Thursday, September 24, 2009

میں، وہ اور قومی ترانہ

تم مخاطب بھی ہو, قریب بھی ہو
تم کو دیکھوں کہ تم سے بات کروں
شاید آپ بھی اس الجھن سے گذرے ہوں۔ مجھے کچھ دنوں پہلے اس صورتحال سے پھر گذرنے کا اتفاق ہوا۔ ٹی وی کے ایک معروف، خوش شکل میزبان کی ایک محفل میں مجھے بھی کسی کے اصرار پر شرکت کرنی پڑی۔ اگرچہ کہ یہ خاصی پیشہ ورانہ نوعیت کی ملاقات تھی۔ اور اسکے بارے میں بجا کہا جا سکتا ہے کہ اسقدر بھیڑ میں ہوتی ہے ملاقات کہاں۔ لیکن تین گھنٹے انکے ساتھ گذارنے کی سعادت سے یہ دل ابھی تک ہلکورے لیتا ہے۔
محفل کے آغاز میں انہوں نے غیر رسمی گفتگو کے دوران کہا کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ انہیں اردو نہیں آتی۔ اسے انکا دل چاہتا ہے کہ اپنے پیروں سے کچل دیں۔ انہوں نے شدت جذبات میں انہیں پیروں سے کچل کر دکھایا بھی۔ یہ الگ بات کہ پیروں تلے کوئ تصوراتی مخلوق کچلی گئ۔ ہم تو ویسے ہی گنگ بیٹھے تھے مزید رعب میں آگئے۔ پھر انہوں نے پوچھا کہ لوگ ایسا کیوں کہتے ہیں۔ مختلف لوگوں نے اسکے مختلف جواب دئیے۔  ان جوابات سے آپ آگاہ ہی ہونگے۔
 تھوڑی دیر میں جب  حالت یہ ہوئ کہ چپ رہ نہ سکا حضرت یزداں میں بھی اقبال ،  تو میں نے ان سے کہا کہ یہ سوالنامہ جو ابھی انہوں نے وہاں پر موجود شرکاء  کو تقسیم کیا ہے۔ یہ سارا کا سارا انگریزی میں کیوں ہے۔ جبکہ اس جگہ پر مختلف طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ موجود ہیں۔ جن میں سے کچھ بہتر طور پر انگریزی سے واقف بھی نہیں۔ انہوں نے اپنے ہاتھوں کی انگلیوں کو ایک ادائے بے نیازی سے ہلایا اور جواب ملا، 'اردو ٹائپنگ بہت مشکل ہوتی ہے۔ بڑا چکر ہوتا ہے بس اسی لئیے سوالنامے میں اردو ترجمہ نہیں رکھا گیا'۔
خیر صاحب، محفل زیادہ تر انگریزی کمیونیکیشن کے بعد اپنے اختتام کے قریب پہنچی اور انہوں نے بر سبیل تذکرہ بتایا کہ لوگوں کو اپنا قومی ترانہ تک تو یاد نہیں ہوتا۔ میری قسمت کہ میں پھر بول اٹھی۔ 'یہ ہے بھی ذرا مشکل'۔ تس پر وہ آکر میرے سامنے کھڑے ہو گئے، اور آستینیں اوپر چڑھالیں۔کوٹ کے اندر ایک ہاتھ کمر پہ ٹکایا۔ اور اتنے ظالمانہ انداز میں مجھ پہلے سے گھائل شخص کو کہنے لگے کہ کیا مشکل ہے۔ اب میں  گھگھیائ۔' اردو میں نہیں ہے'۔ اس پر انکی پیاری پیشانی پر لا محدود بل پڑ گئے۔ ارے آپ ، اب یہ کہیں گی کہ یہ فارسی میں ہے۔ اور پھر ایسے انداز میں جس سے جھلک رہا تھا کہ تف ہے آپ پر۔ وہ میرے قریب جھک گئے اور ایک ایک کر کے ترانے کے سارے مصرعے پڑھ ڈالے۔ ہر مصرعے کے اختتام پر پوچھتے کہ سمجھ آیا کہ کیا کہا۔ میں بچہ جمورا کی طرح سر ہلا دیتی۔ پورا ترانہ ختم کرنے کے بعد فتحیاب انداز میں سیدھے ہوئے  دونوں ہاتھ جھاڑے اور فرمایا۔۔ کہاں ہے مشکل اور کہاں ہے فارسی۔ 
صورت حال کچھ ایسی ہو چلی تھی کہ
صرف اسی شوق میں کی تجھ سے ہزاروں باتیں
میں تیرا حسن، تیرے حسن بیاں تک دیکھوں
 اپنی قسمت پہ رشک آیا اور لمبی زبان کو دل ہی دل میں تھپتھپایا۔ اتنی لمبی گفتگو اور صرف مجھ سے۔ ایکبار پھر اس سحر سے باہر نکلی اور منمنانے کی کوشش کی کہ میرے جمعدار، مالی، ڈرائیور، ماسی کسی کو بھی سمجھ نہیں آتا۔ دل میں سوچا اسی بہانے ان لوگوں کو بھی شاید پذیرائ ملے۔ جواب ملا 'انکی یہ زبان نہیں ہے'۔ اب کیا کہتی،  یہی تو میں کہہ رہی تھی۔
کبھی آپ کو یہ لگا کہ جن کی شکل اچھی ہو انکی فارسی بھی کتنی آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے۔

