Saturday, February 11, 2012

تقدس سے باہر-۳


عرب معاشرہ اس وقت بنیادی طور پہ جن مسائل کا شکار تھا وہ معاشرتی اور معاشی دونوں تھے۔
معاشرتی مسائل دراصل معاشی حالات کی دین تھے یا جیسا کہ قبائلی نظام کا خاصہ ہوتا ہے انسان کی آزاد روی کو روکنے کے لئے وہ شخصی بت تراشتی ہے اور عام انسان کی قدر کم کرتی ہے۔ یہ قبائلی معاشرہ جیسا کہ دنیا کے بیشتر حصوں میں رواج ہے مرد کی سربراہی میں چلتا تھا۔ ایسے میں اگر عورت کی کوئ حیثیت متعین ہوتی تھی تو وہ بھی مرد کی نسبت سے۔ اور مرد سے اسکا ایک تعلق مسلم سمجھا جاتا ہے وہ ہے جنسی تعلق۔
سو اس عرب معاشرے میں عورت کی حیثیت جنس کے گرد گھومتی تھی۔  اگر اسے کچھ قبائل میں عزت حاصل تھی تو اسکی بنیادی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اسکی طرف مرد کا جنسی التفات زیادہ ہوتا تھا۔  یوں قبائل کے درمیان اگر عورت کی وجہ سے جنگ بپا ہوجاتی تو اسی کی وجہ سے امن بھی قائم ہوجاتا۔
طبقہ ء اشرافیہ میں عورت کے لئے ضروری تھا کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہ کرے۔   اسکے علاوہ جنسی تعلق کے جو طریقے رائج تھے وہ نہ صرف آجکے اسلامی معاشرے میں زنا کی ضمن میں آتے ہیں بلکہ انکا مقصد بھی عیاشی یا جنس تک سستے طریقے سے پہنچنے کے علاوہ کچھ نہیں لگتا۔
عورت اپنے مرد کی جاگیر تصور کی جاتی یہی وجہ ہے کہ جنگ میں ہارنے والے فریق کی عورتیں فاتح قوم کے حرم میں داخل کی جاتیں۔ باپ کے مرنے پہ ماں بیٹے کی ملکیت تصور ہوتی۔
یہ تو آزاد عورتوں کا حال تھا۔  عرب قبائلی نظام میں لونڈیوں اور غلاموں کا رواج بھی تھا۔ لونڈی صرف گھریلو امور میں مددگار نہ ہوتی بلکہ چونکہ اسکی حیثیت ایک فروخت شدہ انسان کی ہوتی اس لئے مالک جب چاہے اس سے جنسی تعلق قائم کر لیتا۔ پیدا ہونے والی اولاد کا مرتبہ آزاد عورت سے پیدا ہونے والی اولاد کے مقابلے میں  کم ہوتا۔ اس سب کے بعد مالک جب چاہے اسے کسی بھی نئے مالک کے حوالے کر سکتا تھا۔

معاشرے میں مرد کی اہمیت مسلم تھی اور اولاد سے مراد بالعموم مرد اولاد ہوتی تھی۔ لڑکیوں کو اولاد تصور نہیں کیا جاتا تھا۔ اس لئے اگر ایک شخص کی درجن بھر بیٹیاں ہوتیں اور لڑکا نہ ہوتا تو اسے بے اولاد ہی سمجھا جاتا۔ جیسا کہ سورہ کوثر میں اللہ تعالی ، رسول اللہ کو تسلی دیتے ہیں کہ تمہارا دشمن ہی بے اولاد مرے گا۔ حالانکہ اس وقت رسول اللہ کی بیٹیاں موجود تھیں۔ لیکن بیٹے کی وفات پہ رسول اللہ کے غم کو ہلکا کرنے کے لئے یہ الفاظ کہے گئے۔ اگر ہم فوٹون کی نظر سے دیکھیں تو یہ رسول اللہ کی وہ کوشش لگتی ہے جو انہوں نے معاشرے میں خواتین کی حیثیت بلند کرنے کے لئے کی۔ یعنی انسان کا نام اور عزت اولاد کی محتاج نہیں ہوتی بلکہ اسکے اپنے اعمال اسے اس قابل بناتے ہیں کہ لوگ اسے تا دیر عزت اور احترام سے یاد رکھیں۔ اس لئے قرآن کی زبانی یہ کہا گیا کہ بے شک تمہارا دشمن ہی بے اولاد رہے گا۔ وہ دشمن جو نبی کی اس جدو 
جہد میں رکاوٹ تھے جو وہ اس معاشرے کے گرے پڑے، کمزور انسانوں کے لئے کر رہے تھے۔ 

