Monday, February 15, 2010

نئے افکار انکا حصول اورترویج-۴




یہ تصویر آج دنیا کے  کسی خطے کی نہیں بلکہ آج سے کئ صدیاں پہلے اس لزبن شہر کی ہے جو یوروپ کے تاریک دور میں سانس لے رہا تھا۔ اس تصویر میں ایک اجتہادی کو زندہ جلانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ اور عوام کا ہجوم اسے ان خیالات کے پیش کئیے جانے پہ جلتا دیکھنے کے لئے جمع ہو رہے ہیں جو اس نے اپنی فکر اور تحقیق  سے صحیح جانے البتہ وہ مروجہ روایات کے خلاف ہونگے۔ یہ اس انجام کا شکار ہونیوالا کوئ پہلا یا آخری شخص نہ تھا۔


لیکن یہ جاننا چاہئیے کہ وہ کیا حالات تھے جو کہ اس بربریت کا باعث بنے جس کی تشفی انسانوں کو زندہ جلا کر بھی نہ ہوتی تھی۔

عیسائیت نے اس وقت جنم لیا جب اس دور کا انسان زمینی بادشاہت کے فروغ سے تنگ آچکا تھا۔اور ایک ایسے نظام کا آرزو مند تھا جو امارت اور غربت کے فرق کو ختم کر دے اور انسان کو خدا کے ساتھ ہمکلام ہونے کا موقعہ دے۔ عیسائیت نے اس خواہش کو کسی حد تک پورا کرنے میں مدد کی اور خدا کو مطلق حقیقت قرار دیکر تمام کائنات کو اسکے تابع کر دیا۔ اس طرح سے پست و بلند کا امتیاز ختم ہو گیا۔ اور آسمانی بادشاہت میں سب کے لئیے دروازے کھول دئیے۔

عیسائت کے فروغ نے  اس وقت کےشاہی نظام پہ بڑی کاری ضرب لگائ جس میں بادشاہ کو خدائ حیثیت حاصل تھی۔  لیکن عیسائیت کے عروج نے کلیسا کا نظام اتنا بلند کر دیا کہ ریاست کے اندر ایک اور اقتدار کا مرکز ابھر آیا جو کسی کے آگے جوابدہ نہیں تھا۔ کلیسا کی مرکزی شخصیت پوپ طاقت کا سرچشمہ بن گئ جسے  سلطنت کے معاملات میں براہ راست دخل اندازی کا موقع مل گیا اور وہ آہست آہستہ اقتدار کے حصول کا ذریعہ بن گیا۔ چنانچہ جلیل القرد بادشاہ اور حکومتیں اب مذہبی طاقت کے مرکز یعنی کلیسا کے حکم کے آگے سر تسلیم خم کرنے پہ مجبور ہوگئیں۔

جسکا نتیجہ بالآخر پر تشدد کلیسا کی صورت نکلا۔ طاقت کا احساس خرابی لاتا ہے اور کامل طاقت مکمل خرابی لاتی ہے۔ کلیسا اور تخت کے درمیان کشمکش شروع ہوگئ اور مذہب کھوکھلا ہوتا چلا گیا۔ کلیسا کا یہ آہنی شکنجہ توڑنے میں مغرب کو کئ سو سال صرف کرنے پڑے۔ یہ وہ دور تھا جسے مغرب کا دور تاریک کہا جاتا ہے۔ اسے تاریک سمجھنے کی وجہ اس پورے عہد میں تخلیقی قوتوں کا بنجر پن ہے۔ ایک ایسا عہد جب ادب، تحقیق، فنون لطیفہ اور فلسفے کی نمو کے روک دیا گیا۔ کلیسا نے قریباً ایک ہزار سال تک سارے یوروپ کو عیسائیت کی ایک ایسی مضبوط تنظیم میں جکڑے رکھے جو مشین کے مشابہ تھی اور جس نے فرد کی انفرادیت کو کچل دیا تھا۔ ان اعتقادات نے زندگی کو ایک خول میں بند کر کے اس کا بیرونی چھلکا جامد کر دیا تھا۔

 یہ اس زمانے کا ہی قصہ ہے جب گلیلیو کو مذہبی عدالت میں حاضر کیا گیا۔ اس پہ الزام تھا کہ اس نے یہ کہہ کر کہ زمین حرکت کرتی ہے  بائبل میں موجود اس بیان کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کی ہے  کہ  زمین ساکن ہے اور سورج اسکے گرد حرکت کرتا ہے۔ اپنے اس باغیانہ خیال کی وجہ سے اسے قید وبند کی صعوبت سے گذرنا پڑا۔ بالآخر گلیلیو نے عدالت کے سامنے توبہ کی کہ وہ آئندہ نہیں کہے گا کہ زمین حرکت کرتی ہے لیکن عدالت سے باہر آ کر اس نے کہا ' میں نہیں کہونگا کہ زمین حرکت کرتی ہے لیکن زمین اسکے باجود حرکت کرتی رہے گی'۔

شہرہ ء آفاق کالون نے مشیل سرقیہ کو ایک طویل عرصے تک قید و اذیت کے بعد زندہ جلا دینے کا حکم دیا۔ اسکا جرم یہ تھا کہ اس نے انسان کے جسم میں دوران خون کا پتہ چلایا تھا۔ حالانکہ اسکے بعد یہی نظریہ تاریکی کے اس اندھیرے کے ہٹنے کے بعد ہاروے نے پیش کیا اور شہرت کمائ۔ ان ناموں کے علاوہ ان لوگوں کی گنتی نہیں معلوم جنہیں کسی سوچ کو حقیقت بننے سے قبل ہی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

اسی معاشرے میں معززین کو زمینیں بخشی گئیں جنکے لئیے وہ صرف بادشاہ کو یا پوپ کو جوابدہ تھے۔ اس پہ بسنے والے لوگ اسے زرخیز بنانے کے ذمہ دار تھے اور اسکی آمدنی پہ انکا کوئ حق نہ تھا۔ البتہ انہیں یہ سہولت حاصل تھی کہ کسی بیرونی حملہ آور کی صورت میں ریاست انہیں تحفظ فراہم کرے گی۔ تو اس طرح سے یہ ایک ایسی غلامی تھی جس سے نجات ممکن نہ تھی۔

اسکے علاوہ ایک محکمہ ء احتساب بھی قائم کیا گیا۔ جو لوگوں کو انکی حدوں سے باہر نکلنے پہ سزا دینے پہ قادر تھا۔ لوگوں کا قصور اجتہاد کی بات کرنا، بائبل کے متعلق کلیسا کی تشریحات میں خامیاں نکالنا، دوسری شادی کرنا، جادو گری میں دلچسپی لینا اور اسطرح کے دوسرے جرائم جنکی ہولناک سزائیں لوگوں کو پابند سلاسل رہنے پہ مجبور کرتی تھیں۔ یہودیوں کے لئیے مخصوص سزائیں الگ تھیں کہ وہ مذہبی عقائد میں انکے حریف تھے۔ محکمہ ء احتساب نےکئ ہزار یہودیوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔  اسپین سے لاکھوں کی تعداد میں یہودی جلاوطن ہوئے اور لاکھوں کی تعداد میں یہودیوں کو عیسائ ہونے پہ مجبور کیا گیا۔

جن لوگوں پہ اجتہادی سوچ کا الزام لگایا جاتا انہیں اپنی غلطی سے رجوع کر کے معافی مانگنے کے لئیے مہینہ بھر کا عرصہ ملتا اور جو ایسا نہیں کرتے انہیں شدید سزائیں دی جاتیں، جیسے جلا دینا۔، قتل کر دینا۔ عام طور پہ یہ سزائیں سر عام دی جاتی تھیں۔ احتساب کا یہ عہد تقریباً تین سو سال چلا۔ یہ قتل و غارت گری خدا مے احکامت کے نام پہ کی جاتی تھی کہ مذہبی کتاب میں دشمنون کیساتھ ایسا ہی سلوک رو رکھنے کے لئیے کہا گیا ہے۔

  ادب، تعمیر، دیگر فنون لطیفہ جیسے مصوری اورتحقیق سب پہ عیسائیت کی چھاپ ہونا ضروری تھی۔ نتیجے میں یوروپین  مصوروں نےحضرت عیسیٰ کو گورے رنگ  اور سنہرے بالوں اور رنگین آنکھوں والا یوروپین شخص بنادیا گیا۔ جس سے آج بھی عیسائ مذہب پرست چھٹکارا نہ پا سکے۔

  فرانس جہاں بادشاہت تھی۔ قوم کے مسیحی تشخص پہ زور دیا گیا اور بادشاہ کو مجبور کیا گیا کہ وہ ملکی قوانین قدیم مسیحی طرز پہ مرتب کرے البتہ یہ حق مذہبی یسوعی جماعت کو ہی رہیگا کہ وہ مختلف مذہبی قوانین کی کیا تشریح پیش کرتے ہیں۔یہ قانون بھی بایا گیا کہ اگر کسی کتاب میں موجود موادمذہب یا مملکت کیخلاف پایا گیا تو ناشر، مصنف اور کتاب فروش کو سزائے موت دی جائے گی۔ یہ ایک معاشرہ تھا جہاں غریب کو غریب رہنے کا مشورہ دیا جاتا تاکہ دولت پہ ریاست کے طاقتور لوگوں کا قبضہ رہے، عوام کو قربانی اور خیرات کا حکم ملتا، اور حکومتی ارکان پہ کوئ ٹیکس نہ تھا۔

