Thursday, May 20, 2010

رکا ہوا گھنٹال

لکھنا تو ہولوکاسٹ پہ تھا کہ موقع بھی ہے دستور بھی ہے۔  لیکن میں پہلے ایک پیش آنیوالے واقعے پہ لکھتی ہوں۔ میں جب صبح صبح اپنی بیٹی کوموٹیسوری چھوڑنے کے لئے اسے گاڑی میں جلدی جلدی اندر بیٹھنے کا کہہ رہی تھی تو مجھے ایک آواز آئ۔ میرے پیچھے ایک دس گیارہ سال کا بچہ کھڑا تھا۔ کہنے لگا ، باجی صفائ کروانی ہے۔ میں نے کہا نہیں صفائ  نہیں کروانی ہے۔ باجی صفائ کروالو۔ پھر اس نے باہرگرے ہوئے درخت کے پتوں کی طرف اشارہ کیا۔ سب صاف کر دونگا۔ میں نے کہا نہیں تم اس کام کے لئے بہت چھوٹے ہو اب جاءو مجھے دیر ہو رہی ہے۔ اسکے فوراً بعد میں روانہ ہو گئ۔ لیکن میرے دل میں ایک کھٹک تھی۔ اتنے چھوٹے بچے سے کیا کام کرایا جا سکتا ہے۔ اتنے چھوٹے بچوں کی کیا مدد کی جا سکتی ہے۔ کیا مجھ جیسے تنخواہ دار شخص کو جو اپنے گھر سے گاڑی بھی فاصلہ گن گن کر نکالتا ہو کہ ذرا سا بھی زیادہ ہونے پہ میرا بجٹ متائثر ہوتا ہے۔ گھر کے بلب گن کر روشن کرتا ہو گھر کا اے سی پورے سال میں تین مہینے سے زیادہ نہیں استعمال کرتا ہو اور وہ بھی ایک دن میں پانچ گھنٹے سے زیادہ نہیں اوروہ بھی اپنی بچی کی پیدائش کے بعد کہ سب ہی والدین اپنے بچے کو زندگی میں کچھ آسانیاں دینا چاہتے ہیں۔ جو سبزی  اور پھل لینے کے لئے بچت بازار کا رخ کرتا ہو اور جو عام گھریلو خواتین کی طرح ہر مہینے نہیں، ہر سال نہیں کبھی ہی پارلر کا رخ کرتا ہو، جو دوکاندار سے اس سال کے نئے پرنٹس پہ اصرار کرنے کے بجائے پچھلے سال کے پرانے پرنٹس بھی لے لیتا ہو کہ وہ سستے ملیں گے۔ میں ایسے بچوں کی  معاشی حالت میں کیا بہتری لا سکتی ہوں۔
واپسی میں جب میں سگنل پہ رکی تو وہاں گیارہ بچے موجود تھے۔ کسی کے ہاتھ میں وائپر اور پانی کی چھوٹی سی بالٹی موجود تھی کہ گاڑیوں کے شیشے صاف کرنے ہیں اور کوئ یونہی پھر رہا تھآ کہ کوئ بھیک دے دے۔ لوگ انکے ہاتھوں پہ چند سکے رکھ کر آگے بڑھ گئے۔ میں اس گیارہ سالہ لڑکی کو گاڑی کا شیشہ صاف کرنے سے منع کر دیتی ہوں۔ باجی شیشہ نہ صاف کرواءو، کچھ پیسے ہی دے دو۔ مگر گداگری ایک لعنت ہے۔ یہ انسان میں سے عزت نفس ختم کر کے انہیں تن آسان بنا دیتی ہے۔ پھر یہ لوگ معاشرے کی ترقی میں کام آنے کے بجائے بوجھ بن جاتے ہیں۔ میں اپنے ہاتھ اور کان سختی سے بند کر دیتی ہوں۔
ملک بھر میں ان بچوں کی ، ان لاوارث اور بے گھر بچوں کی تعداد لاکھوں میں پہنچتی ہے۔ صرف شہر کراچی میں ایسے بچوں کی تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق پندرہ ہزار سے زائد ہے۔ یہ گھروں سے بھاگے ہوئے بچے، غریب والدین کی عدم توجہ کا شکار ہوتے ہیں۔ اور اسکی بنیادی وجہ والدین کے معاشی حالات کا درست نہ ہونا ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے بچوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کرتے ہیں جنکی لاتعداد کہانیاں ہمارے اطراف میں پھیلی ہوئ ہیں۔
