Thursday, June 17, 2010

وبائے مرگ اور محبت

انگریزی بلاگز پہ کہیں زیادہ خون گرما دینے والی تحاریر آتی ہیں، لوگ اس میں دلچسپی لیتے ہیں اور میں اپنے دندان ساز ڈاکٹر کے بلاگ پہ دیکھتی ہوں کہ ایک پوسٹ پہ تین سو سے بھی زائد تبصرے ہوئے ہیں۔ مگر رشک آتا ہے انگریزی زبان کے صحت افزاء اثر پہ کہ کسی کو فشار خون لا حق نہیں ہوتا۔  مگر ہمارے اردو بلاگرز کا نظام ہاضمہ بس مخصوص چیزوں کو ہی ہضم کر پاتا ہے اور یوں عالم یہ ہوتا ہے کہ نمکدان قریب ہو تو اس سے بھی فشار خون بلند ہو جاتا ہے۔  یہاں تو اگر غالب کی وہ غزل جو نمک کے قافئیے پہ ہے اسی کو ڈالدیں تو کچھ لوگوں کےدنیا سدھار جانے کا پروگرام  فی الفور بن جائے گا اور الزام 'کسی اردو بلاگر' کے سر آئے گا۔
ویسے اگر بلاگرانہ ہم آہنگی صرف اسی صورت میں قائم رہ سکتی ہے کہ اپنے اپنے کینے دل میں پال کے رکھیں اور مصنوعی مسکراہٹوں ، رسمی خیر سگالی کے جملوں کا وقتآ فوقتآ تبادلہ ہوتا رہے۔ لوگ باگ اپنے بچوں کی خوبصورت تصاویر لگاتے رہیں، کچھ اشتہا انگیز کھانوں کی تصاویر آتی رہیں، کچھ سینیئر بلاگرز کا چاہے وہ کچھ بھی لکھیں ،احترام کیا جاتا رہے، کچھ جونیئر بلاگرز، عمر میں جونیئر کا لاڈ اٹھایا جاتا رہے، کچھ لوگوں کی باتوں پہ جزاک اللہ اور کچھ کی باتوں پہ سبحان اللہ ہوتا رہے، کچھ لوگ ایکدوسرے کو زبردست تحاریر پہ مبارکباد دیتے رہیں وہ جو انکے نظریات سے ملتی ہیں، کچھ اپنے تئیں منٹو اور عصمت چغتائ بننے والے، بالغوں کو نا بالغ بناتے رہیں اور خوش رہیں۔ تو بہتر ہے کہ انسان کچھ ڈائجسٹ پڑھکر دل بہلائے مثلآ خواتین ڈائجسٹ اور اس پہ وقتاً فوقتاً سسپنس یا جاسوسی ڈائجسٹ کا چھینٹا مارتا رہے اور ان سب کو پڑھنے سے پہلے برکت کے لئے روحانی ڈائجسٹ پڑھا کرے۔
اس میں یہ تمام ملغوبہ اس توازن سے ہوتا ہے کہ جن گھروں میں پڑھا جاتا ہے وہاں کسی کو بلاگنگ جیسی فضولیات میں وقت ضائع کرنے کا خیال نہیں آتا علاوہ ازیں گھروں کے اندر ہم آہنگی کی ایک آِئڈیئل فضا جنم لیتی ہے جس سے  ڈائیجسٹ والوں کے روزگار پھلنے پھولنے کے مواقع بڑھتے رہتے ہیں۔ اسکے لئے کمپیوٹر کی بھی ضرورت نہیں ہوتی اور انسان ان پہ پیسے صرف نہ کرنا چاہیں تو محض پڑوسیوں سے اچھے تعلقات پہ ہی کام چل جاتا، اس صورت میں نمک مانگنے کے بجائے یہ کہنا ہوگا کہ خالہ جی بلکہ آنٹی جی، آپ نے اپنا ڈائجسٹ ختم کر لیا تو ہمیں دے دیں۔ مجھے اس میں سے نہاری کی  ترکیب آزمانی ہے۔
