Thursday, March 4, 2010

رقیب سے

بارے کچھ اپنی تعلیمی قابلیت کا تذکرہ ہو جائے کہ اس سے اردو بلاگنگ کی دنیا میں کچھ لوگوں کو 'کچھ کچھ' ہوتا ہے۔ اور عالم یہ ہو گیا ہے کہ
ذکر میری پی ایچ ڈی کا، اور پھر بیاں انکا
بن گیا رقیب آخر تھا جو رازداں اپنا
تو ان سب رقیبوں کو نئے راستے دیتی ہوں۔ دل کے بہلانے کو کچھ نہ کچھ تبدیلی لاتے رہنا چاہئیے کہ یہ دل مانگے مور۔  اسکی وجہ یہ ہے کہ سب کے پاس جو اطلاعات ہیں وہ خاصی ادھوری ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ لوگ میری پی ایچ ڈی کو اپنے لئیے ایک تازیانہ سمجھتے ہیں۔ لیکن چونکہ یہ کارنامہ میں نے بلاگنگ کی دنیا میں آنے سے پہلے کیا تھآ اس لئے اس میں میرا قصور اتنا نہیں جتنا کہ لوگوں کی نیت میں فتور ہے۔
میں نے بیچلرز آنرز، کراچی یونیورسٹی سے کیا اور پھر وہیں سے نامیاتی کیمیاء میں ماسٹرز کیا۔ اور ابھی ہمارے ماسٹرز کا آخری سمسٹر ختم بھی نہ ہوا تھآ کہ یونیورسٹی میں واقع تھرڈ ورلڈ کے سینٹر آف ایکسیلینس کے اینٹرنس ٹیسٹ اور انٹرویو میں جا پہنچے۔ خدا کا کرنا یوں ہوا کہ دونوں مرحلوں سے بخیر و عافیت گذر گئے۔ اور بس ماسٹرز کے آخری پیپر کے بعد تمام تر مخالفتوں اور نا مساعد زمینی حالات  کے باجود ریسرچ شروع کر دی۔
پی ایچ ڈی کا مطلب ہے ڈاکٹر آف فلاسفی۔ اگر آپ اسکی تمام شرائط کو پورا کریں تو یہ محض ایک کاغذ کی ڈگری نہیں ہوتی بلکہ یہ آپکے روئیے، نظریات اور زندگی کی طرف دیکھنے کی صلاحیتوں میں واضح تبدیلیاں لے آتی ہے۔ اگر میں ماسٹرز کرنے کے بعد اس راہ پہ قدم نہ رکھتی تو آج کی نسبت بہت مختلف ہوتی۔ اسکی وجہ ریسرچ کے مطالبات ہیں۔۔ 
 چونکہ دراصل پی ایچ ڈی فلسفے کی طرف لیجاتی ہے جو اپنے ارد گرد کی دنیا کو عقل کی عینک سے دیکھنے کا نام ہے۔ اسکا بنیادی مقصد کسی انسان میں آزاد سوچ کو پیدا کرنا ہوتا ہے۔ ماسٹرز تک کی سطح پہ ہم ایک کورس پہ عمل کرتے ہیں اسی میں سے ہمارا امتحان ہوتا ہے۔ لیکن پی ایچ ڈی کی سطح پہ اس بات کی تربیت ہوتی ہے کہ ہم اپنے طور پہ مسائل پہ قابو پانے اور انکے حل کی طرف اپنی صلاحیتیں خود سے استعمال کرنے کے قابل ہوں اور اس سے بھی ایک قدم آگے کہ ہم مسائل کے پیدا ہونے سے قبل یہ کامیاب اندازہ لگانے کے قابل ہو جائیں کہ آنیوالے مسائل یہ ہونگے۔ انگریزی میں اسے ویژن کا پیدا ہونا کہتے ہیں۔ ویژن کا اردو ترجمہ مستقبل میں جھانکنے کی صلاحیت  کر سکتے ہیں۔ ایک زمانے میں جب اس طرح کی اسناد نہیں ہوتی تھیں لوگ اپنے تجربے، مشاہدے اور علم سے یہ قوت حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ یہ ایک مشکل بات ہوتی تھی کہ ہر شخص اپنے محدود ذرائع کی وجہ سے صحیح بات تک پہنچنے کے قابل نہ ہو پاتا تھا۔ وقت کے ساتھ آسانیاں آئیں، یونیورسٹیز کی صورت میں ان تمام طریق ہائے کو ایک جگہ کر دیا گیا۔ اور سکھانے کے طریقے نکالے گئے اور یوں اب اہل طلب کے لئے مشکلات پہلے سے کم ہیں۔
لیکن سیکھنے کا عمل اتنا ہی وقت لیتا ہے جتنا آج سے ہزار سال پہلے لیتا تھا۔ اب زندگی اس لئے مشکل ہو گئ کہ مجھے اپنے کسی تحقیقی مضمون پہ تحقیق کرتے وقت گذشتہ ہزار سال میں جو کچھ ہوا اسے بھِی نظر میں رکھنا پڑتا ہے ۔ جبکہ آج سے ہزرا سال پہلے کسی شخص کی الجھنیں یہ نہیں کچھ اور تھیں۔
