Wednesday, September 23, 2009

غریبوں کا خدا

نپولین بونا پارٹ نے کہا کہ اگر مذہب نہ ہوتا تو غریب امیروں کو قتل کر ڈالتے۔
امیروں کے تحفظ کی ذمہ داری ہمارے ایک مشہور و معروف چینل نے اٹھا لی ہے اور انکے پروردہ نام نہاد عالم اپنی مکروہ مسکراہٹ سے مذہبی اداکاری کے بام عروج پر پہنچے ہوئے اسکی بجا آوری میں مستعد نظر آتے ہیں۔انکے مکالمات جب ایک دوسرے صاحب ایمان سابقہ وجہ ء شہرت گلوکاری اور موجودہ ایک ڈیزائنر بوتیک، نعت خواں، تبلیغی کارکن اور چیزوں کے حلال ہونے کے اشتہارات میں لاکھوں کے عیوض کام کرنے والے نئے دریافت شدہ مسلمان سے ہوئے تو پردہ ء سیمیں پر انکی تجلیات دیکھ کر ایک غریب مسلمان پر ہیبت چھا گئ۔ اپنے بوتیک کے ڈیزائن کردہ لال کرتے کو پہنے ہوئے جنید جمشید اپنے غریبوں کے لئیے پھٹتے ہوئے دل کے ساتھ جب یہ فتوی دیتے ہیں کہ غریب اگر تین دن تک خاموشی سے فاقہ کرے تو اللہ پاک اسکے سال بھر کے رزق کی ذمہ داری لے لیتا ہے تو میرے جیسے ذہن کے غریب ایسے خدا کو ماننے سے انکار کر دیں گے۔
آخر یہ خدا امیروں کے بوتیکس میں، انکے ایمان افروز اشتہارات میں، انکی صلاحیتوں میں اتنی برکت کیوں ڈالے جا رہا ہے۔ یہ برکت پروگرام پیش کرنے والوں کے نورانی اور صحتمند دمکتے چہروں اور ہر دفعہ ایک قیمتی نئے جوڑے کی شکل میں کیوں صرف انکے حصے میں آتی ہے۔ یہ برکت صرف اس چینل کو کیوں ملے جا رہی ہے جو ایک اخبار سے شروع ہوا اور اب ایک صحافتی اسٹیٹ بن گیا ہے۔
یہ سب لوگ خدا کی نازل کردہ نعمتوں کے حقدار کیوں بن گئے ہیں اور کیوں ایک غریب کو دن رات صبر، شکر اور وقار کے سبق دئیے جاتے ہیں۔ سبق بھی وہ دیتے ہیں جنکے جسم اور روح دونوں طمع کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔
اب میرے جیسا غریب ناہنجار اس پروگرام میں ایک مہنگا فون کر کے صاحب پروگرام کی گریہ کرنے والی دعا کےانداز کے بارے میں صدقے واری ہونے کے بجائے ، براہ راست خود خدا سے پوچھنا شروع کر دیتا ہے ۔
 یا خدا، اے مالک تیرا دین کتنا سچا ہے جو ایک راستے سے بھٹکے ہوئے مسلمان کو نیکی کے راستے پہ لے آیا اور پھر تونے اسے نیکی کے راستے پہ آنے کے عیوض دنیا کی راحت، عزت، سہولت، محبت اور شہرت سبھی کچھ عطا فرما دیا۔ اے پر وردگار اب ہم جیسے مسکین ، نااہل، غریب ابن غریب کون سا وظیفہ پڑھیں کہ تو انکو بھی ان تمام نعمتوں سے بہرہ مند فرما۔ آخر تونے ہماری کشائش رزق کو تین دن کے فاقوں کے ساتھ کیوں باندھ رکھا ہے۔
یا خدا  آخر تونے ہمارے کشائش رزق کو تین دن کے فاقے سے کیوں باندھ رکھا ہے
مذہب کی سب سے زیادہ ذمہ داری غریبوں پر عائد ہوتی ہے۔ قیامت کے دن غریب امیروں سے بڑھکر ہونگے۔ یا خدا تونے ہمارے اوپر اتنی ذمہ داری کیوں رکھی ہے۔
نپولین بونا پارٹ کہتا ہے کہ اگر مذہب نہ ہوتا تو غریب--------۔
یا خدا ،  اگر غریب نہ ہوں تو مذہب کی سب سے زیادہ ذمہ داری کس پر ہوگی۔
-
-
-
جہنم میں جائیں نپولین بونا پارٹ، جنید جمشید، عامر لیاقت اور جیو چینل والے۔ اے خدا اگر غریب نہ ہوں تو انکا بزنس کیسے چلے گا۔

