Tuesday, May 25, 2010

ردّ شر

یوروپ ایک مدت تک اسلام کے متعلق کچھ نہیں جانتا تھا۔ جب اس نے جاننا چاہا تو مدت دراز تک عجب حیرت انگیز مفتریانہ خیالات اور توہمات میں مبتلا رہا۔ ایک یوروپین مصنف لکھتا ہے
عیسائیت اسلام کی چند ابتدائ صدیوں تک اسلام پر نہ تو نکتہ چینی کر سکی اور نہ سمجھ سکی۔ وہ صرف تھراتی اور حکم بجا لاتی تھی۔ لیکن جب قلب فرانس میں عرب پہلے پہل روکے گئے تو انکی قوموں نے جو انکے سامنے سے بھاگ رہی تھیں۔ منہ پھیر کر دیکھا جس طرح کہ مویشیوں کا گلّہ جبکہ اسکا بھگا دینے والا کتا دور نکل جاتا ہے۔
یوروپ نے مسلمانوں کو جس طرح جانا اسکو فرانس کا مشہور مصنف ہنری دی کاستری جسکی تصنیف کا عربی زبان میں ترجمہ ہو گیا ہے یوں بیان کرتا ہے
وہ تمام قصص اور گیت جو اسلام کے متعلق یوروپ میں قرون وسطی سے رائج تھے۔ ہم نہیں سمجھتے کہ مسلمان انکو سن کر کیا کہیں گے؟ یہ تمام داستانیں اور نظمیں ، مسلمانوں کے مذہب کی ناواقفیت کی وجہ سے بغض و عداوت سے بھری ہوئ ہیں۔ جو غلطیاں اور بد گمانیاں اسلام کے متعلق آج تک قائم ہیں انکا باعث وہی قدیم معلومات ہیں۔ ہر مسیحی مسلمانوں کو مشرک اور بت پرست سمجھتا تھا اور حسب ترتیب درجات انکے تین خدا تسلیم کئے جاتے تھے۔ ماہوم یا ماہون یا نافومیڈ یعنی محامڈ اور اپلین اور تیسرا ٹرگامان۔ انکا خیال تھا کہ محمد نے اپنے مذہب کی بنیاد دعوائے الوہیت پر قائم کی  اور سب سے عجیب تر یہ ہے کہ محمد یعنی وہ محمد جو  بت شکن اور دشمنان اصنام تھا لوگوں کو اپنے طلائ بت کی دعوت دیتا تھا۔
اسپین میں جب عیسائ مسلمانوں پہ غالب ہوئے اور انکو سرقوسطہ کی دیواروں تک سے ہٹا دیا تو مسلمان لوٹ  کر آئے اور اپنے بتوں کو انہوں نے توڑ ڈالا۔ اس عہد کا ایک شاعر کہتا ہے کہ
اپلین مسلمانون کا دیوتا وہاں ایک غار میں تھا۔ اس پر وہ پل پڑے اور اسکو نہایت سخت سست کہا۔ اور اسکو گالیاں دیں اور اسکے دونوں ہاتھ باندھ کر ایک ستون پر اسکو سولی دی اور اسکو پاءوں سے روندا اور لاٹھیوں سے مار مار کر اسکے ٹکڑے کر ڈالے اور ماہوم کو یعنی جو انکا دوسرا دیوتا تھا۔ ایک گڑھے میں ڈالدیا اسکو سور اور کتوں نے نوچ ڈالا۔ اس سے زیادہ اس سے پہلے کسی دیوتا کی تحقیر نہیں ہوئ ۔ اسکے بعد مسلمانوں نے اپنے گناہوں سے توبہ کی اور اپنے دیوتاءووں سے معافی مانگی اور ازسرنو تلف شدہ بتوں کو بنایا۔ اسی بناء پہ جب شہنشاہ چارلس سر قوسطہ میں داخل ہوا تو اس نے اپنے ہمراہیوں کو حکم دیا کہ تمام شہر کا چکر لگائیں ، وہ مسجدوں میں گھس گئے اور لوہے کے ہتھوڑوں سے ماہومیڈ اور تمام بتوں کو توڑ ڈالا۔
ایک دوسرا شاعر ریچہ خدا سے دعا کرتا ہے کہ
وہ ماہوم کے بت کے پجاریوں کو شکست دے
اسکے بعد وہ امراء کو جنگ صلیبی کے لئے ان الفاظ میں آمادہ کرتا ہے
اٹھو اور ماہومیڈ اور ٹرماگان کے بتوں کو اوندھا کر دو اور انکو آگ میں ڈالدو اور انکو اپنے خداوند کی نذر کردو
اس قسم کے خیالات ایک مدت تک قائم رہے۔

