Saturday, February 27, 2010

تقدیر کی تدبیر

نجانے یہ کس نےکہا کہ تقدیر کو بدل دیتی ہے دعا بھی دوا بھی۔ اب ذرا ان خاتون کے بارے میں سوچیں جو ایک رکشے میں ولادت کی تکلیف سے گذر رہی ہو اور موقع پہ موجود حکام اسے ہسپتال تک نہ جانے دیں کیونکہ صدر صاحب  اس وقت شہر میں تشریف لانے والے ہیں۔ ملک کی نہایت اہم شخصیت، صدر پاکستان کے اعزاز میں دنیا میں آنیوالے اس نئے بچے کو احترماً اپنی پیدائش میں کچھ تاخیر ہی کردینی چاہئیےتھی۔ لیکن اس ناہنجار نے ایسا نہ کیا۔ یقیناً اس خاتون نے بڑی دعائیں کی ہونگیں۔ لیکن تقدیر نہیں بدلی۔ بقول وزیر اعظم گیلانی جس بچے کو جہاں پیدا ہونا ہوتا ہے وہ وہیں پیدا ہوتا ہے۔ تو یہ اسکی تقدیر تھی۔ اس بچے کو وہیں پیدا ہونا تھا۔ صدر صاحب کی تقدیر یہ تھی کہ وہ انتہائ اہم امور نبٹانے کوئٹہ پہنچیں۔  ائیر پورٹ پہ موجود انکے استقبال کے لئیے آنیوالے وزراء کی تقدیر یہ تھی کہ وہ ائیر پورٹ پہ صدر صاحب کا انتظار کرتے رہ جائیں اور بعد میں انہیں کوئ اطلاع دے کہ ارے صدر صاحب، تو ہیلی کاپٹر سے جہاں انہیں جانا تھا، چلے گئے۔
تقدیر کی جلوہ گری یہیں نہیں ختم ہوتی۔ جس وقت وہ خاتون خدا سے دعا کر رہی ہوگی کہ کسی طرح وہ ہسپتال پہنچ جائے اور موقعے پہ موجود سیکیورٹی حکام نےاسے سیکیوریٹی کی بلو بک کے حساب سے روک رکھا  ہوگا عین اس وقت اسلامی جمہوریہ پاکستان کی محفوظ قومی اسمبلی کی تقدیر میں اس بات پہ بحث کرنا لکھا تھا کہ اسمبلی میں موجود مرد اراکین میں سے اسی فی صد مردوں نے دوسری شادی کی ہوئ ہے اور یہ کہ دوسری شادی کرنا اتنا برا نہیں جتنا برا بنا کر اسے پیش کیا جاتا ہے اور اسلام نے اسکی اجازت دی ہوئ ہے۔
اب واپس اسی کیفیت میں ان خاتون کے پاس جائیے۔ پوچھئیے کیا مردوں کو دوسری شادی کرنا چاہئیے۔ وہ کیا کہے گی۔ ارے خدا کی مار ہو تم پہ۔ مجھے پہلے اس تکلیف سے تو نجات دلاءو۔ ارے خدا کے واسطے مجھے ہسپتال لے چلو۔
لعنتیوں۔ میں بہت تکلیف میں ہوں۔ وزیر اعظم کہتے ہیں بچے پیدا ہونا تو روزمرہ کی بات ہے بچے تو ہوائ جہاز میں بھی پیدا ہوتے ہیں۔ جس بچے کو جہاں پیدا ہونا ہوتا ہے وہیں پیدا ہوتا ہے۔
اقبال کہتے ہیں کہ
پابندی تقدیر کہ پابندی احکام
یہ مسئلہ مشکل نہیں ہے اے مرد خرد مند
اسکی وجہ بتانے سے پہلے یہ دیکھتے چلتے ہیں کہ تقدیر پہ اتنا بھروسہ کرنے والے، سجادہ نشیں خاندان سے تعلق رکھنے والے مختلف روحانی سلسلوں میں گھرے ہوئے گیلانی صاحب اس تقدیر پہ اس وقت بھروسہ نہیں کرتے جب وہ نواز شریف کے پاس جا کر رائے ونڈ میں ناشتہ کرتے ہیں۔ ڈیل کرکے حالات کو اپنے حق میں کرنے کے لئیے وہ سب کچھ کر سکتے ہیں تقدیر سے لڑ بھی سکتے ہیں اس لئیے اقبال مزید کہتے ہیں کہ
اک آن میں سو بار بدل جاتی ہے تقدیر
ہے اسکا مقلد ابھی ناخوش، ابھی خور سند
تقدیر کی مزید خوبی دیکھیں، رکشے میں پیدا ہونے والی بچے کو صدر مملکت کی طرف سے پانچ لاکھ روپے ملے۔ اور اسکے باپ نے صدر کا یہ احسان یاد رکھنے کے لئیے اپنے بچے کا نام آصف خان رکھ دیا ہے۔ یہ سب تقدیر کے کھیل ہیں صرف پانچ لاکھ میں آصف نام دو نسلوں میں تو یاد رکھا جائے گا۔ غریب آدمی جب زندگی میں پہلی بار ایک ساتھ پانچ لاکھ روپے کا چیک لے گا تو اپنا نام بھی تبدیل کر کے آصف رکھنے پہ تیار ہو جائے، نوزائیدہ بچہ کس کھاتے میں ہے۔ تقدیر کی یہ ادا بھی دیکھنے والی ہے کہ وہ بچہ خوش قسمت ٹہریگا اور پاکستان بد قسمت۔
ہاں تو میں کہہ رہی تھی کہ تقدیر کو بدل دیتی ہے دعا بھی دوا بھی، میں نے یہ بسوں کے پیچھے لکھا ہوا پڑھا ہے۔ اس میں دوا سے کیا مراد ہے؟

