Sunday, February 21, 2010

اجازت ہے؟

میری اماں بہت ناراض ہو رہی تھیں۔ کہنے لگیں یہ جو ہم اس مسجد میں ہر جمعرات کو درس سننے جاتے ہیں تو آجکل یہاں جماعت اسلامی کی خواتین درس دے رہی ہیں۔ بالکل دماغ خراب ہو گیا ہے انکا۔ میں نے تو جانا چھوڑ دیا۔ میں اطمینان سے انکے روحانی ڈائجسٹوں کے مجموعے کی ورق گردانی کرتی رہی کہ روحانی ڈائجسٹ انہیں بہت پسند ہے۔  اور ویسے بھی ہم سب جانتے ہیں کہ وہ جب ایک دفعہ بولنا شروع کریں تو پھر وہی بولتی ہیں۔
کہنے لگیں یہ ان لوگوں نے اب ایک نیا تماشہ نکالا ہے۔ میں نے سر اٹھا کر انکی طرف دیکھا۔ اب یہ لوگ کہنے لگے ہیں کہ اپنے شوہروں کی دوسری اور تیسری چوتھی شادی کراءوو جبھی یہ شادی کا مسئلہ حل ہوگا۔ ارے انکی عقل تو ہمیں لگتا ہے کہ گھاس چرنے چلی گئ ہے۔
یہ وہ پہلا دن تو نہیں تھا جب میں نے یہ نظریہ سنا  اس سے پہلے بھی میں نے اس طرح کی بات سنی کہ یہ اسلامی احکامات سے رو گردانی کی وجہ سے ہے۔ حالانکہ اسلام میں دوسری شادی ک حکم نہیں اجازت ہے۔ البتہ یہ پہلا رد عمل ضرور تھآ جو مجھے ڈائریکٹ حاصل ہوا۔
اور اب جناب  پنجاب اسمبلی میں ہماری ایک محترم خاتون ممبر نے اس نظرئیے کی ترویج کی اور وہ بھی اسمبلی کے پلیٹ فارم سے کہ مردوں کی ایک سے زائد شادیوں پہ انکی بیگمات کو انہیں ترغیب دینا چاہئیے۔ یہی شادی کے مسئلے کا حل ہے۔ اور میں اپنی اماں کے الفاظ استعمال نہ کرنا چاہوں تو کہوں کہ انکی عقل کولہو کے بیل کی طرح ایک کولہو پہ گھومے جارہی ہے۔ یہ تو اتنی معذور ہیں کہ انکی عقل گھاس تک چرنے نہیں جا سکتی۔ اور یہ وہ لوگ ہیں جن  سے قوم یہ توقع کرتی ہے کہ وہ ملک کے بہتر مستقبل کے لئیے قانون سازی کریں گے۔ کچھ ساز کرنے کے لئیے محض آواز کا ہونا کافی نہیں اس کے لئیے انسانی دماغ کو اسکی متوازن حالت میں استعمال کرنا  آنا ضروری ہے۔
اب میں بغیر کسی حدیث اور قرآنی حوالوں کے کے اس بات کو اس طرف لیجاتی ہوں جو آجکے پاکستان کے بنیادی حقائق ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی انیس سو اٹھانوے کی مردم شماری کے نتائج کے مطابق مردوں کی تعداد عوتوں سے زیادہ ہے اور سو عوتوں کے لئیے تقریباً ایک سو آٹھ مرد موجود ہیں۔ جبکہ اسلامی رواج کے مطابق ایک عورت اور ایک مرد کی شادی ہوتی ہے تو دراصل پاکستان میں خواتین کی قلت ہو گئ ہے۔ اس قلت کے اپنے اسباب ہیں جو اس وقت ہمارا موضوع نہیں ہے۔ لیکن جہاں پہلے ہی خواتین کی تعداد کم ہو وہاں مردوں کو ایک سے زائد شادی کے مشورے دینا اور اسے شادی نہ ہونے کی وجہ سمجھنا، سوائے جہالت کے اور کسی چیز کو ظاہر نہیں کرتی۔ یہاں یہ بھی جاننا چاہئیے کہ قدرتی حیاتیاتی نظام میں تقریباً ہر اسپیشی میں مادہ کی تعداد عام طور سے زیادہ ہوتی کہ اسی میں نظام کی بقا ہوتی ہے۔
یہ وہ شدت پسند روئیے ہیں جو مسائل کے صحیح اسباب جاننے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ کسی نہ کسی طور اسے مذہب سے منسلک کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ اس سے ثواب جو حاصل ہوتا ہے۔ شاید پاکستانی عوام کو ایک لمبے عرصے تک انتظار کرنا پڑیگا کہ کب ہمارے قانون سازی کرنیوالے ادارے اور لوگ اتنا شعور حاصل کر پائیں کہ گناہ اور ثواب کے دائروں سے نکل کر مسائل کی اصل وجوہات کو جانیں اور لوگوں کی فلاح کے لئیے کچھ کر پائیں۔
معاشرے میں شادی نہ ہونا اور خاص طور پہ خواتین کی شادی کا مسئلہ، ہمارے حرص، لالچ، نمو د و نمائش اور انسانی قدرتی ضروریات کو نظر انداز کرنے سے جڑا ہوا ہے۔ اور اسے اسکے صحیح تناظر میں دیکھ کر ہی اس مسئلے کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ ورنہ تو ہم عوام حکومت سے اس بات کا مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہونگے کہ اسمبلی کی سطح  سے ایسے لطیفوں کی آمد روکی جائے اور اس قسم کے احمقانہ مشوروں کو پیش کرنے سے پہلے ممبران پہ یہ پابندی عائد کی جائے کہ وہ اعداد و شمار کو ان میں ضرور شامل کریں۔ معزز ارکان پارلیمنٹ وہاں اپنا وقت خوشگوار طریقے سے گذارنے نہیں جاتے۔ بلکہ ایک لمبے چوڑے خرچے کے بعد انہیں وہاں اس لئیے عیاشی کرائ جاتی ہے کہ وہ ملکی مسائل کا اجتماعی طور پہ کوئ حل نکالیں۔

