کراچی جغرافیائ لحاظ سے صحرا کا حصہ ہے۔ سمندر کی قربت اور شہر بننے کے عمل نے اسکی صحرائ حالت کو خاصی حد تک چھپا دیا مگر موسم میں ایک ثبات ہے جو اسکے اس پس منظر کی چغلی کھاتا ہے۔ یہاں ایک ہی موسم غالب رہتا ہے اور وہ ہے گرمی کا۔ بقول یوسفی کراچی میں اگر تینتیس ڈگری درجہ ء حرارت جون میں ہو تو گرمی اور اگر یہی ٹمپریچر دسمبر میں ہو تو سردی۔
اس لئے کراچی میں نہ محکمہ ء موسمیات پہ کسی کی توجہ ہوتی ہے اور نہ کسی موسم کی خاص تیاری۔ بس کیلینڈر دیکھ کر ہم سوچتے ہیں کہ اب کون سا موسم منانا چاہئیے۔ سو لان کے کپڑے پہن کر اخروٹ، چلغوزے اور مونگ پھلیاں صرف اس لئے کھانے پڑتے ہیں کہ دسمبر شروع ہو چکا ہے۔
اسی طرح آسمان پہ اگر بادل کی چار ٹکڑیاں اکٹھا ہو جائیں تو فوراً بیسن میں پانی ملا لیتے ہیں اور کڑہائ چولہے پہ چڑھ جاتی ہے۔ مبادا تیز ہوا کے چلنے سے بادل بکھر جائیں۔ اور یہ مناسب موقع ہاتھ سے نکل جائے۔
اس لئے کسی کو حیرت نہیں ہونا چاہئیے کہ اس شاعری کے تخلیق کار کا تعلق بھی کراچی سے ہے جس نے لکھا وہ میرے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں۔ اس لحاظ سے کراچی والے خوش نصیب ہیں کہ امریکہ کے بعد انہیں بعض معاملات میں نصیب کی کارفرمائ بھی نظر آتی ہے۔
شاید اس کی وجہ بہادر شاہ ظفر سے متائثر ہونا ہو انہوں نے بھی اپنی جلا وطنی کی واضح وجہ کمپنی نہیں نصیب پہ ڈالی۔ کتنا ہے بد نصیب ظفر دفن کے لئے، دو گز زمیں بھی نہ ملی کوئے یار میں۔ ہم کراچی والوں نے اس دو گز زمین کا بھی حل ڈھونڈھ نکالا ہے۔ اور سوا گز کی بوری اچھی طرح اسکا متبادل ثابت ہوئی ہے۔ ایک جلا وطنی کا خرچہ بچتا ہے جس سے زر مبادلہ محفوظ رہتا ہے دوسرا بوری کی شکل میں مقامی اشیاء کی کھپت میں اضافہ ہونے سے معیشت مستحکم ہونے کے امکان بڑھ جاتے ہیں۔
صحرائ خطے سے تعلق کی وجہ سے کراچی والوں کو بارش سے وہی والہانہ لگاءو ہوتا ہے جو صحرا کے رہنے والے ہی محسوس کر سکتے ہیں۔ سردی کی نسبت ساون ہمارے یہاں ہر دو چار سال میں حاضری دے دیتا ہے۔ بس اتنی کہ بعض موقع پرست کہتے رہ جاتے ہیں کہ اے ابر کرم آج اتنا برس، اتنا برس کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ موقع پرست دوکان پہ بیٹھا سوداگر بھی ہوتا ہے اور وہ بھی جنکی سوداگری حسن و عشق کے معاملات میں ہوتی ہے یعنی دل دے دے دل لے کر۔
لیکن جیسا کہ ہماری حکومتوں کا انداز رہا ہے وہی لڑکیوں کی مشرقی ماءووں والا، وہ ہماری خوشیوں کو ایک حد سے آگے بڑھنے نہیں دیتیں۔ اگلے گھر جائیں گی تو گذارا کیسے ہوگا سختیوں کی عادت ہونی چاہئیے۔ اس کے لئے ان کی منصوبہ بندی ہمیشہ تیار ہوتی ہے ایسے ہی حکومت کی بھی ہوتی ہے یعنی نہیں ہوتی۔
ہم سوچیں کہ بارش میں ذرا فلاں رشتے دار کے یہاں محفل جما لی جائے وہاں وہ بھی ہونگے یا ہونگیں تو گھر سے باہر نکلتے ہی سڑکوں پہ حکومت اور قدرت کے گٹھ جوڑ سے اتنا پانی ہوتا ہے جتنا کہ چناب میں سوہنی کے کچے گھڑے پہ تیرتے وقت تھا۔ ہم تاریخ سے عبرت پکڑتے ہوئے فوراً واپس ہو لیتے ہیں آخر گاڑی کی محبت بھی کوئ چیز ہے۔ وا حسرتا، ہم ان سے فون پہ عشق بگھارنے کی کوشش کر لیں گے۔ گھر آکر پتہ چلتا ہے فون میں ڈائل ٹون نہیں وہ مر چکا ہے۔
