Tuesday, June 29, 2010

مزید الٹا سیدھا-۱

بنیادی سائینس جس کسی نے بھی پڑھی ہو۔ اسکی نظر سے یہ بات محفوظ نہیں رہ سکتی کہ چاہے یہ مادے کی بنیاد ایٹم جیسے آنکھ سے نظر نہ آنے والے جسم کی کہانی ہو یا کائنات میں موجود کہکشاءووں کی۔ عالم تمام عالم رقص میں ہے اور مطلق سکون کوئ چیز نہیں۔ اسی طرح مزید اس مشاہدے کو آگے بڑھائیں تو دیکھیں گے کہ بظاہر اسپیس میں سمت کا حساس نہ رکھنے کے باجود اسپیس سمت کے قابو میں ہے۔ ہم زمینی سطح پہ مشرق مغرب کی بات کرتے ہیں اور خلاء میں وقت سمت کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔ ایٹم کے اندر موجود الیکٹران جوڑے کی شکل میں ہوتے ہیں ان میں سے ایک جس سمت میں گھومتا ہے دوسرا اسکے بالکل بر عکس سمت میں گھومتا ہے۔ اس طرح سے حیران کن طور پہ  دونوں  کی مشترکہ توانائ کم رہتی ہے۔ اور وہ ایک ساتھ رہنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
کیمیاء کی سطح پہ ہم دیکھتے ہیں کہ بالکل ایک ہی جیسے ساخت رکھنے والے مالیکیول بھی ایک دوسرے سے الگ الگ خواص ظاہر کرتے ہیں۔ اسے کائریلیٹی کہتے ہیں۔ اس خاصیت کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ یہ مالیکیول جب فضا میں موجود ہوتے ہیں تو یہ اپنا مقام ایسا رکھتے ہیں کہ ایک دوسرا کا عکس نظر آتے ہیں۔ مگر ان میں وہی فرق ہوتا ہے جو عکس اور حقیقت میں ہوتا ہے۔  عکس کا دایاں ہاتھ حقیقت کے دائیں ہاتھ کے سامنے نہیں ہوتا۔

