Tuesday, February 23, 2010

تین سو ساٹھ خدا

میں شہر کے وسط میں ہونے والی ایک تقریب میں شرکت کرنے کے لئیے گھر سے نکلی تو راستے میں، میں نے نوٹ کیا کہ شہر میں مختلف چو رنگیوں پہ سیمنٹ کے بنے ہوئے ایسے آرائشی ٹاورز مختلف جگہوں پہ لگائے جا رہے ہیں جن پہ اللہ کے ننانوے نام لکھے ہوتے ہیں۔ اس سے پہلے طارق روڈ کے قریب اللہ کا ایک تعمیری نمونہ لگایا تھا جو اتنا مقبول ہوا کہ کہ میں نے اسے بعد میں متعدد جگہوں پہ حتی کہ گھروں کے داخلی دروازے پہ لگا ہوا دیکھا۔  شہر میں مختلف روڈز پہ دور تک اللہ کے ناموں کی تختیاں جڑی ہیں۔ کیا یہ ان ناموں کی حرمت کا تقاضہ ہے کہ انہیں اس طرح ہر جگہ لگا دیا جائے۔ کیا انکی وجہ سے ہم زیادہ مسلمان نظر آتے ہیں۔ کیا ان نمائشی اشیا کو مستقبل مین انکی جگہ سے ہٹانے پہ اسے اسلام کیخلاف کارروائ نہیں قرار دیا جائےگا۔  کیا ہم ہندوءووں اور عیسائیوں سے مقابلہ کرتے ہوئے اپنے خدا کو یہ روپ دے رہے ہیں۔
ان ٹاورز کو دیکھ کر مجھے یہ خیال آتا ہے کہ اسلام نے  خدا کا جو تصور دیا وہ  کوئ ان دیکھی، اور تصور میں نہ آنے والی چیز تھا جسے صرف اسکی صفات سے پہچانا جاتا تھا۔ اور جو سب کا خدا تھا۔ آخر کس جذبے کے تحت اسے اتنا زیادہ وجود دینے کی کوشش ہو رہی ہے حالانکہ ہمارے ایمان کی خصوصیت تو غیب پہ ایمان لانا ہے۔
  میں آگے بڑھتی ہوں اور صدر کےقریب نمائش سے گذرتی ہوں یہاں نمائش کے سگنل پہ کان پڑے آواز نہیں سنائ دے رہی۔ ایک طرف امام بارگاہ ہے جہان سوگ کے دن ختم ہونے کی تیاریاں ہیں۔ اور دوسری طرف ربیع الاول کی تیاریاں عروج پہ۔ نوجوان سر پہ امامہ باندھے ہوئے خانہ ء کعبہ پہ چڑھے کالا کپڑا چڑھا رہے ہیں یہ وہ خانہ ء کعبہ نہیں بلکہ اصل کی نقل ہے۔ اور اسکے بالکل برابر میں ایک خاصہ بڑا نمونہ مسجد نبوی کا بھی رکھا ہے جو روشنی سے جگمگا رہا ہے۔ روڈ پہ دور تک سنی تحریک کے رہ نماءووں کی بڑی بڑی تصویریںآویزاں ہیں۔
 مجھے یہ سب دیکھ کر ایک اور منظر یاد آیا کہ فتح مکہ کے بعد رسول خدا خانہ کعبہ میں داخل ہوتے ہیں جہاں ہر قبیلے نے اپنے خدا لا کر رکھے ہوئے ہیں اور اس طرح سے انکی تعداد تین سو ساٹھ تک پہنچ جاتی ہے۔ اور رسول خدا ان بتوں کو توڑتے جاتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں۔ حق آگیا اور باطل مٹ گیا۔ بے شک باطل مٹنے ہی کے لئیے تھا۔ ہر چیز ختم ہو گئ۔ باقی رہ گیا اللہ کا نام۔، وہی باقی رہ جانیوالا ہے۔
اور لگتا ہے کہ اب ہم پھر سے اس مہم پہ لگ گئے ہیں کہ ان تین سو ساٹھ خداءووں کوجمع کر لیں۔

19 comments:

  1. اکثر سوچتی ہوں بھارت سے جانے والی فلائيٹ مقدس ترين فلائٹ ہوتی ہو گی ہر بندہ اپنا اپنا خدا بھی اٹھائے لے جاتا ہو گا بيرون ملک ملتے جو نہيں

