Tuesday, June 29, 2010

مزید الٹا سیدھا-۲

ہمارا یہ پورا خطہ جس میں چین، انڈیا اور پاکستان آتے ہیں۔ سیدھے ہاتھ کی تعظیم کا خطّہ ہے۔ ہندءووں اور مسلمانوں دونوں میں سیدھے ہاتھ کے استعمال کو ترجیح دی جاتی ہے اور بچوں کو ابتداء ہی سے یہ چیز بزور قوت سکھائ جاتی ہے کہ وہ اپنا سیدھا ہاتھ استعمال کریں۔ حال ہی میں ایک ٹی وی اینکر یہ کہتے سنے گئے کہ انہیں پروگرام کے دوران الٹے ہاتھ سے پانی پیتے دیکھ کر انہیں لا تعداد پیغامات محض اس لئے ملے کہ الٹے ہاتھ سے پانی پینا غیر اسلامی ہے۔
مغرب میں اس خیال کا باعث عیسائ تعلیمات سے جوڑا جاتا ہے۔  لیکن اسلامی تعلیمات کو اگر دیکھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ صفائ کو نصف ایمان قرار دیا گیا ہے۔ اور ایک ایسے زمانے میں جب خود کو صاف رکھنے کے لئے آجکی طرح کی  چیزیں جیسے صابن اور دوسری اشیاء موجود نہ تھیں سیدھے ہاتھ کے استعمال کو شاید اس لئے احسن قرار دیا گیا کہ جس ہاتھ سے گندگی صاف کی گئ ہے اس سے کھانا کھانے کا احتمال نہ رہے اور اس طرح بیماریوں سے محفوظ رہا جا سکے۔ یہاں ہمیں یہ بات اچھی طرح یاد رکھنی چاہئیے کہ آج سے ڈیڑھ ہزار سال پہلے جب اسلام کا ظہور ہوا یہ بات معلوم نہ تھی کہ بیماریاں، جراثیم سے ہوتی ہیں اور ان سے بچاءو کیا جا سکتا ہے۔ ورنہ الٹا ہاتھ اتنا نجس ہوتا  تو خدا انسان کو صرف ایک ہاتھ دیتا اور وہ ہوتا دایاں ہاتھ۔
اگرچہ کہ سائینسی سطح پہ یہ بات پایہء ثبوت کو نہیں پہنچی کہ کیوں انسانوں کی ایک تعداد اپنا بایاں ہاتھ استعمال کرنے کو ترجیح دیتی ہے۔ اس سلسلے میں جینیاتی وراثت سے لیکر ماں کے پیٹ میں بچے کی حالت اور ہارمونز کو بھی ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ الٹے ہاتھ کی جین بھی دریافت کر لی گئ ہے۔ لیکن یہ سب ابھی تک صداقت کی منزل کو نہیں پہنچے۔ 
  یہ بات واضح ہے کہ انسانی دماغ دو حصوں میں منقسم ہے۔ جیسا کہ نیچے دی گئ تصویر میں ہے۔


 یہ بات بھی طے ہے کہ یہ دونوں حصے جسم میں مختلف اعمال و افعال کو کنٹرول کرتے ہیں۔ دماغ کا الٹا حصہ جن افعال کے ساتھ جڑا ہوا ہے وہ لکھائ، زبان، سائینسی طرز فکر، ریاضی، دلیل ہیں۔ جبکہ دماغ کا دایاں حصہ جذبات کے اظہار، تخلیقی جوہر، فضائ مقامیت، اور ان سب کی مدد سے ایک پوری تصویر کو تشکیل دینے سے وابستہ ہے۔ یہ بات دلچسپی کا باعث ہوگی کہ جسم کے دائیں حصے کو دماغ کا بایاں حصہ اور جسم کے بائیں حصے کو دماغ کا دایاں حصہ کنٹرول کرتا ہے۔
ہم اپنے جس عضو کا استعمال کم کر دیتے ہیں اس سے منسلکہ دماغی حصے کی سرگرمی کو بھی کم کر دیتے ہیں۔ جسم کے تمام اعضاء کو استعمال میں لانا چاہئیے۔ اپنے دونوں ہاتھوں کو انکی مکمل قوت سے استعمال کریں۔ کبھی غور کریں کہ جب ہر ماہر صحت ہمیں ورزش کی نصیحت کرتا ہے تو اسکا کیا اثر ہمارے اوپر ہوتا ہے؟ اور یہ ورزش چاہے ایروبک ہو یا یوگا یہ کیا کرتی ہے؟ یہ ہمارے تمام اعضاء کا دوران خون بڑھاتی ہے اور ہمارے دماغ کو تمام اعضاء کے بارے میں سرگرم کر دیتی ہے۔ یوں ہم ایک زیادہ صحت مند زندگی کی طرف جاتے ہیں۔
تحقیقدانوں کا یہ کہنا ہے کہ الٹا ہاتھ زیادہ استعمال کرنے والوں کا شرح تناسب دیکھا جائے تو ان میں با صلاحیت افراد کی خاصی تعداد نظر آتی ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ الٹا ہاتھ استعمال کرنے والے زیادہ دماغی صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں اور زیادہ آئ کیو رکھتے ہیں۔
  اسکے باوجود الٹے ہاتھ کی ترجیح رکھنے والے بے پناہ مسائل کا بھی شکار ہو تے ہیں۔ اس میں سر فہرست انہِں شروع سے سیدھا ہاتھ استعمال کرنے پہ مجبور کرنا۔ یہ صرف ہمارے معاشرے مِں نہیں کیا جاتا بلکہ مغربی معاشرے میں بھی  بیسویں صدی کے آغاز تک بچوں کو الٹے ہاتھ سے لکھنے پہ پٹائ لگانا معمول کی بات تھی۔   تقریباً سات الٹا ہاتھ استعمال کرنے والے  امریکی صدور میں سے ریگن کے بارے میں کہا جاتا ہے الٹے ہاتھ کا رجحان رکھنے کے باوجود انکی تربیت سیدھے ہاتھ کی ، کی گئ تھی۔ اس لئے وہ اپنے دونوں ہاتھ بخوبی استعمال کر لیتے تھے۔
اس لئے تربیت کے پہلے مرحلے پہ اس زبردستی کا شکار ہونے والے کچھ لوگ اس ساری مشق سے نالاں ہو کر اس سے فرار اختیار کر لیتے ہیں یوں یہ بات اور مشہور ہوتی ہے کہ الٹے ہاتھ کو استعمال کرنے والے غبی ہوتے ہیں۔
اسکے علاوہ آجکی دنیا میں کمپیوٹر ہوں، گاڑی ہو یا قینچی انکی ساخت ایسی ہوتی ہے کہ یہ اکثریت یعنی دائیں ہاتھ کو استعمال کرنے والے کو آسانی دیتے ہیں۔ 
دنیا کے بہت سارے مشہور لوگ  بائیں ہاتھ استعمال کرنے والے ہیں۔
الٹا ہاتھ استعمال کرنے والے باراک اوبامہ اس قوم کے صدر ہیں جو سوال کرتی ہے کہ آخر باقی دنیا کے لوگ ہمیں کیوں ناپسند کرتے ہیں؟  


اسامہ بن لادن کے مداحین بھی یہی سوال کرتے ہیں۔ آخر ان دونوں میں الٹا ہاتھ استعمال کرنے کے علاوہ اور کیا قدر مشترک ہے؟



60 comments:

  1. دلچسپ آرٹیکل ہے۔ میرا بھی یہ مشاہدہ ہے کہ اُلٹے ہاتھ سے لکھنے والے بڑے ذہین اور باصلاحیت ہوتےہیں۔ پتا نہیں اس کی کوئی ثاپت شدہ سائنسی توجہیہ ہے کہ نہیں۔

    ReplyDelete
  2. Very informative and intersting article article.Thankx for posting such useful info.

    ReplyDelete
  3. یه تو الٹا سیدھا نہیں ہے جی
    یه تو سیدھا هی سیدھا ہے
    هم جیسے لوکاں کو ایسے هی مضامین کی ضرورت هے جس سے علم حاصل هو
    ناه که ویسے مضامین کی جس سے گدھے بھوتر جائیں

    ReplyDelete
  4. فارغ نہ بیٹھے گا حشر میں بھی جنوں میرا
    آپ کی تحقیقی حس آرام سے نہیں بیٹھی اور اس کیوں کا جواب ڈھونڈ ہی لائی ۔ اچھا مضمون ہے ۔ ویسے بعض اوقات اس الٹے سیدھے کے چکر یں قومیں بھی گرفتار ہو جاتی ہیں جیسے امریکی ہر کام باقی دنیا سے الٹا کرتے ہیں بجلے کے سوئچ سے لے کر کھیل کے میدان تک ہر کام دوسروں کی ضد میں الٹا کرتے ہیں ۔

    ReplyDelete
  5. دين کو زيرِ بحث لانے يا اس کا حوالہ دينے سے پہلے دين کا مطالعہ کر لينا عقلمندی کی نشانی ہے حماقت يا دقيانوسيت نہيں ہے ۔ سائنس بدلنے والی چيز ہے مگر اللہ کا قانون صرف اللہ ہی بدل سکتا ہے ۔ داہنے ہاتھ کی تاويل دين کے حوالے سے جو آپ نے دی ہے وہ نہيں ہے ۔ اور آپ کا استدلال کہ پھر ايک ہی ہاتھ کيوں نہ ديا بھی جہالت کی علامت ہے سائنس کے حوالے سے بھی ۔ آپ کے جسم ميں کئی اور اعضاء بھی دو دو ہيں اس بارے ميں آپ کی کيا تحقيق ہے ذرا اس پر بھی لکھيئے

    ReplyDelete
  6. افتخار صاحب آپ دین کے ٹھیکیدار ہیں ؟
    آپ کا شمار احبار میں ہوتا ہے یا رہبان میں؟؟؟
    مہربانی کرکے یہ
    http://abuwarda786.blogspot.com/2008/08/blog-post_25.html
    مطالعہ فرمالیجیے اور دیکھیے کہ احبار اور رہبان کسی قوم کس طرح تباہی سے دوچار کرتے ہیں

    ReplyDelete
  7. چا چا بھوپال،
    پھر فتویٰ بازی شروع کر دی؟ بات کچھ ہو رہی ہے، آپ کچھ فرما رہے ہیں
    جناب پتٹاخہ ساز ویپون اکسپرٹ انجینیر مفتی صاحب ، پہلے سائنسی قوانین اور الله کے قوانین کے فرق پر روشنی ڈالیں. کیا آپ کا خیال ہے کے سائنسی قانون الله کا بنایا ہوا نہیں ہے؟ مزید، کون سا سائنسی قانون/اصول ہے جو تبدیل ہوتا ہے؟ ارشمیدس کاSpecific gravity کا اصول نہیں بدلا، البت ارسطو کا دنیا چپٹی ہونے کا نظریہ ضرور غلط ثابت ہو گیا.
    اپنی عمر کا خیال کریں اور بونگیاں مرنے سے پرہیز کریں.
    وسلام ،
    گفتاری

    ReplyDelete
  8. میری کافی پٹائی ھوئی اس کے بعد سیدھے ہاتھ کو استعمال کر نا سیکھا۔
    ویسے ذہین بالکل نہیں ھوں۔مشہور اور ذہین ھونے کیلئے آج سے الٹے ہاتھ کا استعمال شروع۔

    ReplyDelete
  9. سترھویں صدی عیسوی کے آغاز میں فلورنس کے ایک شخص گلیلیو نے دوربین بنائی اور اپنے مشاہدات کی بنیاد پر زمین کے گول ہونے کا اعلان کیا تو کلیسا نے اُسے گرفتار کرنے کا حکم جاری کردیا، وہ اپنے متوقع انجام سے خوفزدہ ہوگیا اور اُس نے اپنے اِس ”کفر“ سے توبہ کرکے گوشہ نشینی اختیار کرلی۔ لیکن گوشہ عافیت میں بھی اس کا دل مضطرب اور طبیعت پریشان رہتی تھی، آخر کار اس پریشانی اور اضطراب کا علاج اُس نے سولہ سال کی خاموشی کے بعد اپنی کتاب کی اشاعت میں پایا، اِس کتاب میں اُس نے زمین کے گول ہونے پر دلائل دیے تھے۔ گلیلیو کی اِس ”گستاخی“ پر کلیسا کے کارندوں نے اسے گرفتار کرلیا، لیکن اس مرتبہ کسی قسم کی سزائیں اُسے تائب ہونے پر مجبور نہ کرسکیں اور وہ قید خانے میں سسک سسک کر مرگیا۔
    اسی طرح اٹلی کا ایک مفکر برونو اس جرم میں گرفتار ہوا کہ وہ متعدد عالمین کا قائل ہے، جب کہ کلیسا کے اجارہ دار زمین کو ہی تمام کائنات کا مرکز تصور کرتے تھے۔ انکوئیزیشن نے اس کے متعلق یہ حکم صادر کیا کہ اُس کو بھڑکتی ہوئی آگ میں زندہ جھونک دیا جائے اور بالآخر اُسے 16 فروری 1600ءمیں نذر آتش کردیا گیا۔
    کلیسا کے اجارہ داروں نے لوگوں کو یہ باور کرایا تھا کہ ان کا نہ تو کوئی فیصلہ غلط ہوسکتا ہے، نہ اُن کے کسی حکم پر تنقید کی جاسکتی ہے اور وہ لوگوں کے گناہوں کو معاف کروانے کا اختیار بھی رکھتے ہیں آگے چل کر اس عقیدے کو معافی نامے INDULGENCES کی صورت دے دی گئی۔ پوپ لیو دہم LEO X کے دور میں معافی نامے فروخت کرنے کی ایجنسیاں قائم ہوئیں۔ مختلف گناہوں کی قیمتیں مختلف تھیں، ہر ایک ایجنٹ کے پاس ان کی فہرست موجود ہوتی تھی۔ یہ معافی نامے صرف اپنے گناہوں کی میل دھونے کے لیے ہی نہ تھے بلکہ لوگ اپنے مرحوم عزیزوں کے لیے بھی بطور کفارہ خریدے جاسکتے تھے۔ اس دور میں یورپ کے مختلف ممالک میں سڑکوں پر کلیسا کے ایجنٹ آوازیں لگاکر یہ معافی نامے فروخت کیا کرتے تھے۔
    یہ ہم نے اُس تاریک دور کی ایک جھلک پیش کی ہے، جہاں جبر اور خوف نے علم و شعور کا راستہ بند کردیا تھا۔
    اس جمود زدہ ماحول میں لوگوں کی حالت مُردوں سے بدتر تھی
    وہ کیا؟ کیوں؟ اور کیسے؟ کی طرز کے سوالات کو اپنے ذہنوں کے کسی خفیہ گوشے میں بھی جگہ دینے سے قاصر تھے
    یہ چاچا بھوپال اور ان کے طالبانی رشتے دار ایسا ہی دور پاکستان میں لانا چاہتے ہیں!۔۔۔۔

