Saturday, March 6, 2010

ذرا عمر رفتہ کو آواز دینا

بہانہ بنانا آنا ایک خدا داد صلاحیت ہی نہیں اسکا تعلق ضرورت سے بھی ہے۔ ورنہ ایسا کیوں ہوتا کہ شوہر بیوی سے، شاگرد استاد سے، عاشق معشوق سے ، حزب اقتدار حزب اختلاف سے زیادہ اچھے بہانے بناتی ہے۔
جو لوگ محنت کرنے کے عادی ہوتے ہیں وہ بہانوں پہ بھی بڑی محنت کرتے ہیں۔ غالب کو دیکھئیے بہانے سے ملاقات کے لئے مصوری تک سیکھنے کو تیار تھے
سیکھے ہیں مہ رخوں کے لئیے ہم مصوری
تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہئیے۔
زمانے کے چلن بدلے گئے۔ لا حول ولا قوت۔ مصوری جائز نہیں کہہ کر ایک بہانہ حاصل کیا اور دوسرا بہانہ کیا بناتے سر پہ ٹوپی جمائ اور دست دعا دراز کیا
خدا کرے کہ حسینوں کے نانا مر جائیں
بہانہ موت کا ہو ہم بھی انکے گھر جائیں
جنہیں ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنے سے بھی کاہلی آتی ہے انکے لئے اہل کفار نے جگہ جگہ اپنے فرنچائز ریسٹورنٹس کھول دئیے  ہیں۔ کے ایف سی کی ڈیل، تین گھنٹے تک ایک ٹیبل پہ بیٹھ کر باتیں بنانے کے لئے، تین سو روپے میں سودا برا نہیں۔ لیکن اس قدر بھیڑ میں ہوتی ہے ملاقات کہاں۔ اوپر سے اکثر محبوب کو اپنی گلی سے نکلنے کے لئیے کوئ ساتھی بھی چاہئیے ہوتا ہے۔ یوں روز ملتے ہیں مگر بات نہیں ہوتی ہے۔  ایسی ہی خواہشوں کے لئیے کہا گیا کہ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دُم نکلے۔ لیکن جب ڈارون کا نظریہ ء ارتقا پڑھا تو دل چاہا کہ صفحہ ء ہستی سے اسکا نام ہی مٹادیں۔ بد بخت کہتا ہے کہ پہلے دم تھی آہستہ آہستہ غائب ہو گئ۔ جبکہ ہم کہتے ہیں کہ پہلے نہیں تھی خواہشوں کے اسیر ہوئے تو ہو گئ۔  اور عالم یہ ہوا کہ
ہزاروں لڑکیاں ایسی کہ ہر لڑکی پہ دُم نکلے
مگر خدا بھلا کرے ہمارے یہاں دُمیں عام نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جس لڑکی پہ دُم نکلے وہ اپنے گھر سے کم نکلے۔ دم کے نقصان تو کچھ  اتنے زیادہ نہیں جب بھی دیکھے فائدے ہی دیکھے لیکن ایک تو اسے اسمارٹ رکھنے کے لئیے، ہمہ وقت ہلانا پڑتا ہے کیونکہ قدرت نے اسے رکھنے کے لئے دماغ کی طرح ایک کاسہ نہیں دیا جہاں وہ محفوظ رہ سکے۔  اور دوسرے یہ کہ جب کبھی بھاگنے کا ارادہ کریں تو اسےساتھ  دبا کر بھاگنا پڑتا ہے۔ پھر یہ کہ دم ہو تو چھلہ بھی ضرور ہوتا ہے۔ یوں  جو کام رستم سے نہ ہوا وہ آپ کر بھی ڈالیں یعنی انکے آنگن میں دھم سے کود بھی جائیں تو بعد کے حالات سے نبٹنے کے ساتھ ساتھ اسکی فکر بھی کرنی پڑ جاتی ہے۔
یوں محبت میں صوفیت کے قائل احباب اب اپنے آگے بالٹی بھر پانی لیکر بیٹھے رہتے ہیں
بالٹی کے پانی میں تیرا عکس دیکھتے ہیں
پھر اسکو ہلا کر تیرا رقص دیکھتے ہیں۔
دیکھا آپ نے رند رند کے رہے ہاتھ سے جنت بھی نہ گئ۔ لوگ سمجھتے ہیں وضو کی تیاری ہے یہ نہیں معلوم کہ عشق کی بیماری ہے۔ لیکن ہوا یوں کہ پہلے تو پانی کی کمی کا رونا تھا مگر بروز ابر مل بھی جاتا تو مہنگائ اتنی کہ بالٹی ہی نہ رہی۔ بس ادھر ادھر پھسلنے کے بہانے بنتے رہتے۔
بھلا ہو کمیونیکشن میں تیز رفتار ترقی کا، اب اپنوں سے بات ساری ساری رات۔ پہلے تکیوں کے نیچے
تصویر یار یا حسینوں کے خطوط ملتے تھے۔ اب موبائل فون ہوتا ہے۔ وہ بھی وائبریشن موڈ میں۔ اور ہلکی سی تھر تھراہٹ پہ بھی گماں ہوتا ہے کہ یہ پڑوسیوں کے خراٹے ہیں، پنکھے کی ہوا سے اڑنے والا کیلینڈر ہے کہ وہ ہیں۔ نہ میں عشق کے خلاف ہوں، نہ بہانوں کے اور نہ موبائل فون کے بس جھک کے دیکھتا ہوں جوانی کدھر گئ۔



