Thursday, June 24, 2010

الٹا سیدھا

میری ایک عزیزہ ایک دن صبح صبح ہی تشریف لے آئیں۔ معلوم ہوا کہ انہوں نے اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کو ہمارے گھر کے نزدیک ایک مونٹیسوری میں داخل کرادیا ہے اور چونکہ آج پہلا دن ہے تو وہ اسے چھوڑنے آئ تھیں۔ لگے ہاتھوں ہماری باری بھی آ گئ۔ ناشتے میں انکی گپیں بھی شامل ہو گئیں۔ پوچھا کہ اپنے گھر سے اتنی دور یہاں کیوں داخل کرایا ہے۔ کہنے لگیں۔ کافی لوگوں سے اسکی تعریف سنی تھی کہ اسلامی ماحول رکھتے ہوئے بچوں کو پڑھاتے ہیں۔ پوچھا، لیجئِے اسلامی جمہوریہ ملک بنانے کے بعد  اب اس میں بھی اسلامی اسکول کی ڈیمانڈ آگئ۔ سوچ لیں، اسکا آغاز تو خوشنما ہے، اسکا انجام اچھا نہیں ہے۔ ویسے اک بات بتائیں موبٹیسوری کی تعلیم اسلامی ہے کہ غیر اسلامی۔ کوئ جواب دئیے  بغیرمسکرا دیں۔

وہ کچھ عرصے پہلے سعودی عرب میں تین مہینے گذار کر آئی تھیں اوروہاں انہیں احساس ہوا کہ وہ ایک بہتر مسلمان نہیں ہیں۔ تو اپنے آپ کو بہتر مسلمان بنانے کے لئے انہوں نے اسکارف  پہننا شروع کیا۔ اور اپنے سب سے چھوٹے چار سالہ بچے کو اسلامی مونٹیسوری میں ڈالنے کا فیصلہ۔
خیر، ہلکی پھلکی باتوں کے ساتھ وہ کچھ دیر رکیں اور چلی گئیں۔ اسکے تین چار مہینے بعد ایک خاندانی تقریب میں ملاقات ہوئ۔ میں نے شکوہ کیا ۔ آپکے بچے کا اسکول ہمارے گھر کے پاس آگیا مگر پھر بھی آپ دوبارہ نہیں آئیں۔ کیسا چل رہا ہے اسکا اسکول۔ کہنے لگیں کہ  کہاں، ہم نے تو اسے ایک مہینے بعد ہٹا لیا۔ وہ کیوں؟ میں نے حیران ہو کر پوچھا۔ اب انکے پاس ایک کہانی موجود تھی۔
ہوا یوں کہ اس بچے کے ساتھ انکے محلے کا ایک اور بچہ بھی وہاں داخل ہوا تھا۔ اسکول آتے جاتے جب اس بچے کو پندرہ دن ہو گئے تو ایکدن وہ اس دوسرے بچے کے گھر گئیں۔ دیکھا تو وہ بچہ اپنا اسکول ہوم ورک کرنے میں مصروف تھا۔ معلوم ہوا کہ اس بچے کو روزانہ ہوم ورک ملتا ہے۔ انہوں نے سوچا میرے بچے کو تو کوئ ہوم ورک نہیں ملتا اگلے دن اسکے اسکول گئیں۔ اسکول والوں نے کہا کہ آپکے بچے کو تو ہم ابھی پینسل پکڑنا سکھا رہے ہیں ابھی تو اسے پینسل پکڑنا ہی نہیں آتی۔ انہوں نے کہا ، نہیں تو وہ تو اچھا خاصہ لکھ لیتا ہے۔ جواب ملا نہیں، وہ تو پینسل بھی ٹھیک سے نہیں پکڑتا۔ اب انہوں نے دل میں سوچا کہ ہو سکتا ہے ابھی اسکول کے ماحول سے شناسا نہ ہوا ہو اور ہچکچاتا ہو۔ زیادہ اصرار کرنے پہ ایسا نہ ہو کہ بچہ سب کے سامنے سبکی کرادے۔ واپس آگئیں۔
اسی طرح مزید پندرہ دن گذر گئے۔ پھر جی کڑا کر کے  اسکول گئیں۔ وہی جواب ملا، ابھی تو اسے پینسل پکڑنا ہی نہیں آتی۔ ماں تھیں۔ اس دن اپنے بچے کے اس احساس محرومی سے شدید دلبرداشتہ تھیں کہ اسے ہوم ورک نہیں ملتا۔  کہنے لگیں بلائیے ذرا میرے بیٹے کو اور میرے سامنے لکھوائیے۔ گھر پہ تو آرام سے لکھتا ہے آپ کہتی ہیں اسے لکھنا تو الگ پینسل پکڑنا  نہیں آتی۔ بچے کو بلایا گیا۔ اسکے ہاتھ میں پینسل کاغذ دیا گیا۔ ماں نے چمکارا بیٹا الف ب لکھ کر دکھاءو۔ اس نے پینسل پکڑی اور الف ب لکھنا شروع کر دیا۔

