Wednesday, December 22, 2010

اختیار

میں گھر سے نکلی اور ابھی گاڑی تک پہنچ ہی رہی تھی کہ  پڑوسیوں کی بہو صاحبہ مل گئیں۔ سلام دعا کے بعد انہوں نے شکوہ کیا کہ اب تو ہم سے ملنا ہی نہیں ہو پاتا، پھراصرار کہ ذرادیر کو ان کے ساتھ بھی بیٹھ جائیں۔ میں نے سوچا  مشعل تو اپنے بابا کے ساتھ ہے۔ موقع اچھا ہے۔ چلیں کچھ وقت انکے ساتھ بھی گذار لیا جائے۔
باتوں باتوں میں میں نے پوچھا آپ کی شادی کو تو چار سال ہو رہے ہونگے۔ بچوں کا پلان نہیں ہے ابھی۔ کہنے لگیں نہیں ہماری طرف سے تو ایسا  کچھ نہیں ہے۔ ایک دفعہ آثار بنے مگر تیسرے مہینے ہی ختم ہو گیا۔ اب ڈاکٹر کہتے ہیں کہ میری ایک ٹیوب بند ہے اور ایک کھلی۔ ادھر میرے شوہر کے ساتھ جرثوموں کا بھی کچھ مسئلہ ہے۔ میں نے انہیں تسلی دی۔ ایک ٹیوب کھلی ہے تو بھی بڑی بات ہے۔ ایک ہی راستہ چاہئیے ہوتا ہے اور ایک ہی اسپرم۔
 پھر ان سے پوچھا کہ وہ اس سلسلے میں کیا کچھ کروا چکی ہیں تاکہ اندازہ تو ہو انکا اپنے بارے میں علم کتنا ہے۔
اس بارے میں بتاتے وہ دفعتًا کہنے لگیں کہ آپ تو ادھر ادھر آتی جاتی ہیں۔ کسی اچھی گائینا کولوجسٹ کا پتہ ہے تو مجھے بتائیں۔ میں نے انہیں ایک گائیاکولوجسٹ کا پتہ دیا کہ ان سے ضرور ملیں۔ اور پھر کہا کہ اور اگر ایسے بھی کچھ نہ ہو تو ٹیسٹ ٹیوب بے بی کر والیں۔ کراچی میں اب بآسانی ہوتا ہے۔ اور یہ جن گائیناکولوجسٹ کا پتہ میں نے آپکو دیا ہے یہ بھی کرتی ہیں اور دیگر جگہوں کے مقابلے میں انکے پاس خرچہ کم آتا ہے۔ ویسے تو زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں ہے لیکن  یاد رکھیں ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے لئے بھی خواتین کی عمر خاصی اہمیت رکھتی ہے۔
جواب ملا آپکی سب باتیں اپنی جگہ صحیح مگر میرے شوہر ٹیسٹ ٹیوب بے بی کو غیر اسلامی کہتے ہیں۔ اچھا، میں نے ان سے کہا پاکستان میں جس طرح کیا جاتا ہے یہ سارا عمل اس میں اسے غیر اسلامی نہیںکہا جا سکتا۔ خیر، یہ انکا ذاتی فیصلہ ہے۔ ہر ایک کا اپنا فقہ۔ آپ کوئ بچہ کیوں نہیں گود لے لیتیں۔ ایک دفعہ پھر سرد آہ۔ وہ کہتے ہیں کہ سگے بہن بھائیوں کے علاوہ کسی کا بچہ گود نہیں لیا جا سکتا۔ وہ بڑا ہو کر نامحرم ہو جائے گا۔  انکے تو ایک ہی بھائ ہیں انکی بھی ایک ہی بچی ہوئ اسکے بعد کوئ اولاد نہیں۔ ادھر میرے بہن بھائیوں میں بھی کوئ اب بچے پیدا کرنے کے حالات میں نہیں۔ یہ تو نہیں ہو سکتا۔
میں نے ان پہ ترس کھایا۔ ہمدردی کے الفاظ بولے اور نکل آئ۔ انسان صرف ایک دفعہ زندگی جیسی نعمت پاتا ہے اور اس میں بھی وہ  سب لوگوں کی اطاعت میں وہ بھی نہیں کر پاتا۔ جس سے کوئ اخلاقی قدر ختم نہیں ہوتی۔ معاشرہ غیر مستحکم نہیں ہوتا۔ صرف اسکی زندگی میں خوشی سے جینے کا تحرک پیدا ہوتا ہے۔

والدین بننا، دنیا کی سب سے بڑی خوشی ہے۔  مرد یا عورت کواپنی زندگی میں شادی کو ترجیح دینا چاہئیے۔ اس لئے نہیں کہ آپکو ایک ساتھی ملے گا۔ بلکہ اس لئے بھی کہ یہی وہ پاک طریقہ خدا نے رکھا ہے جس کے ذریعے نسل انسانی آگے بڑھتی ہے۔ 
شادی شدہ جوڑوں میں سے تقریباً پندرہ فیصد افراد کسی بھی وجہ سے بے اولادی کا شکار ہوتے ہیں۔ شادی کے ایک سال بعد تک اگر آپکے یہاں اولاد کے آثار نہیں تو فوراً گائیناکولوجسٹ سے رابطہ کریں۔ بے اولادی کے ٹیسٹ مرد کے لئے بھی کرانا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ عورت کے لئے۔ مرد کا ٹیسٹ بہت سستا اور آسان ہوتا ہے۔ بے اولادی کی وجہ مردوں کے اندر بھی اسی نسبت سے ہوتی ہے جتنی کہ عورتوں میں۔ 
اگر کسی بھی وجہ سے خدا آپکو بچوں جیسی نعمت سے نہیں نوازتا تو دل چھوٹا نہ کریں۔ یہاں لا تعداد بچے ماں کی گرم گود اور باپ کی شفقت کے منتظر ہیں۔ اپنے دل میں نرمی پیدا کیجئیے اور انہیں گود لے لیں۔

بچے، زندگی میں سب سے بڑا تحرک ہیں۔ وہ آپکو، آپکی زندگی کی ان باریکیوں سے آشنا کراتے ہیں جن سے بحیثیت انسان بھی آپ اس وقت تک آشنا نہیں ہو پاتے جب تک انکی معصوم مسکراہٹ اور بے لاگ تجزیہ کی قوت آپکو نہیں ملتی۔ انکے ساتھ رہنا ایک بالکل مختلف دنیا ہے۔  وہ  دنیا میں  امید کا نشان اور خدا کا سب سے انمول تحفہ ہیں۔ وہ بچے بھی جو آپ نے پیدا نہیں کئیے لیکن خدا نے انکی محبت سے آپکے دلوں کو معمور کیا۔ پیدا کرنا آپکے اختیار میں نہیں مگر سنوارنا،سنبھالنا اور محبت کرنا یہ آپکے اختیار میں ہے۔

23 comments:

  1. Pla do NOT mention the address of the lady. Whatever your intention might be but it is ethically WRONG. May be you say that you do not have any right to say this to me but still I am saying this coz i think you don't know this. It is very important in medical profession where we keep secrets of people.