    ReplyDelete
  10. السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
    واقعی یہ الٹےاورسیدھےہاتھ کاآپ نےخوب چکرچلایاہے۔ویسےتومیں بھی دائیں ہاتھ سےلکھتاہوں لیکن بائیں ہاتھ والےکم ہی دیکھےہیں۔ بہت اچھامضمون تھا۔

    والسلام
    جاویداقبال

    ReplyDelete
  11. چا چا بھوپال،
    پھر فتویٰ بازی شروع کر دی؟ بات کچھ ہو رہی ہے، آپ کچھ فرما رہے ہیں

    چا چا بھوپال، نہیں چا چا کشمیری ،بھوپال تو ان صاحب نے بم بھوپال والو کو بدنام کرنے کہ لیے لگایا ھے اپنے نام کے ساتھ

    ReplyDelete
  12. جمیل احمد خان صاحب آپ چرچ اور سائنس کی کسکماکش کو مذہب اور سائینس کی کشماکش اور سائینس کے ہاتھوں چرچ کی شکست کو مذہب کی شکست کہنے پر کیوں تلے ہوئے ہیں۔ کیا آپ کو عیسائیت اور اسلام میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ اسلام اور سائنس میں کبھی بھی کوئی تضاد نہیں رہا، البتہ اگر کبھی تضادات آئے بھی تو سائنسی نظریات سے اسلامی اصول کے تضادات تھے، اور سائنسی نظریات کو مسلمہ شہ نہیں ہوتی۔ جو لوگ جدید سائنس اور اسلام دونوں کو جانتے ہیں وہ یہ چیلنج کرتے ہیں کہ اسلام اور سائنس کے تسلیم شدہ قوانین میں کوئی ایک تضاد بھی نہیں۔ میں نے ڈاکڑ زاکر نائیک اور ڈاکڑ اسرار احمد سمیت کئی علماء کو اس موضوع پر گھنٹوں سنا ہے۔

    کاش کہ آپ اسلام اور مسلمانوں کو عیسائیت اور عیسائیوں پر قیاس نہ کرتے۔۔۔۔

    ReplyDelete
  13. جمیل احمد خان صاحب دین کا ٹھیکہ ہر ایک مسلمان کو دیا گیا ہے۔ کیا آپ نے قرآن کی یہ آیت نہیں پڑھی کہ "انی جاعل فی الارض خلیفۃ"، اب یہ ہم پر اور آپ پر ہے کہ ہم اس ٹھیکہ داری کے کام کو کس قدر خلوص اور محنت سے کرتے ہیں۔

    ReplyDelete
  14. کاشف صاحب،
    مسلہ یہ ہے کے لوگ دوسروں کا اسلام ٹھیک کرنے کا ٹھیکہ لینے کی کوششکرتے ہیں، جبکےاصل ٹینڈر تزکیہ نفس کا ہے.
    ویسے بگ بینگ تھیو ری کی مدد سے سورت دخان کی سائنسی تشریح پر لیکچر میں نے بھی سنا/پڑھا ہے اور لوگوں کا امن پختہ ہوتا بھی دیکھا ہے. مزے کی بات یہ ہے کے بگ بینگ تھیو ری کے سب سے بڑے حامی، سٹیفین ہاکنگ نے اپنی راے بدل لے ہے. اب مجھے سمجھ نہیںآتا کے میں اس لیکچر کا کیا کروں؟
    میرے بھائی، اگر اسلام کی حقاننیت کو سائنس سے ثابت کرنے بعد کوئی اپنا ایمان پختہ کرے تو پھر کیا مزہ؟ بات تو جب ہے کے بغیر کسی ثبوت کے اسلام کو حق قبول کریں.

    وسلام،
    گفتاری

    ReplyDelete
  15. کاشف نصیر صاحب، آپکا یہ استدلال اپنی جگہ ایک حقیقت رکھتا ہے کہ سائینس، چرچ سے تو متصادم ہو سکتی ہے۔ مگر اسلام سے نہیں۔ قرآن میں ایک بار نہیں کئ بار انسان کو اس طرف توجہ دلائ گئ ہے کہ وہ کائنات کی بناوٹ پہ غور کرے۔ اسی طرح خدائے پاک ارشاد فرماتا ہے کہ میں ایک چھپا ہوا خزانہ تحا۔ جب چاہا کہ پہچانا جاءووں تو انسان کو تخلیق کیا۔
    انسان کو بار بار تفکر کی دعوت دینے والا مذہب نہ سائینس سے متصادم ہو سکتا ہے اور نہ خلاف۔
    لیکن یہاں پہ گفتاری صاحب کی ایک بات معقول ہے کہ سائینس کوئ حتمی علم نہیں ہے۔ اس لئے وہ لوگ چاہے وہ کتنے ہی بڑے عالم ہوں اگر اسلام کی حقانیت کو ثابت کرنے کے لئے سائینس کا سہارا لیتے ہیں تو وہ غلطی کرتے ہیں۔ ہمارے بہت سے پڑھے لکھے لوگ بھی ایسی تاویلات پہ سر دھنتے ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ دور اندیشی کا تعلق اس بات سے ہے کہ مذہب اور سائینس کو الگ رکھا جائے۔ اور ذہن کو تفکر کے لئے آزاد۔
    الٹے اور سیدھے ہاتھ پہ کوئ قرآنی نص موجود نہیں کہ اسکے متعلق کچھ کہنے پہ اسے خلاف اسلام قرار دے دیا جائے۔ اس لئے اس پہ شدید رویہ اختیار کرنے کے بجائے لچک دینی چاہئیے۔
    میں تو اپنے طور پہ ضرور غور کرنا چاہونگی اور نتائج بھی نکالونگی۔ اور انکے مطابق عمل بھی کرونگی۔ کیونکہ میں نہیں سمجھتی کہ اسلام انسان کے تفکر کو نقطہ ء انجماد پہ پہنچانے کے لئے نہیں بلکہ مہمیز کرنے کے لئے آیا تھا۔
    ریاض شاہد صاحب، میں نے اس سلسلے کی پہلی تحریر، اسی موضوع کو چھیڑنے کے لئے لکھی تھی۔ اس لئے اس میں، میں نے اپنا کوئ تبصرہ اور رائے نہیں ڈالی تھی۔
    :)

    ReplyDelete
  16. لیکن کاشف نصیر صاحب، دوسری حقیقت یہ ہے کہ ہمارے یہاں اپنے آپکو مذہبی کہنے والا طبقہ اس بات کی خواہش ضرور رکھتا ہے کہ اسلام میں بھی چرچ کی طرز پہ ادارہ قائم ہو جسے تمام مزہبی قوانین بنانے، سنوارنے، انکی تشریحات نکالنے اور اسے ہی صحیح کہنے کا حق حاصل ہو۔ اسی سوچ اور عقل کے ساتھ جب تفکر کیا جاتا ہے تو نتیجے میں سائینس اسلام کے متصادم نظر آنے لگتی ہے۔ اس لئے ایک طبقے کی ایسی کتب بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں جن میں سائینس کو لعن طعن کیا گیا ہے بالکل اسی انداز میں اور اسی زبان میں جس طرح چرچ نے کیا تھا۔
    سر سید کے خلاف اس طبقے نے اس لئے آواز بلند کی اور انکا تو نام ہی نیچری رکھ دیا گیا تھا۔ میں بہت دنوں سے ان پہ لکھنا چاہ رہی ہوں مگر یہی سوچ کر رک جاتی ہوں کہ ایسے بھاگتے دوڑتے نہیں آرام سے لکھونگی۔

    ReplyDelete
  17. او ہو پھر جنگ ، مجھے جنگی اصول بنانے پڑيں گے سيارہ کے ليے اور ايک ٹيم بھی عملدرامد کے ليے

    ReplyDelete
  18. پتا نہیں کیوں‌بعض لوگ ایک گھٹیا فقرہ لگا کر اپنا اچھا بھلا تبصرہ ذیاہ کر بیٹھتے ہیں۔

    ReplyDelete
  19. بہت اچھا لکھا ہے میں خود الٹے ہاتھ سے کام کرتا ہوں اور بچپن میں صرف مجھ کو الٹے ہاتھ سے کھانے پر ٹوکا جاتا تھا تو کھانا کھانے کی عادت اب سیدھے ہاتھ سے ہے-
    اگر اس چیز کو پڑھای کے لحاظ سے دیکھیں تو میرا ماسڑز تک ہیمشہ اچھے نمبر ز رہے- اور کھیل میں بھی کرکٹ میں میرا اچھا خاصہ نام رہا-
    مگر میرا ماننا ہے کہ کبھی بھی بچوں کو الٹے سیدھےکے اس چکر میں مت ڈالیں-

    ReplyDelete
  20. اوہو!
    میرا تو اپنا فقرہ ضائع ہو گیا ہے۔
    بہرحال میرے "ذیاہ" کو ضائع پڑھنے کی کوشش کریں۔ اگرچہ یہ مشکل کام ہے لیکن پھر بھی۔۔۔چلے گا۔

    ReplyDelete
  21. ویسے یہ علمی لوگ احسن طریقے سے اپنی بات کیوں نہیں کہتے۔بےنام صاحب اور یہ گفتاری صاحب اور خانصاحب وغیرہ۔۔۔۔۔افتخار صاحب سے میں بھی اختلاف کرتا ھوں۔لیکن یہ اتنی گرمی اور غصہ کیوں جی۔
    افتخار صاحب کو کوئی پھانسی لگا نے کا طریقہ سوچیں۔
    آپ لوگ پڑھے لکھے ہیں یا صرف لکھے لکھے؟
    یا پھر ابو جاہل یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ؟

    ReplyDelete
  22. یاسر
    ہر پڑھا لکھا با شعور نہیں ہوتا

    ReplyDelete
  23. صاحبان کرام،
    بندے نے کبھی پڑھےلکھے یا باشعور ہونے کا دعوا نہیں کیا.جہاں تک بات ہے لہجے کی گرمی کی، تو بھائی، آپ لوگوں سے بھی بات ہو رہی ہے اور کاشف صاحب سے بھی ہوئی، کیا آپ کو گرمی نظر آئی؟
    چاچا جی کی خودپرستی اور فتوے بازی سے میرے خون ابل جاتا ہے. اس لیے ان سے تھوڑے طنزیہ طریقے سے بات کرتا ہوں.ان کا مسلہ وہی ہے کے میٹھا میٹھا ہپ ہپ، کڑوا کڑوا تھو تھو! جب اپنی بازی ہو تو سب جائز، بعد میں نصیحت. محترم کو ساری برائیاں دوسروں میں نظر آتی ہیں اور چاچا نکتہ چینی شروع کر دیتے ہیں. اگر نکتہ چینی کا موقع نہیں ملے تو بات ایک الگ زاویے پر موڑنے کی کوشش کرتے ہیں.اوپر سے حضرت متعصب اور تنگ نظر بھی بلا کے ہیں.
    امید ہے کے میں اپنا نقطہ نظربیان کرنے میں کامیاب ہو گیا ہوں.

    وسلام،
    گفتاری.

    ReplyDelete
  24. یاسر صاحب، پٹائ کے نتیجے میں آپ نے اپنی ذہانت کو استعمال نہ کرنے میں عافیت سمجھی ہوگی۔ بچوں کی پٹائ کوئ معمولی اثرات نہیں رکھتی۔

    ReplyDelete
  25. عنیقہ صاحبہ آپ لوگاں کو پڑھ کر لگتا ھے۔پٹائی کے بعد کافی ذہین ھوگیا ھوں۔ورنہ مزید خرابی کے امکانات تھے۔اللہ کاشکر ھے کہ پٹائی نہ ھوتی تو کوئی ڈگری یافتہ ھوتا۔اور تعلیمی قسم کا بد اخلاق ھوتا۔

    عالم جو اپنے علم پہ پھولا ہوا نہیں
    ہم کو تو اس جہاں میں ابھی تک ملا نہیں

    جاہل پہ کون عالم دانا ہنسا نہیں
    رونا تو یہ ھے کوئی عجز آشنا نہیں

    ReplyDelete
  26. یاسر صاحب، آپ نے تو دل پہ لے لیا۔ حالانکہ آپ نے خود ہی لکھا کہ
    'میری کافی پٹائی ھوئی اس کے بعد سیدھے ہاتھ کو استعمال کر نا سیکھا۔
    ویسے ذہین بالکل نہیں ھوں۔مشہور اور ذہین ھونے کیلئے آج سے الٹے ہاتھ کا استعمال شروع'۔
    اگر مندرجہ بالا آپکا تبصرہ عجز پہ مبنی تھآ تو اسکے بارے میں کیا کہا جائے۔
    'عنیقہ صاحبہ آپ لوگاں کو پڑھ کر لگتا ھے۔پٹائی کے بعد کافی ذہین ھوگیا ھوں۔ورنہ مزید خرابی کے امکانات تھے۔اللہ کاشکر ھے کہ پٹائی نہ ھوتی تو کوئی ڈگری یافتہ ھوتا۔اور تعلیمی قسم کا بد اخلاق ھوتا۔'
    کسی ایک بات پہ تو قائم رہیں۔
    :)

    ReplyDelete
  27. Without my own comments please read this Article:



    Nadeem F. Paracha
    Many Arab as well as some western academics (who were paid large sums of money and perks) were continuously invited to the rich, conservative kingdoms and asked to scribble books claiming that the Muslim holy book was punctuated with scientific truths hundreds of years before the West discovered them in their labs. — Illustration by Abro
    I am itching to get my hands on a recently published book, God Created the Universe by Fatehulla Khan. After reading the review of the book, I can safely assume it is yet another document in the long line of glorified assertions that much of what we call scientific truths today was mentioned in the scriptures a long time ago.

    Ever since the late French physician, Maurice Bucaille — on a hefty payroll of the Saudi royal family in Riyadh — wrote Islam, Bible & Science (1976), many believe that ‘proving’ scientific truths from holy books has been the exclusive domain of Muslims. However, in spite of being impressed by the holy book’s ‘scientific wonders’, Bucaille remained a committed Christian.

    Very few of my wide-eyed brethren know that long before Muslims, certain Hindu and Christian theologians had already laid claim to the practice of defining their respective holy books as metaphoric prophecies of scientifically proven phenomenon. They began doing so between the 18th and 19th centuries, whereas Muslims got into the act only in the 20th century.

    Johannes Heinrich’s Scientific vindication of Christianity (1887) is one example, while Mohan Roy’s Vedic Physics: Scientific Origin of Hinduism (1999) is a good way of observing how this thought has evolved among followers of other faiths. It is interesting to note how a number of Muslim ‘scientists’ have laboured hard to come up with convoluted interpretations of certain scriptures. Ironically, their ancient counterparts, especially between the 8th and 13th centuries in Baghdad and Persia, had put all effort in trying to understand natural phenomena and the human body and mind through hardcore science and philosophy.