یوروپ میں کلیسا کے اس طرز عمل نے ان سائنسی، علمی اور تحقیقی تبدیلیوں کے آنے میں بہت زیادہ رکاوٹ ڈالی جنہوں نے کچھ ہی عرصے میں تہذیب انسانی کو تبدیل کر دیا۔ لیکن اس جبر نے عام انسان کو مذہب سے بیزار کرنے میں ایک اہم رول ادا کیا۔

 یہ دور جس کی کوئ مقررہ تاریخ آغاز یا اختتام نہیں ہے۔ اور اسے بعض مءورخ تسلیم کرنے سے بھی ہچکچاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اگر یہ دور تاریک تھا تو دراصل یہ تاریکی رحم مادر کی تاریکی سے مشابہ تھی۔ یعنی تخلیق کا جذبہ درون خانہ پنپ رہا تھا۔ شاید یہ درست ہو۔ ہر جبر اور ظلم کے نیچے ایک انقلاب سانس لے رہا ہوتا ہے۔ یوروپ نے کسطرح نئے افکار کی روشنی حاصل کی۔ تحریر جاری ہے۔ آپ میں سے جو چاہے اس میں اپنے علم کا اضافہ کر سکتا ہے۔ 
حوالہ جات؛
اس تحریر کی تیاری میں مندرجہ ذیل ذرائع سے مدد لی گئ ہے۔

تاریخ اور فلسفہ ء تاریخ، مصنف ڈاکٹر مبارک علی
اردو ادب کی تحریکیں، مصنف ڈاکٹر انور سدید
خدا کے نام پہ لڑی جانیوالی جنگ، مصنفہ کیرن آرمسٹرونگ
حریت فکر کے مجاہد، مصنف وارث میر

26 comments:

  1. ہا ہا اتنی دور تاريخ ميں جانے کی کيا ضرورت ہے يہ کام تو اکيسويں صدی کے پاکستان ميں ہر روز ديکھا جاسکتا ہے- يہ ديکھيئے لائيو فتوی قتل؛

    http://www.youtube.com/watch?v=GLtOhaYuZF8

    غالبا کسی خاتون کو فتوی قتل مرحمت فرمايا جارہا ہے- غالبا مولانا، آزاد عدليہ کو زحمت دينے کے قائل نہيں- جلد اور سستا انصاف صرف سڑک پہ مل سکتا ہے بلکل صديوں پہلے لزبن شہر کی طرح-

    ReplyDelete
  2. بی بی! آپ رقم طراز ہیں۔۔
    محکمہ ء احتساب نےکئ ہزار یہودیوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ اسپین سے لاکھوں کی تعداد میں یہودی جلاوطن ہوئے اور َ"لاکھوں کی تعداد میں یہودیوں کو عیسائ ہونے پہ مجبور کیا گیا۔

    بی بی!پتہ نہیں کیوں آپ نے یہاں ہسپانوی مسلمانوں کے قتل عام اور نسل کشی کا ذکر نہیں کیا۔ یہودیوں ہزراوں کی تعداد میں قتل نہیں ہوئے تھے ۔ یہودیوں کو نہائت عزت و احترام سے ترک سلاطین سلطان بایزید اور سلطان سلیمان نے ترکی میں بسا لیا تھا۔ چودہ سو بیانوے میں سقوط غرناطہ سے تقریبا سوسال قبل یوروپ کے یہودی استبول میں جانا شروع ھو گئے تھے کہ وہاں کے انصاف پسند ماحول میں انھیں بہت سے مواقع حاصل تھے اور وہاں پہ مسلمان مفتی اور آرٹوڈوکس نصرانی راہب کی طرح یہودیوں کے ربی اعظم کو سلطان کے دربار میں باقاعدہ رسائی تھی اور چودہ سو بیانوے میں سقوط غرناطہ کے بعد اسپین کی عیسائی ریاست آراغون "ارآگون" جہاں کا بادشاہ فرڈنیینڈ آٖف ارآگون یعنی" فرناندو دے ارآغون "تھا ، جس نے قستییا کی ملکہ ازابیل یعنی" عیسٰی بیل "سے شادی کی تھی اور یوں اسپین کی تب کی تاریخ تک دو ریاستوں کا سب سے بڑا اتحاد وجود میں آیا اور مذکورہ عیسائی باشاہوں کو "کھیتولک شاہوں" کا خطاب دیا گیا اور یوں انہوں نے بے پناہ طاقتور ریاست (کہ تب تک اسپین میں مختلف قسم کی چھوٹی موٹی نصرانی اور مسلم ریاستیں ہوا کرتی تھیں) کے وجود میں آنے سے غرناطہ سے مسلمانوں کے آخری فرماروا ابو عبداللہ کو ساقط کیا ۔صرف وہ یہودی جو اسپین کی مذکورہ ریاست ارآگون سے بے دخل کئیے گئے وہ یہود ،بآرسیلونا اور بلنسیہ سے جہازوں میں پہلے اطالیہ یعنی اٹلی پہنچے اور بعد میں استبول وارد ہوئے ۔ اور کچھ یہودی موجودہ بلقانی ریاستوں کے شہروں میں آباد ہوئے۔ ورنہ زیادہ تر یہود اسپین کی بندرگاہ " کارتاخینا "سے جہاں"لوئس دے سانتا انخیل" اور" فرانسسکو پینیدو"نے انھیں جہازوں پہ سوار کروایا اور یہاں سے یہودی براہ راست ترکی پہنچتے رہے۔ اسکے علاوہ بہت سے یہودی اسپین سے براستہ پرتگال ، افریقہ اوراطالیہ میں رکتے ہوئے ، ترکی پہنچے ۔ بہت سے یہودی اسیے بھی تھے جو ادہر ادہر دوسری ریاستوں میں پناہ نہ ملنے کے بعد عرصہ بعد تک ترکی پہنچتے رہے۔ اور یہ عرصہ کئی دہائیوں پہ مشتمل ہے۔ سلاطین ترکی نے منادی کروا رکھی تھی کہ اگر کسی غریب الدیار یہودی کو جانائز تنگ کیا گیا تو اسے سزائے موت تک دی جاسکے گی۔ ترکی کے مسلمان سلاطین نے ہسپانوی یہودیوں کے ساتھ نہ صرف اچھا سلوک کیا بلکہ انھیں ترکی میں باعزت طریقے سے آباد بھی کیا۔ اور بہت سی مراعات دیں ۔معدودے چند خاندان شمالی افریقہ کے مسلمان سلاطین کے ممالک میں بھی آباد ہوئے جو آج مروکو یعنی مراکش اور الجزائر وغیرہ کہلاتے ہیں۔

    ReplyDelete
  3. اسپین سے نکالے گئے تمام یہودیوں کو "سیفارد یہود" کہا جاتا ہے۔ اسپین کے موجودہ قانون میں بھی انہیں سیفارد تسلیم کیا گیا ہے۔اور پانسو سال سے زئد عرصہ بعد بھی ان کی ہسپانوی شہریت اس بناء پہ تسلیم کر لی جاتی ہے کہ وہ اسپین آکر کم از کم دوسال رہیں۔

    جبکہ ہسپانوی مسلمان جو چودہ سو بیانوے میں سقوط غرناطہ سے لیکر سترہ سو ایک تک جب مسلم ہسپانیہ کا آخری مسلمان بھی ختم ہو گیا اور اس دوران لاکھوں کی تعداد میں مارے گئے یا انھیں زبردستی نصرانی بنا لیا گیا۔ یا پھر وہ افریقی مسلم ریاستوں کو ہجرت کر گئے۔ اس بارے میں ہندو پاک کے بہت سے مغرب کے نقال عین مین وہی لکھ دیتے ہیں جس کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ جبکہ انھیں حقیقی طور پہ نسل کشی کے شکار ہسپانوی مسلمان جنہیں ہسپانیہ چھوڑنے کے لئیے محض بہتر گھنٹے دئیے گئے کہ ورنہ وہ جہاں پائے گئے وہیں مار دئیے جائیں گے ۔ جلا دئے جائیں گے ۔ جبکہ بہتر گھنٹوں یعنی تین دنوں کے اعلان کا بہت سے مسلمانوں کو علم تک نہیں ہوا تھا۔ یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ وہ مسلمان کئی صدیوں یعنی انکے اجدادمسلمان ہونے سے قبل سے وہ سرزمین ہسپانیہ کے باسی تھے اور انکے اجداد مسلمان ہوئے تو وہ ہسپانوی مسلمان کہلائے ۔تین دن میں جبکہ وہ کار ،جہاز کا زمانہ نہیں تھا ہر چیز چھوڑ چھاڑ کر اسپین چھوڑنے کے لئیے سب سے پہلے کسی بندرگاہ تک پہنچنا پڑتا جہاں تک پہنچنے میں ہی کئی کئی ھفتے لگ جایا کرتے تھے۔

