Saturday, June 12, 2010

پیریاڈک ٹیبل، ترتیب اور خصوصیات-۲

گذشتہ سے پیوستہ
گروپ میں رجحانات؛
ایک گروپ کے تمام ارکان ویلینس شیل یعنی سب سے آخری والے شیل میں ایک جیسے الیکٹرون رکھتے ہیں۔ اس وجہ سے انکی خصوصیات ملتی جلتی ہوتی ہیں۔ تمام ارکان اسی حساب سے اپنے ایٹمی قطر یا ریڈیئس، آئونازیشن انرجی اور الیکٹرو نیگیٹیویٹی یا برقی منفیت میں تبدیلی دکھاتے ہیں۔کسی گروپ میں اوپر سے نیچے آتے ہوئے ایٹمی نمبر بڑھتا ہے یعنی الیکٹرون کی تعداد بڑھتی ہے انہیں زیادہ مدار یا شیل چاہئیے ہوتے ہیں، وہ نیوکلیئس سے دور ہوتے جاتے ہیں اور یوں عناصر کے ایٹموں کا سائز بڑھتا ہے۔
 زیادہ دور ہونے کی وجہ سے نیوکلیئس کا الیکٹرون پہ اثر کم ہو جاتا ہے وہ انہیں اپنے ساتھ مضبوطی سے باندھ کر نہیں رکھ سکتا یوں اس ایٹم کو آئن بنانے کے لئے سب سے باہر والے الیکٹرون یعنی ویلینس الیکٹرون کو اس ایٹم پہ  سے ہٹانے کے لئے کم توانائ خرچ کرنا پڑتی ہے یعنی  کم آئیونائزیشن انرجی۔ اوپر سے نیچے جاتے ہوئے چونکہ الیکٹرون مرکزے سے دور ہوتے جاتے ہیں اس لئے انکی برقی منفیت بھی کم ہو جاتی ہے۔

پیریڈ میں رجحانات؛
ہر پیریڈ الکلی دھات سے شروع ہوتا ہے اور نوبل گیس پہ ختم ہوتا ہے. اس میں جو رجحانات نظر آتے ہیں وہ ایٹمی قطر ریڈیئس، آئیونائزیشن انرجی، اور برقی منفیت شامل ہیں۔ الکلی دھاتوں کی طرف سے جیس جیسے ایک پیریڈ میں آگے بڑھیں یعنی نوبل گیس کی طرف جائیں تو ایٹمی قطر کم ہوتا جاتا ہے۔ الیکٹرون مرکز کے قریب آجاتے ہیں اور مرکزے کا اثر بڑھتا جاتا ہے جسکے نتیجے میں الیکٹرون کو اس ایٹم پر سے ہٹانے کی توانائ یعنی آئیونازیشن انرجی بڑھتی جاتی ہے۔ جتنا مضبوطی سے الیکٹرون  جڑے ہونگے آئیونازیشن انرجی اتنی ہی زیادہ ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے ایٹم کی برقی منفیت بھی بڑھ جاتی ہے۔ یعنی بانڈ بنانے کی صورت میں وہ دوسرے ایٹم کے الیکٹرونز کو بھی اپنی طرف کھینچ کر رکھے گا۔


جدید پیریاڈک ٹیبل کے علاوہ بھی عناصر کو مختلف ٹیبلز میں ترتیب دیا گیا ہے۔ اگر آپ اس میں دلچسپی رکھتے ہیں تو ضرور اس لنک پہ جائے۔ یہاں اس حوالے سے ایک خزانہ موجود ہے۔
اب آپ تھک گئے ہونگے تو آپکے لئے موسیقی کا بندو بست ہے مگر خیال رہے یہ پوسٹ پیریاڈک ٹیبل سے متعلق ہے۔ آئیے سنتے ہیں۔

اور اگر اپنے بچے کو کیمیاء پڑھانے سے دلچسپی پیدا ہو گئ ہے تو اسے یہ والاگانا سنائیے۔ یاد کر لے تو دنیا کی مشہور کیمیاء سے متعلق اداروں کے خواب دکھانا شروع کر دیں۔

بچوں کے لئے

حوالہ

12 comments:

  1. یہ لنک بہت زبردست ہے۔۔۔ لیکن سارا مواد کسی ویلے ٹیم پڑھنا پڑے گا۔۔۔اور پتا نہیں سمجھ بھی آتی ہے کہ نہیں۔
    پانچویں قسط کا انتظار ہے۔۔۔اور ہوم ورک چونکہ آپ چیک نہیں کر رہیں۔۔۔اس لیے میں بھی نہیں کر رہا۔

