Saturday, September 10, 2011

محب وطن پاکستانی کے نام

جہاز کے لمبے سفر اکثر سوتے ہوئے گذارتے ہیں۔ رات کا وقت ہو تو باہر دیکھنے کے لئے ہوتا ہی کیا ہے۔ اس لئے اندر دیکھنے کے لئے خاصہ وقت ہوتا ہے۔ وہ بھی اگر آپ جہازی سفر میں نہ سونے کے عارضے میں مبتلا ہوں  تو پھر وقت بچھآ رہتا ہے۔  
میں نے جب سفر شروع کیا تو ذوالفقار مرزا جنہیں کھلبل مرزا کہنا زیادہ مناسب لگتا ہے اپنے نئے بیانات سے نہ صرف خود رو کر فارغ ہو چکے تھے بلکہ  پاکستان جیسی ایک بکھری ہوئ قوم کو سمٹ چکے تھے۔ اور اسے ایک نکتہ ء اتحاد دے چکے تھے۔ اس لئے جب کراچی واپس پہنچ کر لوگوں سے ملنے کی فرصت ملی تو ایک کے بعد ایک مریضِ جنگ انہی کا فسانہ سناتا رہا۔
یہ وہی مرزا صاحب ہیں جنہوں نے محض تین چار مہینے پہلے کراچی کے مہاجروں کو بھوکے ننگے کہہ کر ایک بڑے حلقے کی طرف سے داد پائ تھی پھر متحدہ کے احتجاج پہ انکی معذرتی ویڈیو آئ۔ انکی شہرت صرف پاکستان کے متعصب ماحول  کے پسندیدہ جاندار ڈائلاگ اور ان پہ بے مثال ایکٹنگ ہی نہیں۔ بلکہ یہ  بھی ہے کہ وہ اپنی پسماندہ قوم کو با عزت ذریعہ روزگار، دنیا سے لڑنے کے لئے علم یا ہنر دینے کے بجائے اسلحہ دیتے ہیں۔ تین سال میں تین لاکھ اسلحے کے لائسنس انہوں نے شاید انڈیا یا امریکہ سے جنگ کے لئے کراچی میں  عنایت فرمائے۔ کچھ لوگ تو یہ کہتے ہوئے ملے کہ ذوالفقار  بھٹو نے پہلی دفعہ پاکستان توڑنے میں اپنا بہترین حصہ ڈالا اور ذوالفقار مرزا دوسری دفعہ پاکستان کو توڑنے کی طرف کامیابی سے لے جارہے ہیں۔
ایسے میں میری نظر سے ایک اسٹیٹس گذرا کہ کراچی میں لبرل اور سیکولر جماعتوں نے یہ حشر کیا ہے اس وجہ سے قوم لبرلزم اور سیکولیرزم سے نفرت کرتی ہے۔ کراچی ملک کے جنوب میں واقع ہے اور ملک کے شمال میں مذہب پرست جماعتوں نے جو بہشت قائم کی ہے وہ ہمارے بھولے ساتھی کی نظر سے پوشیدہ ہے۔ شاید اس لئے کہ انہوں نے ابھی بہشت جانے کا فیصلہ نہیں کیا ہے۔
کون ہے پاکستان میں لبرل اور سیکولر۔  عوامی نیشنل پارٹی یا پیپلز پارٹی ؟
پاکستان میں جناب صرف دو طاقتیں ہیں ایک قبائلی نظام کی پروردہ اور دوسری غیر قبائلی نظام کی پروردہ۔ ان میں سے اول الذکر اکثریت میں ہے اور موءخر الذکر اپنا ایک بہت کمزور وجود رکھتی ہے۔ جس پہ کبھی لبرلزم کی مہر لگائ جاتی اور کبھی سیکولیرزم کی۔ پاکستان کے ٹوٹ جانے کے بعد یعنی بنگلہ دیش بن جانے کے بعد باقی کے پاکستان کا نام بدلنا چاہئیے تھا۔ لیکن بہر حال اسے ایسے ہی رہنا دیا گیا۔ اس موجودہ پاکستان کی حدوں میں رہنے والی اقوام ایک قبائلی مزاج رکھتی ہیں۔ اسے کبھی مذہبی جماعتیں استعمال کرتی ہیں اور کبھی ان کی سیاسی جماعتیں۔ ان مذہبی جماعتوں یا ان سیاسی جماعتوں کے درپردہ مقاصد ہمیشہ ایک رہتے ہیں اور وہ یہ  کہنظام چند ہاتھوں اور خاندانوں  کے سامنے سر نگوں رہے۔ اور اسکی فلاح کے لئے انہیں کسی کے سامنے جوابدہ نہ ہونا پڑا۔ اس لئے اپنے روئیے میں اے این پی، پیپلز پارٹی یا جمعیت علمائے اسلام کچھ مختلف نہیں۔
کراچی باقی ماندہ ملک سے الگ کیوں لگتا ہے۔ اس لئے کہ یہاں لوگوں کی کثیر تعداد اس طبقے سے تعلق رکھتی ہے جو اس قبائلی نظام پہ یقین نہیں رکھتی بلکہ اس پہ  تنقید کرتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو تقسیم ہندوستان کے بعد سنٹرل انڈیا سے یہاں آکر آباد ہوئے۔ آباد اس لئے ہوئے کہ انہوں نے حدود پاکستان سے باہر آزادی کی جنگ لڑ کر حدود پاکستان کے اندر رہنے والی اقوام کو آزاد ملک کا تحفہ دیا۔ اور اسکے بعد یہ سمجھا کہ اب اس ملک پہ ہمارا بھی حق ہے۔  اپنے اس حق کی راہ ہموار کرنے کے لئے انہوں نے بھی مذہب کا سہارا لیا۔  اسلام ہمارے درمیان تعلق کی  مضبوط وجہ ہے انہوں نے بیان کیا۔ وہ اسلام جو حدود پاکستان میں رہنے والی اقوام کی ترجیح اس وقت نہیں تھا۔ وہ تو اپنے چند سرداروں کی پسند نا پسند دیکھتے تھے۔ جب نیت درست نہ ہو تو کبھی اچھا نتیجہ نہیں نکلتا۔ کم سے کم تریسٹھ سال کے بعد اتنا تو تسلیم کرنا چاہئیے۔