 اب سائینسی سطح پہ پی ایچ ڈی کرنے کے دوران مختلف مرحلے ہوتے ہیں۔ پہلا مرحلہ ریسرچ پروجیکٹ تیار کرنا ہوتا ہے، اس میں ایک سپر وائزر یہ مدد کر سکتا ہے کہ وہ مختلف موضوعات بتا دے جسکے تحت اس ادارے میں سہولیات موجود ہوں اور وہ خود بھی اسے کرانے کی اہلیت رکھتا ہو۔ اس پروجیکٹ پہ کام کرنے سے پہلے یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ اب تک کی ریکارڈڈ تاریخ میں اس پہ کس نوعیت کا کام ہوا ہے۔ اس ساری تاریخ کو مختلف جرنلز سے کھنگالا جاتا ہے اور اس مِں ذرا سی غلطی یا صرف نظر کی گنجائش نہیں ہوتی کیونکہ اس صورت میں آپکا کام نقل کہلائے گا اور کوئ بھی اچھا ادارہ اس پہ یہ سند نہیں دیگا۔
 دوسرے مرحلے پہ اس تمام پروجیکٹ کو تجرباتی سطح پہ کر کے ایسے نتیجے نکالنے ہوتے ہیں جو آپ سے پہلے کبھی کسی نے نہ نکالے ہوں، آپکا نتیجہ بالکل نیا نکور ہونا چاہئیے۔ تیسرے مرحلے پہ آپ ان تمام نتائج کو جو آپ نے اخذ کئے ہوتے ہیں انکے لئیے دلیلیں تلاش کرنی ہوتی ہیں اور ان پہ جو کام پہلے کیا گیا تھا۔ چاہے وہ سو سال پہلے ہی کیوں نہ کیا گیا ہو۔ اپنی دلیلی کو ان تمام نتائج کی رو سے ثابت کرنا ہوتا ہے۔ اچھا، یہ تمام کام تو چلتا رہتا ہے۔ لیکن اسکے ساتھ ہی ساتھ کورسز ہوتے ہیں اور انکے امتحانات بھی جنہیں پاس کرنا ضروری ہوتا ہے تاکہ نظریات طور پہ بھی اپنے میدان کے علاوہ بھی باقی چیزوں کی معلومات رہے۔ وہ تمام نتائج جو آپ نے انپے تجربات کے دوران حاصل کئے انہیں چھوٹے چھوٹے تحقیقی مضامین کی شکل میں شائع کرانا ضروری ہوتا ہے۔ ان مضامین کو تحقیقی مقالہ کہتے ہیں۔ ان مقالوں میں  کسی نئ معلومات کو بیان کیا جاتا ہے، اسکے ثبوت اور اس پہ موجود حقائق کی داستان دی جاتی ہے۔ کسی بھی سائینسی جریدے میں چھپنے سے پہلے انکا تفصیلی مطالعہ ریفریز کرتے ہیں۔ جہاں سے میں نے پی ایچ ڈی کیا تھا۔ وہاں کی شرط غیر ملکی سائینسی جریدے تھے۔ انکے ریفریز بھی غیر ملکی ہوتے ہیں ایک پی ایچ ڈی کے لئیے کم سے کم شائع ہونے والےتحقیقی مقالوں کی تعداد مقرر ہوتی ہے۔
اسکے ساتھ ہی ساتھ، ہر پی ایچ ڈی کرنے والے کو اپنی تمام تربیت کے دوران سیمینارز کی ایک مخصوص تعداد دینی ہوتی ہے۔  جس میں تمام فیکلٹی اور ادارے کے تمام طالب علم اور اگر باہر سے کوئ مہمان سائنسداں موجود ہو سب شریک ہوتے ہیں اور ہر ایک سوال کرنے کا حق رکھتا ہے جسکا تشفی جواب دینا ضروری ہوتا ہے۔ ہر سیمینار کی طوالت ایک گھنٹہ ہوتی ہے۔ اسکی تیاری کسی طرح ایک تحقیقی مقالے سے کم نہیں ہوتی البتہ اس میں آپکی کوئ نئ تحقیق نہیں بلکہ پرانے کام کو استعمال کیا گیا ہوتا ہے۔ پرانے کام سے میری مراد  وہ کام ہے جو تحریری سطح پہ  دنیا میں کہیں بھی موجود ہے۔
اسکے علاوہ گروپ میٹنگز اور گروپ ڈسکشنز ہر ہفتے ہوتے ہیں، کانفرنسز میں شرکت اور ورکشاپس میں تربیت بھی شامل ہیں۔ اگر ہم باہر کے کسی سائنسداں کے ساتھ مل کر کسی پروجیکٹ پہ کام کر رہے ہوں تو اسے بھی رپورٹ دینی ہوتی ہے۔ اور اپنے روزانہ کے کام کی رپورٹ بھی تیار کرنا ہوتی ہے۔
