelete
  13. کاشف نصیر، منّے بھائ،مجھے آپکی منگیتر سے ہمدردی نہیں وہ بے چاری کیا کرے۔ جب ایران اور عراق دس سالہ جنگ ہوئ تو جنگ کے اختتام پہ خواتین کا مسئلہ شادی کے لئے مردوں کی عدم دستیابی تھآ۔
    ہمارے یہاں کے حالات میں لوگوں کو ایک شکایت تو یہ ہے ہ پڑھے لکھے لڑکے نہیں ملتے۔ کیونکہ لڑکے تو ملکی اخلاق سنوارنے کی مہم پہ ہیں۔ انہیں پڑھائ کی فرصت کہاں۔ اور جو پڑھ کر آرہے ہیں وہ متائثرین گڈومیاں نظام ہیں۔ ایسی صورت میں لڑکیوں کو جو مل جائے اسی سے شادی پہ تیار ہونا پڑتا ہے۔ ہر کوئ میری طرح خوش قسمت نہیں ہو سکتا۔
    ڈاکٹر جواد احمد خان، جب خواتین کی زندگی کو کھیل بنایا جاتا ہے اس وقت آپ بڑی خاموشی سے بیٹھ کر تماشہ دیکھتے ہیں۔ کبھی اپنے دوغلے پن پہ گور کیا ہے۔ رسول تو کہہ رہا ہے کہ میں رحمت اللعالمین نا کر بھیجا گیا ہوں۔ اور آپ اپنے عمل اسے عذاب بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ کیا کبھھھھھھھھھی اپ لوگوں کو اپنے دوغلے پن کا احساس ہوگا۔
    ملک میں ہزاروں لاکھوں خواتین کی عصمت کی کوئ فکر نہیں ہوتی مگر جب فکر ہوتی ہے تو ایک عافیہ کی۔ خدا کا خوف بھی کوئ چیز ہے۔ جس سے آُ لوگ اس لئے محروم ہیں کہ چنگیز خان آپکا ہیرو ہے یہ یقیناً محمد الرسول اللہ نہیں ہو سکتے۔

    ReplyDelete
  14. ڈاکٹر جواد احمد خان، جب خواتین کی زندگی کو کھیل بنایا جاتا ہے اس وقت آپ بڑی خاموشی سے بیٹھ کر تماشہ دیکھتے ہیں۔ کبھی اپنے دوغلے پن پہ گور کیا ہے۔ رسول تو کہہ رہا ہے کہ میں رحمت اللعالمین نا کر بھیجا گیا ہوں۔ اور آپ اپنے عمل اسے عذاب بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ کیا کبھھھھھھھھھی اپ لوگوں کو اپنے دوغلے پن کا احساس ہوگا۔
    ملک میں ہزاروں لاکھوں خواتین کی عصمت کی کوئ فکر نہیں ہوتی مگر جب فکر ہوتی ہے تو ایک عافیہ کی۔ خدا کا خوف بھی کوئ چیز ہے۔ جس سے آُ لوگ اس لئے محروم ہیں کہ چنگیز خان آپکا ہیرو ہے یہ یقیناً محمد الرسول اللہ نہیں ہو سکتے۔
    ____________________________________________

    تو گویا آپ مان رہی ہیں کہ آپکی سوچ بھی دوغلی ہے اگرچھ ہماری ' دوغلی' سوچ کے رد عمل میں ہی ہے؟

    ReplyDelete
  15. مجھے نہیں پتہ کہ میرا یہاں بولنا کسی نئی بحث کا موجب نہ بن جائے لیکن خیر کچھ بھی کہنا ہو بس کوئی مجھ سے سخت لہجے میں بات نہ کرے اچھاااااااا (ابھی سے وارن کررہی ہوں) میری شادی کو دو سال ہورہے ہیں۔۔۔شادی کے وقت میری عمر بائیس سال تھی۔۔۔مجھے نکاح نامے کا بالکل نہیں پتہ کیا لکھا گیا اور کیا نہیں۔۔۔بس قاری صاحب،میرے بابا،ماموں تھے (نہیں شاید اور بھی کچھ رشتہ دار تھے میرا منہ چونکہ جھکا ہوا تھا مجھے اب یاد نہیں آرہا) مجھے دستخط کرنے کے لیے کہا گیا۔۔۔میں نے روتے روتے تین جگہ پر سائن کردیے۔۔۔۔۔اللہ تعالیٰ کا شکر ہے اب تک تو حالات میرے حق میں بہترین ہیں۔

    عینقہ پتہ ہے شاید ہماری فیملی میں شروع سے لڑکی کے ذہن میں لفظ سمجھوتہ اس قدر راسخ کردیا جاتا ہے کہ پھر اسے اچھا ملے یا بُرا۔۔۔وہ اسے برداشت کرلیتی ہے۔۔۔ہاں برے ملنے پر دل میں ایک امید یہ ضرور ہوتی ہے کہ روز محشر بھی ایک عدالت کھلے گی جہاں سزا و جزا کا فیصلہ ہوگا۔۔۔۔اب اگر ہمارا اٹھایا گیا ایک قدم ماں باپ کے سر تاعمر جھکا سکتا ہے تو اس سے کہیں بہتر صبر اور برداشت ہے۔

    ReplyDelete
  16. محترمہ امن ایمان صاحبہ،
    آپ جیسی بچیوں سے روشن خیال سخت الرجک ہیں. ارے بھائی ...یہ جو اتنے سخت پاپڑ بیلے جا رہے ہیں اور جو اتنے سخت لوہے کے چنے چبائے جا رہے ہیں اور یہ جو خون کہ گھونٹ پیے جا رہے ہیں سب اسی لئے ہیں کہ آپ یہ روایتی اور دقیانوسی سوچ چھوڑ کر اپنے حقوق کہ لئے اٹھ کھڑی ہوں اپنے والدین، ہونے والے شوہر، سابقہ اور موجودہ شوہروں سے لڑیں. دنیا سے لڑیں. اور آپ ہیں کہ روتے روتے نکاح نامہ پر سائن کر دیتی ہیں ایسے کیسے بنے گی بات؟ اب ایسا نہیں چلے گا؟ فوری طور پر اپنے شوہر سے حق طلاق کا مطالبہ کیجیے اور زندگی کا اصل لطف آزادی سے اٹھائیے. یاد رکھیے آخرت کا کچھ پتا نہیں اسی لئے جو کچھ کرنا ہے یہیں کیجیے....سمجھیں ؟

    ReplyDelete
  17. ڈاکٹر جواد احمد خان صاحب، جی نہیں میں یہ بالکل نہیں مان رہی کہ میں دوغلی ہوں۔ میں نے صرف آپکے دوغلے پن کی نشاندہی کی ہے بات بے بات پہ دوسروں کو دوغلہ کہنے والے خوف کس قدر اخلاقی جراءت اور معمولی سمجھ کی کمی کا شکار ہیں۔
    ہر مسئلے کا حل، مار ڈالو ، کاٹ ڈالو، اڑا ڈالو، ختم کردو نکلتا ہے آُکے یہاں اور اسکے لئے دلیل پیش کی جاتی ہے کہ یہ سب حب رسول میں ہے۔ جب یہی سب کرنا ہے تو پھر ایک کام کریں کہ اسلا کو امن اور آشتی کا مذہب نہ کہا کریں اور نہ رسول اللہ کی ذات سے یہ بات منسوب کیا کریں کہ میں تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ ان تمام جہانوں میں پنجاب کا علاقہ تو کم ازکم نہیں آتا۔ اور شاید اس میں پاکستانی بھی شامل نہیں ہیں۔
    امن ایمان، اگر روز حشر پہ ہی فیصلہ ہونا تھآ تو قرآن میں مختلف قوانین کو اتنی صراحت سے بیان نہ کیا جاتا۔ اگرشادی ہر قسم کے سمجھوتے کا نام ہوتا تو اسلام طلاق کا تصور نہ رکھتا اور نہ خلع کا۔ ہندوءوں کی طرح ایک بار جس سے شادی ہو گئ بس اس سے ہو گئ اور گل مک جاتی مگر جانب ایسا نہیں ہے۔ اسلامی تصور شادی کا ایک معاہدے کا ہے۔ اس لئے اس میں گواہوں کی اہمیت پہ زور دیا جاتا ہے قاضی صاحب کے خطبے پہ نہیں جیسا کہ ہمارے ایک ننھے بھائ نے کہا۔ سورہ آل عمران کی چار آیت اور ایک قاضی اگر نہیں بھی ہیں تو چار گواہ ہونا ضروری ہیں اور جو کچھ بھی لین دین ہوتا ہے اسے لکھ لینا چاہئیے۔
    ہمارا عدالتی نظام ایسا ہے کہ اگر کوئ خاتون خلع لینا چاہے تو اس مِن عرصہ لگ جاتا ہے۔ جبکہ مرد اگر طلاق دینا چاہے تو اسی ایک منٹ بھی نہیں لگتا۔ مرد اگر لا پتہ کر لے اپنے آُکو تو ایک خاتون انتظار کرتی رہ جائے کہ کب شوہر صاحب حاضری دیں اور اسکی خلاصی ہو۔
    دوسری طرف ماعشرے میں ایسے مجرمانہ ذہن کے لوگ بھی ہوتے ہیں جو شادی کے بعد جہیز کا سامان لے کر غائب ہو جاتے ہیں۔ اب ایک مسلمان مرد کی حیثت سے وہ تو جہاں چاہیں غائیب ہو کر دوسری تیسرے چوتھی شادی کر لیں مگر وہ عورت کیا کرے جو قانونی طور پہ اسکی بیوی ہے۔ کیونکہ نہ اسکی طلاق ہوگی اور نہ وہ دوسری جگہ شادی کر سکتی ہے۔
    جہاں برادی نظام ہوتا ہے وہاں تو اس قسم کے پیچیدہ مسائل کو برادری کے دباءو پہ حل کرنا ممکن ہوتا ہے مگر جہاں نہیں ہے وہاں خاصے سنگین مسائل کھڑے ہو جاتے ہیں۔
    دلوں کا حال اللہ جانتا ہے ، انسان کو اپنا اونٹ باندھ کر توکل کرنا چاہئیے۔