اب عزیزہ کا اعتماد بحال ہوا تو پرنسپل کے کمرے میں موجود ٹیچر کو شعلہ برساتی نظروں سے دیکھا کہ دیکھ لیں پینسل بھی پکڑی ہوئ ہے اور لکھ بھی رہا ہے۔ جواب ملا۔ یہ تو الٹے ہاتھ سے لکھ رہا ہے۔ آپ نے اپنے بچے کو یہ نہیں سکھایا کہ اسے سیدھے ہاتھ سے لکھنا چاہئیے۔ الٹا ہاتھ استعمال کرنا غیر اسلامی ہے۔
بس اسکے اگلے دن سے انہوں نے اسے وہاں نہیں بھیجا۔

باز آئے ایسی محبت سے 
اٹھا لو پاندان اپنا
یہاں اس شعر میں پاندان کی جگہ کامران کر دیجئیے کہ یہی اس بچے کا نام ہے۔ 

32 comments:

  1. دین میں‌ صرف کھانا کھانا اور استنجا کرنے میں ہی ہاتھ کی تخصیص کا اصرار ہے۔ اور یہ صرف احسن عمل کے زمرے میں آتا ہے۔ گناہ کوئی نہیں۔
    باقی لکھنا اور دوسرے کام دائیں یا باہیں ہاتھ سے کرنا فطری و پیدائشی صلاحیت ہے۔ بہرحال شکر ہے کہ اُن محترمہ کو جلد ہی عقل آگئ ورنہ بچہ میڑک تک پینسل ہی پکڑنا سیکھ رہا ہوتا۔

    ReplyDelete
  2. ہم نے تو یہی سن رکھا ہے کہ دائیں ہاتھ سے سارے کام کرنے چاہیئں سوائے خباثت صاف کرنے کے۔ بچے بہت جلد نئے کام سیکھ لیتے ہیں۔ اگر محترمہ انتظار کرتیں تو بچہ ضرور دائیں ہاتھ سے لکھنا سیکھ لیتا۔

    ReplyDelete
  3. مجھے واثق یقین ہے کہ میں اپنے لئے تبصرہ جات کی لبرل جہنم کا دروازہ کھول رہا ہوں لیکن مجھے کہہ لینے دیجئے کہ اس بلاگ کا نام مشاہدات برائے 'اینیکڈوٹل ایوڈنس'ا(anecdotal evidences) بہت سجتا۔

    اب بھگتو میاں کہ مقتل میں کل کاسہ سر بھی اسی کا تھا

    ReplyDelete
  4. mamu
    یعنی ابھی تک دوسر ے مسایل تو چھوڑیں مسلماں پاکی اور ناپاکی جسیے معلامات بھی پوری طرح نہیں سمجہ سکے -
    اگر الٹا ہاتھ اتنا ہی نا پاک ہوتا تو قراں سیدھے ہاتھ سے نہیں پکڑنے کا حکم ہوتا-
    بچوں کا سارا ٹایم اور صلاحیتں تو اس میں ہی خاتم ہو جایے گی-

    ReplyDelete
  5. عشمان کی بات سے مجھے اتفاق ہے ۔ یہ الٹے سیدھے کا چکر لکھنے میں سمجھنے سے بالا تر ہے ۔