یہ بچے ان گینگز کے ہتھے لگ جاتے ہیں جو ان سے بہت کم پیسوں کے عیوض ہر کام کراتے ہیں۔ اس میں لوگوں کی جنسی ہوس پورا کرنے کا کام بھی ہے۔ ایک سروےکے مطابق ان میں سے اسی فی صد بچے تیرہ سے اٹھارہ سال کے، پندرہ فی صد نو سے بارہ سال کے اور تقریباً چھ فی صد آٹھ سال تک کے بچے شامل ہیں۔ ان بچوں میں سے نوے فی صد مختلف اقسام کی نشہ آور اشیاء استعمال کرتے ہیں اور اسی سے نوے فی صد بچے جنسی زیادتی کا شکار ہوتے ہیں۔
صرف بے گھر بچے ہی نہیں، بلکہ اکثر اوقات یہ بچے اپنے خاندانوں کے ساتھ بھیک مانگتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ماں باپ، اپنے نو زائیدہ بچوں کو بھی اس مقصد کے لئے استعمال کر لیتے ہیں۔
میں محسوس کرتی ہوں کہ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان بچوں کی فلاح و بہبود کے لئے کچھ کرے۔ یوں میں وہاں سے اندرونی طور پہ مطمئن، کسی طرح جان چھڑا کر بھاگنے میں کامیاب ہو جاتی ہوں۔
  گھر واپس آتی ہوں وہ بچہ وہیں بیٹھا ہے۔ اسے اندازہ تھا۔ میں کتنی دیر میں واپس آءونگی۔۔ وہ پھر وہی بات کہتا ہے مجھ سے کام کروالو۔ میں اس سے کہتی ہوں کہ نہیں پاکستان میں چائلڈ لیبر کا قانون موجود ہے اسکی رو سے اگر میں نے تم سے گھر کے باہر کے پتے اٹھوائے تو یہ جرم ہوگا۔ تمہاری عمر اٹھارہ سال سے کم ہے اور تم اس قانون میں آتے ہو۔ میں نے صبح سے ناشتہ نہیں کیا۔ تو میں تمہیں اپنے گھر کا بچا کھچا ناشتہ آج کے دن کے لئے دے سکتی ہوں۔ کل کا وعدہ نہیں کرتی جو پہلے آئے گا وہ لے لے گا۔ باجی میں بہت اچھی صفائ کرونگا اور سب کوڑا اٹھا کر کچرا کنڈی تک پھینک آءونگا۔ کچرا ، یہاں روزانہ جمعدار آتا ہے۔ یہاں تو کوئ کچرا نہیں ہے۔ یہ جو درخت کے گرے ہوئے پتے ہیں یہ جمعدار کل لے جائے گا ۔ میں تم سے کوئ کام نہیں کروا سکتی۔
اچھا سنو نادر، یہی نام بتایا تھآ ناں تم نے تمہارے بہن بھائ کتنے ہیں۔ چھ ہیں ایک مجھ سے بڑا ہے باقی سب چھوٹے ہیں۔ ابا کیا کرتا ہے۔ کام کرتا ہے وہ اپنے پیسوں کا کیا کرتا ہے۔ وہ دادی کی آنکھیں بنانے کے لئے پیسہ جمع کر رہا ہے دادی پنجاب میں رہتی ہے۔ مجھے شبہ ہوا ابا جھوٹ بولتا ہے وہ اس سے نشہ پانی کرتا ہوگا۔  اماں کیا کرتی ہے۔ وہ بنگلوں میں جھاڑو پونچھے کا کام کرتی ہے۔ اب اصولی طورپہ تو جیسا کہ فیشن میں ہے مجھے اس سے یہ پوچھنا چاہئیے تھا کہ تم اسکول کیوں نہیں جاتے، کیا تمہارا اسکول جانے کو دل نہیں چاہتا، جب تمہیں روٹی نہیں ملتی تو کیک کیوں نہیں کھاتے۔