    القصہ مختصر ہمارے بہت سے لکھنے والے یہودیوں کے معروٖف مظلومیت کے پروپگنڈےکے زیراثر اپنے طور پہ کچھ بھی کھوج لگائے بغیر انھی کے پروپگنڈے کا شکار تحقیق کے نام پہ وہی سب چھاپ دیتے ہیں جو تاریخی طور پہ مسخ شدہ حقائق ہیں۔جبکہ انھیں ہسپانوی یہودیوں کا درد تو ستاتا ہے مگر ہسپانوی مسلمانوں کی نسل کشی کو جو تعداد اور ظلم و ستم میں یہودیوں کی نقل مکانی سے کئی گنا زیادہ المناک ہے ، اس سے انھیں کوئی غرض نہیں۔ اور وہ تاریخ کو غلط طور پہ بیان کرنے سے ذرا نہیں ہچکچاتے

    ، بی بی ! میں آپ کو ایسے نام نہاد محقیقن میں شمار نہیں کر رہا مگر بی بی! آپ تو اس بارے میں کچھ کھوج لگائیں اور اپنی تحریر میں ان کم نصیب مسلمانوں کو مناسب جگہ دیں۔

    ReplyDelete
  4. یہاں ایک بات کی وضاحت بہت ضروری ہے کہ گو اس دور میں اسپین میں کچھ نہائت زیرک یہودی عالم ہوئے ہیں مگر علم و حکمت میں مسلمان یکتا تھے۔ نصرانی ہسپانیہ میں یہودیوں پہ ستم آرائی یہودیوں کے یہودی یا محقق ہونے کی وجہ سے روا نہیں رکھی جاتی تھی بلکہ اس دور میں جادوگری کی سخت سزاؤں میں جادوگر کو جلانا تھا اور یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ یہودی جادو ٹونے میں تب بھی نہ صرف شعف رکھتے تھے بلکہ اسے باقاعدہ ذرئیعہ آمدنی بنا لیتے تھے ۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ یہود کی مقدس کتابوں میں سے ایک مقدس کتاب "تالمُود" جو ہزراہاصحفات پہ مشتمل ہے اسمیں ٹؤنے ٹوٹکوں کے علاوہ جادو اور ٹُونے کے بارے میں بھی بہت مواد ہے اور یہ کتان متواتر لکھی جاتی ہے۔ اور صدیوں سے اسکی لکھائی جاری ہے۔ اور نصرانیت میں ، اسلام میں دجال کی طرز پہ ، "آنتی کرستو"، یعنی انٹی کرائسٹ کا ایک کرادار ہے اور تمام عیسائیوں مگر کھیتولک نصرانی فرقے کے نزدیک اس کردار کے ماننے والے شیطانی عمل یعنی جادو وغیرہ کے زرئعیے اپنی مطلب براری کرتے ہیں اور یوں اکا دُکا یہودی اس الزام کا شکار ہوئے ہیں مگر اسے پروٹسٹنت نصرانی فرقے ۔ عام جادوگرنیوں اور مسلمانوں کے خلاف بالخصوص استعمال کیا گیا ۔ جس میں ایک عقیدہ یہ تھا کہ آگ کا بھڑکتا الاؤ ہی جادوگرنی کو جلاتے ہوئے اسے کے جادو کو ختم کر دے گا۔ وغیرہ۔

    اس پکڑ دھکڑ ، قتل و غارت اور زندہ جلائے جانے کو ایک خاص ترکیبی نام " انقیصیون" دیا گیا ۔ اور یہ انقیصوین دو اڑھائی صدیوں پہ محیط ہے اور اسکا زیادہ تر شکار مسلمان ۔ غیر کھیتولک عیسائی، خانہ بدوش، بالترتیب ہوئے ہیں ۔ یہودیوں کا شمار نہائت قلیل ہے۔ اور اس "زندہ ، جلائے " جانے کا شمار کسی طور پہ تحقیق یا علم کا دعواہ کرنے والوں پہ نہیں لاگو ہوتا تھا ۔ یہ خالصتاََ کیتھولک اور غیر کیتھولک یا غیر عیسائی عقیدوں اور مسلکوں کا مسئلہ تھا۔ جن کے بارے میں کیھتولک راہب جلائے جانے کا فیصلہ دیتے وہ جادوگری سے یا کرائسٹ کو نہ ماننے والے جیسے مسلمان تھے انھیں اسطرح کی سزائیں عام لوگوں کو عبرت پکڑنے کے لئے دی جاتی تھیں۔جیسا کہ آپ کی مذکوری تصویر میں بھی ظاہر ہے۔

    بہر حال آپ کی تحریر خوب ہے۔

    ReplyDelete
  5. محترم جاوید صاحب
    میری ناقص رائے میں آپ سپین ،پرتگال کے احتساب اور یورپی احتساب کو ایک ساتھ خلط ملط کر رہے ہیں ۔ دونوں کا علیحدہ علیحدی ذکر ضروری ہے ۔ اسپین میں مسلمانوں کے آنے سے قبل کلیسا اور پادشاہ کے ہاتھوں یہودیوں کی آخری نسل فنا ہونے کے قریب تھی کہ مسلمان آن پہچے جن کے سایہ تلے ان کو پھر پھلنے پھولنے کا موقع ملا ۔
    ایک بلاگ کی پوسٹ میں کسی موضوع کی صرف تلخیص ہی دی جاسکتی ہے ۔
    جاوید صاحب
    میں دست بستہ عرض کروں کہ آپ کی یہ عادت ہے کہ آپ اپنے دلائل کے آغاز میں سب سے پہلے تو ایک زوردار طعنے کا خنجر مخاطب کے سینے میں بھونکتے ہیں اور اس کے بعد اپنے دلائل کا آغآز کرتے ہیں ۔ آپ یہ تکنیک دووران تحریر حسب ضرورت اور حسب موقع ، گاہے بگاہے استعمال کرتے ہیں نہ صرف یہ بلکہ بلاگرز پر علمی بددیانتی کا الزام بھی عائد کرتے ہیں ۔ کہیں تو آپ کے پرانے تبصروں سے نکال کے پیش کروں؟ ۔ غالب کی طرح آپ بھی غالبا طعنوں سے کام نکالنے کے قائل ہیں ۔ یاد رکھیے آپ طعنے سے کسی کا منہ تو بند کر سکتے ہیں مگر اسے قائل نہیں کر سکتے ۔ مسلمانوں کا یہ شیوہ رہا ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی تو کیا کافروں سے بھی علمی بحث و تمحیص میں تحمل اور برد باری سے کام لیتے ہیں جس کا قرآنی حکم بھی ہے ۔ آپ کا مسئلہ یہ ہے کہ آپ کی انا آپ کے قد سے بہت بلند ہے ۔
    میں نے اپنے کسی پچھلے تبصرے میں غالبا دلا بھٹی والی پوسٹ میں آپ کو ایک اچھا ریسرچر ہونے کے الفاظ استعمال کر کے آپ کی تعریف کی تھی ۔ میں اس میں ترمیم کرتا ہوں اور آپ کو ایک اچھا انا پرست ریسرچر کہوں گا۔

    ReplyDelete
  6. جاوید صاحب
    آخری بات یہ کہ آپ ماشاء اللہ اسلام کی تفسیر کے داعی ہیں آپکا اس حدیث کے متعلق کیا خیال ہے جس میں محض رزق کے لءے ایک کافر ملک میں قیام کو ناجائز قرار دیا گیا ہے ۔ دوسروں پہ طعنوں کے کوڑے برسانے سے قبل ذرا اسے بھی ایک نظر دیکھ لیں

    ReplyDelete
  7. میرا مشورہ ہے کہ آپ اردو بلاگز پر تبصروں کے ساتھ ساتھ اسلام دشمنوں کے ان اعتراضات کا بھی اپنے بلاگ پر ریسرچ کے بعد جواب دیتے رہیں تو شاید آخرت سنور جاءے ۔ مگر اس سے آپ کی انا کی تسکین کا سامن تو شاید نہ ہو سکے ۔ ایک اسلام دشمن ویب سائٹ کا لنک یہ ہے جس پر میں گوگل سرچ کرتے کرتے حادثتا پہنچ گیا
    http://www.inthenameofallah.org/