کراچی کا مسئلہ لبرل ، سیکولر یا مذہب نہیں۔ قبائلی اور غیر قبائلی نظام کا ٹکراءو ہے۔
یہ بات عجیب لگتی ہے کہ کراچی سے باہر کے لوگ اپنے تجزئیے کو درست قرار دیتے رہیں اور وہ کبھی کراچی کے اندر رہنے والے اردو اسپیکنگ لوگوں کی بات پہ غور کرنے کو تیار نہ ہو۔ اسکی دو دلچسپ مثالیں میں نے حال میں دیکھیں۔ ایک جاوید چوہدری صاحب کا ایک مضمون کراچی کے بارے میں جو انہوں نے کراچی سے سینکڑوں میل دور بیٹھ کر لکھا جس میں فراہم کی گئ معلومات ایک ایسے ایس ایچ او کی تھیں جو ملتان سے تعلق رکھنے والا محب وطن شخص تھا۔ یہ معلومات اگر کراچی کے اورنگی ٹاءون سے تعلق رکھنے والا اردو اسپیکنگ شخص فراہم کرتا تو انہیں شاید یقین نہیں آتا۔ یا پھر انہوں نے اس قوم کی نفسیات ستعمال کرتے ہوئے ایک ملتانی شخص کی معلومات دیں کہ اگر غیر کراچی ، غیر اردو اسپیکنگ ہوگا تو لوگ اسکی بات پہ زیادہ دھیان دیں گے اور یوں اس پہ میں نے ایک تبصرہ پڑھا جو کچھ اس طرح تھا کہ یقین نہیں آتا مگر کرنا پڑتا ہے۔ یہ تبصرہ کرنے والے بھی بڑے صوبے سے تھے۔ انہیں یقین کی اس منزل تک جاوید چوہدری ہی پہنچا سکتے تھے۔ عنیقہ ناز کراچی والا نہیں۔
جاوید چوہدری صاحب نے اس میں راز یہ کھولا تھا کہ کراچی میں اس وقت اے این پی، پی پی اور ایم کیو ایم کی مافیاز طاقت کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ میں اس میں کچھ اور چیزیں اپنے سینیئر صحافی کی معلومات کے لئے ڈالنا پسند کرتی مگر مسئلہ وہی کہ میں ملتان سے تعلق نہیں رکھتی۔
اسکی دوسری دلچسپ مثال میں نے اس وقت دیکھی جب ٹی وی پہ پاکستان میں انسانی حقوق  تنظیم کے چیئر مین جناب اقبال حیدر نے اکشاف کیا کہ کہ ایم کیو ایم روز اول سے ایک فاشسٹ جماعت ہے۔ میں تناءو کے اس ماحول میں ایسے شخص سے ایسے غیر ذمہ دارانہ بیان کی امید نہیں رکھتی جبکہ پاکستان کے بڑے شہر کو لاحق خطرات ملک کی سلامتی کا مسئلہ بن گئے ہوں۔
 تاریخ تو کہتی ہے کہ انیس اسی کی دہائ کے آخیر میں جب ایم کیو ایم کا جنم ہوا تو اس وقت مہاجروں کے طبقے کے بڑے جید دانشوروں ، ادباء ، شعراء اور علماء نے اس میں حصہ لیا اور اسکے لئے کام کیا تو کیا وہ سب فاشزم کے لئے کام کر رہے تھے یعنی اس میں رئیس امروہوی جیسے نام بھی آتے ہیں۔  تو ان سب لوگوں کو کیا اچانک یہ خناس بھا گیا تھآ کہ انکی ایک علیحدہ سیاسی جماعت ہونی چاہئِے۔ وہ سب فاشسٹ بن گئے تھے اور ان میں اگر کوئ محب وطن بچا تو وہ اقبال حیدر جیسے لوگ تھے۔
  اب جاوید چوہدری صاحب پھر کسی نان کراچی ذریعے کو استعمال کرتے ہوئے یہ لکھیں کہ در اصل ایم کیو ایم کو اس وقت زبردست عوامی طاقت حاصل تھی تو پھر کچھ صاحبان کو یقین نہ کرتے ہوئے بھی یقین کرنا پڑے گا۔
سو جاوید چوہدری صاحب ایک نظر اس طرف بھی۔
ایک پروپیگینڈہ یہ بھی کیا جاتا ہے کہ ہم یعنی کراچی سے بنیادی تعلق نہ رکھنے والے کراچی میں امن اور استحکام چاہتے ہیں۔ میں اسے پروپیگینڈہ ہی سمجھتی ہوں۔ اس میں کوئ سچائ نظر نہیں آتی۔ اس لئے کہ جب مرزا صاحب یہاں کے مہاجروں کو بھوکے ننگے آنے والے لوگ قرار دیتے ہیں تو ان میں سے کوئ انکی تصحیح نہیں کرتا کہ ان بھوکے ننگے لوگوں نے آپکی ابتدائ اکنامکس چلائ تھی ، جب مرزا صاحب امن کمیٹی والوں کو اپنے بچے قرار دیتے ہیں اور انکے یہ لاڈلے شیر شاہ میں جا کر نہتے لوگوں کو فائرنگ کا نشانہ بنا کر زندگی سے محروم کر دیتے ہیں تو بھی وہ فاشسٹ قرار نہیں پاتے۔ حتی کہ خود انکی پارٹی کے نبیل گبول صاحب ایک ٹی وی انٹرویو میں کہتے ہیں کہ اس وقت لیاری میں کم از کم دو ہزار گھروں میں اسلحہ بڑی تعداد میں موجود ہے تب بھی انہیں پاکستان توڑنے کی سازش کرنے والوں میں شامل نہیں سمجھا جاتا۔ بلکہ ایک داد و تحسین کا سلسلہ ہے کہ تھمنے میں نہیں رہا۔ کیوں ایسا ہوتا ہے کہ پشتون رہ نما شاہی سید جب زیر لب مسکراہٹ کے ساتھ فرماتے ہیں کہ کراچی کا تالا کسی کے پاس بھی ہو اسکی چابی ہمارے پاس ہے۔  کوئ اسکی مذمت نہیں کرتا کہ یہ پاکستان کی توڑنے کی سازش ہے۔ انیس سو چھیاسی اور دو سو گیارہ میں علی گڑھ کالونی اور قصبہ کالونی پہ حملہ کرنے والے فاشسٹ نہیں کہلاتے۔