    She is right in saying that child will become Non-Mehram until and unless she has breast fed the child.....
    low sperm count is not a reason to seek test tube baby. It can be cured very easily. The treatment for low sperm count depends, greatly, on what exactly it is that is causing the low sperm count. But most of time men are shy to discuss with doctors...

    ReplyDelete
  2. ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے لئے بھی خواتین کی عمر خاصی اہمیت رکھتی ہے۔

    عنیقہ مجھے اس کے بارے میں بتائیں کہ زیادہ سے زیادہ کتنی عمر میں یہ کروایا جاسکتا ہے۔۔۔؟

    ReplyDelete
  3. Well said but now at least look at population graph please do not encorage for must having baby, we are in 21 century may be serve people also on way of serve God, may be help orphange anything... No more children its nothing more then anything, just be fruiitful and blessful for every one. God bless

    ReplyDelete
  4. Nice assessment/comments.

    ReplyDelete
  5. Assalamu Alaikkum Mufti Sahib, I need a clarification based on Shariyat. My sister got married 3 years ago and still Allah not blessed her with child. After getting much pressure from her husband family, we had consulted with some of the best doctor?s in Chennai. Doctor?s said that, she can?t become conceive in a natural way as she doesn?t have the eggs of her own. The only way they have given us, TEST TUBE Baby using my sister?s husband spem with some other women?s egg. They will inject the both to my sister?s uterus. Referring the about situation, I would like to get clarification based on the Shariyat for the following questions, 1. Test Tube Baby method is allowed in Islam? 2. If it is allowed, then is it fine if we use other women?s egg for it? 3. If this also accepted, Is it acceptable if we get that egg from my another Sister ? 4. Now her husband is forcing her to go by Test Tube baby. Please let us know whether she can accept her husband wish or not if the Tube Baby method is not acceptable in Islam? 5. If the Test Tube method is not acceptable, please let us know on what basis it is not acceptable, as there was no technology like this in our prophet period ? Our family is eagerly waiting for your response. Allah Hafiz.

    ReplyDelete
  6. جناب گمنام، آہ نے اپنی بہن کا قصہ بیان کیا۔ آپ نے شاید تحریر کے مندرجات پہ گور نہیں کیا۔ ہم پاکستان میں رائج طریقے کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ جس میں انڈہ اور اسپرم دونوں اسی جوڑے کے استعمال ہوتے ہیں جو میاں بیوی ہوں۔ نہ کسی اور کے انڈے استعمال ہوتے ہیں اور نہ اسپرمز۔ اس طریقے میں خاتون کے اندَ اور انکے شوہر کے اسپرمز حاصل کر کے ٹیسٹ ٹیوب میں فرٹیلاءزیشن کروائ جاتی ہے۔
    عام طاور پہ خواتین کے ساتھ جو مسائل ہوتے ہیں ان میں سر فہرست انکی ٹیوبز کا بند ہونا جن سے گذر کر اسپرم انڈے تک پہنچتا ہے۔ جبکہ اووریز میں انڈے وقت پہ پیدا ہو رہے ہوتے ہیں مگر راستہ بند ہوتا ہے۔ دوسری وجہ ٹیوبز اوراووریز کا آپس میں بعض وجوہات کی بناء پہ چپک جانا ہوتا ہے۔ اس طرح وہ حرکت کر کے اسپرمز کو دھلکیلنے کے قابل نہیں ہوتیں۔ اور یوں ایک دفعہ پھر اسپرمز انڈے تک نہیں پہنچ پاتے۔ ایک اور وجہ انڈوں کا بروقت پختہ نہ ہونا ہے۔ ایک اہم وجہ خواتین کے جسم میں ایسی اینٹی باڈیز کا پیدا ہونا ہے جو اسپرم کو غیر ضروری عنصر سمجھ کر جیسے ہی وہ جسم میں داخل ہوتا ہے ختم کر دیتی ہیں۔ ان تمام صورتوں میں فرٹیلائیزیشن قدرتی طریقے سے ہونا ممکن نہیں رہتی۔
    ایک آئ وی ایف میتھڈ اس فرٹیلائیزیشن کو جسم سے باہر انجام دیتا ہے اور جب فرٹیلائزیشن ہو جاتی ہے تو متعددجنین میں سے صحت مند جنین لے کر انہیں دوبارہ ماں کے جسم میں داخل کر دیا جاتا ہے جہاں وہ قدرتی طریقے سے نمو پاتا ہے۔
    یہ وہ طریقہ ہے جو پاکستان میں آء وی ایف کے ادارے انجام دیتے ہیں۔
    پاکستان میں پہلا آئ وی ای بے بی شاید اسی کی دہائ میں پیدا ہوا تھا اور اس وقت سے اب تک سینکروں بچوں کو اس طریقے سے پیدا کیا جا چکا ہے۔ ان بچوں کی اکثریت مسلمان گھرانوں کی ہے۔ ان اداروں میں مسلمان ڈاکٹرز کام کرتے ہیں۔ مصر کے جامعہ ازہر کے ادارے سے آئ وی ایف کے اس طریقے کے جائز ہونے کے متعلق فتوی موجود ہے۔
    رسول اللہ کے زمانے میں متعدد ایسی چیزیں موجود نہ تھیں جو آج ہیں ان میں سے کچھ پہ بے انتہا فساد ہوتا ہے بالآخر وہ ایسی ضرورت بنجاتا ہے کہ اسے قبول کر لیا جاتا ہے اس سلسلے کی بہترین مثال لائوڈ اسپیکر ہے جو ایک زمانے تک حرام رہا اور اب سب سے زیادہ وہی استعمال کرتے ہیں جو اسے حرام کہتے تھے۔
    آپکی بہن ایک بچہ ایداپٹ کر سکتی ہیں اور بہنوئ انہیں طلاق دے کر دوسری اور تیسری شادی کر سکتے ہیں یہ کوئ بری بات نہیں ہمارے معاشرے میں اور مذہباً جائز ہے بلکہ آپکو پسند بھی آئے گی۔
    اپنے باقی مسائل کے لئے اپنے فقہے کے عالم سے رابطہ کریں۔ امید ہے کہ یہ کہانی جو آپ نے گھڑی ہے آ] اس سے بہترین کہانی کے ساتھ دوبارہ حاضر ہونگے۔