    ReplyDelete
  18. میرا تبصرہ کہاں گیا جو میں نے امن ایمان صاحبہ کی پوسٹ کے جواب میں کیا تھا؟

    ReplyDelete
  19. محترم جواد احمد خان، جب میں کہتی ہوں کہ انسان کو کہنے سے قبل کچھ سوچ لینا چاہئیے تو آپ برا مانتے ہیں۔ یہاں دو نقاط ہیں جو آپ ہمشیرہ امن ایمان کو مشورہ دیتے وقت اپنے ذہن میں نہیں رکھ پائے۔ اول یہ کہ انہی اصولوں کو اختیار کرنے کے باوجود روشن خیال اپنے گھر کی جڑوں کو کامیابی سے برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ اپنی ہی مثال دیتی ہوں۔ جس صاحب کے ساتھ گھر کی اکائ تشکیل دی انہی کے ساتھ باہمی ہم آہنگی سے رہ رہی ہوں۔ لیکن جب انہی اصولوں کو دوسروں کے آگے پیش کرتء ہوں تو آپ اسکا مطلب یہ نکالتے ہیں کہ سب طلاق لے کر آزادی کی زندگی گذاریں۔
    اب آتے ہیں دوسرے نکتے کی طرف، قرآن نے شادی، طلاق اور خلع کے لئے بنیادی قوانین وضع کئیے ہیں۔ آپکے امن ایمان کو دئیے گئے مشورے کی رو سے تو نعوذ باللہ خود قرآن یہ چاہ رہا ہے کہ لوگ طلاق دیں اور آزادی کی زندگی گذاریں۔
    کیا آپکے مشورے سے میں نے غلط نتیجہ اخذ کیا ہے۔
    آپکا عظیم تبصرہ، جس سے مجھے ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھآ اپنی جگہ حفاظت سے ہے۔ امید ہے آپکی تسلی ہو گئ ہوگی۔ تھوڑا انتظار کرنے سے آپکو یہ بد گمانی کرنے کی نوبت نہیں آتی۔

    ReplyDelete
  20. پنجابی سٹیج ڈراموں کے مشہور مزاحیہ اداکار عابد کشمیری کا ایک جملہ بڑا مشہور ہوا تھا۔ جب کبھی وہ ساتھی کرداروں کی عجیب و غریب باتیں سنتے یا حرکتیں دیکھتے تو جھنجلاہٹ اور بیزاری کے عالم میں ہاتھ پھیلائے بے اختیار یہ جملہ بار بار کہتے : " او کون لوک او تسی اوئے؟ " مطلب "آخر کیا لوگ ہو تم؟"
    ان مذہب پرستوں کے یہ عجیب و غریب بچگانہ تبصرے پڑھ پڑھ کر میں بھی کہنے پر مجبور ہوں : او کون لوک او تسی اوئے۔
    (:

    ReplyDelete
  21. محترمہ انیقہ ناز صاحبہ،
    آپ نے مجھے غلط سمجھا ہے. میں طلاق کی نہیں حق طلاق کی بات کر رہا ہوں. سوچیے ذرا بچی تعلیم یافتہ ہو برسر روزگار ہو اور حق طلاق رکھتی ہو تو بتائیے کتنا توازن آجاتا ہے رشتہ ازدواج میں؟ ہے نا ؟ زن و شو ایک گاڑی کے دو پہیے کہے جاتے ہیں لیکن تاریک خیال لوگ بڑی ہوشیاری سے دوسرے پہیے (صنف نازک ) کو گاڑی میں پیچھے لگا دیتے ہیں. لیکن اب اس پوسٹ کے بعد ایسا نہیں ہو گا اب بچی حق طلاق کا مطالبہ کرے گی. کتنا انصاف ہو جائے گا معاشرے میں؟ جہاں میاں پٹری سے اترے وہیں جھٹ سے نکاح نامہ کی شق یاد دلادی.
    آپ برائے مہربانی بحث کو ذاتیات تک نا لے جایا کریں. لوگوں کو پہلے ہی اس معاملے میں آپ سے بہت شکایت ہیں. میں آپکو یقین دلاتا ہوں کہ بحث آپکی تحریر کو صحیح ماننے سے پیدا ہونے والے نتائج کے حوالے سے ہوتی ہے.
    عثمان صاحب مدظللہ عالی!
    صرف عابد کاشمیری ہی نہیں بلکہ دنیا میں سب لوگ یہی کہتے ہیں. امریکیوں کا تو یہ تکیہ کلام بنتا جا رہا ہے. میرے منہہ سے بھی شروع میں یہی جملہ نکلتا تھا جب روشن خیالوں کے خیالات سے آگاہی صدمے اور سکتے کی حالت میں حاصل کرتا تھا. اب تو عادت سی ہو چلی ہے. بقول شاعر پہلے ہر بات پر ہنسی آتی تھی اب کسی بات پر نہیں آتی بلکہ منہہ سے یہی جملہ نکلتا ہے.
    " اووھاوو !!! ایک اور آگیا"

    ReplyDelete
  22. جی ہاں سوچنے کی تو بات ہے۔ جب مرد کو ایک منٹ میں تین دفعہ طلاق کہہ کر بیوی سے چھٹکارا پانے کا حق ہو۔ جب مرد کو ایک نہیں چار چار بیویاں ایک وقت میں رکھنے کا حق ہو جب مرد کو یہ حق ہو کہ وہ بیوی کی جانب سے یہ مطالبہ کرنے پہ میں آپکے ساتھ نہیں رہنا چاہتی اس سے مال طلب کرنے کا حق ہو تو تعلقات خاصے مضبوط رہتے ہیں۔ اگر شوہر اپنی بیوی کو چھوڑ کر بغیر طلاق دئیے ایک عرصے کے لئے غائیب ہو جائے تو بھی تعلقات نہ صرف بالکل مضبوط رہتے ہیں بلکہ معاشرے میں کوئ بگاڑ نہیں پیدا ہوتا۔ لیکن ایک حق طلاق اگر عورت کو تو دے دیا جائے تو معاشرے پہ اسکے سنگین اثرات ہوتے ہیں۔
    شاید یہی وجہ ہے کہ جب والدین کی مرضی اور مرد کی پسند سے شادی ہو تو معاشرہ مستحکم رہتا ہے اور جب شادی میں لڑکیوں کی بھی پسند کی بات کی جائے تو معاشرہ غیر مستحکم ہو جاتا ہے۔ شریف خاندانوں کے لڑکے اگر اپنی طھت سے پڑوس کے گھر میں پتھر میں باندھ کر رقعہ پھینکیں تو معاشرہ مستحکم اور اگر شریف خاندان کی لڑکی اس رقعے کا جواب لکھ ڈالے تو معاشرہ غیر مستحکم۔ چار مرد بیٹھ کر کترینہ اور کرینہ کے لئے آہیں بھریں تو معاشرہ مستحکم اور اگر لڑکیاں ٹآم کروز پہ مرنے لگیں تو معاشرہ غیر مستحکم۔اسی وجہ سے مرد اگر کسی کو پروپوز کرے تو معاشرہ مستحکم رہتا ہے مگر اگر کوئ خاتون ایسی جراءت کر لے تو معاشرہ غیر مستحکم رہتا ہے۔ ادھر آپکے محبوب ملک میں مرد اگر ڈرائیونگ کرے تو معاشرہ مستحکم رہتا ہے اور اگر خواتین ڈرائیونگ کریں تو معاشرہ غیر مستحکم۔ معاشرے کی استحکام کی اور لا تعداد مثالیں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں جنکی وجہ سے ہمارے یہاں عدل و انصاف کا دوردورہ ہے اور جن کی وجہ سے ہم ایک مستحکم معاشرے کے طور پہ دنیا بھر میں پہچانے جاتے ہیں۔
    یہ تو آپ نے بہت مستحکم بات کی۔ کیا بات ہے جناب کی۔