ایسا فرق کیوں ہے؟
جب ایک زمین کو اپنا ساجھا سمجھنے والے  قبائلی ایک  دوسری زمین سے تعلق رکھنے والےغیر قبائلی سے ٹکراتا ہے تو ایک قبائلی کی ہمدردی دوسرے قبائلی کے لئے ہوتی ہے۔ ایک قبائلی اپنے آپکو اپنی زمین کا زیادہ وفادار سمجھتا ہے، وہ اپنے آپکو زیادہ زمین کا حاکم سمجھتا ہے۔ اس وقت وہ یہ نہیں دیکھتا کہ اسے کس طرح بنیادی انسانی حقوق سے اسکے رہنما محروم رکھ رہے ہیں۔  اس زمین کے کسی گوشے کی اسے حاکمیت نصیب نہیں ۔ بلکہ وہ یہ دیکھتا ہے کہ کہیں اس کا قبیلہ طاقت کی اس جنگ میں کم نہ ثابت ہو۔ اس لئے کراچی میں سیکولر کہلانے والی اے این پی کے زیر سایہ مزہبی شدت پسند تحریک طالبان والے بھی ہنسی خوشی رہتے ہیں۔ اس لئے کراچی میں پنجاب کے رہنے والے اپنے قبائلی ساتھی پشتونوں کی ہر کمزوری سے صرف نظر کرتے ہیں، اسی لئے کراچی میں نہ صرف پنجابی پختون اتحاد نامی سیاسی جماعتیں بنتی ہیں بلکہ دہشت کی فضا کو ہموار رکھنے کے لئے پی پی اور اے این پی اتحاد بھی سامنے آتا ہے۔ یعنی بلوچ ، سندھی اور پٹھان اتحاد۔
پھر اسکے بعد لبرل اور سیکولر اور مذہب کا نکتہ اٹھانا کس کھاتے میں۔  ایک قبائلی ملک کے شمالی علاقوں میں مذہبی شدت پسندوں کے فاشزم کو پسندیدگی سے دیکھتا ہے۔ مگر وہی قبائلی ملک کے جنوبی حصوں می نام نہاد سیاسی فاشزم کا شور مچاتا ہے۔
نیت درست نہ ہو تو انجام درست نہیں ہوتا۔ ملک بننے کے تریسٹھ سال بعد بھی اس ملک کی حدوں میں رہنے والی اقوام یہ نہیں سیکھ سکیں۔ اس پہ دعوی ہے حب الوطنی اور غیرت مند ہونے کا۔ جو اپنی شکست سے نہ سیکھ سکے اسے بے غیرت کہا جاتا ہے۔ یقین نہ ہو تو کسی بھی لغت میں اٹھا کر دیکھ لیجئیے۔
جاوید چوہدری یہ بھی کہتے ہیں کہ کراچی بیروت بننے جا رہا ہے۔ ایک دفعہ پھر ان سے معذرت۔ پاکستان ایک لمبے عرصے سے بیروت بن چکا ہے تو کراچی کے بیروت بننے میں کیا مسئلہ۔
کیا کراچی کے حالات درست ہو پائیں گے۔ مستقبل قریب میں اس کا جواب ہے نہیں۔ قبائلی جنگیں سینکڑوں سال جاری رہتی ہیں۔ جب تک اسلحہ سرد نہ پڑ جائے اور لڑنے والے ہاتھ ختم نہ ہو جائیں یا کوئ اور بیرونی طاقت اس سے فائدہ نہ اٹھالے۔
جب تک اسلحہ کچھ قوموں کا زیور قرار پاتا رہے گا۔ ان حالات میں کوئ بہتری نہیں آنے والی۔ اسلحے پہ کون پابندی لگائے گا۔ مذہبی جماعتیں جو جہاد کی پرچاری ہیں یا پی پی اور اے این پی جیسی جماعتیں جنکے ثقافتی پس منظر میں اسلحے کی اہمیت آکسیجن جیسی ہے۔
آج ہی میں نے سنا کہ ٹی وی کے ایک اینکر پرسن نے ایم کیو ایم کے لوگوں کو نتھ بریگیڈ قرار دیا۔ پھر مجھے کسی اور نے یہ قصہ سنایا کہ انیس سو پینسٹھ کی جنگ میں جہاں اور جنگی ترانے مشہور ہوئے وہاں ایک اور گانا بڑا چلا پاکستان میں اور وہ تھا جنگ کھیل نہیں زنانیاں دا۔ معاہدہ ء تاشقند کے وقت ہندوستانی وزیر اعظم شاستری نے اس گانے کو نا پسند قرار دیتے ہوئے اس پہ پابندی لگانے کا مطالبہ کیا۔