رات کے کھانے کا وقت ہو رہا تھا۔ میں اپنی بچی کو سلا کر فارغ ہوتی ہوں اور اب باقی لوگوں کے لئے کھانا لگا رہی ہوں کہ پھر بیل بجی۔ رابعہ گھر جا چکی تھی ورنہ ڈور بیل وہ چیک کر لیتی ہے۔
ایک پندرہ سولہ سال کی بچی اتنا کام کر سکتی ہے۔ میں پلیٹس ٹیبل پہ رکھ کر جلدی سے اسے چیک کرتی ہوں۔ باجی صفائ کر والو۔ صبح سے کچھ نہیں کھایا۔ آخر یہ بچہ میرے ہی ایمان کی آزمائش لینے کے پیچھے کیوں پڑ گیا ہے۔ یہ ان لوگوں کو کیوں نہیں ملتا۔ جو ذہنی نا بالغوں کو بالغ بنا رہے ہیں۔ میں جھلا جاتی ہوں۔ اور سوچتی ہوں کہ اسے کچھ روپے بھیک میں دے دوں ان پیسوں میں سے جو میری پرانی ماسی نذیراں کا حصہ ہیں۔  تاکہ وہ آج رات کا کھانا کھالے۔ کل کا اللہ مالک ہے کسی اور کے پیچھے پڑ کر لے لے گا۔ ورنہ وہی کرے گا جو روڈز پہ پھرنے والے بے گھر بچے کرتے ہیں۔
نذیراں ڈیڑھ سال سے چھاتی اور رحم کے کینسر میں مبتلا ہے۔  اور اسی طرح اپنے پرانے لوگوں سے پیسے جمع کر کے ایک خیراتی ہسپتال سے علاج کروا رہی ہے۔ ہسپتال والے  مفت علاج تو کرتے ہیں مگر دوا کے پیسے نہیں دیتے۔ وہ عمران خآن کے ہسپتال سے بھی علاج نہیں کروا سکتی۔ بالکل مفت تو وہاں بھی نہیں ہوتا اور پھر لاہور شہر میں رہنے کا خرچہ کہاں سے لائے گی۔ مگر ٹہریں میں پہلے اس بچے سے نبٹ آءووں یہ مسلسل بیل بجا رہا ہے۔ حکومت کچھ نہیں کرتی،ہمارے لئے اور جو کچھ کر سکتے ہیں انکا  ضروری کام تو عصمت چغتائ اور بانو قدسیہ کے نقش قدم پہ چل کے 'اصل حقائق' پیش کرنا ہے۔ 
آپ میں سے کچھ کو یہ اتنا اچھا نہیں لگے گا۔ اس میں ، میں نے ان بچوں کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی کی تفصیلات جو نہیں دی ہیں۔
لیکن میں سوچتی ہوں یہ میرے ناول کے لئے یا کہانی کے لئے ایک اچھا انداز ہو سکتا ہے۔ بجائے میری عوامی پوسٹ کے۔ آپ کیا خیال کرتے ہیں۔

22 comments:

  1. کیا عصمت چغتائی صاحب یا صاحبہ نے بھی ریڈیو یا ٹی وی کیلئے لکھا ہے ؟

    ReplyDelete
  2. کیوںجی، عصمت چغتائ، ایک خاتون ہیں۔ انیس سو پندرہ میں پدا ہونے والی یہ خاتون ترقی سپند تحریک سے تعلق رکھتی تھیں۔ اور انہوں نے جنس سمیت بیشتر موضوعات پہ کھل کے لکھا۔ لیکن ان کا خاص مضمون آزادی ء ننساں تھا۔ لوگوں نے جنس کے موضوع پہ تو انکی تقلید کرنے کی خواہش کی لیکن اگر انہی لوگوں کے سامنے خواتین کے حقوق پہ بات کی جائ تو آگ بگولہ ہو جائیں گے۔ جس قسم کی خاتون کا تصور عصمت کے یہاں ملتا ہے، جنس کے موضوع پہ انکی پیروی کرنے والوں کے لئے اسکا تصور بحی محال ہے۔ لیکن پھر بھی وہ اپنے لئے انکا نام استعمال کرنا ضرور چاہیں گے۔
    انکی کہانیوں پہ فلمیں تو ضرور بنی ہیں مگر وہ ڈرامہ رائٹر نہیں تھیں۔ کسی اور نے انکی کہانیوں پہ ڈرامے بنائے ہوں تو میرے علم میں نہیں۔

