Monday, March 1, 2010

نئے افکار انکا حصول اور ترویج-۶

وولٹیئر نے کہا، 'توہم پرستی کو کچل ڈالو'۔ وولٹیئر انیسویں صدی میں فرانس میں کلیسائ طاقتوں کے خلاف اٹھنے والی مضبوط آواز تھا۔ اسکے بغیر انقلاب فرانس کی کہانی ادھوری رہے گی۔ اور  اٹھارویں صدی کے انقلاب فرانس کے تذکرے کے بغیر یوروپ کی تبدیلی کی کہانی نا مکمل رہے گی۔ اس تاریخ کے کردار اتنے حقیقی ہیں کہ آج اکیسویں صدی میں بھی تلاش کئیے جا سکتے ہیں ۔خاص بات یہ ہے کہ  اس انقلاب کی بنیاد فرانس کے دانشوروں اور قلمکاروں  نے رکھی۔
فرانس میں اس وقت اہل کلیسا اور دو مذہبی جماعتوںیسوعی جماعت اور یان سینی جماعت کا اقتدار میں حصہ تھا۔ امراء اور عدلیہ ان جماعتوں کے زیر اثر تھے اور یہ سب ملکر یہ تاثر پھیلاتے تھے کہ عقلی علوم، فلسفہ اور سائینس ، بادشاہت کے لئے خطرہ ہیں۔
کلیسا کے لئیے فرانسیسی ادیب ویدیرو کا یہ جملہ بھی مسیحیت کے خلاف تھا کہ 'بہت سے لوگوں ادب کو اسی طرح قابل  احترام سمجھتے ہیں جس طرح مذہب کو یعنی نہ ادب کی حقیقت سمجھتے ہیں، نہ اس سے محبت کرتے ہیں، نہ اس پہ عمل کرتے ہیں۔'
 یہ  ایسی بات تھی جس پہ کسی کو مسیحیت کے دائرے سے باہر کر دینا ایک معمول کی کارروائ ہوا کرتی تھی۔ نتیجے میں لوگ تنگ آ کر ملحد ہوجاتے۔ ۔ویدیرو نے تین کتابیں لکھیں جن میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئ کہ اہل کلیسا، عیسائ مذہب کی ایسی تاویلیں کر رہے ہیں جو تعلیم یافتہ طبقے کو عیسائیت سے متنفر کر رہی ہیں۔ اس کی ایک کتاب 'خدا کو وسیع کرو' کو اہل کلیسا اور عدالتوں نے ملکر نذر آتش کر دیا۔ ویدیرو کو قید تنہائ سے گذرنا پڑا۔
 اسی عرصے میں بادشاہ پہ ایک مذہبی جنونی کے حملے کے بعد مذہبی جماعتوں نے اس پہ زور ڈالا کہ وہ ملکی قوانین اور حکمت عملی کو مسیحی قوانین کے تابع کرے۔ اس طرح سے امور مملکت سے متعلق فیصلوں میں پادریوں اور یسوعی جماعت کا عمل دخل بڑھا۔ فرانسیسی قوم کے مسیحی تشخص کو ابھارنے کی مہم شروع ہوئ لیکن کوئ اہم تبدیلی عمل میں نہ آسکی کیونکہ حضرت عیسی کی تعلیمات کے نتیجے میں شاہی شان و شوکت، جاگیردارانہ جاہ و چشم، سرمایہ دارانہ مفعت، انکی کوئ گنجائش نہ تھی۔
حالات اس نہج پہ پہنچے کہ وولٹیئر کے بقول وہ قوم جو شعر و شاعری، ناول، ڈرامہ نگاری، رومانی تاریخ، اخلاقی پند و نصئح اور اولیائ کرامات کی کہنیوں میں مگن تھی وہ اب بحث کرتے تھے کہ روٹی مہنگی کیوں ہوگئ ہے، بندء مزدور کے اوقات اتنے سخت کیوں ہیں، ٹیکس کا نظام اتنا ناقص کیوں ہے، زمین کے مالئیے میں یکسانیت کیوں نہیں ہے۔