اٹھارہویں صدی میں نادر الوجود عربی کتابوں کے بعد یوروپ اس قابل ہوا کہ اسلام کے متعلق خود اسلام کی زبان سے کچھ سن سکا۔
اس دور کی خصوصیت اول یہ ہے کہ عامیانہ خیالات کے بجائے کسی قدر تاریخ اسلام و سیرت پیغمبر اسلام کی بنیاد عربی زبان کی تصانیف پر قائم کی گئ۔ یوروپی مصنفین یا انکی تصنیفات میں جو نکتہ چینیاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق پہ کی جاتی ہیں یا جو خودبخود ناظرین کے دل میں پیدا ہوتی ہیں وہ حسب ذیل ہیں۔
رسول اللہ کی زندگی مکہ معظمہ تک پیغمبرانہ ہے لیکن مدینہ جا کر جب زور وقوت حاصل ہوتی ہے تو دفعتہً پیغمبری شاہی میں بدل جاتی ہے۔ اور اسکے جو لوازم ہیں یعنی لشکر کشی، قتل، انتقام، خونریزی خود بخود پیدا ہوجاتے ہیں۔
 کثرت ازدواج اور میل الی النّساء
مذہب کی اشاعت جبر اور زور سے
لونڈی غلام بنانے کی اجازت اور اس پر عمل
دنیا داروں کی سی حکمت عملی اور بہانہ جوئ


یہ تھا اقتباس، مولانا شبلی نعمانی کی کتاب 'سیرت النبی؛ کی جلد اول سے۔ جس میں مولانا صاحب نے تفصیلات دیتے ہوئے یہ وضاحت کی کہ کیوں انہیں سیرت النبی پہ اتنی تفصیلی کتاب لکھنے کی ضرورت محسوس ہوئ۔
   معزز قارئین، اس تمام چیز سے نتائج اخذ کرنے کی ذمہ داری میں آپ پر چھوڑتی ہوں۔ مگر یہ ضرور چاہونگی کہ جو بھی نتیجہ آپ نکالیں اسے اپنے تبصرے میں ضرور تحریر کریں۔

18 comments:

  1. السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
    شبلی نعمانی صاحب کی کتاب ایک نادرکتاب ہے۔ دراصل یورپ کوپہلےاسلام کوپڑھناچاہیے تھااس بعدکوئي بات کرنی چاہیے لیکن وہ کیاکہتےہیں کہ ان کےمصنفوں نے جوکچھ لکھ دیاوہی ان کےنزدیک اٹل ٹہرا جس کی گونج ابھی تک محسوس کی جاتی ہے۔

    والسلام
    جاویداقبال

    ReplyDelete
  2. يہ اور ان جيسے سوالات ميرے ذہن ميں بھی اٹھتے ہيں مگر کافر ہو جانے کے ڈر سے ميں دل ميں ہی رکھتی ہوںِ تو کيا شبلی نے اپنی کتاب ميں ان سب کے جواب دئيے ہيں اگر ہاں تو عنيقہ ضرور بتائيے گا

    ReplyDelete
  3. کیا اسی جنونی رد عمل کی ذہنیت اس وقت ہماری نہیں ہوگءی جب بندر روڈ پر ٹریفک جام کی ذمہ داری بھی کسی نا کسی یہودی اور صیہونی لابی پر ڈال دی جاتی ہے؟

    ReplyDelete
  4. ہیلو۔ہائے۔اےاواےMay 26, 2010 at 12:03 AM

    مولانا شبلی نعمانی کی کتاب سیرت النبی سے لیا گیا اقتباس سیلف ایکسپلینیٹری ہے ۔

    ReplyDelete
  5. جاویداقبال صاحب، اسلامی معاشروں کی کی کچھ عملی خوبياں بيان کريں مثالوں کے ساتھ جو يورپ کے لوگوں کو بتائی جاسکيں- يہ بھی بتائيں کہ اتنے سارے مسلمان يورپ جانے کو کيوں کمربستہ ہيں جبکہ کوئي يورپی اسلامی ممالک آنے کو تيار نہيں سوائے مجبوری کے-

