Wednesday, September 9, 2009

گند اور گند


اپنی چھوٹی سی بیٹی کی وجہ سے مجھے پچھلے ایک مہینے میں تین مختلف عوامی جگہوں پر بیت الخلاء جانے کی اذیت اٹھانی پڑی۔ بچوں کو احتیاطاًڈائپر میں رکھنے کے باوجود انہیں غلاظت میں زیادہ دیر نہیں چھوڑا جا سکتا ورنہ انکی جلد پر چھالے ہو جاتے ہیں تو لامحالہ اس مصیبت کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ یہ تین جگہیں، کراچی سفاری پارک، باغ ابن قاسم اور قائد اعظم انٹرنیشنل ائر پورٹ ہیں۔
سفاری پارک کے واحد خواتین کے بیت الخلاء میں غلاظت سے بھرا کموڈ اور سارے میں پھیلا ہوا پانی اس بات کی عکاسی کررہا تھا  کہ صفائ ہمارے ایمان کا کتنا حصہ ہے۔ باغ ابن قاسم میں انتظامیہ نے اچھا انتظام کیا ہے اور یہاں کافی سارے بیت الخلاء ایک جگہ پر ہیں ساتھ میں ایک بڑا ھال ہے جس میں کافی سارےبیسن اور شیشے لگے ہوئے تھے۔  یہ ھال اور وہ سیکشن جہاں ٹوائلٹ اسٹالز موجود ہیں کافی ہوا دار ہیں۔یہاں خواتین کی بڑی تعدااپنے بچوں کے ساتھ موجود تھی ان میں سے بیشتر اپنے نک سک کو درست کرنے سے لگی ہوئیں تھیں۔ مجھے چار اسٹالز میں  کموڈ کھول کر بند کرنے کے بعد  پانچواں اس قابل لگا کہ اسے استعمال کیا جا سکے۔ اب منصوبہ ساز آپکو ایک چیز بنا کر تو دے سکتے ہیں لیکن وہ لوگوں کو یہ نہیں سکھا سکتے کہ جو گندگی آپ نے کموڈ کے نذر کی ہے اسے پانی سے فلش کر کے صاف کردیں۔ اسے دوسرے لوگ بھی استعمال کرتے ہیں اور یہ انکے لئے بالکل ضروری نہیں کہ آپکی چھوڑی ہوئ غلاظت کو پانی میں تیرتے دیکھیں۔ نتیجتاً باہر آکر میرا موڈ بالکل ختم ہو چکا تھا اور واپسی کے ایک گھنٹے کے سفر کو جو کسی وی آئ پی کی آمد کی وجہ سے ختم نہ ہو رہا تھا میں سختی سے منہ بند کئے گھر واپس آگئ۔
ائیر پورٹ کی حالت کچھ بہتر تھی لیکن کسی ڈٹر جنٹ کے استعمال نہ کرنے کی وجہ سے  یا مناسب طور پر صفائ کے اصولوں کو انجام نہ دینے کی وجہ سے وہاں شدید بدبو پھیلی ہوئ تھی۔ وہیں ایک کنارے پہ کلیننگ لیڈی اپنے سر کے نیچے دوپٹے کا تکیہ بنائے سو رہی تھی۔ اسے بالکل اس بدبو کا احساس نہ تھا۔
یہ تو اس شہر کا حال ہے جو پاکستان کا سب سے بڑا اور ترقی یافتہ شہر ہے۔ اگر یہاں سے باہر نکل جائیں تو بیت الخلاء کا جیسے کوئ تصور نہیں ہے۔ میں ایک دفعہ حیدر آبادکے ٹول پلازہ کے قریب واقع ایک اچھے خاصے ہوٹل میں گئ تو وہاں پر بھی غلاظت کا کم و بیش یہی عالم تھا۔
سندھ اور بلوچستان کے دیہاتوں میں جہاں تک میں گئ ہوں عام طور پر واش روم کا تصور نہیں ہوتا ۔ لیکن صفائ کے لئے جو لوٹا استعمال کیا جاتا ہے وہ بھی اتنا غلیظ ہوتا ہے کہ اسے استعمال کرنے سے کراہیت ہوتی ہے۔

