Sunday, September 6, 2009

رقیب اور جدید ٹیکنالوجی

 دعوی محبت ایک اچھا شغل ہے۔ ورنہ یہ سننے میں نہ آتا کہ
ہزار کام مزے کے ہیں داغ الفت میں
جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں
اگر اس میدان میں بھی روکھی پھیکی گذر رہی ہے تو امکان غالب ہے کہ ابھی وہ مرحلہ نہیں آیا جہاں رقیب رو سیاہ کی اینٹری ہوتی ہے۔ کچھ نا معلوم وجوہات کی بناء پر رقیب کس قدر بھی گورا ہو اسے کہا رو سیاہ ہی جاتا ہے۔ اگر اب نہیں ہے تو یقیناًآپ کا سامنا ہونے پہ اسکا چہرہ ایسا ہی ہو جائے گا۔
رقیب کی یہ اینٹری عام طور پر اس قدر غیر متوقع ہوتی ہے کہ آپ  دہل جاتے ہیں اور ہر شخص پر سے اعتبار اٹھ جاتا ہےاور پھر ایسی پیاری اور معصوم باتیں سننے میں آتی ہیں کہ
ناصح بھی ہے رقیب، یہ معلوم ہی نہ تھا
کس کو صلاح کار کیا، ہم نے کیا کیا
بعض اوقات آپ کو بعد میں پتہ چلتا ہے کہ  دوسروں سےاپنے محبوب کی زیادہ تعریفیں بھی کوئ اچھی بات نہیں، لیکن اب کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔ اب آپ لاکھ اپنی سادگی  کی داستان کسی کو  سناتے پھریں کہ
ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا
بن گیا رقیب آخر تھا جو رازداں اپنا
 سب لوگ آپکو اول درجے کا بے وقوف ہی سمجھیں گے
یہاں یہ مت بھولیں کہ چونکہ آپ دونوں کے درمیان رشتہ ءرقابت ہے اس لئے آئنسٹائن کےنظریہ ء اضافیت کے تحت آپ بھی اسکے رقیب قرار پائیں گے۔ رقابت کی اس جنگ میں سب جائز ہے۔ اس لئے کافی ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ رقیب اگر آپ کو ایک اچھا کمپیوٹر ایک اچھے انٹرنیٹ کنکشن کے ساتھ لیکر تحفتاً دینے پر بضد ہے تو آپ کو اسکی نیت کا فتور فوراً سمجھ لینا چاہئیے۔
رقیب کے داخل ہوتے ہی زندگی کے شب وروز تبدیل ہو جاتے ہیں۔ رقیب اور محبوب کے درمیان ہونے والی ملاقاتوں کے احوال جاننے کے لئے مختلف لوگوں سے دوستی گانٹھنی پڑتی ہے۔ اس سے سوشل ریلیشنز خوب پھلتے پھولتے ہیں۔  یہاں گر کی بات یہ بھی ہے کہ ان مخبروں کی وجہ سے آپکی محبت کی شہرت جتنی دور تک جائے اتنا ہی رقیب کے پیچھے ہٹنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔ 
وہ بھی سن لیں گے یہ کبھی نہ کبھی
حال دل سب سے برملا کہئیے
یہاں وضاحت کے لئے یہ بتا دوں کہ یہ شعر ہمارے کسی بلاگ کے عنوان کے بارے میں نہیں کہا جارہا۔ کیونکہ داغ کے زمانے میں بلاگنگ کا وجود نہ تھا اور بس کچھ ایسے ویسے طریقے ہی آزمانے پڑجاتے تھے۔
کچھ  مخبروں کو تو لین دین کے بعد راضی کرنا پڑتا ہے کہ بالکل مصدقہ خبر ملے۔ اس بہانے آمدنی کے دیگر ذرائع بھی تلاش کرنے پڑجاتے ہیں۔ کچھ مخبروں کو پیار اور محبت سے راضی رکھنا پڑتا ہے اور صورت حال ایسی ہو جاتی ہے کہ تجھ سے کی ہے کہ زمانے سے محبت میں نے۔
اگر محبوب کوئ مشہور شخصیت ہے تو آپ  رقیب اور انکے تعلقات کی تفصیلات جاننے کے لئے روزانہ باقاعدگی سے اخبار پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ کوئ اچھی علامت نہیں اس سے کسی بھی دن اگر نظریں پھسلتے ہوئے ملکی حالات کی خبروں پر چلی گئیں تو آپ اچانک تلوار سونت کر رقیب کے دئیے ہوئے کمپیوٹر پر  بلاگ لکھنے بیٹھ جائیں گے، اور حاصل ہونے والے تبصروں کی تابڑ توڑ لہر آپکو اس کنارے پر لے جائے گی جہاں آپ ہونگے اور آپکا کی بورڈ اور آپکی حب الوطنی کی شان میں کہے گئے الفاظ کا سرور۔ اسی کے لئے تو رقیب نے اتنی منصوبہ بندی کی تھی۔   رقیب اس مرحلے پر بلاگنگ سے سخت بیزاری کے باوجود اسکی تعریف میں دو حرف لکھوا کر دوبارہ پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ڈالکر بیٹھ جائے گا وقتاً فوقتاً وہ آپکے تبصرہ نگاروں کو ہوا دینے کے لئے اپنا تبصرہ بھی فرضی نام سے ڈالتا رہے گا۔۔ اور آپ کاٹھ کے الو بنے ساری ساری رات کھٹ کھٹ کرکے کی بورڈ بجاتے رہیں گے۔