20 comments:

  1. محترمہ انیقہ صاحبہ میں آپکی ریگولر تحریروں کا ریگولر قاری ہوں مگر کمنٹ میں مشکل پر صرف پڑھنے تک محدود ہو جاتا ہوں۔ آپ ان باتوں کو پڑھ کر میں رک نہ پایا میرا خیال ہے یہ ایک زبردست پوسٹ ہے۔ ایک اور اچھی پوسٹ پر مبارک باد ۔ ایک کنفیوز غریب

    ReplyDelete
  2. میں پہلی سطر پر تبصرہ کرنا چاہتا تھا، مگر پورا مضمون پڑھنے کے بعد ایسا کرنے سے قاصر ہوں..

    یہی پڑھ کر ہی مرجاؤ کمبختو..!!

    حد ہی کردی..

    ReplyDelete
  3. شائد یہ بات اس سے بہتر انداز میں مَیں نہ کہہ پاتا۔

    ReplyDelete
  4. ”جنگ“ اور محبت میں سب جائز ہوتا ہے ۔۔۔

    ReplyDelete
  5. جنید جمشید صاحب کی شریعت ذرا الگ قسم کی ہے
    بریف کیس اور بوتیک کی رینوویشن کے کانٹریکٹ کے بعد وہ حرام چیزوں کو حلال کرنے کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہیں
    اگر ان سے کبھی بوتیک کے بارے میں سوال کر لو تو فرماتے ہیں "وہ کاروبار تو ہماری زوجہ محترمہ دیکھتی ہیں"۔
    ہاں جی آپ کو تو اللہ کے کاموں سے فرصت نہیں
    اور ہو بھی تو دین دنیا ترک کرنے کی تبلیغ تھوڑا ہی کرتا ہے؟
    منافق ہیں سالے۔ ڈاڑھیاں رکھ کر قوم کو دھوکہ دے رہے ہیں
    ہماری قوم کا حال بھی تو عجب ہے
    اس کے لئے داڑھی ہی دین دار ہونے کی نشانی ہے
    باقی بعد میں بتی جانے والی ہے

    ReplyDelete
  6. کسی بھی سنجیدہ شخص کو جنید جمشید یا عامر لیاقت حسین جیسے لوگوں سے کوئ دلچسپی نہیں ہو سکتی اور نہ وہ ان پر اپنا وقت ضائع کرے۔ لیکن ملک کے معروف میڈیا پر ان حضرات کو اتنا ائیر ٹائم ملنا ۔ اور انکی غلط ترین باتوں کو ان لوگوں تک پہنچانا جو اسکی سمجھ نہیں رکھتے۔ کیا اس چینل کے جرائم میں نہیں آتا۔ میڈیا کے یہ کرتا دھرتا اپنے آپکو حقوق انسانی کا چیمپیئن بنا کر پیش کرتے ہیں اور اپنے آپکو ریاست کا چوتھا ستون کہتے انکی زبان نہیں تھکتی۔ اپنی اس طاقت کا ہر وقت مظاہرہ بھی کرتے ہیں۔
    اگر انکی طرف سے ایسے لوگوں کو شہرت دی جارہی ہے تو دین کی غلط تصویر پیش کرنے میں یہ لوگ دراصل جان بوجھ کر شامل ہیں۔ یہی لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ملک میں طبقاتی نظام کو دوام ملے اور اسکے لئیے یہ ان نام نہاد عالموں کی خدمات کا فائدہ اٹھاتے ہیں جو کہ ذہنی طور پر بیمار ہیں۔ اور انکی بیماری کسی بھی طور سے شہرت اور پیسے کے زیادہ سے زیادہ حصول سے جڑی ہوئ ہے۔
    مجھےحیرت ہے کہ مذہب کا اس طرح چہرہ بگاڑنے والوں کے خلاف کیوں احتجاج نہیں کیا جاتا۔ ورنہ لوگ یہی سوچنے لگ جائیں گے کہ واقعی اسلام بھی صرف غریبوں کے قہر سے امیروں کو بچانے کے لئیے وجود میں لایا گیا ہے۔
    ٰڈفر، انکے بوتیک میں چیزوں کی قیمتیں اتنی زیادہ ہوتی ہیں کہ اس پہ آنیوالی لاگت کے حساب سے اسپر منافع کی شرح کو میں تو حرام کے زمرے میں ہی رکھوں گی۔ جبکہ ہمارے معصوم لوگ ان پر رشک کرتے رہتے ہیں کہ کسطرح گلوکاری سے توبہ کر کے نیکی کے راستے پر آگئے۔ انکا نقصان کیا ہوا۔ پہلے جو بدنامی کی کلفت تھی وہ اب نیکنامی کی الفت میں تبدیل ہو گئ۔ رند رند کے رہے ہاتھ سے جنت بھی نہ گئ۔