پی ایچ ڈی کے آخری مرحلے میں ایک پینل کے سامنے آپ نے جو کچھ دوران پی ایچ ڈی کیا اسکا دفاع کرنا ہوتا ہے۔ اسکا ایک اور اہم مرحلہ، اپنے تمام نتائج اس پہ گفتگو، اسکی پچھلی تاریخ اور اسے تیار کرنے کے لئیے جتنے بھی حوالے آپ نے استعمال کئیے، جنکی تعداد کءی سو تک جا پہنچتی ہے سب اس تھیسس میں جمع کرنے ہوتے ہیں۔  جس پہ سند ملتی ہے۔
یہ تھیسس ، اس ادارے سے جہاں سے میں نے پی ایچ ڈی کیا وہاں سے پاکستان سے باہر کسی بھی کیمسٹری کے اعلی ادارے میں کام کرنے والے  دو مختلف تحقیق دانوں کو بھیجا جاتا ہے جو اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ تحریر اس قابل ہے کہ اس کو پی ایچ ڈی کی سند دی جا سکے۔
 تو محترم قارئین، چاول کے دانے پہ تحریر لکھنے والا یقیناً بہت بڑا آرٹسٹ ہے، میرے کمپیوٹر کے ہارڈ وئیر پہ کام کرنے والا اپنے کام کا بے حد ماہر ہے، حتی کہ وہ میکینک جس  سے میں اپنی گاڑی صحیح کراتی ہوں وہ اس سلسلے میں مجھ سے کہیں زیادہ بہتر معلومات رکھتا ہے، شیف ذاکر مجھ سے اچھا کھانا پکاتے ہونگے، طاہرہ سید، مجھ سے اچھا گا تی ہیں ۔ ریما مجھ سے کہیں بہتر ڈانس کر سکتی ہیں۔  ایشوریا رائے مجھ سے زیادہ خوبصورت ہے۔ لیکن ان سب نے وہ نہیں کیا جو میں نے کیا ہے۔ 
مزے کی بات یہ ہے کہ میں تو کسی پہ اپنا علم جتاتی بھی نہیں نہ کسی بھی شخص کے بارے میں یہ جاننے کی کوشش کرتی ہوں کہ اسکی تعلیمی استطاعت کیا ہے۔ آج تک میں نے کسی کے بلاگ پہ اسکا پروفائل نہیں چیک کیا۔ میں تو لوگوں کو انکے لکھے ہوئے سے سمجھنے کی کوشش کرتی ہوں۔  اب کسی کا اس بات پہ اپنا دل جلانے کا کیا فائدہ۔ کیا فائدہ کہ آپ ہر وقت اس چیز پہ اپنی انگلیاں تھکاتے رہیں کہ دراصل پی ایچ ڈی کی کوئ اہمیت نہیں اور اس چیز کی اہمیت ہے اور اس چیز کی ہے۔ اس سے صرف ایک بات مجھے پتہ چلتی ہے اور وہ یہ کہ آپ کو اپنے اوپر اعتماد نہیں۔  ایسا کہنے والا مجھے اس ٹین ایجر بچے کی طرح لگتا ہے جو اپنے ارد گرد کی دنیا سے ہر صورت بغاوت کرنا چاہتا ہے۔ بغیر اپنی صلاحیتوں کو آزمائے۔
آپ میری بیان کی ہوئ کسی چیز میں غلطی نکالنا چاہتے ہیں بصد شوق۔ مگر میری پی ایچ ڈی پہ تبرہ بھیجنے سے آپکے الفاظ کی اہمیت میں کوئ اضافہ نہیں ہوگا۔ اگر آپ میری کسی دی ہوئ معلومات کو غلط ثابت کرنا چاہتے ہیں تو کسی مستند لکھنے والے کا حوالہ دیجئیے اور پھر اپنی بات کریں۔ میری پی ایچ ڈی کی تربیت مجھ سے یہی کہتی ہے۔ کسی سنی سنائ بات پہ یقین نہ کریں جب تک اسے ایسے تجربے کی کسوٹی پہ پرکھ نہ لیں جوکوئ دوسرا کرے تو اسے بھی وہی نتیجہ ملے جو آپکو ملا ہے۔ یا اگر ایسا نہ کر سکیں تو کسی مستند ذریعے سے اسکی تصدیق نہ کر لیں۔ اور یہ مستند ذریعہ لکھے ہوئے الفاظ ہوتے ہیں۔ اس لئیے ہم اپنی مذہبی کتاب کو اتنی اہمیت دیتے ہیں۔ اب اعتماد سے بات کرنی ہے تو یہی طریقہ لگانا ہوگا۔ ورنہ دوسری صورت یہی ہوگی کہ آپ کسی کی علمی قابلیت کے بارے میں جان لیں گے تو اپنی سطح بلند کرنے کے بجائے اس میں خامیاں نکالتے رہیں گے۔ جو لوگ اپنی عمر گذار چکے انہیں چھوڑ کر باقی سب  تو ابھی عمر کے اس حصے میں ہیں جہاں انہیں ہر لحظہ کچھ نئے کی امنگ سے بھرا رہنا چاہئیے۔ پھر یہ رویہ کیوں؟
میری باتوں پہ آپکا عمل کرنا بالکل ضروری نہیں۔ کیونکہ آپ  کہہ  سکتے ہیں کہ  آپکی بات پہ کیوں عمل کیا جائے آپ تو کتاب لئیے گھڑے میں بٹھی ہیں اور لوگ بالائ چاٹ چاٹ کرایک گھڑے سے نکل کر دوسرے میں جا چکے ہیں۔