اسکے علاوہ رقیب اگر گورا ہے تو آپکو گورا کرنے والی کریموں کے بارے میں معلومات اکٹھی کرنی پڑجائیں گی۔ بعد از بسیار خرابی جب محبوب امریکہ والی مصیبت کے ساتھ روانہ ہوجائے گا تو آپ جمع کی ہوئ معلومات کو کام میں لاتے ہوئے اسکا کاروباکر سکتے ہیں۔ محبت ایک شغل ہو سکتی ہے لیکن علم کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔
رقیب اگر ہر وقت آئنسٹائن  اور غالب کے حوالے دیتا ہو۔ تو ان دو افراد پر ہزار لعنتیں بھیجنے کے بعد بھی آپ کو انکے متعلق پڑھنا پڑ جاتا ہے لیکن خیال رہے کہ رقیب کے سامنے اپنی علمیت بگھارنے کی کبھی کوشش نہ کریں۔ مرفی کا قانون اس موقعے کے لئیے اچھی پیشن گوئ نہیں کرتا۔ اور ہو سکتا ہے کہ رقیب اس موقع پر کارل ساگاں اور فرائڈ کے محفوظات سے آپکا بھرتہ بنادے۔ ثانی الذکر دو افراد بھی اول الذکر سے کچھ کم پیچیدہ نہیں۔
رقیب کو کھلا خط بھیجنے سے گریز کریں وہ اسے محبوب کے آگے ڈالدے گا اور کہے گا
تمہیں رقیب نے بھیجا کھلا ہوا پرچہ
نہ تھا نصیب لفافہ بھی آدھ آنے کا
اس سے آپ کی بیستی بڑی خراب ہوگی۔
  رقیب میں ہر وہ عادت ہونے کے امکانات ہوتے ہیں جن سے آپکی جان جاتی ہے اور آپ حیران ہوتے رہتے ہیں کہ اس چمپو میں کیا ہے جس پر محبوب اسے اپنے حلقہ احباب میں رکھتے ہیں۔ وہ اللہ کی شان تنکے میں جان اور ہم تیغوں کے سائے میں پلے جوان۔ یہاں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئیے کہ اس میں رقیب کا کوئ قصور نہیں یہ سب کچھ محبوب کے دل اور آپکی قسمت اور محبوب اور آپکے  دماغ کی خرابی سے جڑا ہوا ہے۔
رقیب کا مکمل سماجی بائیکاٹ آپکے عشق کے لئے اچھا نہیں۔اس سے وہ آپکے عشق کی جڑیں کاٹنے میں تندہی سے مصروف رہے گا۔  اسکی توجہ بانٹے رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ اسکے ساتھ لگے رہیں اور اسکا حربہ اسی پہ لگا دیں۔ اگر اسے بلاگنگ سے دلچسپی نہیں تو فیس بک یا دیگر کمیونٹی سائیٹس کی افادیت کے بارے میں پوشیدہ و غیر پوشیدہ معلومات بہم پہنچا ئیں۔ اور کوئ آپ سے اتنی قربت کی وجہ دریافت کرے تو کہہ دیں آپ درست کہہ رہے ہیں
گو محفل رقیب میں جانا نہ چاہئیے
دیکھیں گے ہم بلا سے تماشہ تو کچھ نہ کچھ
جہاں لوگوں کی ایک بڑی تعداد رقیبوں سے بھنائ ہوئ رہتی ہے۔ وہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو رقیب سے مل کر ایک پریشر گروپ بنا لیتے ہیں۔اور محبوب کوبد دعائیں دینے لگتے ہیں کہ
اللہ کرے تو بھی ہو بیمار محبت
صدقے میں چھٹیں گے تیرے گرفتار محبت
کچھ کاہل اتنا بھی بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں ہوتے اور پٹھان کے ہوٹل پر رقیب کے ساتھ پڑے دودھ پتی کی چائے کی سڑکیاں لگاتے ایکدوسرے سے یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ
ہم پہ مشترکہ ہیں احسان غم الفت کے
اتنے احسان کہ گنواءوں تو گنوا نہ سکوں
ہم نے اس عشق میں کیا کھویا ہے کیا سیکھا ہے
جز ترے اور کو سمجھاءوں تو سمجھا نہ سکوں
اور اگر دنیا انہیں اٹھتے بیٹھتےکچھ ایسے طعنے دینے لگے جس میں لفظ غیرت بھی آتا ہو تو وہ ہونٹوں پہ بعد از نروان حاصل ہونے والی مسکراہٹ سجائے بے نیازی سے کہتے ہیں
دنیا میں دو ہی تو با ذوق آدمی ہیں عدم
ایک میں اور ایک میرا رقیب
 
