وارننگ؛ یہ تحریر خاصی حد تک ناشائستہ مواد پہ مشتمل ہے۔ صرف شائستہ تحاریر پڑھنے والے اگر اسے پڑھتے ہیں تو مزاج میں پیدا ہونے والی کراہت کے ذمہ دار وہ خود ہونگے۔ حساس طبیعت رکھنے والے اس سے گریز کریں۔
اس وارننگ کے بعد میں خود کو اخلاقی طور پہ آزاد سمجھتی ہوں اور موضوع کی طرف آتی ہوں ۔ یہ ایک ایسے شاعر کے متعلق ہے جس نے اپنی شاعری کے لئے ایک نہایت دھتکارا ہوا موضوع چنا، جس پہ شاعر تو کجا عام افراد بھی اشاروں کنایوں میں ہی بات کرنا چاہتے ہیں۔ دنیا کے معیاری ادب میں اسکے لئے کوئ جگہ نہیں، اور یہی وجہ ہے کہ اردو کے اس شاعر کو شاعرانہ خوبیاں رکھنے کے باوجود آج شاید ہی کوئ جانتا ہو۔ انکے اشعار زیادہ تر سینہ بہ سینہ چلے آنے والے اشعار ہیں۔
جب ، میں نے جاننا چاہا کہ انکا کوئ دیوان موجود ہے تو معلوم ہوا کہ امریکہ کی واشنگٹن ڈی سی کی لائبریری میں اسکا ایک نسخہ موجود ہے۔ یہ جان کر کہ امریکہ کی ایک لائبریری میں انکے دیوان کا ایک نسخہ موجود ہے آتش شوق بھڑک اٹھی۔ میں نے کوشش کی کہ کوئ اس نسخے کی نقل کروا کر وہاں سے لے آئے۔ لیکن ہوا یوں کہ مجھے کراچی میں ہی انکے دو مختلف دیوان مل گئے۔ جو کہ بھارت میں شائع ہوئے۔
برازیات کا یہ شاعر شیخ باقر علی یا جعفر علی قصبہ رودلی کا رہنے والا چرکین تخلص کرتا تھا اور اسی نام سے مشہور ہوا۔ چرکین کا کیا مطلب ہے اسکے لئے اردو کی کوئ بہتر لغت دیکھئیے۔
اس سے آپکی وسعت الفاظ بہتر ہوگی۔
:)
مرزا قادر بخش صابر انکے بارے میں لکھتے ہیں کہ
چرکین تخلص ایک شخص ظریف، شوخ مزاج، ساکن لکھنوء کا۔ وہ ہمیشہ سخن پاکیزہ کا دامن نجاست معنوی سے آلودہ رکھتا ۔ یعنی مضامین بول و بزار اس طرح شعر میں باندھتا کہ زمین سخن کو گُوہ گڑھیا بنا دیتا۔ اسکی قوت شامہ یک قلم باطل ہو گئ تھی کہ اس غلاظت سے بے دماغ نہ ہوتا تھا۔ انصاف تو یہ ہے کہ ابیات میں ہر چند گوہ اچھالتا اور کاغذ کے ہر گوشے میں پیشاب کی نالی بہاتا تھا لیکن کوئ لطیف مزاج اس سے دماغ بند نہ کرتا تھا اور کوئ پاکیزہ طبع اس سے گھن نہ کھاتا تھا۔ گویا بحر شعر نے اس نجاست کو بہا دیا تھا۔
شرط سلیقہ ہے ہراک امر میں
عیب بھی کرنے کو ہنر چاہئیے
انکے بارے میں خاصی کہانیاں مشہورہیں۔ کہا جاتا ہے کہ میاں چرکین بہت بلند پایہ شاعر تھے۔ کلام بہت عمدہ اور پاکیزہ ہوتا تھا۔ مگر لوگ آپکا کلام چرا کر اپنے نام سے پڑھا کرتے تھے۔ جسکی وجہ سے میاں چرکین نے عاجز آ کر اپنی شاعری کا رنگ بدل دیا اور ایسے اشعار کہنے لگے جس میں گندگی کا ذکر ضرور ہوتا۔ لیکن اس کلام میں بھی تمام شاعرانہ صفات بدرجہ ء اتم موجود ہوتی تھیں۔ یہ بہرحال ایک کہانی ہی ہے مکمل صداقت نہیں۔ شاعرانہ خوبیوں کے لئے کچھ نمونہ ء کلام حاضر ہے۔
سلسل البول کی مانند رہے ڈاک رواں