نہاری ہم آہنگی پیدا کرنے کا ایک آزمودہ نسخہ ہے۔ اب یہاں ایک ایک سیدھا سادہ سا سوال پیدا ہوتا ہے کہ نہاری سے کیسے بلاگرانہ ہم آہنگی پیدا کی جا سکتی ہے۔ میں تمام اردو بلاگرز کو اس سلسلے میں ٹیگ کرتی ہوں کہ نہاری، اسکی مختلف تراکیب، طریقہ ء استعمال، کھانے کے آداب، لوگوں کو اسکی دعوت پہ بلانے کے آداب، گھر میں ایک اس طرح کی دعوت منعقد کرنے کے سو طرائق اور نہاری پیش کرنے کے سلیقہ مند طریقوں کو بیان کریں۔
خبردار کسی نے گوشت کی بڑھتی ہوئ قیمتوں، لوگوں کے کھانا نہ ملنے کی وجہ سے خودکشی کرنے کے واقعات کا تذکرہ، مختلف لسانی اکائیوں کے اس بارے میں وہم اور خیالات، کھونٹوں کی گئیوں، کولہو کے بیل اور گلی کے گدھوں کا تذکرہ کیا۔ اس سے ہم آہنگی جیسے عظیم مقصد کو ٹھیس پہنچنے کا اندیشہ ہے۔ جو صرف اسی صورت میں برقرار رہ سکتا ہے کہ ہم کوہ قاف کی کہانیاں دوہراتے رہیں۔
میں زیادہ گھمبیر مسئلے کی طرف آتی ہوں کہ اس سے ہم آہنگی بھی برقرار رہے اور سب لوگ اس میں شامل رہیں۔ مسئلہ ہے، آج کیا پکائیں، حالانکہ پچھلے دو دن سے میں ایک احساس جرم میں مبتلا ہوں کہ یہ کیسے ہوتا ہے کہ ایک خاندان کے پانچ لوگ مفلسی کی وجہ سے خدا کے بنائے ہوئے قانون کو توڑتے ہیں اور اپنی زندگی ختم کر لیتے ہیں اور ہم یہ سوچتے ہیں کہ آج کیا پکائیں۔ مگر ان تمام باتوں پہ گفتگو ہمیشہ ایسے نکات کی طرف مڑے گی جہاں سے ہم آہنگی کے نازک بت کو ضرر پہنچ سکتا ہے۔ میں اسی مجرمانہ احساس کے ساتھ نہاری کی ترکیب کو ذہن میں دوہراتی ہوں۔
اسکے لئے چاہئیے ہوگا ایک کلو گوشت بونگ کا، کچھ مصالحے اور آپکے کچن کو ایسی جگہ ہونا چاہئیے جہاں سے بھننے والے گوشت اور حلووں کی خوشبو ان لوگوں تک نہ پہنچے جو زہر کی گولیاں ہاتھ میں لئے بیٹھے ہیں۔
ویسے برسبیل تذکرہ کسی نے گارسیا کی  کتاب وبائے مرگ میں محبت پڑھی ہے۔