    ReplyDelete
  2. بہن جی ، خیالات کی روانی کو مہمیز کچھ زیادہ نہیں لگ گئی اس تحریر میں؟
    ویسے اس تحریر کے بنیادی خیال سے میں آپ سے متفق ہوں۔ لیکن تین سو ساٹھ بتوں اور اللہ کے اسمائے حسنیٰ ، خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے ماڈلز کو ان کے ترازو میں تولنا مناسب نہیں۔ وہ تین سو ساٹھ بت پوجا کے لئیے رکھے جاتے تھے اور یہاں خانہ خدا اور مسجد نبوی کے ماڈلز کی پوجا کرنا تو درکنار اس کا خیال بھی کوئی دل میں لا کر انہیں نہیں سجاتا۔ ہاں یہ موقع ہمارے عمل کے تضاد کو ضرور ظاہر کرتا ہے کہ جس نبی کی آمد پہ ہم عقیدت کے طور پہ اتنا کچھ کرتے ہیں اس کی تعلیمات پہ عمل کرنے کی کبھی کوشش نہیں کرتے بلکہ بعض صورتوں میں اس صادق و امین کے بتلائے راستے سے ہٹ کر چلنے کو روشن خیالی اور جدت پسندی کا نام دے کر فخر سے ماڈرن کہلواتے ہیں۔
    عقائد اور مذہب پر بات کرنے سے میں ہچکچاتا ہوں کہ ہم سب دوسروں کی بات سننا نہیں جانتے بلکہ اپنی بات مسلط کرنے والے گروہوں میں سے کسی ایک کی گروہ کے شعوری یا لا شعوری طور پہ نمائندے ہیں۔ سب سے پہلے تو ہمیں اس شعور کو اجاگر کرنا ہے کہ جو ہمیں لکیر کا فقیر بننے سے بچائے اور یہ شعور کیسے بیدار ہو گا ؟۔۔۔۔۔۔۔۔یہ اس وقت ہو گا جب ہم مذہب کو صرف حور و غلماں کے حصول کا ذریعہ سمجھنے کی بجائے اسے اپنی روز مرہ زندگی کے معاملات پر لاگو کریں گے۔

    ReplyDelete
  3. میں خود اس معاملہ میں حیران ہوتا ہوں ہم کیا کر رہے ہیں۔

    ReplyDelete
  4. سب بڑی خرابی مجھے اس عمل میں جو دکھاءی دیتی ہے وہ یہ کہ ہم اسے عین دین سمجھ کر ثواب کی نیت کرتے ہیں جبکہ سیرت رسول اور صحابہ سے یہ چیزیں اسطرح ثابت نہیں البتہ غیر مسلم مذہبی تہواروں میں ان کا رنگ ضرور نظر آتا ہے کہ بنیادی طور پر کرسمس کے تہوار پر اسطرح کے ماڈل بنائے جاتے ہیں لیکن چونکہ اس کو مذہبی رنگ دے دیا گیا ہے چناچہ اس پر کچھ بھی کہنے سننے کی گنجائش نہیں۔

    ReplyDelete
  5. جی اور پانچ پانچ روپے لے کر کم علم عوام کو خانہ کعبہ کی شبیہ کا طواف کرواتے ہیں اور لوگ ان شبیہوں کے آگے کھڑے ہوکر دعائیں مانگتے ہیں :(
    اصل مسئلہ صرف یہ ہے کہ چونکہ شیعہ حضرات محرم کے جلوسوں میں اپنی تعداد دکھاتے ہیں اسی لیئے 12 ربیع الاول کو سنی اپنی تعداد کی نمائش کرتے ہیں!
    سارا مسئلہ کوانٹٹی کا ہے کوالٹی کا نہیں!

    ReplyDelete
  6. مجھے آپ سے اور عبداللہ اور مکی صاحب کے تبصروں سے مکمل اتفاق ہے۔

    اگر یہ سب چیزیں نہ بھی ہو تیں تو ان کے اسلام اور نبی اکرم صلی اللی علیہ وسلم سے محبت پر کو ئی حرف نہ آتا۔ مگر یہ ایک ضد ہے۔۔۔۔
    کل ہی ان رہنماوں کا ایک بیان پڑھا اور ان کی عقل پر ماتم کرنے کو جی چاہا۔

    غالبا اب ہم ماتم ہی کرسکتے ہیں۔

    ReplyDelete
  7. aniqa ji aap k bohat se topics bohat zabardast hotay hyn:) aap nay nay aik bohat achay amar ki taraf tawajja dilai hy wakai aaj k musalman siraf naam k hi reh gaye hyn apnay drawing room main mukaddas aayat saja letay hyn or phir atay jatay unhain kamar hoti hy. yeh ayat ab parhnay k liye nahi decoration k tore par use hoti hyn. ALLAH apna reham karay ham par.