اوپر دی گئ تصویر میں دیکھیں، تھیلیڈو مائیڈ کے دونوں مالیکیول بظاہر بالکل ایک جیسے لگ رہے ہیں۔ مگر یہ ایک جیسے نہیں ہیں بلکہ ایکدوسرے کا عکس ہیں۔ ان میں سے ایک دوا کے طور پہ ساٹھ دہائ میں حاملہ خواتین کے لئے استعمال کیا گیا۔ تاکہ انہیں اس صورت میں آنے والی قے سے آرام ملے۔ لیکن بے شمار بچوں کے جسمانی و ذہنی طور پہ معذور پیدا ہونے کے بعد اندازہ کیا گیا کہ یہ دوا جنین میں جنیاتی خامیاں پیدا کرتی ہے۔یوں اس دوا پہ اس طرح کے استعمال کی پابندی لگا دی گئ۔ اسکا عکسی مالیکیول ایسے کوئ خواص نہیں رکھتا کہ اسے دوا کے طور پہ استعمال کیا جا سکے۔
شاید کچھ لوگوں کو یہ جان کر حیرت ہو کہ ہمارا جسم جن امائنو ایسڈز سے بنا ہوا ہے وہ فضا میں ایک ہی طرح کی مقامیت رکھتے ہیں۔ اور تمام جاندار اس کرہ ء ارض پہ دوسری طرح کے امائنو ایسڈز سے پروٹین نہیں بنا سکتے۔ اسی طرح ہمارا جسم صرف ایک ہی طرح کی مقامیت رکھنے والی شکر کو ہضم کر سکتا ہے۔
اس پہ مزید سوچنے کا کام میں آپ پہ چھوڑتی ہوئ آگے بڑھتی ہوں۔ مقامیت کی یہ مخصوصیت صرف انہی چیزوں کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ یہ جانوروں اور انسانوں میں ایک اور طرح سے بھی عمل کرتی ہے۔
 ہاتھی کے دانت کھانے کے اور اور دکھانے کے اور، یہ تو ایک محاورہ ہے۔ لیکن ہاتھی اپنے دانتوں کے معاملے میں قدرتی طور پہ یہ انتخاب رکھتے ہیں کہ دائیں یا بائیں ان میں سے کوئ ایک زیادہ استعمال کریں۔ جو زیادہ قوی دانت ہوتا ہے۔ وہ زیادہ بڑا ہوتا ہے۔
طوطے، پکڑنے کے لئے زیادہ تر اپنا داہنا پنجہ استعمال کرت ہیں۔ برفانی ریچھ شکار کو مارنے کے لئے زیادہ تر بایاں ہاتھ استعمال کرتے ہیں۔
  اور یہاں سے انسانوں کی کہانی شروع ہوتی۔ 
انسانوں میں اپنے مختلف جانبی اعضاء کو استعمال کرنے کا مختلف تناسب پایا جاتا ہے۔ مثلاً اٹھاسی فی صد افراد اپنا سیدھا ہاتھ استعمال کرتے ہیں، اکیاسی فی صد دایاں پاءوں، اکہتر فی صد دائیں آنکھ، انسٹھ فی صد دایاں کان، چوراسی فی صد ایک جیسے ہاتھ پاءوں اور اکسٹھ فی صد ایک جیسے کان اور آنکھ استعمال کرتے ہیں۔
انسانی آبادی کا تقریباً دس فی صد حصہ اپنا الٹا ہاتھ زیادہ استعمال کرنے کا قدرتی رجحان رکھتا ہے اور الٹے ہاتھ سے لکھنے کو ترجیح دیتا ہے۔ کچھ لوگ اپنے دونوں ہاتھ یکساں مہارت سے استعمال کر سکتے ہیں۔ حتی کہ وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے دو مختلف زبانیں بیک وقت لکھ سکتے تھے۔ یہاں ایک صاحب اپنے دونوں ہاتھوں سے دو مختلف تصاویر بنا رہے ہیں۔ باقی کے لوگ قدرتی طور پہ اپنا دایاں ہاتھ زیادہ کام میں لاتے ہیں۔
دنیا کی زیادہ تر تہذیبوں میں الٹا ہاتھ برے کام سے وابستہ ہے۔ اور مختلف زبانوں میں جن میں انگریزی جیسی عام مستعمل زبان اور فرنچ جیسی اعلی و ارفع زبان بھی الٹے اور سیدھے ہاتھ کے بارے میں امتیاز کرتی نظر آتی ہیں۔ الٹا ہاتھ استعمال کرنا پھوہڑ پن و بد سلیقگی کی علامت ہے اسے استعمال کرنے والا غبی کہلاتا ہے۔ ۔جب یہی شدت بڑھتی ہے تو الٹا ہاتھ استعمال کرنے والا خبیث الفطرت نظر آنے لگتا ہے۔ اس میں کچھ شیطانی قوتیں حلول کر جاتی ہیں۔ الٹے ہاتھ سے سلام کرنا بے عزتی کا نشان ہے  غیر زبانوں سے ہٹ کر اردو میں بھی محاورہ ہے کہ الٹے ہاتھ سے سلام تو ڈوم کرتے ہیں۔ ڈوم بھنگی کو کہتے ہیں۔
الٹا ہاتھ بے شرمی کی، نا انصافی کی ،جھوٹ اور دغابازی کی علامت ہے، خدا کی طرف سے سزا ہے۔
لیکن دنیا کے کچھ حصوں میں الٹا ہاتھ بالکل الگ معنی رکھتا ہے۔ امریکہ کی قدیم تہذیب 'انکا' میں الٹا ہاتھ روحانیت کی علامت ہے۔ جادو اور شفا کی قوتیں اس ہاتھ سے وابستہ ہیں۔ تنترا بدھءووں میں بھی الٹا ہاتھ عقلمندی کی علامت ہے۔

5 comments:

  1. ميں خود ايک طرف کے دانتوں سے کھانا کھاتی ہوں اور ايک طرف کے ناک سے سونگھتی ہوں طيبہ حفضہ کو ميں نے پھينٹی لگا کر الٹے سے سيدھے ہاتھ پر منتقل کيا ہے پاکستان اگر جانا ہوا تو بدنامی کا باعث بن سکتی تھيں رشتہ داروں نے سب کچھ چھوڑ کر ان کے ہاتھ پيچھے پڑ جانا تھا اور يہ ُاٹھاس` کونسی فيصد ہے

    ReplyDelete
  2. صحیح کر دیا ہے اٹھاس کو۔
    :) :)
    جس طرف کے دانتوں سے نہیں کھاتی ہیں وہ پہلے داغ مفارقت دیں گے۔ اس لئے کبھی کبھی ان سے بھی مشقت کرایا کریں۔ لیکن خیر میں بھی فون ہمیشہ دائیں کان سے سنتی ہوں۔ بائیں کان سے تسلی نہیں ہوتی۔

    ReplyDelete
  3. طیبہ حفصہ کے ساتھ میری ہمدردیاں ہیں۔ اگر دنیا میں آنے سے پہلے انسانوں کی مرضی معلوم کر لی جاتی تو پاکستان کی آبادی خاصی کم رہتی، خود بخود۔
    :) :)

    ReplyDelete
  4. معلومات میں کافی اضافہ ھوا - شُکریہ

    ReplyDelete
  5. ایک بار یہ پڑھا تھا کہ ایک ایٹم کے سب اٹامک پارٹیکل جو ایک دوسرے کے مخالف سمت حرکت کرتے ہیں، کو سرن کی لیب میں کئی کلومیٹر دور لے جایا گیا۔ جب ایک ذرے کو حرکت دی گئی تو عین اسی وقت اس کے جڑواں ذرے نے عین اسی حرکت کی مخالف سمت حرکت کی۔ کیا یہ واقعی سچ ہو سکتا ہے؟ یا محض نیٹ گردی کا شاہکار؟

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