Tuesday, December 14, 2010

زندہ روشنی-۲

بائیو لیئو می نیسنس سے جو روشنی پیدا ہوتی ہے وہ ٹھنڈی روشنی بھی کہلاتی ہے کہ یہ زیادہ توانائ نہیں رکھتی۔ بہت کم دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ یہ توانائ تھرمل اخراج سے ہو، جس سے کہ گرمی پیدا ہوتی ہے۔
گہرے پانیوں میں رہنے والی نوے فی صد مخلوقات یہ روشنی پیدا کرتی ہیں یا اسے استعمال کرتی ہیں۔ وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ گہرے سمندروں میں اتھاہ تاریکی ہوتی ہے۔ تو آخر اپنے ماحول اور آپس میں تعارف کیسے حاصل ہو۔ یوں یہ بزبان روشنی ہوتا ہے۔
سمندری مخلوقات زیادہ تر نیلی یا سبز روشنی پیدا کرتی ہیں کہ سمندر کا نمکین پانی انہیں آسانی سے منتقل کر دیتا ہے۔ لیکن کچھ جاندار، سرخ، پیلی اور انفرا ریڈ روشنی بھی پیدا کرتے ہیں۔
زمین پہ یہ عمل خاصے کم جانداروں میں ہوتا ہے۔ جگنو ، گلوورمز، کچھ حشرات، لاروا، اینیلڈز، ایرایکنیڈز اور کچھ بیکٹیریا اور پھپھوند بھی یہ روشنی پیدا کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ بعض مخلوقات اپنی اس خصوصیات کو صرف رات کے وقت ہی ظاہر کرتی ہیں اور ایک دوری عمل سے گذرتی ہیں۔ یعنی دن کے وقت کچھ اور رات کے وقت کچھ اور۔

گلو ورم


ایک اینیلڈ

اس عمل کا بنیادی مقصد تو توجہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔   پروین شاکر نے کہا کہ
جگنو کو دن کے وقت پرکھنے کی ضد کریں
بچے ہمارے عہد کے چالاک ہو گئے
بچوں کی طرح دیگر جاندار بھی توجہ حاصل کرنے کا فن سیکھتے ہیں۔  کبھی اداءوں سے اور کبھی کچھ مختلف خصوصیات پیدا کر کے۔ روشنی  میں انسان کے لئے شاید سب سے زیادہ کشش ہے۔ حضرت موسی بھی جسے روشنی سمجھ کر بڑھے تھے وہ خدائے پاک کی تجلی تھی۔ مگر میرا یہ بیان غلط ہوگا اگر میں یہ نہ کہوں کہ دیگر جاندار بھی روشنی کے لئے رد عمل ظاہر کرتے ہیں۔ کچھ اس سے محظوظ ہوتے ہیں اور کچھ اس سے خوفزدہ۔ کچھ اسے گفتگو کی زبان کے طور پہ استعمال کرتے ہیں۔
 اس طرح بائیولومی نیسنس کے جو فائدے نظر آتے ہیں وہ یہ ہیں۔
اپنی برادری کے جاندار کو اپنی طرف راغب کرنا، اس طرح زوجگی کا مرحلہ آسان ہوتا ہے۔ اور بہت دور سے بھی ایک جاندار کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ اسکا جوڑی دار کہاں موجود ہے۔ تو یہ روشنی ملن کی روشنی ہوئ۔ یہ روشنی صرف ملن کی نہیں موت کی روشنی بھی ہو سکتی ہے اگر جاندار اپنے شکار کو رجھانے کے لئے اس روشنی کا اخراج کر رہا ہے تو وہ اپنے شکار کی نفسیات سمجھتا ہے۔ یوں ایسی روشنی کی طرف لپکنے والے جلد ہی زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں اور جیت چالاکی کی ہوتی ہے۔ سو چمکتا جو نظر آتا ہے سب سونا نہیں ہوتا۔
کچھ جاندار اپنے بچاءو کے لئے اس روشنی کو خارج کرتے ہیں کہ انکے شکاری جاندار اس روشنی سے خوفزدہ ہوجاتے ہیں۔ جیسے ہی شکاری جاندار قریب آتا ہے۔ شکار ہونے والا جاندار یہ روشنی خارج کرتا ہے اور وہ بھاگ جاتا ہے۔ یہ عمل کچھ اسکوئڈز میں پایا جاتا ہے۔ یہاں ایک کیچوے کے بارے میں بھی یہی کہانی موجود ہے۔
کچھ جاندار خود تو یہ خاصیت نہیں رکھتے مگر انکے جسم پہ ایسے بیکٹیریا موجود ہوتے ہیں جو یہ روشنی پیدا کرتے ہیں۔ یہ جاندار اپنے بدن پہ موجود ان بیکٹیریا سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور دوسرے جانداروں کو دھوکے سے شکار کر لیتے ہیں۔اینگلر فش یہ تیکنیک  کیسے استعمال کرتی ہے۔  یہ ویڈیو حاضر ہے۔