    ReplyDelete
  8. بت پرستی کے خلاف لکھنا ایسے هی ہے جیسے که نبیوں اور رسولوں کی سنت کرنا
    لیکن اس سنت کو ادا کرنے سے هجوم وهی کرتا هے جو رسولوں کے ساتھ هوتا رھا ہے
    اللّه اپ کو جزا دے

    ReplyDelete
  9. مجھے پتہ ہے کہ آپ تو چاہتی ہیں کہ ہم سالاناہ نعت میلہ میں نصیبولال کے گانوں پر بنائی گئِ دھنیں نہ سن سکیں

    ReplyDelete
  10. لیجئیے جناب، ابھی دو دن پہلے ہم کہہ رہے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ بارہ کیساتھ، گیارہ ربیع الاول کی چھٹی کا مطالبہ بھی ہو جائے۔ پتہ چلا کہ حکومت سندھ نے گیارہ تاریخ کی چھٹی کا بھی اعلان کر دیا۔ اب ہم سوچتے ہیں کہ اگلے مرحلے میں ہمیں رونا سک بات پہ ہوگا۔
    ساجد صاحب، بات تضاد کی ہی نہیں اسکی بھی ہے کہ کیا اسلام کا پیغام یہی ہے۔ اب ایک اور مثال دیکھیں۔ ادھر کچھ عرصے سے میں یہ دیکھتی ہوں کہ رہ زیر تعمیر عمارت پہ ما شاءاللہ کی تختی لگی ہوتی ہے۔ تھائ لینڈ میں۔ میں نے دیکھا کہ ہر گھر اور عمارت کے باہر ایک چھٹے سے مینار پہ ایک چھوٹا سا گھر رکھا ہوتا ہے اسے اسپرٹ ہاءوس کہتے ہیں۔ اسکا مقصد اس عمارت کو بری نظر اور برے اثرات سے محفوظ رکھنا ہوتا ہے۔ تھاء، بدھ مذہب کے ماننے والے ہیں اور اپنی فکر میں ہندوءووں سے خاصے قریب ہیں۔ اب ان میں اور ہم میں کس چیز کا فرق ہے۔ وہگھر رکھتے ہیں اور ہم ایک تختی لگا دیتے ہیں۔ حالانکہ اصلیت یہ ہے کہ جب ہم اکیلے ہوتے ہیں تو دوسرا خدا ہوتا ہے اور جب ہم دو ہوتے ہیں تو تیسرا خدا ہوتا ہے۔ یہ دوسری طرز فکر بے خوفی، ہمت اور شجاعت پیدا کرتی ہے جبکہ پہلی طرز فکر ان دیکھی قوت کا خوف جو نہیں معلوم ہے بھی کہ نہیں۔
    بنیادی طور پہ تو اسلام توہم پرستی کے خلاف ہے لیکن یہی توہم پرستی عقیدہ بن جاتی ہے۔ یہی نہیں عقیدت اتنی بڑھ جاتی ہے کہ عقیدہ بن جاتی ہے۔ حالانکہ ان سب کو اسلام کی حد شروع ہوتے ہی ختم ہو جانا چاہئیے اسی لئیے تو میں کہتی ہوں کہ ترقی پسند مذہب کو اتنا توہم پرست کیوں بنا دیا گیا ہے۔
    حضرت عمر کے زمانے میں اس وقت کے نامی گرامی سپہ سالار کو جو کہ مسلسل فتوحات حاصل کر رہے تھے ہٹا دیا گیا کہ لوگوں کو یہ گمان نہ ہو جائے کہ بس انہی وجہ سے ہم یہ جنگ جیت جاتے ہیں۔ اور اب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    ڈفر بڑا دماغ خرچ کیا آپ نے سازش معلوم کرنے مین، یا بس یونہی آپکو وہم ہو گیا کہ ایسا نہ ہو کہ میرا نزلہ جا کر نصیبو لال پہ گرے۔ مجھے تو کوئ بتا رہا تھا کہ نہ صرف ڈسکو نعتیں بلکہ ڈسکو مرثئیے تک آگئے ہیں بازار میں۔ خدا خیر کرے۔ اور کہیں نہ ہوں اس میں ضرور ترقی پسند ہو جائیں گے۔