    ReplyDelete
  2. عثمان، بھئ ہوم ورک کیسے پہلے چیک کر سکتی ہوں۔ صبح سے اٹھ کر ان پوستوں کا اپنے انجام تک پہنچایا ہے۔ کچھ ٹیکنیکل مسائل حل ہو کر نہیں دے رہے تھے انکے دوسرے حل سوچے۔ ابھی یہ سب ایک نتیجے تک پہنچا رہی تھی کہ بیٹی صاحبہ اٹھ گئیں۔ انکا وقت شروع ہو گیا۔ اور اب زیادہ تر وقت انکے پاس رہے گا۔ اس قسم کے سارے کام میں انکے سونے یا کسی اور کے ساتھ مصروف رہنے کے وقت کرتی ہوں۔ ورنہ ہم دونوں ماءوس کو قابو کرنے کے عظیم مسئلے میں الجھے رہیں۔
    سیبورگ نے جو تجویز کئے تھے انکی تعداد کوئ ایک سو چھپن تک پہنچتی ہے۔ لیکن نظریاتی طور پہ میرا خایل ہے کہ کہا تو جا سکتا ہے کہ لامحدود عناصر بنائے جا سکتے ہیں۔ لیکن بہر حال نصف زندگی کے علاوہ بھی اور پیرا میٹرز ہونگے۔ یہ سارا کھیل تو فی الحال الیکٹرون کی مدد سے کھیلا جا رہا ہے۔ تو اسکی اپنی محدودیت ضرور ہوگی۔ لیکن سائینس تو مسلسل تخیل سازی اور نئے نظریات کے وجود میں آنے کا نام ہے۔ اوربطور ایک سائینس کے طالب علم کے منیں یہ کہہ سکتی ہوں کہ کوئ بھی خیال نا ممکن نہیں۔ لیکن ، ہر ایک اپنے ارتقاء کے مراحل سے گذرتا ہے اور وقت لیتا ہے۔ اور اس وقت شاید ہم نہ ہوں۔

    ReplyDelete
  3. سچی مچی بتاوں تو بڑی کوشش کی ان کیمیائی تحریروں کو خشوع خضوع کے ساتھ پڑھنے کی مگر دماغ جنجنا اٹھا۔اس لئے معذرت۔آپ کی محنت قابل تحسین ھے۔ہم کچھ نہ سمجھنے کے باوجود آپ کے مشکور ہیں۔

    ReplyDelete
  4. انٹر تک کیمسٹری ہم نے بڑی مشکلوں سے پاس کی اور یونیورسٹی میں آتے ہی سب سے پہلے کیمسٹری سے چھٹکارا حاصل کیا۔ کاش اس وقت آپ کا بلاگ ہوتا تو ہم کیمسٹری سے اتنے نابلد نہ ہوتے۔۔
    :)

    ReplyDelete
  5. محترمہ کیمیاء عربی لفظ ہے اور یہ عربون کی ایجاد ہے-- یہ جملہ عرصہ سے سن رھا ھوں --اپ کافرون کا حوالہ کیون دیتی ہو! اور پوچھے انسے کہ کیا کیمیاء داخلِ نصاب ہے سر ھلاتے ہین-- پھر ایک جملہ دوھراتا ہون "آپ سانسی مضامین کتنی اسانی سے اردو مین لکھتی ہو"

    ReplyDelete
  6. شکریہ
    شکریہ
    شکریہ
    شکریہ

    ان تمام معلوماتی پوسٹوں کیلیے۔

    ReplyDelete
  7. سعد، پہلے تو میں یہ جاننا چاہونگی کہ ڈفر کی کون سی ڈفری کے بعد آپکو ایسا لگتا ہے۔
    میں اپنی کچھ تحریریں تاریخ کے حوالے سے لکھ رہی ہوں۔ جنکا نام رکھا ہے نئے افکار، انکا حصول اور ترویج'، ہو سکتا ہے کہ آپکی نظروں سے گذری ہوں۔ میں نے انہیں ذرا گیپ دے کر لکھنا چاہا تو درمیان میں کچھ زیادہ ہی گیپ آگیا۔ اب اگر یہی سلوک میں سائینس کے ساتھ کروں تو تسلسل کے ٹوٹنے کا اس پہ خاصہ برا اثر ہوگا۔ اس لئےایک موضوع کو میں نے ایک ساتھ ختم کر دینے میں ہی بہتری سمجھی۔ اب بہت عرصے کے لئے پیریاڈک ٹیبل کی چھٹی ہو گئ۔ جو لوگ اس سے کچھ سیکھنا چاہیں گے انکے لئے تمام مواد بآسانی دستیاب ہے اور انہیں اسے مختلف جگہ چھاننا نہیں پڑےگا۔

    نیٹ پہ میرا تھیسس دیکھنے کے لئے ، گوگل سرچ میں میرا نام لکھئیے اور لفظ تھیسس لکھئیے۔ مل جائے گا۔ اسکا لنک تو مجھے بھی یاد نہیں۔ میرے پاس اصل کاپی موجود ہے۔
    :)
    انگریزی میں میرا نام اس طرح لکھا جاتا ہے۔
    Aniqa Naz
    یہ بھی تو آپکا ہی بلاگ ہے۔
    :)
    ممکن ہوا تو ضرور ایسا کرونگی۔ وعدہ نہیں کرتی۔