13 comments:

  1. میں نے انگریزی بلاگستان میں کافی ٹائم گذارا ہے اور اب بھی چکر لگاتا رہتا ہوں۔
    آپ کا پہلا اعتراض تو مکمل غلط ہے کہ انگریزی بلاگ والوں اور تبصرہ نگاروں‌کو غصہ نہیں‌آتا۔ وہاں پر ایسے ایسے غلیظ تبصرے کئے جاتے ہیں‌کہ جن کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتی۔ جنس، نسل، مذہب،سیاست۔۔۔غرض ہر موضوع پر آپ کو گالیوں اور پھُبتیوں‌سے بھرے اور تبصرے اور پوسٹ مل جائیں گی۔ وہاں آپ کو ہر دوسرے بلاگ پر ایک کمنٹ پالیسی کا صفحہ مل جائے گا جس میں بلاگر نے خبر دار کیا ہوگا کہ ناگوار تبصروں‌سے پرہیز کریں۔ ایک پاکستانی نثزاد امریکی بلاگر جسے میں‌اکثر پڑھتا رہتا ہوں‌کو قتل کی دھمکیاں‌مل چکی ہیں‌اور اب انھوں نے مستقل موڈریشن لگا رکھی ہے۔
    دوسری بات یہ کہ انگریزی بلاگستان میں‌لکھنے اور پڑھنے والوں کی تعداد لاکھوں‌میں‌ہے۔ وہاں‌پر اپنی پہچان بنوانا کوئی آسان بات نہیں۔ آپ بہت اچھا لکھنے والے ہوں‌ تبھی آپ کی دال گل سکتی ہے۔ تین سو تبصرے بہت ذیادہ ہیں۔ اگر آپ نے مبالغہ آرائی سے کام نہیں لیا تو میرے خیال سے وہ صاحب بہت اچھے اور مانے ہوئے بلاگر ہوں‌گے۔ ورنہ میں نے مشرق وسطٰی سے تعلق رکھنے والے کچھ بلاگروں‌کو پڑھا ہے جن کی شہرت کا یہ عالم ہے کہ وہ مغربی ٹی وی چائنلز کو انٹرویو دیتے رہتے ہیں لیکن ان کے تبصرہ نگاروں‌کی تعداد دو سو سے تجاوز نہیں‌کر پائی۔
    تیسری اور آخری بات یہ کہ آپ جو لکھنا چاہیں‌۔ لکھیئے۔۔۔کون روک رہا ہے؟ ہاں تبصرہ نگاروں‌کی تنقید سے نہ تنگ پڑیں کہ یہ تو بلاگنگ کا ہی حصہ ہے۔ اردو بلاگستان میں‌ ویسے بھی لکھنے والے سو سے زیادہ نہیں‌تو پھر آپ کو اچھا لکھنے والے کیسے ملیں؟ تغیر کہاں‌سے آئے؟
    اپنی بلاگنگ کے بارے میں‌ میں یہی کہوں‌گا کہ جو میری اوقات ہے۔۔۔وہی لکھوں گا نا!
    اور بات۔۔۔۔وہ یہ کہ ہمارے معاشرے میں تخلیقی کام کا کوئی خاص رحجان نہیں۔ مغرب کے تعلیمی اداروں‌مین باقاعدہ لکھنا سکھایا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں رٹا ہی ڑٹا ہے۔ بہر حال یہ تفصیل موضوع ہے۔ پھر سہی۔

