Tuesday, September 27, 2011

اوسٹیو پوریسس-۳

 گزشتہ سے پیوستہ

ہم وہ ہوتے ہیں جو ہم کھاتے ہیں۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ اوسٹیوپوریسس سے بچاءو میں سب سے اہم چیز غذا ہے اور دوسری اہم چیز جسمانی طور پہ مصروف رہنا۔ یہ دونوں چیزیں طرز زندگی میں آتی ہیں۔
ہم یہ نہیں کھاتے، ہم اس طرح نہیں کھاتے، ہم اس وقت اور اس موسم میں یہ چیزیں کھاتے ہیں اور یہ چیزیں نہیں کھاتے۔ ان سب سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہم وہ سب کھاتے ہیں جو جسم کو صحت مند رکھنے میں مدد دے۔
یہ بات ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہماری غذا کو صحت بخش ہونا چاہئیے اس میں وہ تمام بنیادی غذائ اجزاء ہونے چاہئیں جنکی  ہمارے جسم کو روزانہ ضرورت ہوتی ہے، یعنی پروٹین یا لحمیات، کاربو ہائیڈریٹس یانشاستہ، معدنیات اور وٹامنز یا حیاتین۔ ایک متوازن یا صحت بخش غذا کا اہرام دن بھر میں ہماری مختلف غذائ اجزا کی مقدار ضرورت کے مطابق اس طرح بنے گا۔