حوالہ جات؛

15 comments:

  1. عورتوں کے مقابلے میں برسرروزگار مرد کتنے ہیں :d

    بحیثیت مرد میرا تو وچار چار کا ہی ہے لیکن بحیثیت گدھا ہمارے ملک میں کچھ کڑیاں گھر اس لئے بیٹھی ہیں کہ اول انکا بھی دماغ خراب ہے جیسے ایک کا لنک آپ نے دیا دوئم کچھ کڑیوں کے گھر والوں کا دماغ خراب ہے اور باقی کی اس لئے بیٹھی ہیں کہ لڑکے والوں کے گھر والوں ک دماغ خراب ہے لہذا ثابت ہوا ہم سارے کے سارے آہم آہم۔

    ReplyDelete
  2. قدرتی حیاتیاتی نظام میں تقریباً ہر اسپیشی میں مادہ کی تعداد عام طور سے زیادہ ہوتی کہ اسی میں نظام کی بقا ہوتی ہے۔ .....عنیقہ ناز

    بی بی ! اسمیں شک نہیں پاکستان دنیا کے جس خطے میں واقع ہے ۔ یہ خطہ شروع سے مردم خیز واقع ہوا ہے ۔ اور ایسا کیوں ہے ۔؟ اس پہ ابھی تک کوئی سنجیدہ تحقیق نہیں ہوئی ۔ خیال یہ کیا جاتا ہے کہ یہاں بسنے والی انسانی نسلوں میں جنیٹکلی یعنی حیاتاتی طور پہ وراثتی جینز میں بچیوں کی بجائے بچوں کے جینز زیادہ ہیں۔ ممکن ہے اسمیں خطے کی آب و دانہ کا بھی اثر ہو جو خطے کے باسی یعنی موجودہ پاکستان کے لوگ صدیوں سے استعمال کرتے چلے آرہے ہیں ۔ وجہ البتہ کوئی بھی رہی ہو مگر وہ وجہ نہیں ہے جو بھارت وغیرہ میں الٹرا ساؤنڈ کے ذریعے بچے کی جنس کا پتہ چلنے پہ، ہونے والی بچی کو رحمِ مادر میں قتل کروادیا جاتا ہے۔
    قدرت کے حیاتیاتی نظام کے تحت پاکستان میں بسنے والی ہر مخلوق(اسپیسی ) کے ساتھ یہ مسئلہ نہیں ہے کیونکہ انسان کے علاوہ باقی مخلوق کو اپنی نسل کی افزائش کے لئیےشادی جیسے جنجھال کی ضرورت نہیں ہوتی کہ محض جہیز کی خاطر وہ قدرت کے افزائشِ نسل کے نظام کو آگے نہ بڑھائیں۔پاکستان میں صرف حضرت انسان کو شادی کے معاملے میں ناجائز جہیز جیسی لعنت کی شرط کا مسئلہ درپیش ہےاسلئیے اگر پاکستان میں عورتوں کی تعداد جوکہ پہلے ہی کم ہے اور نہلے پہ دہلا کے مصداق محض جہیز اور شادی کپہ اٹھنے والے اخراجات کی وجہ سے پاکستان میں بہت سی بچیوں کی شادی کی عمریں گذرتی جارہی ہیں تو آپکے اس خدشے کے تحت پاکستان میں انسانی افزائش نسل پہ اسکے اثرات مزید نقصان دہ ثابت ہونگے ۔ معقول جہیز نہ ہونے کی وجہ سے اچھے خاصے عزت دار اور شرفاء کی بچیوں کی شادی نہ ہونا جہاں ایک مسئلہ ہے وہیں شادی کے لئیے انکا رشتہ دیکھ کر اور ناجائز جہیز کی شرط پوری نہ کر پائے جانےکی وجہ سے پورے خاندان کی عزت نفس کو بار بار رگڑا دئیے جانے کا مسئلہ اور بھی شدیدہے جس میں لڑکی تو اپنے آپ کو ماں باپ پہ بوجھ سمجھتی ہی ہے مگر خاندان کے باقی افراد بھی نفسیاتی پیچیدگیوں کا شکار ہوجاتے ہیں اور احساسِ محرومی میں اضافہ ہوتا ہے ۔ بعض اوقات ایسی لڑکیوں کے بھائی یا باقی افرادِ خانہ ایسے "اقدامات" پہ اتر آتے ہیں جن کا ذکر ہم آئے دن اخبارات میں پڑھتے رہتے ہیں۔

    بی بی! اس صورت میں ہمیں جہیز کی لعنت کے خلاف آواز اٹھانی چاہئ۔

    ثمینہ خاور حیات نامی بی بی،جنکا ذکر آپ نے اپنے بلاگ میں کیا ہے۔اس سارے افسانے میں انکا ذکر محض اتنا سا ہے کہ پنجاب اسمبلی کے اجلاس کے دوران شیخ علاؤالدین نے جہیز کی لعنت کے باعث لڑکیوں کی شادیاں نہ ہونے کی وجہ سے حکومت سے مطالبہ کیا کہ لڑکیوں کے لئے ملازمتوں کا کوٹہ منظور کیا جائے تانکہ برسرِروزگار ہونے کی وجہ سے ان کی شادی نہ ہونے کا مسئلہ نہ بنے۔ جس پہ پنجاب اسمبلی کے سرکاری رُکن میں نصیر کی طرف سے جواباََ یہ کہا کہ مردوں کو دو دو شادیاں کر لینی چاہئیں تانکہ کسی لڑکی کو شادی کا مسئلہ نہ رہے۔جس پہ ق لیگ کی رکن پنجاب اسمبلی ثمینہ خاور حیات کا وہ بیان آیا جسے میڈیا نے موضوع بنا رکھا ہے۔ ، جہاں تک دوسری شادی کی اجازت کا تعلق ہے انہوں نے صرف اپنے شوہر کو دوسری تیسری شادی کی اجازت دینے کا ذکر کیا ہے۔ جب میاں بیوی راضی تو کیا کر لے گا قاضی؟۔ جب قاضی کچھ نہیں کرسکتا تو ہم آپ کیسے انھیں روک سکتے ہیں۔؟