ہم سوچتے ہیں کہ کوئ بات نہیں اے محبت زندہ باد ، موبائل فون کے سستے پیکیج آخر کس دن کام آئیں گے۔ معلوم ہوتا ہے لائن پہ اتنا رش ہے کہ بات نہیں ہو سکتی۔ اتنی دیر میں اطلاع ملتی ہے کہ گھر کے باہر بجلی کا تار گر پڑا ہے یا فلاں کی بیرونی دیوار گر پڑی ہے یا فلاں درخت زمین پہ آرہا۔ دل چاہتا ہے کہ ٹی وی پہ شہر کی خیر خبر معلوم کر لیں کیبل والے کا تار ٹوٹ چکا ہے، فون لائین میں خرابی کی وجہ سے انٹر نیٹ نہیں چل سکتا۔ اسکے بعد؟
یہ ایک اہم سوال ہے اسکے بعد؟ یہ چاہتے ہو ساکنان شہر عشق میں رہو بسو، نہ راس آ سکی تمہیں وہاں کی آب و ہوا تو پھر۔ اوروں کا نہیں پتہ ہم بیٹھے چھوٹی پرچیوں پہ لکھ رہے ہیں قاف قاف آسمان صاف۔ ہماری ساس صاحبہ کا کہنا ہے کہ ادھر بھوپال میں جہاں انکا بچپن گذرا، جب بارش تھمنے کا نام نہیں لیتی تھی تو وہاں لوگ یہ پرچیاں لکھ کر درختوں پہ ٹانگ دیتے تھے۔
آہ صحرائ محبت، کہاں تو ریت کے بگولے دیوانہ وار اٹھتے ہیں اور باریک باریک ذرے نشتر کی طرح روح کو اس طرح چھلنی کر ڈالتے ہیں کہ سب ملیا میٹ۔ اس عالم میں سوائے یہ کہنے کے اور کچھ باقی نہیں رہتا ، تیرے عشق نچایا کر کے تھیّا تھیّا، چھیتی آویں وے طبیبا نئیں تے میں مر گئیاں اور کہاں پانی کے چند چھینٹے پڑے یہ ریت ایسی بیٹھتی ہیں , اس میں وہ گل و گلزارپھوٹ پڑتے ہیں جو وہم و گمان میں نہیں ہوتے۔ آہ صحرائ محبت، آہوئے بے اختیار۔ لیکن ایک بات مجھے سمجھ نہیں آتی یہ جس جگہ کوئ بس نہیں چلتا وہاں تعویذ ٹوٹکے کیسے کام کر جاتے ہیں۔ خیر، یہ میری آخری پرچی ہے قاف قاف آسمان صاف۔ اب دیکھئیے , آسمان کیسے صاف ہوگا۔
او جی یہ سموسوں ، پکوڑوں اور کچوریوں کا بادل اور بارش سے کیا تعلق ہے ؟ سمجھ نئیں آئی۔ میں نے تو سنا ہے کہ برسات میں ایسی چیز کم ہی کھانی چاہییں۔ کراچی میں معاملہ الٹ لگتا ہے۔
ReplyDeleteعثمان، کراچی ہی نہیں پورے جنوبی ایشیا میں ساون کے کھانے وہ ہوتے ہیں جو تیل میں تلے جائیں۔ پکوڑے سموسے، پوریاں، کچوریاں بھاجیاں، گلگلے، جلیبیاں، اندرسے اور ایک لمبی فہرست۔ ان کھانوں سے پرہیز کرتے ہیں جو جلد خراب ہونے والے ہوں یا کچی حالت میں ہوں۔ کیونکہ ہماری برسات میں جراثیم زیادہ تیزی سے بڑھتے ہیں۔
ReplyDeleteپوڑے بھی ہوتے ہیں ادھر پنجاب میں۔ شکر یا گڑ کو گرم کرکے چاس بناتے ہیں پانی میں ڈال کر۔ پھر آٹا ملا کر لئی سی بنا لیتے ہیں جیسی جلیبی والے بناتے ہیں جلیبی کے لیے، وہ میدے والی ہوتی ہے یہ شکر والا آتا ہوتا ہے۔ پھر توے پر پہلے گھی ملا جاتا ہے پھر اس پر ایک ڈونگا یہ آمیزہ ڈال کر روٹی کی شکل میں پھیلا دیتے ہیں۔ پکنے پر یہ سخت ہو کر روٹی بن جاتا ہے اور دوسری طرف بھی گھی لگا کر دونوں طرف سے تل لیتے ہیں۔ بڑا مزیدار لگتا ہے سادہ بھی اچار کے ساتھ بھی۔
ReplyDeleteدوست، ارے مجھے یاد آیا ہماری اماں بھی ہمارے بچپن میں یہ بنایا کرتی تھیں مگر اسے شاید چلے یا چلڑے کہتے تھے اور واقعی اس وقت یہ بہت مزے کے لگتے تھے۔ ویسے مجھے چینی کے مقابلے میں گڑ پسند ہے اس لئے وہ دیسی کھانے جن میں گڑ ڈالا جائے زیادہ مزے کے لگتے ہیں مثلاً گڑ کے چاول اور گڑ اور باجرے کے آٹے کی ٹکیاں۔
ReplyDeleteہاں یاد آیا کہ پوڑے پکاتے وقت اسے کسی چمچ وغیرہ سے توے پر پھیلانے کی بجائے برگد کا پتہ استعمال کی اجاتا تھا ، پتہ نیں اس میں کیا حکمت ہوتی تھی ۔ مگر یہ دادی اور نانی اماں بھی کیا کمال کی چیز ہوتی تھیں ان کی بنائی ہوئی= کھانے کی اشیا بہت مزہ دیتی تھیں ۔ لگتا ہے ٹیسٹ اور مپکانے والے کی محبت کا آپس میں کوئی گہرا تعلق ہوتا ہے
ReplyDelete