Sunday, September 25, 2011

قصہ ایک گرم دن کا

ابھی ہمیں وہاں پہنچے کچھ دن  ہوئے تھے کہ ٹورنٹو میں ایسی گرمی پڑی کہ کہ ڈاءون ٹاءون یعنی وہاں کا آئ آئ چندریگر روڈ سنسان ہو گیا۔ نہ بندہ نہ بندے کی ذات۔ یہ سناٹا اس خوف کی وجہ سے تھا جو وہاں کے محکمہء موسمیات نے پھیلایا تھا۔ اس میں چنداں حیرت نہیں ہونی چاہئیے کہ وہاں یہ کام محکمہ ء موسمیات کرتا ہے۔  نہ معلوم کیوں وہاں کے محکمہء موسمیات کی موسم کے بارے میں خبریں ایک دم درست نکل آتی ہیں۔ لگتا ہے کوئ بڑا پہنچا ہوا پیر پکڑ رکھا ہے انہوں نے۔
خوف کے طاری ہونے کی وجہ یہ  ہے کہ مسلسل آسائیشوں میں رہنے  اور خوف سے پاک زندگی گذارنے کی وجہ سے ان مغربی ممالک کے لوگوں کے دل بہت چھوٹے اور ہمت بچپن سے ہی بوڑھی ہوتی ہے۔ جب شاہینوں کے بجائے ممولے پیدا ہوں تو یہی ہوا کرتا ہے۔ کندن تو بھٹی میں تپنے کے بعد ہی بنتا ہے۔ جبکہ یہاں لوگوں کی اکثریت مر کر ہی بھٹی کا منہ دیکھ پاتی ہے۔ اس حالت میں جب تمام اعضاء جواب دے چکے ہوتے ہیں۔ یہ دیکھنا بھی کوئ دیکھنا ہے۔
لیکن رکئِے، ہمارا شاعر کہتا  ہے کہ ہو دید کا جو شوق تو آنکھوں کو بند کر، ہے دیکھنا یہی کہ نہ دیکھا کرے کوئ۔ یہی وجہ ہے کہ مغرب میں آج تک کوئ ایسی بیسٹ سیلر بک نہیں دیکھی جو مرنے کے بعد لکھی گئ ہو۔ اس کا اعزاز بھی صرف ہمیں حاصل ہوا کہ مرنے کے بعد کیا ہوگا جیسی تہلکہ آمیز کتاب ہمارے ہی لوگوں نے پیش کی۔ مغرب دیکھ لے روحانیت میں کون بڑھا ہوا ہے وہ کہ ہم۔
اپنے فخر کے قصے دوہرانے کو کئ نسلیں باقی ہیں، اس لئےمیں خلاف طبیعت قصہ مختصر کرتی ہوں۔ ایک ایسی گرمی میں جبکہ ٹورنٹو میں چیلیں تک اپنے گھونسلوں میں ایئر کنڈیشنڈ لگوا چکی تھیں کہ کینیڈا میں بجلی کی بڑی فراوانی ہے اسکی بہتات کی وجہ سے کئ بجلی پیدا کرنے والے اسٹیشنز بند پڑے ہوئے ہیں۔ جب شام کو لُو چلنا بند ہوئ۔ میں نے کچن کا کچرا سمیٹا اور اسے گھر کے باہر موجود ڈرم میں ڈالنے کے لئے آئ۔ 
ان ڈرمز میں پورے ہفتے کچرا جمع کرنا پڑتا ہے۔  کھانے پینے کی چیزیں ایک  الگ ڈرم میں اور کاغذ گلاس قماش کی چیزیں دوسرے ڈرم میں۔ ہر علاقے کی ایک تاریخ ہوتی ہے اس تاریخ کو وہاں سے کچرا اٹھایا جاتا ہے۔ مکینوں کو یہ کچرے کا ڈرم روڈ کے ساتھ فٹ پاتھ پہ رکھنا ہوتا ہے تاکہ کوڑا اٹھانے والا ٹرک بآسانی اسے اٹھا لے۔ مایا کے تین روپ جبکہ کاہلی کے سو روپ ہوتے ہیں جو ایسے ہی ترقی یافتہ ممالک میں نظر آتے ہیں۔ دوسرے لوگوں کے اوپر کام کا زیادہ سے زیادہ بوجھ ڈال کر انتظامیہ آرام سے پڑی مکھیاں مارتی ہیں اور مکھیاں مارنے میں اپنی ان کوششوں کو بیان کرنے سے نہیں چوکتی۔ ڈھٹائ کی بھی حد ہوتی ہے۔ مگرنہیں صاحب، یہاں  بے حیائ ہی نہیں ڈھٹائ کی بھی ساری حدیں پار ہو چکی ہیں۔ اسی لئے تو کمبخت مارے اپنا ویزہ آسانی سے نہیں دیتے کہ ہماری ساری پول پٹی کھل کر دنیا کے سامنے آجائے گی۔
اچھا انکی غیبت ایک طرف۔ میں نے پہلا ڈرم کھولا تو اس میں کاغذ  اور گتے موجود تھے۔ سوچا اسی میں ڈالدوں۔ کاہل قوم کچھ تو کیا کرے اور کچھ نہیں تو کھانے پینے کی چیزوں سے کاغذ، گتے اور ٹن الگ کیا کرے۔ پھر ان بھتّوں کا خیال آِیا جو ایسی تمام سبز سوچوں پہ پابندی لگانے کے لئے موجود ہیں انہیں یہاں فائن کہتے ہیں۔ سو دوسرے ڈرم کو کھولا اور ابھی اس میں ڈالنے کا قصد کیا ہی تھا کہ اعصاب منعکسہ نے ایک زور کا جھٹکا دیا اور ہاتھ کیا میں خود ایک فٹ پیچھے ہٹ گئ۔ ڈرم میں تو کوئ عجیب ساجانور دبک کر بیٹھا ہوا تھا۔