    ReplyDelete
  8. جاوید صاحب، تحریر ابھی جاری ہے اور میں خود یہ سوچتی ہوں کہ اب جبکہ ہم عیسائ معاشرے کی تنگ نظری کی بات کر رہے ہیں تو یہ کہاں تک درست ہوگا کہ ہم اس میں اسپین میں مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے گئے ظلم کا تذکرہ کریں جو انہوں نے بحیثیت ایک فاتح قوم کے اپنی مفتوح قوم کیساتھ کیا۔ انہوں نے اس خطے سے مسلمان تمدن کی ہر علامت کو مٹانے کی کوشش کی انکے علم کے مراکز کو جلا دیا لاکھوں کی تعداد میں نایاب کتابیں جلادیں اور مسلمانوں کو تہہ تیغ کیا اور جلا وطنی کے لئیے مجبور کیا۔ وہ اپنی فتح کے نشے میں چور تھے اور صلیبی جنگوں کے شکست خوردہ۔
    لیکن ظاہری سی بات ہے کہ ہم بحیثیت مجموعی یوروپ کو دیکھ رہے ہیں ایک ایسے عیسائ معاشرے کو جہاں مذہب کا نام لیکر لوگوں پہ جبر اور ظلم اٹھایا گیا اور انسانی فکر پہ تشدد کیا گیا۔ یہ کہنا کہ یہودیوں کیساتھ ظلم نہیں ہوا اتنا صحیح نہیں لگتا کیونکہ اس بات کے تاریخی حوالے موجود ہیں کہ کس طرح یہودیوں کو عیسائ ہونے پہ مجبور کیا جاتا تھا اور اور کسطرح ان نو مذہبوں کی اعانت کی جاتی تھی اور جاسوسی بھی۔ اور کس طرح اس قسم کے عوامل کی وجہ سے یہودیوں کی زیر زمین تنظیمیں وجود میں آئیں۔ ہم اس وجہ سے کہ یہودیوں نے مسلمانوں کو بہت تنگ کیا اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے۔ یہ بھی یہودی تھے جو اس تمام کے رد عمل کے نتیجے میں لا دینیت کی طرف مائل ہوئے اور اس لادینیت کی تحریک کے اپنے معاشرتی مضمرات ہیں۔
    یہ کہنا کہ یہودی جادو کیا کرتے تھے اور اس وجہ سے سزا کے حقدار ہوتے تھے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ سولہویں سترہویں صدی میں یوروپ کے اکثر علاقوں میں خواتین کو چڑیل ہونے یا جادو کرنے کے الزام میں جلایا گیا جنکی تعداد ہزاروں میں پہنچتی ہوں اس بات کے شواہد نہیں ملتے کہ وہ سب یہودی تھیں۔
    یہ کہنا کہ ایسا تحقیقدانوں کیسا تھ نہیں ہوا یہ بھی صحیح نہیں لگتا کہ اسی تحریر میں اس شخص کی مثال موجود ہے جس نے دوران خون کا عمل معلوم کیا تھا اور موت کا سامنا کیا۔ اور جادو تو ہر وہ چیز ہو سکتی ہے جسکی حقیقت آپ نہ جانتے ہوں۔ اگر پندرہویں صدی کے شخص کوجو درد سے تڑپ رہا ہو میں ایک ایسپرین کی گو لی دیدوں تو درد سے فوری آرام اسکے نزدیک جادو ہی ہوگا۔

    ReplyDelete
  9. عمدہ ۔۔ اچھا جارہا ہے۔۔ میری بھی مبصرین سے یہی گزارش ہے کہ محض ایک پوسٹ نہیں پورے سلسلے کو دیکھیں اور تسلسل کے ساتھ رہیں۔۔ علحیدہ علحیدہ دیکھنے کی صورت میں خوامخواہ کے مباحثے ہوں گے۔

    ReplyDelete
  10. یہاں یہ بات بھی مد نظر رکھنا ضروری ہے کہ عیسائی کلیسا کے زیر اہتمام چلنے والی اس جبر کی تحریک نے خود عیسائیوں کو دو فرقوں پروٹسٹنٹ اور کیتھولک میں توڑ ڈالا۔ تو معاملہ اتنا آسان نہِں کہ آپ صرف اسپین کے مسلمانوں کے قتل سے اسے وابستہ کر دیں۔
    آپکا یہ کہنا کہ یہودیوں کو مسلمان ممالک میں پناہ ملی۔ بالک صحیح ہے کیونکہ یہودیوں کو رسول اللہ کے زمانے سے یہ امان حاصل تھا۔ صرف یہودی ہی نہیں ہر اقلیت مسلمان مملکت میں ایک معمولی ساٹیکس دینے کے بعد جسے جزیہ کہتے ہیں یہ امان حاصل کر لیتی تھی اور پھر اسے مذہب پہ عمل درآمد کرنے کی اپنی عبادت گاہیں بنانے کی مکمل اجازت ہوتی تھی۔ تو یہ سلسلہ اس وقت بھی چلتا رہا۔ درحقیقت عباسیوں کے پہلے دور میں یہودی عالموں نے علم کی تویج میں مسلمانوں کا بڑا ساتھ دیا۔ یہ کہنا کہ مسلمان اپنے علم و فن میں بڑے یکتا تھے۔ اسکی حقیقت یہ نہیں ہے کہ خدا نے مسلمانوں کو کسی الگ دماغی طاقت یا روحانی قوت کیساتھ پیدا کیا تھا۔ بلکہ چونکہ قرآن استدلالی طرز فکر کو پسند کرتا ہے اور انسان کو بار بار غور و فکر کی دعوت دیتا یے تو مسلمانوں نے اس خوبی کو اختیار کیا کہ کوئ علم مسلمان یا غیر مسلمان نہیں اور انہوں نے ہر ذریعے سے علم کو حاصل کیا۔ چاہے وہ ہندو ذریعہ ہو یا یہودی اور یا یونانی۔ اس آزاد فکری نے انہیں اپنا دماغ کھلا رکھ کر فکر کی قوت سے نوازا جو اس وقت کے مسلمانوں میں مفقود ہے۔
    جس وقت اسلام نے جنم لیا یہودی علماء اپنی مذہبی تشخص میں اتنے بند تھے کہ وہ رہ تحقیق سے کو اپنے مذہبی علم کے اندر رکھنا چاہتے تھے۔ اور کوئ چیز اس دائرے سے باہر جائے یہ انہیں پسند نہ تھا۔ یہ یاد رہنا چاہئیے کہ اگر ہم جنگل میں ایک قائم شدہ پگڈنڈی پہ ہی چلتے رہیں تو یہ تو ممکن ہیں کہ ہم خطروں کا کم سے کم سامنا کریں لیکن یہ ناممکن ہے کہ ہم اس جنگل کے بارے میں مزید کچھ جان سکیں۔ اسلام کی ولادت سے قبل یہودیوں کا یہ طرز عمل آجکے مسلمان سے مشابہ ہے۔ مسلمانوں نے اپنے فکر کیوجہ سے انکو شکست دی۔ لیکن بیسویں صدی کے آنے تک مسلمان ان سے شکست کھا گئے۔ یہ تو خرگوش اور کچھوے والی کہانی ہو گئ۔ اب خرگوش لاکھ کہے کہ وہ زیادہ تیز رفتار ہے وہ اچھی چھلانگ لگا سکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کچھوا ربن توڑ چکا ہے خرگوش اپنی خصوصیات کھڑا ہوا گنوا رہا ہے لیک کچھوا پنا سفر جاری رکھے ہوا ہے۔ خرگوش کا خیال ہے کہ وہ اپنے ماضی کے ٹائٹل کو واپس حاصل کرنے کے لئیے اینٹ سے اینٹ بجا دیگا مگر نہ اسے آگے اںیوالے راستے کے بارے میں علم ہے نہ وہ یہ جانتا ہے کہ آنیوالے راستوں کی بھو بھلیوں میں اسکا مد مقابل کہاں گم ہو گیا ہے۔ ابھی خرگوش حالت احتجاج میں ہے۔
    یہودیوں کو تبدیلی ء مذہب کے لئیے مجبور کیا گیا۔ مسلمانوں نے ایسا نہیں کیا اگر کیا تو وہ بہے معمولی تعداد میں تھے۔ یہودیوں نے بڑی تعداد میں ایسا کیا ان نو مذہبوں کی اعانت کی جاتی اور جاسوسی بھی۔ ان نومذہبوں کی کئ زیر زمین تنظیمیں وجود مین آگئیں جن سے انکے روابط معلوم ہونے کے بعد انکے خلاف کارروائ کی جاتی۔ یہ امر اپنی جگہ ایک سوال ہے کہ عیسائیوں کے ہاتھون اتنی ہزیمت اٹحانے والوں نے اپنی توپوں کا رخ مسلمانوں کی طرف کیوں موڑا۔ لیکن ظاہر سی بات ہے کہ یہ اس وقت ہمارا موضوع نہیں ہے۔ ہم صرف یہ جاننا چاہتے ہیں کہ تاریخ میں لوگوں نے ان افکار کی طرف کیوں اور کیسے توجہ دی جو ان مین عظیم تبدیلیاں لانے کا باعث بن گئے۔
    اور اس سلسلے مین ، مجھے اس چیز سے کہ مسلمانوں کیساتح کیا ظلم ہوا اس میں زیادہ دلچسپی ہے کہ لوگوں نے اپنا یہ ہدف کیسے حاصل کیا۔
    ایکدفعہ پھر آپ سے یہ درخواست کرنی پڑیگی کہ ہر معاملے کو مسلمان اور غیر مسلمان کی نظر سے مت دیکھا کریں۔ مسلمان آج جو کچھ ہیں اپنے تفکر کی وجہ سے ہیں۔ در حقیقت دیکھا جائے تو قرون وسطی کے دور جاہلیت اور ہماری ابکی حالت میں کوئ زیادہ فرق نہیں۔

    ReplyDelete
  11. محترمی! ریاض شاہد صاحب!