اتنے خط لکھوں زمانے سے ہو کاغذ عنقا
رو زو شب ہگنے سے تم اسکے خفا رہتے تھے
مہترو خوش رہو، چرکیں نے وطن چھوڑا ہے
روک کر گھوڑے کو اس نے مری تربت پہ کہا
لید کرنی ہو تو کرلے تُو یہی تھوڑی سی
قبر پہ آکے بھی اس بت نے نہ مُوتا افسوس
کام کچھ اپنے نہ مرگ شب ہجراں آئ
اپنے ہی سڑے ٹکڑوں پہ کی ہم نے قناعت
چکھا نہ متنجن کسی نواب کے خواں کا
مقصود عالم مقصود جو کہ ایک طرح سے غالب کے شاگرد تھے انہیں چرکین کی نادر ترکیبوں ، الفاظ، فقرے اور محاوروں نے کھینچا ہوگا جو اب نہیں بولی جاتی اور انہوں نے چرکین کے مرنے کے پچیس سال بعد انکا کلام ایک جگہ اکٹھا کر کے اسے دیوان کی شکل دی۔ یوں یہ محفوظ ہوا مگر لوگوں کی لائبریریوں میں نمایاں جگہ نہ پا سکا۔
انکی بولی دیوان خانے یا شائستہ آنگن کی نہیں نالی، کوڑا گھر، سنڈاس، بول و بزار وغیرہ کی ہے۔ بول و بزار کے علاقے کے الفاظ جنکے سلسلے میں لوگ خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ انکو چرکین نے اپنے کلام میں محفوظ کیا اور بیت الخلاء کے آداب کی ایک اہم دستاویز چھوڑی۔
چرکین نے بول و بزار کے مضامین کے لئے سوقیانہ یا کوئ خراب زبان نہیں لکھی۔انکا کلام معیاری اردو میں ہے۔ یہ وہی زبان ہے جو اس زمانے میں آتش، ناسخ اور مصحفی وغیرہ کی تھی۔ایک ایک مصرعہ تراشا ہوا، شعر میں چستی اور زائد یا بھرتی کے الفاظ سے پاک مضامین آلودہ لیکن کلام میں غضب کی روانی ہے۔ چرکین کے کلام کو بلا تعصب، صبر اور برداشت سے پڑھے بغیر انکے فن کی قدر نہیں جانی سکتی۔
بقول اردو کے مایہ ناز ادیب شمس الرحمن فاروقی، اگر کلام کے ذریعے جنسی لذت پیدا کرنے یا حاصل کرنے کی شرط کو اہم قرار دیں تو چرکین کا کوئ شعر مشکل سے فحش کہلائے گا۔خلاف تہذیب ہونا اور بات لیکن کوئ شعر ایسا نہیں کہ اسے بچوں یا بہو بیٹیوں کے سامنے پڑھایا نہ جا سکے یا انکے سامنے پڑھا نہ جا سکے۔
لیکن ہمیں پھر بھی کلام کی اس نوعیت پہ حیرت یا تعجب ہوتا ہے۔ کچھ اور لوگوں کو کچھ اور باتوں پہ ہوتا ہے مثلاً بائرن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ نوالہ منہ میں ڈالنے، چبانے اور حلق سے اتارنے کو اس قدر غیر نفیس فعل سمجھتا تھا کہ کسی عورت کو کچھ کھاتے پیتے نہ دیکھ سکتا تھا۔ جبکہ جرمن ناول نگار پیٹرک سسکنڈ لکھتے ہیں کہ
میں اپنے بچپن میں یہ سوچ سوچ کر حیران رہ جاتا تھا کہ ناولوں کے کرداروں کو کبھی بیت الخلاء جاتے کیوں نہیں دکھایا جاتا۔ اسی طرح پریوں کے قصے ہوں یا اوپرا، ڈراما ہو یا فلمیں یا پھر بصری آرٹ کی مختلف شکلیں ان میں کسی کو بھی رفع حاجت کی ضرورت کیوں نہیں پیش آتی۔ انسان کی زندگی میں پیشاب یا پاخانے کا عمل جو زندگی کا سب اہم اور انتہائ ضروری معمول ہے وہ آخر آرٹ کی دنیا میں اپنی جگہ کیوں نہیں بنا سکا۔