یہاں گلہریاں بڑی چھلانگیں لگاتی پھرتی ہیں وہ بھی خوب بڑی بڑی۔ لیکن یہ جانور گلہری سے بڑا تھا۔ بلی یہ ہو نہیں سکتی کیونکہ یہاں بلی اور کتے  کو وہ آزادی نہیں جو ہم نے انہیں دے رکھی ہے۔ بعضے حاسدی تو کہتے ہیں کہ ہم نے انہیں ایوان حکومت تک میں بٹھا رکھا ہے۔ ویسے یہ قومیں ان جانوروں سے محبت کے بڑے دعوے کرتی ہیں۔ اب کیا کہیں ایسے کھُلے جھوٹ پہ تو تُف بھیجنے کو بھی دل نہیں چاہتا۔
اچھا تو وہ جانور بلی بھی نہیں تھا، پھر دھیان آیا کہ رات ہی کوئ بتا رہا تھا کہ جلا ہوئے پزا  ڈرم کے اوپر رکھ دیں یہاں ایک رکون آتا ہے رات کو وہ کھالے گا۔ یہ رکون تھا اور اسی چکر میں آیا، اس کا شاید توازن خراب ہوا اور وہ اس میں گر گیا۔ ڈرم خاصہ بڑا تھا اس لئے وہ باہر نکلنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ میں نے کینیڈا میں بیٹھ کر اپنی سازشی فطرت کو تسکین دینے کے لئے  پوری پاکستانی ذہانت اس واقعے کو سمجھنے میں لگائ۔ امریکہ کا ہاتھ اس میں ہو تو ہو طالبان کا نہیں ہو سکتا۔ کیونکہ اس واقعے میں نہ اب تک کوئ مرا نہ اسکی ذمہ داری انہوں نے لی ۔ امریکہ کے پڑوس میں رہتے ہوئے امریکہ مخالف جذبات کو کچلا تو ہمیں صرف ایک ہی بات سمجھ میں آئ کہ رکون کو ان حالات سے نبٹنے کی تربیت کما حقہ نہیں دی گئ۔ 
اس سے اچھے تو ہمارے آزاد کتے بلیاں ہیں۔ ایسی تربیت ہے کہ اول تو دن کے وقت روڈ کراس نہیں کرتے رات کو کرتے ہیں۔ اور رات کو بھی خاصی احتیاط سے کام لیتے ہیں یوں وہ بھی اسی رفتار سے بڑھ رہے ہیں جس رفتار سے ہم۔ سڑک پہ ہفتہ دس دن میں کسی بلی یا کتے کی سو بار کی کچلی لاش نظر آئے تو ہم اسے ایکسیڈنٹ کہتے ہیں۔ حادثہ نہیں۔ حادثے کی پرورش میں وقت برسوں لگاتا ہے جبکہ ایکسیڈنٹ فی الفور ہو جاتا ہے۔ یہاں کیمسٹری کا ایک قانون یاد آرہا ہے۔ لیکن ہم اسے نظر انداز کرتے ہیں۔ رکون کی تربیت کیمسٹری پڑھانے سے نہیں شروع ہو سکتی۔
ہم نے فوراً گھر کے اندر داخل ہو کر ڈرم میں رکون کی موجودگی کا اسی طرح اعلان کیا جس طرح مسجد سے  گمشدہ بچہ ملنے کی اطلاع دی جاتی ہے یعنی گلا پھاڑ کر۔ اندر موجود، پہلے کے پاکستانی اور اب کے کینیڈیئنز میں ایک سراسیمگی پھیل گئ۔ اب کیا ہوگا؟