    ReplyDelete
  7. اس مضمون کو سمجھنے کے لیے نا چاہتے ہوئے ریفرنس ویڈیو دیکھنی پڑھ گئی لیکن معذرت چاہتا ہوں کہ دوسری کال سے آگے میری برداشت جواب دے گئی اس لیے فتوی نہیں سن سکا۔ لیکن اتنا جانتا ہوں کہ یہ نیم ملا کی عملی شکل ہے اور اس بات پر بھی افسوس ہے کہ میڈیا عوام کی جہالت سے فائدہ اٹھانے کے لیے کس حد تک جاسکتا ہے۔ اس پروگرام کو اب آفیشلی جاہل آن لائن کردینا چاہیے اور حقیقی علماء کو صرف اپنے پندرہ منٹ کے چکر میں اس پروگرام میں‌ شرکت نہیں کرنی چاہیے۔

    ReplyDelete
  8. بی بی!
    آپکی تحریر پڑھتے ہوئے ایک لمحے کو میں ٹھٹھک کر رہ گیا۔ یوں لگا کہ شاید آپ سابقہ گلوکار جنید جمشید، عالم آن لائن اور مذکورہ ٹی وی اور انکے تمام نیٹ ورک کے ساتھ ساتھ ۔ نعوذ باللہ آپ اللہ سبحان و تعالٰی سے بھی شاکی ہیں۔

    آپ کی تحریر میں آپ کی لگن سچی اور خلوص پہ مبنی نظر آتی ہے۔ مگر آپ کا لہجہ انتہائی سخت ہے۔

    ایک بات ہم سب کو ہمیشہ علم رہنا چاہئیے کہ جنید جمشید عالم آن لائن والے جعلی ڈاکٹر ڈگری کے حامل صاحب ، ناپولیون بونا پاغتے۔یا کوئی اور ایرا غیرا نتھو خیرا یا کوئی بھی غیر مستند عالم ۔ اسلام یا اللہ سبحان و تعالٰی بارے میں سرعام رائے متنازعہ رائے دینے کا حق نہیں رکھتا، چہ جائیکہ وہ صبح و شام اپنے کم فہم کے مطابق اسلام کی غیر درست تشریح کرتے پھریں اور اسی بہانے اپنی دنیاوی اور کاروباری تشہیر کے اسباب پیدا کریں۔

    ایسے لوگوں کو ایسی غلط تاویلات پہ روکا جانا چاہئے، انھیں تنبہیہ کی جانی چاہئیے۔ باز نہ آنے پہ ان سے باز پرس کی جانی چاہئیے اور تردید کرنے کے ساتھ ساتھ۔ اسلام کا درست نقطعہ نظر پیش کیا جانا چاپئیے ۔ اسلام کے بارے میں اسقدر شدید غلط فہمیاں شاید غیر مسلموں نے بھی نہیں پھیلائیں ہونگی جسقدر ہم مسلمان خود یہ کام زور و شور سے شب و روز کر رہے ہیں۔ اللہ ہمیں معاف کرے۔

    اسلام ایک مکمل دین ہے۔ اسلام عمل اور محنت کی ترغیب دیتا ہے۔ اور جائز طریقے سے رزقِ حلال کمانے کی تاکید کرتا ہے۔ اسلام میں بلاوجہ بھوک کاٹنے کا کوئی جواز نہیں۔ اسلام خود رزق حلال کمانے کے ساتھ ساتھ اپنے رزقِ حلال سے دوسروں کی مدد اور کفالت کر نے کی تاکید کرتا ہے۔ بجائے محنت کرنے کے اور کسبِ معاش کی فکر کرنے کی بجائے تین دن تک اس آس پہ بھوک کاٹنا کہ پھر اللہ رزق بڑھا دے گا ، ایسا کرنا غیر اسلامی ہے۔

    آپ کی یہ تحریر پسند آئی ہے۔ اللہ سبحان و تعالٰی آپکو، آپکی خلوصِ نیت کا صلہ دے۔ آمین