    ReplyDelete
  8. سعد، پہلے تو میں یہ جاننا چاہونگی کہ ڈفر کی کون سی ڈفری کے بعد آپکو ایسا لگتا ہے۔
    میں اپنی کچھ تحریریں تاریخ کے حوالے سے لکھ رہی ہوں۔ جنکا نام رکھا ہے نئے افکار، انکا حصول اور ترویج'، ہو سکتا ہے کہ آپکی نظروں سے گذری ہوں۔ میں نے انہیں ذرا گیپ دے کر لکھنا چاہا تو درمیان میں کچھ زیادہ ہی گیپ آگیا۔ اب اگر یہی سلوک میں سائینس کے ساتھ کروں تو تسلسل کے ٹوٹنے کا اس پہ خاصہ برا اثر ہوگا۔ اس لئےایک موضوع کو میں نے ایک ساتھ ختم کر دینے میں ہی بہتری سمجھی۔ اب بہت عرصے کے لئے پیریاڈک ٹیبل کی چھٹی ہو گئ۔ جو لوگ اس سے کچھ سیکھنا چاہیں گے انکے لئے تمام مواد بآسانی دستیاب ہے اور انہیں اسے مختلف جگہ چھاننا نہیں پڑےگا۔

    نیٹ پہ میرا تھیسس دیکھنے کے لئے ، گوگل سرچ میں میرا نام لکھئیے اور لفظ تھیسس لکھئیے۔ مل جائے گا۔ اسکا لنک تو مجھے بھی یاد نہیں۔ میرے پاس اصل کاپی موجود ہے۔
    :)
    انگریزی میں میرا نام اس طرح لکھا جاتا ہے۔
    Aniqa Naz
    یہ بھی تو آپکا ہی بلاگ ہے۔
    :)
    ممکن ہوا تو ضرور ایسا کرونگی۔ وعدہ نہیں کرتی۔

    ReplyDelete
  9. زین خان صاحب، آپکا شکریہ۔ آپ نے بجا فرمایا کہ ہم مسلمان محض اس بات سے خوش ہیں کہ کیمیاء عربی زبان کا لفظ ہے اور جابر بن حیان کو بابائے کیمیاء کہا جاتا ہے۔
    یہ کہانی اس زمانے کی ہے جبکسی بھی دھات کو سونے میں تبدیل کرنے کی مہم چلی ہوئ تھی۔ دراصل کیمیاء نے انسان کی اس ہوس کی وجہ سے ہی جنم لیا کہ شاید کوئ ایسا طریقہ ہو کہ کسی بھی دھات کو سونے میں تبدیل کیا جا سکے۔ لوگوں نے ایک زمانے میں اپنی پوری پوری زندگی اور مال و متاع اس چیز کے سیکھنے پہ لگادیا۔ نتیجے میں کافی ساری نئ ٹیکنیکس ملیں۔ لیکن وہ خواب پورا نہ ہوا جو دیکھا گیا تھا۔ سو آہستہ آہستہ اس سے لوگوں کا دل ہٹ گیا۔ مسلمانوں نے جب اس بات پہ اپنایقین پختہ کر لیا کہ اللہ کی باتیں اللہ ہی جانے تو جو سیکھا تھا وہ بھی ختم ہوگیا۔ مگر خدا نے اپنی سنت نہیں چھوڑی اور وہ یہ کہ جو کوششش کرتا ہے خدا اسے اسکی کوششوں کاپھل ضرور دیتا ہے۔ اس میں اسکے یہاں اس چیز کی تخصیص نہیں کہ وہ صرف مسلمان کو نوازے گا، صرف نیک اور متقی لوگوں کو نوازے گا، صرف اپنے فرمانبرداروں کو نوازے گا۔

    ReplyDelete
  10. آپ کے اوپر دیے گئے کمنٹ کا آخری پیراگراف زبردست ہے۔ آپ کے دو تین کمنٹس میں نے کاپی پیسٹ کرکے اپنے کپمیوٹر پر محفوظ کئے ہوئے ہیں۔ بہت اچھے پیرائے میں بیان کی ہیں آپ نے کچھ باتیں۔ ان کمنٹس کا ریکارڈ رکھنے کے لئے کوئی تیکنیک ہونی چاہیئے۔ فی الحال تو میں یہ کام فی سبیل اللہ ہی کر رہا ہوں۔ امید ہے یہ کاپی رائٹس کے زمرے میں نہیں آتا۔ لیکن اگر آتا بھی ہو تو مجھے کیا۔۔۔۔۔میں ٹھہرا پاکستانی!

    ReplyDelete
  11. واہ زبردست اور بہترین!
    اپنا وقت تو اس سے استفادے کا گزر چکا مگر کچھ اور بچوں کو یہ ریکمینڈ کردی ہے تاکہ وہ بروقت اس سے فائدہ اٹھا لیں،اور احتیاط کے طور پر خود بھی یہ تمام پوسٹ سیو کر لی ہیں،
    میں تو اصل میں آپکا شکریہ ٹام لہرر کے ان گیتوں کے لیئے ادا کررہا ہوں جو اس پوسٹ کے ذریعے مجھے ملے خاص کر نیشنل برادر ھڈ ویک اور سینڈ دی مرینز !
    ؛)

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