    ReplyDelete
  6. عدنان مسعود صاحب، اسکا جواب سر دست اتنا ہی ہے کہ کہتا ہوں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہیں مجھے۔
    اس بلاگ پہ پیش کئے جانےوالے تمام واقعات، کردار و مقام کی تبدیلی کے ساتھ بالکل درست ہوتے ہیں۔ موجودہ واقعے میں میرا فی الوقت کوئ تبصرہ نہیں ہے۔ موضوع اپنے پڑھنے والوں کے لئے کھلا ہے۔ وہ جو چاہیں اسے معنی پہنائیں۔ اگر کوئ بھی پڑھنے والا اس پہ مفصل تبصرہ اپنے بلاگ پہ کرنا چاہتا ہے تو براہ مہربانی بتادے۔ تاکہ اس موضوع پہ دلچسپی رکھنے والے لوگ اسے وہاں جا کر شاید، اور میں بالخصوص پڑھ لوں۔

    ReplyDelete
  7. حیرت ہےِ۔۔۔اس بلاگ پر جا بجا لبرل ہونے کی بھُبتی کسی جاتی ہے۔۔حالانکہ مجھے کوئی ایسی بات نظر نہیں‌ آئی بلکہ چند پُرانی تحاریر پڑھ کر روایت پسندی کا شائبہ ہوا۔۔۔جو اپنی جگہ ٹھیک ہے۔

    میں لبرل پارٹی آف کینیڈا کا ووٹر ہوں۔ اگر فلسفہ زندگی، مذہب، مابعدالطبیات، تہذیب اور سماج کے متعلق میں‌اپنی خودکلامی بلاجھجک بیان کردوں‌ تو چند ہی تحاریر میں قابل گردن ذنی قرار پاؤں۔

    ReplyDelete
  8. ایک ان خاتونہ کی غلطی یہ تھی کہ وہ عرب گئیں اور اپنے ناقص اسلام کو سکارف سے صحیح کرنے کی کوشش کی جس سےان کے دماغ کو تازہ ھوا ملنا بند ھو گئی۔
    دوسری غلطی یہ کی کہ اسکول کے جو معتبر اساتذہ تھے ان کی ذھنی حالت نفسیات کے ماہر سے چیک نہیں کروائی۔اور محلے کا جو دوسرا بچہ تھا وہ لازمی کسی مولوی کا ھوگا۔اچھا ھوا انہوں جلدی بچے کو سکول سے ھٹا لیا نہیں تو سیدھے ھاتھ استنجا کروانا سکھا دیتے سکول کے معزز اساتذہ۔

    ReplyDelete
  9. کچھ بچے فطرتاً بائیں ہاتھ سے کام کرنے میں آسانی محسوس کرتے ہیں اور لکھنے کے لئے بھی وہ بایاں ہاتھ ہی استعمال کرتے ہیں۔ ایسے بچوں کو بھی اگر کچھ دن پریکٹس کرائی جائے تو وہ سیدھے ہاتھ سے بھی لکھنا سیکھ جاتے ہیں لیکن صرف اس بات پر ہوم ورک ہی نہ دینا قطعی غیر مناسب ہے۔

    ReplyDelete
  10. ویسے اس بارے میں کوئی احادیث یا روایات موجود ہیں کہ دائیں ہاتھ یا بائیں ہاتھ سے کیا کرنا چاہیئے اور کیا نہیں۔۔؟

    ReplyDelete
  11. یار بھائی عین لام میم۔۔
    حکم کرو۔۔۔لوگ تو دائیں اور بائیں ٹانگ کے فرائض پر "احادیث" نکال کر رکھ دیں گے۔