    ReplyDelete
  23. جی ہاں میں تو شروع سے یہی کہ رہا مگر آپ لوگ اب سمجھے. میں تو شروع دن سے ہی برابری مرد و زن کا قائل ہوں اور اس معاملے میں مغربی ماشرے کا مداح ہوں. اب آپ دیکھیے نا کہ مغربی معاشرہ ترقی ہی اسی لئے کر گیا ہے کہ اس نے ہر کسی کو برابر کر دیا ہے جس کی وجہ سے انکے یہاں ہر شعبے میں کس قدر استحکام ہے... یار لوگ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ وہاں تو خاندانی اکائی بکھر کر رہ گئی ہے معاشرے میں کیا خاک استحکام ہوگا ؟ میں انسے یہی کہتا ہوں کہ تم لوگ تاریک خیال ہو اور تاریک خیال ہی رہو گے . ارے بھائی یہ دیکھو کہ یہاں ہر چیز برابر ہے ہر کسی کو یکساں مواقع میسر ہیں ...ہر کوئی زندگی انجوائے کر رہا ہے. مگر یار لوگوں کی سمجھ میں ہی نہیں آتا. کہتے ہیں کے ہر چیز ایک جیسی نہیں ہوتی. مخالف صنف میں کیا ایک ہی صنف میں لوگ برابر نہیں ہوتے . انسانی معاشرہ مشین کے پرزوں کی طرح چھوٹا بڑا اور مختلف ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ ...... بھئی حد ہوتی تاریک خیالی کی ... نا خود آزاد ہیں نا دوسروں کے لیے آزادی پسند ہے .... بلڈی اکسٹریمسٹ
    میں نے صحیح کہا نا ؟؟؟

    ReplyDelete
  24. دعا ہے کہ خدا ہمیں کردار اور عمل کی مضبوطی دے

    Aap ney apni post men allah sey dua mangi hey. "kia allah sey dua ki jaye tau woh qabool kerta hey?" aur hamarey rukey huey, bigdey huey kam bana deta hey, ager men ghalat samjh raha hoon, tau phir please tafseel sey samjhayeey keh kis noyeeat ki dua qabool ho sakti hey, aur konsi nahi, thanks

    ReplyDelete
  25. @mam Aneeqa
    Thanks to Allah I have I had been debating with Christians for a long time and had occasional discussions with Atheists and Hadith Rejectors too.
    I personally think that Atheists and Hadith rejectors are difficult opponents. NOT because they have more knowledge but because with replying them we do NOT have any target to select for COUNTER QUESTIONS (In case of Christians we have Holy ? Bible). Because there are TWO way to answer a question.
    One is by answering it directly and second is by asking a counter question. You always use the second method to answer a question. Rather than reply the points raised by opponent you say hehehehehe and start asking counter questions. But I have seen only one thing that counter questions can NEVER convince anyone. You can just satisfy yourself & your supporters and make the opponent silent.
    Direct answers need a lot of knowledge and experience in debating that a common man does NOT have and only a Mufti can do that. Because we people (like me and Dr. Jawad etc) have do a lot to earn bread and butter also so we can not indulge in such things. What I see here on different blogs is that people like you only reply to post in which people post counter questions. If they really dig into a topic and do a lot of research you NEVER even read it.
    The main reason for this is that you do blogging to pass time otherwise if you were really interested in topic then you must do a little research in the material provided by the opponent. For example you NEVER visit the links provided by the opponent but post link for them very happily. I remember in one of the comments when someone posted links in his comment, then rather than reading them you said [hahahaha, Mr. X is posting links from here and there.] Of course if you have read them then you must have responded to them in different manner..

    ReplyDelete
  26. محترم جناب ڈاکٹر جواد احمد خان صاحب۔۔
    خاکسار عثمان اپنے نام کے ساتھ کوئی سابقہ یا لاحقہ لگانا پسند نہیں کرتا۔ گذارش ہے کہ فدوی کو عثمان ہی لکھا پڑھا اور پکارا جائے۔ شکریہ

    ممنون
    عثمان

    ReplyDelete
  27. علی بابا، آپ اپنے سوال کے جواب کے لئے 'چالیس چوروں' سے رابطہ کریں وہی اس پہ تفصیل سے روشنی ڈال سکتے ہیں۔ اور یہ ہمارے عالم مثلاً ڈاکٹر جواد احمد خان، کاشف نصیر، وقار اعظم اور افتخار اجمل صاحب اس بارے میں آپکو نہایت تفصیل سے بتا سکیں گے کہ دعا کون سی قبول ہوتی ہے اور کیسے ہوتی ہے۔ ہمارا تو جب دل چاہتا ہے مانگ لیتے ہیں۔ اور جو دل چاہتا ہے مانگ لیتے ہیں۔ دل نہیں چاہتا تو اہم چیز بھی نہیں مانگتے اور دل چاہتا ہے تو بالکل بے کار چیز بھی مانگ لیتے ہیں۔ نہیں ملتی تو شکوہ نہیں کرتے کسی اور کام میں مصروف ہو جاتے ہیں۔
    ڈاکٹر جواد احمد خآن، سب سے پہلے تو یہ عرض کر دوں کہ چونکہ میں اپنی تحریروں میں زیادہ تر اپنے ذاتی مشاہدات لکھتی ہوں تو اس بات کا واویلہ ایک دم بے کار ہے کہ آپ اپنی ذات درمیان میں نہ لائیں۔ میں کسی اخبار کا کالم نہیں لکھتی، کہ آفاقی قسم کا مضمون لکھوں۔ مثلاً یہ تحریر ابھی ایک ہفتے پہلے کا واقعہ ہے۔ آپ نے کہا میری یہ مراد ہے میری وہ مراد ہے۔ میں جن چیزوں سے فائدہ اٹھاتی ہوں اور آسانی پاتی ہوں وہی بتاءووں گی، کسی ڈائجسٹ کی تصوراتی کہانی تو بتانے میں دلچسپہ نہیں رکھتی۔ جسے نہیں پسند وہ کسی اور بلاگ سے مستفید ہو۔ لکھنے والوں کی کمی نہیں، لوگ تو اس بات کا شکوہ کر رہے ہیں کہ انکے بلاگ پہ مبصرین نہیں آتے۔ جبکہ ہم اتنی مفید چیزیں دے رہے ہیں۔ مجھے خود سخت حیرت ہے کہ لوگ اس بلاگ پہ ڈیرے ڈال کر کیوں بیٹھ جاتے ہیں۔ جبکہ انہیں اس پہ شدید اعتراضات بھی رہتے ہیں۔
    اور یہ تو ہمیں معلوم تھا کہ اپنے معاشرے کے مستحکم ہونے کی اصل وجوہات جان کر آپ فوراً مغربی معاشرے کے دامن میں پناہ لیں گے۔ وہ بے چارہ معاشرہ آپکی کمزوریوں کو اتنا چھپاتا ہے اور آپکو پناہ بھی دیتا ہے پھر آپ اتنی احسان فراموشی کیوں کرتے ہیں؟