   رقیب کی تاریخ اتنی پرانی ہے جتنی کہ ہابیل اور قابیل کا قصہ۔ یعنی کہ بہت پرانی ہے۔ اور تب سے اب تک کسی بھی عشق کو اسکے بغیر مکمل نہیں سمجھا گیا ۔اگرآپ کی اب تک اس راستے پر رقیب سے ملاقات نہیں ہوئ تو یا تو راستہ بدل ڈالیں یا قاصد۔ تاکہ آپ بھی محبوب کی  محفل میں بآوز بلند یہ کہہ سکیں کہ
تیری محبت نے مار ڈالاہزار ایذا سے مجھ کو ظالم
رلا رلا کر، گھلا گھلا کر،جلا جلا کر، مٹامٹا کر
محبوب کو مار ڈالا والے اشعار کافی پسند آتے ہیں۔ امید ہے آپکا رقیب فیس بک پر مصروف ہوگا۔ لیکن یہ کیا،
  آپ ایک عدد نیا بلاگ لکھنے بیٹھ گئے۔ دھت ترے کی۔
ریفرنس؛

14 comments:

  1. کہا تھا کس نے تجھے آبرو گنوانے جا
    فراز اور اسے حال دل سنانے جا۔۔۔۔۔۔۔

    یہاں یہ واضح کردوں کہ فراز کے زمانے میں بلاگ ہوا کرتے تھے تو کچھ عجب نہیں کہ انہوں‌نے بلاگ کے بارے میں ہی کہا ہو۔۔