17 comments:

  1. اب کسی کا اس بات پہ اپنا دل جلانے کا کیا فائدہ۔ کیا فائدہ کہ آپ ہر وقت اس چیز پہ اپنی انگلیاں تھکاتے رہیں کہ دراصل پی ایچ ڈی کی کوئ اہمیت نہیں
    اس چیز کی اہمیت ہے اور اس چیز کی ہے۔

    زبردست فقرہ ہے سارا نچوڑ اسميں ہے مجھے تو ميٹھا لگ رہا ہے عبداللہ کے علاوہ باقی مرد حضرات کو خاصا کھٹا لگے گا اور پھر سر دھڑ کی بازی لگائيں گے ان پڑھ عورت کو سپيرير ثابت کرنے کے ليے ربيع الاول کے مہينے ميں مجھے چلہ کاٹنا پڑے گا ان سب کو راہ راست پر لانے کے ليے

    ReplyDelete
  2. اچھا پرسنل بات بتائيں آپ ٹنيور ٹريک سسٹم سے تنخواہ لے رہی ہيں يا پرانے سے اور ٹنيور ٹريک واقعی ورکنگ ہے يا سننے کی حد تک ہے

    ReplyDelete
  3. اسماء یہ ہر بات میں عورت مرد کی بحث لانے سے اب کچھ بوریت نہیں ہوجاتی۔۔۔ کیا خیال ہے؟؟؟

    ReplyDelete
  4. کچھ لوگوں کے لیئے ایک انگریزی مثال ہے نا،جیک آف آل ماسٹر آف نن،
    ہوتے ہیں کچھ لوگ جو یہ سوچ کر ہر معاملے میں بولتے رہتے ہیں کہ وہ جو خود کو عقل کل اور آئی ایم دی موسٹ پرفیکٹ مین آن دی پلینٹ ارتھ ظاہر کر کے دوسروں کو احساس کمتری دینے کی کوشش کرتے رہے ہیں نہ بولے تو کہیں دنیا ان کے دعووں کو تسلیم کرنے سے انکار ہی نہ کردے،
    یہ قول کہ جن باتوں کا علم نہ ہو ان پر منہ کھول کر اپنی بے وقوفی کو دنیا پر ظاہر نہ کرو،ان کی نظروں سے گزرا جو نہیں ہوتا
    اور گھڑے کے مینڈکوں کی دنیا گھڑا ہی ہوتی ہے وہ بھی مجبور ہیں،سو ان سب طرح کے لوگوں سے ملکر دنیا بنی ہے !