اب تو آپ سمجھ گئے ہونگے کہ خمار گندم ہی نہیں ہوتا ہر جگہ کی گندم کے اور بھی اثرات ہوتے ہیں جو طبیعتوں پہ انداز ہوتے ہیں اور اس ادا سے کہ گویا ہمیشہ سے ایسے ہی تھے۔ دروازہ بند کر دیا آپ نے، رکون جارحیت پسند ہوتے ہیں؟ خاتون خانہ نے ہمیں  اطلاع دی یعنی کہ ایک پاکستانی کو۔ اسے ہم نے اپنے اوپر یعنی پاکستان پہ حملہ سمجھا۔   'ڈرم کا دروازہ؟ نہیں کیا، رکون بہت بد حال ہو رہا  تھا، میرا تو خیال ہے کی چالیس ڈگری میں ڈرم کے اندر بیک ہو چکا ہے اس نے توایک مسکین سی نظر کی یہ بتانے کو کہ وہ زندہ ہے اور دوبارہ منہ دبا لیا'۔ ہو سکتا ہے کہ اپنے سامنے ایک پاکستانی جارح کو دیکھ کراسکا  یہ حشر ہوا ہو۔ کیونکہ صحیح بات تو یہ ہے کہ رکون کو اپنا سبز پاسپورٹ دکھانے کا ہمیں ذرا خیال تک نہیں آیا تھا۔
نہیں گھر کا دروازہ؟ 'گھر کا دروازہ، کیوں نہ کھلا چھوڑ دیں ہمیں معلوم ہے اس وقت رکون امریکہ بنا ہوا ہے۔ اس کے پاس نہ طاقت ہے نہ وقت  کہ وہ کھلے دروازوں کو جھانکنے کی زحمت کرے۔ قیامت،  سمجھتی ہیں آپ، قیامت کا دن۔ آج ٹورنٹو میں اڑتیس ڈگری درجہ ء حرارت تھا وہ بھی اڑتالیس سال کے بعد۔ اور آج ہر کینیڈیئن نے جو ٹورنٹو میں رہتا ہے کم از کم اڑتیس دفعہ یہ جملہ کہا ہوگا، کتنی گرمی ہے، اٹس ٹو ہاٹ۔ یہ ہے تو اڑتیس ڈگری لیکن محکمہ ء موسمیات نے کہا ہے کہ مرطوب نہ ہونے کی وجہ اڑتالیس ڈگری محسوس ہو گا'۔ میں نے ایک کراچی والے نے اس میں جتنی حقارت ڈال سکتا تھا ڈال کر کہا۔ 
ہم نے آج تک گرمی کو یا تو درجہ ء حرارت میں ناپا یا محسوس کیا۔ کبھی بیان کوبڑھاوا دینے کے لئے ان دونوں کا اختلاط نہیں کروایا۔ ہمیشہ ہر سال تاریخی گرمیوں سے نبٹنے کے بعد ہم نے فخر کیا کہ دیکھا اسے بھی گذار آئے۔ یہ نہیں کہ پہلے سے بے سدھ پڑ گئے محکمہ ء موسمیات پہ۔
طے یہ پایا کہ صاحب خانہ کے آنے کا انتظار کیا جائے۔ اگر اس وقت تک رکون نکلنے میں کامیاب نہ ہوا تو صاحب خانہ کو معلوم ہے کہ گھر میں ایک بڑا ڈنڈا کہاں ہے وہ اس سے ڈرم کو ٹیڑھا کر دیں گے اور اس طرح رکون کے بھاگنے کی کچھ سبیل پیدا ہو گی۔
کچھ منٹ گذرے ہونگے کہ وہ آگئے۔ ڈرم ٹیڑھا ہوا اور رکون اس میں سے اس طرح نکل بھاگا کہ تمام تماشائ یہ منظر دیکھنے کی کوشش ہی کرتے رہ گئے۔
گھر میں کچھ سکون ہوا۔ پورے ٹورنٹو میں یہ واحد گھر تھا جہان ایک دن میں دو مصیبتیں نازل ہوئیں۔ ایک گرمی اور دوسرے رکون۔