    ReplyDelete
  11. اسماء، جب سب کا اپنا اپنا خدا ہو تو اسے ایسے ہی سوٹ کیسوں میں بند ہو کر جانا پڑتا ہے۔ الگ الگ سوٹ کیسوں میں۔

    ReplyDelete
  12. ماموں
    مچھے تو ایک ہندو کا بیان یاد آتا ہے کہ ہم کو پتا ہوتا تو ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا بت بنا کر پوچا شروع کرتے مسلمان خود ہی کرتے-
    آج وہ ہی ہو رہا ہے- نقلی کعبہ تو بن گیا اب بت کا انتطار ہے

    ReplyDelete
  13. دین کمرشلائز ہوگیا ہے جی۔ جلسے جلوس، ڈھول ڈھمکا نہ ہو تو سواد نہیں آتا اب مسلمان رہنے کا بھی۔

    ReplyDelete
  14. main nay bhi suna tha k nakli kaba ban gaya hy, magar mujhay yeh nahi pata hy k kahan bana hy or kis nay banaya hy agar kisi ko pata ho to plz mujhay is baray main batayen.

    ReplyDelete
  15. خانہ کعبہ کا ماڈل بنانا یا مسجد نبوی کا ماڈل بنانا اگر ناجائز ہے یا قابل مذمت ہے تو پھر ان کی تصویر بنانا بھی قابل مذمت ہوگا؟ ایسا کیوں آخر کہ جب بھی کوئی کام نبی کی حُب میں کیا جائے فوراً اس کے پردے سے ہمیں بُت جھانکتے نظر آتے ہیں؟ ہندوؤں، عیسائیوں، یہودیوں سے مشابہت کے وساوس گھیر لیتے ہیں؟ ایسا سب کچھ ہمیں زندگی کے باقی معاملات میں کیوں محسوس نہیں ہوتا؟ ایک مولوی جب پینٹ پہننے کو اسی بنیاد پر حرام کہتا ہے توہم اس کی مذمت کرتے ہیں لیکن اسی مولوی کی وہی دلیل جب رسول اللہ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کے بارے میں سامنے آتی ہے تو ہم آمنا و صدقنا کہہ دیتے ہیں؟ مسلمان کا ایمان آخر نبی سے محبت کا اظہار کرنے پر ہی کیوں خطرے سے دوچار ہوتا ہے؟ اسی طرح اگر اللہ کا نام لکھ کر، سجا کر رکھا جائے تو اس میں کیا بُرائی؟ اگر آپ کو راہ چلتے اللہ کی کوئی صفت لکھی نظر آئے، قلب و ذہن میں کوئی سوچ جاگے اسے پڑھ کر، اپنے خدا سے قربت کا احساس جاگے تو کیا مضائقہ؟ اگر مارکیٹنگ دنیاوی چیزوں کے لئے کی جائے تو درست، زمانے کا تقاضا لیکن اگر وہی رویہ دین کے لئے اختیار کیا جائے تو بدعت، گمراہی اور شرک؟ کہیں یہ ہمارے دوہرے معیار تو نہیں کہ ہم خود ہی دین کو ایک بوسیدہ سے غلاف میں لپٹا رہنے دینا چاہتے ہیں اور پھر خود ہی ناک مُنہ چڑھا کر اس کی فرسودیت پر "کُڑھتے" ہیں؟ یہ سب میں عنیقہ بہنا کی تحریر کے جواب میں نہیں بلکہ اس رویہ کے جواب میں کہنا چاہ رہا ہوں جو اکثر اوقات دیکھا جاتا ہے۔