    ویسے بھی اسلام میں مرد کو یہ اجازت تو ہے ہی۔:)

    رونامہ جنگ پہ خبر کا متن اور خبر پہ اخبار کا بلاگ
    http://blog.jang.com.pk/view_comments.asp?id=4939

    ReplyDelete
  3. ۔ ایک فرمائش ہے جو لگے ہاتھ آپ کے گوش گزار کر رہا ہوں ۔ہمارے ایک جاننے والے ہیں انہوں نے ثمینہ خاور حیات کے شوہر پہ رشک کرتے ہوئے ،ہم سے فون پہ مطالبہ کیا ہے کہ انکی طرف سے میں آپکویہ گزارش کروں کہ اُس مسجد کا پتہ عنائت کر دیں ۔جہاں آپکی اماں جان ہر جمعرات کو درس سننے جاتی ہیں۔ تانکہ موصوف اُن نیک خواتین سے رابطہ کر کے انھیں اپنی خاتونِ خانہ سے ملوا سکیں تانکہ وہ نیک بیبیاں اس نیک کام میں انکی بیگم کو بھی راضی کر
    سکیں۔
    :)

    ، نوٹ۔: مندرجہ بالا پیغام کے الفاظ میرے نہیں بلکہ موصوف کے ہیں ۔نیز انکا تعلق کسی جماعت یاق لیگ وغیرہ سے نہیں

    ReplyDelete
  4. یہ تو ماننا پڑے گا کہ اجازت ہے، مگر یہ اجازت خود کتنی پابندیوں میں قید ہے کہ بڑے بڑے علماءدین نے اس مشکل میں پڑنے کی حماقت نہیں کی!
    جماعت کی خواتین کو معاف کریں وہ اپنے ذہن گروی رکھوا کر اپنے مردوں کے ذہنوں سے سوچتی ہیں اور مرد بھی وہ کہ جو دین کو صرف ایک رخ سے ہی دیکھنا پسند کرتے ہیں یعنی مردانے رخ سے!

    ReplyDelete
  5. ویسے سمجھ نہیں آتا کہ اس میں اتنا زیر و زبر و سیخ پا ہونے والی بات کیا ہے؟ مسئلہ یہی ہے نا کہ لڑکیوں کی شادی ہو جائے؟ ٹھیک؟؟؟ تو دو شادیوں کی صورت میں دو لڑکیوں کی شادی ہوگئی۔ حساب کی رُو سے تو بات ٹھیک ہے۔ ویسے بھی دنیا میں ہر چیز سپلائی ڈیمانڈ کے بنیادی قانون سے جُڑی ہے۔ پاکستان کے دس فیصد مرد بھی دو شادیاں کرلیں تو باقی ماندہ لڑکیوں کے لئے رشتوں کی قطاریں لگ جائیں لیکن ایسا سوچے گا کوئی نہیں۔ جس معاشرہ میں داشتہ رکھنے کو تو برداشت کیا جاسکتا ہو لیکن شرعی منکوحات میں اضافہ کو اخلاقی عیب متصور کیا جاتا ہو وہاں ایسا ہی ہوگا جیسا ہورہاہے۔ حدیث شریف ہے کہ نکاح کو آسان بناؤ اور زنا کو مشکل۔ خیر ہم آگے کونسا کا سائنس کے مطابق کرتے ہیں جو یہاں پر ایسی فکر میں مبتلا ہوں؟؟ جہیز وغیرہ کے چونچلے تبھی ہوتے ہیں جب مانگنے والوں کو یقین ہو کہ "تو نہیں اور سہی" عقلمند را اشارہ کافی است :)

    ReplyDelete
  6. والدہ محترمہ سے کہیں جو درس دینے والی خواتین ہیں ان سے مطالبہ کریں کہ وہ اس کی ابتداءاپنے گھر سے کریں اور پھر ان کے تاثرات ملا حظہ کریں!