نصرت جاوید کے اس کمنٹ پہ پاکستان ہی میں لوگوں نے بڑا جراءت مندانہ فعل کہا۔ کیا آپ نے کبھی ببول میں انگور لگے دیکھے ہیں۔ ایسے  غیر ذمہ دار اور چھچھورے لوگ جب حب الوطنی کا نعرہ لگاتے ہیں تو کس قدر جعلی لگتے ہیں۔ یہ پاکستان کے استحکام کی دعائیں بھی مانگتے ہیں مگر کچھ اور تو چھوڑیں اپنے آپکو نسلی تعصب کے اظہار سے نہیں روک پاتے۔ یہ اس ملک کے باسی ہیں جو اپنی آزادی کے محض پچیس سال بعد دو ٹکڑے ہوا۔ اور اندرا گاندھی نے اس دن کہا کہ آج نظریہ ء پاکستان کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا گیا۔
اگر کوئ واقعی کراچی کے حالات بہتر کرنا چاہتا ہے تو اسے سب سے پہلے اپنے اوپر پابندی لگانی ہو گی۔ وقت آگیا ہے کہ ہم اس ملک کے  معاشی استحکام کے لئے کام کریں۔ موجودہ حالات میں اگر ہوش کے ساتھ دیکھیں تو کراچی میں سب سے زیادہ کس کا نقسان ہوا ہے۔ سندھی اور بلوچ اقوام تو ابھی اپنے ہونے نہ ہونے سے واقف نہیں۔ کراچی میں بسنے والے ان چالیس لاکھ پشتونوں کا سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے۔ جو تعلیمی سطح پہ کم ترین ہیں، اور معاشی لحاظ سے کمزور۔ وہ یہاں سبزی بیچتے ہیں، چوکیداری کرتے ہیں، مالی بنتے ہیں ، ڈرائیوری کرتے ہیں ان مکی اکثریت روزانہ کی تنخواہ پہ کام کرتی ہے۔ جب کراچی بند ہوتا ہے، جب تندور بند رہتا ہے ، جب بازار میں کاروبار نہیں ہوتا تو سب سے زیادہ اس کمیونٹی کو نقصان ہوتا ہے۔ نسلی تعصب نے ان لوگوں کو کیا دیا ہے۔  ذوالفقار مرزا نے اگر تین سال میں تین لاکھ اسلحے کے لائیسنس دئیے تو کیا یہ لائیسنس سندھی اور بلوچی عوام کی تمام زندگی کا آسرا بن گئے۔ کیا یہ انکی نسلوں کی بقاء کی ضمانت بن گئے۔ یہاں میں ایم کیو ایم کا تذکرہ نہیں کر رہی کہ اسکے ووٹ بینک میں شامل لوگ ایک دفعہ نہیں کئ دفعہ تبدیلی کے عمل سے گذر چکے ہیں۔
اگر نسلی تعصب کو اسی طرح جواں رکھنا ہے تو استحکام پاکستان کو بھول جائیے۔ اور اپنے آپکو محب وطن کہنے سے گریز کریں۔
دوسری طرف یہ کیسے ممکن ہے  کہ ایک سیاسی جماعت کے دہشت گرد تو آپ سے شاباش حاصل کریں اور دوسری جماعت کے دہشت گرد کو آپ فاشسٹ کہیں۔ اگر ایک قوم پہ آپکی پسندیدہ اقوام راکٹ لانچر لے کر حملہ آور ہو جائیں تو لازمی طور پہ وہ قوم مڑ کر کسی فاشسٹ سے ہی مدد لے گی یا آپکی منتیں سماجتیں کرے گی۔ آپ جو کسی ایسے واقعے کے ظہور پانے کے ہی قائل نہیں ہوتے۔
یہ کہنا بھی اب بےکار لگتا ہے کہ یہ سب سیاسی جماعتوں کا کیا دھرا ہے۔  ذوالفقار مرزا یا نصرت جاوید کو شاباش دینے والا منہ ایک عام آدمی کا ہے کسی سیاستداں کا نہیں۔
 یہ کیسے ہو سکتا ہے  کہ وزیرستان میں اسلحہ بنانے کی فیکٹریاں قائم ہوں اور کراچی میں ایک سیاسی جماعت کو فاشسٹ قرار دیا جاتا رہے۔
اگر کوئ شخص اپنے آپکو محب وطن کہتا یا سمجھتا ہے تو اسے غیر قانونی اسلحے کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہئیے۔ اسلحہ رکھنے کا حق صرف فوج کو ہے یا پولیس کو اسکے علاوہ کسی کو نہیں۔
لیکن  میں اچھی طرح جانتی ہوں کہ کم از کم میری زندگی میں کوئ ایسا قانون بننے والا نہیں اور اگر بن جائے تو کاغذ کی حدوں سے باہر نکلنے والا نہیں۔ میں یہ بھی جانتی ہوں کہ حب الوطنی کے دعوے کرنے والوں میں سے کوئ اسکے لئے نہیں اٹھ کھڑا ہوگا۔
میں نصیحت کرنے کے عمل میں نہیں، نہ خواہش کرنے کی حالت میں۔  میں صبر سے بیٹھ کر اپنی باری کا انتظار کرتی ہوں، اس میدان میں جہاں کھیل ، کھلاڑی اور تماش بینوں کے درمیان کچھ زیادہ فرق نہیں۔ اس افراتفری میں، میں احساس خوف سے باہر ہوں۔ اس لئے نہیں کہ میں افتخار عارف کی نظم بارہویں کھلاڑی کا بارہواں کھلاڑی ہوں۔ بلکہ اس لئے کہ اس کھیل کا اختتام میرے کہیں بعد ہے۔ قبائلی جنگیں بڑا خون بہا لیتی ہیں۔ ان میں صرف کسی نامعلوم کا نہیں میرا اور آپکا خون بھی شامل ہوگا۔

