Monday, June 14, 2010

دھندہ

یہ کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے۔ میں یونیورسٹی سے واپس آرہی تھی۔ منی بس نیپا کے بس اسٹاپ پہ رکی تو ایک عورت چڑھی۔ لمبے قد اور اچھی جسامت کی چالیس سال سے اوپر کی یہ عورت ایک معقول گھرانے کی لگ رہی تھی۔ اچھی تراش کے کپڑے پہنے ہوئ اور اس پہ کشیدہ کی ہوئ چادر اوڑھے ہوئے تھی۔ اسکا چہرہ لگ رہا تھا کہ کسی پارلر کی توجہ لیتا رہتا ہے کہ بھنویں تھریڈنگ کے ذریعے بنی ہوئیں، بال مناسب انداز میں سدھارے ہوئے، ہاتھ اور پیروں کے ناخنوں پہ باسی ہوتی ہوئ نیل پالش ۔ پھر اس نے ایک عجیب حرکت کی کہ اچانک  مانگنا شروع کر دیا۔ میرا شوہر خاصہ بیمار ہے، اسکے علاج کے لئے پیسے چاہئیں، اور پھر ایک  ہمدردی حاصل کرنے والی تقریر۔ خواتین نے تو اسکو زیادہ لفٹ نہ دی اور وہ اس گیٹ کے ساتھ لگ کر کھڑی ہو گئ جو مردانے کی طرف کھلتا ہے۔ وہاں سے اسے کچھ خیرات ملی۔
آئیندہ چار پانچ بس اسٹاپ تک وہ اس میں اسی طرح موجودرہی۔ پھر وہ اکثر اس وقت نظر آنے لگی اسی طرح مردوں کے حصے کی طرف منہ کئے اور انکے گیٹ سے لگی۔ میں نے سوچا یہ عورت یقیناً بھیک کے پردے میں جسم فروشی کا دھندہ کرتی ہے۔ ورنہ ایسے حلئیے میں کیوں بھیک مانگتی ہے۔ ایکدن ایک ماسی نے اسے ڈانٹ بھی دیا۔' مجھے دیکھو تم سے کمزور ہوں پر سارادن بنگلوں میں صفائ کا کام کر کے حلال کی روزی کماتی ہوں۔ تم اتنی اچھی ہٹی کٹی عورت ہو بھیک مانگتے شرم نہیں آتی'۔
اسے شرم نہیں آتی تھی کیونکہ اسکے بعد بھی میں نے اسے یہی کرتے دیکھا۔ پھر میرا راستہ تبدیل ہو گیا۔
رمضان میں، میں نے دیکھا، اچھی خاصی لڑکیاں جن کی عمریں سترہ اٹھارہ سال سے لیکر زیادہ سے زیادہ تیس سال تک ہونگیں، بازاروں میں نظر آتیں۔ سر سے پیر تک اسمارٹ، رائج الفیشن برقعوں میں ملبوس، چہرے پہ حجاب کیا ہوا۔ ساتھ میں ایک اور خاتون۔  بھیک مانگنا اور وہ بھی بالخصوص مردوں سے انکے کندھےپہ اپنا نازک سا ہاتھ مارکر۔ میں نےسوچا یہ بھی شاید گاہک پکڑنے کا ایک طریقہ ہے۔
ابھی کچھ دنوں پہلے میں میکرو کے پارکنگ ایریا میں رابعہ اور مشعل کے ساتھ موجود تھی۔ ہم تینوں خریدے گئے سامان کی ٹرالی میں سے سامان نکال کر ڈگی میں رکھنے میں مصروف تھے۔ میں سامان رکھنے سے زیادہ ان دونوں میں تصفیہ کرارہی تھی کہ کون ، کون سا سامان رکھے گا۔ اور ادھر مشعل ہر تھوڑی دیر بعد شور مچاتی کہ اسکی خدمات سے صحیح سے فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا ہے۔ میکرو ایک ہول سیل کا سپر اسٹور ہے۔ یہاں آرام یہ ہے کہ بچوں کے ساتھ ائیر کنڈیشنڈ ماحول میں آرام سے خریداری کر لیں۔ لیکن سامان رکھنے کے لئے پلاسٹک کے تھیلے خریدنے ہوتے ہیں۔ میں دنیا میں پلاسٹک کی آلودگی اپنے تئیں بڑھانے کی کوشش نہیں کرتی البتہ کچھ تھیلے ڈگی میں رکھتی ہوں تاکہ بار بار کام آتے رہیں۔ اس لئے نہیں خریدے۔
اب ڈگی میں یہ سب سامان صحیح سے رکھنا تھا۔ اچانک مجھے پیچھے سے آواز آئ۔ میڈم۔ دیکھا تو ایک چھبیس ستائیس سال کے صاحب کھڑے تھے۔ کریز لگی ہوئ ٹرائوژرز اور ڈریس شرٹ پہنے ہوئے۔ پالش سے چمکتے ہوئے جوتے اور سر کے بال جیل لگا کر جمائے ہوئے۔ میں نے اسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ کہنے لگا 'ماں بیمار ہیں، میں نوکری کرتا ہوں مگر پورا نہیں پڑتا۔ ماں کے علاج کے لئے پیسے چاہئیں۔ میں بھیک نہیں مانگتا۔ یہ نوٹ بک بیچ رہا ہوں آپ خرید لیں' میں نے حیرانی سے اسے دیکھا۔ 'ٹیوشن کیوں نہیں پڑھاتے'۔ جی میں ایک نوکری کرتا ہوں۔ کچھ وقت ماں کو بھی دینا ہوتا ہے'۔ اچھا میں نے اسکے ہاتھ میں موجود نوٹ بک کی طرف دیکھا۔ کتنے کی ہے یہ۔ کہنے لگا سو روپے کی۔ پہلے حیرانی سے میرا منہ کھلا پھر الفاظ نکلے۔ یہ تو زیادہ سے زیادہ دس، پندرہ روپے کی ہوگی۔ اس پہ اس نے انتہائ رسان اورکچھ مسکراہٹ سے کہا میں نے آپکو بتایا تو ہے کہ مجھے ماں کے علاج کے لئے پیسے چاہئیں۔ اس لئے ان نوٹ بکس کی قیمت تھوڑی زیادہ ہے۔ 
دیکھیں جناب، میں نے ان سے کہا۔ آپ یہ فیصلہ کریں کہ آپ بھیک مانگ رہے ہیں یا محنت کے پیسے چاہتے ہیں۔  میں آپکو اسکے زیادہ سے زیادہ پچیس روپے دے سکتی ہوں اس سے زیادہ حاصل کرنے کے لئے آپ کوئ ڈھنگ کا کام کریں۔ اتنی دیر میں مشعل بور ہو چکی تھی۔ اور اس نے شور مچا دیا کہ رابعہ اسے سامان نہیں رکھنے دے رہی جبکہ یہ اسکی باری ہے۔ میں پھر ٹرالی خالی کرنے لگی۔ اس نے پھر آواز دی میڈم، آپ یہ لے رہی ہیں۔ ارے میں نے بتا تو دیا کہ میں آپکو اسکی کیا قیمت دونگی۔ آپکو دینی ہے تو مزید بات کریں۔ وہ ان آٹھ دس نوٹ بکس کو بغل میں دبا کر، پھر وہیں ایک طرف ہو کر کھڑا ہو گیا۔ گاڑی کی ڈگی بند ہوئ۔ میں نے گاڑی پارکنگ سے نکالی۔ وہ وہیں کھڑا ہوا تھا۔
اب سوچتی ہوں خواتین کو تو دھندے والی سوچ لیا تھا۔ اس ہٹے کٹے، بھلی شکل اور ہیئت کے شخص کو کس کھاتے میں ڈالوں۔