11 comments:

  1. عمدہ
    بہت ای اعلی

    بس پوسٹ کے ٹائیٹل سے تھوڑی سی کنفیوژن ہو رہی ہے

    ReplyDelete
  2. اب تو نیٹ فون پر ویڈیو یعنی تصویر کی سہولت بھی موجود ہے ۔عاشقان کرام تخلیہ میں مجاز سے لے کر تجلی یار تک کے تمام مراحل آسانی سے طے کر سکتے ہیں ۔ہنگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ و نور بھی چھوکھا آتا ہے ۔
    ڈفر تم مجھے صوفیا کے فرقہ ملامتیہ کے فرد زیادہ لگتے ہو

    ReplyDelete
  3. ڈفر صاحب
    صوفیا کے مختلف سلسلے ہیں مثلا قادری ، خضریہ اور چشتیہ وغیرہ ۔ اسی طرح کا ایک گروہ ملامتیہ بھی کہلاتا ہے ۔ اس کے پیروکار جان بوجھ کر اپنا حلیہ ایسا بناتے ہیں کہ ان میں بزرگی یا فضل کا شائیبہ نظر نہیں آتا اور لوگ ان کی حرکتوں اور حلیے کی وجہ سے کسی قابل نہیں سمجھتے ، مگر اندر سے پکے مسلمان ہوتے ہیں ۔ حق بات کہتے ہیں مگر ان کے ظاہری حال کی وجہ سے ان پر گرفت نہیں ہوتی ۔ جب ملامت ، بھوک، پیاس، سردی، گرمی سے ان کا نفس قابو میں آ جاتا ہے تو پھر ان کو ذکر قلبی عطاء ہوتا ہے ذکر قلبی کے بعد دوبارہ دنیا میں آکر مفید بن جاتے ہیں اور ظاہرا بھی شریعت کے پابند ہو جاتے ہیں اور کئی اپنے اسی حال میں مست رہ کر منفرد کی زندگی گزار جاتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ حضرت مادھو لال حسین اسی سلسلے سے تعلق رکھتے تھے ۔

    ReplyDelete
  4. بہت عمدہ لکھا ہے ویسے ٹائٹل سے میں بھی دھواں دھار کی توقع لے کر آیا تھا۔۔
    صرف سوچتا یہ ہوں کہ دُم ہوا کرتی تو کتنے بلین ڈالر کی انڈسٹری اس کے ساتھ جڑی ہوتی۔ دم کی خوبصورتی کا میعار کیا ہوتا اور اس کی فلیر ااینڈ لمبی کریمیں کیسے استعمال ہوتی ۔۔ کچھ کچھ اندازہ تو اواتار کے ذریعے ہوگیا ہے۔۔ اور کچھ اندازہ غیر مرئی دم دبھا کر بھاگنے والوں کی دیکھ کر ہوگیا۔۔ اور کاسے کی چنداں فکر نا کریں ۔۔ لے آئیں گے بازار سے جاکر کاسہ دم اور۔

    ReplyDelete
  5. ڈفر، میں تو ان لوگوں کے بارے میں سوچتی ہوں جو اب سے کچھ ہی عرصے پہلے آدھی رات کو دنیا والوں کے سونے کا انتظار کرتے تھے اور پھر ملاقات کا بندو بست۔ گھر میں موجود فون بھی سب کی نظر میں رہتا تھآ اور باتن کرنا ہمیشہ ہی مشکل مہم ہوتی تھی۔ اب اس وقت وہ ضرور سوچتے ہونگے کہ اگر تھوڑا وقت پیچھے سرک کر یہ سب ہوجاتا تو وہ بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو لیتے۔
    ریاض شاہد صاحب، نیٹ کی ورچوئل دنیا تو کیا اتنی تسکین ہوجاتی ہے جسکے بعد یہ گانا آتا ہے کہ نہ جاءو سیان چھڑا کہ بیاں، قسم تمہاری ہے رو پڑیں گے۔
    راشد کامران صاحب، بجا فرمایا آپ نے، بڑا نقصان ہوا ارتقاء میں۔

    ReplyDelete
  6. یہ شائستگی والی خبرداری لگانے کی کیا ضرورت پیش آگئی؟
    بہرحال یہ دن ان دنوں میں سے ایک ہے جب مجھے آپ پر رشک آتا ہے۔۔۔

    ReplyDelete
  7. گرنی تھی ہم پہ برق تجلّی، نہ طور پر
    دیتے ہیں بادہ ظرفِ قدح خوار دیکھ کر

    ReplyDelete
  8. @ریاض شاھد
    اگر تو یہ تعریف ہے تو ہضم نہیں ہو رہی
    اور اگر طنز ہے تو بھی جذب نہیں ہو رہا
    میں ذرا ہاجمولا کھا لوں پہلے
    :D

    ReplyDelete
  9. جعفر،میں آپکے رشک کو ذرا ٹیڑھی نظر سے دیکھ رہی ہوں۔ ابھی دو دن پہلے ہی تو پوچھا تھا کہ ---------- ویسے رشک آنا چاہئیے کہ ان میں سے کچھ چیزیں میری یونیورسٹی دور کی یادیں ہیں۔ کیا قابل رشک زمانہ تھا۔

    ReplyDelete
  10. وہ دن "ان" دنوں میں سے نہیں تھا
    :D

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