    حضور یہ بیٹھے بٹھائے آپ کو کیا ہوا ۔؟ ہم تو بہر صورت آپ کی بہت عزت کرتے چلے آئے ہیں۔ مگر آپ انا پرست کی گرادان پہ بضد ہیں۔ آپ کو کسی بات پہ اعتراض ہے تو ضرور اسے مزید واضح کرتے ہوئے ہم سب کے علم میں اضافہ فرمائیں ۔اگر آپ کو کسی ایسی بات سے رنجش پہنچی ہے کہ میں نے کسی ایسی بات کی وضاحت کر دی ہو جو آپ کی کسی دلیل کو رد کرنے کا سبب بنی ہو تو جسکا مجھے علم نہیں تو آپ کو بھی پورا حق ہے کہ آپ میرا یا کسی کاکوئی بھی پوائنٹ آف ویو ر مناسب دلیل کے ساتھ رد کر سکتے ہیں ۔یقین مانیں میں آپ سے مخاصمت کی بجائے آپ کا مشکور ہونگا کہ آپ نے میری معلومات میں اضافہ کیا۔

    آپ سے کس نے کہہ دیا کہ میں اسلام کی تفسیر کا داعی یا مبلغ ہوں؟ جبکہ میری معلومات بھی کسی عام سے مسلمان کی طرح ہیں۔؟ اور میں نہیں سمجھتا آپ کو میرے مسلمان ہونے پہ اعتراض ہوگا؟ دلوں کے حال اللہ بہتر جانتا ہے کہ ہم کتنے پانی میں کھڑے ہیں ۔اسلئیے بجائے کسی دوسرے کی آخرت سنوارنے سے پہلے ہمیں اپنی اپنی آخرت کی فکر کرنی چاہئیے۔

    جہاں تک میرے بارے میں آپکی رائے ہے اس بارے وضاحت کردوں کہ میں نے کبھی اہل علم ہونےکا دعواٰی نہیں کیا اور نہ مجھے اسطرح کے طوطے پالنے کا کبھی شوق رہا ہےکہ مجھے بہت باخبر جانا جائے۔ یہ بہت سطحی اور چھوٹی سوچ ہوتی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ آپ بجائے تمسخر اڑانے کے کسی دلیل سے بات کرتے ۔آپ کے ریمارکس چونکہ میری ذات کے متعلق ہیں اس لئیے میں سے آپ کو معاف کرتا ہوں۔

    جہاں تک آپکی مذکورہ سائٹ کا جس کا آپ نے حوالہ دیا ہے اس سے پتہ نہیں آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔؟ کچھ اس بارے میں بھی روشنی ڈال دیں ۔اگر تو آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ سائٹ مسلمانوں کے خلاف ہے تو درست، مگر انٹرنیٹ ہی کیا عام زندگی میں بھی اسطرح کی خرافات کچھ لوگ کرتے رہتے ہیں۔ اور یہ سب خصوصی طور پہ صرف کیا ہی اسلئیے جاتا ہے کہ ہم مسلمان طیش میں آکر الٹ سیدھے لکھیں تانکہ انھیں موقع مل سکے "دیکھا ہم نہ کہتے تھے یہ لوگ مسلمان ٹھیک نہیں"۔ مباحثہ یا دلیل بھی وہی دی جانی چاہئیے جہاں عقل سلیم اور دل فراخ ہوں۔ جبکہ اسطرح کی سائٹس جن کا آپ نے رابطہ لنک دیا محض دشمنی نباہنے کے لئیے قائم کی جاتی ہیں۔

    امید کرتا ہوں کہ آپ صاف دلی،فراخدلی سے ہمیں اپنی معلوماتی تحریروں سے نوازتے رہیں گے۔

    ReplyDelete
  12. بی بی!
    آپ کی باتیں درست ہیں اور موضوع کے اعتبار سے آپ نے نہائیت خوش اسلوبی سےیوروپ کے تاریک دور کا تجزیہ کیا ہے ۔ میں نے ہسپانوی یہودیوں پہ ڈھائے گئے مظالم کے ساتھ سرسری طور پہ مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے گئے مظالم کا تذکرہ کرنے کی فرمائش آپ سے اسلئیے کی تھی کہ آپ کے باقی قاری بھی کچھ اس بارے جان سکیں۔ بس اتنا سا مقصد تھا۔
    اللہ آپ کو جزائے خیر دے ۔ آمین

    ReplyDelete
  13. محترم جاوید صاحب
    اسلام علیکم
    اگر آپ اپنی رائے میں سنجیدہ ہیں تو گذشتہ الفاظ پر میری معذرت قبول فرمائیے آپ مجھے مستقبل میں اپنا دوست پائیں گے ۔ میں آپ کی بہ نسبت شاعر اور علم دوستی کی قدر کرتا ہوں مگر آپ کی خوبیوں پر آپ کا نفس غالب آتا جا رہا تھا جس کا مشاہدہ میں اردو بلاگنگ سے اپنے تعارف کے زمانے سے کرتا چلا آرہا ہوں ۔ آپ پرانے لکھاری ہیں آپ سے زیادہ حکیمانہ انداز کی توقع ہوتی ہے ۔ امید ہے آپ اپنے الفاظ پر قائم رہیں گے
    چلتے چلتے ایک بات یاد آ گئی کہ آپ جو دلائل دیتے ہیں ان کے ساتھ متعلقہ مواد کا حوالہ بھی دے دیا کریں تو آسانی ہو گی

    ReplyDelete
  14. حوالہ
    Sociedad, política y protesta popular en la España musulmana - Page 94
    Roberto Marín Guzmán - 2006 -

    La Inquisición española - Page 71
    Beatríz Comella - 1998 -

    Apuntes de historia del derecho y de las instituciones españolas - Page 181
    José Ignacio Ruiz Rodríguez - 2006 -

    Revista de ciencias sociales - Page 30
    Universidad de Costa Rica - 1991

    Historia de España musulmana - Page 119
    Anwar G. Chejne - 1999 -

    Cincuenta años de inquisición en el Tribunal de Cartagena de ..., Volumen 1 - Page 33
    Anna María Splendiani, José Enrique Sánchez Bohórquez, Emma Cecilia Luque de Salazar - 1997 -

    Árabes y Musulmanes en Europa: historia y procesos migratorios - Page 172
    Zidane Zéraoui, Roberto Marín Guzmán - 2006 -

    El espíritu de cruzada español y la ideología de la colonización de América - Page 6
    Roberto Marín Guzmán - 1985 -

    Francisco de la Cruz, Inquisición, actas: Anatomía y biopsia del Dios y del ... - Page 48
    Vidal Abril Castelló - 1992 -

    Inquisición española: poder político y control social - Page 163
    Bartolomé Bennassar - 1981 -

    Los familiares de la Inquisición española - Page 17
    Gonzalo Cerrillo Cruz - 2000 -

    La Inquisición española: una aproximación a la España intolerante - Page 16
    Gérard Dufour - 1986 -

    El viaje de mis genes: del Valle del Eufrates al Valle de Aburrá - Page 122
    Lucía Londoño de Franco - 1989 -

    La Inquisición española - Page 15
    Arthur Stanley Turberville - 1954 -

    Revista de ciencias sociales, Números 51-55
    1991 Page 30

    Historia de la Inquisición española, Volumen 1
    Henry Charles Lea, Ángel Alcalá - 1983 - Page 68

    La Inquisición española en el País Vasco: (el Tribunal de Calahorra, 1513-1570)
    Iñaki Reguera - 1984 - Page 179

    La Inquisición española y los alumbrados (1509-1667): según las actas ... - Page 231
    Bernardino Llorca Vives - 1980 -

    Historia de la Inquisición española
    Joseph M. Walker - 2001 - Page 41

    Historia de la Inquisición en España y América, Volumen 3 -
    Joaquín Pérez Villanueva, Bartolomé Escandell Bonet, Angel Alcalá, Centro de Estudios Inquisitoriales (Madrid, Spain) - 1984 -

    La inquisición española - Page 16
    Ricardo Cappa - 1888 -

    Cristianos, musulmanes y judíos en la España medieval: de la aceptación al ... - Page 173
    Julio Valdeón Baruque - 2004 -

    El libro prohibido del cristianismo: Un divertido e irreverente ensayo sobre ...- Page 148
    Jacopo Fo - 2006 -

    La inquisición española- Page 169
    Henry Kamen - 1972 -

    Orígenes de la inquisición española: el Tribunal de Valencia, 1478-1530 - Page 231
    Ricard García Cárcel - 1976 -

    El privilegio para disecar cadáveres de 1477, «Cuadernos de Historia de la
    Medicina Española» (Salamanca), 6 (1967), 155- 171. Las ideas esbozadas en este

    El Libro de Buen Amor del Arcipreste de Hita - Page 506
    Américo Castro - 1954 -

    El matrimonio de las minorías religiosas en el derecho español: evolución ... - Page 86
    Juan A. de Jorge García Reyes - 1986 -

    ... Paris, 1979; J. PÉREZ VILLANUEVA: La Inquisición española. Nueva visión,
    nuevos horizontes, Madrid, 1980.

    Inquisición española y mentalidad inquisitorial
    Ángel Alcalá - 1984 - Page 174

    El Tribunal de la Inquisición: de la leyenda a la historia - Page 77
    1997 -

    Diccionario de literatura española
    Germán Bleiberg, Julián Marías - 1972 - Page 475

    Diccionario de literatura española
    Julián Marías, Germán Bleiberg - 1949 - Page 321

    Historia del cristianismo en América Latina - Page 223
    Pablo Alberto Deiros - 1992 –

    Etnogénesis y etnicidad en España: una aproximación histórico-antropológica ... - Page 11
    Christiane Stallaert - 1998 -

    La inquisición Española - Page 29
    Miguel de la Pinta Llorente - 1948 -

    Indice de los libros prohibidos por el Santo oficio de la inquisicion española
    León Carbonero y Sol, Inquisition - 1873 - Page 397

    La Inquisición española - Page 50
    José Martínez Millán - 2007 -

    El consejo de la Suprema Inquisición - Page 16
    José Ramón Rodríguez Besné - 2000 -

    ReplyDelete
  15. محترم ریاض شاہد صاحب !

