Friday, September 30, 2011

وہ دیکھو

کبھی کبھی موضوعات میں قرعہ اندازی کرنی پڑتی ہے۔ آج تین موضوع ذہن میں تھے۔ لیکن فال آل پارٹیز کانفرنس کے نام نکلی۔ ایک شاعر نے کہا تھا کہ اسکا چہرہ ہے کہ حافظ کی بیاض، ایسے چہرے سے کوئ فال نکالی جائے۔  سو جس کانفرنس میں ہماری پیاری وزیر خارجہ حنا ربانی کھر موجود ہوں۔ اسی سے کوئ فال نکالنی چاہئیے تھی۔  سب منتظر بھی رہے۔ سنتے ہیں کہ چھ گھنٹے سے زائد کا ٹائم لگا اس فال کو نکالنے میں۔
اسکی وجہ باخبر ذرائع کے مطابق یہ تھی کہ تقریباً ساٹھ رکنی اس کانفرنس میں جب بھی کوئ فال نکالی جاتی۔ اس پہ مندوبین کا متفق ہونا مشکل ہوتا۔ اس میں ہمارے فارسی شاعرحافظ صاحب یا حنا ربانی کھر کا کوئ قصور نہیں، نہ ہی شرکاء کا۔ اصل میں خستہ حال بیاض کا پرنٹ صحیح نہ تھا۔ جیسے ہی صفحہ پلٹو،ٹوٹنے لگتا۔ ارادہ انہیں جہنم رسید کرنے کا، صفحہ دیوان کا۔ اس لئے یہ دقّت پیدا ہوئ۔
اب جو فال نکلی ہے اسکا مطلب بھی لوگ ایکدوسرے سے پوچھتے پھر رہے ہیں۔ حافظ صاحب تو آکر بتانے سے رہے۔ یہ الگ بات کہ کوئ روحانی شخصیت ان سے یہ راز اگلوا لے۔  مردوں کو بلانے کے روحانی طریقے بھی ہوتے ہیں جس میں وہ خاموشی سے اٹھ آتے ہیں ہمیشہ گڑا مردہ کھود کر نہیں نکالتے۔ شرط یہ ہوتی ہے کہ مردے کو واپس بھیجنے کا وظیفہ بھی آنا چاہئیے۔ توقع ہے کہ یا تو ہمارے امریکی مہربان یہ وظیفہ جانتے ہونگے یا پھر ہمارے سالار۔ واپس کس کا مردہ جائے گا، وہی جو آیا تھا۔ آپ سمجھے حافظ صاحب کا، نہیں انکا صرف دیوان کام کا ہے۔
حافظ صاحب کو مرے ہوئے سات سو سال ہو رہے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ انہیں اپنا دیوان اب یاد بھی ہوگا کہ نہیں۔ ہو سکتا ہے وہ یہ سن کر ہی بھونچکا رہ جائیں کہ حسین چہروں کو چھوڑ کر لوگ انکے دیوان سے یہ کام لیتے ہیں۔ حافظ صاحب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں رکتی ہوں، ہم دراصل آل پارٹیز کانفرنس پہ بات کر رہے تھے۔ یہ حافظ صاحب خدا جانے کیوں آگئے۔
قوم کو اس کانفرنس سے بڑی امیدیں تھیں۔ خود ہم بھی کچن کی چھریاں تیز کر کے بیٹھے تھے۔ جبکہ ادھر لاکھوں سیلاب زدگان کہہ رہے تھے کہ ان چھریوں کی میخیں بنوا لو جن میں ہمارے خیمے گڑ جائیں گے۔ لیکن ہم نے کہا نہیں۔ ہم اس موقع پہ فوج کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ اور سارا دن اقبال اور فیض کو حفظ کرتے رہے۔ جنگ کے دنوں میں قوم کے عظیم سپوت سامنے آتے ہیں اور امن کے دنوں میں بدترین۔ اگر عظیم بننے کا ایک موقعہ ہاتھ لگ رہا ہے تو بہتی گنگا میں ہاتھ کیوں نہ ڈالیں۔
ادھر  دائیں بازو والے بھی نعرہ ء تکبیر کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے۔ مرگ انبوہ جشنے دارد۔ سنا ہے پرنٹنگ پریس میں کفار سے جنگ کے نعرے تک پرنٹ ہو چکے تھے کہ اس دفعہ تو ہوا ہی ہوا۔ ایک ہنگامے پہ موقوف ہے گھر کی رونق۔


لیکن کانفرنس ختم ہو گئ۔ اب سب ایکدوسرے سے پوچھ رہے ہیں کہ کانفرنس کی متفقہ قرارداد کا مطلب کیا ہے؟ آیا اس سے امریکہ خوفزدہ ہوگا یا نہیں۔  اپنا اپنا ہوتا  ہے۔ کیا طالبان کو منایا جارہا ہے یا امریکہ کو۔  یہ کیا بات ہوئ، کہیں پہ نگاہیں کہیں پہ نشانہ۔ اگر امریکہ سے جنگ نہ کی تو پھر کیا جیا۔ خوشحال پاکستانی کیسے جنگ لڑنے کی ہمت کر سکتے ہیں، فوج کو بس اتنا ہی ڈرامہ مقصود تھا، اب ڈالرز صراط مستقیم پہ چلیں گے۔ وغیرہ وغیرہ۔
کوئ میری رائے جاننا چاہتا ہے۔ غالب کہہ گئے ہیں کہ آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں۔ اور میر کی تقلید میں یہ کہنے کو دل چاہتا ہے کہ پتہ پتہ بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے، جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔ شعر کی تشریح سے پہلے سارے استعارے سمجھنا ضروری ہیں۔ اس میں باغ سے غالباً امریکہ  مراد ہے اور گل سے کون ہے۔ یہ مجھے نہیں معلوم۔ یوں تشریح کا سبق تو بند ہوا۔
  گھر کے ایک  پرانے کیسٹ پلیئر سے بچ رہ جانے والی واحد کیسٹ بر آمد ہوئ۔ لگا کر دیکھا تو بج بھی رہی تھی۔ رفیع کے گانے ہیں۔ ایک پرانا گانا بھی ہے۔ کچھ گانے جب بھی بجتے ہیں انکی آب و تاب میں کمی نہیں آتی۔ تال ایسا میل کرتا ہے کہ ہر زمانے کے لئے زندہ، ہر نسل کے لئے کار آمد۔ بعض سیاسی گانے بھی یہی تاثیر رکھتے ہیں۔ جب بجتے ہیں نئ امید اور پرانے نتائج لاتے ہیں۔ یہ گانا انکی نذر جو اعلان جنگ کے منتظر رہے۔


 

1 comment:

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