    ReplyDelete
  12. عنیقہ،
    آپ کے ڈاکٹر صاحب کے بلاگ پر نظر ڈالی ہے۔ پہلے ہی منٹ میں دو ایسے تبصروں پر نظر پڑی کہ اگر ان میں لکھے گئے الفاظ اردو ترجمہ کرکے ادھر نقل کر دیئے جائیں۔۔۔تو ہم اردو بلاگستان والوں کو بلاگ بند کرنا پڑ جائے۔ وہاں تو لوگ ایک دوسرے کو کھلم کھلا جنسی القابات سے نواز رہے ہیں۔ اور ادھر یہ حال ہے کہ اگر بلاگی خواتین کو آپی، باجی وغیرہ کرو تو ناک چڑھا کر پوسٹیں لکھتی ہیں۔
    اردو اور انگریزی بلاگنگ کے موازنے میں‌تھوڑا تو انصاف کیجئے۔
    کچھ اور بھی کہنا تھا۔۔لیکن آپ کے موڈ کا پتا نہیں‌ چلتا۔۔۔کیا معلوم کب بگڑ جائیں۔

    ReplyDelete
  13. ان خاتون کو ميری اماں کا پتہ دے ديں ايسی دينی و دنياوی تربيت فرمائيں گی کہ ماں بيٹا دونوں کامران ہو جائيں گے بس ہاتھ ميں تسبيح ہو گی اور منہ سے پھول جھڑ رہے ہوں گے پھول کی جگہ آپ جو چاہے فٹ کر ليں

    ReplyDelete
  14. مجھے تو یہ بات ہی سرے سے جھوٹ لگ رہی ہے۔ آج کل کے زمانے ایسا کون جاہل ہو گا جو ایسی حرکت کرے؟
    اگر بچہ الٹے ہاتھ سے لکھتا ہو تو کبھی نہیں دیکھا گیا کہ کوئی اسے منع کرے۔
    مصنفہ نے صرف دین کے خلاف اپنی لاتعلقی کا ثبوت دینا تھا۔

    ReplyDelete
  15. عثمان، یہ جو آپ نے لبرل والی بات لکھی ہے۔ تو جناب آپ بے دھڑک لکھئیے۔ اگر کوئ مرد ایسی باتیں لکھیں تو یہ عام طور پہ مردانہ فکر کیاعلی اڑآن کا باعث ہوتی ہے۔ ویسے بھی مردوں کی اس بلاگی دنیا میں کوئ عزت نہیں، انکے حصے میں غیرت آء ہے۔ خواتین دو قسم کی ہوتی ہیں ایک وہ جو پیاری ہوتی ہیں اور اپنی عزت کا خیال رکھتی ہیں، اور دوسری جو پیاری نہیں ہوتیں، اور انکو درست کرنے کے لئے یونی مروجہ قانون کے مطابق پیارا بنانے کے لئے عزت کا حوالہ دینے کا ہر کسی کو بنیادی حق حاصل ہوتا ہے۔
    :)
    یہ ہماری سیاسی اور سماجی صورت حال حاصل ہے۔ جب کسی خاتون کو زچ کرنے کا کوئ بہانہ سمجھ میں نہ آئے تو عزت کا سوشہ چھوڑ دیں اور جب مرد کو للکارنا ہو تو غیرت کا۔
    مرد البتہ ایکدوسرے کے خلاف ایسے سوشے بوقت شدید ضرورت ہی چھوڑتے ہیں البتہ خواتین کا پیارا نہ ہونا ہی انکے شھٹنے کا باعث ہو سکتا ہے۔
    آپ بلا خوف و خطر لکھئیے۔ ابھی سب آپکے معتقد بنتے ہیں۔
    :)
    لیکن ایک ذرا سا یہ خیال رکھئیے گا کہ ان سب تحاریر کے ساتھ بائیں بازو والوں کو برا بھلا کہتے رہیں۔ معاشرے میں پھیلتی ہوئ بے راہ روی کو نام نہاد ترقی کا باعث بتائیے۔ اور مغربی معاشرے کو کوستے رہئیے۔ انکی خواتین کو تضحیک کا نشانہ بنائیے۔ اور اپنے آپکو داد دیجئیے کہ ہم خواتین کی کتنی 'عزت' کرتے ہیں۔ بس اسکے بعد تو آپ ہٹ ہیں۔
    :)
    اور ہاں وہ میرے ڈاکٹر صاحب نہیں ہیں۔ پاکستان کے بلند بلاگرز میں انکا شمار ہوتا ہے۔ انکی ذرا سیاسی وابستگی اور سماجی پس منظر کو چھانئیے گا تو آپ یہ الفاظ فوراً واپس لیں گے۔
    :) :)
    گمنام، جب انسان ایک کنویں میں سے آسمان دیکھتا رہتا ہے تو سمجھتا ہے کہ آسمان اتنا ہی بڑآ ہے جتنا نظر آ رہا ہے۔ آپکا یہ بیان میرے لئے کوئ غیر متوقع نہیں۔ نہ آتا تو حیرت ہوتی۔ اسکول کا نام دینا اس سلسلے میں مناسب نہیں۔ مگر یہ اسکول اپنے علاقے کا نامی گرامی اسکول ہے۔ بہتر ہوگا کہ وہ تمام مونٹیسوریز جو اپنے منشور میں اس بات کا اظہار کرتی ہیں کہ مسلمہ اسلامی تربیت کے مطابق تعلیم دی جاتی ہے ان سے معلوم کیا جائے کہ اس سے انکی کیا مراد ہے۔ کیونکہ بنیادی دینی باتیں تو دوسری مونٹیسوریز میں بھی سکھائ جاتی ہیں۔ آخر یہ کس لحاظ سے مختلف ہوتی ہیں۔
    لیکن آپ یہ نہیں کریں گے۔ کیونکہ آپکو ابھی یہ نہیں معلوم کہ سیدھا الٹا ہاتھ استعمال کرنا، اسکی اسلامی حیثیت کیا ہے اور اسکا دین سے کتنا تعلق ہے کہ اسکے متعلق لکھنے والا دین سے لا تعلق قرار پائے۔