12 comments:

  1. مرحوم ولی خان جب زندہ تھے تو ایک دفعہ کراچی اے این پی کے جلسے میں تقریر کرنے آئے ۔ ولی خان کی تقریر سے پہلے ایک رہنما حاکم علی زرداری نے ایک شعلہ بیان تقریر کی جو مہاجر وں کے خلاف جذبات پر مبنی تھی ۔ جب ولی خان نے تقریر شروع کی تو انہوں نے اپنی تقریر میں پشتونوں سے کہا
    کہ یاد رکھو تم کراچی میں روزی کمانے آئے ہو ، اپنے اس مقصد کو نظر میں رکھنا ۔ جو کام مہاجر کر سکتا ہے وہ تمہارے بس کا کبھی بھی ہو سکتا اور جو کام تم کر سکتے ہو وہ مہاجر کے بس کا کبھی نہیں نہیں ہے ۔ چنانچہ کراچی میں ہمیشہ امن سے رہنا اسی میں تمہاری بھلائی ہے ۔
    تعجب ہے کہ آجکل اے این پی کی پالیسی ولی خان کے نظریات کے بالکل برعکس ہے ۔

    ReplyDelete
  2. جب الطاف حسین جیسا لیڈر اپنی کانفرنس میں گانا گاتے ہوئے ہیجڑوں کی ادائیں بھی دکھلاتا ہے تو پھر کراچی کے شہریوں کے پڑھے لکھے ہونے پر شبہ ہونے لگتا ہے کہ وہ اتنے پڑھے لکھے ہونے کے باوجود ایسے آدمی کو لیڈر بنائے ہوئے ہیں۔
    الطاف حسین اسی میڈیا پر لعن طعن کر رہے تھے جس نے انہیں پاکستان میں تمام سیاستدانوں سے زیادہ کوریج دی۔ پاکستان میں کی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی کسی میڈیا نے نہ پانچ گھنٹے کسی سیاسی لیڈر کا انتظار کیا ہے اور نہ اس کی ساڑھے تین گھنٹے کی پریس کانفرس براہ راست دکھائی ہے۔
    ہمیں تو الطاف حسین کی گانا گاتے ہوئے وہ ادا بہت پسند آئی جب وہ "ہائے" کہتے ہیں۔