کراچی سے لیکر گوادر تک ساڑھے چھ سو کلو میٹر کے راستے میں کوئ ایسی جگہ نہیں جہاں کوئ شخص اور  خواتین بالخصوص اس ضرورت کے لئے جا سکیں۔ اگر کوئ ہوٹل ہو تو اول تو وہاں یہ سہولت نہیں ہوگی اور ہوئ تو قدمچے پر سوکھی ہوئ یا گیلی  غلاظت اس تواتر سے ہوگی کہ آپ کئ دن تک اپنے آپ کو کسی بھی جمالیاتی تاءثر سے خالی سمجھنے لگتے ہیں۔
لوگوں کا خیال ہے کہ اس سلسلے میں جس گندگی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے وہ تعلیم کی کمی سے جڑا ہوا ہے۔  واش رومز کو یا بیت الخلاء کو  اور ان سے منسلکہ چیزوں کو گندگی جمع کرنے کی جگہ سمجھ کر مزید گندہ رکھا جاتا ہے۔
  میرے ذاتی خیال میں صاف رہنے اور رکھنے کا احساس کسی بھی انسان کی جمالیاتی حس سے جڑا ہوا ہے۔  خوبصورتی اور صفائ ایکدوسرے سے جڑے ہوئے ہیں بلکہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ صفائ کسی جگہ، یا شخصیت کے حسن کو بڑھا دیتی ہے۔ اور یہ بدصورتی کے اندر بھی کشش پیدا کر دیتی ہے۔  یہ اس بات کا اشارہ بھی دیتی ہے کہ ہم اپنے ارد گرد کے لوگوں کا کتنا خیال رکھتے ہیں۔ اگر شہروں میں کموڈ سے اٹھ کر جانےوالے اسکا فلش چلادیں تودوسرے آنیوالے کو اس ذہنی تکلیف سے نہیں گذرنا پڑیگا۔
اور اگر واقعی اسکا تعلیم آگہی کی کمی سے تعلق ہے تو جس طرح پولیو کی مہم چلائ جاتی اسی طرح اپنے آپ کو اور اپنے بیت الخلاء کو صاف رکھنے کے طریقے سکھانے کی مہم بھی چلانی چاہئیے۔ ہم تو اس مرحلے سے اپنی ابکائیوں کو روکتے ہوئے گذر جاتے ہیں کہ بس پاکستان میں یہی ہوتا ہے یا دوسری صورت میں ان جگہوں کے استعمال سے حتی الامکان گریز کرتے ہیں لیکن اگر ہمارے ساتھ کوئ غیر ملکی ہو تو بڑی سبکی ہوتی ہے۔
اردو میں ایک شاعر چرکی کے نام سے گذرے ہیں جن کا غلاظت کے باب میں شاعری کرنے پر نام بہت مشہور ہے۔ میرے پاس انکا کوئ مطبوعہ کلام نہیں۔ نہ ہوئے چرکی اس طرح کے پبلک ٹوائلٹس میں جانا ہوتا تو پتہ نہیں کیا کیا لکھ کر ڈھیر لگا دیتے۔  

14 comments:

  1. میرے خیال میں یہ تعلیم سے زیادہ تربیت کی کمی کا مسئلہ ہے جناب۔۔
    تعلیم میں تو سب کو پڑھایا جاتا ہے کہ انسان کو کن مجلسی اور معاشرتی آداب کا خیال رکھنا چاہئے، یہ دراصل تربیت کا فقدان ہے جو ہم سب کو ایک بے ہنگم ہجوم کی شکل دئے جا رہا ہے۔ اور میں سمجھتا ہوں، اس معاملے میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور ضروریات زندگی کی چیزوں کا عوام کی پہنچ سے دور ہونا بھی بہت ایمہیت کا حامل ہے، جس کے نتیجے میں لوگ معیار زندگی کو برقرار رکھنے کے لئے زیادہ سے زیادہ کمانے کے چکر میں لگ جاتے ہیں اور اپنے بچوں کی تربیت کو بھول جاتے ہیں۔