    ReplyDelete
  28. محترمہ عنیقہ ناز صاحبہ،
    برائے مہربانی مجھ پر عالم ہونے کا الزام تو نا لگائیں. آپکو حیرت ہے کہ لوگ آپکے بلاگ پر ڈیرے ڈال کر کیوں بیٹھ جاتے ہیں جبکہ انھیں آپ سے شدید قسم کے اختلافات ہوتے ہیں...اس میں حیرانی کی کوئی بات نہیں یہ انسانی نفسیات ہے کہ جس چیز کو وہ غلط سمجھتا ہے اسکو روکنے کی کوشش کرتا ہے. خاص طور پر مذہبی نوعیت کے معاملات میں. آج آپ روز مرّہ کے "مشاہدات" سے اپنے نظریات کو الگ کردیں کل سے ہی یہ بھیڑ چھٹ جائے گی...میں ضمانت دیتا ہوں اس بات کی ....
    جب آپ کو پتا تھا تو آپ نے استحکام کی گردان کیوں شروع کردی تھی؟ :) اسے کہتے ہیں زووور کا جھٹکا دھییرے سے لگے.
    عثمان صاحب،
    مجھے علم ہے کہ آپ جیسے اپ تو ڈیٹ بندے کے لئے اس قسم کے القاب ہضم کرنا نہایت مشکل کام ہے....چلیں آپ بھی کیا یاد کریں گے آپکو لقب کے ساتھ ساتھ ہاضمے کی گولی بھی دے دیتا ہوں.
    قبلہ عثمان صاحب مدظللہ عالی.....دماغ خالی

    ReplyDelete
  29. وکی لیکس میں افشاء ہونے والی امریکی سفارتی دستاویزات میں سعودی عرب میں امریکی قونصل جنرل مارٹن آر کوین کی وہ خط و کتابت بھی شامل ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ ایک طرف تو جدہ کی سڑکوں پر کٹر وہابیت نظر آتی ہے لیکن پس پردہ امراء کے نوجوانوں کی زیر زمین شاہانہ زندگی بھی تیزی سے پھل پھول رہی ہے۔

    قونصل جنرل مارٹن آر کوین کے مطابق جدہ میں ایک زیر زمین ہیلووین پارٹی میں جو ایک شہزادے کی رہائش گاہ پر ہوئی ڈیڑھ سو کے لگ بھگ نوجوان سعودی عورتیں اور مرد موجود تھے۔ اس ہیلووین پارٹی میں امریکی قونصل خانے کے اہلکاروں نے بھی شرکت کی۔

    رہائش گاہ کے اندر داخل ہونے سے پہلے شہزادے کے سکیورٹی گارڈز کی چیک پوسٹ سے گزرنے کے بعد جو منظر سامنے آیا وہ سعودی عرب سے باہر کسی بھی نائٹ کلب جیسا تھا۔ نوجوان جوڑے ناچ رہے تھے، میوزک چلانے والا ڈی جے اور ہر کوئی مخصوص لباس میں تھا۔اس پارٹی کے لیے رقم کا انتظام مشروبات بنانے والی ایک امریکی کمپنی اور خود میزبان شہزادے نے کیا تھا۔

    امر بالمعروف نہی عن المنکر نامی مذہبی پولیس کہیں دور دور تک نظر نہیں آ رہی تھی جب کہ اس پارٹی میں داخلہ سختی سے نافذ العمل مہمانوں کی لسٹ کے لحاظ سے تھا۔
    ایک نوجوان سعودی تاجر کے مطابق اس طرح کی تقریبات ہمیشہ شہزادوں کے گھروں میں یا ان کی موجودگی میں ہوتی ہیں جس کی وجہ سےمذہبی پولیس کو مداخلت کا موقع نہیں ملتا۔

    سعودی سلطنت میں اس وقت دس ہزار سے زائد شہزادے ہیں۔

    سعودی قانون اور روایات کے مطابق شراب پر سختی سے پابندی ہے لیکن اس تقریب میں شراب وافر مقدار میں موجود تھی جسے تقریب کے لیے بنائے گئے بار سے مہمانوں کو دیا جا رہا تھا۔

    امریکی قونصل جنرل لکھتے ہیں کہ اگرچہ اس تقریب میں اس بات کا براہ راست مشاہدہ نہیں کیا گیا لیکن کوکین اور حشیش کا استعمال ان سماجی تقریبات میں عام ہے اور دوسرے موقعوں پر دیکھا گیا ہے۔

    ReplyDelete
  30. خاں صاب۔۔
    زچ ہونے کے جس مرحلے پر آپ پہنچ چکے ہیں اس سے آگے اب بس ایک ٹانگ پر اچھلنا ہی رہ گیا ہے۔ آپ پچھلے چند ماہ میں چوتھے ایسے مذہب پرست ہیں جو اس بلاگ کی بدولت اس حالت کو پہنچے ہیں۔ تاہم آپ اور سابقہ مریضوں میں فرق یہ ہے کہ مریض ہی معالج ہے۔ اور سنا ہے کہ علاج بھی کوئی ایسا مشکل نہیں۔ بس پینا ہی پڑتا ہے۔ آپ تو ویسے بھی مڈل ایسٹ میں ہیں۔ وہاں تو باآسانی مل جاتا ہے۔ تسی سمجھ تے گئے او۔
    (: (:

    ReplyDelete
  31. داکٹر جواد احمد خان، لگتا ہے آپ نے بھی ایم بی بی ایس کیا ہوا ہے۔
    کسے لگا زور کا جھٹکا۔ آپکو وکی لیکس کے اس انکشاف سے زور کا جھٹکا لگا کہ آپکے محبوب ملک سعودی عرب میں جہاں کواتین قابل رشک زندگی گذارت ہیں کس قدر منافقت پائ جاتی ہے۔
    آپکو میرے ذاتی نریات کا تو کیا پتہ ہوگا۔ آپکو جو چیز بہت بری لگتی ہے وہ میرے ذاتی مشاہدات کا اور آپکے ذاتی نظریات کا جوڑ ہے۔ آکیونکہ وکی لیکس کے اس انکشاف کے بعد آپکو یہ تو تسلیم کرنا چاہئیے کہ آپکا مشاہدہ تقریبا نہ ہونے کے برابر ہے۔ آپکے پاس صرف نظریات ہیں جنکی بناء پہ آُ خدا جانے کس کو کس چیز سے روکنا چاہتے ہیں۔ آپکے مستحکم معاشرے میں دس گز کپڑے میں لپٹی ہوئ عورت چھ بچوں کے ساتھ جب منی بس میں سفر کرتی ہے تو اسے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ اسے اترنا کہاں ہے۔ جب انکے مجازی خدا دروازے سے ایک دھاڑ مارتے ہیں تو وہ دوسری عورتوں کو رگڑتے دھکا دیتے بچوں کو گھسیٹتے بس سے اترتی ہے اور سر جھکا کر اسکے پیچھے چل دیتی ہے۔ تو اس چیز میں آپکو معاشرے کا استحکام نظر آتا ہے اور اگر وہی عورت اپنے گھر پہنچنے کا رستہ جان لے تو معاشرہ غیر مستحکم۔ یہی عورت جب نکاح نامے پہ روتے دھوتے دستخط کرتی ہے تو آُکی مثالی دینی عورت سے قریب ہوتی ہے مگر یہی عورت جب حضرت خدیجہ کی طرح کسی مرد کو پروپوز کر ڈالے تو معاشرہ غیر مستحکم ہوجاتا ہے۔ یہی عورت جب کسی ظلام کے ہاتھوں زنا بالجبر کا شکار ہو مگر آپکی مثالی تصوراتی عورت کی طرح خاموش ہو جائے یا کنوئیں میں کود کر اپنے آپکو ختم کر لے تو معاشرہ مستحکم یا پھر آپکی طرح کے مثالی ہیرو اسکی عصمت بچانے کے لئے پردے پہ ظاہر ہو کر ڈائیلاگ دوہرائیں اوئے بے غیرتاں تو معاشرہ مستحکم اور یہی عورت جب اپنا مقدمہ خود لڑنے کی ہمت پیدا کر لے تو معاشرہ غیر مستحکم۔ اسی عورت کا شوہر اگر خود کش حملہ آور کے بم دھماکے میں مارا جائے تو معاشرے کو مستحکم رکھنے کے لئے اسکی دوسری شادی کسی سے بھی ضروری مگر یہی عورت جب اپنے باپ کو سوتیلے باپ کے حوالے کرنے کے بجائے کود رزق روزی کمانے کا فیصلہ کر لے تو معاشرہ غیر مستحکم۔
    اور اسکے اس طرز عمل کے پیچھے مغربی معاشرے کی سازش معلوم کی جائے گی۔
    کچھ خوف ضدا آپکے دل میں واقعی ہے۔ در آصل آپ اپنے نظریات کے نہیں اپنی روایات اور ثقافت کے اسیر ہیں۔ اور آپ کسی نظرئیے کے لئے نہیں اپنی ثقافتی تبدیلی کو روکنے کے عمل سے لڑ رہے ہیں۔
    آپکو اس خواب مستی سے جگانے کے لئے یہ طرز عمل بے حد ضروری ہے جو میں اختیار کرتی ہوں۔ زور کا جھٹکا اورزور سے ہی۔
    کیونکہ مجھے اس منافقانہ معاشرے کی مچالوں سے کوئ دلچسپی نہیں جا آپ سعودی عرب سے ڈھونڈھ کر لاتے ہیں۔ اور پھر یہاں کے منافقوں کے بچاءو میں تندہی سے مصروف ہو جاتے ہیں۔