    ReplyDelete
  7. امن ایمان، بیس پچیس سال کی عمر میں اچھی کوالٹی کے انڈے پیدا ہوتے ہیں اور انکی تعداد بھی زیادہ ہوتی ہے۔ آئ وی ایف کے لئے ڈاکٹر کو صحتمند انڈے زیادہ تعداد میں چاہئیے ہوتے ہیں۔ عام حالات میں ہر مہینے ایک خاتون ایک صحت مند اور پختہ انڈہ پیدا کرتی ہے۔ لیکن آئ وی ایف ایک انڈے کے ساتھ نہیں کیا جاتا اور اسکے لئے ایک وقت میں کئ انڈت چاہئیے ہوتے ہیں۔ یوں اگر آئ وی ایف پینتیس سال کی عمر سے پہلے کروایا جائے تو بہتر نتائج آنے کی امید ہوتی ہے۔ یہاں یہ ذۃن میں رہنا چاہئیے کہ آئ وی ایف سے یقینی اولاد نہیں ہوتی۔ سو جتنی جلد کروایا جائے اتنا بہتر رہتا ہے۔ ورنہ سارا طریقہ کافی محنت طلب، صبر آزما اور خرچے والا ہے۔
    مزید معلومات کے لئیے یہ لنک دیکھیں۔.
    http://www.medscape.com/viewarticle/546653
    ٹرتھ ایکسپوزڈ، تو آپکو پتہ چل گیا کہ میری والدہ کہاں رہتی ہیں اور یہ انکی کون سی پڑوسن ہیں۔
    جو ادارے ان لاوارث بچوں کو پالتے ہیں وہاں انہیں پالے والے افراد کے لئے وہ نا محرم نہیں ہوتے۔

    ReplyDelete
  8. یہاں بچے اڈاپٹ کرنے کا کافی رواج ہے۔ ایک تعداد ہے جو روس ، مشرقی یورپ اور تیسری دنیا سے بچے اڈاپٹ کرتی ہے۔ ہالی وڈ ایکڑیس کے قصے تو آپ پڑھتے ہی ہوں گے۔ یوں سمجھیے کہ بعض اوقات تو ایک فیشن کی صورت بھی اختیار کرلیتا ہے۔ چند برس پہلے میں نے ایک تقریب میں شرکت کی تھی۔ وہاں ایک پاکستانی نژاد امریکن فیملی جو کافی عرصہ سے امریکہ میں مقیم تھی وہ بھی شریک تھی۔ اپنے حقیقی اور گود لیے بچوں کے ساتھ۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ گود لیے بچے افریقی تھے۔ ہر ملنے جلنے والے نے کافی تعریف کی۔ ماسوائے کچھ پاکستانیوں کے جن کے لئے یہ بڑی "معیوب" بات تھی۔
    خود قرآن جگہ جگہ یتیم کی کفالت ، اس کے حقوق اور حسن سلوک کی جگہ جگہ ترغیب دیتا ہے۔ بندہ کھلے ذہن سے سوچے تو کیا نہیں کرسکتا۔ محض یتیم خانے کو چندہ دینے سے بات نہیں بنتی۔ ایک یتیم بچے کو گود لینے سے اسے باقاعدہ گھر ملتا ہے۔ ماں ، باپ ، بہن بھائی کے رشتے مل جاتے ہیں۔ آپ ایک انسان کی زندگی بناتے ہیں۔
    باقی رہے مذہب پرست ، تو یہ صرف تخریب سازی کے ماہر ہیں۔ زندگی بنانا ان کے اغراض مقاصد میں شامل نہیں۔ حقوق انسانیت سے یہ واقف نہیں۔ خوبصورتی ان کی لغت میں کہاں۔ ان کے احمقانہ فتوں کے پیچھے لگ گئے تو دین کے نہ دنیا کے۔

    اور ہاں ، اسی موضوع سے یاد آیا کہ ہالی وڈ کی ایک شاندار فلم تھی جو ایک سچے واقعے پر مبنی ہے۔ نام ہے
    The Blind Side
    کبھی وقت ملا تو ضرور دیکھیے گا۔ وقت نہ ملا تو وقت نکال کے دیکھیے گا۔ اس میں وہ سب کچھ ہے جو آپ کو پسند آئے گا۔

    ReplyDelete
  9. @Mam Aneeqa again you are taking it personally so I will not reply. What I wanted to say that you could start very SAME story in a different way without compromising her identity. I dont know the location of parents home but your relatives know this and many of them would be reading this...

    @Anonymous she can't get egg from other lady coz it is same as if she is getting sperm from other man.
    The methods of artificial fertilization that are known nowadays are seven:

    i. Where fertilization occurs between the sperm taken from the husband and an egg taken from a woman who is not his wife, then the embryo is implanted in his wife’s uterus.

    ii. Where fertilization occurs between the sperm of a man other than the husband and the wife’s egg, then the embryo is implanted in the wife’s uterus.

    iii. Where fertilization occurs between the sperm and egg of the couple, and the embryo is implanted in the uterus of a woman who volunteers to carry it (surrogate motherhood).

    iv. Where fertilization occurs outside the womb between the sperm and egg of strangers, then the embryo is implanted in the wife’s uterus.

    v. Where fertilization occurs outside the womb between the sperm and egg of the couple, then the embryo is implanted in the uterus of the other wife.

    vi. Where sperm is taken from the husband and an egg is taken from the wife, and fertilization occurs outside the womb, then the embryo is implanted in the wife’s uterus.

    vii. Where sperm is taken from the husband and placed in the wife’s vagina or uterus so that fertilization may take place inside her body.

    It was determined that the first five methods are all haraam according to sharee’ah and are forbidden completely in and of themselves, or because of the results to which they will lead, such as mixing of lineages, loss of motherhood and other things that are forbidden according to sharee’ah.