ولٹیئر نےایک جگہ لکھا کہ'یہ رائے ابھر رہی ہے اور تقویت پکڑتی جا رہی ہے اور ممکن ہے کہ ایک قومی انقلاب کا باعث بن جائے۔۔۔۔۔۔۔۔ لوگوں کے ذہن احتجاج اور بغاوت کی طرف مائل ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہر شے ایک ایسے عظیم انقلاب کی طرف جاتی محسوس ہو رہی ہےجو مذہب میں بھی آئیگا اور حکومت میں بھی۔
اہل کلیسا میں نا اتفاقیاں شروع ہو گئیں اور کیتھولک اور پروٹسٹنٹ فرقوں کے درمیان فرقہ وارانہ اختلافات اتنے بڑھے  کہ فرانس کے ضلع تولوس میں میں کوئ وکیل اور ڈاکٹر پروٹسٹنٹ نہیں ہو سکتا تھا۔ پروٹسنٹ کتابیں نہیں بیچ سکتا تھا۔ ایک عورت کو محض اس بات پہ جرمانہ کیا گیا کہ اس نے وضع حمل کے لئیے پروٹسٹنٹ دایہ کی خدمات لی تھیں۔
ان سب حالات میں بھی یونانی اور مسلمانوں کے عقلی علوم کا چرچا تھا۔ اور ایک مصنف الوتیس کے خلاف اس بات پہ مقدمہ چلانا چاہا  کہ اس نے لکھا کہ کیا ترکوں میں ہم سے زیادہ مذہبی رواداری نہیں، پیرس میں ایک بھی مسجد نہیں اور قسطنطنیہ میں کئ گرجا گھر ہیں۔ اس بات پہ اسکے خلاف پہ الزام لگایا گیا کہ وہ پیرس میں مسجد بنانا چاہتا ہے۔
 الوتیس نے مزید لکھا کہ کہ یہ ضروری نہیں کہ صرف وہی قوانین نافذ کئ جائیں جنکا ذکر انجیل میں ہے اگر اس پہ اصرار کیا جائے تو ملک کا نظام چلانا مشکل ہوجائے گا مثلاً رسل و رسائل کے ضابطے جو فرانس میں نافذ ہیں انکے بارے میں کوئ حکم انجیلی مقدس میں نہیں ہے۔
لہذا مفاد عامہ کو معیار بنانا چاہئیے۔ایلوتیس کو اپنے ایسے تمام بیانات پہ ایک معذرت نامہ لکھنا پڑا۔
اور اس بات کو ڈاکٹر آغا افتخار حسین سے اس طرح لکھا کہ۔
 جب معاشرے میں اعتدال باقی نہیں رہتا تو نیکی بدی کے سامنے معذرت خواہ ہوتی ہے، صداقت کذب کے سامنے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علم جہل کے سامنے معذرت خواہ ہوتا ہے حقیقت سراب کے سامنے معذرت خواہ ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ معاشرے میں آگہی ایک جرم ہوتی ہے اور دانشور ایک مجرم بن جاتا ہے ایک اقبالی مجرم'۔
 فرانس میں مذہب کے نام پہ دہشت گردی کار ثواب تھی۔  لیکن لکھنے والے اسکے خلاف سینہ سپر ہوئے۔  ایلوتیس ، اپنے معذرت نامے سے پھرا۔ جلاوطن ہو جانیوالے وولٹیئر نے پھر وطن کا رخ کیا اور یہ نعرہ بلند کیا کہ اندرونی دشمنوں نے اپنا حربہ مسیحیت بنا لیا ہے۔ اور انہوں نے دین کو توہم پرستی میں تبدیل کر دیا ہے اور ہر واہمے کو سمجھنے اور سمجھانے کی ذمہ داری خود اٹھا لی ہے۔ لہذا توہم پرستی کو کچل دو۔
اس نے کہا اہل فکر کو متحد ہو جانا چاہئیے۔ وہ خود نہ ملحد تھا اور نہ مسیحیت کا مخالف اس نے ایک ملحد کو لکھا کہ آپ کہتے ہیں کہ مذہب دنیا میں متعدد مصائب اکا سبب بنا ہوا ہے اسکے بجائے یہ کہئیے کہ اسکا سبب توہم پرستی ہے۔۔۔۔یہ توہم پرستی