16 comments:

  1. من حیث القوم بھیکاریوں کے کھاتے میں اور ھڈ حراموں کے کھاتے میں۔

    ReplyDelete
  2. اس کو ڈالیں حرام خور اور بے غیرت مردوں کے کھاتے میں
    میرے تو خیال میں انہی زنانیوں کا بھائی ہو گا جن کا پوسٹ کے پہلے حصے مین ذکر کرا

    ReplyDelete
  3. ڈفر اور جاپانی نے تمام کیٹیگریز بیان کردی ہیں۔۔۔اب ڈالنے کے لئے ٹھٹھہ کھو ہی رہ گیا ہے۔
    ایک بات بتائیں۔
    آپ نے اپنی بیٹیوں کے نام من و عن لکھ دیے ہیں یا بدلے ہیں؟ پرائیویسی کے واسطے ایسے لکھنا ٹھیک نہیں۔ لیکن بہرحال آپ کی مرضی۔

    ReplyDelete
  4. السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
    سسٹر،یہی بات میں نےبہت پہلےادھرسعودی عرب میں بھی دیکھی تھی کہ ایک ویل ڈریس بندہ اپنی فیملی کےساتھ بہت اچھی گاڑی میں سوال کرتانظرآیاکہ گاڑی میں تیل ختم ہوگیا۔ بس مسلمانوں کااللہ ہی حافظ ہےکہ محنت مزدوی کوہم نےعارسمجھ لیاہےاوربھیک کواپناپیشہ

    والسلام
    جاویداقبال

    ReplyDelete
  5. hahaha duffer bhai nay kia mazay ki baat kahi hy wakai yeh in hi khawateen ka bhai hoga :P

    ReplyDelete
  6. ایسے "مردوں" میں سے بیشتر کا تعلق کسی خاص کمپنی کے شعبہ مارکیٹنگ سے ہوتا ہے :) اچھی قیمت پر گھٹیا چیز بیچنے کا بہت اچھا طریقہ ہے یہ۔