    ReplyDelete
  3. عصمت کے بارے میں مزید معلومات یہاں سے حاصل کر سکتے ہیں۔

    http://www.google.com.pk/search?q=ismat+chughtai&ie=utf-8&oe=utf-8&aq=t&rls=org.mozilla:en-US:official&client=firefox-a

    ReplyDelete
  4. خیال۔؟ یا رائے۔؟؟

    تحریڑ ایک آئینہ ہے جس میں سب ننگے ہیں۔


    (نوٹَ آپکی پچھلی ایک تحریر پہ میری رائے پتہ نہیں کہاں گُم ہو گئی؟)

    ReplyDelete
  5. جاوید صاحب، میں نے تو ڈرتے ڈرتے کھولا کہ ابھی اس میں بھی میرے لئے پند و نصائح موجود نہ ہوں۔

    ReplyDelete
  6. کسی کی بات اچھی نہ لگے تو اسکو برا کہنا کچھ زیادہ برا ہے تو نہیں ۔ مگراسی دوران اپنے ہی زاتی بائس کا آئیڈیا دے جانا بھی کوئی مناسب بات نہیں لگتی ۔

    ReplyDelete
  7. ذاتی تعصب کا آئیڈیا دینا بری بات ہے لیکن اپنے ذاتی تعصب پہ لوگوں کو نشانہ بری بات نہیں۔
    ذاتی تعصب پہ مبنی گروہ بندیاں کرنا بالکل بری بات نہیں۔ کسی بھی بات میں اپنے طور پہ اپنی نسل کے لئے تعصبی نظریات کو کھینچ لانے پہ ثواب دارین ملتا ہے۔ میں بھی ایسی ہی دوہری حکمت عملی اختیار کرتی ہوں۔ پھر آپ خوش ہو جائیے گا۔

    ReplyDelete
  8. بہت اچھی تحریر ہے انیقہ ۔۔ میں بھی بہت اداس ہوجاتی ہوں ایسے بچوں کو دیکھ کر ۔۔
    آپ نے لکھا ہے کہ ڈرتے کھولا کہ پند و نصائح نہ ہوں تو اس کا مطلب آپ جانتی تھیں کہ ایسا کچھ لکھا ہے جس پر نصیحتیں ملیں گی :smile:
    میں بھی ڈرتے ڈرتے تھوڑی نصیحت کروں گی ۔۔ آپ نے متنازع بات نہیں لکھی بہت اچھا کیا لیکن اس کو جتایا تو اس بات کی اچھائی مانند پڑ گئی ۔۔ یہیں پر کہیں پڑھا تھا کہ آپ کے لفظ نہیں عمل آپ کو دوسروں سے معتبر کرتا ہے ۔۔ آپ لڑیں پر الفاظ سے نہیں آداب سے :smile: کچھ برا لگے تو پیشگی معذرت۔۔۔

    ReplyDelete
  9. بڑا ہی گھما پھرا کے جواب دیا ہے، زرا سوچنے کا ٹائم دیں ۔

    ReplyDelete
  10. مبارک ہو ۔ آپ نارمل ہیں اور ایب نارمل ہوجانے کے چانسز بھی نہیں ۔

    ReplyDelete
  11. i think this is a general problem specially in pakistan and all should should work together to resolve it .Instead of giving money.We should give them some skill training like what shahzad roy is doing .Your post is good and thoughtfull.Keep it up.