    ReplyDelete
  7. خرم دوسری شادی اس صورت میں تو بڑے مزے کی بات ہے جب عورت یا تو پیر کی جوتی ہو یامحکوم،لیکن جب بیوی کو وہ تمام حقوق دینے کی بات آئے جن کا دین ہم سے تقاضہ کرتا ہے اور پورا نہ کرنے پر عبرتناک انجام کی بشارت کرتا ہے تو بہت مشکل ہے مگر جو لوگ اتنا حوصلہ رکھتے ہیں انہیں یہ مبارک کام کر کے دیکھ لینا چاہیئے!
    رہی زنا کی نوبت آنے کی بات تو یہ کام اکثر مرد اپنی آسانی کے لیئے کرتے ہیں،کیونکہ وہ عیاشی بھی کرنا چاہتے ہیں اور ذمہ داری بھی اٹھانا نہیں چاہتے مردوں کو دوسری شادی کی اجازت ضرور دی جائے مگر پہلے عورتوں کے حقوق کے لیئے قانون سازی ہونا چاہیئے موجودہ قوانین ناکافی ہیں اور ان پر بھی عمل نہ ہونے کے برابر !
    جہیز کے چونچلے اس لیئے ہوتے ہیں کہ ہم اپنے اندر کے لالچ کو مار نہیں پاتے اور مفت مال ہاتھ آئے تو برا کیا ہے والی ذہنیت اس کے پیچھے کارفرما ہوتی ہے اس کا اس بات سے ہرگز کوئی تعلق نہیں جس کا آپ نے ذکر فرمایا ہے!