    یاد رکھئے، اچھے سکول کبھی بھی ماں کی دی گئی تربیت کی جگہ نہیں لے سکتے۔

    ReplyDelete
  2. لیکن گاءوں دیہاتوں میں تو شہروں سے ابتر صورت حال ہے۔ جیسا کہ میں نے دیکھا کہ گاءوں میں لوگ قدرتی ضرورت کے لئے لیجانے والے لوٹے کو صاف نہیں کرتے۔ جن مٹکوں میں پانی جمع کیا ہوتا ہے ان پر کائ کی ایک تہہ جمع ہوتی ہے۔یہاں تو مائیں سارادن اپنے بچوں کے ساتھ اپنے گھر میں رہتی ہیں۔ اس لئے کہ انہیں معلوم نہیں کہ ان چیزوں کو بھی صاف کیا جاتا ہے۔
    میں اپنے بچپن میں انڈیا میں واقع اپنے ابا کے گاءوں گئ تھی۔ روزانہ صبح لوٹوں اور بدھنوں کے ایک ڈھیر کو رگڑ کر مانجھ کر بالکل چمکتا ہوا رکھا جاتا تھا۔ حالانکہ گھر میں واش روم موجود تھا یہ اہتمام ان مردوں کے لئے تھا جو کھیتوں اور باغات میں جاتے تھے۔ فرق صرف یہ تھا کہ اس گاءوں کی ستر فی صد آبادی پڑھی لکھی تھی۔
    کراچی میں جو امراء کی جگہیں ہیں جہاں ہمارے ملک کا زیادہ سے زیادہ پڑھا لکھا طبقہ جاتا ہے وہاں اسکی شکایت بہت کم ہوتی ہے۔ اور ایسے ہولناک مناظر میں نے آج تک نہیں دیکھے۔ یہ تعلیم پلس تربیت کا مسئلہ ہے۔ جب ماں کو ہی صحیح طریقہ پتہ نہ ہوگا تو وہ بچے کی تربیت کیسے کرے گی۔ دوسری بات یہ ہے کہ ماں کی تربیت اپنی جگہ اور اسکے ماحول کی تربیت اپنی جگہ۔ بہت ساری پھوہڑ اور بد سلیقہ خواتین کے بچے بہت بہترین طریقے سے زندگی گذارتے ہیں کیونکہ یہ چیزیں وہ اپنے ماحول سے سیکھ لیتے ہیں۔ جیسے یہاں سے باہر ملکوں میں جا کر رہنے والے وہاں کے اطوار سیکھ لیتے ہیں۔ مغربی ممالک سے چند سال رہ کر آنیوالوں کو آپ اس طرح کی لاپرواہیاں کرتے بالکل نہیں دیکھیں گے۔
    اب آپ بتائیں کہ آپ کے گھر میں اگر واش روم میں اس طرح غلاظت پڑی ہو تو کیا آپ اپنے بچے کو آکر نہیں سمجھائیں گے یا اسکا انتظار کریں گے کہ انکی ماں انہیں بتائے۔

    ReplyDelete
  3. آپ کا مضون ہے ایسے عنوان پر تھا کہ مجھے مجبور اردو میں‌لکھنا پڑا ورنہ رومن ہی چلنے دیتا۔۔

    خیر آپ نے سب سے زیادہ استعمال ہونے والی جگہ کے بارے میں خوبصورت انداز میں لکھا ہے۔ ویسے کہا جاتا ہے کہ اگر کسی کی صفائی دیکھنا مقصود ہوتو اس کا بیت الخلا دیکھ لیں

    ReplyDelete
  4. بلا شبہ تربیت کا ہی مسئلہ ہے اور اس سے بھی بڑھ کر احساس کا۔۔

    اگر دوسروں کا احساس ہو تو یہ سب معاملات از خود نمٹ جائیں۔ ہم جو چیز اپنے لئے پسند کرتے ہیں دوسروں کے لئے اُن ہی کا خیال نہیں کرتے ۔

    یعنی ہمیں ہمیشہ حقوق تو یاد رہتے ہیں پر فرائض ہم بھول جاتے ہیں۔

    ReplyDelete
  5. بھلا ہو میکڈونلڈ اور کے ایف سی والوں کا ایسے موقعوں پر ان کافروں کے حق میں دعا ہی نکلتی ہے۔ ویسے بھی باحجاب مسلم خواتین کا بازاروں اور تفریح گاہوں میں بھلا کیا کام؟ رہی تعلیم والی بات تو جو کچھ میں لکھتا پڑھتا ہوں ضروری تو نہیں کہ عملی زندگی بھی اسی کے مطابق گزاروں۔
    جن شاعر کا آپ نے ذکر کیا ہے شاید انکا نام چرکین ہے اور انکا سنڈاسی نمونہ کلام اب شاذ ہی کہیں نظر آئے۔(عملی مظاہر تو آپ نے دکھا دیے)

