اگر میں آپ سے پوچھوں کہ کیا کبھی آپکو کوئ روحانی تجربہ ہوا ہے تو ایک پاکستانی مسلمان ہونے کے ناطے آپ میں سے اکثر فورا اپنے ماضِی کو کھنگالیں گے اور کچھ اس طرح کے خیال ذہن میں آئیں گے کہ کسی بابا، مجذوب یا اللہ والے سے کوئ ایسی ملاقات ہوئ جس میں اس نے کوئ پیشن گوئ کی اور وہ پوری ہو گئ۔ یا اس نے کوئ بات بتائ جو بالکل درست نکلی۔ کیا یہ روحانی تجربہ ہوتا ہے؟
یہ خیال مجھے اس وقت آیا جب میں عمران خان کی کتاب کے اقتباسات پڑھ رہی تھی جو اس اتوار کے روزنامہ ایکسپریس کے میگزین میں موجود ہے۔ جس میں عمران خان کے روحانی تجربات کے عنوان سے ایک تحریر موجود ہے اس میں انہوں نے ایک پیرنی، ایک جھلے بابا اور ایک دو اور شخصیات کا تذکرہ کیا ہے۔ کچھ ایسی پیشنگوئیوں کا جنہیں میں روحانی پیشنگوئ کم اور زندگی کا مشاہدہ زیادہ سمجھتی ہوں۔
مشاہدے کی قوت اگر زندگی کے تجربات کے ساتھ مل جائے تو یہ وجدان کا روپ دھار لیتی ہے جیسے میری والدہ، جنکے بارے میں ہم سب متفق ہیں کہ وہ جو کہہ رہی ہیں وہ ہوجائے گا۔ لیکن اسکے باوجود ہم یہ سمجھتے ہیں کہ وہ روحانی شخصیت ہرگز نہیں ہیں۔ یہ انکی مختلف معاملات سے وابستگی، زندگی کا حاصل اور خاصی مشاہداتی نظر ہے جو انکی باتوں کو صحیح ثابت کر دیتی ہے۔ ورنہ وہ ایک عام خاتون ہیں جو عام لوگوں سے زیادہ محنتی اور معاملہ فہم ہیں۔
یہ روحانی تجربات ہر مذہب کے ماننے والے کو حاصل ہوتے ہیں۔ عیسائ ، ہندو حتی کہ افریقہ کے جنگلوں میں رہنے والے نیم وحشی قبائل کو بھی۔ اور اس وجہ سے نفسیات میں ایک میدان ان روحانی تجربات کے لئے بھی کھلا ہے بلکہ نفسیات مذہب اسکے عقائد اور سرگرمیوں کو بھی سائینس کی نظر کھنگالتی ہے۔
البتہ حیرت سے مجھے اس وقت گذرنا پڑتا ہے جب دنیا کی مایہ ناز یونورسٹیز سے پڑھے لکھے اشخاص کو ایسی باتیں کرتے سنتی ہوں۔ مثلاً آکسفورڈ یونیورسٹی سے پڑھے ہوئے بے نظیر بھٹو اور عمران خان۔
میرے گھر کی ماسیاں بھی کچھ ایسی روحانی شخصیات کا تذکرہ کرتی ہیں۔ اور اپنی زندگی میں تبدیلی کے لئے انکی طرف دیکھتی ہیں۔ بے نظیر بھٹو ، اقتدار کے دوام کے لئے ڈنڈے کھانے ایک پیر کے پاس جایا کرتی تھیں، بازو پہ بندھے امام ضامن، بکروں۔ مرغیوں، گائے کے صدقے۔ لیکن جس دن انکو قتل ہونا تھا اس دن کوئ امام ضامن بند نہ باندھ سکا۔
عمران خان کی زندگی میں بقول انکے تبدیلی کا باعث بھی کچھ ایسی شخصیات بن گئیں۔ انکی زندگی میں کس تبدیلی کا باعث بن گئیں۔ یہ مجھے نہیں معلوم۔ کیا یہ تبدیلی کہ وہ خوبصورت خواتین کے ساتھ وقت گذارنے والے پلے بوائے سے بڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ ایک ذمہ دار شخص بن گئے۔ انہوں نے اپنی شہرت اور دولت کو بہتر طور پہ عقل کے ساتھ استعمال کیا۔ ایسا ہر سمجھ دار شخص کرتا ہے خاص طور پہ گلیمر کی دنیا کا وہ شخص جو اپنے بڑھاپے کو بھی اپنے شخصی سحر میں مبتلا دیکھتا ہے۔ لیکن کیا انکی بنیادی خصوصیات میں کوئ تبدیلی آئ۔ میرا خیال ہے کہ بنیادی شخصی خواص وہی رہے بس انکی سمت تبدیل ہوئ۔انجلینا جولی اور بل گیٹس یہ سب کچھ بلکہ اس سے زیادہ بغیر کسی روحانی تجربے کے کر رہے ہیں۔ ادھر جنید جمشید بھی کچھ ایسی ہی باتیں کرتے ہیں۔ کیا یہ انکی روحانی تبدیلی ہے؟
طبقہ ء امراء اور طبقہ ء غرباء میں کافی باتیں ملتی جلتی ہوتی ہیں، کم از کم روئیے میں بڑی مماثلت ہوتی ہے۔ میں اپنے طور پہ یہ نتیجہ اخذ کرتی ہوں۔