 

کچھ جاندار مثلاً بلیک ڈریگن فش اس روشنی کو ٹارچ کی طرح استعمال کرتے ہیں۔ اور اسکی مدد سے شکار تلاش کرتے ہیں۔
بیکٹیریا اس عمل کو کورم سینسنگ کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ کورم سینسنگ جیسا کہ اصطلاح سے ظاہر ہوتا ہے بیکٹیریا کی ایک مخصوص تعداد یا کم از کم مخصوص تعداد ہوتی ہے۔ جو انہیں اپنی بقاء کے فیصلے ، ، مجموعی طور پہ کرنے کے لئے چاہئیے ہوتی ہے۔ اس سے یوں لگتا ہے کہ بیکٹیریا میں بھی جمہوری طرز عمل کسی حد تک پایا جاتا ہے۔ مذاق بر طرف، جب بیکٹیریا ایک مخصوص تعداد پہ پہنچ جاتے ہیں تو وہ روشنی کے اخراج سے ظاہر کرتے ہیں کہ اب ہم متفقہ فیصلے کرنے کے لئے تیار ہیں۔
 بائیو لیئومی نی سینس پیدا کرنے والی مخلوقات،اس سلسلے میں بھی اپنی انفرادی خصوصیات رکھتی ہیں۔ سو وہ مختلف طول موج کی روشنیوں کا اخراج کرتے ہیں، جن کی مدت اخراج، اور وقفہ ء اخراج مختلف ہوتا ہے۔
کیا ہمیں اپنے رب کی ان نشانیوں پہ حیرت کا اظہار کر کے سجدہ ء شکر بجا لانا چاہئیے اور اسکی صناعی کو تسلیم کر کے بیٹھ جانا چاہئیے۔ خدا نے انسان کو اس خمیر سے نہیں بنایا۔
اہل تحقیق، قدرت کے ان مظاہر کو انسانوں کی فلاح اور بہبود میں کام لانا چاہتے ہیں۔ یہ یقیناً نشانیاں ہیں کہ انسان مزید کیا کچھ کر سکتا ہے۔ سو اس عمل کو جان لینے کے بعد انسان میں یہ خواہش پیدا ہوئ کہ ہم خدا کی طرف سے عطا کردہ ان نشانیوں یا علامتوں کو بطور انسان اپنے کن مقاصد میں استعمال کر سکتے ہیں۔
انسان کا خیال ہے کہ وہ جینیٹک انجینیئرنگ سے مختلف جانوروں یا پودوں یا زندگی کی دوسری حالتوں میں روشنی پیدا کرنے والے جینز ڈال سکتا ہے۔ اس طرح وہ انہیں مختلف مقاصد کے لئے کام میں لا سکتا ہے۔
مثلاً ایسے درخت پیدا کئے جا سکتے ہیں جو روشنی پیدا کرتے ہوں اور انہیں سڑکوں کے کنارے لگایا جا سکے۔ اور اس طرح اسٹریٹ لائٹس کی شکل میں ضائع ہونے والی توانائ بچائ جا سکے۔


ایسی فصلیں اور گھریلو پودے جنہیں جب پانی کی ضرورت ہو روشنی خارج کریں۔ اس طرح پانی کی بچت ہوگی۔
غذائ اجناس میں جراثیم کی آلودگی  یعنی بیکٹیریا آسانی سے معلوم کیئے جا سکیں گے۔
قیدیوں اور ذہنی مریضوں میں ایسے شناختی نشان پیدا کئے جا سکیں جو فرار ہونے کی صورت میں انکی نشاندہی کر سکیں۔
اور ہاں مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کرنے والی فلم میں 'اویٹار' میں  کیا آپ نے بائیو لومی نیسنس کا استعمال دیکھا، اگر یاد نہیں آرہا تو پھر سے دیکھیں۔ اس میں موجود خلائ مخلوق کے جسم پہ منور نشانات شاید اس خیال سے متائثر ہوں۔ ریسرچ کہتی ہے کہ انسان بھی ایک حد میں روشنی کا اخراج کرتا ہے۔ پڑھئیے یہ تحریر۔

 ۔
۔
۔
اقبال اپنی نظم جگنو کے آخر میں سوال رکھتے ہیں کہ
یہ اختلاف پھر کیوں ہنگاموں کا محل ہو
ہر شے میں جبکہ پنہاں خاموشی ازل ہو