    ReplyDelete
  32. داکٹر جواد احمد خان، لگتا ہے آپ نے بھی ایم بی بی ایس کیا ہوا ہے۔"
    ________________________________________
    میرے ایم بی بی اس کہ بارے میں کیا شکوک ہیں آپکو؟ :)
    کیا میں نے کبھی آپ کی ڈاکٹریٹ پر شکوک کا اظہار کیا ہے ؟ حالانکہ (الله معاف فرمائے) افواہیں کافی اڑ رہی ہیں ؟
    یہ وکی لیکس کہاں سے آگیا آپ کا معاملہ بھی دنیا جہاں سے نرالا ہے . بات کھیت کی کرو تو جواب کھلیان کا آتا ہے. وکی لیکس نے سعودی خواتین کہ بارے میں کیا ارشاد فرمایا ہے ؟ جہاں تک مرے علم میں ہے سعودی شہزادوں کے علاوہ تو کوئی اور خبر نہیں ہے ؟ کہیں آپ ١٠ ہزار شہزادوں کو سعودیہ کی ساری آبادی تو نہیں سمجھ رہیں ؟
    پھر وہی استحکام؟؟؟؟

    جناب عثمان صاحب،
    آپکی شخصیت میں پتا نہیں کیا بات ہے کہ دل کھچتا ہے آپکی طرف . خواہ مخواہ چھیڑ خانی کرنے کو دل چاہتا ہے .
    لیکن خبردار جو پینے پلانے کی بات کی؟ گردن اتار دی جاتی ہے یہاں پر ...کینیڈا نہیں ہے یہ

    ReplyDelete
  33. محترمہ عنیقہ صاحبہ
    آپ نے اپنے مفروضہ نورالدین زنگی کے گھوڑے کے واقعے کے حوالے سے زبیری صاحب کو جھٹلاتے ہوئے فرمایا ہےـــ’’ کیوں بھئ نور الدین زنگی والے واقعے میں ایسی کون سی تاریخی غلطیاں ہیں جو آپکو یہ کہنے کی ضرورت پیش آئ۔‘‘
    میں نے پہلے بھی آپ سے عرض کیا ہے کہ ہسٹری اور کیمسٹری میں بڑا فرق ہے اور ہسٹری میں ہر بات کا تاریخی ثبوت یا دستاویزی حوالہ بہت اہمیت رکھتا ہے۔ جس طرح کیمسٹری میں اپنے نظریےکے حق میں تجربےاور مشاہدے کی روشنی میں ثبوت پیش کیے بغیر بات نہیں بنتی اسی طرح ہسٹری میں تاریخی ثبوت اور دستاویزی حوالے کےبغیر آپ کا دعویٰ کوئی وقعت نہیں رکھتا۔
    مجھے اس واقعے کے اطلاق اور اپنے نظریات کی حمایت یا دوسروں کی مخالفت میں استعمال پر کوئی اعتراض نہیں ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ واقعہ نورالدین زنگی کے گھوڑے کا نہیں بلکہ زمان و مکان کے ایک اچھے خاصے بُعد پرموجود ایک دوسری مشہور شخصیت کے سمند کاہے۔جس کا ذکر غالبا علامہ اقبال نے بھی اپنے کلام میں ایک جگہ کیا ہے۔ (مجھے یقین ہے کہ اُن کا علمِ کیمسٹری آپ کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر مگر علمِ تاریخ کا مطالعہ اور شعور آپ سمیت بے شمار نام نہاد روشن خیالوں سے بہت آگے تھا)
    باقی میں مولانا مودودی پر آپ کے کافر گری کے اتہام پر مزید کچھ نہیں کہوں گا۔ آپ اس سلسلے میں کوئی مستند ثبوت پیش کرنے سے قاصر رہی ہیں۔ جہان تک اُن کی کتاب ’’موجودہ سیاسی کشمکش اور مسلمان ‘‘ کا تعلق ہے تو آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ اس کتاب کی تین جلدیں ہیں اور پہلی دو جلدوں کے دلائل کو مسلم لیگ نےکانگرس کے خلاف اپنے مقدمے میں مسلم عوام کو قائل کرنے کے لیے کافی استعمال کیا تھا۔ ہاں اس کی تیسری جلد (جس کے پہلے ایڈیشن کی فوٹو کاپی میں اپنے ایک استاد محترم سے لے کر دیکھ چکا ہوں) میں مسلم لیگ کی پاکستان سکیم کے خلاف دلائل موجود ہیں اور سے کانگرس نے مسلم لیگ کے خلاف استعمال کیا تھا۔اس سب کے باوجود اس میں قائد اعطم کی تکفیر کے حوالے سے کچھ بھی نہیں۔ اس کتاب کی تحریر سے قبل اور بعد بھی مولانا نےکبھی ایسی بے ہودہ ترین اور زہریلی بات کبھی نہیں کہی۔ یقینا آپ کو تاریخ کے حوالے سے کوئی بات لکھنے سے پہلے کافی پڑھنے اور تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔ امید ہے کہ آپ آئندہ اس کا اہتمام کرکے اپنے ہی الفاظ میں اپنی تاریخی ’’سمجھ دانی‘‘کو بڑھانے کی کوشش کریں گی۔ حیرت ہے کہ آپ ترقی پسندی کی اصطلاح کے عام مروجہ اور جانے مانے مفہوم و معانی سے بھی واقف نہیں۔ بہتر ہوتا اگر آپ اس پر کچھ کہنے سے قبل کوئی علمی تصنیف نہ سہی کراچی ہی کی نامور مصنفہ اور صحافی خاتون محترمہ زاہدہ حنا کے کچھ کالموں ہی کا مطالعہ کر لیتیں۔
    ارے ہاں لگے ہاتھوں نورالدین زنگی والے مفروضہ واقعے کا کوئی تاریخ دستاویزی حوالہ تو دے دیجیے۔

    ReplyDelete
  34. ڈاکٹر صاحب، خدا معاف کرے، مجھے شبہ نہیں یقین ہوا تھا۔ ایک ایم بی بی ایس نے تو کہہ دیا کہ میرے ایم بی بی ایس کی وجہ سے میری عزت کریں۔ آپ کی باتیں بھی بعینہ ویسی ہی ہیں۔ کیا آپ لوگوں نے ایک ہی ادارے سے یہ ڈگری لی ہے، یا آجکل پاکستان میں اسی قسم کے ڈاکٹر پیدا ہو رہے ہیں۔
    میری ڈگری کی خیر ہے جناب۔ میں صرف اسکی وجہ سے کسی سے عزت کی طلبگار نہیں۔ اس لئیےاپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر بھی نہیں لگاتی حالانکہ کسی ایم بی بی ایس سے زیادہ واضح حق مجھے اس بات کا ہے کہ اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر لگاءوں۔ اس لئے اسکی پرواہ نہیں کہ کسی کو شبہ ہے یا یقین۔ شکوک کی کیا بات ہے۔ یہاں تو کچھ کو یہ شبہ بھی ہے کہ میں مرد ہوں یا خاتون۔
    میرا زاتی خیال ہے کہ اب آپ آرام کریں اور کچھ دنوں کے لئے اس بلاگ کا بائیکاٹ کر دیں۔ یہ کسی مثالی پاکستانی رواءیتی مسلمان خاتون کا بلاگ نہیں۔ چند دن بعد بھی آپکو یہاں اس سے ملتی جلتی چیزیں ہی ملیں گیں۔ تب حصہ لیجئیے گا۔ جن لوگوں کو مبصرین کی ضرورت ہے انکے شکوے بھی دور کر دیں۔ وہ تو ہونگے ہی میں بھی مشکور ہونگی۔

    ReplyDelete
  35. اور ہاں اردو گرامر کی رو سے جسکے نام کے ساتھ محترمہ یا محترم لگا دیا جائے اسکے ساتھ ایک ہی وقت میں صاحب یا صاحبہ لگانا غلط ہے۔ اس لئیے یا تو محترمہ عنیقہ لکھئیے یا عنیقہ صاحبہ۔