قادر بخش صابر مزید لکھتے ہیں کہ
اوائل حال میں تو اس نے یہ وضع ہزل سمجھ کر اختیار کی یعنی مذاق میں۔ لیکن رفتہ رفتہ اس قال کو حال بنا لیامدام لباس چرک پہنتا اور ایسی میلی کچیلی وضع رکھتا کہ اجنبی اس کو سچ مچ کا حلال خور سمجھتے۔حق یہ ہے کہ جو ابتداء میں کہتا تھا وہ آخر میں کر دکھایا۔ آخر الامر لال بیگ کی صحبت اور گوگا پیر کی ہم نشینی کے شوق میں شہر کے پاکیزہ مقامات سے بھاگ کر صد ہا آرزو کا ٹوکرا سر پر رکھے ہوئے بہ طریق پا تراب کے جنگل کے کسی کوڑے پر اول منزل کی۔
مزید شعر حاضر ہیں
خیال زلف بتاں میں جو پیچ کھاتے ہیں
مروڑے ہو ہو کے پیچش کے دست آتے ہیں
کسی کے پاد سے اڑتے نہ کنکری دیکھی
اڑائے دیتا ہے چرکیں پہاڑ پھسکی سے
وہ جنتی ہے مرے جو مرض سے دستوں کے
ہے یہ ثواب تو باز آئے اس صواب سے ہم
عبث بدنامیوں کا ٹوکرہ سر پر اٹھانا ہے
لگانا دل کا بس جھک مارنا اور گُو کا کھانا ہے
چرکین سے کسی نے ایک دفعہ کہا کہ دنیا کے ہر موضوع کوبول و بزار کی زبان میں بیان کر سکتے ہو تو ذرا حضرت علی کی بہادری کو بیان کر دکھاءو۔ شعر ملا۔
رن میں جس دم تیغ کھینچی حیدر کرّار نے
ہگ دیا دہشت کے مارے لشکر کفار نے
یہ مصرعہ اس طرح بھی ملتا ہے، ہڑبڑا کر ہگ دیا ، لشکر کفار نے۔
نوٹ اس تحریر کا ماخذ ابرار الحق شاطر گورکھپوری کا مرتب کردہ دیوان چرکین ہے جس میں انہوں نےچرکین کا ادبی پس منظر اور تاریخ بھی دی ہے اور جس کا مقدمہ شمس الرحمن فاروقی نے لکھا ۔
توبہ توبہ- چھی چھي-
ReplyDelete"جو لوگ فحش الفاظ استعمال کئے بغیر اپنا مدعا نہیں بیان کر سکتے "
ReplyDeleteہا ہا، شیخ باقر علی کو يہ اجازت کيوں بخشي گئي؟
بی بی جی یه شاعر کچھ اتنے بھی گمنام نهیں هیں
ReplyDeleteپنجابی میں
شٹلی یا ذٹلی اس کو کہتے هیں جو
باتوں کو سنجیدگی سے ناں لے
اور یه محاوره انهی شاعر صاحب کے نام سے نکلا هے
اور کچھ سال پہلے
جب میں ڈائجسٹ پڑھا کرتا تھا تو
سرگزشت نامی ڈائجسٹ ميں باقر علی ذٹلی کے متعلق بڑی تفصیل سے شائع هوا تھا
کچھ لوگ پنجابیوں کو علم دوست نهیں جانتے جو که ان کا مغالطه هے
که پنجابی لوگ اردو کے شاعروں کو خاصی حد تک جانتے هیں لیکن
کیا اپ کو
استاد امام دین کا معلوم هے؟
دمودر
چنڑگی
قادر یار
جیسے شاعروں کا نام سنا یا پڑھا ہے اپ نے
جن کا کلام اج بھی پنجاب کے گاؤں دیهات میں
لاکھوں لوگوں کو زبانی یاد ہے ؟؟
خاور کھوکھر صاحب، ۔ ان دو کتابوں میں مجھے شٹلی یا ذٹلی کے القاب نہیں ملے۔ میں نے صرف اکثریت کی بات کہی۔ امام دین کو ایک ملتانی دوست کی معرفت سننے کا موقع ملا انکا دیوان بھی ہاتھ آِا۔ لیکن جتنی بہتر طور پہ میں پنجابی سن کر سمجھ لیتی ہوں اتنی پڑھ کر نہیں سمجھ آتی۔ امام دین کے جو اشعار میں نے سنے وہ زیادہ مزے کے لگے۔