سوالات؛
اس محاورے کا مطلب بتائیں، ہاتھ کنگن کو آر سی کیا، پڑھے لکھے کو فارسی کیا۔
اس شعر کا پہلا مصرعہ بتائیں، جس نے ڈالی بری نظر ڈالی۔

عملی مشق؛
صرف اس دوکان سے خریداری کریں، جس کے سیلز مین کو پورا قومی ترانہ یاد ہو۔ بعد ازاں ایک فہرست تیار کریں کہ آپکی خریداری پہ اس سے کیا فرق پڑا۔

13 comments:

  1. قومی ترانہ یاد ہو نہ ہو، ایک قوم ہونے کا سبق ضرور یاد ہونا چاہئے۔ لیکن یہ بات "انٹلکچوئلز" کو سمجھ نہیں آتی۔

    ReplyDelete
  2. kon sahab thay yeah? chalain chupain naheen? :$

    ReplyDelete
  3. بس جی ہمارے یہاں ترانہ ہی کیا کئی چیزیں قومی قرار دے دی گئی ہیں جن کا قوم سے اتنا گہرا تعلق نہیں۔
    ترانہ فارسی
    آئین انگریزی
    قومی زبان اردو۔ جو سات سے آٹھ فیصد لوگوں کی مادری زبان ہے اور کسی بھی دوسری زبان کو قومی قرار دے دیا جائے تو لوگ اسے سیکھ ہی لیتے ہیں۔ جیسے انگریزی میں ہم لوگ کام چلا ہی لیتے ہیں۔
    مذہب عربی۔
    حکمران بیرونی۔
    تفریحی میڈیا ہندی۔ آج کل کے حساب سے ورنہ میڈیا خاصا اردو میڈیم تھا جس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کی اردو اچھی ہے

    تو ان تمام چیزوں کے ہم آہنگ ہونے کی جو بھی صورت بنے گی اسے ہم پاکستان کہہ سکتے ہیں۔ اور وہاں متاثرین آپ کو انگریزی میں اردو کی ترقی کے رقعہ تحریر کریں گے اور اردو نا جاننے والوں کو پاؤں تلے کچلیں گے ۔۔ لائیک این آنٹ۔۔