    آپ کی خواہش کی تکمیل میں کچھ حوالہ جات لکھ دئیے ہیں ۔ مگر ابھی بہت سی اسی بکس کی حوالہ جات رہتے ہیں جن میں ہسپانوی اور انگریزی وغیرہ میں لکھیں گئیں کتب شامل ہیں۔ مگر چونکہ یہ عنیقہ بی بی کا بلاگ ہے تو اچھا نہیں لگتا کہ انکا بلاگ بگ کیا جائے۔ "ہسپانوی انقصیسیون" پہ کم ازکم تین سو کتب میں مسلمانوں کے بارے میں حوالہ جات اور مفصل تحریریں ملتی ہیں۔ زیادہ تفضیل میں نہیں جانا چاہتا کیونکہ عنیقہ ناز بی بی! کا موضوع اس سے بھی قبل کے دور میں پورے یوروپ میں رومن کھیتولک کلیسا کے حکم و اجازت سے چلائے جانے والی "سانتو اوفیسیو" " ہولی آفس" یا "مقدس خدمت" عربی میں اسکا نام "حاكم التفتيش "یہ لگ بھگ بارہویں صدی میں جو اندھیر مذھب کے کے نام لیواؤں نے اپنے ان باشندوں پہ روا رکھا ۔ باشندے جو انکی نظر میں ان کی طرح کے نصرانی نہیں تھے۔اور اسطرح کے دوسرے عوامل انکا موضوع ہے۔

    چونکہ اسی تناظر میں نے انھوں نے اسپین کی یہود کا ذکر کیا جس میں مسلمانوں کا تذکرہ مفقود تھا جبکہ یہود کی اکثریت بلکہ تقریباََ پوری آبادی جو ایک نہائت چھوٹی سی اقلیت تھی وہ چودہ سو بیانوے کے لگ بھگ ہی اسپین سے بے دخل کر دئی گئی۔ اور بہت معدودئے چند خاندان اسپین میں باقی رہ گئے جنہوں نے اپنا مذھب تب بدل لیا تھا۔ جبکہ مسلمان آبدی کے لحاظ سے بہت بڑی قوم اور اکثریت تھی یعنی کسی دور میں وہ کئی اسیے علاقوں میں بھی اکثریت میں تھے جو نصرانی ریاستوں کا حصہ تھے ۔ مسلمان اور نصرانی ہمیشہ سے ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہتے آئے تھے ۔ ریاستوں کی جنگیں بھی ہوتی تھیں ۔ اور مسلمان اور نصرانی فرماں روا بارہا کسی دوسری نصرانی یا مسلم ریاست کے خلاف آپس میں حلیف اور حریف بھی ہوتے تھے یعنی مسلمان اور عیسائی ریاستوں کے آپس میں اتحاد بھی ہوتے تھے۔ اسکی ایک مثال لبنان اور شام مصر وغیرہ میں بسنے والے اور ایک دوسرے کے ساتھ صدیوں سے رہتے آنے والے مسلمان اور نصرانی باشندوں کی دی جاسکتی ہے۔ مگراسپین میں ہولی آفس یا سانتو اوفیسیو کے متعلق تفضیلات پڑھتے ہوئے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ جبکہ عنیقہ بی بی کے موضوع کی طرف واپس پلٹتے ہوئے ہولی آفس نے فرانس میں غالبا گیارہ سو چوراسی میں آغاز کیا جبکہ اسپین میں ارآگون نامی ریاست میں بارہ سو انچاس میں اپنا تعارف کروایا جبکہ اس سے قبل یہ بارہ سو تیس یا اکتیس میں باقی ماندہ یوروپ میں کام شروع کر چکا تھا تب تک اسے بسکوپال ہولی آفس کہا جاتا تھا کہ اس کے ایڈمنسٹرز بشپ اور آرچ بشپ عہدے کے نصرانی راہب ہوا کرتے تھے مگر تب تک یہ ادارہ وہ تادیبی کاروائی نہیں کر پاتا تھا ۔

    ازاں بعد مختلف ممالک میں اس ادارے کے شاہی انتظامیہ اور شاہوں کے زیر نگرانی آنے سے جو خوفناک تشدد اور سزائیں دی جاتیں اور طرح طرح کے بسا اوقات زیر زمیں عقوبت خانوں میں ناکردہ گناہوں کا اعتراف کروانے کے لئیے سینکڑوں قسم کے مختلف اوازار اور مشہیں ایجاد کی گئیں اور ان سے جو تشدد کیا جاتا اسے جان کر روح کانپ جاتی ہے ۔ اکثر بدنصیب اس تشدد کے خوف اور تکیلف سے زندہ جل جانا گوارہ کر لیتے تھے ۔ اسپین میں اس ہولناک عذاب اور جبر مسلسل کا دوسرا دور "ہسپانوی انقیصیسیون " کے نام سے وحشت اور عذاب کا سلسلہ چودہ اٹھتر سے شروع ہوتا ہے جب کھتیولک شاہوں یعنی عیسیٰ بیل )ازابیل آف قستئیآ اور ( فرناندو )فرڈیننڈ آف ارآگون دونوں کی شادی اور اتحاد کی وجہ سے دونوں کی ریاستیں ملک کر اسپیں کی سب سے بڑی طاقت کے طور پہ وجود میں آتی ہیں ۔ اور دونوں شاہوں پہ کلیسا کا بہت اثر ہونے کی وجہ سے دونوں ملکہ اور بادشاہ مذھبی طور پہ انتہا پسند مانے جاتے ہیں اور انھیں "کھیتولک شاہوں" کا خطاب دیا جاتا اور یہ انقصیسیون کو براہ راست اپنی نگرانی میں لے لیتے ہیں۔

    اس سارے عرصے میں سوئزرلینڈ میں چار ہزار یعنی چار باشندے فی ھزار پولینڈ ۔لیتھوانیا دس ہزار، چونتیس لاکھ کی آبادی میں تقریبا تین باشندے پر فی ھزار ، جبکہ بر طانیہ میں ہزاروں کے حساب سے قتل عام کیا گیا کیونکہ برطانیہ میں اس دور میں ہر کسی کو یہ آزادی تھی کہ وہ مذھب کی آڑ میں ہجوم کی شکل میں جسے مرضی شکار کر کے قتل کرتے پھریں اور اس قتل و غارت کا کوئی ریکارڈ نہیں رکھا جاتا تھا اسلئیے حتمی تعداد کا اندازہ مشکل ہے ۔جرمنی میں سب سے زیادہ تعداد میں لوگ موت کے گھاٹ اتارے گئے ۔ ایک کروڑ ساٹھ لاکھ کی آبادی میں سے پچیس ہزار افراد کو قتل کئیے جانے ا ریکارڈ ملتا ہے یعنی فی دوہزار افراد میں سے تین کو ایسے الزامات کے تحت موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ڈنمارک اور ناروے میں نولاکھ ستر ہزار کی آبادی میں سے ایک ہزار تین سو پچاس افراد کو موت کے گھاٹ اتارے جانے کا ریکارڈ ملتا ہے ۔

    ReplyDelete
  16. مشہور فلاسفر جیورڈن برونو کو سولہ سو میں موت کی سزا دی گئی ۔ اسی طرح جیسا کہ عنیقہ بی بی نے لکھا ہے گیلیلیو کو سولہ سو تینتیس میں مقدمے سے گزارنے کے بعد جان بخشی کی گئی۔ جبکہ اطالیہ یعنی اٹلی میں ٖصرف چھتیس کیسوں میں سزائے موت دی جاتی ہے۔ پرتگال میں محض چار افراد کو مسلک کی بنیاد پہ موت کے گھاٹ اتارے جانے کا ریکارڈ ملتا ہے اور اسپین میں ایک لاکھ پچیس ہزار مقدمات میں کھلی کچہریوں سے صرف اناسٹھ جادوگرنیوں کو قتل کئیے جانے کا ریکارڈ ملتا ہے ۔ ممکن ہے اسمیں کوئی کمی بیشی ہوئی ہو ۔ اسمیں کوئی شک نہیں کہ زیادہ تر اعتراف جرم عقوبت خانوں میں دلدوز تشدد سے کروائے جاتے تھےگر سوائے برطانیہ کے باقی تقریبا سبھی ممالک میں مقدمات کا ریکارڈ اور دستاویزات محفوظ کی جاتی تھیں اس سے ایک حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ یوروپ کے شمالی ممالک کی نسبت یوروپ کے جنوبی ممالک جیسے پرتگال اسپین اٹلی وغیرہ میں تب مذھبی جنون میں قتل کے گھاٹ اتارنے کا رحجان کم تھا ۔

    عنیقہ بی بی! نے یوروپ کے اس دور کی بجا طور پہ صحیح منظر کشی کی ہے اور امید ہے کہ وہ ابھی یہ سلسلہ جاری رکھہیں گی اسلئیے ہم واپس ہسپانوی مسلمانوں کی تدریب اور انقصیسیوں کی بات کرتے ہیں ۔مسلمانوں کی شامت اعمال کا اصل اور بدترین دوسرا دور چودہ سو بیانوے کے بعد شروع ہوتا ہے جس کے بارے میں میں یہاں ایک آرٹیکل کے کچھ حصے لکھ رہا ہوں ۔انقصیسیوں کو پندرہ جولائی سن اٹھارہ سو چونتیس کو ختم کر دیا گیا یہ وہ سن ہے جب اس ادارے کو ختم کر دیا گیا ورنہ درحقیقت اس ادارے کے تحت مذھبی اعتراف نامے کی آخری سزا سولہ سو اکیانوے میں دی گئی ۔ جبکہ دیگرمقدمات اٹھارویں صدی تک جاری رہے جبکہ ان اگلی صدی دیڑھ میں مقدمات کی تعداد انتہائی کم کر دی گئی اور اس سلسلے میں مسلمانوں کے مکمل سقوط کے بعد بغیر سزا جزا کے، آخری مقدمہ اٹھارہ سو اٹھارہ میں قرطبہ میں بنیا یا گیا ۔ مگر یہ ساری تفضیل اسلئیے لکھ دی ہے اور امید کرتا ہوں کہ اسسے اس دور کو کچھ سمجھنے میں مدد ملےگی۔
    Unfortunately, the kingdom was gradually undermined due to the internal disagreements between its ( Mulims of Gharnata) rulers and the successive conquests of various parts of the kingdom by the Christian armies. [....] Catholic Monarchs decided to conquer the capital as the final step [....] . On 2nd January 1492, Granada surrendered.