    With regard to the sixth and seventh methods, the committee thinks that there is nothing wrong with resorting to them in cases of need, after emphasizing that it is essential to take all necessary precautions.
    source
    http://www.islamqa.com/en/ref/83799
    Other reservations that pose a concern in this matter include: the uncovering of the woman’s ‘awrah and most private parts; the possibility of mistakes in the laboratory; the possibility that some weak-minded people in some hospitals may breach their trust and deliberately switch eggs or sperm in order to make the operation a success and earn more material gains. So we have to be extremely cautious when dealing with this matter. And Allaah knows best.
    source
    http://islamqa.com/en/ref/3474

    ReplyDelete
  10. @mam Aneeqa why you think that Anonymous is a lair?
    if you see the structure of his comment then u can easily realize that this is just a copy paste question and I dont know why he has posted this here. Still I have replied him.

    ReplyDelete
  11. بی بی!

    آپ نے ایک مفید تحریر لکھی ہے ۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے آمین۔

    اسی موضوع سے متعلق ایک بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ مرد کے اسپرمز عام معیار سے قدرے کم تعداد میں
    ہوں تو بھی ان اسپرمز سے فرٹیلاءزیشن ہوسکتی ہے یعنی اسکی زوجہ کو بچے کی امید ہو سکتی ہے۔ اسپرمز کی عام طور پہ مطلوبہ تعداد کے تیتیس فیصد اسپرمز کے حامل ایک مرد کے باپ بننے کا ایک کیس میرے علم میں بھی ہے۔ موصوف بغیر کسی دوا کی مدد کے یکے بعد دیگرے دو دفعہ باپ بن چکے ہیں۔ اسپرمز کم ہونے کی کئی ایک وجوہات ہوتی ہیں۔ جو طبعی بھی ہوسکتی ہیں اور ماحولیاتی بھی۔ بہت سی ادویات دستیاب ہیں جو استعمال کرنے سے اسپرم کی مطلوبہ تعداد بڑھائی جا سکتی ہے۔

    بیضہ یعنی انڈہ۔ بیضے دانی سے نکل کر خواتین کے جسم سے مکمل طور پہ خارج ہونے میں عام طور پہ کم بیش چوبیس گھنٹے رہتا ہے۔ اس دوران اگر مرد کا ایک ادھ اسپرم بھی بیضے سے ٹکرا کر اسمیں داخل ہوجائے تو بچی بچے کی امید کا غالب امکان ہوجاتا ہے۔

    عموما خواتین کے ایک ماہ کے ایام مخصوصہ سے اگلے ماہ کے ایام مخصوصہ تک کے نصف درمیان کے دنوں میں بیضے کا اخراج ہوتا ہے۔ اس دن میاں بیوی کا آپس میں ملنا فائدہ مند ہوتا ہے۔

    جن شادی شدہ خواتین کو اللہ تعالٰی نے ابھی تک اولاد کی نعمت عطا نہیں کی وہ درمیان کے اس خاص دن کا حساب رکھیں ۔ اسکے لئیے ضروری ہے کہ وہ لگا تار کئی ماہ تک اپنا باڈی ٹمریچر ہر روز نوٹ کریں اور اسے باقاعدہ لکھیں۔ پھر دیکھیں کہ کونسے دن انکا باڈی ٹمریچر عام دنوں سے زیادہ تھا۔ جس دن باڈی ٹمپریچر عام دنوں سے زیادہ ہو۔ بس وہ دن بیضے کے اخراج کا دن ہوتا ہے۔ اور اس دن میاں بیوی کا ملاپ اولاد ہونے کے امکانات بڑھا دیتا ہے۔

    عنیقہ بی بی! سے گزارش ہے کہ وہ اگر محسوس کریں تو میری رائے کو اپنے انداز میں بہتر طریقے سے سمجھا دیں یا سمجھیں یوں بہتر ہے تو اسی طرح چھاپ دیں۔ میری طرف سے آپکو اس رائے میں کانٹ چھانٹ کا مکمل اختیار ہے۔ کیونکہ آپکی طرح میرا مقصد بھی محض اتنا سا ہے۔ کہ جن شادی شدہ لوگوں کو اللہ تعالٰی نے اولاد جیسی نعمت سے ابھی تک نہیں نوازا ان کی معلمات میں اضافہ ہو ۔ ویسے گائنی اسپیشلسٹ اس بارے میں بہتر رائے دے سکتے ہیں ان سے ضرور اپنا مسئلہ بیان کرنا چاہئیے۔ کیونکہ ہمارے معاشرے میں عموما دیکھا گیا کہ مرد حضرات میں نقص ہونے کی صورت میں بھی خواتین کا علاج کروانے پہ زور دیا جاتا ہے۔ جبکہ عموما مرد حضرت اپنے کسی ایسے نقص کو ماننے سے ہی انکار کر دیتے ہیں۔ جبکہ مرد حضرات کے عام نقائص کا مکمل علاج بھی آجکل ممکن ہے۔
    عموما ساسیں اپنے بیتے میں نقص مان کر نہیں دیتیں اور ہر جگہ بہو کو علاج سے لیکر ہر قسم کے ٹونے ٹانکے کروانے لے جاتیں ہیں۔ جس سے محض یہ تاثر دینا ہوتا ہے کہ نقص انکی بہو میں ہے ۔ انکے بیٹے میں نہیں ۔ اور روش انتہائی غلط ہے اس سے آگے چل کر بہت مسائل ہیدا ہوتے ہیں ۔ ایسے میں خواتین کو خود اپنے خاوند کو قائل کرنا چاہئے۔

