Wednesday, September 21, 2011

اوسٹیوپوریسس-۲

گذشتہ سے پیوستہ

اب جبکہ ہم اوسٹیو پوریسس کی  ممکنہ وجوہات پہ ایک نظر ڈال چکے ہیں تو یہ اندازہ کرنا مشکل نہیں کہ یہ وہ مرض ہے جو آہستہ آہستہ جڑیں پکڑتا ہے اور انسان کو دیمک کی طرح کھا لیتا ہے۔ ابتداء میں اسکی علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔ اور جب ظاہر ہوتی ہیں تو مرض خاصی شدت اختیار کر چکا ہوتا ہے۔
اگر یہ کسی دوا یا مرض کی پیچیدگی سے  ہو ا ہو تو معالج کو پہلے سے اندازہ ہوتا ہے کہ اوسٹیوپوریسس ہونے کے امکانات کتنے ہیں اور اسکے لئے کیا کیا جا سکتا ہے۔ لیکن خواتین کے معاملے میں ایسا ہو نہیں پاتا۔ وہ سمجھتی ہیں کہ جب تک وہ چل پھر رہی ہیں سب ٹھیک ہے۔ لیکن ہڈیوں یا عضلات میں رہنے والا دھیما دھیما درد آہستہ آہستہ اسی طرف لے جاتا ہے۔
اکثر ہم لوگوں سے سنتے ہیں کہ ہوا تو کچھ بھی نہیں تھا معمولی سی چوٹ تھی اور ہڈی ٹوٹ گئ۔ کبھی کبھی فرد متعلقہ خود حیران ہوتا ہے۔ اسکے ذہن میں کوئ چوٹ ، کوئ حادثہ نہیں ہوتا لیکن ایکسرے بتاتا ہے کہ ہڈی میں فریکچر ہے۔ یہ اوسٹیوپوریسس کی طرف اہم اشارہ ہے۔ خواتین میں کولہے کی ہڈی کا ٹوٹنا بھی عموماً اوسٹیوپوریسس کی وجہ سے ہوتا ہے۔
اوسٹیوپوریسس کی شناخت کے لئے ڈاکٹر آپکے خاندان میں اس قسم کے حادثات کے بارے میں معلومات کرتا ہے اور کچھ ٹیسٹ کرواتا ہے جس میں خون کے بنیادی ٹیسٹ ہوتے ہیں۔ اسکے علاوہ سب سے اہم ٹیسٹ بون منرل ڈینسیٹی ٹیسٹ ہوتا ہے۔ جس سے ہڈیوں کی مضبوطی پتہ چلتی ہے۔ خواتین کے لئے انکی عمر اور سن یاس سے پہلے ظاہر ہونے والی علامتیں اہمیت رکھتی ہیں۔ سن یاس کے بارے میں ہم آئیندہ کسی تحریرمیں تفصیل سے لکھیں گے۔
بون منرل ڈینسیٹی ٹیسٹ  ایک طرح کا ایکسرے ہوتا ہے۔ بعض اوقات کچھ مخصوص ہڈیوں کا ہوتا ہے اور بعض اوقات جسم کی تقریباً سبھی ہڈیوں کو چیک کرتے ہیں۔  ان ایکسرے کو پھر دوسرے ایکسریزکے تقابل  سے جانچا جاتا ہے۔ ایک ایکسرے وہ ہوتا ہے جس میں آپکی جنس، عمر اور جسامت کے انسان ہوتا ہے دوسرا ایکسرے وہ ہوتا ہے جس میں ایک نوجوان شخص ہوتا ہے جو کہ آپکی جنس اور جسامت کا ہوتا ہے اس طرح سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ ایک نوجوان کے مقابلے میں ہڈیاں کتنے نقصان سے دو چار ہیں۔  آپکی ہڈیوں کو اس عمر میں کیسا ہونا چاہئے تھا اور اب یہ اس سے کتنی زیادہ خراب ہیں۔ اس طریقے میں خامی یہ ہے کہ یہ پہلے سے پیشنگوئ نہیں کر سکتا۔ ہڈیوں کو نقصان پہنچ جانے کے بعد ہی بتا سکتا ہے کہ کتنا نقصان پہنچ چکا ہے۔ ڈاکٹر اسکی مدد سے اندازہ لگا سکتا ہے کہ آئیندہ ںے والے سالوں میں یہ چیز کتنی بڑھ سکتی ہے۔