ہماری آبادی کی بیشتر آبادی خراب غذائ اہمیت رکھنے والی غذا کھاتی ہے۔ اسکی ایک وجہ اگر غربت ہے تو دوسری جہالت۔
غربت ایک عورت کے لئے زیادہ سخت ثابت ہوتی ہےاسکی وجہ یہ ہے کہ ابھی بھی بہت سے گھرانوں میں مردوں کے مقابلے میں عورتوں کو کم غذا ملتی ہے۔ اس بات کو دھیان میں رکھے بغیر کے ایک عورت اگر صحت مند ہوگی تو خاندان مضبوط اور خوشحال ہوگا۔
دنیا کے زیادہ تر حصوں میں لوگ ہر کھانے میں ایک بنیادی غذا ایسی رکھتے ہیں جو سستی ہوتی ہے۔ مثلاً گندم، چاول، آلو  یا مکئ۔ یہ بنیادی غذا جسم کی روزانہ کی ضرورت کو پورا کرتی ہے۔ لیکن یہ ایک فرد کو صحت مند رکھنے کے لئے کافی نہیں۔ لحمیات جو جسم کی نشو ونما میں حصہ لیتے ہیں، چکنائ اور نشاستہ توانائ دیتے ہیں حیاتین  اور معدنیات جسم کی حفاظت اور ٹوٹ پھوٹ کی مرمت کرتے ہیں۔
عورت کو بالخصوص حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کو پانچ اہم حیاتین اور معدنیات چاہئیے ہوتے ہیں۔جو یہ ہیں، لوہا، فولک ایسڈ، کیلشیئم، آئیوڈین اور وٹامن اے۔
بر سبیل تذکرہ، آئرن کی کمی یعنی انیمیا کی بیشتر پاکستانی خواتین شکار ہوتی ہیں۔ آئرن یا لوہا ان اشیاء میں زیادہ ہوتا ہے۔ گوشت، انڈے، مچھلی، مٹر، پھلیاں مثلاً سیم اور لوبیا۔
سبزیوں میں بند گوبھی، سبز پتوں والی سبزیاں، آلو، شکر قند، پھول گوبھی، شلجم، مسور۔
پھل اور بیج میں، سورج مکھی کے بیج، کدو کے بیج، انناس، ، خشک پھل مثلاً چھوہارے، خوبانیاں، اسٹرابیری۔
غریب یا ایسے علاقوں میں جہاں زیادہ غذائ اشیاء دستیاب نہیں ہوتیں آئرن حاصل کرنے کے آسان طریقے استعمال کئیے جا سکتے ہیں۔  لوہے کے برتنوں میںکھانا پکائیں اور پکاتے ہوئے اس میں ٹماٹریا لیموں کا رس شامل کر لیں۔ تو برتن کا آئرن کھانے میں شامل ہو جائے گا۔
لوہے کا صاف ستھرا ٹکڑا جو خالص لوہے کا ہو۔ کھانا پکاتے ہوئے اس میں ڈال دیں۔
لیموں کے رس میں لوہے خالص لوہے کی بنی ہوئ کوئ چیز دال دیں جیسے لوہے کی کیل اسے تھوڑی دیر اس میں پڑا رہنے دیں اور پھر اسکا لیمونیڈ بنا کر پی لیں۔
اوسٹیوپوریسس کے حوالے سے کیلشیئم ایک اہم جز ہے ہم اس پہ تفصیل سے بات کرتے ہیں۔ خواتین کے لئے کیلشیئم اہم ہے کیونکہ بچپن میں یہ ایک لڑکی کو صحیح طور پہ بڑا ہونے میں مدد دیتا ہے۔ اسکے کولہوں کو اتنا چوڑا ہونے میں مدد دیتا ہے کہ بڑے ہو کر وہ بچے کو محفوظ طریقے سے جنم دے سکے۔
حمل کے زمانے میں کیلشیئم نہ صرف بچے کی ہڈیوں کے لئے ضروری ہوتا ہے بلکہ اس کی وجہ سے ماں کی ہڈیاں اور دانت محفوظ رہتے ہیں۔ بڑھاپے میں یہ خواتین کو اوسٹیوپوریسس سے بچاتا ہے۔  صرف اوسٹیوپوریسس ہی نہیں تحقیقات اس خیال کی بھی حامی ہیں کہ کیلشیئم بعض اقسام کے کینسر سے بھی تحفظ دیتا ہے۔
کیلشیئم حاصل کرنے کے لئے دودھ یا اسکی مصنوعات مثلاً کھویا،  پنیر اور دہی استعمال کریں۔ دودھ کی خوشبو یا دہی کا ذائقہ پسند نہ ہو تو اس میں پھل شامل کر لیں یہ کیشیئم جذب ہونے کی صلاحیت کو بھی بڑھاتے ہیں۔
انڈے میں کیلشیئم ہی نہیں وٹامن ڈی بھی بڑی مقدار میں ہوتا ہے۔ روزانہ ہر شخص ایک انڈہ بالکل آرام سے کھا سکتا ہے زردی سمیت۔ سوائے اسکے کہ ڈاکٹر نے کسی وجہ سے منع کیا ہ۔ ایک عام غلط فہمی یہ ہے کہ خواتین کو انڈہ نہیں کھانا چاہئیے یا یہ کہ انڈہ گرم ہوتا ہے۔ یہ دونوں بے بنیاد ہیں۔ 
سمندری غذا، مثلاً شیل فش، سیمن مچھلی، سارڈین مچھلی ہڈیوں سمیت۔
پھلیاں خصوصا سویا پھلی جس سے ٹافو  بنتا ہے۔ جو چایئینز کھانوں میں کثرت سے استعمال ہوتا ہے۔ ٹافو میں ایسٹروجن بھی اچھی مقدار میں پایا جاتا ہے۔اگر آپ  کو دودھ میں موجود لیکٹوز کی وجہ سے اسے ہضم کرنے میں مسئلہ ہوتا ہے تو ٹافو یا دہی استعمال کر لیں۔
ٹافو کیک