    ReplyDelete
  3. Ti baray khiayl main MQM bhot achi hay iss ne too aaj tak ik bhi Banda nahi mara MQM jab bani sab ne sath dia lakin bad main altar Kay kart Lyon ki Wana se sab lag haagay hata Kay us ka president Orr imran farroq tak bhi Orr bhot se log ".... Ager tum ko altar Achaemenid lagta in sab batoon Kay bad too ally ti hay Hal per graham karay

    ReplyDelete
  4. میرا پاکستان صاحب، ابھی واپس آنے کے مجھے لوگوں سے بالمشافہ گفتگو کا موقع ملا۔ میں اپنے ایک دوست سے بات کر رہی تھی انہوں نے مجھے بتایا کہ حالیہ دہشت گردی میں انکے ایک دوست کو جو ایک بالکل عام سا اپنے کام سے کام رکھنے والا مہاجر تھا آفس سے آتے ہوئے اغواء کر لیا گیا۔ گھر والوں کو جیسے ہی پتہ چلا اسکے لئے بھاگ دوڑ شروع ہوئ کسی نے انہیں ایک با اثر بلوچی شخص کا پتہ دیا کہ اس سے بات کریں۔ اس بلوچی شخص نے جواب دیا۔ ابھی جو اغواء ہو رہے ہیں اس کے بارے میں ایک بات طے ہے کوئ زندہ واپس نہیں جائے گا۔ میں آپکی صرف یہ مدد کر سکتا ہوں کہ یہ پتہ چلا لوں کہ اسکی لاش آپکو کس دن ملے گی۔ دو دن بعد اسکی لاش مل گئ۔
    یہ سن کر ہو سکتا ہے آپکا دل کانپا ہو یا آپ نے یہ سوچا کہ چونکہ مہاجروں کی سیاسی جماعت کا لیڈر ہیجڑوں کی طرح گاتا ہے تو انکے ساتھ یہ روا رکھنا بالکل درست ہے۔ کیا آپکے ذہن میں یہ خیال آیا؟
    میں مثبت سمت میں رہتے ہوئے یہ امید کرتی ہوں کہ آپ نے یہ نہیں سوچا ہوگا۔ بلکہ آپکو کسمپرسی کے عالم میں ایک معصوم بے گناہ شخص کے مرنے پہ افسوس ہوگا۔
    سیاسی حکومت اور سیاسی طور طرائق یہ ہوتے ہیں کہ مسئلہ چاہے کتنا ہی سنگین ہو اسے میز پہ بیٹھ کر حل کیا جائے۔ مسئلے کے ایسے حل چنے جائیں جس سے نظام ہمواری کے ساتھ چاہے آہستہ سہی ایک جانب چلے اور جس میں تمام گروہوں کو اظمینان ہو کہ انکے ساتھ نا انصافی نہیں ہوئ۔
    اسکا اس بات سے قطعی کوئ تعلق نہیں ہوتا کہ کوئ ہیجڑوں کی طرح گانا گا رہا ہے یا کوئ اعلی انگلش شاہان انداز میں بول رہا ہے۔ یا ہوتا ہے۔ مان لیا کہ مہاجر بہت پست ہیں کہ ایسے شخص کو اپنا لیڈر چنا تو کیا اس بات کی وجہ سے ایک شہر کو تباہ کر دیا جائے۔
    کیا آپ یہ خیال نہیں کرتے کہ آپ دراصل ملکی سماجی اور معاشی استحکام سے ہٹ کر اپنی پسند نا پسند کی بات کر رہے ہیں۔ اگر لوگوں کی اکثریت اسے اپنا رہ نما مانتی ہے تو عقل کی بات یہ ہے کہ آپ یہ سوچیں کہ ان حقائق کے ساتھ بہتری کی کیا گنجائش نکلتی ہے۔