    ReplyDelete
  16. بھوتنی کے۔۔۔ ابھی تک دائیں اور بائیں کے چکر سے ہی نہیں نکل سکے۔۔۔ دین آسانی کی طرف جاتا ہے، مشکل کی طرف نہیں۔۔۔ جو چیزیں اللہ تعالٰی نے حلال کی ہیں ہم انکو حرام کرنے والے کون ہوتے ہیں؟

    ReplyDelete
  17. پہلا تو یہ کہ تبصرے میں‌ اسمائلیز لگانے کا بہت شکریہ۔ آپ کو تھوڑی دقت تو ہو گی۔ لیکن میرے جیسے غبی شاگردوں پر تھوڑی محنت تو کرنا ہو گی۔

    آپ تو اپنے زور بیان پر مخاطب الکلام کو چپ کرا دیتی ہیں۔ میں نے کچھ ایسا ویسا لکھ ڈالا۔۔تو پھنس جاؤں گا۔

    ReplyDelete
  18. ایک بچی نے تو کمال ہی کردیا یہ کہہ کے کہ رائٹ سے لیفٹ رائٹ سے اور لیفٹ سے رائٹ لیفٹ سے ۔ساری ٹیچروں سے پیار لیتی ہے اس بات پے ۔

    ReplyDelete
  19. اسماء، آپکی امی تو مجھے اس معاشرے کا مثالی دلچسپ کردار لگتی ہیں۔ آپ مجھے انکے کردار کے گرد گھومتی کہانیاں لکھ بھیجیں۔ اس بارے میں ، میں بالکل سنجیدہ ہوں۔ باقی باتوں کے لئے آپ مجھے ای میل کر سکتی ہیں۔

    ReplyDelete
  20. کیا کریں جی بچی اپنی ہے اور اسکو اپنی ہی نظر بھی لگ سکتی ہے ۔تعریف نہ کریں، کچھ تو کہہ دیں ۔

    ReplyDelete
  21. تعریف یا ۔۔۔۔ نہ کرکے تعریف یا ۔۔۔۔ کرنے کا بھی شکریہ ۔

    ReplyDelete
  22. سیدھے ہاتھ سے کھانا یا نہ کھانا یہ سب مذھب مین ہے--- لیکن جس بچے کے تعلق سے بھث ھورہی ہے...اس کا بائیں ھاھ سے لکھنا ضروری ہے --+ اگر اس کو سیدھے ھاتھ سے لکھواجائے تو اوس کی معمہرے باین طرف کرنا ھوگا یہ قطعی قطعن نامملن ہے شریعت کے لئے کیون کہ ان لوگون کا علم پرانا ھو تیا ہے