رب العزت کی عبادت کی نہایت بے رحم دشمن ہے۔ ہمیں چاہئیے کہ اس عفریت سے نفرت کریں'۔
وولٹیئر نے اپنی مہم کتابوں کے ذریعے نہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے پمفلٹ، رسالے، اشتہارات وغیرہ ہزاروں کی تعداد میں شائع کئیے۔تاریخ میں قلم کے ذریعے غالباً اس سے موئثر تحریک نہیں چلائ گئ۔بعد ازاں  ۔یسوعی جماعت کے اراکین کیخلاف ثبوت اکٹھا کئیے گئے جو انکی زر اندوزی، دولت آفرینی اور حصول اقتدار سے محبت کو ظاہر کرتے تھے
آخر کار نومبر ۱۷۷۳ میں بادشاہ نے یسوعی جماعت پہ پابندی لگا دی۔ پوپ نے اس جماعت کی مذمت کی۔
انسان کو قتل کیا جا سکتا ہے اسکی فکر کو نہیں۔
حوالہ؛
حریت فکر کے مجاہد، مصنف وارث میر، جنگ پبلشرز

11 comments:

  1. تو کیا کالے بکروں کی قربانی بھی توہم پرستی میں آتی ہے ۔

    ReplyDelete
  2. ریاض شاہد صاحب، مجھے اس بارے میں کچھ نہیں معلوم آج تک اپنی مصیبت بکرے کے اوپر ڈالنے کا خیال نہیں آیا۔ لیکن یہ ضرور دیکھتی ہون کہ دنیا میں لا تعداد لوگوں کو بکروں کو اس پل صراط سے گذروانے کی نوبت نہیں آتی۔ خیال آتا ہے کہ آخر وہ اپنے مصاءب یا رنج و الم سے کیسے نجات پاتے ہیں۔

    ReplyDelete
  3. کلچرل تضاد، ہائے مار ڈالا
    اے آلی تھریر کتھے؟
    :s

    ReplyDelete
  4. دل ہولا رکھیں تو دون۔ کیونکہ میں نے ہتھ ہولا نہیں رکھا۔

    ReplyDelete
  5. عنيقہ آپکو کيا ہو گيا ہے گھريلو فضا تو خوشگوار ہے ناں

    ReplyDelete
  6. ہائے اسماء، آپ بے فکر رہیں۔ میں بندر کی بلا طویلے پہ نہیں بندر پہ ہی اتارتی ہوں۔ ورنہ اس حساب سے گذشتہ آٹھ مہینوں میں تو میرے گھر میں بڑے زلزلے آ جانے چاہئیے تھے۔ ویسے راز کی بات ہے میرے گھر والے اور گھر والا کوئ بھی میرا بلاگ نہیں پڑھتا۔

    ReplyDelete
  7. اس اقتباس کو پڑھنے کے بعد سوچ رہا ہوں کہ پروفیسر وارث میر کی یہ کتاب خرید ہی لوں

    ReplyDelete
  8. بی بی!
    میں کچھ مصروف ہوں اسلئیے دیر سے لکھ رہا ہوں۔گمان کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے وولٹئیر کے بارے میں زیادہ جانے بغیر اسے نئے افکار ، انکا حصول اور ترویج میں شامل کر لیا ہے۔ ورنہ دل نہیں مانتا کہ آپ ایک شاتم رسول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے افکارات کی تائید کو موضوع بنائیں ۔ غالب امکان یہ ہے کہ وولٹئیر سے آپکی مراد مشہور متنازعہ فرانسیسی فلاسفر ہی ہے جس کا زمانہ اکیس نومبر سولہ سو چوسنٹھ سے لیکر سترہ سو اٹہتر ہے ۔ کیونکہ انقلابِ فرانس کے مذھبی نظریات کے شمار میں اس وولٹئیر کا ذکر آتا ہے ۔وولٹئیر نے نصرانیت سے انکار نہیں کیا تھا بلکہ نصرانیت کا ایک نئی طرح کا تصور پیش کیا تھا جس میں چرچ کے نمائیندوں کا خدا کے نام پہ کسانوں سے انکی اجناس و مال کا دس فیصد (دیسیما) ھتیاء لینے اور اسطرح کی دوسرے معاملات خدا کی ضرورت نہ ہونا قرار دیا گیا وغیرہ۔

    قارئین کے لئیے یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگی وولٹئیر جس کا درست نام فرانسس ماریا ارویت تھا۔ ۔ وہ شاتمِ رسول بھی تھا اور اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں سترہ سو چھتیس میں ایک ڈرامہ یا پلے پہ مبنی ایک کتاب لکھی تھی ۔جسے فرانس کے شہر لل میں سترہ سو اکتالیس میں ڈرامایایا پلے کیا گیا ایک انتہائی نازیبا اور دل آزار کتاب ہے ۔اسے باقاعدہ طور پہ ایمسٹرڈیم سے آئن اسٹائن لیڈیٹ اینڈ کمپنی نے سترہ سو ترپن میں چھاپا۔ کتاب کا فرانسیسی میں پورا نام "لے فناتِزم او لے پروفیت محمیت ہے۔"۔
    Le fanatisme, ou Mahomet le Prophete, (French) (literally) Fanaticism, or Mahomet the Prophet)
    اس کتاب پہ ان الفاظ پہ تنقید کی گئ ہے۔ جس کے بارے ذیل میں رابطہ لنک بھی ہے ۔
    "[.....]The play is a direct assault on the moral character of Muhammad. The characters of Seid and Palmira represent Muhammad's adopted son Zayd ibn Harithah and his wife Zaynab bint Jahsh. The play’s plot contradicts the facts of the respective Surah in the Qu’ran:
    37. Behold! Thou didst say to one who had received the grace of Allah and thy favour: "Retain thou (in wedlock) thy wife, and fear Allah." But thou didst hide in thy heart that which Allah was about to make manifest: thou didst fear the people, but it is more fitting that thou shouldst fear Allah. Then when Zaid had dissolved (his marriage) with her, with the necessary (formality), We joined her in marriage to thee: in order that (in future) there may be no difficulty to the Believers in (the matter of) marriage with the wives of their adopted sons, when the latter have dissolved with the necessary (formality) (their marriage) with them. And Allah.s command must be fulfilled. Qur'an Sura 33:37 [.....]
    http://en.wikipedia.org/wiki/Mahomet_(play)