ReplyDeleteگمنام صاحب یہ مضمون ایک دفعہ پھر سے پڑھیں، شمس الرحمن فاروقی اس وقت اردو ادب کے سب سے بڑے تنقید نگاروں میں شامل ہیں۔ انہوں نے اسے فحش نہیں کہا۔ فحش ہونے کا تعلق جنس سے ہے۔ اگر ایک شخص ہر وقت بیت الخلاء کا چکر لگاتا رہے تو اسکا پیٹ خراب ہوتا ہے جو معمول کی دوا سے ٹھیک ہوجاتا ہے لیکن ایک شخص اگر ہر وقت جنس کی فکر میں رہے تو ذہنی عدم توازن کا شکار ہوتا ہے نہ صرف اپنے لئے بلکہ معاشرے کے لئے بھی خطرہ ہوتا ہے۔ اس کا علاج خاصہ مشکل ہے۔ عام طور پہ یہ صحیح نہیں ہو پاتے۔
خاور صاحب، کس نے کہا کہ پنجابی علم دوست نہیں ہوتے۔ پنجاب نے بڑی علمی شخصیات پیدا کی ہیں۔ آجکے پاکستان میں اردو کو زندہ رکھنے والے اسکی ترقی کے لئے کوشاں، اردو اسپیکنگ نہیں پنجابی ہیں۔ وہ کچھ اور میدان ہیں جہاں ان سے اختلاف کی شاخیں نکلتی ہیں۔
ReplyDeleteواقعی بہت معلوماتی تحریر ہے۔ چرکین کے متعلق چند ایک باتیں میں نے پڑھ رکھی تھیں اور انکا آخری شعر بھی ﴿حضرت علی والا﴾ لیکن باقی معلومات اور اشعار میرے لیے نئے تھے۔
ReplyDeleteخاور صاحب نے جن شاعر کا ذکر کیا ہے ان کا نام جعفر زٹلی ہے اور مغلیہ دور کے فارسی و اردو کے مزاحیہ اور فخش گو شاعر تھے۔
امام دین گجراتی فخش گوئی کے حوالے سے مفت میں بدنام ہیں۔ انکا پنجابی فخش کلام جو لوگوں کی زبانوں پر ہے وہ شاید انکا کلام نہیں ہے، انکا اصل کلام ًبانگِ دہلً کے نام سے چھپ چکا ہے اور خالص مزاحیہ کلام ہے۔
ویسے تو صنف شاعری کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کے پردے کا گھونگھٹ نکال جو بات شاعر کہ جاتا ہے اگر وہی بات سلیس زبان میں کہ دی جائے تو شرفا شاعر صاحب کو بیچ چوراہے کے بلی کی طرح گاڑ دیں مگر یہ بھی سچ ہے کہ شاعر کی چوٹ اور میراثی کی جگت کا جواب نہیں ہوتا بشرطیکہ دونوں اپنے فن کے ایسے پکے ہوں۔
ReplyDeleteآپ کی تحریر میں جا بجا ایسے الفاظ ملے جنہیں عرصے بعد دوبارہ پڑھ کر مزہ آ گیا کیونکہ وہ اب یہ زیادی استعمال نہیں ہوتے ۔
مثلا حلال خور ۔ سلسل البول ۔ سنڈاس ۔ سوقیانہ اور پھسکی وغیرہ ۔
پوسٹ کے آخر میں گگا پیر کا ذکر آیا ہے ۔ ہندو روایات کے مطابق یہ ایک راجہ کے بیٹے تھے اور گرو گورکھ ناتھ غالبا گیارویں یا بارھویں صدی(ناتھ ۔جوگیوں کا ایک مشہور سلسلہ) کی دعا کے طفیل پیدا ہوئے تھے ۔ ان کی والدہ کو راجہ کی دوسری بیوی نے سازش کر کے محل سے نکال دیا تھا ۔ یہ ابھی ماں کی کوکھ میں تھے کہ جنگل میں ان کی والدہ کی گاڑی کے بیل مر گئے ۔ گگا پیر نے اپنی والدہ کو ان کی کوکھ سے پکار کر وہ منتر بتایا جس سے بیل زندہ ہو جائیں گے اور اسی کے طفیل راجہ اور رانی پھر مل جائیں گے ۔
