Thursday, February 18, 2010

نئے افکار انکا حصول اور ترویج-۵


 یہ ہے وہ چھاپہ خانہ جو سولہویں صدی کے یوروپ کی بیداری میں حصے دار ہے۔ یہ وہی چھاپہ خانہ ہے جو مغل بادشاہ اکبر کے زمانے میں جب ہندوستان کی سر زمین پہ اجازت باریابی چاہ رہا تھا تو بادشاہ نے یہ کہہ کر اسے خوش آمدید نہ نہا کہ اس سے ہندوستان میں فن کتابت ختم ہو جائیگا۔

یوروپ کے دور تاریک کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آٹھ سو سن عیسوی میں شورع ہوا اور اٹھارویں صدی میں اس سے نجات پائ گئ۔ لیکن تاریخ میں ایسی تبدیلیوں کا کوئ معین دن نہیں ہوتا۔  قوموں کی پیدائش اور موت کا دن مقرر کرنا اتنا آسان نہیں۔کیونکہ یہ تبدیلیاں زیادہ تر انتہائ خاموشی سے دستک دیتی ہیں اور پھر حالات کے گرد اپنا ایسا جال بن جاتی ہیں کہ انکی وجوہات کو صحیح طور سے جانچنے پہ بھی بڑی محنت کرنی پڑتی ہے۔ بہرحال سولہویں صدی کا یوروپ اب بیدار ہونے کو تیار تھا
چھاپے خانے نے کتابوں تک پہنچ کو آسان بنا دیا۔ اور وہ کتابیں جن سے غیر یوروپین علم نے بارہویں صدی میں یوروپ کے اندر جگہ بنائ تھی اب ان تک زیادہ تر لوگ پہنچ سکتے تھے۔ یونانی کتابوں کے میسر لاطینی تراجم کا انگریزی میں ترجمہ ہوا۔
چودھویں صدی کے وسط میں جب قسطنطنیہ کا سقوط ہوا تو یونانی مفکر اور انکی تصنیفات یوروپ میں چھا گئیں۔ انسان نے اپنی آنکھیں اپنے داخل سے ہٹا کر پھر کائنات پہ مرکوز کیں اور سائینسی انکشافات نے جنم لینا شروع کیا۔یہ سب کچھ اس لئیے  بھی ہوا کہ ابن رشد اور ابن خلدون نےعقلی تحریکوں کو تقویت دی تھی۔
یوروپ کے پر تشدد مذہبی حالات نے وہاں کے انسان کو مذہب سے ہٹا کر عقل سے قریب کر دیا تھا چنانچہ یہاں ابن رشد کا استدلالی طریقہ مشہور ہوا۔ فلپ حطی نے 'عربوں کی تاریخ' میں لکھا کہ'دور وسطی کے مغربی متکلمین  اور اہل قلم کے ذہنوں میں جتنا ہیجان ابن رشد نے برپا کیا اور کسی نے نہیں کیا'۔
مسلمانوں کی علمی شمع اب بجھ رہی تھی اس لئیے ابن رشد کی روشنی سے یوروپ نے اپنی قندیلوں کو روشن کیا۔ اس طرح سے عیسائ کلیسا کے خلاف پیدا ہونے والی تحریک سے کلیسا ابن رشد کے دشمن ہو گئے اور اسے بے تحاشہ گالیاں دینے لگے۔ اور ایک زمانہ ایسا بھی آیا کہ یوروپین تعلیم گاہوں میں ان کتابوں کا پڑھانا ممنوع ہو گیا اور بعض جگہ جلا بھی دیا گیا۔
 مسلمانوں کے دور زوال میں ابن خلدون نے جنم لیا وہ سائینسی طرز فکر کے حامی تھے اور جس نظرئیے پہ ابن رشد، ارسطو کی مدد سے پہنچا اس پہ ابن خلدون اپنے نظریہ ء تاریخ  سے پہنچا۔ وہ اپنی نسلی تعصبات سے بلند تھا اور عرب نژاد ہونے کے باوجود یہ کہتا تھا کہ 'عرب تہذیب و تمدن کے دشمن ہیں اور دنیائے اسلام میں علوم و فنون کے حامل عجم ہیں'۔ ابن خلدون نے عربی مزاج کی بدویت کو پہچانا اور آزاد فکر کی روش پیدا کی۔ یہ اتنا بڑا کارنامہ تھا کہ ٹائن بی نے بھی اسکی تعریف کی اور ابن خلدون کو فلسفہ ء تاریخ کا پیش رو قرار دیا۔
 چھاپہ خانہ نے بائبل کو بھی ایک عام عیسائ کے ہاتھوں میں پہنچا دیا اور اب بائبل کا مطالعہ بھی ایک عام کتاب کی طرح کیا جا سکتا تھا۔ بائبل کو اب پرانے عقائد کے بجائے نئے طریقہ ءکار سے پڑھا جاتا تھا۔
اسکے بعد بارود  اور مقناطیسی گھڑی کا استعمال ، انہوں نے نے زندگی کے دھارے کو تبدیل کر دیا۔ واسکو ڈی گاما نے نے ہندوستان پہنچنے کا نیا بحری راستہ نکالا اور کولمبس نے امریکہ دریافت کر لیا۔ کوپر نیکس نے اس وسیع کائنات میں زمین کو محض ایک سیارہ قرار دیا جو سورج کے گرد حرکت کر رہا ہے اور اس سے اپنے حصے کی روشنی لیتا ہے اور اسکی اس بات کی تصدیق گلیلیو گلیلے نے کی۔ کائنات کے اس نئے تصور نے انسان کے کائنات میں مرتبے کو متائثر کیا اور اسکے بہت سارے نظریات کو تبدیل کر دیا۔
زمانے نے کروٹ لی اور انسان زراعت سے تجارت کی طرف متوجہ ہوا۔  جاگیر داری نظام اپنے اختتام کی طرف بڑھا اور اس طرح متوسط طبقے پہ مشتمل انسانوں کے اس گروہ نے جنم لیا۔ جو اب چیزوں کو استدلالی نکتہ ء نظر سے دیکھتا تھا۔
یہ تمام قوتیں جو تبدیلی کی قوتیں تھیں اس صدیوں کے جمود کا نتیجہ تھیں جس پر کسی محرک قوت نے اثر انداز ہونے کی کوشش نہ کی تھی۔ اس سارے ماحول کے نتیجے میں تبدیلی کے تین عناصر یعنی مذہب، فلسفہ اور سائنس ایکدوسرے کے سامنے آ کھڑے ہوئے۔ زندگی کی معنویت میں تبدیلی نے  ہر شعبہ ء زندگی میں کسی تحریک کا بیج ڈالدیا تھا۔