    ReplyDelete
  2. دل گارڈن گارڈن کردیا جی اس تحریر نے ، بڑی ادبی سی تحریر هے اور زمانے کے ساتھ ساتھ چلتی هوئی ـ
    باقی جی اب تو زمانه ترقی کر گیا ہے ترقی یافته ممالک میں رقیب کی بھنک هی ملتی هے که عاشق زمانه ساز معشوق بدل لیتے هیں ـ
    مصروفیت کی انتہا ہے ناں جی ، وھاں شانزے لیزے پر ایک معشوق سے پوچھا که جی کافی پینے چلتے هیں ؟ اس نے انکار کیا هی که اسکے ساتھ کھڑی اس کی سہیلی سے پوچھ لیتے هیں ـ
    وھ بزمیں ، وھ ساقی وھ خم وھ مے خانه ، هو که مینا ، شوخی حسن هو که گرمی عشق ، چالاکی رقیب هو که اپنی سادگی ، یه سب اردو ادب کی چاشنیاں هیں جی ـ
    باقی هم مسلمان تو اتنے مادھ پرست هیں که وھ جانور بھی " بِٹ " کے طور پر نهیں پالتے هیں جس کو بعد میں ذبع کرکے کھا ناں سکیں ـ
    میں تو جی اپ کو صرف حقوق نسوان کا حامی هی سمجتا تھا
    اپ تو جی بڑی ادبی نکلیں ، هم تو ادب بھی بڑا بے ادب سا پڑھے هیں ناں جی ـ

    ReplyDelete
  3. ماشااللہ ۔ بہت بہت اچھا لکھا ہے۔

    ReplyDelete
  4. آپ نے پی ایچ ڈی کس مضومون میں کی تھی ؟
    ہی ہی ہی

    ReplyDelete
  5. نہ تو اگر میرا بلاگ نہ ہوتا تو پھرآپ کیسے لکھا کرتیں اتنی روانی اور فراوانی سے
    ہیں جی
    مان میرا احسان
    ارے نادان
    :D

    ReplyDelete
  6. راشد کامران، ہی ہی ہی۔
    خاور صاحب،شکریہ۔ مغرب اس وجہ سے بہت ساری لطافتوں سے محروم ہے، جن سے ہماری زندگی میں رنگا رنگی ہے۔ اور اگر آپ مجھے صرف حقوق نسواں کا علمبردار سمجھتے ہیں تو یقیناً آپ نے میری بہت ساری تحریریں مس کی ہیں۔جب سارا ادب اور بےادب پڑھ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ کیا ادب تھا اور کیا بے ادب۔
    شکریہ ماورا، مزہ آیا، اسی لئیے لکھا تھا۔ دوسری جو وجہ ہے وہ آگےآرہی ہے۔

    جعفر، ہم نہ ہوتے تو کسی اور کے چرچے ہوتے
    خلقت شہر تو کہنے کو فسانے مانگے
    میں آپکی اس پوسٹ پر تبصرہ لکھ رہی تھی کہ خیال آیا ابھی نہیں۔ اب فرصت ملتے ہی اس پہ ہاتھ صاف کیا۔
    مان، احسان، نادان، پہچان، ارمان، ایمان، پاکستان، خلدان، اگلدان، پاندان۔ یہ تو کافی زرخیز زمین ہے۔ سوچ رہی ہوں کہ شاعری شروع کر دوں۔
    :)

    ReplyDelete
  7. اجمل صاحب، کسی مضمون سے کوئ فرق نہیں پڑتا کہ صحیح سے پی ایچ ڈی کرنے والوں میں ایک خوبی بدرجہ ء اتم پائ جاتی ہے اور وہ ہے پھرا ہوا دماغ۔ اس لئے بعض لوگوں کو پی ایچ ڈی کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں ہوتی۔