    نوٹ۔: ساس والی بات محض ایک مثال ہے ۔

    ReplyDelete
  12. جاوید گوندل صاحب، یہ ٹمُریچر والی بات اور کچھ اور بھی متھس ہیں جو اتنے درست نہیں۔ بہتر یہ ہے کہ کسی گائینا کولوجسٹ سے مشورہ لیں وہ اپنے حساب سے اور اندازے سے الٹرا ساءونڈ تیسٹ کراتے ہیں اور بیضے کی پختگی کے بارے میں بالکل صحیح بات اس مشینی ٹیسٹ سے ہی پتہ چلتی ہے۔
    ایک عام خیال یہ بھی ہے کہ دو پیریڈز کے درمیانے دن پہ بیضہ کا اخراج ہوتا ہے۔ یہ بھی بالکل قابل بھروسہ نہیں۔ بیضہ بننے کا عمل اور اخراج کوراک اور جذباتی اتار چڑھاءو سے بھی تعلق رکھتا ہے۔ اور یہ بالکل ھروری نہیں کہ یہ درمیانی دن پہ خارج ہو۔ اس لئے ڈاکٹر سے رجوع کریں۔
    یہ تو قدرت کا کمال ہے کہ وہ ناممکن حالات میں بھی اولاد سے نواز دے لیکن اگر جرثومے کم ہوں اور خاتون کی عمر زیادہ ہو تو پھر کنسیو کرنے کے امکان کم ہو جاتے ہیں۔ اسکے علاوہ اسپرمز میں اور بھی نقائص ہوتے ہیں مثلاً انکا جینیاتی طور پہ عیب زدہ ہونا۔ چونکہ مردوں کا ٹیسٹ آسان اور سستا ہوتا ہے تو ڈاکٹرز بہتر یہی خیال کرتے ہیں کہ سب سے پہلے اسکی رپورٹ کی آجائے۔ بے اولادی کے شکار جوڑوں میں عام طور سے مرد یہ ٹیسٹ کروانا نہیں چاہتے۔ کئ جگہوں پہ یہ دیکھا گیا کہ مرد ایک کے بعد ایک شادی کرتے رہے مگر اپنا ٹیسٹ نہیں کروایا۔
    چونکہ شادی شدہ جوڑوں میں سے تقریباً پندرہ فی صد جوڑے ایسے ہو سکتے ہیں جو بے اولادی کا سامنا کر لیں تو یہ صورت کسی کے ساتھ بھی پیش آ سکتی ہے۔ ڈاکٹر سے رجوع کریں۔ کسی بھی حکیم یا روحانی علاج والے کے پاس جانے سے پہلے ڈاکٹر کے پاس جائیں۔
    میرا خیال ہے مجھے اس پہ ایک تعصیکی پوسٹ اور لکھنی چاہئیے۔
    ٹرتھ ایکسپوزڈ، ، میں ہر کہانی میں ایسی بنیادی تبدیلیاں پیدا کر دیتی ہوں کہ متعلقہ افراد کے عالوہ کسی کو اس پہ شک نہیں ہو سکتا۔ متعلقہ شخص بھی یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ یہ دراصل اسی کے بارے میں ہیں۔
    آپ اس سلسلے میں پریشان نہ ہوں۔

    ReplyDelete
  13. ایک اہم وجہ خواتین کے جسم میں ایسی اینٹی باڈیز کا پیدا ہونا ہے جو اسپرم کو غیر ضروری عنصر سمجھ کر جیسے ہی وہ جسم میں داخل ہوتا ہے ختم کر دیتی ہیں۔ ان تمام صورتوں میں فرٹیلائیزیشن قدرتی طریقے سے ہونا ممکن نہیں رہتی۔
    ----------------

    عنیقہ کیا ڈاکٹرز اس کو مسئلے کا حل غیر قدرتی ہی بتاتے ہیں۔۔۔یا اسے دوائیوں کی صورت میں حل کیا جاسکتا ہے۔۔؟؟ میرے علم میں یہ والا مسئلہ پہلی بار آیا ہے۔۔۔اُدھر ملتان میں کافی عورتوں سے سنا کہ میاں بیوی دونوں کی تیسٹ رپورٹس نارمل ہیں۔۔۔بس اللہ کی طرف سے دیر ہے۔۔۔اور پھر یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ آٹھ دس سال بعد اللہ تعالیٰ نے اولاد جیسی نعمت عطا کردی۔

    میری ایک کزن کی شادی کو چھ سال ہوگئے ہیں ڈاکٹرز نے انہیں یوٹرس میں ریزیسٹ بتائی ہے لیکن بہت ہی مائنر قسم کی۔۔۔ڈاکٹرز کا خیال یہی ہے کہ یہ اولاد نہ ہونے میں روکاٹ نہیں بن رہی۔۔۔تو میرا دھیان آپ کی بات کی طرف چلا گیا کہ اس کی وجہ اینٹی باڈیز تو نہیں۔۔۔اس وجہ کو دریافت کرنے کا کوئی طریقہ یا ٹیسٹ جو آپ کے علم میں ہو۔۔۔؟؟؟

    ReplyDelete
  14. بی بی! آپکی بات سو فیصد درست ہے۔ امید ہے اگر آپ اس بارے زیادہ معلومات سے لوگوں کو آگاہ کریں گی تو اسطرح کی مایوسی اور بے چارگی پہ صبر کر جانے والے جانے والے جوڑے یا خواتین بچے کی خواہش کرنے کے علاوہ اپنا علاج کروانے کی ہمت بھی اپنے اندر پا سکیں گے۔

    جہاں تک باڈی ٹمپریچر کے بارے میں گزارش ہے ۔ کہ یہ ان خواتین کے لئیے تھا جو کسی وجہ سے فی الحال علاج سے کرنے کروانے سے قاصر ہیں۔ ویسے بھی عام طور پہ آئی وی ایف ٹیسٹ سے قبل معالج لوگ بھی اپنی پیشنٹ خاتون کو روزانہ کی بنیاد پہ باڈی ٹمپریچر کا ریکارڈ رکھنے کی ہدایت کرتے ہیں تانکہ انھیں بیضہ کے اخراج کے ممکنہ دنوں کے بارے میں پیشگی معلومات رہیں۔ تاہم آپکی بات سو فیصد درست ہے کہ ایسے میں کسی قابل گائناکالوجسٹ سے رابطہ کرنا چاہئیے ۔

    بی بی! اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔ آمین

    ReplyDelete
  15. یہ بات ٹھیک ہے کہ ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے حکم شرعی کے بارے میں اختلاف موجود ہے ۔ میں عرض کرنا چاہوں گا کہ گذشتہ کئی دہائیوں میں جامعۃ الازہر نے بارہا شریعت سے متصادم آراء اور فتوے جاری کیے ہیں ۔ جس کے بعد سے عالم اسلام کے تمام کبار علماء کے نزدیک اس مدرسہ اور یہاں کے علماء کی رائے کی وہ اہمیت باقی نہیں رہی ہے ۔ہندوستان میں دارالعلوم دیوبند اور پاکستان میں بنوری ٹاون کے علماء نے ٹیسٹ ٹیوب بے بی کے عمل کو غیر فطری ہونے کے علاوہ اس بنیاد پر رد کیا ہے کہ اس سارے فعل میں غیر مرد اور عورتیں شریک کار رہتی ہیں۔ اگرچہ خلیہ اور بیضہ شوہر اور بیوی ہی کا کیوں نہ ہو۔ممکن ہے آگے چل کر اس پر مزید علمی تحقیق اس طریقہ کار کو بھی جائز قرار دے ۔ مثلاًرحم میں انجکشن لگانے اور ٹیسٹ ٹیوب میں خلیوں کے ملاپ کاکوئی آسان طریقہ شوہر اور بیوی کو سکھایا جائے اور کوئی غیر مرد و عورت اس عمل میں شریک کار نہ ہوں ۔وغیرہ ۔ واللہ اعلم ۔۔۔