    ReplyDelete
  5. مجھے پتہ نہیں کیوں ایسا یقین ہے کہ یہ ڈنڈے مجھ پر ہی برسائے گئے ہیں
    اور اگر ہاں تو جی مجھے بڑی شرمندگی ہے کہ میں یقینااپنی بات اچھی طرح نہیں کہہ سکا
    میرے آپ کی تحقیق سے متعلق کلمات ہمیشہ ہی تحسین کے لئے کہے گئے ہیں مزید صفائی میرے بس کی بات نہیں
    باقی تو جی دلوں کا حال اللہ جانتا ہے
    اور اگر یہ میرے بارے میں نہیں ہے تو جی اس تحریر میں میرے لئے تو کچھ نیا نہیں
    اور آپ چاہیں تو ایک اور پوسٹ کا میٹیریل اس تبصرے سے نکل جائے گا کہ حکیم صاحب بلاگ لکحتے ہیں تو سارے ان کو حکیم صاحب ہی سمجھتے ہیں
    اور ڈاکتر صاحب بلاگتے ہین تو ان کے بلاگ پر بھی ان کی ڈاکٹری کا ذکر ہوتا ہی ہے
    اگر کسی (جو کہ میں ہی ہوں گا) نے آپ کی داکٹری سے متعلق بھی کوئی بات کر دی ہے تو اس کو اتنا سیریس نہین لینا چاہئے
    :)

    ReplyDelete
  6. زير بحث موضوع ہے کہ عنيقہ کی پی ايچ ڈی لوگوں کے گلے ميں کيوں پھنسی ہوئی ہے اب اگر اسپر غور کيا جائے تو ميرے خيال سے کسی خاتون بلاگر يا تبصرہ نگار نے آج تک انکی پی ايچ ڈی کو ميلی نظروں سے نہيں ديکھا مرد حضرات طنز کرتے رہتے ہيں اور وہ بھی صرف عنيقہ پر ورنہ ڈاکٹر تو ادھر مرد حضرات بھی موجود ہيں اب يہ مرد اور عورت کی بحث ہے يا نہيں جعفر صاحب صبح نہار منہ بتائيے گا ابھی آپ کافی تھکے ہوئے لگتے ہيں

    ReplyDelete
  7. مجھے تو قتل کر ڈالا قلم کی دھار نے لوگو!

    ویسے اگلی ایک پوسٹ میں رقیبوں کی علمی قابلیت پر بھی روشنی ڈالی جائے

    ReplyDelete
  8. چھوڑیں بھی کس چکر میں پڑ گئیں آپ ۔

    ReplyDelete
  9. اسی لیے کبھی کبھی اپ نیانی سی لگتی هیں اور کبھی سیانی سی
    لیکن میرا تجربه ہے که زیادھ تعلیم یافته خواتین مردوں کو تنگ بھی زیادھ کرتی هیں
    جیسے که میری جاپانی بیوی
    انجنئر هے اور پته نہین که کون کون سے سندیں اور لائیسنس لیے هوئے هیں
    ڈرائونگ میں بھی ھیوی ڈیوٹی موٹر سائیکل
    اور ٹرک ٹریلر
    لیکن ساری زندگی اس بات میں گزر رهی ہے که میں سیانی هوں اور تم کم عقل
    اور میں هوں که گھر کے امن کو بچانے کے لیے

    ReplyDelete
  10. اس میں پاکستانی مرد کی جاہلانہ سوچ کا عمل دخل بھی ہے جو باوجود پڑھا لکھا ہونے کے عورت کی قابلیت کو گرداننا نہیں چاہتا۔ خود اعتماد پڑھی لکھی کامیاب خواتین ان کی مردانگی کو طعنہ معلوم ہوتی ہیں۔ انہیں یہ لگتا ہے کہ خواتین انہیں کم عقل بیوقوف اور جاہل کہہ رہی ہیں۔ حال