    ReplyDelete
  9. افسوس کے جنید جمشید نے ایک نیک مقصد کے لیے گلوکاری چھوڑی، مگر وہ پہلے سے بھی زیادہ بھٹک گیا، اور عامر لیاقت اسے بدتمیز کو تو اللہ ہی پوچھے۔

    محترمہ عنیقہ جی، ان لوگوں کی بوتیکس، نیوز چینل میں برکت نہیں پڑ رہی بلکہ ان کی رسی دراز ہو رہی ہے، اور غریب تو ہوتا ہی آزمایش کے لیے ہے، اس لیے فاقے اس کا مقدر ٹھرے

    ReplyDelete
  10. راشد کامران صاحب، ویسے کبھی صرف معاشرہ کس سمت میں جا رہا ہو تو اس قسم کے ٹاک شوز ہفتے میں ایک دو دیکھ لینے چاہئیں۔ خاصی آگاہی رہتی ہے۔مجھے بھی اس بہانے کافی عرصے بعد ان عالم صاحب کو دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ جنید جمشید کو پہلی دفعہ، صاحب ایمان ہونے کے بعد سنا۔ میں کسی اور کی کیا بات کروں میری اماں خود ان پہ نثار رہتی ہیں کہ کیا نیک شخص بن گیا ہے۔
    شکریہ جاوید صاحب۔
    یاسر، میں اس قسم کے نظام کے شدید خلاف ہوں۔ اور ان لوگوں کے حد سے زیادہ خلاف جو مذہب کو اپنے مفاد کے لئیے اپناتے ہیں اور سادہ لوح لوگوں کی معصومیت کو استعمال کرتے ہیں۔ ہر شخص کو اپنے بنیادی حقوق کے لئیے اٹھنا چاہئیے اور انکے جھانسے میں نہیں آنا چاہئیے۔ لوگوں کے لئیے وسائل پیدا کرنا، انہیں ان وسائل سے فائدہ اٹھانے کے لئیے تیار کرنا انکی تربیت کرنا اور ان میں بہتر انسان کے طور پر جینے کی امنگ پیدا کرنا، یہی کسی بھی اچھی حکومت یا لیڈر کی ترجیحات ہونی چاہئیں۔

    ReplyDelete
  11. Exellent but poignant piece of writing..
    I really liked it..
    I'm sorry i don't know how to right urdu here... :-(

    ReplyDelete
  12. عامر لیاقت علی کی ایک وڈیو ہاتھ لگی ہے۔ انتہائی معذرت کہ اس کی زبان بہت بازاری ہے۔ تاہم اگر آپ اس وڈیو کو کسی نہ کسی طرح برداشت کرتے ہوئے 2:32 منٹ تک لے جائیں تو اس بندے کی جون بدلتے دیکھ کر ہنسی نہیں رکتی

    http://www.youtube.com/watch?v=iiyG1pSlzpo

    ReplyDelete
  13. جنید جمشید اور عامر لیاقت کا آپ موازنہ نہ ہی کریں جنید جمشید ان چند گلوکاروں میں سے ایک ہیں جن کوپیارے اللہ نے ہدایت کی توفیق دی یہ ایک الگ داستان ہے کہ اس وقت وہ عروج کی بلندیوں پر تھے اور انہوں گے جب گائیکی چھوڑی تو ان کو کن کن مسائل کا سامنا ہوا اور باقی رہا عامر لیاقت تو اس کی شخصیت تضاد کا شکار ہے۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. جنید جمشید کے کپڑوں کے اسٹور پہ جا کر دیکھ لیں کہ خود وہ کن تضاد کا شکار ہیں۔ ان میں اور عامر لیاقت میں ایک فرق ہے جنید جمشید بات بے بات گالیاں نہیں بکتے۔ اسکی وجہ شاید یہ ہو کہ وہ پہلے گلوکاری کرتے اور مداحوں کا دل جیتنا چاہتے تھے جبکہ مذہبی اسکالر کو مداحوں کا دل جیتنے کی فکر نہیں ہوتی وہ خدا کی ہیبت بٹھانا چاہتے ہیں اور دراصل اس بہانے اپنی۔
      اللہ پیارے نے انہیں ایک نمائشی دین کی توفیق دی، کیا اللہ ایسا کر سکتا ہے؟ یہ جنید جمشید کا اپنا انتخاب ہے ورنہ وہ مذہب کے اس ورژن کو نہ پیش کرتے جس کے لئے لوگ کہتے ہیں کہ اس سے غریب کو صبر اور شکر کی تلقین کی جاتی ہے تاکہ وہ امیروں پہ حملہ نہ کر دیں۔
      اگر کسی میں اسلام کی صحیح روح سمجھنے کی صلاحیت ہو تو وہ اس طبقاتی نظام کے خلاف جدو جہد کرے گا جیسا کہ رسول اللہ نے اپنے زمانے میں کی۔
      ایک دفعہن پھر معذرت کہ میں رسول کے نام کے ساتھ درود ن ہیں لکھا۔ آپ نے بھی ابھی تک کسی آیت اور حدیث کے حوالے سے مجھے اب تک یہ نہیں بتایا کہ درود لکھنا اور بولنا ضروری ہے۔