حوالہ؛
ٹریفک جام، رکشے میں بچے کی ولادت

پاکستانی قومی اسمبلی میں دوسری شادی پہ بحث
پاکستانی قومی اسمبلی میں دوسری شادی پہ بحث-2

14 comments:

  1. میرے خیال میں یہاں دوا سے مراد پانچ لاکھ روپے ہیں

    ReplyDelete
  2. وہ گدھا یہ پڑھ کے بھی نہیں مرے گا.. شرم سے بھی نہیں..

    ReplyDelete
  3. رکشے ميں بيٹھنے سے تو اچھے خاصے آدمی کا بچہ ہو جائے اسکا تو پھر وقت ولادت تھا

    ReplyDelete
  4. مکی یہاں صرف ایک گدھا تو نہیں ہے؟؟؟
    اسماء کچھ تو خدا کا خوف کریں مارے غصے کے آپ آدمیوں سے بچہ پیدا کروائے دے رہی ہیں
    D:

    ReplyDelete
  5. ہمارے وزیر اعظم صاحب بڑے مہان ہیں
    پانچ لاکھ اس لؒے دیے ہیں کہ نیا سی این جی رکشہ خرید لو
    زیادہ کمفرٹیبل ہوتا ہے مستقبل میں کام آئے گا

    ReplyDelete
  6. اسماء
    :)
    عبداللہ، ہیں کیا مطلب، کیا عورتوں کو حوی کہیں گے۔ آدمی تو دونوں ہی ہیں۔ البتہ اسماء کو یہ وضاحت کرنی چاہئیے تھی کہ مرد آدمی یا عورت آدمی۔
    :)
    ڈفر، ارے اس طرف تو خیال نہیں گیا کہ انہوں نے تنی دور کی سوچی ہوگی۔ میں تو سوچ رہی تھی کہ فی الحال کی مصیبت سے جان چھڑانے کا سوچ رہے ہیں۔ اب سوچتی ہوں۔ رکشے کے پیچھے لکھا ہوگا۔ ٹریفک جام مبارک، قسمت اپنی اپنی۔

    ReplyDelete
  7. خرم ابن بشیر، صحیح حالات و واقعات تو یہی کہہ رہے ہیں۔
    مکی صاحب، یہ گدھے توانتخابی نشان بنتے جا رہے ہیں۔

    ReplyDelete
  8. میں دیکھتا ہوں تو بس دیکھتا ہی رہتا ہوں
    وہ رکشوں میں بھی اپنے ہی رنگ چھوڑ گیا

    ReplyDelete
  9. پانچ لاکھ ميں رکشے والے کا بھی حصہ ہونا چائيے ليبر روم کے طور پر کام آيا ہے رکشہ خير وہ تو خالی پروسيس ديکھ کر ہی خوش ہو گيا ہو گا ہمارے پاکستانی بھائيوں کو بڑی دلچسپی ہوتی ہے ايسی چيزيں ديکھنے سے

    ReplyDelete
  10. شہر میں وہ معتبر میری گواہی سے ہوا
    مجھ کو لیکن شہر میں نامعتبر اس نے کیا

    ReplyDelete
  11. Mamu
    تقدیر کی تدبیر تو ہے کہ ایک ۔۔۔۔۔۔ وزیر بنا ہوا ہے

    ReplyDelete
  12. انیقہ اب آپ ہی بتائیے کہ کیا ہمارے یہاں صرف مرد کو آدمی نہیں سمجھاجاتا؟؟؟
    عورت کو تو بھائی لوگ سائڈ پروڈکٹ سمجھتے ہیں:(

    ReplyDelete
  13. تاریخ سے ہماری دلچسپی اتنی زیادہ ہے کہ ہم لوگ مغل دور کی یاد تازہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے بلکہ اس میں ہی جینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہ رکشے والا واقع ہی لیجیے۔۔ مغل طریقے سے حل ہوگیا بادشاہ بھی خوش رعایا بھی خوش۔۔ اب یہی کوئی آج کے دور کا جمہوری ملک ہوتا تو اب تک وزیروں کو اپنی کرسیوں کے لالے لگے ہوتے اور حکومت کی دیواریں ہل گئی ہوتیں۔۔ لیکن خیر ان کو کیا پتہ بادشاہ اور رعایا کا کیا رشتہ ہوتا ہے۔

    ReplyDelete
  14. مجھے تو اس بندے پر ترس آ رہا ہے جسے زرداری صاحب نے چیک دیا۔ اللہ جانے کیش بھی ہوا کہ خالی کاغذ کا پرزہ ہوا؟

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