اوسٹیوپوریسس کی شناخت کے لئے الٹرا ساءونڈ کو بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اسکے علاوہ کچھ بائیو مارکرز جنکی شناخت سے پتہ چلتا ہے کہ آپکی ہڈیوں کی حالت اب کیا ہے۔
ایک دفعہ یہ حقیقت معلوم کر لی جائے کہ ایک فرد اوسٹیو پوریسس کا شکار ہے تو اگلا مرحلہ علاج کا آتا ہے۔ اگر اوسٹیو پوریسس زیادہ بڑھ چکا ہے اور اسکی وجہ سے مستقل تکلیف رہنے لگی ہے تو درد  کم کرنے کی دوائیں دی جاتی ہیں۔ درد کم کرنے والی ادویات کے اپنے ضمنی اثرات ہوتے ہیں۔ کچھ دوائیں معدے کی اندرونی جھلی کومتائثر کرتی ہیں۔ اور ایک لمبے عرصے تک انہیں استعمال کرنے سے نظام انہضام کے مسائل اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ جدید تحقیقات ایسی دوائیں سامنے لے آئ ہیں جو اس تکلیف کو پیدا نہیں کرتیں۔ لیکن درد کو کم کرنے والی یہ ادویات آہستہ آہستہ اپنا اثر کھو دیتی ہیں۔ ادھر اوسٹیوپوریسس بھی آہستگی سے بڑھتا رہتا ہے۔
اوسٹیوپوریسس کی رفتار کو قابو میں رکھنے کے لئے دواءووں کی سطح پہ دو اسٹریٹجیز اپنائ جاتی ہیں۔ ایک ہڈی کو اندرونی طور پہ مضبوط کرنے کی دوائیں اور دوسرا اسے گھلنے سے بچانے کی دوائیں۔
ہڈی کی مضبوط تعمیر کے لئے، کیلشیئم کے سپلیمنٹس استعمال کروائے جاتے ہیں جو عموماً وٹامن ڈی کے ساتھ ہوتے ہیں۔ کیلشیئم کے یہ سپلیمنٹس، کاربونیٹس، سٹریٹس، لیکٹیٹس یا گلوکونیٹس  کی شکل میں دستیاب ہوتے ہیں۔ کیلشیئم سٹریٹس، لیکٹیٹس اور گلوکونیٹس پانی میں حل پذیر ہوتے ہیں اور آسانی سے جذب ہوجاتے ہیں۔ کیلشیئم کاربونیٹس کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا۔ کیونکہ یہ پانی میں حل نہیں ہوتے۔ انہیں حل ہونے کے لئے تھوڑا سا تیزابی ماحول چاہئیے ہوتا ہے اس لئے کیلشیئم کاربونیٹس لیتے ہوئے وٹامن سی یا کوئ پھل ساتھ میں لے لیا جائے تو بہتر ہے۔
اوسٹیوپوریسس کے بہت زیادہ بڑھ جانے کی وجہ سے یا ہڈی کے زیادہ کمزور ہونے کی صورت میں ایک اور دوا پیری ٹیراٹائڈز تجویز کی جاتی ہے جو کہ پیراتھائرائیڈ غدود کے ہارمون کی طرح عمل کرتا ہے۔
مخصوص حالتوں میں سوڈیئم فلورائیڈ یا اسٹرانشیئم رینیلیٹ بھی تجویز کئے جاتے ہیں۔