    ReplyDelete
  36. اووف، غلام علی مرتضی صاحب، میں نے عرض کیا کہ بات اسلام میں تقلید پسندی یا جدت پسندی یا اصلاح پسندی یا ترقی پسندی کی ہو رہی تھی۔ اور یہ ساری گفتگو اس سلسلے میں ہی ہوئ ۔ مجھے نہیں معلوم کہ آپ آپکے حواری اس میں کہاں سے کارل مارکس کو گھسیٹ لے آئَ۔ کرال مارکس کا تعلق کمیونیزم ہو یا ترقی پسند ادب سے لین ہم یہاں سیاست یا ادب کے کسی پہلو پہ بات نہیں کر رہے تھے۔ اس لئے یہ بات یقیناً اسکے متعلق نہیں تھی۔ اسکا ثبوت اس بات سے بھی ملتا ہے کہ میں نے کسی ایک جگہ بھی کارل مارکس اور اسکے نظرئیے پہ بات نہیں کی۔ البتہ اگر آپکا موڈ ہے کہ بات کا بتنگڑ بنائے تو دل چاہے نتیجہ نکالتے رہیں۔
    اچھا دوسری بات نور الدین زنگی والے واقعے کی ہے یہ واقعہ سلطان صلاح الدین ایوبی سے بھی منسوب کیا جاتا ہے اور نور ادلین زنگی سے بھی۔ در حقیقت اس واقعے کی صنت کے بارے میں بھی کچھ کہنا مشکل ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ کسی مذہب پرست نے ایک افسانے کو حقیقت کا روپ دے دیا ہو۔ اسکی بنیادی اہمیت صرف اس وجہ سے ہے کہ ایک مسلمان بادشاہ نے اس بات کی جازت ہونے کے باوجود کہ شراب دوا کے طور پہ استعمال کرنا جائز ہے۔ محض اپنے عزیز گھوڑے کو استعمال کروانے پہ اسکے استعمال سے ہاتھ کھینچ لیا۔ یہ واقعہ ان دو میں سے کسی ایک کے ساتھ پیش آنے کے باوجود کوئ تاریخی اہمیت نہیں رکھتا۔ اسکے تاریخ پہ کوئ اثرات نہیں۔ در حقیقت آجکے زمانے میں بھی بہت سے اہل ایمان وہ کھانسی کے شربت نہیں استعمال کرتے جنکے فارمولے میں الکوحل لکھی ہوتی ہے۔ سو نور الدین زنگی کے ساتھ دوسرا جو واقعہ منسوب ہے وہ رسول اللہ کی قبر مبارک کی حفاظت سے متعلق ہے۔ جو نور الدین زنگی کی حایت پہ مبنی کسی بھی کتاب میں مل جائے گا۔ اگر آپکو اس پہ اصرار ہے تو معلوم کر کے بتا دیا جائے گا۔ فی الوقت ایسی کسی کتاب کا نام یاد نہیں آرہا ہے۔ لیکن اس بادشاہ کی مشہوری کی یہی بنیادی وجہ ہے۔
    میں نے یہ کب کہا کہ دراصل اس کتاب میں ہی یہ سب لکھا ہے۔ میں نے تو یہ عرض کیا تھآ کہ اس کتاب کی تحریف کی کیا ضرورت پیش آ گئ تھی۔ جب ایک کتاب کی تحریف کی جا سکتی ہے تو باقی باتوں میں کیوں نہیں کی جا سکتی۔ کیا آپ نے یہ بھی چیک کر لیا کہ مولانا صاحب ابتدا میں جہاد کشمیر کے خلاف فتوی ے چکے تھے۔ اور پھر بعد میں اپنی اس رائے سے رجوع کیا۔ جن لوگوں نے انکے اس بیان کو یادرکھا انہیں معلوم نہیں تھا کہ غلام علی مرتضی صاحب کو یہ بات مولانا صاحب کے حوالے سے اتنی ناگوار گذرے گی کہ وہ اسکے دستاویزی ثبوت کے لئے کھڑے ہو جائیںگے۔ تاریخ میں بہت ساری باتوں کے کوئ دستاویزی ثبوت نہیں لیکن ان میں سے بہت سی باتیں اپنے پس منظر مین سمجھ میں آتی ہیں کہ ایسے ہوئ ہونگیں۔ یہ ایک کتاب ہے مولانا مودودی کی تقاریر کی، اس میں جولائ انیس سو پچاس میں کی گئ ایک تقریر میں مولانا صاحب فرماتے ہیں کہ
    'جب فاسق کی تعریف کی جاتی ہے تو اللہ کو غصہ آتا ہے اور عرش کانپ اتھتا ہے'
    جو شخص کھلم کھلا خدا کے احکام کی خلاف ورزی کرے اللہ جس چیز کو حرام کہتا ہے وہ اسکو حلال کہے اور جو چیز حلال ہے اسے حرام قرار دے۔ ہمارا ایسے لوگوں کی تعریف کرنا، انکے جلوس نکالنا، انکے لئے زندہ باد کے نعرے لگانا یہ واضح کرتا ہے کہ گویا ہمیں خدا سے ضد ہو گئ ہے۔ اس پہ خدا کا غضب ھڑکنا ہی چاہئیے۔ ہم اپنی سوسائیٹی میں کھلے کھلے فاسقوں کی تعریف کرتے ہیں انہیں اپنا سردار بناتے ہیں ایسی قوم کبھی پنپ نہیں سکتی۔'
    انیس سو پچاس میں ابھی پاکستان کو بنے ابھی تین سال بہی نہ ہوئے تھے اور ملک کے وزیر اعظم لیاقت علی خان تھے۔ اس بیان کی روشنی میں کون لوگ فاسق ہوئے۔ لوگ کہتے ہیں انہوں نے کبھی کسی کو فاسق کافر نہیں کہا۔ اس تقریر میں وہ کس کو فاسق کہہ رہے ہیں۔

    اسی کتاب میں وہ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ
    'رہی پاکستان کی مخالفت تو جن لوگوں نے پچھلے دس سال میں جماعت اسلامی کے شائع کردہ لٹریچر کا مطالعہ کیا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ یہ جماعت اول روز سے مسلمانوں کو دعوت دے رہی تھی کہ تمہارا کام سارے ہندوستان کو پاکستان بنانا ہے اور تمہیں ہندو قوم پرستی کے مقابل میں بس ایک مسلم پرستی کا علم بلند کرنے کے بجائے اسلامی اخلاق کے اصول پر اسلامی اصولوں کا علم بلند کرنا چاہئیے۔ اس چیز کا نام اگر پاکستان کی مخالفت ہے تو کھلم کھلا اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہیں'۔
    مجھے انکے اس بیان میں کوئ قباحت نظر نہیں آتی۔ وہ جس چیز پہ قائم تھے انہیں یہی کہنا چاہئیے تھا۔ لیکن اب جب آپ جماعت اسلامی کے نکتے سے بات کریں تو وہ مطالبہ ء پاکستان کے ایک سرگرم کارکن قرار پاتے ہیں۔ تحریک پاکستان کے لئے انہوں نے بہت بعد میں کام شروع کیا۔ ورنہ اس سے پہلے انہیں مسلم لیگی قیادت اور اسکے ایجنڈے میں وہی خوبیاں نظر آتی تھیں جو میں انکی کتاب سے اوپر دے چکی ہوں۔

    ReplyDelete
  37. عنیقہ ناز صاحبہ،
    نہایت مشکور ہوں اس علمی رہنمائی کا جو اردو گرمر کے سلسلے میں آپ نے فرمائی ہے.
    باقی باتیں سن کر بہت ہنسی آئی. ہنسی اس لئے کہ آپ اپنے ڈاکٹریٹ لیول سے ذرا نیچے آگئی ہیں. اس سے پہلے کہ آپ مزید نیچے آئیں بہتری اسی میں ہے کہ خاموشی اختیار کر لی جائے.
    جناب غلام مرتضٰی علی صاحب نے آپ سے ایک سوال کیا ہے اسکا جواب دے دیجیے.
    ہم سب جواب کا انتظار کر رہے ہیں .......