    ReplyDelete
  23. میرے کئی بہترین دوست مستند مذہبی مدارس سے فارغ ہیں جو بائیں ہاتھ سے لکھتے ہیں۔ ان میں سے ایک نے تو سولہ برس بنوری ٹاون میں تحصیل علم گزار کر حفظ القران سے تخصص تک کی تعلیم حاصل کر کے مفتی ہوا اور آج کل جامعہ کراچی سے ایم بی کررہا ہے۔ وہ بائیں ہاتھ سے لکھتا ہے، اور اسے کبھی کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔

    ReplyDelete
  24. یہ گلی گلی اگے اسکولوں اور مدرسوں کا کمال ہے،جن کی کوئی پوچھ تاچھ نہیں ہے کہ آیا انہیں چلانے والے دینی اور دنیاوی علم سے کوئی شغف بھی رکھتے ہیں یا نہیں،کوئی کراس چیک ہو تو بات بنے!

    ReplyDelete
  25. کاششف نصیر صاحب، آپ نے بجا فرمایا۔ یہاں ایک چیز کے کئ ورژن پائے جاتے ہیں۔ ممتاز عال ذاکر نائک سوٹ پہن کر اپنا لیکچر دیتے ہیں۔ اور مولانا فضل الرحمن کو شاید ہی کسی نے سوٹ میں دیکھا ہو۔ کچھ علماء کے نزدیک سوٹ غیر اسلامی لباس ہے۔ یہاں میں کراچی میں دیکھتی ہوں جتنے بھی حفظ کرانے والے مدارس ہیں وہ بچوں کو شلوار قمیض بطور پہناتے ہیں۔ اس پہ پیش آنیوالا ایک دلچسپ واقعہ پھر کبھی سہی۔ یقیناً ان لوگوں کو اسکا سابقہ نہیں پڑا ہوگا۔ اور یقیناً اس بچے کو یہ اذیت اٹھانی پڑی۔ میں ایسے لوگوں سے بھی واقف ہوں جو اسی قسم کی بے ضرر مگر نایاب عادتوں کی بناء پہ منحوس ہونے کا خطاب پا چکے ہیں۔ مثلاً پیٹ کے بل سونا۔

    ReplyDelete
  26. شلوار قمیض والے واقعے کا خاص نمبر کب شائع کر رہی ہیں۔ بڑی شدت سے انتظار ہے۔

    ReplyDelete
  27. میرے خیال سے شلوار قمیض کا تعلق مذہب سے ذیادہ شناخت سے ہے۔ راسخ العقیدہ علماء مغربی لباس کو استعمال نہ کرنے کی بنیادی وجہ بھی یہی بتاتے ہیں۔ میرے ایک دوست کا تعلق بلوچستان کے علاقے سبی سے ہے، وہ ایک سردار فیملی سے تعلق رکھنے اعلی تعلیم یافتہ، آزاد خیال نوجوان ہے، میں نے پچھلے تین برس میں نے اس کو کبھی نماز پڑھتے یا دین کا حوالہ دیتے ہوئے نہیں دیکھا، ساتھ ہی میں نے اسکو کبھی پینٹ شرٹ یا کسی ولائتی لباس میں بھی نہیں دیکھا۔ بلکہ کئی دفعہ تو اس نے مجھے صرف اس احساس کمتری کا شکار اور اپنی شناخت اور ثقافت سے شرمندہ قرار دیا ہے کیونکہ اس نے کبھی شلوار قمیض میں نہیں دیکھا۔