    Those great men of Islamic antiquity weren’t over-reading into divine texts for scientific answers; instead, to them God’s command to reflect on nature and the world around them was enough to inspire them to become dedicated rational scientists and philosophers. They were celebrated not only by Muslims, but humanity at large for their scientific prowess.

    But, alas, beginning around the early 1970s, with the collapse of a secular nationalist mindset in the Muslim world, and the rise in influence of totalitarian oil-rich puritanical monarchies, Muslim polities and mindset began to suspect science as a tool of western and communist social engineering and imperialism.

    Whereas the wealthy monarchies remained firmly in the western camp during the Cold War, they aggressively proliferated reactionary literature that attacked both western and Marxist ideas across the Muslim world. Added to this was the propagated perception that modern science was the creation of the continuing Judo-Christian tradition (nay, ‘conspiracy’) aimed at undermining Islam.

    ReplyDelete
  28. Many Arab as well as some western academics (who were paid large sums of money and perks) were continuously invited to the rich, conservative kingdoms and asked to scribble books claiming that the Muslim holy book was punctuated with scientific truths hundreds of years before the West discovered them in their labs.

    This practice — clearly emerging from a mixture of an inferiority complex and the passion for shouting down modern liberal and leftist notions — sanctified myopia and an unscientific bent of mind in the Muslim world. As many Muslim scientists such as Ziauddin Sardar and Pervez Hoodbhoy, and renowned Islamic scholars like Muhammad Akhund, have already lamented, Muslims through such literature are actually encouraged to drop out of any field or lab work required for genuine scientific research. Many are persuaded to follow the belief that all they need to know about science is already in the holy book.

    Rationalist Islamic scholars have been insisting throughout the 20th century to date that the holy book is less a book of laws or science. It is an elaborate moral guide for Muslims in which God has given the individual the freewill to decide for him or herself through exerting their mental faculties and striving to gain more empirical knowledge.

    Iranian writer, Vali Reza Nasr, is right to mourn the trend today that though most Muslims are quick to adopt western science, they simply refuse to assume a rational scientific mindset. No wonder then, for example, most Pakistanis still don’t have a clue about what the country’s only Nobel Prize winning scientist, Dr Abdus Salam, got the award for, but many are quick to quote from books written by super cranks like Harun Yahya and Maurice Bucaille, explaining how things like the Big Bang and others are endorsed in the holy book.

    In addition to such claptrap, there are already books out there claiming that electricity can be generated from jinns. A whole session was organised in Islamabad in the late 1980s during the Ziaul Haq regime in which fringe crackpots (disguised as scientists) were invited by the dictator to determine the ‘speed of heaven’, and how to overcome the energy crisis with the aid of jinns!

    So why read books of science, or enter a lab to understand the many workings of God’s nature and creatures; just read the holy book. Who knows you may find a theory on time travel and laser guns in it as well? Forget about all those great Muslim scientists of yore, or Abdus Salam, Einstein and Stephen Hawking. Just get in touch with your friendly neighbourhood jinn for all your energy needs.

    ReplyDelete
  29. عنیقہ صاحبہ پڑھا پڑھا ھوں نا جی۔لکھنے میں غلطی ھو جاتی ھے۔لکھنا چاھتا تھا۔آپ لوگاں کو پڑھنے کے بعد اندازہ ھوا کہ بعد از پٹائی کچھ ذہین ھو گیا تھا۔دیکھ لیں تھوڑی تھوڑی لفاظی بھی آگئی ھے۔

    ReplyDelete
  30. گمنام، پراچہ صاحب کا یہ آرٹیکل میں نے اس اتوار کے ڈان میگزین میں پڑھا تھا۔ آپکا شکریہ کہ اوروں کو بھی پڑھنے کا موقع فراہم کیا۔ دیکھیں اس پہ صاحبان تسلیم و رضا کی کیا رائے ہوتی ہے۔
    اس آرٹیکل میں جنوں سے توانائ پیدا کرنے والی بات ہے۔ یہ میں نے پہلے بھی کسی سے سنی تھی۔ نیٹ پہ اس خبر کو تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن خاصی پرانی بات ہے اس لئے نہ مل سکی۔ پہلی دفعہ سن کر مجھے خود یقین نہیں آیا تھا کہ حکومت کے زیر انتظام اس قسم کی کانفرنس منعقد ہوئ ہو گی اور اس میں اس پائے کی فضولیات بیان کی گئ ہونگی۔ لیکن اسے پھر پراچہ صاحب جیسے غیر متعلقہ شخص یعنی جو میرے تعلق میں نہ ہو اور انکے تعلق میں بھی نہ ہو جس سے میں نے یہ پہلی دفعہ سنا تھا اس بات میں کہیں نہ کہیں سچائ تو ہوگی۔
    پھر بحیثیت قوم ہمارے رد عمل اس ساری چیز کی تصدیق کرتے ہیں کہ ہمارے دماغوں کو بند کرنے کا عمل کتنی صفائ سے ہوا کہ اب کسی بات کو کہنے اور کرنے کی گنجائش ہی ختم ہو گئ ہے۔ سارا سارا دن پاکستانی ایکدوسرے کو یہ بتاتے رہتے ہیں کہ کیا اسلامی ہے اور کیا غیر اسلامی۔ اور پاکستان دنیا بھر کے ممالک میں کرپشن میں تیسرے نمبر پہ آتا ہے۔
    کام کی یا عوامی فلاح کی کوئ معمولی سی بات نہ کر سکنے والے لوگ مودودی صاحب کی شان میں مبینہ گستاخی کرنے والوں کے خلاف توہین مولانا کا قانون بنوانے کے لئے بے تاب نظر آتے ہیں۔
    مجھے یقین ہے کہ اگر میں ایک پوسٹ میں صرف اردو کے حروف تہجی بھی لکھ کر ڈالدوں تو اعتراض آئے گا کہ یہ کتنا غیر اسلامی ہے کہ الف کے بعد ب ہے حالانکہ الف کے بعد میم ہونا چاہئیے تھا کہ بعد از خدا بزرگ توئ قصہ مختصر۔
    ویسے یہ کہیں اس ذہانت کا نتیجہ تو نہیں جو پٹائ کے بعد ظہور میں آتی ہے۔
    :)

    ReplyDelete
  31. یہ بات میں نے پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے انجینئر بشیرالدین محمود کے حوالے سے سنی تھی کہ وہ جنات کو پگھلا کر توانائی بنانے کی تھیوری پیش کر رہے تھے۔ مدعا ان کا یہ تھا کہ چونکہ جنات ایک ایسی آگ سے بنے ہیں جو دھواں نہییں دیتی تو بس سو فیصد توانائی حاصل ہو جائے گی۔
    ترکی کے اس وکیل ہارون یحیٰ سے میں بہت تنگ ہوں۔ اس کی کتابیں یہاں کینیڈا کی مسجدوں میں بھی پیچھا نہیں چھوڑتییں۔ اس کی لکھی ہوئی فضولیات کو مسجدوں کے بُک سٹورز کے سائنسی سیکشن میں‌رکھا جاتا ہے۔ اس کی فضولیات اور اس کے مسلمانوں پر اثرات میں کسی تفصیل پوسٹ میں ہی بیان کروں گا۔
    پراچہ کی یہ بات ٹھیک ہے کہ مسلمان مجموعی طور پر احساس کمتری کا شکار ہیں۔ بلکہ میں تو یہاں تک کہوں گا کہ ہم مغرب اور اس کی ترقی سے حسد کرتے ہیں۔ اپنے کرتوتوں کی وجہ سے ہم نہ دنیا کے رہیے ہیں نہ آخرت کے۔
    اور اب ایک اعتراض۔۔۔
    قرآن قانون کی کتاب بھلے نہ ہو لیکن اسلامی معاشرے میں قانون سازی کرتے وقت قرآن کو ایک طرف نیں رکھا جاسکتا۔ وہ باتین‌ جن پر قرآن نے تنبہی کی ہے ان کے متعلق قانون سازی نہیں‌کی جاسکتی۔ قرآن کی سورہ نور میں دیے گئے قانون کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ غرض یہ کہ قرآن مغربی طرز کی مکمل آزاد جمہوری معاشرے کی اجازت نہیں دیتا بلکہ اسلامی معاشرے کو کچھ احکامات کا پابند بناتا ہے۔

    ReplyDelete
  32. یقینی طور پر مسلمان ذہنی پسماندگی اور احساس کمتری کا شکار ہوگئے ہیں اور پراچہ صاحب اس ذہنی پسماندگی اور احساس کمتری میں سرفہرست ہیں۔ انکا کوئی ایسا مضمون نہیں ہوتا جس میں مذہبی لوگوں کو کم عقل، جاہل اور شعور و اگہی سے نابلد قرار دینے کی کوشش نہ کی جاتی ہو، حالانکہ مکمل پر ولائیتی رنگ میں رنگنے کے باوجود انکے کئی بہترین دوست انکی زندگی کے بارے میں جو نقشہ کھینچتے ہیں وہ سخت حولناک ہے۔
    عژ،ان بھائی، ہارون یحیی ایک متنازعہ شخص ہیں، انکی لکھی ہوئی کتابیں میں نا صرف سائینسی اعتبار سے کئی غلطیاں ہیں بلکہ انکے مطالعہ کے دوران بعایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ جگہ جگہ اپنا نقط نظر بیان کرنے کے لئے قرآن و سنت کے مسلمہ اصولوں کو بھی توڑ رہے ہیں۔

    مجھے سعودیہ عرب میں ایسی کسی کانفرنس کا کوئی ثبوت نہیں ملا اور پراچہ صاحب کوئی سقہ راوی نہیں ہیں، وہ اپنے مضامین میں خیالی پلاو زیادہ بناتے ہیں۔ اگر ایسی کوئی کانفرنس ہوئی بھی ہے تو یورپ میں اس سے کہیں زیادہ بچکانہ موضوعات پر کانفرنس آئے دن کا معمول ہیں۔

    ReplyDelete
  33. کاشف۔۔
    میں ندیم پراچہ کے مطلق کچھ نہیں جانتا سوائے ان کی کچھ تحریروں کے جو میں نے آن لائن پڑھی ہیں۔ اگر آپ ان کے متعلق کچھ بیان کرنا چاہیں تو میں‌پڑھنے میں‌دلچسپی رکھتا ہوں۔ تاہم بات باوثوق ہو نہ کہ سنی سنائی۔
    جہاں تک یورپ کا تعلق ہے تو وہاں یقینا ہر قسم کے موضوعات پر بات ہوتی ہے۔ معقول اور سنجیدہ تحقیق میں‌یورپ کہاں‌ کھڑا ہے وہ بہرحال واضح ہے اور غالبا یہی موازنہ کالم نگار کا مقصد بھی تھا۔

    ReplyDelete
  34. کاشف نصیر صاحب، یہ کانفرنس سعودی عربیہ میں نہیں بلکہ پاکستان کے شہر اسلام آباد میں ہوئ تھی۔ اسکے ایک راوی تو پراچہ صاحب ہیں اور اسکے دوسرے راوی ایک ستر سالہ صاحب ہیں۔ جن سے یہ بات میں نے آج سے نو سال پہلے سنی تھی۔ اس لئے آپکا یہ کہنا واقعے کی صحیح ترجمانی نہیں کرتا۔ میں خود ایسے لوگوں کو جانتی ہوں جو ایک دو نہیں بلکہ ایک ہجوم ہے جو اس بات پہ یقین رکھتا ہے کہ ریسرچ اور تعلیم پہ پیسہ ضائع کرنے کے بجائے اگر محض قرآن شریف کو صحیح سے پڑھ لیا جائے تو سائینس کے سارے راز ابھی کھلنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ ان سے میں یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ پھر رسول اللہ نے قرآن کے اس طرح کے استعمال پہ توجہ کیوں نہ دی۔ جبکہ معاشی و معاشرتی مسائل، بیماریاں، اور دیگر نا مساعد حالات تو اس وقت بھی موجود تھے۔
    جب بھی ایسی بات کی جائے تو یوروپ کی کوئ بدترین مثال کیوں سامنے لائ جاتی ہے۔ اگر وہ اتنے ہی بدتر ہیں تو آج آپ انکی کوششوں سے حاصل ہونے والی انسانی ترقی سے منہ پھیر کے دکھادیں۔

    ReplyDelete
  35. سورج کا طلوع ہو کر روشنی اور حرارت پہنچانا، چاند کی کرنوں سے پھلوں میں مٹھاس کا پیدا ہونا، برسات، زمین کی زرخیزی، سمندر کی تہہ میں پوشیدہ خزانے، سنگلاخ چٹانوں میں چھپی معدنیات، صحرائوں میں سطح زمین کے نیچے سیال سونا یعنی پیٹرولیم کے اُبلتے چشمے غرض دنیا کے سارے وسائل نوعِ انسانی کی بھلائی کے لئے موجود ہیں۔ لیکن یہ وسائل اُن کے ہی کام آتے ہیں جو اِن وسائل کے فوائد حاصل کرنے کے لئے عقل و شعور استعمال کرتے ہوئے جدوجہد کرتے ہیں
    آج سمندر مسلمانوں کے پاس بھی ہے اور ترقی یافتہ اقوام کے پاس بھی ترقی یافتہ اقوام نے اس کی تہہ کھنگال ڈالی اور سمندر میں موجود غذائی اشیائ، سیپیاں، موتی اور نجانے کن کن قیمتی چیزوں کے ساتھ پیٹرول تک نکال رہے ہیں جب کہ مسلمانوں نے صرف مچھلی پر ہی اکتفا کررکھا ہے، جس کی پیداوار بھی ترقی یافتہ ممالک سے کہیں کم ہے زمین کی زرخیزی اﷲ نے غیر مسلموں کو عطا کی تو مسلمانوں کو بھی اس سے محروم نہیں رکھا، بلکہ اگر حساب کتاب لگایا جائے تو ممکن ہے یہ بات بھی سامنے آجائے کہ مسلمانوں کو عطا ہونے والی زمین دیگر اقوام سے زیادہ زرخیز ہے۔ چلیں اگر ایسا نہ بھی ہو تو یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ عطا ہونے والی زرخیز زمین سے مسلمانوں نے کس قدر فائدہ اُٹھایا ہے مسلم ممالک میں صرف 5 کروڑ ہیکڑ رقبے پر کاشت ہورہی ہے اور تقریباً 20 کروڑ ہیکڑ رقبے کی زمین بے آباد اور ویران ہے۔
    بڑے بڑے ترقی یافتہ ملکوں کو چھوڑیں، رقبے کے اعتبار سے ایک بہت چھوٹے ملک اسرائیل کی مثال لے لیجئے اس ملک میں پانی کی شدید کمی ہے پانی کی کمی کا حل اسرائیل کے سائنسدانوں نے یہ نکالا کہ اپنے کھیتوں کے درمیان ایک سرے سے دوسرے سرے تک بلند و بالا پولز POLESنصب کئے اور اُس میں باریک جال باندھ دیئے۔ کہر آلود ہوا جب اِس جال سے گزرتی تو ننھے ننھے شبنمی قطرے جال کے باریک تاروں سے ٹکرا کر نیچے گرنے لگتے۔ قطرہ در قطرہ پانی پختہ نالیوں میں جمع ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ جب اس کی مقدار بڑھتی ہے تو بہہ کر کھیتیوں کو سیراب کر دیتا ہے۔اسرائیل اس سسٹم کے ذریعے اتنی وافر مقدار میں سبزیاں پیدا کررہا ہے جو اُس کی ضروریات سے کہیں زیادہ ہیں، لہٰذا یہ سبزیاں پڑوس کے بعض مسلمان عرب ممالک کو برآمد کردی جاتی ہیں۔
    یہ تو خیر ایک مثال تھی۔ اگر یہاں ہم اس قسم کی مثالیں بیان کرنا شروع کردیں تو صفحات کے صفحات بھر جائیں گے اور مثالیں ختم نہیں ہوں گی لیکن ہم یہاں مسلمانوں کی پسماندگی، بے چارگی، قدرتی وسائل کی ناقدری اور جہالت کا محض نوحہ نہیں پڑھنا چاہتے بلکہ ہماری کوشش ہوگی کہ اُمتِ مسلمہ کے زوال کے اسباب پر گفتگو کی جائے اور حقائق تلاش کئے جائیں۔
    مسلم اقوام کے زوال کا ایک اہم سبب روشن خیالی کا خاتمہ، علوم و فنون کی اشاعت و ترویج میں اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں سے چشم پوشی بھی ہے۔ کسی بھی تہذیب کی اصل روح اُس کی فکری سرگرمیاں ہوتی ہیں اور جب کسی جگہ فکری سرگرمیاں ختم ہوجائیں یا ماند پڑجائیں تو تمدن کا خاتمہ ہوجاتا ہے اور محض ایک ہجوم باقی رہ جاتا ہے۔