    ReplyDelete
  6. واہ جی واہ شبلی کی آڑ میں دل کی باتیں بیان کردیں آپ نے تو۔ ویسے ان کے جوابات تو بہتوں کے لئے تشنہ طلب ہونگے اب تک۔ تو کیا خیال ہے جائیے کسی چرچ یا مبعد میں ویسے اسری نعمانی بھی ان سوالوں کے شافی جواب دے سکتی ہیں، سنا ہے وہ مولانا کی رشتہ دار بھی ہیں۔ :-P

    ReplyDelete
  7. وہ جی بات دراصل یہ ہے کہ گوگل پہ تلاش کے دوران آپ کا ایک مضمون نظر سے گذرا"میرا پہغمبر عظیم تر ہے" تو جی اس کے بعد پہلے کئے گئے تبصرے پر معذرت کرنے کا خیال دل میں در آیا۔

    ویسے بھی دلوں کے بھید تو اللہ ہی بہتر جانتاہے۔

    ReplyDelete
  8. عنیقہ صاحبہ میں بھی چاہ رہا تھا کہ اسی موضوع پر لکھوں۔ آپ نے پہل کی بہت اچھی بات ہے۔

    ہم مسلمان اس بات پر تو بغلیں بجاتے ہیں کہ اسلام مغرب میں سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والامذہب ہے لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اس پھلنے پھولنے کی اسلام کو قیمت بھی چکانا پڑے گی کیونکہ مغرب کا عام آدمی جذباتی نہیں ہے، وہ جذبات کو عقل پر حاوی نہیں ہونے دیتا، وہ سوچتا ہے، غور کرتا ہے اور سوال کرتا ہے، اور سوالیہ کو جواب دینا پڑھتا ہے۔ وقت آگیا ہے سوالوں کے جوابات تیار کرلیے جائیں۔

    سورہ النسآء کی ایک آیت ہے، جس کواسلام کے خلاف کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے، مجھے آج تک اس سورہ کی قابل تسکین تفسیر نہیں ملی۔ اسی سورہ کا انگریزی ترجمہ تو مغربی طاقتور عورت کواسلام کے خلاف اشتعال دلانے کے لیے کافی ہے.

    “مرد عورت پر حاکم ہیں اس وجہ سے کہ اللہ تعالٰی نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے مال خرچ کئے ہیں (١) پس نیک فرمانبردار عورتیں خاوند کی عدم موجودگی میں یہ حفاظت الٰہی نگہداشت رکھنے والیاں ہیں اور جن عورتوں کی نافرمانی اور بددماغی کا تمہیں خوف ہو انہیں نصیحت کرو اور انہیں الگ بستروں پر چھوڑ دو اور انہیں مار کی سزا دو پھر اگر وہ تابعداری کریں تو ان پر راستہ تلاش نہ کرو (٢) بیشک اللہ تعالٰی بڑی بلندی اور بڑائی والا ہے“

    Men are the maintainers of women because Allah has made some of them to excel others and because they spend out of their property; the good women are therefore obedient, guarding the unseen as Allah has guarded; and (as to) those on whose part you fear desertion, admonish them, and leave them alone in the sleeping-places and beat them; then if they obey you, do not seek a way against them; surely Allah is High, Great.

    صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر ٢٨
    عبد اللہ بن مسلمہ، مالک، زید بن اسلم، عطاء بن یسار، ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا (ایک مرتبہ) مجھے دوزخ دکھلائی گئی، تو اس کی رہنے والی زیادہ تر میں نے عورتوں کو پایا، وجہ یہ ہے کہ وہ کفر کرتی ہیں، عرض کیا گیا، کیا اللہ کا کفر کرتی ہیں؟ تو آپ نے فرمایا کہ شوہر کا کفر کرتی ہیں اور احسان نہیں مانتیں (اے شخص) اگر تو کسی عورت کے ساتھ ایک زمانہ دراز تک احسان کرتا رہے، بعد اس کے کوئی (خلاف) بات تجھ سے دیکھ لے، تو فورا کہہ دے گی کہ میں نے تجھ سے کبھی آرام نہیں پایا۔

    اس حدیث کا اگر لفظی معنی نکالیں جائیں تو بزور شمشیر کے الزامات کو تقویت ملتی ہے۔

    صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر ٢٤
    عبد اللہ بن محمد مسندی، ابوروح حرمی بن عمارہ، شعبہ، واقد بن محمد، ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک جنگ کروں جب تک کہ وہ اس بات کی گواہی نہ دینے لگیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے رسول ہیں اور نماز پڑھنے لگیں اور زکوۃ دیں، پس جب یہ کام کرنے لگیں تو مجھ سے ان کے جان ومال محفوظ ہوجائیں گے، علاوہ اس سزا کے جو اسلام نے کسی جرم میں ان پر مقرر کردی ہے، اور ان کا حساب (و کتاب) اللہ کے ذمے ہے۔