    ReplyDelete
  2. میں نے انگریزی بلاگستان میں کافی ٹائم گذارا ہے اور اب بھی چکر لگاتا رہتا ہوں۔
    آپ کا پہلا اعتراض تو مکمل غلط ہے کہ انگریزی بلاگ والوں اور تبصرہ نگاروں‌کو غصہ نہیں‌آتا۔ وہاں پر ایسے ایسے غلیظ تبصرے کئے جاتے ہیں‌کہ جن کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتی۔ جنس، نسل، مذہب،سیاست۔۔۔غرض ہر موضوع پر آپ کو گالیوں اور پھُبتیوں‌سے بھرے اور تبصرے اور پوسٹ مل جائیں گی۔ وہاں آپ کو ہر دوسرے بلاگ پر ایک کمنٹ پالیسی کا صفحہ مل جائے گا جس میں بلاگر نے خبر دار کیا ہوگا کہ ناگوار تبصروں‌سے پرہیز کریں۔ ایک پاکستانی نثزاد امریکی بلاگر جسے میں‌اکثر پڑھتا رہتا ہوں‌کو قتل کی دھمکیاں‌مل چکی ہیں‌اور اب انھوں نے مستقل موڈریشن لگا رکھی ہے۔
    دوسری بات یہ کہ انگریزی بلاگستان میں‌لکھنے اور پڑھنے والوں کی تعداد لاکھوں‌میں‌ہے۔ وہاں‌پر اپنی پہچان بنوانا کوئی آسان بات نہیں۔ آپ بہت اچھا لکھنے والے ہوں‌ تبھی آپ کی دال گل سکتی ہے۔ تین سو تبصرے بہت ذیادہ ہیں۔ اگر آپ نے مبالغہ آرائی سے کام نہیں لیا تو میرے خیال سے وہ صاحب بہت اچھے اور مانے ہوئے بلاگر ہوں‌گے۔ ورنہ میں نے مشرق وسطٰی سے تعلق رکھنے والے کچھ بلاگروں‌کو پڑھا ہے جن کی شہرت کا یہ عالم ہے کہ وہ مغربی ٹی وی چائنلز کو انٹرویو دیتے رہتے ہیں لیکن ان کے تبصرہ نگاروں‌کی تعداد دو سو سے تجاوز نہیں‌کر پائی۔
    تیسری اور آخری بات یہ کہ آپ جو لکھنا چاہیں‌۔ لکھیئے۔۔۔کون روک رہا ہے؟ ہاں تبصرہ نگاروں‌کی تنقید سے نہ تنگ پڑیں کہ یہ تو بلاگنگ کا ہی حصہ ہے۔ اردو بلاگستان میں‌ ویسے بھی لکھنے والے سو سے زیادہ نہیں‌تو پھر آپ کو اچھا لکھنے والے کیسے ملیں؟ تغیر کہاں‌سے آئے؟
    اپنی بلاگنگ کے بارے میں‌ میں یہی کہوں‌گا کہ جو میری اوقات ہے۔۔۔وہی لکھوں گا نا!
    اور بات۔۔۔۔وہ یہ کہ ہمارے معاشرے میں تخلیقی کام کا کوئی خاص رحجان نہیں۔ مغرب کے تعلیمی اداروں‌مین باقاعدہ لکھنا سکھایا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں رٹا ہی ڑٹا ہے۔ بہر حال یہ تفصیل موضوع ہے۔ پھر سہی۔

    ReplyDelete
  3. دلچسپ تحریر ہے، اردو اور انگریزی بلاگرز کا تقابل بھی کافی حد تک درست معلوم ہوتا ہے۔

    علمی تقاریر اور تحاریر، ڈائیلاگ اور سنجیدہ گفتگو سے ہم اہنگی بل مقابل اختلاف رائے کا جنم لینا فطری عمل ہے۔ لیکن برداشت، احترام، تحذیبی ارتقاء اور کو ازسیسٹینس کے تصورات کو عملی تعبیر ملتی ہے۔ آپ اردو اخبارات اور انگریزی اخبارات کا تقابل کریں تو کچھ اس سے زیادہ پریشان کن صورت حال سامنے آئے گی۔

    مرگ موت میں عشق و عاشقی اور عیش و عیاشی تو ہمارا خاصہ رہی ہے۔ سمر قند اور بخارا کے قلعوں کے باہر جب چنگیز خان اور بغداد کے قیصر خلافت کے باہر جب ہلاکو خان اپنے کہر و غضب کے ساتھ کھڑے تھے اور شہر کے اندر امراء شراب و شباب کی محفلیں سجائے بیٹھے تھے۔ لیکن کاش کہ ہمیں عقل آجائے۔

    بلاگرز کا حلقہ اثر تو بہت مختصر ہے خاص طور پر اردو بلاگرز کا، اب کوئی بھی سماجی نوعیت کی باریک پر اگر کچھ لکھنا بھی چاہے تو اسے قراء حضرات کی بوریت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اکثریت اردو بلاگز کو تفریح اور دل بہلانے کے لئے استعال کرتے ہیں۔ چٹ پٹی تحریروں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، سنجیدہ موضوعات سے سرف نطر عام ہے۔