    ReplyDelete
  36. سورج کا طلوع ہو کر روشنی اور حرارت پہنچانا، چاند کی کرنوں سے پھلوں میں مٹھاس کا پیدا ہونا، برسات، زمین کی زرخیزی، سمندر کی تہہ میں پوشیدہ خزانے، سنگلاخ چٹانوں میں چھپی معدنیات، صحرائوں میں سطح زمین کے نیچے سیال سونا یعنی پیٹرولیم کے اُبلتے چشمے غرض دنیا کے سارے وسائل نوعِ انسانی کی بھلائی کے لئے موجود ہیں۔ لیکن یہ وسائل اُن کے ہی کام آتے ہیں جو اِن وسائل کے فوائد حاصل کرنے کے لئے عقل و شعور استعمال کرتے ہوئے جدوجہد کرتے ہیں
    آج سمندر مسلمانوں کے پاس بھی ہے اور ترقی یافتہ اقوام کے پاس بھی ترقی یافتہ اقوام نے اس کی تہہ کھنگال ڈالی اور سمندر میں موجود غذائی اشیائ، سیپیاں، موتی اور نجانے کن کن قیمتی چیزوں کے ساتھ پیٹرول تک نکال رہے ہیں جب کہ مسلمانوں نے صرف مچھلی پر ہی اکتفا کررکھا ہے، جس کی پیداوار بھی ترقی یافتہ ممالک سے کہیں کم ہے زمین کی زرخیزی اﷲ نے غیر مسلموں کو عطا کی تو مسلمانوں کو بھی اس سے محروم نہیں رکھا، بلکہ اگر حساب کتاب لگایا جائے تو ممکن ہے یہ بات بھی سامنے آجائے کہ مسلمانوں کو عطا ہونے والی زمین دیگر اقوام سے زیادہ زرخیز ہے۔ چلیں اگر ایسا نہ بھی ہو تو یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ عطا ہونے والی زرخیز زمین سے مسلمانوں نے کس قدر فائدہ اُٹھایا ہے مسلم ممالک میں صرف 5 کروڑ ہیکڑ رقبے پر کاشت ہورہی ہے اور تقریباً 20 کروڑ ہیکڑ رقبے کی زمین بے آباد اور ویران ہے۔
    بڑے بڑے ترقی یافتہ ملکوں کو چھوڑیں، رقبے کے اعتبار سے ایک بہت چھوٹے ملک اسرائیل کی مثال لے لیجئے اس ملک میں پانی کی شدید کمی ہے پانی کی کمی کا حل اسرائیل کے سائنسدانوں نے یہ نکالا کہ اپنے کھیتوں کے درمیان ایک سرے سے دوسرے سرے تک بلند و بالا پولز POLESنصب کئے اور اُس میں باریک جال باندھ دیئے۔ کہر آلود ہوا جب اِس جال سے گزرتی تو ننھے ننھے شبنمی قطرے جال کے باریک تاروں سے ٹکرا کر نیچے گرنے لگتے۔ قطرہ در قطرہ پانی پختہ نالیوں میں جمع ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ جب اس کی مقدار بڑھتی ہے تو بہہ کر کھیتیوں کو سیراب کر دیتا ہے۔اسرائیل اس سسٹم کے ذریعے اتنی وافر مقدار میں سبزیاں پیدا کررہا ہے جو اُس کی ضروریات سے کہیں زیادہ ہیں، لہٰذا یہ سبزیاں پڑوس کے بعض مسلمان عرب ممالک کو برآمد کردی جاتی ہیں۔

    ReplyDelete
  37. یہ تو خیر ایک مثال تھی۔ اگر یہاں ہم اس قسم کی مثالیں بیان کرنا شروع کردیں تو صفحات کے صفحات بھر جائیں گے اور مثالیں ختم نہیں ہوں گی لیکن ہم یہاں مسلمانوں کی پسماندگی، بے چارگی، قدرتی وسائل کی ناقدری اور جہالت کا محض نوحہ نہیں پڑھنا چاہتے بلکہ ہماری کوشش ہوگی کہ اُمتِ مسلمہ کے زوال کے اسباب پر گفتگو کی جائے اور حقائق تلاش کئے جائیں۔
    مسلم اقوام کے زوال کا ایک اہم سبب روشن خیالی کا خاتمہ، علوم و فنون کی اشاعت و ترویج میں اپنی کوتاہیوں اور غلطیوں سے چشم پوشی بھی ہے۔ کسی بھی تہذیب کی اصل روح اُس کی فکری سرگرمیاں ہوتی ہیں اور جب کسی جگہ فکری سرگرمیاں ختم ہوجائیں یا ماند پڑجائیں تو تمدن کا خاتمہ ہوجاتا ہے اور محض ایک ہجوم باقی رہ جاتا ہے۔
    مغربی قوموں کی جانب سے مسلمانوں پر کیا جانے والا یہ اعتراض کچھ غلط بھی محسوس نہیں ہوتا کہ مسلمانوں میں تنقید برداشت کرنے کا مادّہ بالکل نہیں ہے بلکہ بحیثیت مجموعی ہماری طبیعت میں وہ خود مختاری بھی نہیں ہے کہ زندگی کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں اور اپنے تجربے اور فکر سے سمجھیں۔ ہمارے معاشروں میں تحقیق کرنے والے ذہن کےسے پیدا ہوں گے جب جائز و ناجائز کا خوف لوگوں کے خون میں رچ بس کر اُن کے جسموں میںدوڑتا ہو یہی وجہ ہے کہ بیشتر حساس موضوعات سوال بن کر ہمارے سامنے آتے ہیںتو ہم کنی کترا کر کسی نہ کسی طرح نکل جاتے ہیں۔ بجائے اپنے راستے سے پتھر ہٹانے کے، پتھر کو دیکھ کر اپنا راستہ ہی بدل لیتے ہیں۔
    ہمیں تو یہ زعم ہی سر اُٹھانے نہیں دیتا کہ کبھی ہم پوری دنیا پر چھائے ہوئے تھے لیکن کیا ہم وہی مسلمان ہیں جنہوں نے اپنے ذہنی افق سے دنیائے علم و ہنر کو زیر نگیں کرلیا تھا؟ اور آج ہم کیوں اپنی سوچ اور فکر کو ترقی دینے سے گریزاں ہیں؟؟

    ReplyDelete
  38. ایک دانشمند کا مقولہ ہے کہ ”مہذب ہونے کا سب سے بڑا پیمانہ ہی یہ ہے کہ کوئی معاشرہ کس حد تک اختلاف برداشت اور جذب کرتا ہے، دقیانوسی معاشروں کی واضح پہچان ہی یہ ہوتی ہے کہ وہ اختلاف برداشت نہیں کرسکتے“ آج ہمارے معاشرے میں کم و بیش ایسی ہی حساس صورتحال برقرار ہے اور یہ صورتحال ہمارے لئے نئی بھی نہیں۔ ہم ایسی صورتحال کو بغداد، غرناطہ، دہلی، قسطنطنیہ، ڈھاکہ، کابل اور آج کل پھر دوبارہ بغداد میں پیدا ہوتے دیکھ چکے ہیں لیکن ہمارے اکثر علمائ، دانشور، مفکر، اربابِ اختیار اس کا کوئی حتمی اور قابل عمل حل دریافت نہیں کرسکے آج بھی ہمارے معاشرے میں سقوطِ بغداد سے لے کر تمام اسقاط سے قبل جاری رہنے والے فکری انتشار کی طرز کا انتشار برپاہے وہی معمولی معمولی باتوں پر ہنگامہ آرائیاں فتنہ پردازیاں عدم برداشت کا رویہ کفر و زندیق کے فتووں کی روز افزوں فراوانی یک رنگی پگڑی والا دورنگی پگڑی والے کی مسجد میں نماز ادا نہیں کرسکتا رفع یدین کرنے اور آمین بالجہر کہنے پر مسجد میں ہاتھا پائیاں درود و سلام پڑھا جائے یا نہ پڑھا جائے اس بات پر سرپھٹوّل اب تو مساجد کے صدر دروازوں پر جلی حروف میں اُن کے ”مسالک ہائے مروّجہ“ کا درج ہونا بھی عام ہوگیا ہے اور کسی کو معیوب بھی محسوس نہیں ہوتا اس جلی سرخی لگانے کی ضرورت بھی اس بناءپر پیش آئی ہوگی کہ مخالف مسلک کا کوئی فرد بھولے بھٹکے سے بھی اس مسجد میں داخل نہ ہوسکے دیگر عوامل میں درازیء ریش کی مقدار؟ شلوار ٹخنوں سے کتنی اوپر رکھی جائے؟ روزے کی حالت میں ٹوتھ پیسٹ استعمال کیا جائے یا نہیں؟ پینٹ شرٹ پہن کر نماز ہوگی یا نہیں؟ جیسے بہت سے غیر اہم اور فروعی معاملات نزاعی صورت اختیار کرچکے ہیں ایسے نزاع اکثر جان لیوا واقعات کی صورت میں بھی ظہورپذیر ہوتے ہیں

    ReplyDelete
  39. دیگر مسلم معاشرے گو کہ اس قسم کی نزاعی صورتحال سے دو چار نہیں ہیں اور بظاہر وہاں انتشار کی ایسی کوئی کیفےت بھی محسوس نہیں ہوتی ہے لیکن یہ متمول مسلمان ممالک اﷲ پاک کی عطا کردہ دولت کو صرف اپنی وقتی عیاشیوں پر ہی صرف کررہے ہیںبلند و بالا عمارتیں یخ بستہ شاپنگ سینٹرز جہاں دن رات لاکھوں روپے کی خریداری کی جاتی ہے طویل اور وسیع و عریض سڑکیں اس کے علاوہ ترقی کے نام پر اُن کے پاس کیا ہے؟ اُن کے ہاں پیٹرول صاف کرنے والی ریفائنریوں جیسی ہیوی انڈسٹریز سے لے کر کھجور پیک کرنے والے کارخانے تک ترقی یافتہ ممالک کی ملکیت ہیں۔ موجودہ دور کی سب سے بڑی دولت سیال سونا کے بڑے ذخائر مسلمان ملکوں کے پاس ہیں لیکن تعمیری سوچ نہ ہونے کے سبب عالمی سرمائے میں مسلمانوں کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے دنیا کی سرفہرست تجارتی کمپنیوں اور کاروباری رہنمائوں میں کوئی مسلمان یا مسلم ملک کی کمپنی جگہ نہیں بناسکی ہے۔ برطانوی اخبار فنانشل ٹائم کی ایک رپورٹ میں سال 2002ءکے دوران دنیا کی 59 بہترین کمپنیوں اور دنیا کے 50 کاروباری رہنمائوں کی فہرست پیش کی ہے۔ اس فہرست میں کوئی مسلمان یا مسلم ملک کی کمپنی جگہ نہیں پاسکی۔ جب کہ ایشیا میں جاپان کی تین اور کوریا کی ایک کمپنی کے علاوہ تمام کمپنیاں امریکہ اور یورپی ممالک سے تعلق رکھتی ہیں۔ اسی طرح کاروباری رہنمائوں کی رینکنگ میں بھارت کی تین کاروباری شخصیات سمیت ایشیا کے 8 کاروباری رہنمائوں کو 50 کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے

    ReplyDelete
  40. ہم نے عرض کیا تھا کہ علم و ہنر سے دوری ہمارے زوال کا اہم سبب ہے۔ آج ہم علم و ہنر سے محرومی کی وجہ سے زوال سے دوچار ہیں اور کل جب قدرت نے ترقی کا تاج ہمارے سروں پر رکھا تھا تو بھی ہم علم و ہنر کے فروغ سے روگردانی کے مرتکب ہوئے تھے اور ایسی کوئی بنیاد نہیں رکھ سکے تھے جس کے بل پر ہم اپنے لئے دوبارہ ترقی کی عمارت تعمیر کرسکتے یہی وجہ ہے کہ آخری مرتبہ جب ہم گری ہیں تو اب تک نہیں سنبھل سکے برصغیر کی تاریخ کا مطالعہ کرلیجئے تاریخ کے اوراق اُلٹتے پلٹتے اکبر اعظم کے دورتک آجایئے یہ سولہویں صدی عیسوی ہے ہندوستان کی مُسلم تاریخ میں یہ دور ”عہد زرّیں“ کے نام سے موسوم ہے۔ اس عہد میں امراءکی خوشحالی کے چرچے تاریخ کے صفحات پر بکھرے ملیں گے کیا غرباءکا کوئی وجود نہیں تھا کہ اُن کی فلاح و بہبود کے کام کئے جاتے؟ اس دور میں عالیشان مقبرے اور محلات تعمیر ہوئے کہیں کوئی ہسپتال کے قیام کا ذکر کیوں نہیں ملتا؟ آپ بھی کھنگال لیجئے شاید آپ کو مل جائے ہمیں تو نہیں مل سکا ہاں ایک علمی محفل کا تذکرہ ملتا ہے جس کے انعقاد کے لئے فتح پور سیکری میں آڈیٹوریم قسم کی بلند و بالا عمارت تعمیر کی گئی تھی۔ لیکن یہ ”علمی محفل“ کس درجے کی ہوتی تھی اُس کا اندازہ اُس محفل میں شریک خوشامدی قصیدہ خوانوں اور مغنیوں کی فہرست دیکھ کر ہی ہوجانا چاہئے۔ اب ایسا بھی نہیں تھا کہ سلطنتِ مغلیہ کے مغرب سے کوئی روابط ہی نہ تھے کہ مغرب میں ہونے والی تبدیلیوں، ایجادات اور اکتشافات سے یہ لوگ سراسر لاعلم ہی رہی ہوں اور اس بناءپر اپنے ہاں ایجادات اور دریافتوں کا کوئی سلسلہ قائم نہ کرسکے ہوں ایسا نہیں تھا یورپ کے تجارتی قافلے بحری راستوں سے ہندوستان آچکے تھے اور یہ سرطامس روکی سفارت سے بہت پہلے کی بات ہے جو جہانگیر کے زمانے میں آئی تھی مغربی گھنٹے، گھڑیاں، نیم سائنسی قسم کی نت نئی مغربی مصنوعات کی نمائشیں ہندوستان کے بڑے شہروں میں اکثر ہوتی رہتی تھیں لیکن اس کے باوجود یہ ”عہدزرّیں“ ہمارے سامنے کوئی ایسا سائنس دان بھی نہیں پیش کرتا جس کا تذکرہ ہم دوسرے یا تیسرے درجے کے سائنس دانوں کی فہرست میں ہی کرسکیں

    ReplyDelete
  41. جب کہ اُدھر یورپ میں نشاة ثانیہ ہورہی تھی مغرب کی ایک بحری جہاز راں کولمبس نے اپنی اولوالعزمی اور ہسپانوی حکومت کی دور اندیشی کی بناءپر جس نے اُس کے سفر کے لئے فنانسنگ کی تھی امریکہ دریافت کرلیا تھا امریکہ کی دریافت سے مغربی اقوام کے لئے ترقی کے نئے امکانات کھلتے چلے گئے اگر یہ خطہ مسلمانوں نے دریافت کیا ہوتا اور وہاں نقلِ مکانی کرکے اپنی اجارہ داری قائم کرلی ہوتی تو شاید آج صورتحال مختلف ہوتی لیکن ہندوستان میں جسے مغربی حکمران ”سونے کی چڑیا“ کہا کرتے تھے، شعراءکی محافل سجانے اور بغاوتوں کو کچلنے سے زیادہ اہم کام کوئی نہ ہوسکتا تھا اور اسی دور میں پہلے نکولس اور اُس کے بعد گلیلیو اپنی دریافتوں سے یورپ کے عمومی مزاج میں تبدیلی کی ایک بہت بڑی بنیاد رکھ چکے تھے سلطنتِ مغلیہ کے عہدِ شاہجہانی میں یورپ کے اندر نیوٹن پیدا ہوا جس نے صرف 22 برس کی عمر میں قوانین طبیعیات پر غور و فکر کرتے ہوئے ایک تجربہ کرکے روشنی کو ترکیب دینے والے رنگ معلوم کئے،کششِ ثقل اور سیاروں کے بیضوی دائروں پر شماریاتی مشقیں مکمل کیں ”ہندوستان جنت نشان“ کی شان و شوکت کے مقابلے میں کہیں پیچھے کھڑا یورپ نت نئی ایجادات میں مصروف تھا اور مسلمان ہندوستان جنت نشان کے ہوں یا عرب و ایران کے یا تو عیاشیوں میں مصروف تھے یا پھر ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے ایجاد کرنے میں اس کے سوا اُنہیں شاید دوسرا کوئی کام نہ تھا اگلی دو صدیوں میں مغرب نے سائنسی فکریات، انکشافات اور ایجادات کے حوالے سے زبردست انقلاب برپا کردیا تھا اور مسلمان ہر سو زوال اور غلامی سے دوچار ہورہے تھے برصغیر میں مغلیہ سلطنت کے عروج کے عین متوازی سلطنت عثمانیہ کا دور بھی ”عہد زرّیں“ ہی کہلاتا ہے کچھ لوگ اسے خلافتِ عثمانیہ بھی کہتے ہیں کہ عثمانی خلیفہ کا نام اُسی طرح عالمِ اسلام کے اندر خطبوں میں لیا جاتا تھا جس طرح عباسی اور اُموی خلیفہ کا نام خطبوں میں لیا جاتا تھا لیکن ہمارے خیال میں یہ خلافت تو نہ تھی بلکہ خلافت تو حضرت علی کی شہادت کے بعد بادشاہت میں بدل گئی تھی اس لئے ہم اسے سلطنت ہی کہیں گے یہ سلطنت بھی پانچ سو برس پورے جاہ و جلال کے ساتھ قائم رہی۔ مورخین ان دونوں ”عہد زرّیں“ کے بڑے بڑے کارنامے سناتے ہیں۔ لیکن کسی ایک ایسے سائنسدان کا ذکر نہیں کرپاتے جسے ہم فخریہ آپ کے سامنے پیش کرسکیں مغلیہ سلطنت کا دور تو اس حوالے سے بالکل ہی کورا ہے عثمانیہ سلطنت کے دور میں حاجی خلیفہ چلپی کا نام ملتا ہے۔ ان سے ایک کتاب بھی منسوب ہے، جس میں آغازِ کائنات اور ارتقائِ قدیم سے لے کر اپنے وقت تک کے نظریات جمع کئے گئے تھے۔ مگر وہ ناپید ہوگئی۔ ایک عربی زبان کی انسائیکلوپیڈیا ”کشف الفنون“ بھی ان ہی کے نام سے ملتی ہے لیکن غیرجانبدار ہو کر دیکھا جائے تو یہ خصوصیات بھی انہیں ”سائنس دان“ کے زُمرے میں شامل نہیں کرسکتی

    ReplyDelete
  42. آخر یہ کیا ہے؟؟؟؟ یہ ایسے عظیم الشان ادوار تھے جب مسلمان ان دونوں سلطنتوں میں مطلق العنان حکمران تھے برصغیر میں بلوچستان سے لے کر راس کماری تک اور سلطنت عثمانیہ میں ترکی کے علاوہ جنوبی یورپ، شمالی افریقہ، مصر، عرب اور وسطی ایشیا کے بہت سے خطے یا توبراہِ راست زیرنگیں تھے یا زیر اثر اپنے وقت کی دو سپر پاور سلطنتیں! جن پر آج کے مسلمان فخر کرتے نہیں تھکتے بین الاقوامی تو چھوڑیں قومی شہرت کا حامل کوئی سائنس دان پیدا نہیں کرسکیں اِسے قدرت کی مصلحت کہہ کر نظر انداز نہ کیجئے گا! اس معاملے کو تقدیر کے سپرد نہ کردیں اس لئے کہ کسی تخلیقی مزاج کے بندے یا محقق یعنی سائنس دان کے اُبھرنے کے لئے ایک بڑا اور مستحکم ماحول درکار ہوتا ہے کم از کم ڈھائی سو سے لے کر سوا سو کی تعداد میں ماہرین پر مشتمل یہ ماحول تشکیل پاتا ہے آپ یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ کسی بنجر زمین سے بھی اﷲ کی مہربانی ہو تو کوئی سائنس دان پیدا ہوسکتا ہے لیکن اُسے اُبھرنے کے لئے پھر بھی ایک ”مستحکم ماحول“ درکار ہوگا آیئے اس بات کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں نوبل انعام یافتہ پاکستانی سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام جھنگ جیسے چھوٹے شہر میں پیدا ہوئے اور میٹرک کے امتحان میں غیر منقسم پنجاب کے اندر فرسٹ کلاس فرسٹ پوزیشن بھی حاصل کرلی، لیکن کیا اُنہیں سائنس دان بنانے کے لئے جھنگ میں وہ مستحکم ماحول میسر آسکتا تھا جس کا ہم نے اوپر تذکرہ کیا تھا؟ ہر گز نہیں! ڈاکٹر عبدالسلام کے جوہر بھی انگلینڈ یعنی مغرب کے ماحول میں ہی کھل سکے دیگر نمایاں پاکستانی سائنسدانوں میں سرشاہ سلیمان، ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی، ڈاکٹر رضی الدین صدیقی، ڈاکٹر سر ضیاءالدین اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی صلاحیتیوں کو اُبھارنے میں مغربی تعلیم و تربیت اور ماحول کے گہرے اثر سے کون ہے جو انکار کرسکتا ہے؟
    اس مثال کو بیان کرنے سے ہمارا موقف اُمید ہے آپ پر واضح ہوگیا ہوگا ہم یہ سمجھانا چاہتے ہیں کہ اوپر بیان کردہ ”زرّیں ادوار“ کے مسلمان معاشروں میں غور و فکر اور علوم و فنون کو وہ پذیرائی نہ مل سکی جو کہ ملنی چاہیے تھی یہی وجہ ہے کہ ایسا ”مستحکم علمی ماحول“ ہی تیار نہ ہوسکا جو نابغہ روزگار شخصیات کو منظر عام پر لاتا اور قوم اُن کی صلاحیتیوںاور کارناموں سے مستفیض ہوتی

    ReplyDelete
  43. اب ایک نظر سلطنت عباسیہ کے شاندار اور پرشکوہ دور پر بھی ڈالتے چلیں یہ دور علوم و فنون کے حوالے سے بہت مستحکم تھا لیکن اس دور میں بھی محققین اور سائنسدانوں پر بڑے ستم ڈھائے گئے یہاں ہم صرف ایک مثال بیان کریں گے۔ حضرت امام غزالی نے اپنے دور کی انوکھی انسائیکلوپیڈیا کی تیاری کے لئے ایک ریسرچ کمیٹی ”اخوان الصفا“ کے نام سے قائم کی۔ جس میں اُس دور کے بڑے بڑے عالم، سائنسدان، مفکر اور دانشور شامل تھے۔ سید امیر علی اپنی کتاب ”تاریخ اسلام“ میں لکھتے ہیں ”اخوان الصفا کے رسائل میں ریاضی، فلکیات، طبعی جغرافیہ، موسیقی، میکانیات، طبیعیات، کیمیا، موسمیات، ارضیات، حیاتیات، فعلیات، حیوانیات، نباتیات، منطق، نحو، مابعدالطبیعیات، اخلاقیات اور مستقبلیات وغیرہ جیسے اہم موضوعات کا احاطہ کیا گیا تھا“ اخوانِالصفاءنے اس اہم اور بیش قیمت ریسرچ کو باون جلدوں میں جمع کیا۔ لیکن درباری مفتیوں کو یہ ریسرچ ایک آنکھ نہ بھائی اور ”اخوان الصفا“ کے دانشوروں اور مفکروں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے گئے۔ ان کو مٹا دینے کی ہر ممکن کوشش کی گئی اور برسوں کی ریسرچ سے تیار ہونے والی اس انسائیکلوپیڈیا کو یہ کہہ کر نذر آتش کردیا گیا کہ یہ ملحدانہ خیالات اور افکار کو ترویج دینے کا باعث بنے گا۔ یوں اُس ”عہد زرّیں“ میں بھی ایک ”زرّیں در“ کھلنے سے پہلے ہی بند کردیا گیا۔

    ReplyDelete
  44. یہ محض ایک واقعہ نہیں تھا۔ عباسیہ دور میں بھی جمود پرستوں خوشامدی درباریوں کی اجارہ داری برقرار تھی اور ایسے لوگ بھرپور طریقے سے ہرطرف چھائے ہوئے تھے۔یہی وجہ ہے کہ سلطنت عباسیہ کے عہد زرّیں میں بھی فروعی معاملات کو علوم قرار دے کر اُس پر خوب توانائیاں خرچ کی گئیں، جس کا نتیجہ یہی نکلا کہ مختلف مکاتب فکر اور فرقے وجود میں آتے گئے اور ہر فرقے کے موجد اپنے افکار و نظریات کی برتری و فضیلت جتانے کے لئے دن رات بحث و مباحثے میں اُلجھے رہتے تھے۔ ان مباحثوں میں کن امور کو زیر غور لایا جاتا تھا؟ ذرا یہ بھی سنتے چلیئے ”یہ اہم امور“ کیا تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    حضرت آدم کی ناف تھی یا نہیں ۔۔۔۔۔۔؟
    ایک سوئی کی نوک پر کتنے فرشتے آسکتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔؟
    الو کے گوشت کے بارے میں شرعی احکامات کیا ہیں ۔۔۔۔۔۔؟
    مچھر کا خون کپڑے پر لگ جائے تو نماز ہوگی یا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
    ان نام نہاد علماءنے اُس ”عہدِ زرّیں“ میں عام مسلمانوں کو فرقہ بازی، فروعات پرستی میں کچھ اس طرح اُلجھا یا کہ اُن کی توجہ دیگر امور سے ہٹ گئی۔ دن رات جاری مذہبی مباحثوں اور ایک دوسرے کے خلاف کی جانے والی سازشوں سے عسکری وحدت کو بھی زبردست نقصان پہنچا یوں دقیانوسیت کی پامال راہوں پر چلنے کا انتخاب جو اُمت کے ”بہی خواہوں“ نے کیا تھا اور اُمت نے اُن نام نہاد بہی خواہوں کے سامنے سر تسلیم خم کردیا تھا، اسی انتخاب نے عباسی سلطنت کے مکمل زوال جو تباہی اور بربادی کی صورت میں ظاہر ہوا، کے لئے راہ ہموار کی تھی عباسی حکمران مامون الرشید کا دور نہایت شان و شوکت کا دور تھا، لیکن اسی دور میں حماقت آمیز مباحثوں کا زور بھی رہا۔ مثلاً قرآن کے مخلوق ہونے کے نظریے سے انکار پر حضرت امام احمد بن حنبل نے قید اور کوڑوں کی سزا بھگتی۔ اسی مامون کے متعلق تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ اُس نے روم کے بادشاہ کو خط لکھا کہ فلسفے کے متعلق یونانی اور رومی مصنفین نے جو کچھ لکھا ہے اُس کی نقول تیار کر کے اُسے ارسال کردیا جائے۔ عجیب بات یہ ہے کہ روم کا بادشاہ خود اس قسم کی کتابوں سے بے خبر تھا۔ اُس نے معلومات کروائیں تو کسی راہب نے ایک ویران حویلی کا پتہ بتایا کہ جب روم میں عیسائیت کو فروغ حاصل ہوا اور فلسفے کی تمام کتابیں لوگوں سے چھین لی گئیں تو ان کتابوں کو اس حویلی میں جمع کر کے اُسے مقفل کردیا گیا روم کے بادشاہ نے اُس راہب سے خود ملاقات کی اور دریافت کیا کہ ان کتابوں کو مسلمان بادشاہ کے پاس بھیجنا کیسا رہے گا؟ تو راہب نے اُسے جواب دیا کہ ”آپ ضرور ان کتابوں کو مسلمانوں کے پاس بھیجیں، کیوں کہ یہ کتابیں جس قوم میں پڑھی جائیں گی اُس کو لایعنی بحثوں میں اُلجھا کر اُس کے عقائد کو متزلزل کردیں گی اور نتیجتاً وہ قوم کمزور ہوتی جائے گی اور یہ امر ہمارے لئے خوش آئند ہوگا۔ چنانچہ شاہِ روم نے یہ کتابیں اُس حویلی سے نکلوائیں اور ان کو پانچ اونٹوں پر لدوا کر بغداد روانہ کردیا۔ جمال الدین قفطی نے ”اخباراِالحکمائ“ میں اس واقعہ کی تفصیل بیان کی ہے۔ بعد کے حالات نے اُس راہب کے خیال کو درست ثابت کردیا۔