    ReplyDelete
  8. پڑھنے ميں تو ممھے يہ بہت اچھا لگا ہے مگر ميرا چھوٹا سا دماغ ان تشبيہات کو سمجھنے سے قاصر ہے کوئی ہے جو آسان ترجمہ کر دے اور عنيقہ پليز بتائيں ناں آپ نے کس سبجيکٹ ميں پی ايع ڈی کی ہے مجھے تجسس ہو رہا ہے

    ReplyDelete
  9. واہ، بہت اچھی تحری ہے، بہت عرصے بعد ایسے تحری ملی جس نے ٓکر تک نظریں جمائے رکھنے پر مجبور کئے رکھا۔

    ReplyDelete
  10. تحری کو تحریر اور گر کو آخر پڑھا جائے۔
    شکریہ۔

    ReplyDelete
  11. اسماء۔ آپ نے وہ محاورہ نہیں سنا کہ
    Curiosity kills the cat.
    مجھے آپکے تجسس میں مزہ آرہا ہے۔ آپ یہ تو نہیں چاہتیں نان کہ میرے مزے میں فرق آئے۔ خیر، میرے مضمون کا ان سب چیزوں سے کوئ تعلق نہیں۔ ایویں بس چولیں ہلانے کے لئے کر لی تھی، اپنی چولیں۔
    منیر عباسی، آپکا شکریہ۔ ۔ یہ کوئ تصویر بتاں تو نہ تھی کہ آپ نظریں جمائے بیٹھے رہے۔ آخر اسکے ساتھ آ-پ کیا کریں گے۔ ہی ہی ہی

    ReplyDelete
  12. ہا ہا ہا چولیں تو اگلوں کی ہل گئی ہوں گی پڑھنے اور سمجھنے کے بعد!
    کچھ مخبروں کو تو لین دین کے بعد راضی کرنا پڑتا ہے کہ بالکل مصدقہ خبر ملے۔ اس بہانے آمدنی کے دیگر ذرائع بھی تلاش کرنے پڑجاتے ہیں۔ کچھ مخبروں کو پیار اور محبت سے راضی رکھنا پڑتا ہے اور صورت حال ایسی ہو جاتی ہے کہ تجھ سے کی ہے کہ زمانے سے محبت میں نے۔
    اگر محبوب کوئ مشہور شخصیت ہے تو آپ رقیب اور انکے تعلقات کی تفصیلات جاننے کے لئے روزانہ باقاعدگی سے اخبار پڑھنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ کوئ اچھی علامت نہیں اس سے کسی بھی دن اگر نظریں پھسلتے ہوئے ملکی حالات کی خبروں پر چلی گئیں تو آپ اچانک تلوار سونت کر رقیب کے دئیے ہوئے کمپیوٹر پر بلاگ لکھنے بیٹھ جائیں گے، اور حاصل ہونے والے تبصروں کی تابڑ توڑ لہر آپکو اس کنارے پر لے جائے گی جہاں آپ ہونگے اور آپکا کی بورڈ اور آپکی حب الوطنی کی شان میں کہے گئے الفاظ کا سرور۔ اسی کے لئے تو رقیب نے اتنی منصوبہ بندی کی تھی،
    زبردست:)
    عباسی صاحب سے یہ پوچھنا تھا کہ اتنے چھوٹے سے دماغ پر اتنا زور دیا کیسے ہوگا:)
    اپنی اسماء اچھی ہیں جو بات سمجھ نہ آئے صاف صاف اور سادگی سے کہ دیتی ہیں بے کار کی عالمیت نہیں بگھارتیں مجھے ان کی یہ بات بہت اچھی لگتی ہے!

    ReplyDelete
  13. بس ایسے ہی خیال آیا کہ وضاحت کردوں کہ یہ چولین پی ایچ ڈی کرنے کے دوران ہلی تھیں۔ اور یہاں ہلی ہوئ چولوں سے میری مراد میری اپنی چولیں ہیں۔ قسم لے لیں اس سے کچھ اور مراد نہیں۔ رمضان میں تو کوئ جھوٹ نہیں بولتا ناں۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