    اس کا اظہار آپ خاور کے تبصرے میں دیکھ سکتی ہیں۔

    لیکن اس سے بھی زیادہ دخل اس بات کا ہے کہ پاکستانی معاشرے کے چند حصوں میں تعلیم خاص طور پر ایسی تعلیم جو فکر کے در وا کرتی ہو اور سوال کرنے کی قابلیت پیدا کرتی ہو۔ اسے سخت ناپسند کیا جاتا ہے۔ آپ سوال اور اعتراض کرتی ہیں، تو مجرم ٹہری ہیں

    سوال نہ کیا کریں، اور ان کی اوٹ پٹانگ باتوں پر واہ جی واہ تسی گریٹ ہو کہہ دیا کریں۔ پھر دیکھیں آپ ہی کو علامہ اقبال کی جانیشن قرار دے دیا جائیگا۔ خاص طور پر اس بات کی توقع نہ کیا کریں کہ بات دلیل تک محدود رہے گی۔  


    بے چاروں کا اتنا مطالعہ ہوتا ہے نہ مشاہدہ دلائل تین تبصروں کے بعد ختم ہوجاتی ہیں پھر الزام تراشی اور کردارکشی شروع ہوجاتی ہے۔

    ReplyDelete
  11. This comment has been removed by the author.

    ReplyDelete
  12. خور کھوکھر یہ شعرآپکے بھی کام آسکتا ہے،اور ان لوگوں کے بھی جن کی بیویاں پڑھی لکھی ہیں اور وہ ان کی عالمیت سے تنگ ہیں،:)
    تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
    یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیئے
    ویسے جب کسی اپنے سے ذیادہ پڑھے لکھے مرد سے آپ کا واسطہ پڑتا ہے تو جو رویہ وہاں ہوتا ہے آپکا وہی بیوی کے ساتھ بھی رکھیں تو مشکل نہ ہوگی!
    گھر کے امن کو بچانے کے لیئے یا کچھ چھپانے کے لیئے،
    :wink:

    ReplyDelete
  13. PHD = Phira Huwa Dimag

    ReplyDelete
  14. This comment has been removed by the author.

    ReplyDelete
  15. یہ ہم مانتے ہیں کہ ٓپ پڑھی لکھی سگھڑ ذھین سمجھدار ہیں اس پوسٹ سے یہ بھی پتا چلا کہ ٓپ کافی حساس طبعیت کی مالک بھی ہیں ۔
    چھوڑو کل کی باتیں کل کی بات پرانی نءے دور کی لکھیں گے ہم مل کر نءی کہانی ہم ہیں پاکستانی