    ReplyDelete
  45. اس قسم کی کتابوں کے اثر سے مسلمان قرآن کے فطری، حقیقی اسلوب سے دور ہوگئے پھر استدلال کی بنیاد قیاس اور منطق پر رکھ دی گئی یہ طریقہ اور طرزِاستدلال قرآن پاک کی حقیقی فہم سے سراسر منحرف تھا قرآن مشاہدے کی بات کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے تم دیکھتے کیوں نہیں! تم غور کیوں نہیں کرتے! اﷲ نے تم کو اپنے احاطے میں لے رکھا ہے اﷲ زمین و آسمان کا نور ہے وہ تمہاری رگِ جاں سے زیادہ قریب ہے وہ تمہارے اندر ہے تم اُسے دیکھتے کیوں نہیں؟ یہ قرآنی آیات میں اﷲ کی پکار ہے مشاہدے، وجدان اور تفکر کے احکامات ہیں قیاس، مفروضہ اور منطق کے ذریعے حقائق کا ادراک ممکن نہیں اور عقائد کی بنیاد قیاس پر نہیں رکھی جاسکتی ہر انسان میں ادراک کی صلاحیتیں قدرت نے ودیعت کردی ہیں ان صلاحیتیوں کو استعمال کرکے اپنی اپنی استعداد کے مطابق مشاہدہ، ادراک اور وجدان سے بہرہ مند ہوا جاسکتا ہے .........
    قیاس کی بنیاد پر قائم کئے جانے والے طرزِ استدلال کو رفتہ رفتہ دینی تعلیم کے نصاب میں شامل کردیا گیا اس واقعہ کو ایک ہزار سال کا عرصہ گزرگیا ہے لیکن آج بھی اکثر مسلمان قیاس و منطق کے اُسی طلسمِ ہوشربا میں قید ہیں۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ ابتدائی صدیوں میں جو بھی مذہبی علوم مدون ہوئے وہ تمام تر اسی منطقی اور قیاسی اسلوب میں مدون ہوئے یہ طرز ہمارے علوم میں اس قدر سرائیت کرتا گیا کہ اب ایک شخص جو قدیم منطق اور قیاسی طرزِ استدلال میں مہارت نہ رکھتا ہو وہ انہیں سمجھ ہی نہیں سکتا مثال کے طور پر ”شرح ملّا“ علم نحو کی کتاب ہے اور آج بھی ہمارے بیشتر مذہبی مدارس میں داخلِ نصاب ہے۔ مگر منطق کی قدیمی اصطلاحات اور قیاسی طرزِ بحث کو جانے بغیر اس کتاب کو سمجھنا ممکن ہی نہیں یہی حال دیگر اہم مذہبی کتابوں کا بھی ہے دراصل منطق اور قیاسی فلسفہ عالمِ اسلام کے مذہبی علوم کی فنی تدوین میں کچھ اس طرح داخل ہوا کہ وہ مذہبی علوم کا ایک لازمی جز بن گیا،اس لئے کہ اگر قیاس اور منطق کو چھوڑا گیا تو قدیم فقہی اور مذہبی کتابوں کو بھی چھوڑنا ہوگا اور یہ امر موجود ترقی یافتہ دور کے اکثر مسلمان مذہبی عالموں کے لئے بھی ممکن نہیں، اس لئے کہ انہوں نے دین کو ایک جامد شے سمجھ لیا ہے اور دوسری صدی ہجری میں کی گئی قرآن و سنت کی تشریحات کو حرف آخر قرار دے کر اجتہاد اور ارتقاءکے دریچے کو ہی بند کردیا ہے۔ اسی جمود کا نتیجہ ہے کہ آج بھی بہت سے مذہبی علماءکا زور فروعات اور قیاسات پر ہے

    ReplyDelete
  46. جمیل احمد خان۔۔۔باقی تقریر تو ٹھیک ہے۔ لیکن یہ اختلاف رائے دیتے وقت "چا چا بھوپال" جیسی بھُبتیاں "تہذیب اور برداشت" کے کونسے پہلو کی غمازی کرتی ہیں۔۔ اس پر بھی ایک خطبہ ہو جائے۔
    جس پر خود عمل کرنے سے قاصر ہیں‌ اس کی نصیحت کیسی؟؟

    ReplyDelete
  47. جمیل احمد خان صاحب، اس تمام تر تفصیلی تبصرے کا بے حد شکریہ۔ آپ نے بہت ساری مفید معلومات ایک جگہ اکٹھا کر دیں۔

    ReplyDelete
  48. کسی کو اس کے تخلص کے ہمراہ چاچا کہنا تو اس کے احترام کے ضمن میں آنا چاہیے !۔۔۔۔ آپ اسے پھبتی کہ کر افتخار احمد بھوپال صاحب کو مجھ پر حملہ کرنے کے لیے اکسا رہے ہیں ؟؟؟؟؟؟؟؟
    آپ کو اتنی تکلیف کیوں ہو رہی ہے عثمان بھائی؟
    بحث برائے بحث کا میں قائل نہیں ہوں !؛؛؛؛
    عنیقہ صاحبہ آپ کی حوصلہ افزائی کا شکریہ

    ReplyDelete
  49. بحث برائے بحث وہ بھی فروعات پر !۔۔۔
    عثمان بھائی اور افتخار انکل (چاچا) اس کا نجام کبھ بھی کارآمد نہیں نکلا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    حضرت امام غزالی کا دور گیارہویں سے بارہویں صدی عیسوی کا ہے، اس دور میں عالمِ اسلام زوال کی طرف گامزن تھا۔ مغربی طاقتوں نے صلیبی جنگوں کے نام پر متحد ہوکرمسلم ریاستوں پر حملہ کردیا تھا۔ انطاکیہ اور حمص میں صلیبیوں نے قبضہ کے بعد بڑی تعداد میں مسلمانوں کو زندہ جلادیا، شام میں بھی مسلمانوں کا قتلِ عام کیا گیا۔ پھر بیت المقدس پر صلیبیوں کامکمل قبضہ ہوگیا۔ اسی دور میںحسن بن صباح کی قیادت میں فدائین کا عروج ہوا جو بھیس بدل کر بڑے بڑے نامور مسلمانوں کو قتل کردیتے تھے، فدائین کے خوف سے ہر ایک کو موت کا دھڑکا لگا رہتا تھا، والیءاندلس اور نظام الملک طوسی سمیت نجانے کتنے لوگ ان کے ہاتھوں مارے گئے۔ عام مسلمانوں کا حال یہ تھا کہ دولت پرستی اور منافقت عام تھی۔ حضرت امام غزالی نے اس دور کا حال اپنی کتاب”احیائُالعلوم“ میں بیان کیا ہے ایک جگہ آپ لکھتے ہیں :”دولت مندوں کا ایک گروہ بربنائے بخل دولت کی حفاظت میں مشغول رہتا ہے اور ایسی بدنی عبادات سے اس کو دلچسپی ہوتی ہے جس میں کچھ خرچ نہیں، مثلاً دن کا روزہ، رات کی عبادت اور ختمِ قرآن ۔ وہ بھی فریب میں مبتلا ہیں۔ اس لیے کہ مہلک بخل ان کے باطن پر مستولی ہے، اور اس کے ازالہ کے لیے مال کے خرچ کرنے کی ضرورت ہے، لیکن وہ ایسے اعمال میں مشغول ہیں جس کی ان کو کوئی خاص ضرورت نہیں۔ اس کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص کے کپڑے کے اندر سانپ گھس گیا ہے اور اس کا کام تمام ہونے والا ہے، اور وہ سکنجبین کے تیار کرنے میں مشغول ہے تاکہ صفرا کو تسکین ہو۔ حالانکہ جو سانپ کا ماراہے، اس کو سکنجبین کی ضرورت کب پڑے گی ؟ بشرسے کسی نے کہا کہ فلاں دولت مند کثرت سے روزے رکھتاہے اور(نفلی) نمازیں پڑھتاہے، انہوں نے فرمایا کہ بیچارہ اپنا کام چھوڑ کر دوسروں کے کام میں مشغول ہے، اس کا مناسب حال تو یہ تھا کہ بھوکوں کو کھانا کھلاتا، مساکین پر خرچ کرتا۔ یہ اس سے افضل تھا کہ اپنے نفس کو بھوکا رکھتاہے، اور اپنے لیے(نفلی) نمازیں پڑھتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ دنیا بھی سمیٹنے میں مشغول ہے، اور فقیر کو محروم رکھتاہے“۔۔۔۔(جلد 3۔صفحہ625,626)
    امام غزالی نے گیارہویں صدی عیسوی کے گیارہویں سال میں وصال فرمایا ،اس کے بعد مسلم معاشرہ کی صورتحال روز برو ز ابتر ہوتی چلی گئی ،اکثر شہروں میں فروعی مسائل پر مناظرے اور مباحثے جاری تھے، بات بات پر لوگ مشتعل ہوکر مرنے مارنے کے لیے کھڑے ہوجاتے تھے اور یہ اشتعال بعض مرتبہ فرقہ وارانہ فساد کی صورت بھی اختیار کرجاتاتھا ۔ 1258ءمیں جب ہلاکوخان نے بغداد پر حملہ کیا تو بتایا جاتاہے کہ وہاں فرقہ وارانہ فساد جاری تھے، پھر خلافتِ عباسیہ کا مکمل خاتمہ ہوگیا جو برسوں سے بغداد کی حدود میں سمٹ کر رہ گئی تھی۔

    ReplyDelete
  50. جمیل احمد خان صاحب آپکے خیالات اور بحث عمدہ ہے۔ مسلمان بحرحال زوال کا شکار ہیں۔ اسلام جیسے بہترین مذہب کی حامل ہونے کے باوجود وہ بدترین قوم کی صورت اختیار کرچکی ہے۔ کرپشن، بددیانتی، اقربا پروری، لعو لعب، سمیت وہ تمام برائیاں جو اس روئے زمین پر ممکن ہے مسلمان اس میں پوری طرح ملوث ہیں۔ حقیقت اس سے بھی تلخ ہے ہم کریکڑ کی موت، سادگی کا جنازہ اور ایمان کا قبرستان بن چکے ہیں۔ اسلام اور مذہب جو خالص عقلی معاملا ہے ہماری جذباتیات سے پراگندا ہورہا ہے۔ ہم ہفتوں نماز پڑھنے مسجد نہیں جاتے لیکن اگر کبھی سن لیں کہ کہیں کسی مسجد کو نقصان پہنچایا گیا ہے تو آگ بگولہ ہوجاتے ہیں، ہم سالوں قرآن کو کھول کر نہیں دیکھتے لیکن اگر کبھی اسکی گستاخی کی خبر ہم تک پہنچے تو سراپہ احتجاج بن جاتے ہیں۔ ہم نے اسلام کی اخلاقی تعلیمات اور سماجی، معاشرتی اور معاشی پہلو کو نظر انداز کرکے اسے عبادات اور عقیدہ کی بحث تک محدور کردیا ہے۔ ہم جیب میں رشوت، دھوکہ، جھوٹ اور سود کا پیسہ لے کر بازار میں حلال گوشت تلاش کرتے ہیں۔ ہم شراب پینے والے اور زنا کرنے والے سے نفرت کرتے ہیں لیکن خود چغل، خوری غیبت، جھوٹ سمیت ہر حرام کام کرتے ہیں۔ ہم ساری دنیا کے مسلمانوں کے غم میں گھلتے ہیں لیکن اپنے پڑوسیوں سے کبھی خیریت پوچھنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ ہم لاکھوں روپے کی خیرات کرتے ہیں اور مہنگے سے مہنگے جانور کی قربانی دیتے ہیں، لیکن اپنی زکوۃ کبھی ٹھیک ٹھیک نہیں نکالتے۔ کسی اور کے ساتھ اگر برا ہوجائے تو عبرت اور اگر اپنے ساتھ کوئی برا ہو تو اسے امتحان قرار دیتے ہیں۔ غرباء اور یتیموں کو بہت کچھ دیتے ہیں لیکن ہمیشہ اپنے سے نیچہ اور کمتر سمجھ کر۔ دینی معاملات نکلیں تو ہم مفتی اور فقہاء کی سطح پر پہنچ جاتے ہیں لیکن ہمیں ٹھیک سے قرآن بھی پڑھنے نہیں آتا۔

    صاحب، اس اسباب زوال کو سمجھنے کے لئے قرآن کا سہارا لینا پڑے گا اس لئے میں ہرگز نہیں سمجھتا کہ سائنس و ٹکنالوجی سے دوری، عرضیات و فلکیات پر تحقیق و جستجو، شرع خاندگی میں کمی ان اسباب کی وجہ ہیں۔ اگر ہم قرآن سے رجوع کریں تو اس پورے فلسفے میں تبدیلی پیدا ہوجاتی ہے۔ مسلمان جو کے بائے چانس مسلمان ہیں کو قرآن پڑھ کر اسکی حقانیت کو جان کر بائے چوئیس مسلمان بننا پڑے گا۔ ایمان اصل چیز، اگر پیدا ہوگیا تو مسلمان بے تیغ بھی لڑ سکتا ہے اور اگر ایمان پیدا نہیں ہوا تو پھر یہود و نصارا زمین سے مٹ بھی جائیں، مسلمانوں کوئی بھی مخالف روئے زمین پر نہ رہے، مسلمان پھر بھی روبہ زوال رہیں گے۔ عروج ثانی اور نشاۃ ثانیہ کے لئے صرف اور صرف ایمان سازی اور توبہ کی مہم درکار ہے۔ وگر نہ آپ پوری امت کو سائنسی مہمات پر لگادیں تب بھی آپ کبھی اقوام مغرب کو نہیں چھو پائیں گے کیونکہ مسلمانوں کے لئے قدرت کا فلسفہ زوال و عروج بلکل مختلف ہے۔ مسلمانوں کے لئے یہ دنیا بلکل نہیں بنائی گئی اور یہاں کامیابیوں کا اس سے وعدہ بھی نہیں کیا گیا۔ البتہ اگر مسلمانوں نے کبھی ایمان سازی کی تو انہوں خلافت ارضی بھی ملی، ورنہ وہ ہمیشہ زلیل و خوار رہے، سب کچھ ہوتے ہوئے بھی۔