    ReplyDelete
  6. عبدالقدوس، اوروں کا تو مجھے پتہ نہیں لیکن خود مجھے رومن پڑھنے میں شدید تکلیف ہوتی ہے اور میں اسے ترجیح دیتی ہوں کہ پھر انگریزی لکھ لوں۔ آپ نے بہت اچھا کیا کہ اردو میں لکھ دیا۔ میراخیال ہے کہ بس بہت مجبوری میں رومن لکھنی چاہئیے۔ جیسے اس وقت جب اردو نہ لکھ پا رہے ہوں اور انگریزی سے دل کی حسرت پوری طرح نہ نکل رہی ہو۔
    احمد تربیت کے ساتھ آگاہ ہونا ایک بڑا مسئلہ ہے۔ جیسے باغ ابن قاسم میں انہوں نے چیئر کموڈ استعمال کئے ہیں۔ ہماری آبادی کی اکثریت اسے استعمال کرنا نہیں جانتی پھر ایسی عوامی جگہوں پہ انکے لگانے کا کیا فائدہ۔ دوسرے جو لوگ دیہاتون سے آئے ہوتے ہیں چونکہ انہیں واش روم استعمال کرنے کی عادت نہیں ہوتی اس لئے وہ اسکے اطوار سے بھی واقف نہیں ہوتے۔رضوان صاحب آپکی بات صحیح ہے خواتین کے لئے اس قسم کی سہولیات کا اس لئے بھی خیال نہیں اتا کہ ایک طبقے کے خیال میں انہیں گھر سےباہر ہی نہیں نکلنا چاہئیے تو شاید انکے کم نکلنے کے لئے یہ انتظام بھی رکھا جاتا ہے۔ ہم لوگ کبھی اپنے تعلیمی اداروں کی طرف سے پکنک پر جاتے تھے تو سارا دن ایسے ہی گذر جاتا تھا۔ کھانا پینا بھی سوچ کر کھانا پڑتا تھا کہ آگے کیا ہوگا۔
    جبکہ باہر میں دیکھتی ہوں کہ اس ضمن میں بہت خیال رکھا جاتا ہے۔ آسٹریلیا میں میں شاید ہر سو کلو میٹر پر ہائ وے پر ریسٹ روم موجود ہوتے ہیں اور ہر گیس اسٹیشن والے کے لئے لازمی ہے کہ وہاں ہوں بالکل صاف ستھرے واش روم۔ حتی کہ تھائ لینڈ جسے میں بس یونہی ساملک سمجھتی تھی وہاں پر بھی اس سلسلے میں کبھی ایسی پریشانی نہیں ہوئ۔
    جی ہاں آپ صحیح کہہ رہے ہیں انکا نام چرکین ہی ہے۔ کیونکہ یہ نام بھی بہت پہلے اپنے بڑوں سے ہی سنا تھا تو ذہن میں رہ گیا۔ انہی لوگوں کے طفیل کچھ انکے اشعار بھی کان میں پڑ گئے۔ میری نسل کے شاید چیدہ چیدہ لوگوں کو انکے نام اور کام سے آگہی ہوگی۔

    ReplyDelete
  7. ہمارے معاشرتی رویے بھی عجیب ہیں۔ کراچی کے مصروف ترین علاقے صدر میں ایک عوامی بیت الخلاء ہے جس کے دو دروازے ہیں ایک مردانہ اور دوسرا زنانہ اور توقع کے مطابق زنانہ بیت الخلاء پر بہت بڑا سا تالا ہے۔ میں جب بھی بس میں اس کے قریب سے گزرتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ بیت الخلاء کی زیادہ ضرورت تو خواتین کو ہوتی ہے۔ مردوں کا تو اتنا مسئلہ ہی نہیں کہ وہ مسجد وغیرہ کا رخ کر سکتے ہیں جبکہ عورتیں خود بھی اور بچوں کی وجہ سے بھی پریشانی اٹھاتی ہیں۔ ضرورت تو اس بات کی زيادہ ہے کہ خواتین کے لیے بیت الخلاء بنائے جائیں جبکہ ہمارے ہاں معاملہ الٹا ہے۔
    چند ہی مقامات پر صاف ستھرے بیت الخلاء ملے ہیں۔ کراچی کے ایئر فورس میوزیم میں صاف ستھرا انتظام ہے، اس کے علاوہ چند ریستوران ہیں جہاں کے بیت الخلاء بہت صاف ستھرے ہیں۔ لیکن بحیثیت مجموعی عوامی مقامات اور بس اسٹاپوں اور ریلوے اسٹیشنوں وغیرہ پر تو آپ باہر سے بھی نہیں گزر سکتے۔