    ReplyDelete
  8. بد تمیز، کیا ہوا بھئ، کیا ان لنک والی خاتون نے آپکا پروپوزل قبول نہیں کیا۔
    :)
    کوئ بات نہیں کوشش جاری تکھیں لیکن کسی اور پہ۔ کسی کا تو 'دماغ صحیح' ہوگا۔
    جاوید صاحب۔ دنیا بھر میں جتنے ممالک ہیں ان میں سے شاید چار اپنچ ممالک کے علاوہ کسی بھی ملک میں یہ صورتحال نہیں کیونکہ قدرت مادہ جنس کو زیادہ پیدا کرتی ہے۔ یہ اعزاز حاصل کرنے والے پاکستان اور انڈیا سمیت وہ ممالک ہیں جہاں بچوں کی جنس منتخب کرنے میں مصنوعی طریقے اختیار کئے جاتے ہیں۔ پاکستان میں اس مردم شماری سے پہلے کے نتائج ایسے نہیں تھے۔ پاکستان میں جو نسلیں آباد ہیں وہ یا تو دراوڑی نسل ہے جو یہاں کی قدیم ترین نسل ہے اور انڈیا اور پاکستان دونوں میں پائ جاتی ہے۔ دوسری غالب اکثریت آریاءووں کی ہے جو سینٹرل ایشیا سے آئے ہیں وہ بھی پورے انڈیا میں پائے جاتے ہیں۔ اور اسکے علاوہ وہ نسلیں جو مسلمانوں کیساتھ آئیں یا سکندر اعظم کی افواج کیساتھ آئیں۔ لیکن جیسا کہ میں نے کہا کہ پوری دنیا میںگنتی کے چند ممالک ہیں جہاں یہ غیر معمولی چیز دیکھنے میں آتی ہے۔ جہاں تک آپکی اس معلومات کا تعلق ہے کہ الٹرا ساءونڈ کے ذریعے بچیوں کو ہلاک نہیں کیا جاتا۔ یہ تھوڑا لاعلمی پہ ہے۔ پورے پاکستان میں یہ قانون تمام پرائیویت اور دورنمنٹ ہسپتالوں میں شدت کے ساتھ نافز ہے کہ پیدائش سے پہلے بچے کی جنس نہیں بتائ جائے گی۔ اس سلسلے میں قانونو بنایا گیا تھا۔ جس پہ عمل کرنے کی بھی کوشش کیجاتی ہے لیکن بھلا ہو ایسے الٹراساءونڈ سینٹرز کا جو ہر گلی محلے میں کھل گئے اور خاص طور پہ نواحی علاقوں میں ایسے کام بہت دیکھنے میں آتے ہیں۔ فی الحال، غیر قانونی ابارشنز کی ہمارے یہاں کوئ تفصیلات میسر نہیں۔ مگر یہ ایک بڑی تعداد میں ہوتے ہیں۔