اب ہم جادو ٹی و ی پہ بیٹھے وطن عزیز میں اینکرز کی پھیلائ گرمی کا زور دیکھ رہے تھے کہ ایک عزیزہ کی آمد ہوئ۔ بچوں نے انہیں دروازے پہ ہی آج کے دلچسپ قصے کی رننگ کمنٹری سنا ڈالی۔ جائے ایکسیڈنٹ کا معائینہ بھی کر وا ڈالا۔ واقعات کی ترتیب اور گہرائ کو جان کر جب وہ گھر میں داخل ہوئ تو پھٹ پڑیں۔
یہ آپ لوگوں نے کیا کیا؟ رکون کو بھگا دیا؟ تو پھر ہم کیا کرتے؟ میں نے انہیں سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ '۹۱۱ پہ اطلاع کرتے ناں اور ٹی وی والوں کو فون کر دیتے۔ وہ آتے اس سارے واقعے کی فوٹیج بنتی اور اس وقت ہم یہ جادو دیکھنے کے بجائے' انہوں نے  ٹی وی پہ نظر آنے والے پاکستانی چہروں کو بغض سے دیکھتے ہوئے کہا۔ 'ہم اس وقت ٹی وی پہ اپنی فوٹیج دیکھ رہے ہوتے ۔ ہم کیا اس وقت پورا ٹورنٹو اسے دیکھ رہا ہوتا کہ ہم نے کس ذمہ داری سے ایک رکون کی جان بچائ. لوکل میڈیا پہ تاریخی گرمی کے بعد یہ دوسری سب سے بڑی خبر ہوتی جو مسلسل دوہرائ جارہی ہوتی'۔
ہاں، ہم نے سوچا بات تو ٹھیک ہے۔ اس رکون کو تو اب تک یاد بھی نہ ہوگا کہ کہ ہم نے اسکی جان بچائ۔ رکون تو رکون ہاتھی بھی ایسی انسانی نوازشیں یاد نہیں رکھتا جبکہ کہتے ہیں کہ ہاتھی کی یادداشت بڑی اچھی ہوتی ہے۔ ہمارے سیاستداں تک یاد نہیں رکھتے کہ کون انہیں مسند اقتدار پہ لے کر آیا۔ یہ فوٹیج بنتی تو کم از کم لوگوں کو تو یاد رہتا، کینیڈا کے لوگوں کو۔
پھر یہاں وطن میں چینلز کی بھرمار ہے مگر آج تک کسی پہ بھولے سے بھی ہماری باری نہیں آئ۔ مرنے والوں کی ہی باری آتی ہے یا مارنے والوں کی ہم چونکہ کسی میں شامل نہیں اس لئے محروم ہیں۔ آنکھ ایک نہیں کجلوٹیاں نو نو۔
لیکن عین اسی لمحے ہمیں کینیڈیئن میڈیا کی غربت اور عسرت پہ افسوس ہوا۔ انکے نظام  اور سیاستدانوں کی کاہلی  اور عاقبت نا اندیشی پہ حیرت بھی ہوئ۔ میڈیا، ریاست کے پانچویں ستون کو انہوں نے رکونزکے متعلق خبریں بنانے پہ لگایا ہوا ہے۔ چھی چھی۔ استغفراللہ۔
ان سے تو ہم ہی اچھے انسانوں  کو انسانوں کے پیچھے اور حیوانوں کو حیوانوں کے پیچھے ہی لگایا ہوا ہے کبھی کبھی حیوان انسان کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ تو یہ انکا پاگل پن ہوتا ہے میرا مطلب انسان کا کہ وہ حیوان کے سامنے آتا کیوں ہے۔ لیکن کیا  کبھی ایسا سنا کہ انسان حیوان کے پیچھے۔ ایک انسان کی یہ تذلیل صرف انہی ملکوں میں ممکن ہے۔ بس یہ سر زمین ایسے ہی اوٹ پٹانگ واقعات کی زمین ہے اس لئے لوگ کہتے ہیں کہ ایک بار دیکھا ہے دوبارہ دیکھنے کی ہوس ہے۔   