گگا راجہ کی وفات کے بعد بھائیوں سے ناراض ہو کر جنگل میں گورو گورکھ ناتھ کے پاس جاتا ہے اور اسے سانپوں کے باشاہ باسک ناگ کو اپنے تابع کرنے کی درخواست کرتا ہے جو کہ منظور کر لی جاتی ہے ۔ اب گگا کا حکم تمام سانپوں پر چلنا شروع ہو جاتا ہے ۔ گگا بعد میں مسلمان ہو گیا تھا ۔ تصویروں میں گگا کو گھوڑے پر سوار سانپوں کے جلو میں دکھایا جاتا ہے۔ سانپ کے کاٹے کے عالج کے ماہر مسلمان جوگی گگا پیر کو اپنا مرشد مانتے تھے اور ہر سال اس کا عرس مناتے تھے۔ یہ جوگی آج سے چالیس سال قبل تک پنجاب کے دیہاتوں کا گشت کرتے عام مل جاتے تھے اور اپنے پاس سانپ کا منکہ ہونے کا دعوی کرتے تھے کہ منکہ اگر سگ گزیدہ کے متاثرہ مقام پر رکھ دیا جائے تو سارا زہر چوس لیتا ہے ۔ سانپ کے منکے کے متعلق بھی دلچسپ کہانیاں عام تھیں مثلا
کہ بادشاہ سانپ کے مونہہ میں ایک بڑی قیمتی چیز ہوتی ہے جسے منکا کہتے ہیں۔ سانپ بارش کی کسی اندھیری رات کوکسی کھڑکی کی طاق میں یا دیوار کے کسی سوراخ میں یا پھر زمین میں ہی اپنے بل میں اسے اگل دیتا ہے۔ کسی کو یہ منکا مل جاتا ہے تو راتوں رات امیر ہو جاتا ہے اور یہ سانپ کے کاٹے کا تیر بہدف علاج بھی ہے۔ وغیرہ وغیرہ ۔
فحاشی کی کوئی جامع تعریف تو مجھے نہیں مل سکی البتیہ اتنا یاد آ رہا ہے کہ برطانہ کے عہد پیورٹن میں پلنگ کے پایوں کو بھی غلاف سے ڈھکنا لازمی تھا کیونکہ ان سے بھی جنسی تحریک کا امکان تھا ۔
بائیں بازو کے مشہور دانشور طارق علی ٹی وی پر ایم ایم اے کی پشاور میں بر سر اقتدار جماعت کے ایک رکن سے مباحثہ میں شریک تھے جوان دنوں پبلک مقامات پر آویزاں اشتہاروں میں عورتوں کی تصویروں اور اشتہار میں ان کے استعمال کے خلاف مہم چلا رہی تھی ۔ ایم ایم اے کے رکن کا کہنا تھا کہ خواتین کے ننگے چہرے پبلک مقامات پر مردوں میں جنسی تحرک کا باعث بنتے ہیں اس لئے ان کا ہٹایا جانا ضروری ہے ۔ ظارق علی نے پوچھا کہ آپ نے مردوں میں جنسی تحرک کا علاج تو کر لیا ہے مگر آخر اتنے مرد ننگے منہ بازاروں میں پھرتے عورتوں میں جنسی تحرک کا باعث بن رہے ہیں ان کا کیا ہو گا ؟۔
ریاض شاہد صاحب، یہ الفاظ تو زیادہ تر اس لئے بھی آگئے کہ میں نے انکا دیوان اور اسکا مقدہ و حرف آغاز پڑھ کر اسے لکھا ہے۔ خود میری لغت میں بھی خاصہ اضافہ ہوا ہے۔
ReplyDeleteیہ گوگا پیر ہی نیں لال بیگ کے بارے میں بھی مجھے تجسس ہے کہ کون تھے۔ جن کا حوالہ دیا۔ گوگا پیر کا پس منظر تو آپ نے بتا دیا مگر یہ نہیں سمجھ میں آیا کہ چرکین کا گوگا پیر سے کیا تعلق ۔ کیا یہ صرف نام کی وجہ سے ہے؟
فحاشی کی اس مہم کے بارے میں ، میں نے بھی ایک صاحب سے دریافت کیا تھا کہ آخر مغرب میں عورتیں اتنے مختصر کپڑوں کے ساتھ کھلے عام پھرتی ہیں مگر وہاں مردوں میں کیوں تحرک نہیں پیدا ہوتا۔ جواب ملا وہ اسکے عادی ہو چکے ہیں اس لئے جذبہ ء تحرک ختم ہو گیا ہے۔ اب اس کا جواب میرے پاس موجود ہے مگر اسے ایک پوسٹ کے لئے محفوظ کر لیا ہے۔