    میری اماں نے اب اس مسجد درس کے لئے جانا چھوڑ دیا ہے۔ حالانکہ میرے ابا کے انتقال کو تقریباً تیرہ سال ہو رہے ہیں۔ انہیں یہ بات دماغی خلل لگتی ہے۔ آجکل وہ ایک قریبی پارک میں چہل قدمی کے لئے جاتی ہیں جہان انہیں خواتین کا ایک اور گروپ میسر آ گیا ہے۔ اور ان میں ایک ایسی خاتون دریافت ہوئیں جو اس تحریک دوسری شادی برائے شوہر ان سے متائثر ہیں اور اپنے پچپن سالہ شوہر کو دوسری شادی کی ترغیب دے رہی ہیں۔
    میں اندازہ کر سکتی ہوں کہ انکا تعلق کسی جماعت سے نہیں ہوگا۔ ایسے مفادات کے لئیے صرف ایک جماعت سے تعلق ہونا ضروری ہے اور چند بے دماغ لوگوں کی حمایت۔
    خرم صاحب، میں تو یہ نہیں سمجھ پائ کہ جب معاشرے میں ایسے لڑکے مناسب تعداد اور عمر کے موجود ہیں جنکی شادی ہونی چاہئیے تو انہیں شادی پہ مجبور کرنے کے بجائے اب پہلے سے سیٹل لوگوں کے حق میں اتنا بڑھ چڑھ کر کیوں بول رہے ہیں۔ ایک غیر شادی شدی شخص داشتہ رکھے، گرل فرینڈز بنائے، کمپیوٹر پہ پورن سائیٹس دیکھے، زنا بالجبر میں شامل ہو یا دیگر غیر فطری طریقے اختیار کرے یہ قابل قبول ہے۔ لیکن اس غیر شادی شدہ شخص کو اپنی زندگی کی بنیادی ذمہ داریاں نہ دیں بلکہ اس چیز پہ بحث کریں کہ ایک اور شادی شدہ شخص کو اور شادیوں کی اجازت ملنی چاہئیے۔ کیا یہ واقعی مسئلے کا سنجیدہ، دیر پا اور اخلاقی حل ہے۔ آخر دن بہ دن ایسی شادیاں کیوں بڑھ رہی ہیں جن میں کنوارے دولہا کی عمر کسی طور پینتیس سال سے کم نہیں ہوتی۔ پچھلے ایک سال میں ، میں نے زیادہ تر جن شادیوں میں شرکت کی ان میں دولہا کی عمر کچھ کم چالیس سال کی ہوگی اور دولہن بیس سال کے قریب۔ اسکے بارے میں آپ کیا کہیں گے۔
    جہاں تک جہیز کا سوال ہے یہ ایک فیکٹر ہے مگر اسکی وجوہات اسکے علاوہ بھی ہیں۔ کراچی میں، میں دیکھتی ہوں کہ کافی حد تک جہیز کے رجحان میں کمی آئی ہے۔ خود میری شادی میں جہیز کا کوئ لین دین نہیں ہوا۔ سوائے زیور یا کپڑے جو مجھے تحفے میں ملے دونوں طرف سے۔ تو ہمیں ان وجوہات پہ غور کرنا چاہئیے اور انکے خلاف مہم چلانی چاہئیے۔ ایک مناسب عمر پہ شادی ہر شخص کا حق ہے چاہے وہ غریب ہو، کم صورت ہو، کم علم یا مرتبے والا ہو۔