اس سوال کا جواب آپ پہ چھوڑتے ہوئے، مزید مطالعے کے لئے دیکھئیے یہ لنکس۔
یہ کتاب

  http://www.oregonlive.com/environment/index.ssf/2009/08/flamboyant_deepsea_worms_disco.html
نیلی ٹائڈ
http://www.scientificamerican.com/slideshow.cfm?id=bioluminescent-avatar&photo_id=A2922CB3-A0F2-C2E4-154E3CF177F773FB
http://www.scientificamerican.com/slideshow.cfm?id=bioluminescent-avatar&photo_id=A2922CB9-D6FF-DE0E-E98AE3D4C9862ECF
http://www.quantum-immortal.net/physics/biolum.php

12 comments:

  1. اب تو جگنو کو بھی کےای ایس سی نے بل بھہچنا شروع کر دیا ہے وہ بھی دن میں 14 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ پر ہے-

    ReplyDelete
  2. اوجی انسانوں کی بھی کم از کم دو اقسام ہیں۔ ایک وہ ہے جو روشنی خارج نہیں بلکہ صرف جذب کرتی ہے۔ اسی لئے ان میں روشنی خارج کرنے والے انسانوں اور بیکٹیریاز کی مانند جمہوریت پیدا نہیں ہوسکتی۔ اسے سوشل لاء آف تھرمو انسانیت کہتے ہیں۔ مزید تحقیق ابھی جاری ہے۔

    ReplyDelete
  3. بہترین اور محنت طلب تحریر ھے، قدردانی ھے آپ کے لئیے۔

    ReplyDelete
  4. اس تحقیق کو شئیر کرنے کا شکریہ
    بلاشبہ ایسے عظیم مظاہر قدرت کو جاننے کے بعد انسان کم از کم کچھ دیر کے لیے تو اپنے رب سے قریب ہو جاتا ہے
    سبحان اللہ

    ReplyDelete
  5. ماشاءاللہ اچھی پوسٹ ہے۔

    ReplyDelete
  6. کچھ دیر کے لیے آپ نے مُجھے رب کے بُہت قریب کردیا ۔ آپکا بُہت شُکریہ

    ReplyDelete
  7. بچپن میں پنجاب کے موسم گرما کی شامیں یاد آگئیں۔ ایک باغیچہ کے پاس سے گزر ہوتا تھا۔ شام ڈھلتے ہی اس باغیچے کے اس پار اونچی گھاس جگ مگ ہو جاتی تھی۔ سینکڑوں جگنو جھلملاتے تھے۔ شوق سے ہم بھی کوئی بھولا بھٹکا جگنو پکڑ کر گھر لے آتے۔ اپنے مکان کے دالان میں چھوڑ دیتے کہ شائد اپنے ساتھیوں کو بلا لے اور ہمارے ہاں بھی چراغاں ہو۔
    لیکن جگنو ہم سے پرے ہی رہے۔دور سے ہی نظارے کراتے۔ ہر سال اپنی محفل جماتے۔ ہم پنجاب چھوڑ گئے اور یہ جگنو بھی۔

    ReplyDelete
  8. ایک اچھی کاوش ہے۔ اردو زبان میں اسطرح کا مواد نہ ہونے کے برابر ہے۔ اسطرح کے مضامین کو اردو زبان میں ڈھالنے ، سنوارنے کا کام جاری رہنا چاہئیے۔

    اللہ تعالٰی آپ کو جزاءے خیر دے۔

    ReplyDelete
  9. یقینا آپ نےبڑی عرق ریزی سے یہ نہایت معلوماتی مضمون تحریر کیا ہے۔ میرے نزدیک زیادہ اہم بات اس کا اُردو زبان میں ہونا ہے،جو ہماری بے توجہی کی بنا پر جدید علمی اور سائنسی حوالے سے بڑی حد تک تہی دامن ہے۔ایسی سلیس اور عام فہم تحریروں کے ذریعے ہی ہم سائنسی مضامین و موضوعات کو اپنے عام لوگوں میں مقبول بنا سکتے ہیں۔ انگریزی کی بین الاقوامی علمی، سائنسی اور کاروباری اہمیت اپنی جگہ، اور بحیثیت ایک زبان کے اسکی تحصیل ایک ضروری امر ہے۔ لیکن یہ زبان ہمارے عوام الناس میں کبھی مقبول ہوئی اور نہ ہی شاید آئندہ ہو سکے۔ اس کی ایک تازہ مثال ڈان نیوز جیسے وقیع انگریزی ٹی وی چینل کے پرائم ائر ٹائم کی اُردومیں منتقلی ہے۔
    میرے چھوٹے بچے بھی اس میں شامل تصویریں اور وِڈیو ٹکڑے دیکھ کر بڑے حیرت زدہ ہوئے۔ایسی انوکھی نرالی چیزوں میں وہ بڑی کشش محسوس کرتے ہیں۔
    شکریہ

    ReplyDelete
  10. @usman you always be able to appreciate the beauty rather than starting ur stupid discussion again...

    ReplyDelete
  11. اگر ممکن ہو تو کسی وقت درج ذیل والے لنک پر مضمون لکھ دیجئے

    http://en.wikipedia.org/wiki/Extremophile

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