    Although the treaties signed by the Catholic Monarchs with Boabdil (Abu Abdullah) for the surrender of Granada stated that the different languages, religions and customs would be respected, after a few years it became clear that this was not happening in practice, and Cardinal Cisneros insisted that everyone, regardless of their religion, be baptised.

    The inquisitors had never been happy with these treaties which they believed slowed down their attempts to reduce the Muslim population and the practice of Islam in Spain. They also thought a Muslim revolt was imminent and that it was useless to expect peaceful conversion to Christianity. Cardinal Ximenes therefore asked Isabel and Fernando for permission to continue his inquisition activities and they agreed. Consequently, on 18th December 1499, some three thousand Moors (Muslimis) were baptised, a major mosque in Granada was converted to a church and the burning of supposed religious books and documents began.

    This understandably led to revolts and protests with a lot of unrest among those who had been forced to convert to Christianity, and a series of mutinies followed, culminating in the 1680 revolt which was finally put down. The most determined rebels fled to the Alpujarras where there was a violent uprising several years later.

    ReplyDelete
  17. Although promises were made that the treaties would be honoured, this did not happen and Ximenes announced that those Moors (Muslimis) who refused to be baptised would be expelled. These baptisms were carried out en mass and at an incredible speed - so fast in fact that there was no time for religious instruction to be given to the new "converts". It has been estimated that between 50,000 and 70,000 Muslims were forcibly baptised in this way in Granada. The offer of emigration to Africa was really only a hollow promise [....].

    After the Catholic Monarchs died, things got progressively worse: Queen Juana forbade the Moriscos ( name of converted Muslims to Christianity) to wear their national dress, and Carlos V introduced a theological council in 1526 which attempted to reform them. These rules were not rigidly imposed and people were able to avoid them by paying certain taxes. That all changed, however, with Felipe II who prohibited the use of Moorish dress, language and customs. As a result, there was a violent uprising on 24th December 1568. It began in the Albaicín and continued on into the Alpujarras with the Morisco Aben-Humeya being proclaimed king. Reinforcements were sent from Africa and the revolt extended to the rest of the province of Granada. [....]. . Following the death of Aben-Humeya, the uprising was eventually squashed in 1571. The rebels were then expelled from the kingdom and it was subsequently repopulated by Spaniards from other parts of the country. [....].
    The Spanish inquisition lasted from 1478 until 1834, an incredible 350 years. The idea behind any inquisition is to root out non-believers or anti-establishment individuals and the Spanish inquisition was used for both political and religious reasons. Following the conquest of Spain by the Catholic monarchs in 1492, there still remained a wealth of different religions living in Spain[....]. Fernando and Isabel asked Pope Sixtus IV for permission in 1478 to "purify the people of Spain". He gave his reluctant approval and it was his duty to appoint the Inquisitor General.

    In his role as the first Inquisitor General in 1483, Tomas de Torquemada was responsible for establishing the rules of the inquisition and branches in various cities. During the fifteen years (up to 1527) he was in control, 2000 Spaniards were executed. The main aim of the Inquisition was to punish, torture and execute Jews and later Muslims who had converted to Christianity but who were insincere about their new religion. People could be accused by the general population. If they admitted to any wrongdoings and turned in any other wrongdoers, they would be released or given a short prison sentence. However, if they refused to cooperate, then they would be either publicly executed or sentenced to life imprisonment.

    The [....]. church, was decided on at the autos-da-fé (the trials of faith). These were large, solemn occasions and designed to instill fear and respect in those who attended them. One of the squares where these were held was the Bibarrambla square. Two processions would converge in the square: one bringing the accused from wherever they were being held prisoner, and the other with the heads from a nearby church. It was a long affair, going on from dawn to dusk, and stopping for lunch - a huge banquet - which was watched by those standing trial. Sentences would then announced in the afternoon, and those found guilty would either be taken away to be burnt or burnt in Bibarrambla itself, and the innocent would be pardoned.

    The Inquisition, characterised by its cruelty and brutality, was finally abolished in 1834.

    ReplyDelete
  18. خوآن انتونیو یور ینتے جس کے پاس سترہ سو اننانوے سے لیکر اٹھار سو ایک تک اس ادارے کے سیکٹرری جنرل کا عہدہ رہا اس نے سن اٹھارہ سو بائیس میں پیرس میں
    Juan Antonio Llorente, 1822, PARIS , Historia crítica de la Inquisición.
    اپنی کتاب میں تین لاکھ اکتالیس ہزار افراد پہ مقدمات قائم کئیے جانے کا اعتراف کیا اور اور اس میں سے دس فیصد یعنی اکتیس ہزار نو سو بار افراد کو سزائے موت دئیے جانے کا اعتراف کیا ہے۔ یہاں یہ امر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ یہودی کہتے ہیں کہ چودہ سو بیانوے میں سقوط غرناطہ کے وقت چونکہ بحرِ روم پہ ترکوں کی مکمل عملداری تھی اور ان سے خوف ذدہ ہونے کی وجہ سے بھی نصرانی شاہوں نے مسلمانوں پہ اسقدر ظلم و ستم نہیں ڈھایا جبکہ یہودی اس ظلم کا بہت زیادہ شکار ہوئے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہی ہے مسلمانوں کے ساتھ دوسری قومیں جیسے جیسا کہ عنیقہ بی بی! نے بھی تحریر کیا ہے کہ ۔ غیر کیتھولک عیسائی ، خانہ بدوشِ اور یہود وغیرہ سبھی کو مذھب کے نام پہ ظلم و ستم کا شکار بنایا گیا۔ کچھ سال پہلے پوپ جوآن پابلو دوئم نے عیسیٰ بیل کو ولیہ (سینٹ) کا رتبہ دینا چاہا تو یہودی تنظیموں نے یہ کہہ کر بجا طور پہ آسمان سر پہ اٹھا لیا کہ انھیں اسپین سے بے دخل کرنے والی ملکہ کو کیونکر پوپ ولیہ کا رتبہ دینا چاہ رہے ہیں اور غالبا کلیسا کو یہ تجویز واپس لینی پڑی ، مگر حیرت انگیز طور پہ وہ لوگ مسلمان جن پہ وہ ظلم صدیوں روا رکھا گیا ان کی طرف سے کوئی احتجاجی آواز کسی فورم پہ سنائی نہیں دی تھی۔
    اسی طرح اس داروگیر کو مذھبی طور پہ امریکہ دریافٹ ہونے پہ وہاں کیلسا کے حکم کے تحت لاگُو کیا گیا۔
    ا ایک بات کی وضاحت یہاں ضروری ہے کہ ۔اس ظلم و ستم پہ کی وجہ سے انیس سو پینسٹھ میں پوپ پبلو ششم نے ہولی آفس یا مقدس خدمت کو نئے سرے سے ترتیب دیا اور انیس سو اٹھانوے میں پوپ جوان پبلو دوائم نے پورے یوروپ میں ماضی کے دوران ہولی آفس کے تمام ریکارڈ کو اوپن کرنے کی ہدایت کی ۔

    ReplyDelete
  19. محترم جاوید صاحب
    اسلام علیکم
    شکریہ آپ نے بڑے تفصیل سے حوالہ جات لکھے ۔ مگر چونکہ ہسپانوی اور فرچ زبانون میں ہیں اس لئے میں مزید شاید ان سے مستفید نہ ہو سکوں ۔
    بقیہ معلومات کو اتنی تفصیل سے لکھنے کا شکریہ