 لیونارڈو ڈے ونشی کی مونا لیزا  آنیوالے دنوں کے خیال سے مسکرا رہی تھی۔ جس کی تخلیق اسی زمانے کی ہے جب یوروپ زندگی کے نئے چلن سے آشنا ہو رہا تھا۔ صرف لیونارڈو ہی نہیں اس وقت کے بیشتر تخلیق کار اپنی اپنی سطح پہ مصروف بہ عمل نظر آتے ہیں۔ یوں تخلیقی بنجر پن ختم ہوا اور ایسا لگتا تھا کہ ساری فضا متحرک ہو گئ ہے۔
نوٹ؛ یوروپ کی تاریخ کا یہ سفر جاری ہے۔ آپ بھی کچھ شامل کرنا چاہیں تو خوش آمدید۔


حوالہ جات؛
اردو ادب کی تحریکیں، مصنف ڈاکٹر انور سدید
تاریخ فلاسفۃ الاسلام، مصنف محمد لطفی جمعہ
خدا کے نام پہ لڑی جانیوالی جنگ، مصنفہ کیرن آرمسٹرون۔ 
The battle for God by Karen Armstrong

5 comments:

  1. تاریخ کے دہرانے سے زیادہ تاریخ کے ہم قافیہ ہونے والی بات دل کو لگتی ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جس دور سے اہل یورپ سولہویں اور سترھویں صدی میں گزرے ہیں ہم نے اختیاری طور پر اکیسویں صدی میں ان چیزوں کا تجربہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے لیے تاریخ ہم قافیہ رہتی ہے یا ایک نئے غزل مسسل کی شروعات۔

    سلسلہ شروع سے اب تک عمدگی سے چلتا رہا ہے اور بلاگ جیسی مختصر جگہ پر شاید اس سے زیادہ طوالت ممکن بھی نا ہو لیکن چیدہ چیدہ محرکات جو تبدیلی کا باعث بنے ہیں وہ زیر بحث آتے رہے ہیں اور یہ بڑی اچھی بات ہے۔۔