    ReplyDelete
  4. خرم جہاں مذہب میں ظاہری باتوں پہ زور دیا جانے لگا ہے وہاں حب الوطنی بھی اسی قطار میں کھڑی ہے۔اور کھنگالیں تو یہ قطار خاصی لمبی ہوتی جائے گی۔ ہمیں ظاہریت بہت پسند ہے۔
    گمنام صاحب، نام بتادوں تو آپ کہیں گے ارے آپ ان پہ فدا ہو رہی تھیں۔تو مجھے کیا کئ کو دکھ ہوگا۔ چلیں پردے میں رہنے دیں۔
    راشد صاحب، شکر کریں قومی زبان اردو پہ ٹلی جو سات آٹھ فی صد لوگوں کو آتی بھی ہے۔ یہاں تو کچھ لوگ اس لئے ناراض بیٹھے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی تخلیق کا مقصد اس لئے پوارا نہیں ہوا کہ یہاں قومی زبان عربی نہیں بنائ گئ۔ ویسے آپ نے جو کہا بجا کہا۔

    ReplyDelete
  5. راشد بھائی! بڑی متنازع باتیں کی ہیں آپ نے؟ :) قومی ترانے میں کم از کم ایک لفظ کو تو "اردو" قرار دے دیں "پاک سرزمین 'کا' نظام"
    ویسے بھی اردو کا کم از کم 40 فیصد تو فارسی ہے ہی، اس طرح اور کئی الفاظ پر سے بھی فارسی کی چھاپ ہٹا کر انہیں اردو کہا جا سکتا ہے۔
    دوسری بات اردو قومی سے زیادہ عوامی زبان ہے۔ آٹھ فیصد افراد کی مادری زبان ہونے کے باوجود اس کی جڑیں تقسیم ہند سے قبل سے ہی عوام میں گہری تھیں۔ اس لیے آج تک حکومتی سرپرستی نہ ہونے کے باوجود اردو کا دامن وسیع ہوتا جا رہا ہے۔
    سب سے متنازع بات جو مجھے لگی وہ آپ کا مذہب کو عربی قرار دینا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ اسلام ایک عربی مذہب ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں کا بیان اسلامی تعلیمات کا حصہ نہ ہوتا۔
    عنیقہ صاحبہ! اگر پاکستان کی قومی زبان عربی قرار دی جاتی تو یقین جانیں آج ہماری سرکار نے اس کا حشر 'اردو' سے بھی برا کر دینا تھا۔ شکر ہے عربی ہماری دست برد سے محفوظ رہی، ورنہ انگریزی کی ملاوٹ کر کر کے اس کا تیاپانچہ کر دیتے ہم۔

    ReplyDelete
  6. ابو شامل، اگرچہ آپکے سوالات تو راشد کامران صاحب سے ہیں لیکن ایک بات پر میں بھی جراءت اظہار کرنا چاہتی ہوں اور وہ یہ کہ وہ میراخیال ہے کہ اسلام کو عربی نہیں کہہ رہے ہیں بلکہ اس ورژن کو عربی کہہ رہے ہیں جسے آجکل ہمارے یہاں بڑی شدو مو سے ترویج دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
    چلیں ایک بات پر تو آپ راضی ہوئے کہ عربی قومی زبان نہ بنانے کا فیصلہ کتنا دانشندانہ تھا۔ یہاں تک تو ہم اور آپ پہنچ ہی گئے۔
    :)

    ReplyDelete
  7. میری بات بالکل یہی تھی جو عنیقہ صاحبہ نے واضح کردی۔۔ مذہب عربی سے مراد یہی ہے کہ ایک تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ اسے سمجھنا بالائے بنفشی شعاعوں سے کھیلنے کے مترادف ہے اس لیے بس اس پر ایمان لے آؤ جیسا کے ہم نے سمجھا یا سمجھنے کی کوشش نا کرو۔ بہر حال ایک متنازع بات ہے اور میں اس کو تسلیم کرتا ہوں‌ اس لیے عربی سیکھنے اور سکھانے کے حق میں۔