    ReplyDelete
  20. جاوید صاحب، آپکی ان تمام معلومات کا بیحد شکریہ۔
    یہ وضاحت میں پہلے بھی کر چکی ہوں کہ میری ان تمام تحریروں کا مقصد صرف اس بات پہ غور کرنا ہے کہ تاریخ میں سنگین ترین حالات میں بھی مختلف اقوام نے کیسے فکر کی روشنی حاصل کی اور کس طرح اپنی سمت تبدیل کی۔ اسکا قطعی کوئ تعلق مسلمانون پہ ہونے والے مظالم سے نہیں ہے۔ چونکہ میرا بنیادی مقصد اس گفتگو کو سرسید اور قیام پاکستان سے پہلے مسلمانوں میں چلنے والی مختلف ترقی پسند تحریکوں کا بیان ہے تو اسپین کے مسلمانوں کا موضوع مجھے اپنی دانست میں یہ ایک غیر متعلقہ موضوع لگتا ہے۔
    جہاں آپ نے یہودیوں پہ مظالم کی داستان کا ذکر کیا ہے۔ وہاں میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ چونکہ یوروپ میں ان یہودیوں کا بھی عم دخل رہا۔ بعد کے آنیوالے زمانوں میں یہو دی بہت زیادہ معاشرتی تبدیلیوں کا باعث بھی بنے۔ جس میں انکا علم اور تحقیق کی طرف بےحد راغب ہونا اور مختلف وجوہات کی بناء پہ ان میں سے ایک قابل ذکر تعداد کا لادینیت کی تحریک کو سپورٹ دینا تھا۔ مسلمان عملی طور پہ یوروپ کے معاملت سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔ تو اب اس سارے قصے میں جن لوگوں کا تذخرہ لازمی ہے وہ عیسائ اور یہودی ہیں۔
    اسپین کی تاریخ اپنے طور پہ ایک سرمایہ ہے اس میں بہت کچھ لکھا گیا۔ اور اسکے بہت سارے پہلو ہیں جو فی الوقت ہمارے دائرے میں نہیں۔
    یہ جین آرمسٹرونگ کی کتاب ' خدا کے لئیے لڑی جانیوالی جنگ' ہے جس میں انہوں نے مختلف اعداد و شمار دئیے ہیں۔ اس میں انہوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ فرڈیننڈ اور ازابیل کے اقتدار کے شروع کے بارہ سال میں تیرہ ہزار ایسے یہودیوں کو مارا گیا جو مذہب تبدیل کر کے کیتھولک عیسائ بن گئے تھے اسی کتاب میں دی گئی معلومات کے مطابق ایک لاکھ تیس ہزار یہودی جلا وطن ہوئے اور تقریبا ستر ہزار نے عیسائ مذہب اختیار کیا۔ ان میں سے بیشتر ترکی کے صوبے بلقان، پرتگال اور شمالی افریقہ کے علاقون کی طرف چلے گئے۔ مارے جانیوالے نو مسلم یہودی تھے لیکن انکے رحجانات قطعی یہودیت کی طرف مائل نہ تھے۔ یہاں یہ بھی ذہن میں رہنا چاہئیے کہ تاریخ میں کمی بیشی کرنا ایک عام وطیرہ رہا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا وجہ تھی کہ ہولوکاسٹ کے دوران اتنے یہودیوں کو مارا گیا۔ اگرچہ یوروپ کے کچھ حصوں میں آج بھی ہولوکاسٹ پہ گفتگو نہیں ہو سکتی۔ لیکن یہ ایک ظلم تھا جو ایک قوم نے دوسری قوم پہ کیا۔
    میرا مقصد یہودیوں کی طرفداری نہیں، میرے تو جاننے والوں میں دور دور تک کوئ یہودی نہیں اور جیسا کہ ہم پاکستانی بچپن سے ہی یہودیوں کے متعلق کچھ ایسی کہانیاں سنتے آئےہوتے ہیں کہ اگر کبھی کسی کے متعلق پتہ چلے کہ یہ یہودی ہے تو حیرانی ہو کہ یہودی تو بالکل انسانوں کی طرح ہوتے ہیں۔

    ReplyDelete
  21. دوسری بات یہ کہ آپ نے کس طیش میں یہ تمام فرنچ اور اپینش ریفریسز لکھ ڈالے۔ محض ایک دو لکھ کر اگر یہ کہہ دیتے کہ باقی بھی بس ایسے ہی ہیں اگر کسی کوچاہئیے تو دیدوںگا تو مجھے یقین ہے کہ باقی سب شکرادا کرتے اور آپکی انگلیوں کو اتنی تکلیف نہ اٹھانی پڑتی۔ اب دعا کرتی رہونگی کہ کوئ ان زبانون کا جاننے وال بھی میرے بلاگ سے گذرنے کی سعادت حاصل کرے۔
    :)

    ReplyDelete
  22. بی بی!! (ّ۔ّ) آپ نے بھی حد کردی۔ میں بھلا کیوں طیش میں آؤنگا؟ :) محترم ریاض شاہد صاحب نے حوالے کے بارے کہا تو میں نے انکا تجسس اور شوق دیکھتے ہوئے ایک لمبی فہرست کچھ بکس کی تیار کی جس میں مختلف زبانوں کی کتب شامل ہیں تانکہ جو کتان آسانی سے مل سکے ، دیکھ لیں ۔ اگرساری کتاب اگر کھنگالنا مقصود نہ تو صحفہ نمبر لکھ دئیے ۔ اب اتفاق سے لاطینی حروفِ تحجی کی ترتیب سے ہسپانوی وغیرہ نام پہلے آتے تھے۔ آپ کے بلاگ پہ غالباََ چارہزار حروف سے کم حروف ایک ہی بار تبصرہ کی شکال میں بیجھنے جانے کی پابندی نے ساری فہرست بیجھنے سے میرا ہاتھ روک دیا۔
    آجکل بہت سے کتب ٹیکسٹ فورمیٹ میں سی ڈی ؤغیرہ کی صورت میں خیردی جاسکتی ہیں ۔ یا بنک کارڈ سے پیسے بھر کےیا ڈاؤنلوڈ کی جاسکتی ہیں۔ کچھ مفت بھی مل جاتی ہیں ،۔ انھیں کسی بھی مترجم سوفٹ وئر سے مطلوبہ حصہ آسانی سے پڑھا جاسکتا ہے بس تجسس ہونا چاہئیے ۔ اس خیال سے فہرست جیسے تیسے بھیج دی ، کچھ ضروری کام بھی تھے ۔ بس پھر اٹھ گیا۔ اور آپ نے میری محنت اور خلوص کا جلوس نکال دیا۔:)
    موضوع سے متعلق آپ کی بات درست ہے ، میں نے تو بس سرراہ لکھا ہے۔ آپ کے اگے مضمون کا انتظار رہے گا۔
    ذیل میں کچھ انگریزی میں کتابوں کے نام ریاض شاہد صاحب کے لئیے۔ اور جوقاری استفادہ کرنا چاہے۔

    Daily life during the Spanish Inquisition - page-number 118
    James Maxwell Anderson - 2002 -

    The Spanish Inquisition, 1478-1614: an anthology of sources - page-number 238
    Lu Ann Homza - 2006 -

    A Guide to Universal Truths: Planet Earth, How Did We Get Here?
    Robert Thomas Fertig - 2006 -

    The Spanish Inquisition: A History - page-number 46
    Joseph Pérez, Janet Lloyd - 2006 -

    The Muslims of Valencia in the age of Fernando and Isabel: between Coexistence and Cusade
    Mark D. Meyerson - 1991 -

    The persecution of the Jews and Muslims of Portugal: King Manuel I ... - page-number 294
    François Soyer - 2007 -

    The Spanish Inquisition
    Helen Rawlings - 2006 - 174 páginas

    The Catholic Church through the ages: a history - page-number 150
    John Vidmar - 2005

    Crisis and Renewal: The Era of the Reformations - page-number 205
    R. Ward Holder - 2009 - 272 páginas

    Christians, Muslims, and Jews in medieval and early modern Spain: ...
    Mark D. Meyerson, Edward D. English - 2000 -

    Definitive encounters: Islam, Muslims, and the West - page-number 373
    Muzaffar Iqbal - 2008 -

    The Geography of Genocide - page-number 135
    Allan D. Cooper - 2009 -

    Criminal profiling: an introduction to behavioral evidence analysis - page-number 10
    Brent E. Turvey - 2008 -

    ReplyDelete
  23. محترم جاوید صاحب
    اسلام علیکم
    سب سے پہلے تو بہت شکریہ کہ آپ نے کتابوں کے انگلش ریفرنس دیے ۔ سپینش ہسٹری سے شغف کی بنا پر ان میں سے کچھ یقینا میرے لیے بہت مفید اور کار آمد ہوں گے ہوں گے

    انگریزی حوالوں والا کام آپ پہلے بھی کر سکتے تھے مگر ۔۔۔۔۔۔
    ۔ نجانے کیوں مجھے یقین ہے کہ آُپ کے بارے میں میری تشخیص درست ہے ۔
    آپ بہت کام کے آدمی ہیں بس ذرا دوسروں کی تھوتھنی زمین پر خواہ مخواہ رگڑنا چھوڑ دیں تو آپ کے اندر چھپے ہوئے اور قید ایک بہت خوبصورت انسان کو باہر نکلنے کی راہ مل سکتی ہے
    اب آپ ناراض ہونا مت شروع کر دیجئے گا ۔ جہاں آپ اپنی اس عادت کا مظاہرہ کریں گے میں ایک اچھے دوست کی طرح نشاندہی کرتا رہوں گا۔
    خیر اندیش

    ReplyDelete
  24. اللہ اکبر!!
    ریاض شاہد! صاحب!! میں اس کے علاوہ کیا کہہ سکتا ہوں؟ ۔ صرف دعا ہی کر سکتا ہوں کہ خدا ہمیں درست اندازے لگانے کی توفیق دے ۔آمین

    ReplyDelete
  25. جاوید صاحب
    میں آپ کے آخری کمنٹ میں متحمل جواب پر مشکور ہوں ۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