    ReplyDelete
  2. لگتا ہے کہ آپ مسلسل محنت اور کوشش سے اردو بلاگنگ کو سڑک چھاپ تحریروں سے اٹھا کر دانشورانہ سطح پر پہنچا کر دم لیں گی ۔

    ReplyDelete
  3. Anonymous,is it not a good thing?
    same words I want to say to Aniqa and Riaz Shaid Sahab:)

    ReplyDelete
  4. راشد کامران صاحب، کچھ مءرخون کا اصرار ہے کہ تاریخ اپنے آپکو نہیں دہراتی بلکہ وقاعات اپنے آپکو دہراتے ہیں۔ انکے نتائج کا انحصار قومون کے مزاج، حالات کے پس منظر اور وقت کے مطالبات ان سب سے متائثر ہوتے ہیں۔
    شاید ہم یوروپ کے واقعات کو دہرا رہے ہیں تو کیا ہمیں یہ امید رکھنی چاہئیے کہ ایکدن ہم پھر بام عروج پہ پہنچیں گے۔ تاریخ یہ بھی کہتی ہے کہ ترقی پسندی کو کبھی شکست نہیں ہوتی۔ اور دیر سے صحیح مگر فتح اسی کی ہوتی ہے۔ اگر ہم اپنا جائزہ لیں تو بحیثیت مسلمان ہمیں اس حالت میں گئے آٹھ صدیوں کا وقت گذر گیا ہے اور بحیثیت پاکستانی قوم ہم کبھی اس منزل کو نہ پا سکے۔ بحیثیت پاکساتنی قوم فی الحال کیا ہماری کوئ تاریخ ہے۔
    گمنام، سب اپنے حصے کا کام کرتے ہیں اور کرنا چاہئیے۔ جس سے جتنا ہو سکتا ہے اسے کرنا چاہِے۔ کچھ نہ کرنے سے کچھ کرنا بہتر ہے۔ اردو پاکستان کے اٹھانوے فی صد لوگوں کی زبان ہے اور ہم اگر اپنی قوم کی ترقی چاہتے ہیں تو ہم میں سے ہر ایک کو اس میں شرکت کرنی ہوگی۔ مجھے یقین ہے کہ اردو بلاگنگ ایک نئ سمت نکالے گی۔ مجھے یقین ہے کہ پاکستان کو ایک نئ جہت سے آشنا کرانیوالوں میں اردو بلاگرز کا بھی بڑا ہاتھ ہوگا۔ اس وقت ہمارے پاس جتنے بھی اردو بلاگرز دل جمعی سے لکھ رہے ہیں ان سب میں سے ہر ایک قیمتی ہے۔ اور یقینی طور پہ آنیوالے وقتوں کیساتھ وہ اور زیادہ بہتر ہوتے جائیں گے کہ ان میں سے تو بیشتر لوگ ابھی اپنی عمر کی تیسری دہائ تک بھی نہیں پہنچے ہیں۔ خاص طور پہ اردو سیارہ اور منظر نامہ کو سنبھالنے والے لوگ آغاز میں ہی اتنی ذمہ داری کا ثبوت دے رہے ہیں تو یقیناً انکا مستقبل بہت تابناک ہوگا۔ مجھے ان لوگوں پہ رشک آتا ہے۔

    ReplyDelete
  5. بی بی!
    میری ذاتی رائے میں ،اس قسط میں ،موضوع پہ آپ کی گرفت کافی مظبوط ہے۔ یعنی پچھلی اقساط سے زیادہ بہتر طریقے سے آپ نے موضوع سے انصاف کیا ہے اور اسے آگے بڑھایا ہے ۔اگلے حصوں کا انتظار رہے گا۔

    بی بی! آپکے مندرجہ بالا تبصرہ بھی بہت خوب ہے مگر اسمیں شامل ، آپ کے یہ الفاظ"سب اپنے حصے کا کام کرتے ہیں اور کرنا چاہئیے۔ جس سے جتنا ہو سکتا ہے اسے کرنا چاہِے۔ کچھ نہ کرنے سے کچھ کرنا بہتر ہے۔ اردو پاکستان کے اٹھانوے فی صد لوگوں کی زبان ہے اور ہم اگر اپنی قوم کی ترقی چاہتے ہیں تو ہم میں سے ہر ایک کو اس میں شرکت کرنی ہوگی۔ " سنہری لفظوں میں لکھے جانے کے قابل ہیں۔

    اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔ آمین
    جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