    ReplyDelete
  28. یہ تو آپ کہہ رہے ہیں۔ بیشتر راسخ العقیدہ علماء ایسا نہیں کہتے۔
    ایک عام پاکستانی خاص طور پہ ایک بلوچ یا پنجابی اس طرح سوچ سکتا ہے کہ یہ ان تہذیبوں کا قدین لباس رہا ہے۔ لیکن پاکستانی علماء اس سلسلے میں جو دلیل دیتے ہیں وہ یہ ہے کہ ایسا لباس جس میں جسم کی بناوٹ ظاہر ہو اسے نہیں پہننا چاہئیے۔ سوٹ ایک ایسے ہی لباس میں آتا ہے۔ زیادہ راسخ ایلعقیدہ کے نزدیک ہر وہ لباس جو یہودیوں اور عیسائیوں کے لباس سے مشابہت رکھتا ہو وہ غیر اسلامی ہے اور پینٹ اور سوٹ انکا لباس ہیں۔
    شلوار قمیض پہ اتنا زیادہ اصرار ہوتا ہے کہ پاکستان کے اندر بھی ایسے ادارے جو ادارے کے اندر کسی بھی وجہ سے شلوار قمیض کے پہننے پہ پابندی لگاتے ہیں۔ وہاں بعض لوگوں کے لئے یہ ایک ایشو بن جاتا ہے کہ شلوار قمیض ایک اسلامی لباس ہے اور پینٹ اور سوٹ ایک غیر اسلامی۔ یقین نہ ہو تو بہت سارے ہیومین ریسروس والوں سے گفتگو کر کے دیکھیں جو مختلف جابس کے لئے امیدوار کو منتخب کروانے کا کام انجام دیتے ہیں۔
    اس وقت کے پاکستان میں خواتین کے معاملے میں ساڑی ہندءووں کا لباس قرار پاتا ہے اور شلوار قمیض مسلمانوں کا۔ اور اگر اس وقت پاکستان میں ساڑی پہنی جاتی ہے تو کراچی سے باہر با اثر طبقے کی خواتین پہنتی ہیں۔ کراچی میں بیشتر آبادی ہجرت کر کے آنے والوں پہ مشتمل ہے اس لئے وہ اپنے پرانے طرز کے مطابق اسے پہنتی ہیں۔
    یہاں یہ بات یاد رہنی چاہئیے کہ پاکستان میں پاجامہ کرتا پہننے والے بھی لوگ ہیں۔ یہ بھی ہماری شناخت ہی ہے کہ غیر تقسیم شدہ انڈیا میں مسلمانوں کی اکثریت پاجامہ پہنا کرتی تھی۔ تو مدرسے والے پاجامہ کیوں نہیں پہناتے اور قومی شناخت صرف شلوار قمیظ کے ساتھ کیوں جڑی ہوئ ہے۔ قومی شناخت تو شیروانی بھی ہے جو ایک زمانے میں مسلمان پہنا کرتے تھے۔ مگر جب فارمل ڈریسنگ کی بات ہو تو دولہا کے علاوہ باقی سب پینٹ کوٹ یا واسکٹ شلوار قمیض پہنیں گے۔ تو یہ معاملہ تو اتنا آسان نہیں رہا۔
    بلکہ مثالیں مززید دی جائیں تو اور پیچیدہ ہو جائے گا۔

    ReplyDelete
  29. ساڑھی کی بابت ازراہ معلومات پوچھ رہا ہوں کہ ساڑھی سے تو پیٹ ننگا رہتا ہے اور سینہ بھی پوری طرح نہیں ڈھکا جاتا تو پاکستان میں ‌مسلمان خواتین اس کا کیا انتظام کرتی ہیں؟

    ReplyDelete
  30. عثمان، اسکے لئے آپکو کچھ عرصہ آ کر کراچی رہنا پڑےگا۔
    عریانیت کے لئے دنیا کا ہر لباس ایک موزوں لباس ہے۔ چاہے وہ دس گز کا برقعہ ہی کیوں نہ ہو۔
    :)

    ReplyDelete
  31. ماشااللہ زاکر نایک کو تو عالم مان لیا مجھے مفتی کب مان رہے ہیں حضرات لوگ بس جی فرق تو صرف اتنا ہے کہ میں سٹیج پر چڑھ کر ابی تک تقریر نہیں کی

    ReplyDelete
  32. انکل ٹام، جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا۔ اسٹیج پہ چڑھیں، تو ہی یہ خطاب ملے گا۔
    :)

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