    ReplyDelete
  12. جاوید صاحب، میں نے تو ڈرتے ڈرتے کھولا کہ ابھی اس میں بھی میرے لئے پند و نصائح موجود نہ ہوں۔ عنیقہ ناز

    بی بی!
    بہت کم نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ جو کسی فرد محض کسی مخصوص موضوع پہ اختلاف کی وجہ سے ، اُس فرد کی باقی خوبیوں کو بھی اپنے اختلاف کی بھینٹ چڑھادیں ۔ اور ہر صورت اس کی مخالفت پہ آمادہ رہیں۔قوموں کی تنزلی میں یہ عنصر بھی پیش پیش رہا ہے۔

    کسی مخصوص موضوع پہ آپ سے اختلاف رائے ہو سکتا ہے۔ مگر اس سے میری نظر میں آپکی عزت میں کبھی کمی نہیں ہوئی۔

    ReplyDelete
  13. جب لوگ اس طرح کی گفتگو کرتے ہیں تو وہ محض اپنے ذہن کے چھوٹے ہونے کا ثبوت فراہم کرتے ہیں،
    مجھے اس بات کی سب سے زیادہ خوشی ہے جن لوگوں کو میں تعلیم یافتہ اور سمجھدار سمجھتا تھاوہ سب اپ کے ہم آواز ہیں اور میرے اطمینان کے لیئے اس سے بڑی اور کوئی بات ہو ہی نہیں سکتی!!!

    ReplyDelete
  14. اگر ميں آپکی جگہ ہوتی تو وہی کرتی جو آپ نے کيا مگر کوئی اور ہماری جگہ ہوتا تو کيا کرتا؟

    ReplyDelete
  15. السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
    سسٹرساری ذمہ داری حکومت پہ ڈال دینابھی اچھانہیں ہےماناکہ حکومت بہت آہستہ آہستہ کام کرتی ہےلیکن ہمارابھی اخلاقی فرض بنتاہےکہ ایسےبچوں کی تعلیم وتربیت کےلیئےآگےآئیں تاکہ ملک میں بھکاریوں کی نہیں تعلیم یافتہ اورباشعورلوگوں کی اکثریت ہو۔

    والسلام
    جاویداقبال

    ReplyDelete
  16. یہ بڑا سلگتا ہوا موضوع ہے اور اس سے معاشرے کی ترجیحات کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ ذمہ داری تو ظاہر ہے بطور سوسائٹی سب ہی کی ہے اور حکومت بھی معاشرے کا ہی حصہ ہے۔ ملک میں سوشل سیکیورٹی کا ایسا سسٹم نہیں ہے کہ بچوں کو کام نا کرنے دیا جائے۔۔ یہ چائلڈ لیبر کی سپورٹ نہیں ہے لیکن بصورت دیگر وہ چوراہوں پر ہی نظر آئیں گے۔ پھر کچھ معاملہ وہ بھی ہےجیسے آپ کے علم میں ہو کہ کراچی میں نصرت بھٹو کالونی میں ایسے خاندان آباد ہیں جن کا پیشہ مسجد اور مدرسوں کے نام پر چندہ جمع کرنا ہے اور وہ اپنے بچوں کو زبردستی بھیک مانگنے پر بھی مجبور کرتے ہیں جو ہاتھ میں قرانی دعاؤں کی کتاب لیے ہر جگہ نظر آتے ہیں۔ ان سے کسی بھی قسم کا معاملہ سنگین نتائج کی صورت میں برآمد ہوتا ہے کیونکہ وہ مافیا کی صورت اختیار کرچکا ہے اور ایسے معاملات میں عام آدمی کی پہنچ محدود ہوجاتی ہے سوائے اس کے کہ ایسے لوگوں کی مالی اعانت سے ہاتھ کھینچ لیا جائے۔