    بندہ فقیر کے رائے میں دو پہلو ایسے ہیں جن پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔اور اللہ نے چاہا تو ضرور اولاد ملے گی ۔
    یاد رہے کہ دین اسلام میں مرد کو ایک سے زائد شادیوں کی اجازت جن حکمتوں اور مصلحتوں کی بنا پر دی گئی ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے ۔ضروری بھی نہیں کہ مرد کسی کنواری عورت سے شادی کرے۔ اگر مطلقہ یا بیوہ عورت سے شادی کی جائے اور اس کے ساتھ بچے بھی ہوں تو بغیر کسی محنت اور وقت کے گھر میں بچے رونق افروز ہوں گے ۔ لیکن افسوس کہ آج مسلم معاشرے میں ایک سے زائد شادیوں کو ایک معیوب اور ناپسندیدہ چیز سمجھا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے یہ مبارک رسم تقریباً ناپید ہو چکی ہے ۔ جب کہ ایک سے زائد شادیاں ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی عظیم اکثریت کا عمل رہا ہے ۔ تفریح طبع کے لیے عرض ہے کہ گود لیے جانے کے ضمن میں یتیموں کو تو یاد رکھا گیا لیکن بیواوں کے حقوق نظر انداز کر دیے جاتے ہیں۔
    دوسرا پہلو مناسب علاج ، تجاویز ، اور مشوروں کا ہے ۔ جیسا کہ جاوید گوندل نے دنوں کی ترتیب وغیرہ کا ذکر کیا ۔دنوں کی ترتیب کے حوالے سے آپ کی بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ ضروری نہیں کہ یہ ایام ماہوار کے نصف ایام ہوں ۔بہر طور اولاد سے محروم افراد کو کئی سال گذر جانے پر بھی مایوس نہ ہوجانا چاہیے ۔ بارہا ایسا دیکھا گیا ہے کہ جنہیں اللہ نے اولاد سے محروم رکھا تھا انہیں نو دس سال کے بعد اچانک اولاد ہوگئی ۔ مجھے کسی جاننے والے نے بتایا تھا کہ ان کے خاندان میں سولہ سال کے بعد اولاد ہوئی پھر ایک سال بعد ایک اور اولاد ہوئی ۔ سبحان اللہ ۔
    اللہ کے برگزیدہ نبی حضرت زکریا علیہ السلام کو اللہ نے بڑھاپے میں اولاد دی تھی ۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان کی دعا بھی نقل فرمائی ہے جسے اکثر بزرگ نئے شادی شدہ افراد کو شادی کے بعد کثرت سے نماز کے درمیان اور نماز کے بعد پڑھنے کی تلقین کرتے ہیں۔ دعا کی قبولیت کی شرائط درج کرنے کا یہاں موقع نہیں ہے ۔ دعا کرنے والے اولاد سے محروم افراد ان شرائط کو بھی ملحوظ رکھیں اللہ نے چاہا تو ضرور اولاد مل جائے گی ۔
    میں ایسی تین قرآنی دعائیں نقل کر رہا ہوں ۔ انہیں نئے شادی شدہ جوڑوں تک ضرور پہنچائیں:
    ۱ - دعائے زکریا علیہ السلام
    رَبِّ هَبْ لِي مِن لَّدُنكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً ۖإِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاءِ
    "پروردگار! اپنی قدرت سے مجھے نیک اولاد عطا کر تو ہی دعا سننے والا ہے
    سورۃ ال عمران : ۳۸

    ۲- اہل ایمان کی دعا
    رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا
    "اے ہمارے رب، ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیز گاروں کا امام بنا"
    سورۃ الفرقان : ۷۴

    ۳ - دعائے زکریا علیہ السلام
    رَبِّ لَا تَذَرْنِي فَرْدًا وَأَنتَ خَيْرُ الْوَارِثِينَ
    "اے پروردگار، مجھے اکیلا نہ چھوڑ، اور بہترین وارث تو تُو ہی ہے"
    سورۃ الانبیاء : ۸۹