    ReplyDelete
  4. عثمان، میں یہی تو کہنا چاہ رہی ہوں کہ مبصروں کا یا تبصرہ نگار کا تیزی میں آجانا ایسی کوئ غیر معمولی بات نہیں کہ لوگ یہ کہیں کہ اردو بلاگز پڑھ کر فشار خون ہوتا ہے۔ یہ تو ٹی وی چینل دیکھ کر بھی ہوتا ہے۔ ہم جس صورتحال میں رہتے ہیں اور جن حالات سے گذر رہے ہیں وہاں ہر وقت کیسے چلبلا پن دکھا سکتے ہیں۔ بہر حال ہمیں کچھ چیزوں کو بالکل سنجیدگی سے لینا پڑےگا۔ اور کچھ چیزیں جنہیں ہم اپنے درمیان سے ختم کرنا چاہتے ہیں لامحالہ ان پہ سنجیدہ بات کرنی پڑے گی۔ اور اگر کوئ ایسا نہیں کرنا چاہتا ، اور یہ کسی پہ زبردستی بھی نہیں ہے تو اسے دوسروں پہ تنقیدکا حق نہیں۔ آپ کسی موضوع سے اختلاف کر سکتے ہیں اسکے صحیح یا غلط ہونے کے لئے دلائل لا سکتے ہیں، آپ اس سے الگ تھلگ رہ سکتے ہیں لیکن آپ اسے بےکار کیسے قرار دے سکتے ہیں۔
    اگر آپکے اندر اہلیت ہے تو اس سے زبردست کام کر کے دکھائیں۔ لیکن جب آپکی باری آتی ہے تو پھر وہی پرانی باتیں۔
    کاشف نصیر، آپکا شکریہ کہ اس تحریر میں دلچسپی لی۔ اگرچہ کہ کچھ لوگوں کو اس سے اختلاف ہے لیکن میں بھی یہ بات محسوس کرتی ہوں کہ جس طرح انگریزی اور اردو صحافت میں ایک واضح فرق نظر آتا ہے اسی طرح اردو اور انگریزی بلاگنگ میں بھی نظر آتا ہے۔

    ReplyDelete
  5. عثمان ، بہت ساری دفعہ آپکا اچھا بلاگر ہونا کافی نہیں ہوتا۔ بہت سارے بلاگرز کو مختلف ادارے، سیاسی پارٹیز، یا مخصوص رجحانات رکھنے والے سرمایہ کار سپورٹ کرتے ہیں۔ اور یوں انکا بلاگ ایک اہمیت اختیار کر لیتا ہے۔ کچھ لوگ پہلے سے ہی کسی میدان میں شہرت رکھتے ہیں یوں بلاگ شروع کرتے ہی لوگ انکی طرف لپک پڑتے ہیں۔ کچھ بلاگرز کے ساتھ لوگوں کی ایک ٹیم کام کرتی ہے۔ جبکہ کچھ لوگوں کو تن تنہا یہ کام کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے بلگ کی کامیابی کا محض اچھا بلاگر ہونے سے ہی نہیں پتہ چلتا۔ ایک بلاگ کو کامیابی سے چلانے میں بہت ساری چیزیں شامل ہوتی ہیں۔ یہ آپ نے صحیح کہا، یہی میں بھی کہتی ہوں۔ جو آتا ہے وہی تو کریں گے۔ لیکن بہر حال تخلیقی صلاحیت کچھ نیا کرنے کی لگن سے جڑی ہوتی ہے۔ چیزیں بدل بدل کر کرنے سے دماغ خاصہ مہمیز ہوتا ہے اور اگر آپ اندر مواد رکھتے ہیں تو یہ خود بہنا شروع ہو جاتا ہے۔ اور ایک لمحے ہم خود حیران رہ جاتے ہیں کہ یہ بھی میرے اندر تھا۔