زیادہ بیٹے زیادہ عزت کا باعث ہوتے کیونکہ قبائلی جنگوں میں وہ لڑنے کے کام آتے تھے۔ زیادہ لڑکے، زیادہ لڑنے والے ہاتھ زیادہ جان کا نذرانہ پیش کرنے والے لوگ۔ جبکہ لڑکیاں اس صورت میں زیادہ کار آمد نہ ہوتیں سوائے اسکے جنگ کے میدان میں مردوں کے حوصلے بڑھانے کے لَئے جنگی گیت گائیں یا زخمی سپاہیوں کی دیکھ ریکھ کر لیں۔ معاشرہ اس قدر زیادہ مرد کے حق میں بڑھا ہوا تھا کہ غیرت کو بنیاد بنا کر بعض قبائل میں لڑکیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیا جاتا۔
جنگ ان قبائل کا پسندیدہ مشغلہ تھی اور انکی اقتصادی حالات کی خرابی کا ذمہ دار بھی۔ زراعت اور گلہ بانی دو ممکنہ ذرائع آمدنی تھے۔ عرب کا یہ خطہ زراعت کے حساب سے اتنا زرخیز نہیں تھا کہ اس پہ انحصار کیا جا سکتا۔ اس لئے آمدنی کا بڑا ذریعہ تجارت تھی یا زائرین جو مکہ آیا کرتے تھے۔
جہاں تک صنعتوں کا تعلق ہے عرب اس میدان میں ساری دنیا سے پیچھے تھے۔ اگر کسی جگہ کپڑے کی بنائ یا چمڑے کی دباغت کی ابتدائ صنعتیں پائ جاتی تھیں تو یہ وہی علاقے تھے جو زیادہ جدید تہذیبوں کے قریب واقع تھیں۔ عرب کے اس خطے میں بالکل موجود نہ تھیں۔  خواتین بھی اپنے طور پہ اس معاشی جدو جہد کا حصہ تھیں وہ سوت کاتنے کا کام کرتیں اور آمدنی پیدا کرتیں۔ لیکن تین قابل احترام مہینوں کو چھوڑ کر سال کے نو مہینے جاری رہنے والی جنگ پہ بیشتر آمدنی لٹا دی جاتی اور یوں عام انسان فقر اور فاقے سے باہر نہ نکل پاتا فقر کا عالم یہ تھا کہ پہننے کو کپڑے اور کھانے کو خوراک موجود نہ تھی۔
جنگ اس قدر دلچسپ مشغلہ تھا کہ عربی ادب کا ایک بڑا حصہ اسکے لئے وقف تھا۔ اس میں جنگوں کے حالات سچ جھوٹ ملا کر لکھے جاتے اور اپنے قبائل کے بہادر جنگی لوگوں کی تعریفوں کی شان میں قصیدے کہے جاتے تاکہ قوم میں لڑنے کا جذبہ قائم رہے۔ شعراء کی اس لئے عرب معاشرے میں بڑی حیثیت تھی۔ جنگ کے یہ قصےمغازی کہلاتے تھے۔
یوں اس معاشرے کی جو بنیادی خرابیاں فوٹون کو سمجھ میں آتی ہیں وہ اقتصادی، جنگی اور جنسی افراط و تفریط ہے۔ ان کا 
شرک یا توحید سے کیا تعلق بنتا ہے؟ فوٹون اس پہ سوچتا ہے فوٹون جو اپنے بنیادی نظریات میں ایک لا دین شخص ہے۔


جاری ہے۔

نوٹ؛ اس تحریر کی تیاری میں جن کتب سے مدد لی گئ ہے وہ یہ ہیں۔ مولانا شبلی نعمانی کی کتاب سیرت النبی، اسکے پبلشر ہیں الفیصل ناشران و تاجران کتب اور مولانا صفی الرحمن مبارکپوری کی الرحیق المختوم جسکے پبلشر ہیں المکتبہ السلفیہ لاہ


شبلی نعمانی کی سیرت النبی یہاں سے ڈاءونلوڈ کیجئیے۔
الرحیق المختوم یہاں سے ڈاءونلوڈ کریں۔

12 comments:

  1. کتنی اقساط کا ارادہ ہے ؟

    ReplyDelete
  2. آپکا بہت بہت شکریہ،
    رحیق المختوم تو میرے پاس تھی،
    مگر شبلی نعمانی کی سیرت النبی کی اشد ضرورت تھی جو آپکے لنک لگانے سے پوری ہوگئی جزاک اللہ خیر عنیقہ!