    ReplyDelete
  38. محترمہ عنیقہ ناز صاحبہ
    سب سے پہلے اپنی ایک غلط فہمی دور کر لیجیے کہ میرا جماعت اسلامی سے کوئی تعلق ہے یا کبھی رہا ہے۔ اس کے لیے مجھے خود کچھ کہنے کی ضرورت نہیں آپ میرے تبصروں کو دوبارہ پڑھ لیں۔ جماعت اسلامی یا دوسری مذہبی جماعتوں کے طرفداری یا دفاع کے لیے یہاں پہلے ہی کافی اصحاب موجود ہیں ۔ آپ خود ہی اُن سے نپٹیں۔ گُڈ لک!!! لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر اپنی سو کالڈ روشن خیالی اور نام نہاد اسلام پسندی کی دو انتہاوں کے اسیر ہیں اور کہیں درمیان میں موجود حقیقت کو تلاش کرنا اپنی شانِ بے نیازی کے سخت خلاف سمجھتے ہیں۔
    میں تاریخ کا ایک انتہائی مبتدی سا طالب علم ہوں۔ علمیت اور ’’سمجھ دانی‘‘ کا مجھے کوئی دعویٰ نہیں۔ بحث مباحثہ میں شرکت بحث برائے بحث کی بجائے کچھ سیکھنے کے لیے کرتا ہوں۔ با ت کا بتنگڑ بنانے کا قائل نہیں۔ہاں اگر میری سمجھ کے مطابق کوئی مجھے یا دوسروں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرے تو مقدور بھر اپنی رائے کا اظہار کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
    یہاں بلاگی دنیا میں جب آپ کوئی بات کرتے ہیں تو وہ محض آپ کی ذاتی رائے نہیں رہ جاتی بلکہ اس کو جانچنے ،آنکنے اور پرکھ کر اس پر اپنا تبصرہ ریکارڈ کرانے کا ہر قاری کو حق حاصل ہو جاتا ہے۔ اب یہ بلاگ والے کے ظرف پر ہے کہ وہ اسے لگائے یا نہ لگائے۔ آپ کے بعض خیالات اورنسبتا تحقیر آمیز اندازِ تخاطب سے فکری اور نظریاتی اختلاف کے باوجود مجھے یہ اقرار کرنا ہے کہ آپ پھر بھی سامنے والے کی بات سنتی اور اسے اپنی ڈائری میں جگہ دیتی ہیں۔ یہ ایک خوش آئند بات ہے اور اگر یہ ہر جگہ سلسلہ چلتا رہا تو امید ہے کہ ہم اپنے تمام نہیں تو بہت سے مغالطوں اور تعصبات سے ضرور نجات پا لیں گے۔
    مولانا مودودی کے بارے میں میں خود بیان کرچکا ہوں کی انھوں نے پاکستان کی سکیم کی مخالفت کی تھی ۔ ظاہر کہ کوئی جماعتیا اپنے پیر و مرشد کے حوالے سے ایسا نہیں کرسکتا۔ جہادِ کشمیر پر موصوف کے فتویٰ یا مسلم لیگی قیادت کے بارے میں خیالات مجھےبہت ابتدا ہی سے معلوم ہے۔
    ہر انسان اپنی زندگی کے مختلف ادوار میں مختلف ذہنی ارتقائی منازل سے گزرتا ہے۔ پاکستان کا مطالبہ کرنے پر قائد اعظم کو بھی یاد دلایا گیا تھا کہ وہ کبھی متحدہ ہندوستان کی آزادی کے قائل تھے تو انھوں نے مخاطب کو جوابا فرمایا کہ ہاں میں کبھی پرائمری سکول کا طالب علم بھی رہ چکا ہوں۔ اسی طرح علامہ اقبال کو جب اُنکا ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ والا دور یاددلا کر دو قومی نظریے سے برگشتہ کرنا چاہا تو اُنھوں نے فرمایاکہ میں ایک انسان ہوں پتھر نہیں۔ مودودی صاحب بھی یقینا ذہنی ارتقاکی مختلف منازل سے گزرے ہوں گے۔
    باقی رہی شہید ملت لیاقت علی خان اور دوسروں کو فاسق قرار دینے کی تو اس کا جواب تو موصوف خود ہی بارگاہِ خداوندی میں دیں گے۔ میں تو یہ جانتا ہوں کہ قرآن کی رُو سے اگر کوئی فاسق آپ کے پاس کوئی خبر لائے تو اُسکی اچھی طرح تحقیق کر لینی چاہیے ، ایسا نہ ہو کہ ہم کسی پر چڑھ دوڑیں اور بعد میں ہمیں پچھتانا پڑے۔ کافرِ اعظم والی بات کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔
    اب بہت ہو چکا ۔ ۔۔ مناسب ہے کہ میں آپ کی اطلاع کے لیے مودودی صاحب سے ناحق منسوب کیے گئے اس سُنے سنائے فاسقانہ قول کی حقیقت بیان کر دوں۔ دراصل یہ قول مولانا مظہر علی اظہر صاحب کا ہے جو اُس زمانے کی ایک جماعت مجلسِ احرار ِ اسلام سے وابستہ اکیلے شیعہ رہنما تھے۔ دیگر میں سید عطأ اللہ شاہ بخاری، شورش کاشمیری، چودھری افضل حق، مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی وغیرہ شامل تھے۔ موصوف کی لوٹا ازم پالیسی کی وجہ سے عام لوگ اُنھیں ’’’مولانا اِدھر علی اُدھر‘‘‘ بھی کہتے تھے۔خیر واقعہ یہ ہے قائدِ اعظم نے محترمہ رتی ڈنشا کے قبول اسلام کے بعد باقاعدہ اس کی خبر چھپواکر اُن سے نکاح کیاتھا۔ بہت سال بعد تحریک پاکستان کے دوران محض مخالفت برائے مخالفت میں مولانا نے ایک شعر میں اس پرکچھ یوں تبصرہ کیا:
    اِک کافرہ کی خاطر اسلام کو چھوڑا ۔۔۔۔ یہ قائدِ اعظم ہے کہ ہے کافرِ اعظم

    ReplyDelete
  39. رہا نورالدین زنگی کے گھوڑے سے منسوب واقعہ تو یہ درست نہیں ہے۔ موصوف بارہویں صدی میں مصر و شام و حجاز وغیرہ کےجلیل القدر سلطان ہو گزرے ہیں اور زیارت نبویﷺ والا واقعہ بالکل درست طور پر ان سے منسوب ہے۔لیکن شراب ملی دوا پی کر صحتیاب ہونے والے اپنے عزیز ترین گھوڑے کی سواری کو ترک کرنے کا واقعہ دراصل گجرات (ہندوستان) کے سلطان محمود اول المعروف بہ محمود بیگڑہ کا ہےجن کا زمانہ پندرھویں صدی کے اواخر کا ہے۔ اس واقعے کو حضرتِ علامہ نے اپنے حاصلِ حیات ’’جاوید نامہ‘‘ میں تحسین آمیز انداز میں رقم کر کے نوجوان نسل کو ہر ممکن حد تک احکامِ خداوندی بجالانے کی ترغیب دی ہے۔
    آخری بات ۔۔۔ آپ کی اس بات سے کہ ’’’ تاریخ میں بہت ساری باتوں کے کوئ دستاویزی ثبوت نہیں لیکن ان میں سے بہت سی باتیں اپنے پس منظر مین سمجھ میں آتی ہیں کہ ایسے ہوئ ہونگیں۔‘‘‘ مجھے کافی حوصلہ ہوا ہے۔ اگر آپ واقعی اس پر یقین رکھتی ہیں تو احادیث کے حوالے سے بحث کو سمیٹنا زیادہ مشکل نہ ہو گا۔ اور احادیث نبوی کے سلسلے میں تو ایسے دستاویزی ثبوت اور مستند علوم موجود ہیں جن کی بعض مستشرقین نے بھی تعریف کی ہے ۔ اور سرکارِ دوعالم ﷺ کی زندگی کو دنیا کی تاریخ کی پہلی ایسی شخصیت قرار دیا ہے جوان سے پہلے کے انبیا اور اکابرین کی طرح تاریخی بھول بھلیوں میں گم نہیں بلکہ روزِ روشن ’’ براڈ ڈے لائٹ ‘‘ میں ہمارے سامنے جلوہ گر ہوتی ہے۔ ﷺ۔ ذاتی طور پر تو میں قرآن پر بھی اس بنا پر ایمان رکھتا ہوں کہ یہ اپنے زمانے کی سب سے سچی مانی جانے والی ہستی نے بطورِ کلام اللہ پیش کیا۔ ایسی عظیم ترین ہستی کہ جس کے بد ترین دشمن بھی اُسے الصادق اور الامین قرار دیتے تھے اور ان کے ایک سب سے بڑے دشمن نے اقرار کیا کہ’’ اے محمد ﷺ جو کچھ تو کہتا ہے سب برحق ہے لیکن کیا کروں میرا دِل نہیں مانتا۔‘‘ ایسے بدبختوں کے بارے میں ہی دلوں پر مہر والی آیات نازل ہوئیں۔
    المختصر یہ کہ ۔۔۔بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اُوست۔۔۔ اگر بہ اُو نرسیدی تمام بولہبی است
    چلتے چلتے عرض کرتا چلوں کہ آزادیٔ کشمیر ہی کےحوالے سے اِس وقت اگر کوئی شخص قید و بند کی صعوبتوں، بڑھاپے اور بیماری کے باوجود چٹان کی طرح اپنے جائز موقف پر ڈٹا ہوا ہے اور پکار پکار کرہمیں اقوام متحدہ کی منصفانہ قراردادوں پر کوئی سمجھوتہ نہ کرنے کو کہہ رہا ہے وہ مقبوضہ کشمیر کی جماعتِ اسلامی کا سربراہ سید علی گیلانی ہے۔عظمت وہ جو دُشمن خود تسلیم کرے۔ چند روز قبل خود بھارت کے ایک ادارے نے ۲۰ با اثر ترین بھارتی شخصیات میں شامل کیا ہے۔