    جہاں تک اردو کے قومی زبان ہونے کا تعلق ہے تو شاید عربی یا فارسی میں ہماری جڑیں زیادہ گہری تھیں اور اردو کے بجائے انہیں‌قومی زبان بنا کر زیادہ فائدہ اٹھایا جاسکتا تھا بصورت دیگر بنگلہ اکثریتی زبان تھی۔ اردو کو قومی زبان بنا کر کوئی فائدہ نہیں اٹھایا گیا سوائے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے اور بعد کے سیاسی حالات نے یہ ثابت بھی کردیا اور تعلیمی اور تہذیبی زوال آپ کے سامنے ہے۔

    ReplyDelete
  8. یہ ترانے کی بجائے قدیم یو نانیت کے فلسفے پہ مبنی دعا لگتی ہے۔ جس میں سارا زور زمین پہ ہے اور اسمیں اگر خدا کا ذکر بھی آتا ہے تو ثانوی طور پہ زمین کی خاطر آتا ہے۔ اور اس زمین پہ بسنے والے لوگوں یا قوم میں خدا کیلئیے یا اپنی ذات کے لئیے ہی سہی کچھ کر گزرنے کا ولو لہ اور جواز پیدا نہیں کرتا ۔

    جو لوگ انگریزی میں اردو کی اہمیت پہ روشنی ڈالتے ہیں۔ محفل کے آداب کے خلاف سب کے سامنے مخاطب پہ تابڑ توڑ حملے کر کے، یا اپنے مخاطب کی بہتر اخلاقی حدود کو جان تے ہوئے اسے نروس کر کے میدان مارنے پہ پھولتے ہیں۔ بی بی! بس اس طرح کے لوگ بھی ہمارے دیگر المیوں میں سے ایک بڑا المیہ ہیں۔ یہ دوہرا معیار رکھتے ہیں ۔ منافقت کرتے ہیں ۔ بسا اوقات ایسے لوگوں کا علم چند ایک گنی چنی باتوں سے ذیادہ نہیں ہوتا ۔ اور انہی گنی چنی باتوں سے وہ اپنے مخالف فریق کو سب کے سامنے لاجواب کر نے کی کوشش کرتے ہوئے اپنی گنجلک شخصیت میں چھپی انتہائی کمینی خود پسندی اور انا کی تسکین کرتے رہتے ہیں۔ مذہب سے لیکر امور حکومت تک اور ادب سے لیکر سائینس تک سے تعلق رکھنے والی پاکستان میں ایسی شخصیات دوسرے ممالک سے سے بہت ذیادہ پائی جاتی ہیں۔

    آپ کے بلاگ پہ رائے دینا تکینی لحاظ سے بہت مشقت طلب کام ہے ۔ یا شاید یہ مسئلہ صرف میرے ساتھ ہی ہے۔ بہرحال۔۔۔

    ReplyDelete
  9. یری ذاتی رائے میں قومی ترانہ موجودہ شکل میں نہ تو قومی ہے اور نہ ہی اسے ترانہ کہا جاسکتا ہے۔ قومی ترانے کا فارسی میں ہونے کی وجہ کے علاوہ اسمیں ایک اور مشکل ہے جو اس کو ترانے کی تعریف پہ پورا اترنے میں مانع ہے۔ ترانے میں جذبات اور خیالات کی ترجمانی ہوتی ہے۔ امنگ اور جذبے بھرے ہوتے ہیں۔ ترانہ دلوں کو گرما دیتا ہے، روحوں کو تڑپا دیتا ہے۔ جو امن کی حالت میں، کھیل میں ، جنگ میں نیز کسی بھی صورتحال میں کسی قوم یا گروہ کے اندر سے نکلتا ہے اور بسا اوقات انکے اپنے جذبات پہ چھا جاتا ہے۔ اور حوصلوں کو مہمیز کرتا ہے۔ ترانے کی ایک تعریف یہ بھی ہے کہ اسکے گائے جانے سے لوگ اسکی رُو میں بہتے چلے جاتے ہیں۔ جبکہ پاکستانی قومی ترانہ اسطرح کی بہت سی خصوصیات سے محروم ہے۔