    ReplyDelete
  3. میں آپ کے اس قسط وار ڈرامہ سیریل کو بڑی دلچسبی سے پڑھ رہا ہوں، اور شاید اس پر کچھ قلم زنی بھی کروں :)

    ReplyDelete
    Replies
    1. اندازے بیاں گر چے "بہت" دھمکی آمیز نہیں ہے لیکن قلم زنی از قسم گردن زنی است؟

      Delete
  4. Momineen will be pleased to know that PTI led Lahore High Court bar has immediately banned Shezan products from LHC bar premises.
    http://blogs.tribune.com.pk/story/10214/to-ban-or-not-to-ban-shezan-juice/

    If anyone had any misgivings about Imran due to his, ahem, less than shar-aee past, then know that once imran is in power we will once again see the revival of the golden era of Hazrat Zia-ul-Haq. Inshallah.

    PS: No yahoodi products have been banned as we do not want to offend bibi Jemima. We hope momineen will understand.

    ReplyDelete
  5. اس پورے مضمون کو پڑھا، اور عنوان کے سوا کچھ نیا نہ پایا اور عنوان بھی ایسا جو تین اقساط کی تکمیل کے بعد بھی مجہول کا مجہول رہا کیا کہنے، لگتا ایسا ہے کہ ایک پی ایچ ڈی کا تھیسس اسلامیات کے کسی زیادہ عقلمند استاد نے لکھا ہو اور اس کو چضہ و وردی پہنا کر ایک بڑا سا سہرا اس کے گلے میں ڈال دیا ہو اور اس پر بڑا بڑا لکھ دیا ہو، تقدس سے باہر، ہذا مقالہ برائے حصول ڈگری است۔ ہا ہا ہا
    جمشید

    ReplyDelete
    Replies
    1. لوگ آپکی پٹائ لگا دیں گے۔ میں اور اسلامیات کا عقلمند استاد۔
      :)

      Delete
    2. یعنی اندازہ درست است، ہیڈ ماسٹرنی صاحبہ یہ بتائے صرف پٹائی ہی کروائیں گی یا بات اس سے بی آگے جاسکتی ہے مثلا مجھے چھ سو دفعہ یہ لکھ کر دکھانا پڑے گا کہ اب میں اپنی "تحریر" میں استاد سے "شوخی" نہیں کروں گا اور اس کے "تقدس" کا خیال کرتے ہوئے اسے "تقدس سے باہر" نہ کروں گا۔،
      جمشید

      Delete
    3. میں اور آپکی پٹائ کروں۔ چہ پدی چہ پدی کا شوربہ۔ یہ تو میرے کچھ قارئین ہیں جنہیں میری اسلامیات سے شدید اختلاف ہے وہ لگائیں گے۔
      مجھے ذہین اور حاضر جواب لوگ پسند ہیں۔ ان سے بات کر کے کچھ نیا بھی ملتا ہے۔ یعنی حاضر جوابی کے ساتھ ذہانت کا ہونا ضروری ہے ورنہ بس پھر جگتیں رہ جاتی ہیں جو تھوڑی دیر میں بور کر دیتی ہیں۔

      Delete
  6. آداب۔
    عنیقہ صاحبہ، عمدہ اندازِ تحریر اور متاثر کن مطالعہ کے لیے ہماری جانب سے مبارک باد قبول فرمائیے۔ کچھ دنوں سے اردو بلاگز کی دنیا کھوجتے پھر رہے ہیں۔ آپ جیسے لوگوں کا کام دیکھ کر لطف آتا ہے۔ سدا خوش رہیے!

    ReplyDelete
  7. ایک درستگی، باپ کے مرنے کے بعد ماسوائے حقیقی ماں کے، باقی تمام سوتیلی مائیں بیٹے کے قبضے میں چلی جاتی تھیں

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