    ReplyDelete
  6. انگریزی بلاگ کا تو نہیں معلوم مگر جاپانی بلاگ پر کوئی علمی مگر لترول کروانے کیلئے لکھی گی تحریر آتی ھے تو لکھنے والا آئیندہ کیلئے نہایت محتاط ھو جاتا ھے۔اردو بلاگر کی ایک خوبی ھے کہ تبصرہ کرتے ھوئے ھاتھ ھولا رکھتے ہیں۔یا پھر لکھنے والے کا مزاج دیکھ کر تھوڑا رحمدلانہ تبصرہ کرتے ہیں۔
    حقیقتا اردو بلاگر زیادہ تر سلجھے ھوئے حضرات ہیں۔
    اب اگر آپ کے بلاگ کے تبصروں کی طرف آئیں تو یقین مانئے نہایت معصوم اور محتاط تبصرے ھوتے ہیں سوائے گمنام لوگاں کے تبصروں کے۔
    اردو بلاگرز کو اگر اجڈ کہا جائے تو اس کی ایک ھی وجہ ھو سکتی ھے کہ فحش اور گالی گلوچ والا تبصرہ نہیں کرتے۔

    ReplyDelete
  7. یاسر صاحب، مجھے اپنے تبصرہ نگاروں سے کوئ شکایت نہیں۔ یہ انکا حق ہے جو انکا دل چاہتا ہے وہ لکھیں۔ میں نے تو کسی کو کبھی اجڈ نہیں کہا۔ ہمارے تبصرہ نگاروں کا دل خود اتنا ہلکا ہوتا ہے کہ بات کرنے سے گھبرا جاتے ہیں۔ یہ تو میں ان لوگوں کی بات کر رہی ہوں جو یہ کہتے ہیں کہ اردو بلاگنگ کی دنیا سے گذر کر فشار خون ہو جاتا ہے۔ اس طرح ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔
    البتہ کبھی کبھی یہ دل ضرور چاہتا ہے کہ ایسی بحث ہو کہ جس میں لوگ ایک تحریر پہ مزید معلومات اپنے تبصروں کی صورت دیں اور یوں چیزیں الجھنے کے بجائے کھل جائیں لیکن ایسا شاذ ہی ہوتا ہے۔ اردو بلاگرز چند محدودات کے گرد ہی گھومتے رہتے ہیں۔ مجھے بہت کم تبصرے ایسے ملتے ہیں جن میں مزید کچھ لنکس اور انفارمیشن ہوں۔
    جبکہ انگلش بلاگز پہ تبصرے بھی کافی جاندار ہوتے ہیں۔

    ReplyDelete
  8. آپ کی بات ٹھیک ہے۔ اردو اور انگریزی تحریروں میں بلاشبہ بہت فرق ہے۔ لیکن میرے رائے میں‌یہ فرق اُس طرح نہیں جس طرح آپ نے اور کاشف نے بیان کی ہے۔ پاکستانی اردو ، انگریزی اخبارات والی مثال ٹھیک نہیں۔ کیونکہ اردو اخبار لکھنے اور پڑھنے والوں‌میں ہر طبقے کے لوگ ہیں۔ جبکہ انگریزی‌ اخبار صرف پڑھا لکھا طبقہ ہی لکھتا اور پڑھتا ہے۔ فرق لوگوں‌کی تعلیم اور شعور کا ہے نہ کہ زبان کا۔
    اب آئیے بلاگ کی طرف۔ انگریزی بلاگستان میں‌پوری دنیا سے لکھنے والے ہیں۔ باشعور، باصلاحیت، اور با علم سے لے کر نکمے لوگوں تک۔ آپ کو ہر قسم کے لوگ اور بلاگ مل جائیں گے۔ اصل بات یہ ہے کہ لکھنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ اس لئے ہر آدمی کو اپنی پسند کا حلقہ مل جاتا ہے۔ اردو بلاگستان کا اصل مسئلہ ہی تعداد کی کمی ہے۔ کم لوگ ہونے کی وجہ سے ایک کلوز کمیونٹی وجود میں‌آگئی ہے جس کی اپنی کچھ خوبیاں اور خامیاں‌ ہیں۔ ایک ہی ملک، مذہب اور اکثر موضوعات پر ایک جیسے خیالات رکھنے والے تھوڑے سے لوگ ہیں۔ جس کی وجہ سے تغیر بہت کم اور یکسانیت بہت زیادہ محسوس ہوتی ہے۔
    بڑوں‌کا ادب اور چھوٹوں کے لاڈ اُٹھانے والی آپ کی بات واقعی دلچسپ ہے۔ اس بارے میں دو باتیں‌ ہیں۔ ایک تو وہی کہ ایک چھوٹی کلوز کمیونٹی ہونے کی وجہ سے بے جا تکلف فروغ پا گیا ہے۔ اور دوسرا ہمارا اپنا کلچر جس کے اثرات ہماری اردو زبان پر بھی ہیں۔ مثال کے طور پر ہم نہ چاہتے ہوئے بھی بڑوں چھوٹوں، عورتوں، مردوں کو ایک مخصوص نکتہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس مسئلے کا حل یہی ہے کہ جوں جوں‌ اردو بلاگستان کا سائز بڑھتا جائے گا۔ توں توں‌ یہ عناصر تحلیل (disperse ) ہوتے جائیں گے۔ تاہم اردو بلاگستان میں وہ بات کبھی نہیں آ پائے گی جو انگریزی بلاگستان میں ہے۔
    تخلیقی صلاحیت کے متعلق آپ کی بات سے اتفاق ہے۔ اس بارے میں مزید خیال آرائی پھر سہی۔ شائد کسی پوسٹ میں۔