لیکن ایک سوال جو میرے ذہن میں اکثر ابھرتا ہےاور جو میں آپ سے بھی پوچھنا چاہونگی کہ مافوق الفطرت واقعات کے پیش آئے بغیرکیا کوئ روحانی تجربہ یا کیفیت ممکن نہیں؟ لیکن پہلا سوال وہی ہے کیا آپکو اپنی زندگی میں کوئ روحانی تجربہ ہوا ہے؟
اس قسم کی روحانیت کے لئے آپ کو پہلے مافوق الفطرت پر یقین رکھنا پڑے گا۔ اب پہلے تو کوئی یہ بتائے کہ یہ "مافوق الفطرت" کیا ہے ؟
ReplyDeleteکائنات علت اور معلول سے قائم ہے۔ جو ہے سب فطری ہے۔ جب تک علم نہ ہو صرف اس وقت تک وہ " مافوق الفطرت یا ماورائے فطرت" ہے۔ جب علم ہو گیا تو وہ سب دائرہ فطر ت میں آ گیا۔
ہمارا گمان ہے کہ غالبا ان تمام افراد کو یا تو اپنی زندگی میں کبھی نا کبھی مائیکل پرسنجر کے کورن ہلیمٹ یا 'گاڈ ہیلمٹ' پہننے کا تجربہ ہوا ہوگا یا پھر اسی کا نیوروفزیولاجکل مترادف قشر مغز و اعصاب میں بپا ہوا ہوگا، ورنہ مادے کی اس حقیقی اور ٹھوس دنیا میں ایسی میٹا فزکل باتیں تو دیوانے کی بڑ ہی ہوتی ہیں نا جی۔
ReplyDeleteباقی رہا روحانیت کا احوال تو، جس قدر روح نباتی ہے جگر تشنۂ ناز
اب بس تہمت جذباتیت کی تکرار کی راہ دیکھتے ہیں کہ خرد کی روحانیت سے ناسازگاری کا تو قصہ بیاں ہے ، اور لا محالہ ورد زباں ہے کہ
اک دانش ِنورانی ، اک دانش برہانی
ہے دانش ِ برہانی، حیرت کی فراوانی
عدنان مسعود صاحب، میرا خیال ہے کہ دانش نورانی ہو یا دانش برہانی دونوں کو مقام حیرت گذرنا پڑتا ہے۔ اس لئے شاید روحانیت والے مافوق الفطرت واقعات کے تانے بانے زیادہ بُنتے ہیں جبکہ دانش برہانی ایک واقعے کو فطرت کے تقاضوں میں لانے میں مشغول رہتی ہے۔
ReplyDeleteعثمان، آپ نے اچھیء بات کہی۔ واقعی جب ایک بات کا علم ہو جائے تو وہ فطرت میں داخل ہو جاتی ہے۔ لیکن پھر زیادہ تر لوگوں کی تسلی مافوق الفطرت اعمال سے کیوں ہوتی ہے۔
جس طرح کے تجربات اوپر بیان کئے گئے
ReplyDeleteوہ تو مشاہدات اور تجربات کا نتیجہ ہی لگتے ہیں
میرا تو خیال ہے کہ روحانیت قلوب کی تبدیلی کے سوا کچھ نہیں اگر اس روحانیت کے ساتھ عقل کو حیران کر دینے والے واقعات بھی ہوں تو سونے پہ سہاگہ مگر صرف فورچون ٹیلنگ ، دور بینی یا پوشیدہ چیزوں کو دیکھ لینا کوئی کمال نہیں اور نہ ہی ان چیزوں سے متعلق بالواسطہ یا بلا واسطہ تجربات کوئی حثیت رکھتے ہیں. کمال تو یہ کہ کوئی عام سی سمجھی جانے والی بات آپ پر ایسا اثر کر جائے کہ آپ اپنی زندگی کو یکسر بدل دیں اور " گھاٹے " کے سودے کرنے لگ جائیں.
ReplyDeleteڈاکٹر جواد احمد صاحب، مجھے روحانیت کی اس تعریف پہ اعتراض ہے۔ اگر روحانیت صرف قلوب کی تبدیلی ہو تو کچھ معصوم لوگ بعض واقعات کے بعد بالکل بدل جاتے ہیں اور شیطان بن جاتے ہیں۔ یہ بھی روحانی قلبی تبدیلی ہوتی ہے مگر ہم اسے منفی ہی سمجھیں گے۔
ReplyDeleteمیرا خیال ہے کچھ اور ہونا چاہئیے۔
یہ بات آپکی صحیح لگتی ہے کہ مستقبل بینی یا اس طرح کی دیگر چیزیں کوئ کمال نہیں۔
جہاں تک گھاٹے کا سودا کرنے کی بات ہے اب تک جن لوگوں کو روحانی تبدیلی سے گذرنے کا دعوی کرتے دیکھا ہے وہ سب نفع کے سودے کرتے نظر آرہے ہیں۔
درحقیقت گھاٹا اور نفع بھی خاصی نسبتی اصطلاحیں ہیں آپکا کیا خیال ہے؟
شائد اس لئے کہ "مافوق الفطرت" اپنے اندر اسرار رکھتا ہے جس پر لوگ اپنے اندیشوں کے واسطے تکیہ کر سکتے ہیں۔ جبکہ علم یہ انجانا اسرار ختم کردیتا ہے اور آپ کے سامنے صرف کولڈ ہارڈ فیکٹس ہی رہ جاتے ہیں۔
ReplyDeleteعثمان، بجا کہا آپ نے۔ چونکہ اسرار رکھتے ہیں اس لئے امید اور توقع بھی ختم نہیں ہوتی ، کاہلی کرنے کا بھی موقع ملا رہتا ہے۔ جبکہ کولڈ ہارڈ فیکٹس سے نبٹنے کے لئے بڑی مغز ماری کرنی پڑتی ہے۔
ReplyDelete