فحاشی کی کوئ تعریف نہیں؟ میری اکثر پوسٹس پہ ٹی بریک کا لنک آتا ہے سوائے ان پوسٹوں کے جن میں کراچی اور ایم کیو ایم کے حوالے سے کوئ بات ہو یا یہ پوسٹ۔ اس پوسٹ پہ انکا لنک نہیں آیا۔ رتبے میں مہر و ماہ کے برابر نہیں ہوں میں۔
میرے پیٹ میں مروڑ ہو رہی ہے
ReplyDeleteبھئی کیا شاعرانہ گندگی ہو رہی ہے یہاں؟
تحریر پڑھ کر اچھا لگا اور کافی معلومات ملی۔ ویسے مجھے پہلے چرکین کا نہیں پتہ تھا۔
ReplyDeleteباقی امام دین گجراتی کے بارے میں میں وارث بھائی سے اتفاق کرتا ہوں کہ
امام دین گجراتی فخش گوئی کے حوالے سے مفت میں بدنام ہیں۔ انکا پنجابی فخش کلام جو لوگوں کی زبانوں پر ہے وہ شاید انکا کلام نہیں ہے، انکا اصل کلام ًبانگِ دہلً کے نام سے چھپ چکا ہے اور خالص مزاحیہ کلام ہے۔
روایتی طور پر ایک ناگفتہ بہ موضوع پر اچھی تحریر ہے۔ میرے ناقص مطالعے کے مطابق غدودان معدہ کے درون خانہ مندرجات پر تحاریر خاصی محدود ہوا کرتی ہیں، خواہ وہ انگریزی ادب ہو یا اردو۔ وجہ اسکی غالبا طبعی میلانات ہیں یا پھر تحاریر پر سماجی قبولیت کا دباو۔ اس موضوع کو الٹییمٹ ٹیبو قرار دیا جائے تو شائد حقیقت سے زیادہ بعید نا ہو کہ دیگر تمام ممانع پر تو وافر مقدار میں مواد مل جاتا ہے۔
ReplyDeleteآپ کا شکریہ کہ چرکین کے معنی کی تلاش میں بڑے عرصے بعد فیروز الغات کھولنے کا موقع ملا، بخدا ہماری اردو کی تو یہ حالت ہے کہ روزانہ اس کے مطالعے کا التزام چاہیئے، خیر یہ تو جملہ معترضہ تھا، فرھنگ میں چرک اور چرکین دونوں موجود ہیں، ان کے معنی میںمماثلت تو ہے لیکن بلکل برابری نہیں۔ غالبا چرک ہی چرکین کا مصدر ہوگا لیکن صفت ہونے کے ناتے لفظ کچھ تطهير پا گیا ہے۔ معنی یہاں نہیںلکھ رہا کہ دوسروں کو بھی ہوم ورک کا موقع ملنا چاہئے۔
bravooo
ReplyDeleteچرکین اور جعفر زٹلی کا نام پچھلے ہفتے فلم دہلی بیلی دیکھتے ہوئے بار بار ذہن میں آیا۔ کسی کو پسند آئے یا نا آئے لیکن چرکین نے اردو ادب کا گوشہ برازیات اپنے نام کر رکھا ہے اور جیسے کوئی محل ہو یا قصر بیت یہ الخلاءتو وہاں بحی بنانا پڑتا ہے ہاں بر سر محفل یہ ساری باتیں کرناشائستگی نہیں ہے لیکن فحاشی تو قطع٘ا نہیں ہے ورنہ باب طہارت میں اور وضو ٹوٹنے کے اسباب میں ذکر نا ہوتا۔
ReplyDeleteوارث صاحب ایکدفعہ اردو محفل میں بھی کسی صاحب ذوق نے چرکین کا نمونہ کلام پیش کیا تھا تو سب ہی ناک پر ہاتح رکھ کر بھاگے۔
وارث صاحب اور م بلال م، امام دین کا دیوان جس کا نام مجھے یاد نہیں اور جو میں نے ایک عرصہ پہلے پڑھا تھا وہ یقینا یہی دیوان ہوگا۔ آپ صحیح کہتے ہیں کہ وہ مزاحیہ اور غیر فحش کلام پہ مبنی ہے۔