دوسرا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ ہڈی گھلنے کے عمل کو کم کیا جائے اور اسکے لئے ہڈی کی بیرونی تہہ کو امداد دی جائے۔ اس سلسلے میں بائیو فاسفونیٹس استعمال کروائے جاتے ہیں۔ یہ آسانی سے جذب نہیں ہوتے اس لئے اسے ایکدم  خالی پیٹ لینا ہوتا ہے۔ اس لئے صبح سویرے کا وقت اچھا ہوتا ہے۔ پورے ایک گلاس پانی کے ساتھ کیونکہ یہ خاصے تیزابی ہوتے ہیں اور حلق یا غذا کی اوپری نالی میں جلن پیدا کر سکتے ہیں۔ اسے کھڑے ہو کر لینا چاہئیے۔ اسے کھانے کے ایک گھنٹے بعد تک لیٹنا نہیں چاہئیے۔ تاکہ یہ جلد سے جلد معدہ میں پہنچ جائے۔ اور غزائی کی نالی جلن سے محفوظ رہے۔
بائیو فوسفونیٹس اب مختلف پیکنگ میں دستیاب ہیں۔ ان میں سے کچھ ایسے ہیں  جو روزانہ کے بجائے، ہفتے میں صرف ایک دفعہ لینا ہوتا ہے مثلاً فوسا میکس، دوسری طرح کی دوا بون ویوا، جسے مہینے میں ایک دفعہ لینا ہوتا ہے۔ وہ لوگ جنہیں منہ سے کھانے میں مسائل ہیں انکے لئے یہ ایک اور شکل میں دستیاب ہے اور اسے سال میں صرف ایک دفعہ لینا پڑتا ہے۔
خواتین کے سلسلے میں ہارمون تھراپی استعمال کی جا سکتی ہے۔ یہ جسم سے ختم ہو جانے والے ہارمون ایسٹروجن کو توازن میں رکھنے کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ اس سے نہ صرف سن یاس کی علامتوں کو آرام ملتا ہے بلکہ ہڈیوں کے گھلنے کے عمل کو بھی قابو میں لایا جا سکتا ہے۔ ہارمون تھراپی علاج میں خاصی احتیاط کی ضروت ہوتی ہے اور اسے صرف ایک ڈاکٹر ہی تجویز کر سکتا ہے۔  اس طریقہ ء علاج میں جسمانی صحت کے کچھ پیرا میٹرز کو ہر تھوڑے عرصے میں چیک کروانا لازمی ہوتا ہے تاکہ یہ مشاہدہ کیا جاتا رہے کہ اس طریقہ ء علاج سے کوئ نقصان تو نہیں پہنچ رہا۔
اوپر بیان کی گئ دواءووں میں سے کوئ بھی دوا ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر ہرگز استعمال نہیں کرنی چاہئے۔ کیونکہ وہی بتا سکتا ہے کہ آپکی انفرادی حالت کو دیکھتے ہوئے کیا ہونا چاہئیے۔ اسکے علم میں مریض کی صحت کے تمام ایشوز ہوتے ہیں۔
یہ ساری دوائیں یا سپلیمنٹس اوسٹیوپوریسس کی رفتار کو کم کر سکتے ہیں لیکن اسے مکمل طور پہ روک نہیں سکتے۔
اس میں مزید بہتری لانے کے لئے طرز زندگی میں تبدیلی لانا ضروری ہے اور صحت بخش غذا بھی۔ بلکہ اوسٹیوپوریسس سے بچنے کے لئے ابتدائی عمر سے ہی غذا اور طرز زندگی پہ توجہ دینا ضروری ہے۔
اوسٹیو پوریسس کے حوالے سے ایک صحت مند طرز زندگی کیا ہوتا ہے اور کون سی غذائیں جسم کو مضبوط بناتی ہیں۔ اپنے اندازے اور تجربے  بتائیے۔ اس موضوع پہ اس سلسلے کی اگلی تحریر پڑھنا نہ بھولئیے۔

2 comments:

  1. بہت خوب بہت اچھی معلومات شیئرکیں ہیں واقعی میں ایسی تحریروں کی بہت کمی ہے۔ اللہ تعالی آپ کو جزا دے۔ آمین ثم آمین

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