    آخر میں آپ کی یہ بات مجھے ٹھیک معلوم نہیں ہوتی کہ مسلمانوں نے قرون وسطی کے دوران کوئی بڑا سائنس دان پیدا نہیں کیا۔ مسلمانوں میں اسیے کئی لوگ آئے جنہوں نے اس دنیا اور عالم ممکنات پر جامع اور نہایت مفید تحقیق کی ۔۔۔۔

    ReplyDelete
  51. جمیل احمد خان صاحب آپکے خیالات اور بحث عمدہ ہے۔ مسلمان بحرحال زوال کا شکار ہیں۔ اسلام جیسے بہترین مذہب کی حامل ہونے کے باوجود وہ بدترین قوم کی صورت اختیار کرچکی ہے۔ کرپشن، بددیانتی، اقربا پروری، لعو لعب، سمیت وہ تمام برائیاں جو اس روئے زمین پر ممکن ہے مسلمان اس میں پوری طرح ملوث ہیں۔ حقیقت اس سے بھی تلخ ہے ہم کریکڑ کی موت، سادگی کا جنازہ اور ایمان کا قبرستان بن چکے ہیں۔ اسلام اور مذہب جو خالص عقلی معاملا ہے ہماری جذباتیات سے پراگندا ہورہا ہے۔ ہم ہفتوں نماز پڑھنے مسجد نہیں جاتے لیکن اگر کبھی سن لیں کہ کہیں کسی مسجد کو نقصان پہنچایا گیا ہے تو آگ بگولہ ہوجاتے ہیں، ہم سالوں قرآن کو کھول کر نہیں دیکھتے لیکن اگر کبھی اسکی گستاخی کی خبر ہم تک پہنچے تو سراپہ احتجاج بن جاتے ہیں۔ ہم نے اسلام کی اخلاقی تعلیمات اور سماجی، معاشرتی اور معاشی پہلو کو نظر انداز کرکے اسے عبادات اور عقیدہ کی بحث تک محدور کردیا ہے۔ ہم جیب میں رشوت، دھوکہ، جھوٹ اور سود کا پیسہ لے کر بازار میں حلال گوشت تلاش کرتے ہیں۔ ہم شراب پینے والے اور زنا کرنے والے سے نفرت کرتے ہیں لیکن خود چغل، خوری غیبت، جھوٹ سمیت ہر حرام کام کرتے ہیں۔ ہم ساری دنیا کے مسلمانوں کے غم میں گھلتے ہیں لیکن اپنے پڑوسیوں سے کبھی خیریت پوچھنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ ہم لاکھوں روپے کی خیرات کرتے ہیں اور مہنگے سے مہنگے جانور کی قربانی دیتے ہیں، لیکن اپنی زکوۃ کبھی ٹھیک ٹھیک نہیں نکالتے۔ کسی اور کے ساتھ اگر برا ہوجائے تو عبرت اور اگر اپنے ساتھ کوئی برا ہو تو اسے امتحان قرار دیتے ہیں۔ غرباء اور یتیموں کو بہت کچھ دیتے ہیں لیکن ہمیشہ اپنے سے نیچہ اور کمتر سمجھ کر۔ دینی معاملات نکلیں تو ہم مفتی اور فقہاء کی سطح پر پہنچ جاتے ہیں لیکن ہمیں ٹھیک سے قرآن بھی پڑھنے نہیں آتا۔

    ReplyDelete
  52. صاحب، اس اسباب زوال کو سمجھنے کے لئے قرآن کا سہارا لینا پڑے گا اس لئے میں ہرگز نہیں سمجھتا کہ سائنس و ٹکنالوجی سے دوری، عرضیات و فلکیات پر تحقیق و جستجو، شرع خاندگی میں کمی ان اسباب کی وجہ ہیں۔ اگر ہم قرآن سے رجوع کریں تو اس پورے فلسفے میں تبدیلی پیدا ہوجاتی ہے۔ مسلمان جو کے بائے چانس مسلمان ہیں کو قرآن پڑھ کر اسکی حقانیت کو جان کر بائے چوئیس مسلمان بننا پڑے گا۔ ایمان اصل چیز، اگر پیدا ہوگیا تو مسلمان بے تیغ بھی لڑ سکتا ہے اور اگر ایمان پیدا نہیں ہوا تو پھر یہود و نصارا زمین سے مٹ بھی جائیں، مسلمانوں کوئی بھی مخالف روئے زمین پر نہ رہے، مسلمان پھر بھی روبہ زوال رہیں گے۔ عروج ثانی اور نشاۃ ثانیہ کے لئے صرف اور صرف ایمان سازی اور توبہ کی مہم درکار ہے۔ وگر نہ آپ پوری امت کو سائنسی مہمات پر لگادیں تب بھی آپ کبھی اقوام مغرب کو نہیں چھو پائیں گے کیونکہ مسلمانوں کے لئے قدرت کا فلسفہ زوال و عروج بلکل مختلف ہے۔ مسلمانوں کے لئے یہ دنیا بلکل نہیں بنائی گئی اور یہاں کامیابیوں کا اس سے وعدہ بھی نہیں کیا گیا۔ البتہ اگر مسلمانوں نے کبھی ایمان سازی کی تو انہوں خلافت ارضی بھی ملی، ورنہ وہ ہمیشہ زلیل و خوار رہے، سب کچھ ہوتے ہوئے بھی۔


    آخر میں آپ کی یہ بات مجھے ٹھیک معلوم نہیں ہوتی کہ مسلمانوں نے قرون وسطی کے دوران کوئی بڑا سائنس دان پیدا نہیں کیا۔ مسلمانوں میں اسیے کئی لوگ آئے جنہوں نے اس دنیا اور عالم ممکنات پر جامع اور نہایت مفید تحقیق کی ۔۔۔۔

    ReplyDelete
  53. لوگ عموما 'دور تاریکی' سے واقف ہیں کہ یہ یورپ کا پسماندہ ترین دور تھا۔۔۔۔۔اسی طرح کا ایک دورمسلمانانِ برصغیر پاک ہند پر بھی گذرا ہے۔
    یہ دور ہے برصغیر میں وسطی ایشیاء کے مسلمان حکمرانوں کے اقتدار کا دور جو غوری سے شروع ہوا اور بہادر شاہ ظفر پر ختم ہوا۔ کچھ لوگ اس دور کو کھینچ کر محمد بن قاسم تک لے جاتے ہیں اور کچھ صرف 1000 سال تک۔ متـفـقـہ تاریخ یہ ہے کے یہ مسلمانوں کا سنہری دور تھا۔
    عسکری نکتہء نگاہ سے یہ تو درست ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    لیکن اس دور میں فرد واحد حکمراں رہا اور فرد واحد ہی قانون سازی کرتا رہا۔ کسی مجلس شوری کے آثار تاریخ میں نہیں ملتے، بغور دیکھئے تو حالات کا تانا بانا کچھ اس طرح رہا کہ، برصغیر میں، اس دوران کوئی علمی ترقی نہ ہوئی، کوئی ایجاد قابل ذکر نہیں ہے، کوئی قابل ذکر درسگاہ، یونیورسٹی، شفا خانوں‌کا نظام، سڑکوں کا نظام، فلاحی نظام، گویا علمی ترقی جو مسلمانوں کا مشرق وسطیٰ میں‌طرہء امتیاز رہا، معدوم ہے۔ اس کم علمی و تاریکی کی بڑی وجہ کیا ہے؟۔۔۔۔۔
    اس کا جواب بہت مشکل نہیں ہے۔
    سر سید احمد خان نے جس ادارے کی ابتداء کی اور جس نظام کی بنیاد ڈالی، اس سے اوریجنل تعلیم یعنی سیاست، معاشیت، ثقافت، شہریات، علم ھندسہ (انجینئیرنگ) و ریاضی کی تعلیم عام ہوئی اور برصغیر میں تھوڑے وقت میں ہی مسلمانوں نے جس نشاط ثانیہ کی طرف پیش رفت شروع کی، اس کی رفتار دنیا کے کسی بھی مسلم ملک میں گذشتہ 60 سال میں خصوصا اور قیام علیگڑھ کے وقت سے خصوصاَ نہیں ملتی۔
    اس لئے جو طبقہ سرسید کی لائی ہوئی تبدیلی کی مخالفت سرسید کی کردار کشی اس زمانے میں کرتا رہا، اور فرسودہ روایات کو ترجیح دیتا رہا، اور جدید تعلیم کی مخالفت کرتا رہا، اس طبقہ کو فطری طور پر اس عصری ِانحطاط کا ذمہ دار ٹہرانا چاہیے اور اس دور کا مقابلہ یورپ کے دور تاریکی سے کرنا چاہیے۔۔ اس موازنہ کی وجہ علم کی روشنی کی کمی، علمی انحطاط، روایتوں کا فروغ، توہم پرستی کا فروغ، ایجادات کی کمی اور اس کے نتیجے میں آزادی سے غلامی میں داخلہ ہے۔
    اس دور میں تعلیم عظیم یعنی قران سے سنگدلانہ اختراعات کا سلسلہء غیر متناہی شروع ہوا۔ علم کی نام پر تاریکی کو فروغ دیا گیا اور کچھ لوگوں کے عقیدہ میں اب تک ایسی خرافات اس قدر راسخ ہیں کہ دل کانپ اٹھتا ہے۔ روایت پرستی اس دور میں عروج پر رہی۔ روایت پرستوں ‌کی کوشش تھی کہ درپردہ علم و حکومت ان کے اپنے ہاتھ رہے، چاہے بادشاہ کوئی ہو۔ درسگاہیں صرف ان لوگوں کے لئے محدود تھیں جو ان کے "اپنے" خیالات سے متفق تھے۔ روایت پرستوں کا اپنا خیال تھا کہ وہ دین و علم کی خدمت کر رہے ہیں لیکن وہ تمام مسلمانوں کو پسماندگی کی طرف دھکیلتا رہے۔ کوئی ایسی کوشش جو کسی دوسری درسگاہ کی جانب سے ہوتی، روایت پرست اس کی راہ میں رکاوٹ‌بنا رہتا، حتیٰ کہ کسی بھی درسگاہ کی کوشش کو حکومتی زور و طاقت سے کچلتا رہتا۔ یہی رکاوٹ سر سید احمد خان کو بھی پیش آئی، جب علی گڑھ یونیورسٹی کے قیام کا وقت آیا اور اس کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ روایت پرستوں نے ایک نظریاتی جنگ کی ابتداء کی اور سرسید کی کردار کشی اپنے پرانے ہتھکنڈوں سے کرنی شروع کردی۔ جس میں کفر کا فتویٰ، تارک دین ، تارک حدیث، تارک قرآن اور تارک کے سنت کے فتاویٰٰ بہ آسانی ملتے ہیں۔

    ReplyDelete
  54. لوگ عموما 'دور تاریکی' سے واقف ہیں کہ یہ یورپ کا پسماندہ ترین دور تھا۔۔۔۔۔اسی طرح کا ایک دورمسلمانانِ برصغیر پاک ہند پر بھی گذرا ہے۔
    یہ دور ہے برصغیر میں وسطی ایشیاء کے مسلمان حکمرانوں کے اقتدار کا دور جو غوری سے شروع ہوا اور بہادر شاہ ظفر پر ختم ہوا۔ کچھ لوگ اس دور کو کھینچ کر محمد بن قاسم تک لے جاتے ہیں اور کچھ صرف 1000 سال تک۔ متـفـقـہ تاریخ یہ ہے کے یہ مسلمانوں کا سنہری دور تھا۔
    عسکری نکتہء نگاہ سے یہ تو درست ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    لیکن اس دور میں فرد واحد حکمراں رہا اور فرد واحد ہی قانون سازی کرتا رہا۔ کسی مجلس شوری کے آثار تاریخ میں نہیں ملتے، بغور دیکھئے تو حالات کا تانا بانا کچھ اس طرح رہا کہ، برصغیر میں، اس دوران کوئی علمی ترقی نہ ہوئی، کوئی ایجاد قابل ذکر نہیں ہے، کوئی قابل ذکر درسگاہ، یونیورسٹی، شفا خانوں‌کا نظام، سڑکوں کا نظام، فلاحی نظام، گویا علمی ترقی جو مسلمانوں کا مشرق وسطیٰ میں‌طرہء امتیاز رہا، معدوم ہے۔ اس کم علمی و تاریکی کی بڑی وجہ کیا ہے؟۔۔۔۔۔
    اس کا جواب بہت مشکل نہیں ہے۔
    سر سید احمد خان نے جس ادارے کی ابتداء کی اور جس نظام کی بنیاد ڈالی، اس سے اوریجنل تعلیم یعنی سیاست، معاشیت، ثقافت، شہریات، علم ھندسہ (انجینئیرنگ) و ریاضی کی تعلیم عام ہوئی اور برصغیر میں تھوڑے وقت میں ہی مسلمانوں نے جس نشاط ثانیہ کی طرف پیش رفت شروع کی، اس کی رفتار دنیا کے کسی بھی مسلم ملک میں گذشتہ 60 سال میں خصوصا اور قیام علیگڑھ کے وقت سے خصوصاَ نہیں ملتی۔
    اس لئے جو طبقہ سرسید کی لائی ہوئی تبدیلی کی مخالفت سرسید کی کردار کشی اس زمانے میں کرتا رہا، اور فرسودہ روایات کو ترجیح دیتا رہا، اور جدید تعلیم کی مخالفت کرتا رہا، اس طبقہ کو فطری طور پر اس عصری ِانحطاط کا ذمہ دار ٹہرانا چاہیے اور اس دور کا مقابلہ یورپ کے دور تاریکی سے کرنا چاہیے۔۔ اس موازنہ کی وجہ علم کی روشنی کی کمی، علمی انحطاط، روایتوں کا فروغ، توہم پرستی کا فروغ، ایجادات کی کمی اور اس کے نتیجے میں آزادی سے غلامی میں داخلہ ہے۔
    اس دور میں تعلیم عظیم یعنی قران سے سنگدلانہ اختراعات کا سلسلہء غیر متناہی شروع ہوا۔ علم کی نام پر تاریکی کو فروغ دیا گیا اور کچھ لوگوں کے عقیدہ میں اب تک ایسی خرافات اس قدر راسخ ہیں کہ دل کانپ اٹھتا ہے۔ روایت پرستی اس دور میں عروج پر رہی۔ روایت پرستوں ‌کی کوشش تھی کہ درپردہ علم و حکومت ان کے اپنے ہاتھ رہے، چاہے بادشاہ کوئی ہو۔ درسگاہیں صرف ان لوگوں کے لئے محدود تھیں جو ان کے "اپنے" خیالات سے متفق تھے۔ روایت پرستوں کا اپنا خیال تھا کہ وہ دین و علم کی خدمت کر رہے ہیں لیکن وہ تمام مسلمانوں کو پسماندگی کی طرف دھکیلتا رہے۔ کوئی ایسی کوشش جو کسی دوسری درسگاہ کی جانب سے ہوتی، روایت پرست اس کی راہ میں رکاوٹ‌بنا رہتا، حتیٰ کہ کسی بھی درسگاہ کی کوشش کو حکومتی زور و طاقت سے کچلتا رہتا۔ یہی رکاوٹ سر سید احمد خان کو بھی پیش آئی، جب علی گڑھ یونیورسٹی کے قیام کا وقت آیا اور اس کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ روایت پرستوں نے ایک نظریاتی جنگ کی ابتداء کی اور سرسید کی کردار کشی اپنے پرانے ہتھکنڈوں سے کرنی شروع کردی۔ جس میں کفر کا فتویٰ، تارک دین ، تارک حدیث، تارک قرآن اور تارک کے سنت کے فتاویٰٰ بہ آسانی ملتے ہیں۔