سبز پتوں والی سبزیاں , بروکلی،انجیر، بادام، تل اور  اورنجز۔
ہڈیوں کا گودا اگر آپکو کولیسٹرول کا مسئلہ نہیں ہے تو آرام سے لے سکتے ہیں  بالخصوص نوجوان بڑے مزے سے کھا سکتے ہیں۔
اور یہ بات تو آپ اکثر سوچتے ہونگے کہ پرانے زمانے کی خواتین میں اوسٹیوپوریسس اتنا عام کیوں نہیں تھا؟
جناب ایک تو پان کھانے کی عادت، جس میں چونا استعمال ہوتا تھا اور دوسرا گھروں میں صحن۔ جہاں سے دھوپ سارا دن ملتی تھی۔ جی ہاں چونا ، کیلشیئم حاصل کرنے کا ایک آسان ذریعہ ہے۔ اور کھلے صحن وٹامن ڈی کا ذخیرہ۔
کیلشیئم حاصل کرنے کے اور آسان،  سستے ذریعے بھی ہیں۔ 
ہڈیوں یا انڈے کے چھلکوں کو کچھ دیر کے لئے سرکہ یا لیموں کے رس میں بھگو دیں پھر اس ماٰئع کو کسی بھی قسم کے کھانے کی تیاری میں استعمال کریں۔
جب ہڈیوں کا سوپ تیار کریں تو اس میں تھورا سا لیموں ، یا سرکہ یا ٹماٹر شامل کر دیں۔ ہڈیوں سے کیلشیئم نکل کر آپکے سوپ میں شامل ہو جائے گا۔
انڈے کے چھلکے کو بالکل باریک سفوف میں پیس لیں۔ اور پکاتے وقت کھانے میں ملا لیں، دوبارہ وہی بات کہ  اگر اس میں سرکہ، لیموں کا رس یا ٹماٹر ڈال لیں گے تو یہ کیلشیئم آسانی سے جذب ہو جائے گا۔
ایک خاتون کو عمر کی چوتھی داہئ میں داخل ہونے سے پہلے اپنی کیلشیئم کی مقدار کو نظر میں رکھنا چاہئیے۔ کیلشیئم کی یہ مقدار اندزاً بارہ سو ملی گرام ہے۔ جو کہ ہم دودھ ، پھلوں، میووں ، گوشت اور سبزی ہر ذریعے سے حاصل کر سکتے ہیں۔ خوراک سے کیلشیئم کے ملی گرام کا اندازہ لگانے کے لئے نیچے ایک ٹیبل موجود ہے۔ چیک کیجئیے کہ آپکی روزانہ کی خوراک میں کتنا کیلشیئم موجود ہوتا ہے۔

کیلشیئم ملی گرام خوراک
300 ایک کپ دودھ
350  چھ اونس دہی
240 ایک اونس چیڈر چیزیا پنیر
265 دو سلائیس پراسسڈ پنیر
120 چوتھائ کپ کاٹیج پنیر
85 آدھا کپ آئس کریم
370 آٹھ سارڈین مچھلی کین والی
285 آدھا کپ ٹافو
40 آدھا کپ بھیگے ہوئے بھیگے ہوئے  چنے
95 چوتھائ کپ بادام
43 ایک کھانے کا چمچ بادام کا مکھن

اس سے آگے بات آتی ہے ورزش کی ۔ سو یہ تحریر ابھی جاری ہے۔

نوٹ؛ اس تحریر کی تیاری میں دیگر ذرائع کے علاوہجس کتاب سے مدد لی گئ ہے اسکا نام ہے۔ جہاں عورتوں کے لئے ڈاکٹر نہ ہو۔ یہ کتاب پاکستان نیشنل فورم آن ویمینز ہیلتھ کے زیر اہتمام شائع ہوئ ۔

3 comments:

  1. بہت عمدہ تحریر لکھی ہے آپ نے۔ تینوں حصے میں نے آج ہی پڑھے، بہت مفید معلومات ہیں اور خاص طور پر غذا کے متعلق حصہ زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔
    یہ تحریر بلا شبہ ہر خاتون کو ضرور پڑھنی چاہئے۔
    اگر آپ کی اجازت ہو تو میں اپنے بلاگ پہ اس سلسلے کے روابط لگا دوں۔ تاکہ زیادہ لوگ اس سے مستفید ہو سکیں۔

    ReplyDelete
  2. بہت شکریہ آپ کا اس مفید اور معلوماتی تحریر کیلیے۔

    ReplyDelete
  3. عمیر ملک صاحب، جی ہاں بالکل انکے روابط لگا سکتے ہیں یا انہیں کاپی کر سکتے ہیں مگر انکے لنک کے ساتھ۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