    ReplyDelete
  9. اور یہ جو میں ایک جماعت سے تعلق لکھا ہے یہ کوئ سیاسی یا مذہبی جماعت نہیں بلکہ لوٹون کی جماعت ہے جو جس طرف فائدہ دیکھتی ہے اسی طرف ہو جاتی ہے۔

    ReplyDelete
  10. ہمارے ملک میں پاگلوں کی کمی نہیں ہے ہر بات کو مزاق بنا دیا ہے جو دوسری شادی کے حق میں ہے وہ سب سے پہلے اپنے گھر میں دیکھے کتنے آدمی موجود ہیں پھران کا حساب لگا کر دوسری شادی پر عمل کرئے بات ختم دو دن میں خدا یاد آجائے گا،

    ReplyDelete
  11. جب بھی کثرت ازواج کی بات آتی ہے میں لازمی یہ بات دہراتا ہوں کہ اسلام نے کثرت ازواج کا در نہیں کھولا بلکہ ازواج کی زیادہ سے زیادہ تعداد متعین کردی ہے اور ایک طرح سے بیسیوں بیبیاں رکھنے کے شوقینوں کے پر کاٹے ہیں اور اس کے لیے ازواج کے مابین انصاف کی کڑی شرط بھی عائد کی ہے اور ساتھ ساتھ تنبییہ بھی کی ہے کہ انصاف کرنا آسان نہیں جسے کثرت ازواج کے معاملے میں حوصلہ شکنی سے تعبیر کرنا چاہیے۔

    ہمارے معاشرتی چلن، ارینجڈ میریج کے فوائدو نقصانات، جہیز کی ہندوستانی روائیتیں ایک طرف سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہماری مجموعی معاشی و سماجی صورتحال اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ کثرت ازواج و اولاد کو معمول بنایا جائے؟ تقدیر کی مساوات میں تدبیر کی حکمت نا معلوم کیوں لوگ نہیں سمجھتے اور تدبیری حماقتوں کو عین تقدیر ماننے پر تلے رہتے ہیں اور دوسروں کو اس بابت اکسانا عین ایمان سمجھتے ہیں۔

    ReplyDelete
  12. ایک شادی کی نہیں جاتی۔۔۔ دوسری کون کر سکتا ہے۔۔۔

    ReplyDelete
  13. @نعیم اکرم ملک
    اور ہماری ایک شادی ہوتی نہیں دوسری کا کیسے سوچیں؟
    ...
    اور یہ بھی تو بتائیں کہ بدتمیز نے کس کو ار کب پروپوزا؟

    ReplyDelete
  14. ڈفر، آپ ایسا کرین دوسری والی پہلے کر لیں۔ اس طرح شاید یہ رکاوٹ دور ہو اور پہلی والی بھی ہوجائے۔ جہاں تک بد تمیز کے پروپوزل کا تعلق ہے۔ یہ میں نے انکے تبصرے سے اندازہ لگایا۔ کیونکہ انہوں نے شادی نہ ہونے کی وجوہات میں لڑکیون کا دماغ صحیح نہ ہونا بھی بتایا اور پھر ان لنک والی خاتون کی طرف اشارہ کیا کہوہ بھی ان میں سے ایک ہیں۔ میں نے سوچا، ان لنک والی خاتون کے دماغ کی اس خرابی کا انہیں کسیے پتہ۔ تھوڑی سی بالائ چاٹی تو یہ نتیجہ نکلا۔ امید ہے اب آپکی تشفی ہو گئ ہوگی۔

    ReplyDelete
  15. صدقے جاؤں جی آپ کی تحقیقی صلاحیتوں کے
    صحیح پی ای ڈی کی ہے آپ نے
    میں ان شا اللہ آپ کی سٹوڈنٹی ضرور اختیاروں گا
    :D

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