    ReplyDelete
  55. لوگ عموما 'دور تاریکی' سے واقف ہیں کہ یہ یورپ کا پسماندہ ترین دور تھا۔۔۔۔۔اسی طرح کا ایک دورمسلمانانِ برصغیر پاک ہند پر بھی گذرا ہے۔
    یہ دور ہے برصغیر میں وسطی ایشیاء کے مسلمان حکمرانوں کے اقتدار کا دور جو غوری سے شروع ہوا اور بہادر شاہ ظفر پر ختم ہوا۔ کچھ لوگ اس دور کو کھینچ کر محمد بن قاسم تک لے جاتے ہیں اور کچھ صرف 1000 سال تک۔ متـفـقـہ تاریخ یہ ہے کے یہ مسلمانوں کا سنہری دور تھا۔
    عسکری نکتہء نگاہ سے یہ تو درست ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    لیکن اس دور میں فرد واحد حکمراں رہا اور فرد واحد ہی قانون سازی کرتا رہا۔ کسی مجلس شوری کے آثار تاریخ میں نہیں ملتے، بغور دیکھئے تو حالات کا تانا بانا کچھ اس طرح رہا کہ، برصغیر میں، اس دوران کوئی علمی ترقی نہ ہوئی، کوئی ایجاد قابل ذکر نہیں ہے، کوئی قابل ذکر درسگاہ، یونیورسٹی، شفا خانوں‌کا نظام، سڑکوں کا نظام، فلاحی نظام، گویا علمی ترقی جو مسلمانوں کا مشرق وسطیٰ میں‌طرہء امتیاز رہا، معدوم ہے۔ اس کم علمی و تاریکی کی بڑی وجہ کیا ہے؟۔۔۔۔۔
    اس کا جواب بہت مشکل نہیں ہے۔
    سر سید احمد خان نے جس ادارے کی ابتداء کی اور جس نظام کی بنیاد ڈالی، اس سے اوریجنل تعلیم یعنی سیاست، معاشیت، ثقافت، شہریات، علم ھندسہ (انجینئیرنگ) و ریاضی کی تعلیم عام ہوئی اور برصغیر میں تھوڑے وقت میں ہی مسلمانوں نے جس نشاط ثانیہ کی طرف پیش رفت شروع کی، اس کی رفتار دنیا کے کسی بھی مسلم ملک میں گذشتہ 60 سال میں خصوصا اور قیام علیگڑھ کے وقت سے خصوصاَ نہیں ملتی۔
    اس لئے جو طبقہ سرسید کی لائی ہوئی تبدیلی کی مخالفت سرسید کی کردار کشی اس زمانے میں کرتا رہا، اور فرسودہ روایات کو ترجیح دیتا رہا، اور جدید تعلیم کی مخالفت کرتا رہا، اس طبقہ کو فطری طور پر اس عصری ِانحطاط کا ذمہ دار ٹہرانا چاہیے اور اس دور کا مقابلہ یورپ کے دور تاریکی سے کرنا چاہیے۔۔ اس موازنہ کی وجہ علم کی روشنی کی کمی، علمی انحطاط، روایتوں کا فروغ، توہم پرستی کا فروغ، ایجادات کی کمی اور اس کے نتیجے میں آزادی سے غلامی میں داخلہ ہے۔
    اس دور میں تعلیم عظیم یعنی قران سے سنگدلانہ اختراعات کا سلسلہء غیر متناہی شروع ہوا۔ علم کی نام پر تاریکی کو فروغ دیا گیا اور کچھ لوگوں کے عقیدہ میں اب تک ایسی خرافات اس قدر راسخ ہیں کہ دل کانپ اٹھتا ہے۔ روایت پرستی اس دور میں عروج پر رہی۔ روایت پرستوں ‌کی کوشش تھی کہ درپردہ علم و حکومت ان کے اپنے ہاتھ رہے، چاہے بادشاہ کوئی ہو۔ درسگاہیں صرف ان لوگوں کے لئے محدود تھیں جو ان کے "اپنے" خیالات سے متفق تھے۔ روایت پرستوں کا اپنا خیال تھا کہ وہ دین و علم کی خدمت کر رہے ہیں لیکن وہ تمام مسلمانوں کو پسماندگی کی طرف دھکیلتا رہے۔ کوئی ایسی کوشش جو کسی دوسری درسگاہ کی جانب سے ہوتی، روایت پرست اس کی راہ میں رکاوٹ‌بنا رہتا، حتیٰ کہ کسی بھی درسگاہ کی کوشش کو حکومتی زور و طاقت سے کچلتا رہتا۔ یہی رکاوٹ سر سید احمد خان کو بھی پیش آئی، جب علی گڑھ یونیورسٹی کے قیام کا وقت آیا اور اس کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ روایت پرستوں نے ایک نظریاتی جنگ کی ابتداء کی اور سرسید کی کردار کشی اپنے پرانے ہتھکنڈوں سے کرنی شروع کردی۔ جس میں کفر کا فتویٰ، تارک دین ، تارک حدیث، تارک قرآن اور تارک کے سنت کے فتاویٰٰ بہ آسانی ملتے ہیں۔

    ReplyDelete
  56. تاریخ‌ برصغیر میں نمایاں کارنامے:
    حرم سراء کے لئے محلوں کی تعمیر۔
    مال کی حفاظت کے لئے قلعوں کی تعمیر۔
    حکومت کی حفاظت کے لئے چھاونیوں کی تعمیر۔
    فرد واحد کی حکومت کے نظریاتی دفاع کے لئے ایک مذہبی انـفراسٹرکچر کا قیام جو کہ حکومت کے لئے زیادہ منافع بخش اور عوام کے لئیے سخت تکلیف دہ سزاؤں پر مشتمل۔
    ایکسٹرا جیوڈیشیل طریقہ سے مقدمات کی ہینڈلنگ۔
    جنگوں سے بھرپور تاریخ۔

    اس کے تاریخی حوالہ جات تو ہم سب کو زبانی یاد ہیں۔ کیا وجہ ہے کی ہماری تاریخ درج ذیل کارناموں سے عاری ہے؟

    جن خامیوں کی طرف اشارہ ہے، مسلمان قرون وسطیٰ میں درج ذیل کار ہائے نمایاں انجام دے چکے تھے۔ ان میں سے، بابر سے ظفر تک علم کا ارتقاء اور قابل ذکر انسٹی ٹیوشنز کے قیام میں سرکاری اور حکومتی کوششوں کے بارے میں حوالہ جات سے بتائیے:

    مشترکہ ہندوستان میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    چند بڑی یونیورسٹیوں‌کے نام؟
    بڑے شفا خانوں کا نظام، ان کا وجود؟
    ان دواؤں کی ایجاد و تعداد جو صحت و زندگی کی ضامن ہیں؟
    عوامی دولت کے معاشرے میں‌نفوذ کے بڑے ادارے؟
    نظام زکوٰۃ‌ اور غرباء کی فلاح کے ادارے؟
    قرآن و سنت کی ترویج کے ادارے اور مدرسے؟
    سائینسی، دفاعی اور دیگر ایجادات؟
    صنعت و حرفت کی ترقی کے لیے کئے گئے انتظامات؟
    نقل حمل کا نظام۔ ( یاد رہے کہ شیر شاہ سوری نے جی ٹی روڈ کی تعمیر عام لوگوں کیلیے نہیں بلکہ اپنے جاسوسی کے نظام کو مضبوط بنانے کی خاطر کی تھی)
    عام لوگوں کی صلا حیتوں کے استعمال اور ان کی حوصلہ افزائی کی روایت ؟( آپ کو شاید معلوم ہو کہ تاج محل کے انجینئرز کو شاجہاں نے قتل کروادیا تھا ، کہ وہ اس جیسی عمارت دوبارہ تعمیر نہ کر سکیں)
    ملک گیر مالیاتی نظام؟
    عوام کی فلاح و بہبود کی تعمیرات کے نظام کے فروغ کے ادارے؟
    ملک گیر مکمل عدالتی نظام کی مثال؟
    دفاعی آلات حرب اور کمیونیکشن کی ایجادات؟

    ReplyDelete
  57. زریں تاریخ ہم پر عیاں ہے اور اس تاریکی کے نتیجے میں‌ 200 سالہ غلامی کی سزا بھی یاد ہے۔۔۔۔۔۔ اس کا سدباب کیسے ہوا، یہ بھی یاد ہے اور علم حاصل کرنے کی راہ میں کون سا فلسفہ رکاوٹ بنا یہ بھی یاد ہے۔

    ذہن میں‌رکھئے کہ یہ مجموعی تنقید آزردہ دلی اور برائی کے نکتہ نظر سے نہیں بلکہ خود آگہی کے لئے ہے ۔۔۔۔ کہ روایت پرستی مسلمانوں کو کس پسماندگی میں دھکیل دیتی ہےاور معاشرے کا ہر فرد، ہرحصہ تاریکیوں میں‌ڈوب جاتا ہے۔
    المیہ یہ ہے کہ یہ سب اس دین فطرت کے نام پر ہوتا ہے جو دنیا میں'' نور '' کا گہوارہ ہے۔

    ReplyDelete
  58. میری نظر میں ہم مسلمانوں کی بنیادی غلطیاں یہ ہیں

    ١- اسلام کو ہم نے ایک مذہب بنا دیا ہے ، جو چند رسومات اور حرکات کا نام ہے

    ٢- ایمان کو ہم نے ایک فلسفہ بنا دیا ہے ، جسکی گتھیاں سلجھانے کے لئے بہت بڑا "مدبر" ہونا پڑتا ہے

    ٣- دولت کو ضرورت کے بجائے ہم نے خواہش بنا لیا ہے ، جو کبھی بھی ختم نہیں ہوتی ، اور ہم میں سے بہت سے تو ڈر کے مارے اس سے چپکے بیٹھے ہیں۔۔۔۔۔۔۔

    ٤- اسلام نے جو فرق ختم کئے تھے ہم نے انہیں افراق کو اسلام کا نام دیا ہے ، ایک خدا ایک رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ایک کتاب پر ہم سب متفق ہیں مگر عمل کے مقام پر ہم سے زیادہ انتشار کسی میں بھی نہیں ۔۔۔۔۔۔

    ٥۔ اسلام نے انسانی نفس کو سمجھ کر بہت کچھ آسان کیا مگر ہم مشکل میں خود کو پھنسانا پسند کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے عورت کو ایک "اَن ریچ ایبل" چیز بنا کہ رکھ دیا ہے ، انسان کو ہم فرشتہ بنانے پر تُل گئے ہیں اور فرشتے کا معیار عورت سے دوری پر ہے ۔۔۔۔۔۔

    ٦- ایک مسلمان عورت اپنی کسی ہئیت میں اسلام کی نمائندگی نہیں کر پا رہی۔۔۔۔۔۔
    ٧۔ تعلیم کو ہم نے صرف جاننے کا عمل سمجھا ، اعلٰی سے اعلی تعلیم ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکی ، ہم نے اپنی سوچ کو بدلنا اپنی بے عزتی سمجھی ، ایک آزاد معاشرے میں مسلمان ترقی کی منزلیں طے کرتا ہے جبکہ ایک پابند معاشرے میں وہ باؤلا ہو جاتا ہے ۔ ۔ سعودی عرب کی مثال سامنے ہے ۔ ۔ جہاں معاشرہ ایک ذہنی انتشار کا شکار ہے ۔ ۔ ۔ اور یہ انتشار انہیں کسی اچھی سمت نہیں لے جا رہا ۔ ۔ ہم نے غور کرنا چھوڑ دیا ہے ، علم کو عمل سے الگ کر دیا ہے ۔ ۔

    ٨- مسلمانوں کی کاروباری بددیاتنی اب ایک مثال بن چکی ہے ، اب جب کسی کام کے لئے "انشااللہ" کہا جاتا ہے تو اسکا مطلب ہوتا ہے کہ یہ کام نہیں ہو گا یا بدیر ہو گا ۔ ۔

    ٩- حکمرانوں کا بدعنوان ہونا اور امراء کا عیاش ہونا سمجھ آتا ہے ، ہم مسلمانوں کا غریب سے غریب آدمی بھی حرام خوری میں کم نہیں ۔ ۔ ۔

    ١٠۔ اللہ ہمیں بار بار مواقع دیتا ہے سنبھلنے کے سدھرنے کے۔۔۔۔۔۔ مگر ہم نے قسم کھائی ہے کہ ہم نہیں سدھریں گے ، بڑی بڑی مباحث کریں گے ، تصویر کے جائز ناجائز ہونے پر ، مکھی کو چائے میں ڈبونے سے لیکر ہم باتھ روم کے کموڈ کے حلال یا حرام ہونے پر سوالات کر لیں گے بحث کر لیں گے ۔ ۔ مگر کبھی بھی اپنے آپ کو بدلنے پر غور نہیں کریں گے ۔ ۔ ۔

    ReplyDelete
  59. You are an awful person Aniqaa.

    ReplyDelete
  60. باقی باتیں اپنی جگہ۔ اسامہ بن لادن کی تصویر الٹی لگا کر دلیل کو سچ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔ پس منظر میں لفظ اللہ الٹ دکھائی دے رہا ہے۔
    القاعدہ رہنما نے دستی گھڑی ہمیشہ اپنے دائیں ہاتھ پر پہنی۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