ReplyDeleteاچھا اپنے قارئین کی دلچسپی کے لئے یہاں اس خیال لکا اظہار کرتی چلوں کہ لال بیگ اور گوگا پیر استعاراتی زبان میں اشتعمال کیا گیا ہے۔ شاعر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے آخری عمر کسی جنگل کے نزدیک کوڑے کے ڈھیر پہ گذاری۔ اگرچہ کہ یہ بات بھی مصدقہ نہیں کچھ اس خیال سے اختلاف ظاہر کرتے ہیں۔ اور انکا کہنا ہے کہ چرکین اایک عام طرز شخص تھے۔ اور جو سنا سب افسانہ۔
رضوان نور صاحب، اچھا تو دہلی بیلی میں اسکا تذکرہ ہے۔ آج کل انڈین فلموں میں مزاح کے لئے اسے استعمال کرنے کا ٹرینڈ ہے۔
عدنان مسعود صاحب، جی ہاں آپکی یہ بات بالکل درست معلوم ہوتی ہے کہ دیگر ممانع پہ تو اس قدر تفصیل سے ادب میں تذکرے ملتے ہیں کہ معلومات کا کوئ اور ذریعہ استعمال کرنے ضرورت نہیں رہتی لیکن یہ موضوع ایک ٹیبو ہے۔
میرے لئیے یہ معلومات نئی نہیں، چلیں اب آپ نے جسارت کر ہی لی ہے اس پر لکھنے کی تو کچھہ شعر میں بھی شامل کئیے دیتا ہوں چرکین کے۔
ReplyDeleteتو نے آنا جو وہاں او غنچہ دہن چھوڑ دیا
گل پہ پیشاب کیا ہم نے چمن چھوڑ دیا۔
جو با وضو ہو کر مسجد میں پا دے
خدا ایسے شخص کو جنت میں جادے۔
چاندنی کے کھیت میں ہگنے جو بیٹھا یہ ماہ رخ
لینڈ خم کھا کے ہلال چرخی گردوں ہوگئی۔
احمر
ReplyDeleteچرکیں کا نام میں نے سب سے پہلے والدین کی نوک جھونک کے درمیان سنا تھا ' جب کبھی ابو خوشگوار موڈ میں ہوتے تو امی کو تنگ کرنے کے لیے لکھنو کے بانکوں کی نزاکت کا تذکرہ چھیڑ دیتے بس پھر امی فورا ہی باورچی خانہ چھوڑ کر مرادآباد کے محاوروں کا تذکرہ چھیڑ دیتیں مثلا آے لینڈ لاے لینڈ بگھارے لینڈ ، مگر لینڈ رہے پھر بھی لینڈ کے لینڈ۔ یہ وہ حملہ ہوتا جو ابو کو فورا ہی پسپای پر مجبور کردیتا' ایسے ہی کسی حملے سے بڑھتی ہوی گفتگو چرکیں پر بھی جا پہنچتی، مجھے یاد ہے کہ امی نے بتایا تھا کی چرکیں کا دیوان ابو کی کتابوں می موجود تھا مگر کسی صاحب کو دیا بھر واپس نہ مل سکا-
اس گفتگو کے حوالے سے میں بتانا چاہتا ہوں کہ اس قسم کے محاورے اور ضرب المثل پرانے ہندوستانی گھرانوں میں رایج رہے ہیں لیکن ایک بات ملحوظ رہے کہ یہ وہ گھرانے تھے جہاں زنان خانے اور مردان خانے علیحیدہ ہوتے تھے لہذا عام بول چال کے زنانہ اور مردانہ محاورے وغیرہ بھی تقریبا الگ الگ تھے اور یہ کبھی بھی ایک مرد اور خاتون کی باہمی گفتگو کا حصہ نہ تھے کہ ان کے درمیان اس نوعیت کی بے تکلفی نہیں ہوتی تھی' یہ سینہ بہ سینہ چلنے والے محاورے وغیرہ اس وقت تھوری مدت کے لیے باہر آے جب ہجرت کے بعد ان گھرانوں کو چھوٹے مکانوں میں رہنا پڑا- مگر چونکہ یہ محاورہ' ضرب المثل اور اشعار ایک خاص نوعیت سے تعلق رکھتے تھے لہذا ان سے ہنسی تو آتی تھی لیکن مسرت یا خوشی کا حصول ناممکن تھا لہذا یہ بہت جلد باہمی گفتگو سے خارج ہو گے