    ReplyDelete
  7. ابو شامل صاحب، یہ کون سی 'خاص کمپنی' کی شعبہ ء مارکیٹنگ ہے۔ جو نوٹ بکس انکے ہاتھ میں تھیں وہ عام طور پہ ڈاکٹر اپنے مریضوں کو نسخے لکھ کر دینے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ وہ بھی کسی انتہائ سسے ڈاکٹر کے استعمال کے قابل تھیں۔ جن پہ کوئ برانڈ نیم بھی نہ تھا۔ پھر اتنا سج سنور کر اسے کون ایک دکھی شخص سمجھ کر زیادہ پیسے دے گا۔ مجھے تو اب تک حیرانی ہے کیا وہ واقعی پیسے ہی مانگ رہا تھا۔

    ReplyDelete
  8. عثمان، ان میں سے ایک میری بیٹی ہے۔ فی الحال میں ایک اکلوتی بیٹی کی ماں ہوں۔ پرائیویسی ، گوگل اور فیس بک استعمال کرنے والوں کی زندگی میں لفظ پرائیویسی کہاں رہتا ہے۔ یہاں تو عالم یہ ہے کہ ایک صاحب نے مجھے میل بھیجی کہ اپنی صحیح صحیح عمر بتا دیں ورنہ نیٹ پہ سے ڈھونڈ لیں گے۔
    :)

    ReplyDelete
  9. آپکی عمر سے ان صاحب کو کیا لینا تھا؟؟؟؟؟

    ReplyDelete
  10. ہو سکتا ہے اس "دھندے" کے پیچھے بھی کوئی " مردانہ دھندہ" ہو۔۔۔۔ اور اس دھندے کو ویلیڈیٹ کرنے کیلئے کاپیوں کا سہارا لیا گیا ہو۔۔۔ ویسے یہ محض قیاس ہے میرا!۔

    ReplyDelete
  11. میرا خیال ہے کہ یہ صاحب بھی دھندہ ہی کر رہے تھے

    ReplyDelete
  12. یار سارے اس معصوم کے پیچھے پڑ گئے ہو پہلی خاتون میں کسی کو دلچسپی نہیں؟

    ReplyDelete
  13. يہ آدمی بھی يہی کام کر رہا ہو گا جو وہ عورت ثبوت عورت کا مردوں سے اور مرد کا عورت سے مانگنا ہے

    ReplyDelete
  14. عبداللہ، خواتین کی عمر کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ چاہے وہ ایک قلمی نام سے لکھنا شروع کر دیں لوگ یعنی حضرات سب سے پہلے یہ جاننا چاہتے ہیں کہ انکی عمر کیا ہے۔ میرا ایک معصوم سا خیال یہ ہے کہ وہ مجھے مخاطب کرنے کے لئے مناسب القاب استعمال کرنا چاہ رہے ہونگے۔ مناسب القاب کا بھی عمر سے بڑا تعلق ہوتا ہے۔ واللہ اعلم۔
    اسماء، یہ تو آپ نے بڑی نازک بات کہی۔ ویسے آپ خیریت سے تو ہیں کافی دنوں سے خاموسش ہیں۔
    :)

    ReplyDelete
  15. اسماء۔ ابھی اپنی میلز چیک کر رہی تھی تو آپکے لئے ایک پیغام موجود تھا کہ آپ اور خرم اتنے دنوں سے کہاں غائب ہیں۔ آپ لوگوں کے مداح اب مجھ سے پوچھ رہے ہیں۔ ہاءو جیلس ئ ایم۔
    تو پلیز آپ دونوں حاضر ہو کہ ثواب دارین حاصل کریں، اور اپنے میلنگ ایڈریس اپنے بلاگ پہ صحیح سے ڈالیں۔ تاکہ دوسرے لوگ حسد جیسے جذبے سے دور رہیں۔

    ReplyDelete
  16. جب میں کالج میں تھا تو میں نے اپنے کئی دوستوں کے ساتھ مل کر اس طرح کی چیزوں کے بارے میں جاننے کی کوشش کی تھی۔ جو کچھ ہم جان سکے وہ بہت دلچسپ تھا۔ جیسے جسم فروشی کے دھندے میں ملوث خواتین کا سڑکوں، چوراہوں اور ویگنوں پر نظر آنا عام سی بات بن چکی ہے لیکن حیرت انگیز بات جو یہ کہ کئی کم عمر خوبروں لڑکے شہر کے پوش علاقوں کی سڑکوں پر کم وقت میں زیادہ کمانے کی آرزو لے کر گھومتے ہیں لیکن وہ صرف اڈھیر عمر خواتین کو ہی متاثر نہیں کرت بلکہ کئی شوقین مرد حضرات بھی انکی خدامت کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