    ReplyDelete
  17. جاوید صاحب، اس میں کچھ باتیں طنزیہ بھی ہیں۔ میں آپ سے یہی سننا چاہتی تھی کہ سب باتیں حکومت ی ذمہ داری نہیں ہوتے۔ اسی طرح چائلڈ لیبر جیسے قوانین بنا کر ان بچوں کے ساتھ مزید زیادتی تو کی جا سکتی ہے لیکن جس تک صحیح تناظر میں قوانین نہیں بنتے وہ نافذ نہیں کئے جا سکتے۔ ایک بچہ جنسی زیادتی سمیت ہر زیادتی کا شکار ہو لیکن ہم دوسرے لوگوں کو روکیں کہ ان سے کوئ کام نہ کروایا جائے۔ اس سے کیا یہ بہتر نہیں کہ ان میں عزت نفس پیدا کی جائے۔ اور انہیں انکی عمر اور جسمانی طاقت کو سامنے رکھتے ہوئے ایسے کام کرنے کو دئیے جائیں کہ وہ دو وقت کا کھانا بلا خوف و خطر کھائیں اور ایک عام انسان کی طرح زندگی میں سے اپنا حصہ وصول کریں۔

    ReplyDelete
  18. http://nawaiadab.com/khurram/?p=1044

    ReplyDelete
  19. طنزیہ باتوں کے علاوہ میں آپ کی اسی برائی کے خلاف اٹھائی کی آواز سے متفق ھوں۔

    ReplyDelete
  20. راشد کامران صاحب، شکریہ۔ میں خود اس بات کت حق میں ہوں کہ ان بچون کی محنت کے حقوق متعین کئے جائیں۔ تاکہ وہ بھی کچھ سیکھ کر کچھ کرنے کے قابل ہو سکیں۔ چائلڈ لیبر قوانین اس وقت تک کوئ معنی نہیں رکھتے جب تک اصل عوامل کو ختم نہیں کیا جاتا۔ اس وقت ملکی سطح پہ جو عالم ہے اس سے ان بچوں کا جو کہ جانوروں کی سطح پہ زندگی گذار رہے ہیں۔ انکے لئے کچھ ہونا ممکن نہیں۔ لیکن اب اگر میں اس بچے کو میںیہ کہوں کہ ٹھیک ہے تم یہ پتے یہاں سے روزانہ صاف کر دیا کرو، میں تمہیں اسکی تنخواہ دونگی تو کیا یہ میری منافقت کی ضمن میں آتا ہے، کیا میں ظالم ہوں یا وہ لوگ ظالم ہیں جو بظاہر چند قوانین بنا دیتے ہیں لیکن مسائل کے مناسب حل نہیں پیش کرتے۔ اس طرح سے وہ ان لوگوں کے لئے مزید مشکلات کا باعث بنتے ہیں۔ اور انکے پاس بھیک مانگنے کے علاوہ کوئ چارہ نہیں رہتا۔

    ReplyDelete
  21. میرا اصول یہ ہے کہ اگر کوئی بچہ کچھ بیچ رہا ہو تو میں اس سے ضرور خرید لیتا ہوں چاہے مجھے اس کی ضرورت ہو یا نہ ہو،اور جو بھیک مانگے اس کو یہی مشورہ دیتا ہوں کہ کچھ محنت کرو چیزیں فروخت کرو میں ضرور خریدوں گا مگر بھیک نہیں دوں گا اور اپنے ملنے والوں کو بھی میرا یہی مشورہ ہوتا ہے،
    اکثر بچے گاڑیوں کے شیشے صاف کرتے ہیں لوگوں کو اعتراض ہوتا ہے کہ یہ بجائے صاف کرنے کے اور گندے کردیتے ہیں اس لیئے انہیں جھڑک کر منع کرتے ہیں میں کہتا ہوں بھائی اگر کوئی ٹھیک سے صاف نہ کرے تو کسی مناسب جگہ گاڑی روک کر ایک بار خود ہاتھ پھیر لو بھلا کتنی محنت اور کتنی دیر لگتی ہے؟؟؟
    اصل مسئلہ یہ ہے کہ ایسے بچوں کی تعداد دن بدن بڑھتی ہی جارہی ہے،آخر ایسا کب تک چلے گا؟؟؟؟

    ReplyDelete
  22. معاشرے کے ان پہلوؤن سے سب خوف ذدہ ہیں جانے ان کا کیا مستقبل ہوگا آنے والا وقت بہت خطرناک ہے
    اکثر ایسوں کا سوچ ہر ہی جھر جھری سے آجاتی ہے
    اللہ ان حکمرانوں کو عقل اور اس پہلو کی جانب بھی سوچنے کا وقت دے

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