    ReplyDelete
  9. ایک جملہ انگریزی کے حرف ڈالنے کی وجہ سے گڑبڑ ہوگیا۔ پھر عرض کر رہا ہوں:۔
    اس مسئلے کا حل یہی ہے کہ جوں جوں‌ اردو بلاگستان کا سائز بڑھتا جائے گا۔ توں توں‌ یہ عناصر تحلیل ہوتے جائیں گے۔ تاہم اردو بلاگستان میں وہ بات کبھی نہیں آ پائے گی جو انگریزی بلاگستان میں ہے۔

    ReplyDelete
  10. مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ آپ کا فشار خون بلند ہوا ہے
    کچھ پڑھ کے۔۔۔
    ہیں جی۔۔۔

    ReplyDelete
  11. عثمان، میں صرف پاکستانی انگریزی بلاگرز کی بات کر رہی ہوں۔ آپکی باقی باتیں درست ہیں۔
    جعفر صاحب، طبیعت ناساز ہے اور کچھ لکھنے کا موڈ نہیں۔ مگر پھر بھی ایک لطیفہ یاد آگیا۔
    ایک شخص شدید بخار میں ڈاکٹر کے پاس پہنچا۔ ڈاکٹر نے کہا جا کر ٹھنڈے پانی سے نہا لیں۔ اس نے کہا اس طرح تو مجھے نمونیا ہو جائے گا۔ جواب ملامیں نمونیا کا اسپیشلسٹ ہوں اور اسی کا علاج کر سکتا ہوں۔ آپ بھی بس فشار خون کے ڈاکٹر ہیں۔ یہاں دو دن سے کم ہوا ہے کم بلڈ پریشر کی تشخیص کیسے کرتے ہیں آپ۔
    ویسے کچھ پڑھ کر ہی مجھے خیال آیا تھا۔ سوچا وہاں لکھنے کے بجائے یہاں لکھ دوں۔ بہت سارے خیالات تبصروں میں ضائع ہو جاتے ہیں۔

    ReplyDelete
  12. جعفر کی لگتا ہے طبيعت ناساز چل رہی ہے ہاتھ دھو کر پيچھے پڑ گيا ہے آُپ کے اور موضوع پر تبصرہ کرنے کی بجائے الٹی سيدھی باتيں ؟ کوئی ان لوگوں کو اصول و ضوابط کی پرواہ نہيں ہے اللہ انہيں ہدايت دے جيسے ميں صراط نستقيم پر ہوں اللہ آپ سب کو بھی اس پر چلائے آمين ثم آمين

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