    ReplyDelete
  8. کيا خوشبودار ٹاپک چھيڑا ہے ديہاتی لوٹا بالکل ويسا نقشہ پيش کرتا ہے جيسا آپ نے کھينچا ميں نے بھی کہيں ديکھا تھا اور پمپز ہاسپٹل کے ٹوائلٹ وہ واحد پاکستانی عوامی بيت الخلاء تھا جس کو بندی نے استعمال کيا بحالت مجبوری اور اسکا حال يہ ہے کہ
    ہماری سانسوں ميں آج تک وہ _ _ _ _ _ مہک رہی ہے
    پھر لوگ کہتے ہيں ہماری پاکستانی مائيں واہ بھئی واہ ان کا تو دنيا ميں کوئی مقابلہ ہی نہيں کر سکتا واقعی کاہلی سستی غير زمہ داری ميں پاکستانی عورت کا کوئی ثانی نہيں

    ReplyDelete
  9. کسی نے کيا خوب کہا ہے دن ميں خود کو پانچ بار صاف کرنے والوں کے ٹوائلٹ اتنے گندے

    ReplyDelete
  10. اسماء کے ساتہ پيرس شناخت کے ليے لکھ رہی ہوں اسماء مرزا مشہور بندی ہے لوگوں کو اسکا گمان ہونے لگتا ہے ميرا نام پڑھ کر تو ميں نے بوٹا فرام ٹوبا ٹيگ سنگھ کی طرح اپنی الگ شناخت بنا لی اسماء فرام پيرس

    ReplyDelete
  11. کراچی میں میمنوں کے نام اکثر ایسے ہوتے ہیں۔ کنول مستری والا، نجم باٹلی والا، جمیل نینی تال والا، نور الدین مٹکے والا۔ ہمارے شعرا میں سے اکثر اپنے علاقے کو اپنی شناخت کے طور پر استعمال کرتے تھے جیسے اکبر الہ آبادی۔ آپ چاہیں تو شاعری شروع کر سکتی ہیں۔
    ڈپٹی نذیر احمد نے اپنی خواتین کی کاہلی دیکھی تو مراءت العروس جیسا ناول لکھ ڈالا۔ اگر کوئ سمجھتا ہے کہ اس میں ان خواتین کی کاہلی شامل ہے تو اسے بھی کچھ لکھنا چاہئیے۔ اس کاہلی کے بھوت کو اتارنے کے لئے۔
    :)
    ابو شامل،شاید ہی کسی کو احساس ہو کہ اس وجہ سے خواتین شدید بیمار پڑ جاتی ہیں۔ کیونکہ خواتین میں قدرتی طور پر یورین انفیکشن ہونے کے امکانات مردوں سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔

    ReplyDelete
  12. صفائی نصف ایمان ہے لیکن کبھی مساجد کے بیت الخلا دیکھئے گا تو ایمان کے درجہ کا حال معلوم پڑے گا۔ باقی جگہوں کی تو بات ہی کیا کرنا۔

    ReplyDelete
  13. urdu mein kaisey likhtay hain :s

    ReplyDelete
  14. گمنام، آپکے کمپیوٹر میں اردو فونٹ ہونا چاہئیں تو آپ یہاں بآسانی ٹائپ کر لیں گے۔ اسکے لئے میں نے جو طریقہ استعمال کیا تھا وہ کرلپ کی سائٹ پر جا کر وہان سے کی بورڈ انسٹال کر لیں۔ اور علوی فونٹ کے لئیے میرے بلاگ پر دئیے گئے لنک پر جا کر اسے ڈاءون لوڈ کر لیں۔
    کرلپ کا پتہ یہ ہے۔
    http://www.crulp.org/

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