      Delete
  14. میرے محدود علم کے مطابق درود شریف ایک دینی نوعیت کا عمل ہے اور ایک امتی کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کو ظاہر کرتا ہے ایک مسلمان کے لئے حضور ﷺ کے نام مبارک کے ساتھ درود پڑھنا کتنا ضروری ہے رسول اﷲ صلى الله عليه وسلم کا نام نامی اسم گرامی سن کر درود نہ پڑھنا ازلی شقاوت وبد بختی کا باعث ہے ، ایسے شخص پر رسول اﷲ صلى الله عليه وسلم نے اپنی کئی احادیث میں بددعا بھی کی ہے ، بخاری شریف کی وہ مشہور حدیث سبھی جانتے ہیں کہ آپ صلى الله عليه وسلم نے منبر پرچڑھتے ہوئے تیں مرتبہ آمین فرمایا ، تو صحابہ کرام رضى الله عنه بے چین ہوگئے ، آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : ابھی میرے پاس جبریل عليه السلام آئے تھے ، انہوں نے تین شخصوں کے حق میں بد دعا کی ، جن میں وہ شخص بھی ہے جس کے پاس میرا نام لیا گیا لیکن اس نے مجھ پر درود نہیں بھیجا ،اس پر میں نے آمین کہا“۔(رواہ ابن خزیمہ وابن حبان وصححہ الالبانی فی صحیح الترغیب والترھیب 997)

    سیدنا ابوہریرہ رضى الله عنه سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا : ” اس شخص کی ناک خاک آلود ہو (یعنی وہ ذلیل ورسوا ہو) جس کے پاس میرا نام لیا گیا لیکن اس نے مجھ پر درود نہیں بھیجا“۔(ترمذی :3539)

    سیدنا علی بن ابی طالب رضى الله عنه سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : ” حقیقی معنوں میں بخیل وہ شخص ہے ، جس کے پاس میرے نام کا تذکرہ ہوا ، لیکن اس نے مجھ پر درود نہیں بھیجا “۔(ترمذی :3545)

    اس لیے ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ رسول اکرم صلى الله عليه وسلم کا نام مبارک سن کر کم از کم صلّی اللہ علیہ وسلم کہے ۔اور اسی طرح اسے صرف رسول اللہ لکھنا درست نہیں بلکہ بہت ادب اور احترام کے ساتھ رسول اللہ ﷺ لکھنا چاہیئے۔آپ چین ون کے ملبوسات پر ایک مضمون کیوں نہیں لکھ لیتیں وہاں تو جنید جمشید سے بھی ذیا دہ مہنگے ملبوسات ہوتے ہیں۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. میں چین ون کے ملبوسات پہ اس لئے نہیں لکھتی کہ اسکے مالک اپنے دیندار ہونے کا نہ صرف ڈھنڈھورا نہیں پیٹتے بلکہ غریبوں کا صبر شکر اور شرم کی تلقین بھی نہیں کرتے۔ آپ شاید اب یہ فرق سمجھ جائیں کہ جس طرح ایک بکنی پہنی ہوئ عورت حجاب کا پرچار کرتے ہوئے مضحکہ خیز لگے گی اسی طرح وہ شخص بھی دین کا تمسخر اڑاتا ہوا محسوس ہوتا ہے جو اپنی زبان چلا کر اور مذہبی علامتیں اختیار کر کے انسانوں میں احترام حاصل کرنا چاہتا ہو۔