    ReplyDelete
  16. امن ایمان، اگر اسپرم اینٹی باڈیز بننے کی وجہ سے ختم ہو رہے ہیں تو اسکا کوئ علاج میرے علم میں نہیں۔ نہ ہی میرے علم میں ایسا کوئ ٹیسٹ ہے حسسے اسکا پتہ چلایا جا سکے۔ آئ وی ایف یا ٹیسٹ ٹیوب بےبی بالکل یقینی حل نہیں ہے ۔ اس طریقے سے اگر سو لوگ اپنا علاج کرواتے ہیں تو محض دس سے پندرہ فیصد لوگ اولاد حاصل کرنے کے مرحلے تک پہنچ پاتے ہیں۔
    اوپر کئ مشورے لوگوں نے دئیے اس میں ایک مشورہ اور شامل کرونگی اور وہ ہے ورزش۔ خاص طور پہ ایسی وزشیں جن میں پیٹ کا نچلا حصہ حرکت میں آتا ہے۔ اس سے تولیدی اعضاء مضبوط ہوتے ہیں اور ان میں حرکت پیدا ہوتی ہے۔ اور بھی بہت ساری تجاویز ذہن میں آرہی ہیں لیکن سوچتی ہوں پوسٹ لکھ دوں۔ اس طرح مزید لوگ بھی پڑھ پائیں گے۔
    عرفان بلوچ صاحب، آپ نے جو دعائیں شیئر کیں انکا شکریہ۔
    دوسری شادی کے حوالے سے یہ کہ اگر خرابی مرد میں نہیں عورت میں ہے تو یہ تجویز قابل غور ہے میں اسکے مخالفین میں نہیں۔ لاکھوں روپے ڈاکٹر اور ہسپتال کو دینے کے بجائے اگر کسی کے ڈھنگ سے جینے کا سامان پیدا کر دیا جائے تو کوئ برائ نہیں اس میں لاوارث بچے اور بیوہ یا غیر شادی شدہ خواتین دونوں ہی آتی ہیں۔
    مگر کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اولاد کے بغیر رہنا مشکل نہیں سمجھتے لیکن اپنے موجود جیون ساتھی کے ساتھ کسی اور کو شامل نہیں کرنا چاہتے یا یہ کہ انہیں اسکے علاوہ کوئ بھاتا نہیں۔ جہاں مردوں کی ایک تعداد مزید شادیوں اور تعلقات کے لئے ہر قسم کے بہانے تراشتی ہے وہاں ایسے مرد بھی ہیں جن کے سامنے اسکا تذکرہ مصیبت بن جاتا ہے۔ ایسی صورت میں دباءو نہیں ڈالا جا سکتا۔ یہ بھی تو ممکن ہے کہ دوسری شادی سے بھی نہ ہو۔ دوسری شادیوں کے اپنے معاشرتی مسائل بھی ہیں۔
    بے ایمانی ہر جگہ ہو سکتی ہے۔ ہسپتال میں بچے پیدا ہوتے ہیں اور والدین کو پتہ بھی نہیں ہوتا اور بچے تبدیل ہو جاتے ہیں۔ تو کیا اس بناء پہ ہسپتال میں بچوں کی پیدائش نہیں ہونی چاہئیے۔
    یسٹ ٹیوب بے بی کے لئے جس سارے عم سے گذرا جاتا ہے اسکے لئے لیبارٹری کی مخصوص ضروریات چاہئیے ہوتی ہیں اور پیشہ ورانہ مہارت اسکے بغیر عام لوگ اسے انجام نہیں دے سکتے۔
    ہم امید کرتے ہیں کہ مستقبل میں سائینس کچھ آسان طریقے معلوم کرنے میں کامیاب ہو جائے گی مگر یہ مستقبل اگلے پچاس سال دور ہے یا پانچ سو سال نہیں معلوم۔
    باقی یہ کہ اگر اولاد نہیں ہوتی تو بھی دنیا ختم نہیں ہو جاتی۔ اللہ بہتر وارث ہے، اپنی اولاد بھی کام نہیں آپاتی۔ مثلاً وہ اولادیں جو اس وقت دوسرے ملکوں کے شہری بنے بیٹھے ہیں اور انکے والدین پاکستان میں اکیلے ہیں۔ یہ اولادیں چاہیں بھی تو کام نہیں آ پاتیں۔
    صرف یہ کہ انسان کی زندگی میں ایک بہتر مقصد رہتا ہے۔ اگر خدا نے کسی کو اس نعمت سے نہیں نوازا تو حالت افسوس میں رہنے کا کوئ فائدہ نہیں۔ اپنے لئے بہتر مقاصد اور بہتر ترجیحات کا تعین کریں۔ زندگی ایک بار ملتی ہے۔ اس سے بڑھ کر کوئ نعمت نہیں۔ دنیا کے کینوس سے جس دن ہم ہٹ جائیں گے اس دن ہمارا کھاتا ختم۔ اس نعمت کی قدر کرنی چاہئیے۔ اور جو چیزیں کاتب تقدیر نے ہمیں باوجود کوشش کے نہیں دیں۔ ان پہ صبر کریں ۔ دنیا بہت وسیع ہے اور زندگی میں لا تعداد معنی ہیں۔

    ReplyDelete
  17. کل سے ہی اس مفید مراسلے اور تبصروں پر نگاہ جمائے ہوئے ہوں۔ کافی معلوماتی سلسلہ چل نکلا ہے۔

    ReplyDelete
  18. میں اس طرح کی بحث کو وہ بھی ایک خاتوں سے کرنا شرم و حیا کے تصور کے خلاف سمجھتا ہوں اس لئے میں موضوع اور مضمون سے سرف نظر برکتے ہوئے میں صرف اتنا پوچھنا چاہوں گا کہ اپکے قلم کی دھار ہمیشہ مذہب، دین اسلام اور دین داروں کی گردن پر ہی کیوں چلتی ہے کبھی روشن خیالوں اور مادر پدر آزاد انسان نما بھیٹریوں کو بھی ذیر بحث لے آیا کریں.

    ویسے اس موضوع پر آپ نے جو کچھ لکھا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ طب اور شریعت کے شعبے میں آپکا علم انتہائی محدود، قابل اصطلاح اور ادھر ادھر سے سنا سنایا ہوا ہے. اس لئے میرے مشورہ یہ ہے کہ ایسے تیکنیکی اور فقہی موضوع پر زور آزمائی سے پہلے تحقیق کے تقاضے پورے کرلیا کریں، نہ کہ عورتوں کی چوں چا کو مضمون بناکر چھاپ دیا اور کینیڈا سے واہ واہ موصول کرلی. بہرحال مرضی آپکی ہے! مانے نہ مانیں

    ReplyDelete
  19. اس موضوع پر مزید تفصیلی پوسٹ کا انتظار رہے گا۔

    ReplyDelete
  20. کاشف نصیر صاحب، آپ پمیشہ اپنی ناپختگکی کا ثبوت دیتے ہیں اور پھر تان روشن خیالوں پہ توڑتے ہیں۔
    آپ مجھ سے ایسے مضمون پہ بات نہ کریں۔ کسی مرد سے کیجئیے گا۔ میں بھی آپ سے اس موضوع پہ بات کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ کیونکہ نہ آپ کو اسکی ضرورت ہے، نہ دلچسپی اور نہ علم اور نہ آپ اسے مسئلہ سمجھتے ہیں۔
    لیکن سوال ذہن میں آتا ہے کہ مولوی صاحبان جب خواتین کی خلوت اور جلوت پہ انتہائ تفصیلی گفتگو فرماتے ہیں اور پھر فتوے جاری کرتے ہیں اس وقت بھی آپکو یہ اتنا ہی برا لگتا ہے یا نہیں۔
    دوسری بات یہ کہ آپ ہر دفعہ مجھے ہی لا علم ٹہراتے ہیں اور ہر دفعہ بادل ناخواستہ مجھے ہی آپکی کم علمی کا مرتبہ بتانا پڑتا ہے۔
    آپ شاید کبھی بنیادی سائینس کے طالب علم نہیں رہے۔ میری تعلیم کا موضوع نیچرل پروڈکٹ کیمسٹری اور انکی سنتھسز رہا ہے۔ ان مرکبات کی تلخیص اور سنتھسز جانتے ہیں کس لئے کی جاتی ہے تاکہ ان سے انسانوں کے لئے دوائیں تیار کی جا سکیں۔اب اگر آپ ذرا بھی دماغ پہ زور دیں تو اندازہ یوگا کہ ایک ایسے شخص کو جو انسانی بیماریوں کے لئے دوائیں بنانے کے عمل میں شریک ہے وہ انکی بیماریوں اور اسکی وجوہات سے نا آشنا کیسے رہ سکتے ہے اسے یقیناً اسکی بھی تعلیم دی جاتی ہوگی۔
    براہ مہربانی اپنے تبصروں میں جب آپ کسی کے علم کو کم تر اور غلط کہتے ہیں وہاں مقامات اغلاط کی نشاندہی بھی کیا کریں۔ اسکے بغیر یہ اعتراض برائے اعتراض اور آپکی اپنی کم علمی کے سوا کچھ نہیں لگتا۔ آپکے اور کچھ اور لوگوں کے کیس میں یہ ریکارڈ کیا ہوا جملہ لگتا ہے جو آپ نے میرے بلاگ کے لئے جمع کروایا دیا ہے۔