    ReplyDelete
  9. سورہ النسآء کی تفسیر مکہ، یہ سورہ مدنی ہے۔

    ٣٤۔١ اس میں مرد کی حاکمیت و قوامیت کی دو وجہیں بیان کی گئی ہیں، ایک مردانہ قوت و دماغی صلاحیت ہے جس میں مرد عورت سے خلقی طور پر ممتاز ہے۔ دوسری وجہ کسبی ہے جس کا مکلف شریعت نے مرد کو بنایا ہے اور عورت کو اس کی فطری کمزوری اور مخصوص تعلیمات کی وجہ سے جنہیں اسلام نے عورت کی عفت و حیا اور اس کے تقدس کے تحفظ کے لئے ضروری قرار دیا، عورت کو معاشی جھمیلوں سے دور رکھا۔ عورت کی سربراہی کے خلاف قرآن کریم کی یہ نص قطعی بلکل واضح ہے جس کی تائید صحیح بخاری کی اس حدیث سے ہوتی ہے۔ جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ' وہ قوم ہرگز فلاح یاب نہیں ہو سکتی جس نے اپنے امور ایک عورت کے سپرد کر دیئے۔

    ٣٤۔٢ نافرمانی کی صورت میں عورت کو سمجھانے کے لئے سب سے پہلے وعظ و نصیحت کا نمبر ہے دوسرے نمبر پر ان سے وقتی اور عارضی علیحدگی ہے جو سمجھدار عورت کے لئے بہت بڑی تنبہ ہے۔ اس سے بھی نہ سمجھے تو ہلکی سی مار کی اجازت ہے۔ لیکن یہ مار وحشیانہ اور ظالمانہ نہ ہو جیسا کہ جاہل لوگوں کا وطیرہ ہے۔ اللہ تعالٰی اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ظلم کی اجازت کسی مرد کو نہیں دی۔ اگر وہ اصلاح کرلے تو پھر راستہ تلاش نہ کرو یعنی مار پیٹ نہ کرو تنگ نہ کرو، یا طلاق نہ دو، گویا طلاق بلکل آخری مرحلہ ہے جب کوئی اور چارہ کار باقی نہ رہے۔ لیکن مرد اس حق کو بھی بہت ناجائز طریقے سے استعمال کرتے ہیں اور ذرا ذرا سی بات میں فوراً طلاق دے ڈالتے ہیں اور اپنی زندگی بھی برباد کرتے ہیں، عورت کی بھی اور بچے ہوں تو ان کی بھی۔

    ReplyDelete
  10. اسماءانکی اس کتاب کی سات جلدیں ہیں۔ جن میں سے جہاں تک مجھے خیال پڑتا ہے چار انہوں نے لکھیں اور انکے انتقال کے باعث باقی کی تین انکے شاگرد سید سلیمان ندوی نے لکھیں۔ اس طرح مولانا صاحب نے جلد اول میں جو منصوبہ ظاہر کیا تھا۔ کتاب بعینہ ویسی نہ رہی۔ ان سوالوں کے جواب تو بالترتیب انہوں نے نہیں دئیے بلکہ تمام چیز کو کافی مءورخانہ نکتہ ء نظر سے بغیر عقیدت کے لکھنے کی کوشش ضرور کی ہے اور اب یہ قاری کی صوابدید پہ ہے کہ وہ کیا سمجھتا ہے۔
    راشد کامراں صاحب،جی آپ نے صحیح کہا۔ یوں سمجھ لیں کہ آج سے پانچ چھ سو سال پہلے جو جہالے ان میں تھی وہ بالآخر سفر کر کے ہمارے پاس پہنچ گئ۔ لیکن دوسری طرف شبلی نعمانی کی اس تحریر سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایسے اشتعالانہ قسم کے بیانات پڑھنے کے بعد انہوں نے تلوار سونت کر راوی کے سر قلم کرنے کے بجائے اسکی رد میں کتاب لکھنے کو ترجیح دی۔
    محمد وقار اعظم، بڑی نوازش آپکی یہ نہیں سوچا کہ وہ دوسرا مضمون ایک مکر تھا۔ یہ بھی نوازش ہے کہ شبلی نعمانی کی اس تحریر کو انکی ہی تسلیم کیا۔ اب ذرا آرام سے بیٹھ کر سوچیں کہ وہ بھی ایک عالم تھے۔ آخر کیا ضرورت پڑی کہ اس تحریر کو اپنی کتاب میں شامل کیا۔ اور نعرہ ء تکبیر لگا کر اسکے پرزے پرزے نہ کر ڈالے۔