    ویسے آپکو ذوالفقار مرزا ، پاکستان کے غیور مرد رہنما لگتے ہیں اس لئے آپ انکے خلاف کچھ لکھنے سے گریز کرتے ہیں بلکہ شاید جاننے سے بھی۔ یا آپکو کراچی کے ہی ایک اور نامور رہنما شاہی سید اس لئے پسند ہیں کہ وہ گانا نہیں گاتے۔ اس لئے کبھی انکے بیانات اور تقاریر کو موضوع نہیں بناتے۔
    ویسے ہیجڑے بھی انسان ہی ہوتے ہیں بھارت میں تو پارلیمنٹ کے ممبر بھی ہیں۔ محض ہیجڑے ہونے پہ تو اتنا ناراض نہیں ہونا چاہئیے کہ اسکی سزا پورے شہر کو دینا چاہیں۔
    ریاض شاہد صاحب، آپ نے بالکل درست کہا۔ پشتون سمیت دیگر اقوام کو اپنی معیشت کی مضبوطی پہ توجہ دینا چاہئیے۔ شاہی سید کہتے ہیں کہ کراچی کا ٹرانسپورٹ ہمارے قبضے میں ہے۔ ٹرانسپورٹ مافیا نے جو گند مچائ ہے اسکی داستان الگ لیکن اگر کل شہر کے ہنگاموں میں اس ٹرانسپورٹ کو جلا کر ختم کر دیا جائے تو پھر کس کا قبضہ ہوگا۔ ایسے ناعاقبت اندیش رہ نما جو اپنی قوم کی حالت کو نہیں دیکھتے اور سمجھتے ہیں کہ بندوق کے زور پہ شہر فتح ہوگا یا آبادی کے زور پہ وہ راجا بنیں گے جیسا کہ غلام بلور نے کل کی اپنی پریس کانفرنس میں کہا۔ بنے ہوئے تو ہیں قبائلی سردار اس ملک کے راجا۔ کیا دیا ہے انہوں نے اس ملک کو ہم سب دیکھ رہے ہیں۔
    اگر ان میں ذرا بھی عقل ہوتی تو یہ اپنی اپنی قوموں کو اندر سے مضبوط بناتے۔ مگر یہ انہیں ایک سراب کے پیچھے لئے جا رہے ہیں۔ کہیں مذہب کے نام پہ جنگجو تیار ، کہیں لسان کے نام پہ جنگجو تیار۔
    اگر یہ شہر پشتونوں اور سندھی اور بلوچوں اور پنجابیوں کے قبضے میں چلا بھی جائے تو کیا یہاں وہ دودھ کی نہریں بہا دیں گے۔ نوکری اور روزگار کے ذرائع پیدا کریں گے۔ پچھلے ڈیڑھ سال سے کراچی میں ہے تو سہی پی پی کی ایڈمنسٹریشن۔ ہم یہاں بھی دیکھ رہے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے۔ غلام بلور صاحب نے ریلوے کو خاتمہ بالخیر پہ پہنچا دیا ہے مگر کراچی کے حالات پہ زہریلے بیان انکے بھی حاضر ہیں۔
    جو ذمہ داریاں ان لوگوں پہ عائد ہوتی ہیں انکے علاوہ انہیں ہر چیز سے دلچسپی ہوتی ہر اس چیز سے جس سے انہیں ذاتی منفعت حاصل ہو۔ چاہے اس سے انکی قوم کو نقصان ہو۔
    یہ تعصب، مثبت سمت میں بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن ذہنی طور پہ ببد حالی اس سطح پہ ہے جہاں عصبیت سے بھی اپنی قوم کو فائدہ نہیں پہنچا سکتے۔
    کاش ان میں سے کوئ شخص میرا یہ چیلینج قبول کرے کہ تعصب کی بنیاد پہ جنگ لڑنا ہے تو اپنی اپنی قوموں کو علمی اور سماجی سطح پہ مضبوط کرنے کی جنگ لڑو۔
    صرف یہی کر کے دکھا دو کہ میری قوم کی طرح تمہاری قوم کی عورتیں کاروکاری میں نہ ماری جائیں۔
    چیلینج، اگر کوئ قبول کرے۔