    ReplyDelete
  21. بہت اچھے موضوع پر لکھا ہے اور ان موضوعات کی اہمیت کا اندازہ محض اسی وقت ہوپاتا ہے جب انسان کے اوپر پڑتی ہے۔

    آپ مولانا حضرات کی باتوں پو اتنا دھیان دینا چھوڑ دیں اور اور ان کو ان کی دنیا میں مگن رہنے دیں آپ کے مسلسل جواب دینے سے شاید انہیں ایسا محسوس ہونے لگا ہے جیسے وہ واقعی کوئی مدلل بات کررہے ہیں جبکہ شاید ہی یہ حضرات اپنا لکھ کر دوبارہ پڑھنے کی زحمت کرتے ہیں ورنہ ایک ہی پیرا میں اتنے تضادات نا ملیں۔ جن لوگوں کے لیے ۱۹۹۰ میں ٹی وی حرام تھا آج ان کے چوبیس گھنٹے چلنے والے ٹی وی چینلز ہیں جس سے ان کے فتووں کی پختگی اور پائیداری کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ جب تک ان کے فتوے اس مسئلے کو سلجھائیں گے تب تک دنیا کئی صدیاں آگے جاچکی ہوگی۔

    ReplyDelete
  22. پہلی بات یہ ہے کہ میں نے درج بالہ تبصرے سے پہلے کبھی آپ کو کم علم نہیں کہا بلکہ یہ تو آپکا انداز ہے کہ اختلافی نقات اٹھانے والے کو کم علم اور کج فہم کہ کر اپنے خاص تحکمانہ انداز میں اسکی درگت بنائی جائے۔ درج بالہ تبصرے میں میرا آپ کی علمی قابلیت کو چیلنج کرنے کا مقصد آپ کے جوابی روئے کو دیکھنا اور اوروں کو دکھانا ہی مقصود تھا جس میں کافی حد تک کامیاب رہا۔

    موصوفہ آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ کو خود کو انتہائی عالم فاضل اور عقل و شعور کا منبہ سمجھتی ہیں اور اپنے نظریاتی و علمی مخالفین کو احمق، جاہل اور گنوار سے زیادہ نہیں سمجھتیں۔ یہ غرور، یہ تکبر اور یہ اکٹر آپکی تحریر کو بے مقصد بنا چکا ہے۔

    اگر آپ یہ سمجھتی ہیں کہ لوگ آپکی تحریر پڑھنے اور اس سے فائدہ حاصل کرنے آتے ہیں تو یہ بھی خام خیالی ہے لوگ یہاں صرف تفریح لینے آتے ہیں جسکا سامان آپ خوب کرتی ہیں۔

    اور یہ جو آپ کہ رہی ہیں کہ مجھے بھی آپ سے اس موضوع پر بات کرنے کا کوئی شوق نہیں ہے بلکل غلط ہے کیونکہ اگر میں بھی یہاں جاوید گوندل کی طرح کی باتیں کرتا تو آپ اسکے لمبے چوڑے جواب دیتیں۔

    اور آخری بات یہ کہ آپ سے کس نے کہا کہ آپ مردوں یا عورتوں کے خلوت و جلوت پر بحث نہ کریں، لیکن کم از کم میں نے اپنے لئے اخلاقی حدود متعین کی ہوئی ہیں، کیا آپ یہ بحث اپنے والد، بھائی اور بیٹے سے کریں گی اگر کریں گی تو بھلے کریں۔ مجھے کیا۔ آپ جانیں اور آپ کی شرم و حیا۔

    ReplyDelete
  23. کاشف نصیر صاحب، کیا میرے بلاگ کی ٹیگ لائن پہ یہ لکھا ہے کہ یہاں ہر خاص و عام کی فلاح اور فائدے کی بات کی جاتی ہے۔ نہیں اس لئے میں یہ نہیں سمجھتی، جو آپ کہہ رہے ہیں۔ یہ میرا بلاگ ہے، میں اپنے خیالات شیئر کرتی ہوں۔ جس موضوع پہ پچاس لوگوں کے سامنے لیکچر دے سکتی ہوں اس پہ لکھنا کوئ برائ نہیں سمجھتی۔
    آپکی منگیتر آپ ایک دفعہ کہہ رہے تھے کہ میڈیکل کالج کی اسٹوڈنٹ ہیں۔ ذرا ان سے معلوم کیجئیے گا کہ وہاں طبی تعلیم کیسے دی جاتی ہے۔ انسانوں کی بیماریاں یا انکے جسمانی مسائل جب اپنی اخلاقیات نہیں دیکھتے تو انکا علاج کرنے میں کون سی اخلاقیات۔
    خود قرآن جسکا پڑھنا اور سمجھنا ہر مسلمان پہ ضروری ہے اور اس میں عمر کی بھی قید نہیں۔ اس میں تو مسائل کو بڑے کھول کھول کر سمجھایا گیا ہے۔ وہاں ، آپ کیا کرتے ہیں؟
    میں نے آپ سے کہا کہ یہ مسائل آپکے لئے نہیں۔ جب ضرورت ہو تو اس تحریر کو چھانیئے گا۔ ابھی آپ اس پہ آنے سے پرہیز کریں۔
    میں تو اس سے پہلے لا تعداد بار آپ سے کہہ چکی ہوں کہ میری بے مقصد تحاریر پہ وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں۔ لیکن آپ پھر اسی بے مقصد تحریر پہ وہی پرانے تبصرے دینے کے لئے حاضر ہوتے ہیں۔ اب اگر آپ یہ زحمت نہ کرتے تو معاملہ طول نہ کھنچتا۔ مجھے کسی شخص میں اتنی برائیاں نظر آئیں تو سچ مچ کبھی اسے نہ پڑھوں، تبصرہ کرنا تو دور کی بات ہے۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