    ReplyDelete
  11. http://www1.voanews.com/urdu/news/american-jew-islam-26may10-94900109.html

    کبیر فائی نے بتایا’’میں ایسے بے شمار لوگوں سے ملی ہوں جو انتہائی فیاض ،مہربان، شفیق اور دردمند تھے۔ یعنی یتیموں کی خبر گیری کرنے والے، معذوروں کی دیکھ بھال کرنے والے، عورتوں کی مدد کرنے والے، اور میرے ساتھ کمال مہربانی سے پیش آنے والے ۔ میں مسلمان کیسے ہوئی؟ اسی محبت اور شفقت کی وجہ سے۔ میں اسلام دوسروں تک کیسے پہنچاؤں گی؟ اسی محبت اور شفقت کے ذریعے۔‘‘

    کبیر فائی کہتی ہیں کہ جو لوگ اسلام کے نام پر تشدد میں ملوث ہوتے ہیں، وہ صحیح اسلام کو مسخ کرتے ہیں۔ ’’میں نے مطالعے سے یہ سیکھا ہے کہ اسلام میں خود کشی ممنوع ہے اور اسلام میں بے گناہ لوگوں کو ہلاک کرنا ممنوع ہے، یہاں تک کہ دفاعی جنگ میں درخت کاٹنے تک کی ممانعت ہے ۔ اسلام زندگی کی حمایت کرتا ہے ۔ اس لیے ظلم و جبر اور جارحیت ممنوع ہے جب کہ عفو و درگذر، رواداری، مہربانی اور ضرورت مندوں کی مدد کا حکم دیا گیا ہے ۔‘‘



    Courtesy: Maryam Kabeer Faye
    1989 میں لی گئی ایک تصویر میں مریم کبیر اپنے بیٹے عیسیٰ کے ساتھ
    یہودی گھرانے میں پیدا ہونے والی لیکن اب صوفی مسلک پر کاربند مسلمان خاتون ، مریم کبیر فائی اپنے جوان بیٹے عیسیٰ کے ساتھ فلا ڈیلفیا میں رہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اب جب کہ ان کا پہلا روحانی سفر مکمل ہو چکا ہے، انھوں نے ایک مصنفہ اور ٹیچر کی حیثیت سے اپنا دوسرا سفر شروع کیا ہے جس میں وہ اپنے زندگی بھر کے علم اور تجربے کو مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں تک پہنچاتی ہیں۔

    ReplyDelete
  12. خورشید آزاد صاحب کے اٹھائے گئے سوالات خاصے دلچسپ ہیں،عنیقہ ان پر بھی ایک پوسٹ ہونا چاہیئے،یا آزاد صاحب اپنے بلاگ پر ان سوالوں کو ایک پوسٹ کی شکل دے دیں تو زیادہ بہتر ہے!

    ReplyDelete
  13. قارئین اکرام کی دلچسپی کے لئیے عرض ہے ۔
    "سر قسطہ" یا "سرقوسطہ" کا موجودہ لاطینی میں بگڑا ہو نام
    "zaragoza"
    یعنی "ژراگوثہ" ہے۔ اور ہسپانوی میں "ماہوما" یعنی
    "Mohama"
    سے مراد " محمد" صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ ہے۔ اور ایک وضاحت ضروری ہے کہ مسلم ہسپانیہ کے پورے دورمیں کسی بھی جگہ پہ یا کسی بھی حوالے سے مسلمانوں کی طرف سے للہ تعالٰی یانبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یا مذھبی بنیاد پہ بنائی گئی کسی قسم کی کوئی تشبیہہ یا بُت کبھی ہیں بنائی گئی بلکہ اس بارے میں مسلم ہسپانیہ کی تقریباََ ہزار سالہ تاریخ میں مسلمان اس بارے میں بہت حساس رہے ہیں ۔ کیونکہ اُس دور سے لیکر اآج تک ہسپانیہ کی اکثریتی آبادی پہ مشتمل کھیتولک نصرانی فرقہ بائبل کے تمام کرداروں کے مجسمے اور تصاویری بائیبلز کا عام استعمال کرتا آیا ہے ۔ اور مسلمان اس لہر سے بچنے میں بہت حساس رہے ہیں۔