    ReplyDelete
  5. اس وقت تمام پراپیگنڈہ کے پیچھے جماعتیوں کا بہت بڑا ھاتھ ھے، جو صرف خود کو ھی محب وطن سمجھتے ھیں اور باقی سب کو غدّار

    ReplyDelete
  6. شک تو جی ہمیں میرا پاکستان صاحب یا صاحبہ پہ بھی ھے ۔

    ReplyDelete
  7. لسانیت کے علمبرداروں نے روشنیوں کے شہر کو تاریکیوں میں‌ڈبو دیا لیکن انہیں کسی نا کسی وجہ طرح اردو بولنے والے دانشوروں کا ساتھ حاصل رہا، کیوں نا ہو، بجیا اور عالی صاحب کو حکیم صاحب والا انجام پسند نا ہوگا، افسوس ندرت خیال صولت و پہاڑی و کن کٹے کی گولیاں نہیں روک سکتی۔

    آپ تو سائنٹفک مائنڈد ہیں، ڈیٹا کی طرف رجوع کریں۔ کیا وجہ تھی کہ چوراسی چھیاسی سے پہلے میئر افغانی کے کراچی میں شیر اور بکری ایک گھاٹ سے پانی پیتے تھے، مذہبی رواداری کا دورہ دورہ تھا اور لسانیت و عصبیت کی سیاست کا وجود عنقا۔ تعلیمیافتہ اردو بولنے والوں کی کراچی میں‌ نمائندہ جماعت کا سربراہ، نقل کفر کفر نا باشد، آپکے بقول 'بڑے صوبے' کا فرد تھا لیکن مجال ہے جو اتباع نظم میں کوئی تعصب انگیزی والی بات ہو۔ اصل مسئلہ زبان کے تعصب پر اصول دین کو چھوڑ دینے کا ہے لیکن 'سوڈو پریگمیٹسٹ' اس بنیادی امر پر اپنا سر مٹی میں دبائے ہوئے ہیں اور اسے زمینی حقیقت قرار دیتے نہیں تھکتے۔

    ReplyDelete
  8. پاکستانی جسٹ لائک ناپاکستانی

    صرف نفرت کے قابل

    ReplyDelete
  9. just want to say not to look who was in the list of founders of MQM. but who is ruling it now? this is the question. Not even MQM, but almost all political parties are being ruled by incompetent and corrupt leaders. I don't know why do we pakistanis get into our emotions so quickly that we start neglecting the bitter truth. We are an emotional nation; and we have to accept it. And our enemies (including our politicians) are taking advantage of it.

    ReplyDelete
  10. عدنان مسعود صاحب آپ جذباتی ہو گئے اور تاریخی سلسلوں کو نظر انداز کر گئے۔ حکیم محمد سعید نوے کی دہائ میں قتل ہوئے اور ایم کیو ایم کو شہرت انیس سو چھیاسی کے ان ہنگاموں کے بعد ملی جب پٹھان اپنے اسلحے کے ساتھ نہتی مہاجر آبادیوں پہ حملہ آور ہوئے اور انہیں خاک کیا۔ اس وقت غوث علیشاہ کی حکومت تھی غالباً اور وہ انکے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائ سے گریزاں رہے۔
    اس زمانے میں کیا عالی صاحب اور کیا رئیس امروہوی سب کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے۔ ایک فاشزم کو وقت پہ نہ روکا جائے تو دوسرے فاشزم کو جنم دیتی ہے۔ یہ تو فزکس کا بنیادی اصول ہے۔ پھر اب شور کیسا اور کیوں؟

    ReplyDelete
  11. Politics in Karachi is no different than in any Jageerdar's constituency
    1) People always vote to the same Sardar no matter if he delivers or not.
    2) People can't question Sardar's policies.
    3) Sardar takes tax and can order anyone to be killed on his whim.
    4) People can't tell their Sardar that he has become mentally deranged now and in need of professional help.

    ReplyDelete
  12. Tracing the Roots of Religious Extremism - Dr. Mubarak Ali
    http://www.youtube.com/watch?v=WuHLmwxdSvw

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