    ReplyDelete
  16. زینب، کراچی میں صدر کی طرف جاتے ہوئے۔ راستے میں نمائش کی چورنگی پڑتی ہے۔ اگر آپ مزار قائد کی طرف سے آرہے ہوں۔ وہی پہ سگنل کراس کرنے کے بعد آپ اسکے دیدار سے مستفید ہو سکتی ہیں۔
    خرم صاحب، میں تو نہیں سمجھتی کہ اسلام آپ سے صرف نبی کی محبت مانگتا ہے۔ اس نے جو بنیادی حقائق پیش کئیے ہیں یہ چیز اس بنیادی نظرئے سے متصادم ہے۔ اور محض نبی کی محبت کو اسکا بہانہ نہیں بنایا جا سکتا۔ اسی محبت میںکسی دن نبی کی تصویر اور انکا بت بھی وجود میں آجائیگا۔
    آپ جوش جذبے میں پینٹ کو خانہ ء کعبہ کے ماڈل سے ملا بیٹھے ہیں۔ اب اگر میں آپکی مارکیٹنگ کی مثال دون تو جب کوئ چیز بہت ارزاں ہو جاتی ہے تو اس سے محبت نہیں رہتی، نہ اس سے عقیدت رہتی ہے اور نہ اسکا اثر رہتا ہے۔ آپ آج ایک برانڈ کا دودھ استعمال کر رہے ہیں۔ کل کسی اور برانڈ کی کوئ اور خصوصیت کی مارکیٹنگ ہونے لگے گی اور آپ اسے استعمال کرنے لگیں گے۔
    جنوبی ایشیائ ممالک میں تصوف کے پھیلنے کی وجوہات ہیں انک ذکر میں ایک الگ پوسٹ میں کرنا چاہونگی۔ لیکن تصوف کی اس بگڑی ہوئ شکل نے انسانی بت پرستی کے جذبے کو تسکین دینے والی چیز بنا دیا۔ در حقیقت یہی دین کی بوسیدہ شکل ہے۔ کسی ان دیکھے خدا پہ یقین کرنا ایک بے انتہا مشکل کام ہے ۔ اور بت پرستی سے پیچھا چھڑانا ایک کھلے دماغ کا شخص ہی کر سکتا ہے۔ ورنہ لوگون کی اکثریت اسی بے عملیت کا شکار رہنا چاہتی ہے جسے مذہبی رہ نما کسی تصویر یا ماڈل کی صورت اور سیاسی رہ نما شخصیت پرستی کی صورت استعمال کرتے ہیں۔
    یہ وہ بنیادی اسلامی نکتہ ہے جسے مسلمانوں ے نے اپنی وسعت قلب کے لئیے استعمال کیا تھا فکر و نظر کی تنگی سے نجات پائ تھی اور یہ وہ محبت کی معراج ہے جس کے بعد ہمارے ذہن اور دماغ ڈائنا سور کے دماغ کی طرح مٹر کے دماغ کے برابر بنتے جارہے ہیں اگرچہ ہم ساءز میں ڈاناسور جتنے ہو چکے ہیں۔
    دور نبوی میں تحریر عام تھی۔ مگر اسکے باوجود رسول اللہ سے اس چیز کی روایت نہیں ملتی کہ مدینہ کو اللہ کے پاک ناموں سے بھر دیا گیا ہو۔یا خانہ ء کعبہ میں کفظ اللہ لکھ کر جگہ جگہ لگا دیا ہو۔
    اسلام انسان کو مادیت سے نجات دینا چاہتا ہے۔ مگر ہم اتنا ہی مادیت میں دھنسے جا رہے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ پینٹ پہننا، یا جدید ٹیکنا لوجی کی چیزیں استعمال کرنا یا اپنی عقل کو استعمال کر کےاپنی اور دوسروں کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنا مادیت ہے۔
    آپ سے میں نے پوچھا کہ جب ایک تھائ ایک علامتی مکان چھوٹا سا مکان اپنے گھر کے باہر بری نظر سے بچانے کے لئیے رکھ دیتا ہے اور مسلمان ایک نام کی تختی لگا کر باہر لگا دیتا ہے تو دونوں میں کیا فرق ہوتا ہے۔ دراصل دونوں میں بنیادی طور پہ کوئ فرق نہیں ہوتا۔ جب ایک ہندو اپنے خداءووں کی الگ الگ صفات کوالگ الگ خداءووں میں ڈھال کر انکی الگ الگ عبادت کرتا ہے اور مسلمان اپنے خدا کے الگ الگ صفگاتی نام مختلف مواقع پہ استعما کرتے ہیں ، جیسے صحت کے لئیے یا سلام کا ورد تو کیا ہندو اور مسلمان کے درمینا کوئ بنیادی فرق ہوتا ہے۔
    عقلی طور پہ سوچین کوئ نہیں ہے۔ صرف سائنیس ہو کر یہ صفات الگ الگ شبیہوں میں رکھنے کے بجائے ایک خدا میں رکھ دی ہیں۔ تو پھر جب یہود اور عیسائ کہتے ہیں کہ اسلام دراصل انکے مذاہب سے اخذ کر کے بانایا گیا ہے تو انکی بات میں وزن پیدا ہوجاتا ہے۔
    آپ دیکھیں گے کہ محض بنیادی نظریہ میں اتنی ہلکی سی تبدیلی سے اسلام کی الوہیت ختم ہو جاتی ہے اور وہ دیگر مذاہب کی طرح انسانی ذہن کی پیداوار لگنے لگتا ہے۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