    مولانا شبلی نغمانی کی مشہورِ زمانہ تصنیف "سیرت النبی" صلی اللہ علیہ وسلم کی غالبا چھ جلدیں ہیں۔ جو عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ڈوب کر لکھی گئیں ہیں۔ اور مسلمانوں کو اسے ضرور پڑھنا چاہئیے ۔ دل کے در وا ہ ہاجاتے ہیں۔

    خورشید آذاد صاھب سے گزارش ہے کہ ایک بلاگ کی وسعت آپ کے اٹھائے گئے سوالوں کی متحمل نہیں ہوسکتی ۔ مگر پھر بھی گزارش ہے کہ آپ ان آیات اور احادیث کا دوسرے مذاہب سے تقابلی جائزہ کریں تو ایک حقیت واضح ہوتی ہے کہ اسلام میں ہر بات فطرت کے واضح اصولوں کے تحت ہے جس میں ماضی میں گزرے اور آئیندہ درپیش آنے والے ادوار یا موجودہ دور میں کسی کی ذاتی پسند یا ناپسند ، یا کسی گروہ حلقے قوم یا کسی ملک اسکی ہر دور میں بدلتی سوچ ، رسومات، چلن، اور قوانین یا قاعدوں سے ہم آہنگی یا عدم آہنگی، مطابقت یا عدم مطابقت، اسلام کا مسئلہ نہیں ۔ اسلام ایک الہامی مذھب ہے جس کے اپنے قوانین ہیں جو رہتی دنیا تک بغیر ردوبدل کے قائم رہیں گے ۔ یہ قوانین و شرائط تب بھی ایسی ہی تھیں ۔ جب دنیا میں انسان اس حد تک مادی ترقی نہیں کی تھی اور مشین کا دور نہیں تھا ۔ یہ قوانین آئیندہ بھی بغیر کسی ردوبدل کے اسی طرح رہیں گے جب انسان ساری کائینات کو اپنی ذ ہانت کے بل بوتے پہ تسخیر کر لے گا۔ اسلام ہر دور اور ہر قسم کے عام انسانوں کے لئیے ہے ۔جس نے اسلام کو اپنانا ہے اس پہ اسلام کی ہر بات واضح کر دی گئی ہے۔ اسمیں کسی کی پسند یا ناپسند کو کوئی عمل دخل نہیں خواہ وہ میرے جیسا عام آدمی ہو یا عزت مآب امریکن فرسٹ لیڈی۔ کسی کو اشتناء حاصل نہیں ۔ بالفاظِ دیگر اسلام میں کسی قسم کی منافقت روا نہیں ہر بات واضح ہے۔ اسلام میں سب کے حقوق محفوظ ہیں ۔ وہ مرد ہو یا عورت۔ بچے ہوں یا بوڑھے۔

    ReplyDelete
  14. وہ جی شبلی نعمانی کی اس تحریر کو انکی ہی تسلیم اس لئے کیا کہ جب ہم میٹرک میں تھے تو ہم نے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ور الفاروق کا مطالعہ کرلیا تھا۔ بس کیا بتائں بچپن سے ہی تاریخ اور قصے کہانیوں میں بڑی دلچسپی ہے۔ ہماری امی بچپن میں ہمیں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرم اور مجاہدین اسلام کے قصے سنایا کرتی تھیں۔ ویسے آپ شاید بچوں کو رچرڈشیردل اور اشوک کے قصے سناتی ہونگی۔۔۔۔۔

    ReplyDelete
  15. محمد وقار اعظم کیا یہ ضروری ہے کہ اپنی جہالت کو طشت از بام بھی کیاجائے؟؟؟؟

    ReplyDelete
  16. جناب گوندل صاحب مجھے تو خورشید آزاد کی بات میں کوئی غلط بات نظر نہیں آتی پھر آپکا اعتراض کیوں؟؟؟

    ReplyDelete
  17. عبداللہ: میرے دوست، نجانے کیوں تمہارے تبصرے پڑھنے کہ بعد میرے دل میں یہ بات آنی ہے کہ بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ۔

    ReplyDelete
  18. بڑی مشکل سے اور بڑی دیر کے بعد آئی!
    شائد حال ہی میں کہیں لکھا پڑھا ہوگا!:)

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