    ReplyDelete
  10. راشد کامران صاحب، میرے خیال میں تعلیمی اور تہزیبی زوال میں اور بہت سے اہم عناصر شامل ہیں۔ ان میں پاکستان کا ایسے علاقوں پر مشتمل ہونا جو حد سے زیادہ فیوڈل مزاج رکھتے تھے۔ نہرو نے انڈیا کے آزاد ہونے کے فوراًبعد اس نظام کے خاتمے کی طرف عملی اقدام اٹھائے۔ اور ہماری طرف یوں لگتا ہے کہ پاکستان بننے کی امید ہی نہ تھی اور سب کچھ اتنا اچانک ہو گیا کہ ہمیں یہ تک اندازہ نہ تھا کہ اب اس مملکت خدادا کا کرنا کیا ہے۔ وہ تو بھلا ہو لوگوں کے اس وقت کے جوش اور جذبے کا کہ کچھ لاج رہ گئ لیکن جیسے جیسے وقت گذرتا رہا۔ یہ خامی اور واضح طور پر سامنے آتی گئ۔ بد قسمتی سے ہمیں کوئ ایسا لیڈر نہیں مل سکا جو وژن رکھتا ہو اور قوم کے اندر جذبہ بھی پیدا کر سکے اور جس میں اتنی ہمت ہو کہ وہ اس دیمک لگے نظام کو ٹھوکر مار کر نیست و نابود کر دے۔
    جاوید صاحب آپ نے وہ بات کہہ ڈالی جو میں نے لکھ کر مٹا دی۔ اور میں ابو شامل کو لکھ رہی تھی کہ ہمارا ترانہ رعب دار الفاظ کا مجموعہ ضرور ہے لیکن یہ کسی احساس سے خالی ہے۔ اس سے زیادہ جذبہ تو مجھے امانت علی کے اس نغمے کو سن کر ہوتا ہے جسکے بول ہیں اے وطن پاک وطن۔ در حقیقت جب میں نے ابو شامل کا ترکی ترانے کا ترجمہ پڑھا تو یہ احساس اور بڑھ گیا۔ آپ نے ترانے کے متعلق جو کچھ لکھا اس سے میں سو فیصد متفق ہوں۔

    ReplyDelete
  11. عنیقہ صاحبہ اور برادر راشد! بہت شکریہ۔

    ReplyDelete
  12. جاوید صاحب نے ترانے پر بہت اچھا تجزیہ پیش کیا ہے۔ ترکی ترانے کا ترجمہ پڑھ کر میرے احساسات بھی وہی تھے جو عنیقہ صاحبہ کے ہیں۔ ویسے آج مجھے یہ پڑھ کر حیرت ہو رہی ہے کہ عنیقہ صاحبہ آپ کچھ لکھ مٹا بھی دیتی ہیں اور افسوس بھی کہ آپ نے میرے بارے میں ایک لگی بندھی رائے قائم کر لی ہے ورنہ یہ کوئی اتنی بڑی بات نہ تھی جس سے آپ کو میرے خفا ہونے کا ڈر ہو گیا۔

    ReplyDelete
  13. ابو شامل، تو آپکو پتہ چل گیا کی میں کچھ لکھ کر مٹا دیتی ہوں حالانکہ یہ کتنا مشکل کام ہوتا ہے۔
    :)
    لفظ بھی چیختے ہیں کہ آپکا تو کھیل تھا ہمیں خاک میں ملادیا۔ لیکن آپ پریشان نہ ہوں آپکےخفا ہونے کے خیال سے نہیں کیا۔ بلکہ سوچا یہ تھا کہ یہ مناسب وقت نہیں ہے۔ اس پہ حیران مت ہو جائیے گا کہ میں مناسب وقت بھی دیکھتی ہوں۔
    :)

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