    ۔یہ امر آپ کی دلچسپی کا باعث ہوگا کہتسلیمہ نسرین اور اس قبیل کے دوسرے لکھنے والوں کے لئیے مغرب نے وولٹئیر کے نقشِ قدم یا حسبِ وولتئیر کی اصطلاح ایجاد کر رکھی ہے۔وولٹئیر انتہائی متنازعہ اور دوغلی شخصیت کا مالک تھا۔ جن افکار کا وہ پرچار کرتا رہا خود ان پہ اس نے کبھی عمل نہیں کیا تھا ۔ خیال کیا جاتا ہے کہ اُسے تاجِ برطانیہ نے فرانس کے شاہی خاندان سے پرانی چیپقلش کی وجہ سے اسکی مدد کی۔ اس مدد کا ایک یہ طریقہ بھی اپنایا گیا کہ اسکی کتب کی ایک لمبی فہرست برطانیہ میں چھپوائیں گئیں اور اسکا معاوضہ زرِکثیر کی صورت میں اسے دیا جاتا،اسے برطانیہ میں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ، ۔ وولٹئیر نےبادشاہ اور فرانس کے بڑے لارڈز کی سوانح عمر لکھی اور پناہ حاص کی۔ وہ خود ایک جاگیر کا مالک تھا جہاں سے وہ باقی جاگیرداروں کی طرح اپنا حصہ وصول کرتا تھا، وولٹئر اپنے مقاصد کے حصول کے لئیے کسی بھی غیر اخلاقی حد تک جاسکتا تھا۔ وہ مسلمانوں کے علاوہ یہودیوں سے بھی شدید نفرت کرتا تھا۔

    نوٹ۔: انتہائی ناگزیر وجوہات کہ بناء پہ مجھے وقت کی قلت ہے پھر بھی اگر اصرار ہو تو وولٹئیر کے بارے میں مختلف زبانوں کے حوالے لکھ بیجھوں گا،۔ آپکی نیت پہ شک نہیں لیکن اگر کوئی فلسفے یا کسی بھی موضوع کو بنیاد بنا کر رشدی یا تسلیمہ نسرین وغیرہ کی لن ترانیوں کو مسلمانوں کے لئیے افکارات کا نام دے تو دکھ ہوگا اور وولٹئیر بھلے مغرب میں کچھ لوگوں کے نزدیک معتبر نام ہو مگر ہمیں مسلم جذبات کو بھی مد نظر رکھنا چاہئیے۔ ویسے بھی مغرب میں بھی وولٹئیر کو انتہائی متنازعہ بلکہ دو غلا تسلیم کیا جاتا ہے۔