لیکن اس تبصرہ کا مطلب اس زمانے میں رایج اس محاورہ کا تعارف نہیں تھا بلکہ میرے لیے چرکیں کا حوالہ ایک ایسا محور ثابت ہوا جس کے گرد 70 اور 80 کی دہای کی مڈل کلاس گھرانوں کی شامیں ، آپس کے باہمی تعلقات، ان کی کم تعلیمی استعداد اور اور بلندعلمی سطع سب ایک ساتھ نظر کے سامنے گھوم گے- کیا کبھی کوی اس طبقہ کی موجودہ گراوٹ اور اس کے اسباب پر بھی بات کرے گا؟
شکریہ
احمر پاکستان کے بننے تک زنان خانے اور مردان خانے الگ الگ خاصی حد تک کم ہو گئے تھے اور انکا تصور مالدار زمیندار گھرانوں تک ہی رہ گیا تھا۔ عام لوگوں کے یہاں بیتھک قسم کی چیز تھی جس میں وہ لوگ آتے جن سے زیادہ بے تکلفی نہ ہوتی تھی۔
ReplyDeleteپڑھے لکھے گھروں میں شام کو بہن بھائ بہن ، والدین اور دیگر رشتے دار محفلیں جمایا کرتے تھے۔ حتی کے بے تکلف دوست بھی مل بیٹھتے تھے۔ حوالے کے لئے اس زمانے کے ادیبوں ، شعراء اور دانشوروں کے حالات زندگی دیکھئیے۔ دیکھیں یوسفی کس طرح بنگال سے لائ ہوئ فینی کی رونمائ کے لئے اپنے تمام دوستوںمحےل والوں کو اپنے چھوٹے سے گھر میں دعوت دیتے ہیں، قدرت اللہ شہاب کی بیگم سفید قالین لینے سے انکار کر دیتی ہیں کہ دوست اتنے آتے ہیں تھوڑے دنوں میں گندہ ہو جائے گا۔ ترقی پسندی کے زیر اثر خواتین میں بھی تعلیم کا رجحان چل پڑا تھا اور گفتگو میں انہیں بھی شامل رکھا جاتا تھا۔
پھر پاکستان کی تاریخ میں ستر اور اسی کی دہائ آئیں۔ ہماری تاریخ، تعلیم اور ثقافت تمام مذہب کے عدسے کے نیچے چلے گئے۔ اب بھی لوگ جمع ہوتے تھے مگر ایکدوسرے کو تبلیغ کے لئے۔ ستم ظریفی یہ ہوئ کہ جتنا ایکدوسرے کو احادیث اور قرآنی آئیتیں سناتے رہے اور ایکدوسرے کے دین پہ نظر جمائے بیٹھے رہے اتنا پاکستان کرپشن میں آگے بڑھتا گیا، جتنا اسلام کو امن کا مذہب بتایا جاتا رہا اتنا ہی پاکستان جنگ اور دہشت کی علامت بنا۔ یہ زبوں حالی کسی مخصوص طبقے پہ نہیں آئ اس سے سب ہی متاءثر ہوئے۔ یہی پنجاب تھا جہاں خواتین لاچے پہن کر باہر گھومتی تھیں اسی پنجاب کے مرد سب سے زیادہ خواتین کے پردے کے بارے میں فکر مند رہتے ہیں۔ اور یہیں سے سب سے جرائم کواتین سے متعلق جرائنم کے ہوتے ہیں۔ یہ تضاد کسی گرواٹ کی وجہ سے ہی آیا ہے۔
میں نے اس پہ ایک ہلکی پھلکی تحریر لکھ رکھی ہے چند تصویریں ڈالنے کی کاہلی کی بناء پہ روکی ہوئ ہے۔ فرصت ملنے پہ ڈالتی ہوں۔
Those who are interested in the book may look here:
ReplyDeletehttp://www.bookexchange.com.pk/details.php?book_id=43031
Asrar
اسرار صاحب، شکریہ آپکا اچھی سائیٹ بتائ آپ نے۔
ReplyDelete