7 comments:

  1. ایک دن رکون کے ساتھ۔
    اور یہ نائن ون ون ہوتا ہے۔ ون ون نائن نہیں۔
    اور یہ آپ کے بلاگ پر دائیں کونے پر لوکیشن اب تک ٹورانٹو کینیڈ کیوں ہے ؟

    ReplyDelete
  2. پھر آپ دوبارہ کب آرہی ہیں جی ؟

    ReplyDelete
  3. عثمان، جی ہاں ایکدن پانڈے کے نام سے بھی ہونا چاہئیے۔ سوچ رہی ہوں۔
    لوکیشن پہ ٹورنٹو کیوں ہے۔ لوگوں کو صراط مستقیم سے ہٹانے کے لئے۔ ایک امتحان ہے۔
    نشاندہی کا شکریہ، غلطی درست کر دی ہے۔
    دوبارہ کب آرہے ہیں۔
    ہم سے چھوٹا قمار خانہ ء عشق
    واں جو جائیں گرہ میں مال کہاں

    ReplyDelete
  4. اوجی پانڈے کا دن تو آپ نے رکون کے نام کردیا۔ تصویر پر تاریخ اور وقت مجھے کنفیوژ کررہا ہے۔
    :)
    اور یہ آپ کے میزبان قیام کا کرایہ کچن کی صفائی کی صورت میں وصول کرتے رہے۔
    :)

    ReplyDelete
  5. قصہ مختصر یہ کہ ایک پاکستانی دہشت گرد نے نہ صرف ایک رکون کو حبس بے جامیں رکھا بلکہ پولیس یا میڈیاکو بھی مطلع نہیں کیا
    :p

    ReplyDelete
  6. عثمان، آپکی الجھن ابھی دور ہوتی ہے۔ جب میں نے بعد میں تصاویر تلاش کرنی چاہیں تو اسی حیرت کا سامنا تھا مجھے۔ پھر یاد آیا کہ میرا کیمرہ تو پاکستانی وقت دے رہا تھا۔ میں نے اسے کینیڈیئن ٹائم پہ رکھا ہی نہ تھا۔ اس لئے رکون اور پانڈے کے دن الگ ہو گئے۔ رکون کا پہلے اور پانڈے کا بعد میں۔
    کاشف نظامی، بس آپ جیسے پاکستان دشمن عناصر پاکستان کا امیج بہتر نہیں ہونے دیتے۔ پاکستانی جارح نے چنگیز خانی رحم دلی کا مظاہرہ کیا اور باوجود جاں کے خطرے کے ڈرم کا دروازہ کھلا رکھا۔ اور رکون کو اسکی بے وقوفی اور مستقبل کا ویژن نہ رکھنے پہ ذرا سی سرزنش تک نہ کی۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستانی جارحیت دوسروں کے لئے ایک دم موم ہے۔ کینیڈیئن پولیس کو مفت کے نمبر لینے کا موقع نہ دیا اس طرح کفار کی راہ میں حائل ہوءے اور ایک مجاہد کا کردار ادا کیا۔ بس یا پاکستانی جارح کی مزید خوبیاں گنواءوں۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