    ReplyDelete
  9. آپکی ان سب معلومات کا بے حد شکریہ۔ جیسا کہ اس تحریر کا عنوان ہے نئ افکار، انکا حصول اور ترویج۔ اس سلسلے میں کسی بھی نظرئیے کا پرچار نہیں کر رہی ہوں۔ میں نے اخوان اصفا کا بھی تذکرہ کیا۔ انکے ساتھ بھی متنازعہ باتیں منسلک ہیں۔ اسی طرح عباسیوں کے ساتھ بھی مسائل رہے۔
    میں نے ابھی تک کسی بھی جگہ یہ نہیں کہا کہ ہمیں اس نظرئیے کے اوپر حرف بہ حرف عمل کرنا چاہئیے۔ یہ ایک ریویو ہے کہ مضتلف جگہوں پہ نئے افکار کو کس طرح متعارف کرایا گیا۔ جب ہم ایک غیر مسلن معاشرے کا تذکرہ کریں گے تو انکے حساب سے انکی اہم شخصیات کو دیکھنا پڑیگا۔ انکی تاریخ کو کس نے متائثر کیا اسکی اہمیت اپنی جگہ ہے۔ چاہے وہ شخص کتنا ہی اسلام دشمن کیوں نہ ہو۔
    وولٹئیر، ایک متنازعہ شخصیت تھا اور اسلام کے بارے میں اسکے خیالات متنازع تھے۔ جہاں ایک طرف اس نے رسول اللہ کی ذات پہ کیچڑ اچھالی وہیں اس نے انہیں ایک عظیم مذہبی رہ نما بھی کہا۔ اس سے اسلام یا پیغمبر اسلام پہ کوئ فرق نہیں پڑتا۔ لیکن جو اس نے فانسیسی بادشاہت کے دور میں کیا اس سے فرانس کو فرق پڑا۔ چاہے یہ اس نے تحراراً ہی کیوں نہ کیا ہو۔
    میں بہت دنوں سے ایک موضوع پہ لکھنا چاہ رہی ہوں اور موضوع ہے ایک رہ نما کی تخلیق۔ اس میں شاید میںآپ لوگوں سے یہ رائے لینے میںکامیاب ہو سکوں کہ کامیاب رہ نما کیسے پیدا و جاتے ہیں جو قوم کے اندر نئ امنگ بھر دیتے ہیں۔ جبکہ بعض اوقات وہ ان مسائل سے متائثر بھی نہیں ہوتے جو عوام کو درپیش ہوتے ہیں۔ جیسے قائد اعظم، اپنے وقت کے امراء میں شامل تھے۔ خاندانی طور پہ ایسے مصائب کا شکار بھی نہ رہے کہ انگریزوں کے خلاف جذبہ ء انتقام پیدا ہو گیا ہو۔ اور دیگر بہت ساری چیزین ہیں۔ انہیں اس سے زاتی طور پہ کوئ فرق نہ پڑتا کہ پاکستان بنے گا تو کیا ہوگا۔ لیکن پھر بھی وہ تاریخ میں ایسے مقام پہ مسلمانون کے سب سے بڑے رہنما بن گئے جب مسلمانوں کو ایک رہ نما چاہئیے تھا۔
    تو اسکا مقصد صرف یہ تھآ کہ یہ دیکھا جائے کہ وولٹیئر نے بطور ایک فرانسیسی اپنے ملک یں کیا کیا۔ یہ سب تو میں نے ایسے ہی اچانک لکھنا شروع کیا، لیکن لکھتے لکھتے مجھے یہ خیال آیا کہ تبدیلی کا سامنا ہر معاشرے کو کرنا پڑا اور ہر تہذیب کو۔ اور اس بات پہ تھوڑا وقت لگا کر سنجیدہ تحقیق کی جائے تو پتہ چلا کہ مختلف معاشروں میں تبدیلی کسطرح لائ گئ۔
    آپکا وقت نکالنے کا شکریہ۔ امید ہے کہ آپ کسی گمان سے آزاد ہو گئے ہونگے۔۔

    ReplyDelete
  10. ایک نئے سوفٹ ویئر کو انسٹال کرنے کے بعد اب میرے اردو فونٹس کیساتھ کچھ مسئلہ ہو گیا ہے۔ اس لئیے تبصرے مین اوسط سے زیادہ ہجوں کی غلطیان نظر آ رہی ہیں۔ ان غلطیوں کے لئیے معذرت۔ اب جب تک میں اس نئ طرز تحریر میں لکھنے کی عادی ہونگی آپ کو شاید یہ غلطیاں برداشت کرنی پڑیں گی۔ کیونکہ اس سوفٹ ویئر کو ہٹایا نہیں جا سکتا مجھے اسکی ضرورت ہے۔

    ReplyDelete
  11. رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ علم مومن کی کھوئی ہوئی میراث ہے جہاں سے ملے اسے حاصل کرلے۔ اس میں یہ شرط نہیں لگائی گئی کہ کسی کافر، منکرِ اسلام یا شاتم رسول سے ملے تو نہ لے۔ اگر کسی بد سے بدترین انسان نے بھی کوئی اچھی بات یا عمل کیا ہو تو ہمیں اسے رد نہیں کرنا چاہئے۔ بلکہ کچھ سیکھنا چاہئے۔ ہم والٹئیر کو انقلاب فرانس کا رہنما کہہ رہے ہیں اسے اپنی نمازوں کا امام نہیں بنارہے۔یا اس کی مغفرت کی دعا نہیں مانگ رہے۔

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