    ReplyDelete
  16. اسماء، اس وقت نہ مین ٹینیور پہ ہوں نہ ٹریک پہ۔ لیکن میں تو ٹینیور ٹریک کے حامیوں میں سے ہوں۔ بڑھاپے میں پینشن لینے کا کیا فائدہ۔ پیسے انسان کے پاس اس وقت ہونے چاہئیں جب وہ کچھ کرنے کی امنگ رکھتا ہے۔
    ڈفر، ان باتوں کا آپ ست کوئ تعلق نہیں۔ آپکو بری کیا جاتا ہے۔ چونکہ میرا بلاگ تو ایک عام شخص کا بلاگ ہے اور تمام عام لوگوں کے لئیے ہے۔ کیمسٹری پہ کچھ لکھنا ہوگا تو اسکے لئیے علیحدہ بلاگ بناءونگی۔
    خاور صاحب، یہ ایک بالک علیحدہ موضوع ہے ۔ اپنے زیادہ پڑھی لکھی بیوی سے شوہر کو کیا مسائل ہوتے ہیں۔ اچھی خبر یہ ہے کہ میرے گھر میں امن اوسط سے زیادہ رہتا ہے۔ اس میں ہم دونوں کی ہم آہنگی زیادہ شامل ہے۔
    گمنام، یہ ہمارے یہاں ایک مشہور نعرہ تھا کہ جب تک دماگ نہ پھرے پی ایچ ڈی نہیں ہو سکتی اور اگر پہلے سے پھرا ہوا ہے تو کرنے کی ضرورت نہیں۔ آپ اطمینان رکھیں۔ میں اس دنیا میں رہتی ہوں جہاں سے آپکا تعلق ہے۔
    اور کنفیوز کامی، پی ایچ ڈی کرنے کے گوران جتنے مصائب سے گذرنا پڑا، اس میں حساسیت تو کہیں غائب ہی ہو گئ۔ یہ تو ای بوریت کا نتیجہ ہے جو ہر تھوڑے دن بعد دیکھنے کو ملتی ہے۔ ایک کے بعد ایک جیسے اس وقت آخری دفعہ، ایک بلاگ فلسفہ اور فلسفی پڑھ کر ہوا۔ یہ صاحب، جب بھی لکھتے ہیں بس یہی لکھتے ہیں۔ اور پھر اسکے بعد جو لکھتے ہیں وہ بالکل غلط ہوتا ہے۔ میں بور ہوچکی ہوں۔آپ جو لکھنا چاہتے ہیں لکھیں۔ میں تو کسی کو یہ نہیں لکھ رہی کہ فلاں انجینئیر ہے پھر بھی یہ کہتا ہے۔ مگر خدا جانے کب سمجھیں گے۔
    میں کچھ منوانا نہیں چاہتی۔ میں پاکستانی معاشرے کی ایک آواز ہوں، اپنی رائے رکھتی ہوں اسکا اظہار کرنا چاہتی ہوں اور ان سب چیزوں پہ لکھنے سے پہلے بہت ذرائع علم کو ایک نظر ضرور دیکھتی ہوں اور ایسا کبھی نہیں کرتی کہ محض اپنی علامیت پہ لکھتی چلی جاءووں۔ دنیا بہت بڑی ہے۔ میں سب حاصل کرنا چاہوں تو بھی نہیں کر سکتی، زندگی اسکے لئیے بہت چھوٹی ہے۔
    تو میرا مقصد کبھ بھی اپنی بات منوانا نہیں رہا۔میرا مقصد صرف اپنی بات پہنچانا رہا ہے۔
    نومان، میرے لئیے لوگوں کا یہ رویہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ لیکن خیر، انہیں عادت تو ڈالنی ہی پڑے گی۔ ابھی تو بہت لکھنے والے آئیں گے۔ منظر ایکدم تبدیل ہو جائے گا۔ پھر وہ کیا کریں گے۔
    سعد، رقیبوں کی علمیت کو کھنگالتی پوں اتنا وقت نہیں ہے۔ بہتر یہ ہے کہ جو کچھ کام کے کام کر گئے ہیں ان پہ وقت لگاءووں۔ انکے خیالات سے آگاہ رہتی ہوں یہی کافی ہے۔
    ریاض شاہد صاحب، اس موضوع پہ دوسرے بلاگز پہ بارہا لکھنے کے بعد سوچا کہ اپنے بلاگ پہ بھی کچھ لکھ دینا چاہئیے تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔

    ReplyDelete
  17. یہ پیراگراف سارے مضمون کا ست ہے

    " تو محترم قارئین، چاول کے دانے پہ تحریر لکھنے والا یقیناً بہت بڑا آرٹسٹ ہے، میرے کمپیوٹر کے ہارڈ وئیر پہ کام کرنے والا اپنے کام کا بے حد ماہر ہے، حتی کہ وہ میکینک جس سے میں اپنی گاڑی صحیح کراتی ہوں وہ اس سلسلے میں مجھ سے کہیں زیادہ بہتر معلومات رکھتا ہے، شیف ذاکر مجھ سے اچھا کھانا پکاتے ہونگے، طاہرہ سید، مجھ سے اچھا گا تی ہیں ۔ ریما مجھ سے کہیں بہتر ڈانس کر سکتی ہیں۔ ایشوریا رائے مجھ سے زیادہ خوبصورت ہے۔ "

    ReplyDelete

آپ اپنے تبصرے انگریزی میں بھی لکھ سکتے ہیں۔
جس طرح بلاگر کا تبصرہ نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں، اسی طرح تبصرہ نگار کا بھی بلاگر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ اس لئے اپنے خیال کا اظہار کریں تاکہ ہم تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ سکیں۔
اطمینان رکھیں اگر آپکے تبصرے میں فحش الفاظ یعنی دیسی گالیاں استعمال نہیں کی گئ ہیں تو یہ تبصرہ ضرور شائع ہوگا۔ تبصرہ نہ آنے کی وجہ کوئ ٹیکنیکل خرابی ہوگی۔ وہی تبصرہ دوبارہ بھیجنے کی کوشش کریں۔
شکریہ