    ReplyDelete
  40. You are just a blatant LAIR....I never said what u have put in my mouth...ایک ایم بی بی ایس نے تو کہہ دیا کہ میرے ایم بی بی ایس کی وجہ سے میری عزت کریں۔

    I juts told u that people don't give any damn care to ur degree....

    جب فاسق کی تعریف کی جاتی ہے تو اللہ کو غصہ آتا ہے اور عرش کانپ اتھتا ہے'
    This is a Hadith, NOT a saying of Syed Mawdudi....still you say that you don't have nay historical reference so plz let us know if you get any revelation from techi techi....

    ReplyDelete
  41. لبرلیزم از دی ڈیزیز آف فرنٹل لوبز، مجھے نہیں معولم کہ آپکے دماغ کا کون سا حصہ بیامری کا شکار ہے۔ کیونکہ میں نے یہ حصہ گفتگو مولانا صاحب کی تقریر سے نکال کر بلا کم و کاست اسی طرح ڈالدیا ہے۔ کسی کے تقریری بیانات کو جب حوالے میں ڈالتے ہیں تو نالکل اسی طرح لکھتے ہیں جس طرح وہ کہتا ہے۔ اور آپ نے نجانے کیوں یہ غور نہیں فرمایا کہ اسکے ساتھ کتاب کا جوالہ بھی موجود ہے۔ جب مولانا صاحب یہ نہیں کہتے کہ یہ ایک حدیث ہے تو میں اس میں کیوں تحریف کروں۔ مگر یہ بات تو آپ سمجھیں گے نہیں۔ سو یوں کریں کہ پبلشر کو ایک خط لکھ ڈالیں کہ یہ مضمون تبدیل کر کے یوں کر دیا جائے۔ آپکی آسانی کے لئے پبلشر کا نام دئیے دیتی ہوں۔ اسلامک پبلیکیشنز پرائیویٹ لمیٹڈ، ا۳ ، ای شاہ عالم مارکیٹ، لاہور، پاکستان۔
    غلام علی مرتضی صاحب، آپ نے جو بات کی دراصل اس بات کا بھی کوئ دستاویزی ثبوت نہیں ہے۔ اسی طرح گھوڑے والا قصہ اور اس طرح کے اور بہت سے قصے ہیں جو متعدد شخصیات سے وابستہ ہیں اور در حقیقت یہ بالکل یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ وہ دراصل حقیقت بھی رکھتے ہیں یا نہیں۔ آپ نے فاسق والے بیان پہ دستبرداری اختیار کی اچھ اکیا۔ اسی کاتب میں اور بہت سی دلچسپ باتیں ہیں جنہیں میں پھر کبھی لکھونگی۔
    چونکہ آپ نے میری پچھلی تحاریر نہیں پڑھیں اس لئے میں آپکو ایک دفعہ پھر بتاتی چلوں کہ یہ بات میں بھی پہلے کئ دفعہ لکھ چکی ہوں کہ ہر انسان اپنی فکر میں ارتقائ مراحل سے گذرتا ہے۔ اسی طرح ہر انسان اپنے زمانے کے حالات سے متائثر ہوتا ہے اور اس سے اسکی فکر متائثر ہوتی ہے اور وہ جو بھی تفکر کرتا ہے وہ عمعمی طور پہ اپنے زمانے کے حالات سدھارنے کے لئے ہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح سوائے انبیاء کے ہر انسان اپنے زمانے کے علمی و فکری وسائل سے مستفید ہوتا ہے اور انہی کے ذریعے سے اپنی ارد گرد کی دنیا کو سمجھتا ہے۔
    آجکے انسان کو ماضی کے دانشوروں سے دانش کا استعمال سیکھنا جرور چاہئیے مگر آجکے انسان کو اپنے عہد کے مسائل حل کرنے ہیں اور انہیں اسی پس منظر میں دیکھنا چاہئیے۔
    حدیث کے سلسلے میں آپ ایک نظریہ رکھتے ہیں اور میں دوسرا۔ حدیث کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ اگر ہم انہیں مکمل طور پہ مسترد کر دیں تو ہمیں یہ بھی نہ معلوم ہو کہ نماز کیسے پڑھنی ہے۔ لیکن حدیث کو ہر چیز کی بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔ اب اس اونٹ والی حدیث کی مثال لہں۔ اس پہ میں جناب جمشید فرشوری کو ایک آخری تفصیلی بیان دے رہی ہوں اسے دیکھ لیں بار بار نہیں لکھنا چاہتی۔ اسکے علاوہ بھی احادیث ہیں جنہیں میں پھر کبھی لکھونگی۔
    ڈاکٹر جواد احمد خان صاحب، آمید ہے کہ آپ نے میرا مرتضی علی کو دیا گیا جواب پڑھ لیا ہوگا۔ چونکہ ایک ایم بی بی ایس کی 'عزت' زیادہ ہوتی ہے اس لئے آپکو اپنی فکر کرنی چاہئیے۔ آپ نے یہ نہیں بتایا کہ جب حضرت خدیجہ کے رسول اللہ کو پروپوز کرنے سے معاشرہ غیر مستحکم نہیں ہوتا تو ایک پاکستانی خاتون کے ایسا کر دینے سے معاشرہ کیسے غیر مستحکم ہوتا ہے۔ در حقیقت آپ نے ایسی کسی بات کا جواب نہیں دیا کہ معاشرے کو مستحکم اور غیر مستحکم کرنے کے طریقے آپکی صوابدید پہ کیسے بہتر ہو سکتے ہیں۔
    اس سلسلے میں اور بھی دلچسپ امر ہیں مگر ان پہ تو ایک پوسٹ لکھی جا سکتی ہے۔ ضائع کرنے کا فائدہ نہیں۔

    ReplyDelete
  42. قرآن و سنت ہی حجت ہے جو کچھ قرآن اور سنت کے مطابق ہے درست اور جو اس کے خلاف ہے وہ غلط۔ جاہلوں سے بحث کبھی مفید نہیں ہو سکتی ۔ ہر شخص کو اپنے ایمان اور اعمال کی حفاظت کی کوشش کرنی چاہئے۔ حنفی یا سلفی مسلک کا معاملہ یا لبرلزم وغیرہ کی اصطلاحات میں الجھنے کی بجائے یہ دیکھئے کیا آپ مسلمان ہیں یا نہیں اور اگر ہیں توآپ کا عمل اسلام کے مطابق ہے یا نہیں اس کا آسان حل یہی ہو سکتا ہے آپ جس بھی مسلک پر کاربند ہیں اس کے علماء سے جڑے رہیں ۔ اور ایسے اعمال جن کی کسی بھی مسلک میں گنجائش نہیں کم کم از کم ان سے تو بچ جائیں ۔ خدا مجھے اور آپ کو صراط مستقیم نصیب فرمائے۔ اٰمین۔

    ReplyDelete
  43. جزاک اللہ۔ کہیں بھی ہمارے نام نہاد مولویوں کا ہاتھ پڑ جائے، کھینچ تان کر کے بندے کو اصل کام سے ہٹا کر ہی دم لیتے ہیں :) بھائی سیدھی سی بات ہے کہ اگر بلاگ پسند نہیں تو تشریف ہی نا لائیں؟ کیوں اپنا اور دوسروں کا خون جلاتے ہیں؟

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