      Delete
    2. آپ نے یہ نہیں بتایا کہ خود رسول اللہ کی زندگی میں کتنے لوگ آپکے نام کے ساتھ درود لگاتے تھے اور جب ان سے مخاطب ہوتے تھےتو یہ عمل کرتے تھے۔ ان سب احادیث کی توثیق کہاں سے ہو سکتی ہے کیونکہ جن کتابوں سے یہ احادیث نکالی گئ ہیں ان میں بے شمار احادیث ایسی ہیں جن میں لوگوں نے آپکو پکارا، آپکا نام لیا لیکن اسکے ساتھ درود نہیں لگایا۔
      میں تو اپنی وجہ آپکو بتا چکی نہ آپ رسول ہیں اور نہ خدا۔ نہ آپ مجھے کسی چیز کا اجر دے سکتی ہیں اور نہ دلوا سکتی ہیں۔ اس لئے اس سے زیادہ مطمئن میں آپکو کرنا نہیں چاہتی۔ آپ خود یاسا ہی کرتی ہیں ، یہ آپکی تسلی کے لئے کافی ہونا چاہئیے۔

      Delete
  15. جنید جمشید اگر معاشی طور پر خوش حال ہیں تو اس سے ان کی مذہب سے دوری کا کوئی تعلق نہیں بنتا اللہ آپ کو دین کو درست طور پر سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے

    ReplyDelete
    Replies
    1. میں نے کب کہا کہ وہ مذہب سے دور ہیں۔ میں تو یہ کہہ رہی ہوں کہ وہ بھی مذہب کی ظاہر داری میں مبتلا ہیں۔
      ورنہ جھوٹ بولنے میں وہ کم نہیں۔
      جائز منافع ، بھی اسلام میں بڑی اہمیت رکلھتا ہے اور جنید جمشید اپنی شہرت کا جو اصل میں انہوں نے بطور گلوکار کمائ تھی اس طرح فائدہ اٹھاتے ہیں کہ اپنی مصنوعات پہ جو منافع لیتے ہیں وہ اصل سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ جءھوٹ وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ کاروبار میری بیوی کا۔ بیوی کا ہے لیکن برانڈ نام تو آپکا استعمال ہوتا ہے آپکی بیوی آپکا نام استعمال کر کے پیسے بنا رہی ہیں۔ یہ وہی سیاستدانوں والوں حال ہے کہ کرپشن کی رقم سے جائداد بناتے ہیں وہ اپنے نام پہ نہیں رکھتے بیوی بچوں یا دیگر رشتے داروں کے نام پہ ہوتی ہے۔

      Delete
    2. لیکن مستند ذرائع سے تو یہی خبر ہے کہ اس بوتیک میں جنید جمشیدکا صرف نام شو ہوتا ہے.... جس کے معاہدے کی رُو سے ان کو سالانہ رقم ملتی ہے، یعنی وہ سلیپنگ پارٹنر ہیں۔ باقی پروڈکشن اور سیل دوسروں کے ہاتھ میں ہے۔ اور یہ بھی واضح رہے کہ یہ جو ان کا نام بیچا جا رہا ہے.... یہ بطور گلوکار ان کی شہرت کے طفیل ہے نا کہ بطور نعت خواں.... اور پھر اس بوتیک کی مہنگی پروڈکٹس کون غریب لیتاہے، ان کے کمپٹیشن میں دسیوں دوسرے ہیں، اور سب کے جو گاہک ہیں، وہ ہی ان کے بھی ہیں۔بہرحال آپ کا اعتراض کہ دین کو بنیاد بنا کر کاروبار کیا جارہا ہے، یہ عامر لیاقت جیسے کے لیے تو بالکل صحیح ہیں، لیکن میری رائے میں جنیدجمشید کو اس کے برابر کھڑا کرنا درست نہیں۔ جنید شہرت کی عروج پا کر اس طرف آئے ہیں، جب کہ عامر کی شہرت کی وجہ ہی یہی ہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ میں یہ بھی سمجھتی ہوں کہ گلوکاری سے توبہ کرنے کے بعد جنید کو میڈیا سے بالکل دور ہو جانا چاہیے تھا۔ لیکن شاید ناموری کا مزہ ایسا نہیں کہ اتنی آسانی سے چھوڑ دیاجائے۔اور بھی ان سے کئی غلط کام ہو ئے ہیں لیکن غلطیوں سے کون مبرا ہے، ہم ان کے لیے دعا گو ہیں۔
      ویسے عنیقہ آپ نے تبصرے کے لیے جو ہدایات لکھی ہیں، میں بے ساختہ ہنس پڑی۔ یعنی کوئی دیسی گالیاں نہیں امپورٹیڈ گالیاں دے تو آپ تبصرہ جانے دیں گی!؟

      Delete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